کتاب وسنت کی اتباع کیوں ضروری ہے ؟
اہم عناصرِ خطبہ :
01. بنو آدم کو اللہ کی ’ہدایت ‘ پر عمل پیرا ہونے کا حکم
02.’ ہدایت ‘ کیا ہے ؟
03. صرف قرآن وسنت ہی کی اتباع کیوں ؟
04. فہمِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی اہمیت
05. کتاب وسنت کو پڑھنا اور ان میں غور وفکر کرنا
06. بعض غلط نظریات اور ان کا رد
پہلا خطبہ
محترم حضرات !
اللہ رب العزت نے جب حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی حواء علیہا السلام کو جنت سے زمین پر اتارا تو ان کیلئے اور قیامت تک آنے والی ان کی اولاد کیلئے ایک نظام زندگی متعین کردیا ۔ اور یہ فیصلہ کردیا کہ بنو آدم میں سے جو اس کے وضع کردہ نظام کی پابندی کرے گا و ہ کامران وکامیاب ہو گا اور جو اس کی خلاف ورزی کرے گا وہ جہنم میں جائے گا ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ﴿ قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ٭ وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ﴾ [البقرۃ :39]
’’ پھر اگر میری طرف سے تمھارے پاس ہدایت آئے تو جو کوئی میری ہدایت کی اتباع کرے گا تو ایسے لوگوں کو کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہونگے ۔ اور جو انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے تو وہی اہل جہنم ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔ ‘‘
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا : ﴿ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَ لَا یَشْقٰی ٭ وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّ نَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰی ٭ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْٓ اَعْمٰی وَ قَدْ کُنْتُ بَصِیْرًا ٭ قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتْکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَھَا وَ کَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسٰی﴾ [طہ :۱۲۳۔ ۱۲۶]
’’ پھر اگر تمھارے پاس میری ہدایت آئے تو جو کئی میری ہدایت کی اتباع کرے گا وہ نہ تو گمراہ ہو گا اور نہ تکلیف اٹھائے گا ۔ اور جو شخص میری یاد سے منہ موڑے گا تو اس کی زندگی تنگ ہو جائے گی اور ہم اسے قیامت کے روزاندھا کرکے اٹھائیں گے۔ وہ پوچھے گا : اے میرے رب ! تو نے مجھے نابینا بنا کر کیوں اٹھایا حالانکہ میں توبینا تھا ؟ اﷲ تعالیٰ جواب دے گا : اسی طرح ہونا چاہئے تھا کیونکہ تمہارے پاس ہماری آیات آئی تھیں لیکن تم نے انہیں بھلا دیا تھا۔ اسی طرح آج تمہیں بھی بھلا دیا جائے گا ۔‘‘
ان دونو ں مقامات پر اللہ تعالی نے اِس بات سے آگاہ کیا ہے کہ اُس نے ابتدائے آفرینش سے ہی تمام انسانوں کیلئے یہ فیصلہ کردیا تھا کہ اگر وہ اس کی طرف سے آنے والی ’ ہدایت‘ کی اتباع کریں گے تو بے خوف وخطر زندگی گزاریں گے اور گمراہی اور بدبختی سے بچ جائیں گے ۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کریں گے ۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی طرف سے آنے والی ’ ہدایت ‘ کا انکار کریں گے تو دنیا میں ان کی زندگی تنگ ہوجائے گی ، مشکلات اور مصیبتیں انھیں چاروں طرف سے گھیر لیں گی اور انھیں چین وسکون نصیب نہیں ہو گا ۔ اور جب قیامت کا دن قائم ہو گا تو انھیں اندھا کر کے اٹھایا جائے گا ۔ وہ پوچھیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیوں جا رہا ہے ؟ ہم دنیا میں تو دیکھتے تھے ، آج کیوں اندھا کردیا گیا ؟ تو اللہ تعالی جواب دیں گے کہ تمھارے پاس ہمارا دین آیا تھا لیکن تم نے اسے پس پشت ڈال دیا اور اس سے روگردانی کرتے ہوئے من مانی زندگی گزاری ! تم نے ہماری طرف سے آنے والی ’ ہدایت ‘ اور ہمارے احکامات کی کوئی پروا نہ کی ، اس لئے آج ہمیں بھی تمھاری کوئی پروا نہیں ہے ۔ پھر انھیں جہنم رسید کردیا جائے گا ۔ والعیاذ باللہ
اب سوال یہ ہے کہ ہمارے لئے اللہ تعالی کی وہ ’ ہدایت ‘ کونسی ہے جس کی ہمیں پیروی کرنی ہے ؟ آئیے اِس کا جواب قرآن مجید سے ہی ڈھونڈتے ہیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اَللّٰہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَابًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوبُہُمْ إِلَی ذِکْرِ اللّٰہِ ذَلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہْدِیْ بِہِ مَنْ یَّشَآئُ وَمَن یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہُمِنْ ہَادٍ ﴾ [ الزمر : ۲۳ ]
’’ اللہ تعالی نے بہترین کلام نازل کیا جو ایسی کتاب ہے کہ اس کے مضامین ملتے جلتے اور بار بار دہرائے جاتے ہیں ۔ اس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ۔ پھر ان کی جلد اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہوتے ہیں ۔ یہی اللہ کی ’ ہدایت ‘ہے جس کے ذریعے اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ۔ اور جس کو اللہ گمراہ کرے تواسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ۔ ‘‘
اِس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے اپنے بہترین کلام کوجس کو سن کر اس سے ڈرنے والے لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ، ہدایت قرار دیا ہے ۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید ہمارے لئے اللہ تعالی کی ’ہدایت ‘ ہے ۔
اسی طرح اللہ تعالی واضح طور پر ارشاد فرماتا ہے کہ ﴿ اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَقُصُّ عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اَکْثَرَ الَّذِیْ ھُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ ٭ وَ اِنَّہٗ لَھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤمِنِیْنَ ﴾ [ النمل : ۷۶ ۔ ۷۷]
’’بلا شبہ یہ قرآن بنو اسرائیل پر اکثر وہ باتیں بیان کرتا ہے جن میں وہ اختلاف رکھتے ہیں ۔ اور بلا شبہ یہ مومنوں کیلئے ’ہدایت ‘ اور رحمت ہے ۔ ‘‘
ایک اور آیت میں قرآن مجید کو متقین کیلئے ’ ہدایت ‘ قرار دیا ۔
فرمایا :﴿ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۲ ]
’’ یہ کتاب ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اس میں متقین کیلئے ’ہدایت ‘ ہے ۔ ‘‘
ایک اور مقام پر قرآن مجیدکو تمام لوگوں کیلئے ہدایت قرار دیا۔ فرمایا :
﴿شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَ الْفُرْقَانِ ﴾ [البقرۃ : ۱۸۵]
’’رمضان وہ مہینہ ہے کہ جس میں قرآن نازل کیا گیا ، جو تمام لوگوں کیلئے ’ہدایت ‘ہے اور اس میں ہدایت کے اور حق وباطل میں امتیاز کرنے والے واضح دلائل ہیں ۔ ‘‘
قرآن مجید کیسے کتابِ ہدایت ہے ؟ اِس کی مزید وضاحت اللہ تعالی یوں فرماتا ہے :
﴿ قَدْ جَائَ کُم مِّنَ اللّٰہِ نُورٌ وَّکِتَابٌ مُّبِیْنٌ٭ یَہْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہُ سُبُلَ السَّلاَمِ وَیُخْرِجُہُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِہِ وَیَہْدِیْہِمْ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ [ المائدۃ : ۱۵۔ ۱۶ ]
’’ تمھارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور ( ایسی ) واضح کتاب آ چکی ہے جس کے ذریعے اللہ تعالی ان لوگوں کو سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت دیتا ہے جو اس کی رضا کی اتباع کرتے ہیں ۔ اور اپنے حکم سے اندھیروں
سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے ۔ اور صراط مستقیم کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے ۔ ‘‘
ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے ذریعے اللہ تعالی اپنی رضا کے طلبگاروں کو سلامتی کے راستے دکھلاتا اور انھیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا اور صراط مستقیم کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے ۔
اسی طرح باری تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوا وَاذْکُرُوا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَائً فَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَانًا وَکُنتُمْ عَلَی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ ﴾ [ آل عمران : ۱۰۳]
’’تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں مت بٹو ۔ اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ، پھر اس نے تمھارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے ۔ اور( یاد کرو جب ) تم جہنم کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے تو اس نے تمھیں اس سے بچا لیا ۔ اسی طرح اللہ تعالی تمھارے لئے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ ۔‘‘
اِس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے تمام اہل ِ ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ سب مل کر اس کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور فرقوں میں مت تقسیم ہوں ۔ پھر اس آیت کے آخر میں فرمایا کہ وہ اپنی آیات کو کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم ’ہدایت ‘ پا جاؤ ۔ اِس سے ثابت ہوا کہ اللہ کی آیات ہی در اصل اللہ کی رسی ہیں جو اہل ِ ایمان کیلئے باعث ہدایت ہیں ۔
’ اللہ کی رسی ‘ کی مزید وضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے ہوتی ہے ، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( أَلَا أَیُّہَا النَّاسُ ! فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ یُوشِکُ أَن یَّأْتِیَ رَسُولُ رَبِّی فَأُجِیْب ، وَأَنَا تَارِکٌ فِیْکُمْ ثَقَلَیْنِ ، أَوَّلُہُمَا کِتَابُ اللّٰہِ فِیْہِ الْہُدَی وَالنُّورُ ، فَخُذُوْا بِکِتَابِ اللّٰہِ وَاسْتَمْسِکُوْا بِہِ ۔۔۔۔)
’’ خبر دار لوگو ! میں ایک انسان ہوں اور عین ممکن ہے کہ میرے پاس میرے رب کا پیغمبر ( موت کا فرشتہ ) آجائے اور میں قبول کر لوں ۔ اور میں تم میں دو بہت ہی بھاری چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ۔ ان میں سے پہلی اللہ کی کتاب ہے جس میں ’ ہدایت ‘ اور روشنی ہے ۔ لہذا تم اللہ کی کتاب کو پکڑ لو اور اسے مضبوطی سے تھام لو ۔۔۔ ‘‘
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : (أَلَا وَإِنِّی تَارِکٌ فِیْکُمْ ثَقَلَیْنِ ، أَحَدُہُمَا کِتَابُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ہُوَ حَبْلُ اللّٰہِ ، مَنِ اتَّبَعَہُ کَانَ عَلَی الْہُدَی وَمَنْ َترَکَہُ کَانَ عَلٰی ضَلَالَۃٍ ) [ مسلم : ۲۴۰۸]
’’ خبر دار ! میں تم میں دو بہت ہی بھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ، ان میں سے پہلی کتاب اللہ ہے جو اللہ کی رسی ہے ۔ جو اس کی اتباع کرے گا وہ ’ ہدایت ‘ پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہی پر ہوگا ۔ ‘‘
اوریہ بات تمام اہلِ ایمان جانتے ہیں کہ سنت ِ رسول قرآن سے جدا نہیں ہو سکتی اور قرآن مجید کو سنت کے بغیر سمجھا نہیں جا سکتا ۔ اسی لئے اللہ تعالی نے اپنی اسی کتاب میں ہی واضح طور پر حکم دے دیا کہ
﴿ وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ﴾ [ الحشر59 : ۷]
’’ اور جو کچھ تمھیں رسول دیں وہ لے لو اور جس سے روکیں اس سے رک جاؤ ۔ ‘‘
نیز فرمایا : ﴿ قُلْ اَطِیعُوا اللّٰہَ وَاَطِیعُوا الرَّسُوْلَ فَاِِنْ تَوَلَّوا فَاِِنَّمَا عَلَیْہِ مَّا حُمِّلَ وَعَلَیْکُمْ مَا حُمِّلْتُمْ وَاِِنْ تُطِیعُوْہُ تَہْتَدُوْا وَمَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ ﴾ [النور: 45:24
’’ کہہ دیجئے کہ تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو ۔ پس اگر تم لوگ روگردانی کروگے تو رسول کی ذمہ داری تو وہی ہے جو ان پر ڈالی گئی ہے ( یعنی تبلیغ کرنا ) اور تمھارے اوپر وہ چیز لازم ہے جو تمھاری ذمہ داری ہے ( یعنی قبول کرنا ) ۔ اور اگر تم اس کی اطاعت کرو گے تو ’ہدایت ‘ پا جاؤ گے ۔ اور رسول کے ذمے تو واضح طور پر پہنچا دینا ہی ہے ۔ ‘‘
اِس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے بالکل واضح کردیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے سے اہل ِ ایمان ’ہدایت ‘پا سکتے ہیں ۔
سامعین کرام ! اب تک ہم نے جو گفتگو کی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ’ ہدایت‘ جس کی اتباع کرنے کا اللہ تعالی نے بنو آدم کو حکم دیا ، وہ ہمارے لئے قرآن وسنت ہی ہے ۔ قرآن مجید کو اللہ تعالی نے بھی ’ ہدایت ‘ قرار دیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ’ہدایت ‘ قرار دیا ۔ اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی فرمانبرداری کو بھی اللہ تعالی نے اہل ِ ایمان کیلئے باعث ہدایت قرار دیا ۔ لہذا اہل ِ ایمان کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ قرآن وسنت ہی کی اتباع کریں ۔۔۔ قرآن وسنت ہی کو اپنے گلے کا ہار بنائیں ۔۔۔۔ قرآن وسنت ہی کو اپنا دستورِ حیات سمجھیں ۔۔۔۔ اور قرآن وسنت ہی میں زندگی میں پیش آنے والے تمام امور اور مسائل کا حل ڈھونڈیں ۔
صرف کتاب وسنت ہی کی اتباع کیوں ؟
مسلمانو ! صرف کتاب وسنت کی اتباع کی کئی وجوہات ہیں :
01. پہلی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں صرف اپنی ’وحی ‘ کی اتباع کرنے اور اس کے علاوہ باقی تمام چیزوں کو چھوڑ دینے کا حکم دیا ہے ۔ اس کا فرمان ہے :
﴿ اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ﴾ [الأعراف:3]
’’ تم صرف اُس چیز کی پیروی کرو جو تمھاری طرف تمھار ے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے ۔ اور اس کو چھوڑ کر دیگر دوستوں کی پیروی مت کرو ۔ تم کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو ۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا : ﴿ فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِیْٓ اُوْحِیَ اِِلَیْکَ اِِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ٭ وَاِِنَّہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ﴾ [الزخرف:۴۳۔۴۴]
’’ لہذا آپ اسے مضبوطی سے تھام لیجئے جس کی آپ کو وحی کی گئی ہے ، آپ یقینا راہِ راست پر ہیں ۔ اور بلا شبہ وہ آپ کیلئے اور آپ کی قوم کیلئے نصیحت ہے ۔ اور عنقریب تم لوگوں سے پوچھ گچھ کی جائے گی ۔ ‘‘
اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ چیز ایک تو قرآن مجید ہے اور دوسری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث مبارکہ ہیں ۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالی فرماتے ہیں :
﴿ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی ٭ اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی﴾ [النجم : ۳۔ ۴]
’’اور وہ ( رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی خواہش نفس کی پیروی میں بات نہیں کرتے بلکہ وہ تو وحی ہوتی ہے جو ان پر اتاری جاتی ہے ۔ ‘‘
02. دوسری وجہ یہ ہے کہ صرف قرآن وسنت ہی معصوم ( یعنی غلطی سے پاک ) ہیں ۔ کسی اور کا کلام غلطی سے بالکل پاک نہیں ہو سکتا ۔ اس لئے قرآن وسنت ہی واجب الاتباع ہیں ۔
قرآن مجید کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِالذِّکْرِ لَمَّا جَائَ ہُمْ وَإِنَّہُ لَکِتَابٌ عَزِیْزٌ ٭ لَا یَأتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ ﴾ [ حم السجدۃ : ۴۱ ۔ ۴۲ ]
’’ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے پاس ذکر ( قرآن ) آیا تو انھوں نے اس کا انکار کردیا حالانکہ یہ ایک زبردست کتاب ہے ۔ جس میں باطل نہ آگے سے راہ پا سکتا ہے اور نہ پیچھے سے ۔ یہ حکمت والے اور لائقِ ستائش اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ ‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیث بھی سنتا اسے حفظ کرنے کی نیت سے لکھ لیا کرتا تھا ، لیکن قریش نے مجھے اس سے منع کیا اور انھوں نے کہا : تم جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتے ہو اسے لکھ لیتے ہو حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک انسان ہیں ۔ اور کبھی آپ خوشی میں بات کرتے ہیں اور کبھی غصے میں ! تو میں نے لکھنا بند کردیا ، پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگشت مبارک
سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
( اُکْتُبْ ، فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا یَخْرُجُ مِنْہُ إِلَّا حَقٌّ ) [ احمد : ۶۵۱۰ ، ۶۸۰۲ ، ابو داؤد: ۳۶۴۶ ۔ وصححہ الألبانی ]
’’ تم لکھتے رہو کیونکہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اس منہ سے حق بات کے علاوہ کوئی اور بات نہیں نکلتی ۔ ‘‘
03. تیسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں صرف اپنی اطاعت اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اور اِس سلسلے میں قرآن مجید میں متعدد آیات موجود ہیں ۔
چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَأَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا فَإِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْا أَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِیْنُ ﴾ [المائدۃ : ۹۲]
’’ اور تم اللہ کی اطاعت کرتے رہو اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کرتے رہو ۔ اور (نافرمانی سے ) ڈرتے رہو اوراگر تم نے اعراض کیا تو جان لو کہ ہمارے رسول کے ذمہ صاف صاف پہنچادینا ہے ۔ ‘‘
اسی طرح اس کا فرمان ہے :﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ إِذَا دَعَا کُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ﴾ [ الأنفال : ۲۴ ]
’’ اے ایمان والو ! اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا حکم مانو جبکہ رسول تمھیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمھارے لئے زندگی بخش ہو ۔‘‘
نیز فرمایا :﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَلاَ تُبْطِلُوْا أَعْمَالَکُمْ﴾ [محمد : ۳۳ ]
’’ اے ایمان والو!اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو ۔ ‘‘
یہ اور ان کے علاوہ دیگر بہت ساری آیات اسی بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ہم صرف اللہ تعالی اور اس کے رسول جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری کرنے کے مامور وپابندہیں ۔ ہمارے خالق ومالک اللہ تعالی کا ہمارے لئے اور تمام اہل ایمان کیلئے یہی حکم ہے کہ ہم سب صرف اُس کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں ۔ اور ظاہر بات ہے کہ ان دونوں کے احکام وفرامین ہم صرف اور صرف قرآن وحدیث سے ہی معلوم کر سکتے ہیں ۔ قرآن وحدیث کے علاوہ اس کاکوئی اورذریعہ نہیں ہے ۔
04. چوتھی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کیلئے یہی دو چیزیں چھوڑ کر گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی دو کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا ۔
رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا تھا :
( فَاعْقِلُوْا أَیُّہَا النَّاسُ قَوْلِیْ ، فَإِنِّیْ قَدْ بَلَّغْتُ ، وَقَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَّا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُ إِنْتَمَسَّکْتُمْ بِہٖ : کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّۃَ رَسُوْلِہٖ صلي الله عليه وسلم ) [ السنۃ للمروزی : ۶۸ من حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ ]
’’ اے لوگو ! میری باتوں کو اچھی طرح سے سمجھ لو ، میں نے یقینا اللہ کا دین آپ تک پہنچا دیا ۔ اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھام لیا تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے اور وہ ہے : اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ۔ ‘‘
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( تَرَکْتُ فِیْکُمْ شَیْئَیْنِ ، لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُمَا : کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّتِیْ ، وَلَنْ یَّتَفَرَّقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ ) [ صحیح الجامع : ۲۹۳۷ ]
’’ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔ ان کے بعد ( یعنی اگر تم نے انھیں مضبوطی سے تھام لیا تو) کبھی گمراہ نہیں ہو گے ۔ ایک ہے کتاب اللہ ( قرآن مجید ) اور دوسری ہے میری سنت۔ اور یہ دونوں کبھی جدا جدا نہیں ہو نگی یہاں تک کہ حوض پر میرے پاس آئیں گی ۔ ‘‘
05. پانچویں وجہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبات میں صرف کتاب وسنت کا تذکرہ کرتے تھے اور دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے منع کرتے تھے اور دین میں ہر نئے کام کو بدعت قرار دیتے تھے ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبہ میں شہادتین کے بعد یوں کہا کرتے تھے :
(أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ ، وَخَیْرَ الْہَدْیِ ہَدْیُ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم وَشَرَّ الْأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُہَا ، وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ ) [ مسلم : ۸۶۷ ]
’’حمد وثناء کے بعد ! یقینا بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے ۔ اور امور میں سب برا امر وہ ہے جسے ایجاد کیا گیا ہو اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔‘‘
مسلمانو ! اِس حدیث کے مطابق جب کتاب اللہ ہی سب سے بہتر بات ہے اور جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہی سب سے بہتر طریقہ ہے تو اِس کے بعد کسی تیسری چیز کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے ؟ یقینا اس کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر اُس کام کو جو قرآن وسنت سے ثابت نہ ہو اسے بدعت اور ہر بدعت کو گمراہی قرار دیتے تھے۔
06. چھٹی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک جزاء وسزا کا معیار بھی یہی ہے کہ جو شخص قرآن وسنت کی اتباع کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو ایسا نہیں کرے گا اور کتاب وسنت کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کے پیچھے چلے گا تو وہ یقینا جہنم میں جائے گا ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَمَن یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ یُدْخِلْہُ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا وَذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ٭ وَمَن یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَیَتَعَدَّ حُدُودَہُ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْہَا وَلَہُ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ ﴾ [ النساء : ۱۳۔ ۱۴]
’’ جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا تو وہ اسے ان باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہری جاری ہونگی ، وہ ان میں ہمیشہ رہے گا ۔ اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے گا اور اس کی ( مقرر کردہ ) حدود سے تجاوز کرے گا تواُسے وہ آگ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کیلئے رسوا کن عذاب ہو گا ۔ ‘‘
سوال یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کیسے ہو گی ؟
اِس کا جواب یہ ہے کہ قرآن وسنت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جو احکامات ذکر کئے گئے ہیں ان پر عمل کرکے اور جن امور سے منع کیا گیا ہے ان سے اجتناب کرکے ہی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہو سکتی ہے ۔
07. ساتویں وجہ یہ ہے کہ ’ صراط مستقیم ‘ جس کی اتباع کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے وہ بھی یہی ہے کہ صرف کتاب وسنت ہی کی اتباع کی جائے ۔ کیونکہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے حکم کے مطابق یہ ارشاد فرمایا تھا کہ ﴿وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ﴾ [الأنعام6 : 153]
’’ اور یقینا یہی میرا سیدھا راستہ ہے ، لہذا تم لوگ اسی کی اتباع کرو اور دوسرے راستوں پر مت چلو جو تمھیں اس کی سیدھی راہ سے جدا کردیں ۔ اللہ نے تمھیں انہی باتوں کا حکم دیا ہے تاکہ تم تقوی کی راہ اختیار کرو۔‘‘
تو اُس وقت کتاب وسنت کے علاوہ کوئی تیسری چیز نہ تھی جس کی پیروی کی جاتی ۔ لہذا وہ لوگ جو صراط مستقیم پر ہی چلنا چاہتے ہوں ان پر یہ لازم ہے کہ وہ صرف کتاب وسنت ہی کی اتباع کریں ۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو یقینا صراط مستقیم سے بھٹک جائیں گے ۔
اِس آیت کریمہ میں ایک اور بات نہایت ہی قابل غور ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے صراط مستقیم کی اتباع کا حکم دے کر یہ ارشاد فرمایا ہے کہ دیگر راستوں کی پیروی نہ کرنا ، ورنہ وہ متفرق راستے تمھیں صراط مستقیم سے ہٹا کر جدا جدا کردیں گے ۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کتاب وسنت کی اتباع نہ کی جائے تو امت مسلمہ میں فرقے معرض وجود میں آتے ہیں ۔ اور آج ہم امت مسلمہ میں جو فرقہ بندی دیکھ رہے ہیں اس کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ مسلمان کتاب وسنت سے جیسے جیسے دور ہوتے گئے ویسے ویسے وہ فرقوں میں تقسیم ہوتے گئے ۔ اور یہ فرقہ بندی اس وقت تک ختم نہیں
ہو سکتی جب تک تمام مسلمان کتاب وسنت کی طرف رجوع نہیں کرتے ۔
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سیدھی لکیر کھینچی ، پھر اس کے دائیں بائیں کچھ اور لکیریں کھینچ دیں ، پھر فرمایا: ( ہٰذَا صِرَاطُ اللّٰہِ مُسْتَقِیْمًا ، وَہٰذِہِ السُّبُلُ عَلٰی کُلِّ سَبِیْلٍ مِّنْہَا شَیْطَانٌ یَّدْعُو إِلَیْہِ ) [ رواہ أحمد والدارمی والحاکم بسند حسن ]
’’ یہ سیدھی لکیر اللہ تعالی کا سیدھا راستہ ہے ۔ اور یہ جو دائیں بائیں راستے ہیں ان میں سے ہر ایک پر شیطان ہے جو اس کی طرف دعوت دے رہا ہے ۔ ‘‘
اِس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی آیت تلاوت کی جو ابھی ہم نے ذکر کی ہے ۔
08. آٹھویں وجہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس جماعت کو ’ فرقہ ناجیہ ‘ یعنی جہنم سے نجات پانے والی جماعت قرار دیا اس کا منہج بھی کتاب وسنت کی اتباع کرنا ہے ۔ اور وہ جماعت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام رحمہ اللہ اور ان کے نقش قدم پر چلنے ولے لوگوں کی ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
’’ یہود ۷۱ فرقوں میں اور نصاری ۷۲ فرقوں میں تقسیم ہوئے اور میری امت کے لوگ ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوں گے ۔ ان میں سے ایک کے سوا باقی سب جہنم میں جائیں گے ۔ ‘‘
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : یا رسول اللہ ! وہ ایک گروہ کونسا ہے جو نجات پائے گا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی ) ’’ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔ ‘‘
ایک روایت میں ارشاد فرمایا : ( وَہِیَ الْجَمَاعَۃُ ) [ رواہ الترمذی : ۲۶۴۱ ۔ وأبو داؤد : ۴۵۹۷ ، وابن ماجہ :۳۹۹۳۔ وحسنہ الألبانی ]
’’ نجات پانے والا گروہ ہی جماعت ہے ۔ ‘‘
سوال یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کس چیز پر قائم تھے کہ جس پر قائم رہنے والی جماعت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ نجات پانے والی جماعت ‘ قرار دیا ؟
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں یہی دو چیزیں (کتاب وسنت ) ہی تھیں جن پر آپ اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم قائم تھے اور انہی دو چیزوں کی ہی اتباع کی جاتی تھی ، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں بھی ان دو چیزوں ( کتاب وسنت ) کے علاوہ کوئی تیسری چیز نہ تھی جس کی وہ اتباع کرتے ۔ یہ حضرات تمام مسائل کا حل کتاب وسنت سے ہی تلاش کیا کرتے تھے ۔ اور اگر ان میں سے کوئی صحابی خواہ وہ خلیفہ ہو یا عام شخص ‘ کسی مسئلہ میں کتاب وسنت کے خلاف موقف اختیار کرتا ، پھر اسے آگاہ کیا جاتا کہ آپ کا موقف کتاب وسنت
کی فلاں دلیل کے خلاف ہے تووہ اُسی وقت اپنے مو قف سے رجوع کرکے اُس دلیل کو اختیار کرلیتا ۔ یہ تھا وہ منہج جس کی اتباع کرنے والے مسلمانوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’فرقہ ناجیہ ‘ اور ’ جماعت ‘ قرار دیا ۔ اور اسی منہج کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد تابعین عظام رحمہم اللہ نے بھی اختیار کیا ۔ اور قیامت تک جو بھی لوگ اسے اختیار کریں گے وہ اسی ’فرقہ ناجیہ ‘میں شامل ہونگے ۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس مبارک گروہ میں شامل فرمائے ۔
09. نویں وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے تمام متنازعہ مسائل کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانے کا حکم دیا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْئٍ فَحُکْمُہٗٓ اِِلَی اللّٰہِ ﴾ [ الشوری : ۱۰ ]
’’اور جس بات میں بھی تم اختلاف کرتے ہو اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار اللہ کے پاس ہے ۔ ‘‘
اسی طرح اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ارشاد فرمایا :
﴿ فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ [ النساء : ۶۵ ]
’’ پس قسم ہے تیرے رب کی ! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس کے تمام اختلافات میں آپ کو حاکم (فیصل) نہ مان لیں ، پھر جو فیصلہ آپ ان میں کردیں اس سے وہ دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی محسوس نہ کریں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں ۔ ‘‘
نیز فرمایا : ﴿وَ مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَھُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیْہِ وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یُّؤمِنُوْنَ ﴾ [ النحل : ۶۴]
’’ ہم نے آپ پر یہ کتاب اس لئے نازل کی ہے کہ آپ ان کیلئے اس چیز کو واضح کردیں جس میں یہ اختلاف کرتے ہیں ۔ نیز یہ کتاب ایمان لانے والوں کیلئے ہدایت اور رحمت ہے ۔ ‘‘
ایک اور آیت میں اللہ تعالی نے یوں ارشاد فرمایا :
﴿یَااَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْیئٍ فَرُدُّوْہُ اِلیَ اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلاً ﴾ [ النساء: ۵۹]
’’ اے ایمان والو ! تم اللہ تعالی کا حکم مانو اور رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانو۔ اور تم میں جو حکم والے ہیں ان کا۔ پھر اگر تمھارا کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹادو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو ۔ یہی (تمہارے حق میں )بہتر ہے اور اس کا انجام بہت اچھاہے ۔‘‘
اختلافی بات کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانے کا معنی یہ ہے کہ اس کا فیصلہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں کیا کرو ۔
یہ اختلافات کو ختم کرنے کا ربانی نسخہ ہے ۔ اگر تمام مسلمان اس پر عمل کریں تو یقینی طور پر ان میں موجودہ اختلافات ختم ہو سکتے ہیں ۔ جیسا کہ قرونِ اولی کے لوگ اپنے اختلافات اسی منہج کو اختیار کرتے ہوئے نمٹا لیا کرتے تھے ۔
10. دسویں وجہ یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مسلمانوں کے تمام مسائل کے متعلق شرعی احکام موجود ہیں ۔ یہ شرعی احکام یا تو تفصیلا موجود ہیں ، یا پھر اصول وضوابط مقرر کردئیے گئے ہیں جن کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل کے متعلق شرعی حکم معلوم کیا جا سکتا ہے ۔ لہذا جب تمام شرعی احکام کو کتاب وسنت میں بیان کردیا گیا ہے تو ان کو چھوڑ کر کسی بھی تیسری چیز کی اتباع کیسے کی جا سکتی ہے ؟
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ وَّ ھُدًی وَّ رَحْمَۃً وَّ بُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ ﴾ [ النحل : ۸۹]
’’ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے ۔ اور اس میں مسلمانوں کیلئے ہدایت ، رحمت اور خوشخبری ہے ۔ ‘‘
اسی طرح اس کا فرمان ہے : ﴿ وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ ﴾ [ النحل : ۴۴]
’’ اور ہم نے آپ کی طرف ذکر ( قرآن ) نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کیلئے اس چیز کو واضح کردیں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے ۔ ‘‘
ان دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید اور اس کے بیان ( یعنی سنت ِ نبویہ ) میں ہر چیز کو واضح کردیا گیا ہے ۔ ہر حکم کے متعلق آگاہ کر دیا گیا ہے ۔ ہر مسئلے کو کھول کر بیان کردیا گیا ہے ۔ لہذا یہی دو چیزیں ( کتاب وسنت ) ہی واجب الاتباع ہیں ۔ اور ان میں ذکر کئے گئے اصول وضوابط کی روشنی میں تمام مسائل کا حل ڈھونڈنا لازم ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ( مَا بَقِیَ شَیْيئٌ یُقَرِّبُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَیُبَاعِدُ مِنَ النَّارِ إِلَّا وَقَدْ بُیِّنَ لَکُمْ ) [ رواہ الطبرانی فی الکبیر ۔ وصححہ الألبانی فی الصحیحۃ :۱۸۰۳]
’’ ہر وہ چیز جو جنت کے قریب اور جہنم سے دور کردے اسے تمھارے لئے کھول کر بیان کردیا گیا ہے ۔ ‘‘
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس فرمان میں غور کرنا چاہئے کہ آخر وہ جنت کے قریب اور جہنم سے دور کرنے والا ہر قول وعمل کہاں بیان کیا گیا ہے ؟ اِس سوال کا جواب ہر ذی شعور انسان نہایت آسانی سے دے سکتا ہے کہ اس کا بیان یقینی طور پر قرآن وسنت میں ہی ہے ۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے جو اعلان فرمایا تھا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ، جب تک تم انھیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو گمراہ نہیں ہوگے ، تو یہ دو چیزیں یہی کتاب وسنت ہی تھیں ۔ اور انہی میں جنت کے قریب اور جہنم سے دور کرنے والے ہر قول وعمل کو بیان کر دیا گیا تھا ۔ لہذا قرآن وسنت میں بیان کئے گئے شرعی احکام ومسائل پر ہی انحصار کرنا چاہئے اور ان سے تجاوز قطعا نہیں کرنا چاہئے ۔
معزز سامعین ! صرف کتاب وسنت ہی کی اتباع کیوں ؟ ہم نے اس کی دس وجوہات ذکر کی ہیں ۔ ( تلک عشرۃ کاملۃ ) لہذا تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ صرف اور صرف کتاب وسنت ہی کی اتباع کریں ۔ انہی دو چیزوں کا مطالعہ کریں ، انہی میں غور وفکر کریں ، انہی سے اپنے تمام مسائل کا حل معلوم کریں ۔ اگر وہ علمائے کرام کی طرف رجوع کریں تو ان سے بھی اسی بات کا مطالبہ کریں کہ ہمارے مسائل کا حل قرآن وسنت کی روشنی میں بتائیں ۔ پھر اگر علمائے کرام بھی اپنی ذمہ داری پوری کریں اور مسلکی تعصب سے بالا تر ہو کرمسلمانوں کی راہنمائی قرآن وسنت کی روشنی میں ہی کریں تو یقینی طور پر دین اسلام میں داخل کی گئی تمام چیزیں خود بخود ختم ہو جائیں گی اور لوگ اصل دین کی طرف واپس لوٹ آئیں گے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کو اس کی توفیق دے ۔
یہاں ہم ایک ضروری بات عرض کرتے چلیں کہ کتاب وسنت کا مطالعہ اور ان پر عمل کرتے ہوئے حضراتِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے طرزِ عمل کو بھی سامنے رکھنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انہی حضرات کو آئیڈیل قرار دیا ہے ۔ چنانچہ اس کا فرمان ہے :
﴿ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِہِ فَقَدِ اہْتَدَوا وَّإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا ہُمْ فِیْ شِقَاقٍ ﴾ [ البقرۃ : ۱۳۷]
’’ پس اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یافتہ ہو جائیں اور اگر منہ پھیر لیں (اور نہ مانیں) تو وہ (اس لئے کہ آپ کی ) مخالفت پر تلے ہوئے ہیں ۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا ایمانِ صادق ہی اللہ تعالی کے نزدیک باقی لوگوں کیلئے معیار ہے ۔
اسی طرح اللہ تعالی نے ان لوگوں کو جو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا راستہ چھوڑکر کوئی دوسرا راستہ اختیار کرلیں‘ جہنم کی وعید سنائی ہے ۔ اس کا فرمان ہے : ﴿وَمَن یُّشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاء تْ مَصِیْرًا﴾ [ النساء : ۱۱۵]
’’ اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اُسے اُدھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بہت بُری جگہ ہے ۔ ‘‘
اس آیت کریمہ میں مومنوں کے راستے سے مراد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا راستہ ہے کیونکہ نزولِ قرآن مجید کے وقت بس وہی مومن تھے ۔
اور جو حدیث ہم نے اس سے پہلے ذکر کی ہے ( مَا أَنَا عَلَیْہِ الْیَوْمَ وَأَصْحَابِی ) تو وہ بھی اسی بات کی دلیل ہے کہ قرآن وسنت کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے فہم اور ان کے طرز عمل کی روشنی میں ہی سمجھنا اور ان پر عمل کرنا چاہئے ۔ اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ہے کہ
( إِنْ یُّطِیْعُوْا أَبَا بَکْرٍ وَّعُمَرَ یَرْشُدُوْا ) [ رواہ مسلم :۶۸۱]
’’ اگر لوگ ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کی اطاعت کریں گے تو ہدایت پا جائیں گے ۔ ‘‘
اور اسی لئے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا : ( مَنْ کَانَ مُسْتَنَّا فَلْیَسْتَنَّ بِمَنْ قَدْ مَاتَ ، أُولٰئِکَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم کَانُوْا خَیْرَ الْأُمَّۃِ ، أبَرَّہَا قُلُوْبًا ، وَأعْمَقَہَا عِلْمًا ، وَأقَلَّہَا تَکَلُّفًا ، اِخْتَارَہُمُ اﷲُ لِصُحْبَۃِ نَبِیِّہٖ صلي الله عليه وسلم وَنَقْلِ دِیْنِہٖ ، فَتَشَبَّہُوْا بِأَخْلَاقِہِمْ وَطَرَائِقِہِمْ فَہُمْ أصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم کَانُوْا عَلَی الْہُدَی الْمُسْتَقِیْمِ ) [ حلیۃ الأولیاء : ۱/ ۳۰۵۔۳۰۶]
’’ اگر کوئی شخص اقتداء کرنا چاہتاہو تو وہ ان اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرے کہ جو فوت ہوچکے ہیں ۔ وہ امت کے سب سے بہتر لوگ تھے ، وہ سب سے زیادہ پاکیزہ دل والے ، سب سے زیادہ گہرے علم والے اور سب سے کم تکلف کرنے والے تھے ۔ اللہ تعالی نے انھیں اپنے نبی کا ساتھ دینے اور اپنے دین کو اگلی نسلوں تک پہنچانے کیلئے منتخب کر لیا تھا ۔ لہٰذا تم انہی کے اخلاق اورطور طریقوں کو اپناؤ کیونکہ وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے اور صراطِ مستقیم پر چلنے والے تھے ۔ ‘‘ لہذا قرآن وحدیث کی کسی نص کا مفہوم اپنی منشاء یا اپنے مخصوص نظریے کے مطابق متعین نہیں کیا جا سکتا ، بلکہ یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس سے وہی مفہوم اخذ کیا جو آج کوئی بھی شخص اس سے اخذ کرنا چاہتا ہے یا ان کے نزدیک اس کا کوئی اور مفہوم تھا ؟ یہ بات ہم اس لئے عرض کر رہے ہیں کہ آج کل بعض مدعیانِ علم اپنے مخصوص نظریات کو ثابت کرنے کیلئے قرآن وحدیث کی بعض نصوص کا سہارا لیتے ہیں اور کھینچ تان کر ان سے اپنی منشاء کے مطابق وہ مفہوم اخذ کرتے ہیں جو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کی اتباع کرنے والے اہلِ علم نے ان سے اخذ نہیں کیا تھا ۔ مثلا اہلِ بدعت جشن ِمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن وسنت سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ دلائل ذکر کرتے ہیں
کہ جن سے قطعی طور پر یہ بدعت ثابت نہیں ہوتی اور نہ ہی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کے نزدیک ان دلائل کا یہ مفہوم تھا ۔ ورنہ اگر ان کے نزدیک بھی ان دلائل کا یہی مفہوم ہوتا تو وہ بھی یہ جشن مناتے ۔ لیکن ان کا یہ جشن نہ منانا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن وحدیث کے ان دلائل کا اِس جشن سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔ اسی طرح باقی بدعات ہیں ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو حق بات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے ۔
دوسرا خطبہ
معزز سامعین ! اللہ رب العزت اپنی کتاب ( قرآن مجید ) کو اس لئے نازل کیا کہ اہل ِ ایمان اس کی تلاوت کریں ، اس میں تدبر ( غور وفکر ) کریں اور اس کے احکامات پر عمل پیراہوں ، اس میں ذکر کی گئی محرمات ونواہی سے اجتناب کریں ، اس میں ذکر کئے گئے قصص وواقعات اور غیبی اخبار کی تصدیق کریں ، اس میں اللہ رب العزت کی جو تعلیمات ذکر کی گئی ہیں ان کی روشنی میں اپنے عقائد واعمال کی اصلاح کریں اوراخلاق وکردار کو بہتر سے بہتر بنائیں ۔
اللہ رب العزت کا فرمان ہے :
﴿ کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ ﴾ [ ص ٓ : ۲۹ ]
’’ یہ کتاب بابرکت ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل فرمایا ہے کہ وہ اس کی آیتوں میں غور وفکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں ۔‘‘
قرآن مجید میں تدبر نہ کرنے والے لوگوں کو اللہ تعالی نے سخت تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
﴿أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَی قُلُوبٍ أَقْفَالُہَا ﴾ [ محمد :۲۴]
’’ کیا وہ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں ؟‘‘
اسی طرح اِس بابرکت کتاب کی اتباع کرنے کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالی فرماتے ہیں :
﴿وَہَـذَا کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ فَاتَّبِعُوہُ وَاتَّقُوا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ ﴾ [الأنعام : ۱۵۵]
’’ یہ کتاب جو ہم نے نازل کی ہے یہ بڑی با برکت ہے ۔ لہذا تم اس کی اتباع کرو اور ( اللہ تعالی سے) ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ ‘‘
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ( إِنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ سَبَبٌ طَرَفُہُ بِیَدِ اللّٰہِ وَطَرَفُہُ بِأَیْدِیْکُمْ ، فَتَمَسَّکُوْا فَإِنَّکُمْ لَنْ تَہْلِکُوْا وَلَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُ أَبَدًا ) [ السلسلۃ الصحیحۃ : ۷۱۳ ]
’’ یہ قرآن مجید ایک مضبوط رسی ہے جس کا ایک سرا اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ۔ پس تم اسے مضبوطی سے پکڑ لو ، تم کبھی اس کے بعد ہلاک ہو گے اورنہ گمراہ ہو گے ۔ ‘‘
اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ( اِتَّخِذْ کِتَابَ اللّٰہِ إِمَامًا ، وَارْضَ بِہِ قَاضِیًا ، فَإِنَّہُ الَّذِیْ اسْتَخْلَفَ فِیْکُمْ رَسُولُکُمْ ، شَفِیْعٌ مُّطَاعٌ )
’’ تم کتاب اللہ کو امام بناؤ اور اسے قاضی تسلیم کرو ۔ کیونکہ وہی تو ہے جس کو تمھارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے چھوڑا ۔ یہ کتاب شفاعت کرے گی ، لہذا اسی کی اطاعت وفرمانبرداری کی جانی چاہئے ۔ ‘‘
اور جہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا تعلق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث کو سننے ، انھیں ذہن نشین کرنے اور لوگوں تک پہنچانے والوں کیلئے یوں دعا فرمائی :
( نَضَّرَ اللّٰہُ امْرَئً ا سَمِعَ مَقَالَتِی فَوَعَاہَا وَحَفِظَہَا وَبَلَّغَہَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ إلِیٰ مَنْ ہُوَ أَفْقَہُ مِنْہُ ) [ الترمذی : ۲۶۵۸ ، ابن ماجہ : ۲۳۰ وصححہ الألبانی]
’’ اللہ تعالی اس شخص کا چہرہ تروتازہ اور حسین وجمیل کردے جس نے میری بات سنی پھر اسے ذہن نشین کر لیا اور اسے اچھی طرح حفظ کر کے آگے پہنچایا ۔ کیونکہ بسا اوقات ایک شخص ایک مسئلے کو سمجھتا ہے اور اسے اس شخص تک پہنچا دیتا ہے جو اس سے زیادہ سمجھ دار ہوتا ہے ۔ ‘‘
اور جب امت میں اختلافات ہوں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا ہے وہ کیا ہے ؟ سنئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ارشاد فرمایا !
( عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الْمَہْدِیِّیْنَ الرَّاشِدِیْنَ ، تَمَسَّکُوْا بِہَا وَعَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ ، وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ ) [ ابو داؤد : ۴۶۰۷ ۔ وصححہ الألبانی ]
’’ تم میری سنت کو لازم پکڑنا اور اسی طرح ہدایت یافتہ اور راہِ راست پر گامزن خلفاء کے طریقے پر ضرور عمل کرنا ۔ اس کو مضبوطی سے تھام لینا اور اسے قطعا نہ چھوڑنا ۔اور تم دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچنا کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔‘‘
عزیز بھائیو ! یہ سارے دلائل اِس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ کتاب وسنت کو سمجھنا اور ان کے معانی ومفاہیم کو دل کی گہرائیوں میں اتارنا اور ان پر عمل کرنا ہر مسلمان کیلئے از حد ضروری ہے ۔ لیکن بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ
آج کل بہت سارے مسلمان یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں اور وہ اپنے مخصوص نظریات سے یوں چمٹے ہوئے ہیں کہ جیسے اللہ تعالی یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اِس کا پابند کیا ہے ! یہ مخصوص نظریات وہ ہیں جو انھوں نے اپنے باپ دادا سے حاصل کئے یا ان کے محلے کے مولویوں نے انھیں پڑھائے ! وہ ان پر اِس قدر پکے ہو چکے ہیں کہ اب انھیں چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتے ۔اگر انھیں کتاب اللہ اور سنت ِرسول کی روشنی میں کوئی مسئلہ بتایا جائے تو حیل وحجت پیش کرتے ہیں یا صاف صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں ہمارے آباء واجداد کا مسلک ہی کافی ہے اور ہم اس سے ذرا برابر بھی انحراف نہیں کرسکتے ۔ انہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالی فرماتے ہیں :
﴿وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ اِلَی الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَ نَا اَوَ لَوْ کَانَ اٰبَآؤُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ شَیْئًا وَّ لَا یَھْتَدُوْنَ ﴾ [ المائدۃ : ۱۰۴]
’’اور جب انھیں کہا جائے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آؤ رسول کی طرف تو کہتے ہیں کہ ہمیں تو وہی کچھ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے آباء واجداد کو پایا ۔ خواہ ان کے باپ دادا کچھ بھی نہ جانتے ہوں اور نہ ہی ہدایت پر ہوں ! ‘‘
یعنی اگر آباء واجداد کو علم نہیں تھا اور ان سے غلطیاں سرزد ہوئیں تو کیاتمھیں اللہ تعالی نے عقل نہیں دی ؟ اور تمھیں فہم وشعور سے نہیں نوازا ؟ عقل وفہم ہونے اور کتاب اللہ اور سنت ِ رسول کا علم آنے کے باوجود تم پھر بھی آباؤ اجداد کے مسلک سے ہی چمٹے رہو گے ؟ اگر تم ایسا کرو گے تو تمھارا یہ طرز عمل یقینا غلط ہوگا ۔ جو طرز عمل مومن کو اختیار کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ
﴿ اِِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤمِنِیْنَ اِِذَا دُعُوْٓا اِِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ٭ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفَآئِزُوْنَ ﴾ [ النور : ۵۱ ۔ ۵۲ ]
’’مومنوں کی تو بات ہی یہ ہے کہ جب انھیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلایا جائے کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو کہتے ہیں کہ ’’ ہم نے سنا اور اطاعت کی ‘‘ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے ، اللہ سے ڈرتا رہے اور اس کی نافرمانی سے بچتا رہے تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔ ‘‘
عزیز بھائیو ! بہت سارے مسلمان اپنے محلے کے مولویوں یا ہم مسلک علماء یا اپنے پیرو مرشدکی باتوں پر اِس طرح اعتماد کرتے ہیں کہ جیسے وہ ہر قسم کی غلطی سے معصوم ہوں ۔ اسی اعتماد کی وجہ سے وہ ان کی ہر ہر بات کو قبول کر لیتے ہیں
اور ذرا بھی تحقیق نہیں کرتے کہ ان کی باتیں قرآن وسنت کے مطابق ہیں یا نہیں ! بلکہ بات اِس سے بھی آگے بڑھ گئی ہے ، چنانچہ بہت سارے لوگوں نے اپنے مولویوں اور پیروں کو تحلیل وتحریم کا اختیار بھی دے رکھا ہے ! یعنی وہ جس چیز کو حلال کہیں تو وہ اسے حلال سمجھ لیتے ہیں اور وہ جس چیز کو حرام کہیں تو وہ اسے حرام سمجھ لیتے ہیں ! ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ اِتَّخَذُوْا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ﴾ [ التوبۃ : ۳۱ ]
’’ انھوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ۔ ‘‘
یہ آیت کریمہ اگرچہ یہود ونصاری کے متعلق ہے کہ جن کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( أَمَا إِنَّہُمْ لَمْ یَکُوْنُوْا یَعْبُدُوْنَہُمْ،وَلٰکِنَّہُمْ کَانُوْا إِذَا أَحَلَّوْا لَہُمْ شَیْئًا اِسْتَحَلَّوْہُ،وَإِذَا حَرَّمُوْا عَلَیْہِمْ شَیْئًا حَرَّمُوْہُ) [ الترمذی : ۳۰۹۵ وصححہ الألبانی]
’’ خبردار ! وہ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ وہ جب کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو اسے یہ حلال تصور کر لیتے اور وہ جب کسی چیز کو حرام کہتے تو اسے یہ حرام مان لیتے ۔ ‘‘
تاہم یہود ونصاری جیسا طرز عمل اگر مسلمان بھی اختیار کرلیں اوروہ اپنے علماء ومشائخ کو وہی اختیار دے دیں جو یہود ونصاری نے اپنے علماء اور درویشوں کو دے رکھا تھا تو یقینا یہ طرز عمل قابل مذمت ہے اور قطعی طور پر اس کی ستائش نہیں کی جا سکتی ۔
مسلمان بھائیو ! کئی لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو بعض ائمۂ دین رحمہم اللہ کی اندھی تقلید کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی تقلید کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ! ایسے لوگوں کو ذرا سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ
01. کیا قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ائمۂ اربعہ رحمہم اللہ میں سے کسی کا نام لے کر ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اس کی تقلید کریں ؟ اگر نہیں دیا تو کوئی شخص یہ جسارت کیسے کر سکتا ہے کہ تقلید کرنا واجب ہے اور اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں!
02. کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو کسی امام کی تقلید کا پابند کیا ہے ؟ اگر نہیں کیا تو پھر ہم کون ہوتے ہیں کہ اپنی طرف سے کسی امام کی تقلید کا بندھن اپنے گلوں میں خود ہی ڈال لیں ؟ اور پھر لوگوں پر بھی یہ بات فر ض کریں کہ تقلید کرو ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے ؟
03. قرون اولی کے لوگ ، جنھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین لوگ قرار دیا ‘ کیا وہ بھی کسی امام کی تقلید کرتے تھے ؟ اگر وہ تقلید کرتے تھے تو بتایا جائے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کس کی تقلید کرتے تھے ؟ تابعین رحمہم اللہ کس کی تقلید کرتے تھے ؟ اور تبع تابعین رحمہم اللہ کس کی تقلید کرتے تھے ؟ اگروہ لوگ کسی کی تقلید نہیں کرتے تھے تو پھر کسی بھی مسلمان کو ائمۂ اربعہ میں سے کسی کی تقلید نہیں کرنی چاہئے۔
04. اگر قرو ن اولی کے لوگ کسی کی تقلید کئے بغیر دین پرعمل کرسکتے تھے تو ان کے بعد آنے والے مسلمان کسی کی تقلید کئے بغیر دین پر عمل کیوں نہیں کر سکتے ؟
05. کیا تقلید کرنے والے لوگوں میں سے کسی نے کبھی یہ بھی سوچا کہ خود ائمۂ اربعہ رحمہم اللہ نے کس بات کی تعلیم دی ؟ تقلید کی یا اتباع کی ؟ اگر کسی کو اِس کے متعلق کچھ معلوم نہیں تو وہ یہ جان لے کہ
٭ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا تھا :
( لَا یَحِلُّ لِأحَدٍ أَن یَّأْخُذَ بِقَوْلِنَا ، مَا لَمْ یَعْلَمْ مِنْ أَیْنَ أَخَذْنَاہُ )
’’ کسی کیلئے جائز نہیں کہ وہ ہمارے کسی قول کو قبول کرے جب تک وہ یہ نہ معلوم کر لے کہ ہم نے اسے کہاں سے لیا ‘‘
اسی طرح انھوں نے کہا تھا : ( حَرَامٌ عَلٰی مَن لَّمْ یَعْرِفْ دَلِیْلِیْ أَن یُّفْتِیَ بِکَلَامِی ، فَإِنَّنَا بَشَرٌ نَقُولُ الْقَوْلَ الْیَوْمَ وَنَرْجِعُ عَنْہُ غَدًا )
’’ جس شخص نے میری دلیل کو نہیں پہچانا اس پر حرام ہے کہ وہ میرے کلام کے ساتھ فتوی دے ۔ کیونکہ ہم بشر ہیں ، ہم آج ایک بات کرتے ہیں اور کل اس سے رجوع بھی کر سکتے ہیں ۔ ‘‘
٭ اور امام مالک رحمہ اللہ نے کہا تھا : ( إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أُخْطِیُٔ وَأُصِیْبُ ، فَانْظُرُوا فِی رَأْیِی ، فَکُلُّ مَا وَافَقَ الْکِتَابَ وَالسُّنَّۃَ فَخُذُوہُ ، وَکُلُّ مَا لَمْ یُوَافِقِ الْکِتَابَ وَالسُّنَّۃَ فَاتْرُکُوْہُ )
’’ میں ایک انسان ہی ہوں ، میں غلطی بھی کرتا ہوں اور صحیح موقف بھی اختیار کرتا ہوں ۔ لہذا تم میری رائے کے متعلق غور کر لیا کرو ، میری جو بھی رائے کتاب وسنت کے مطابق ہو تو قبول کر لو اور اگر کتا ب وسنت کے مطابق نہ ہو تو اسے چھوڑ دو ۔ ‘‘
٭ اور امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا تھا : ( أَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلٰی أَنَّ مَنِ اسْتَبَانَ لَہُ سُنَّۃٌ عَن رَّسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَمْ یَحِلَّ لَہُ أَنْ یَّدَعَہَا لِقَوْلِ أَحَدٍ )
’’ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس آدمی کیلئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت واضح ہو جائے تو اس کیلئے جائز نہیں کہ وہ کسی کے قول کی بناء پر اسے چھوڑ دے ۔ ‘‘
اسی طرح انھوں نے کہا تھا : ( إِذَا صَحَّ الْحَدِیْثُ فَہُوَ مَذْہَبِی )
’’ جب حدیث صحیح سند کے ساتھ ثابت ہو جائے تو وہی میرا مذہب ہے ۔ ‘‘
٭ اور امام احمد رحمہ اللہ نے کہا تھا : ( لَا تُقَلِّدْنِی وَلَا تُقَلِّدْ مَالِکًا وَلَا الشَّافِعِیَّ وَلَا الْأوْزَاعِیَّ وَلَا الثَّوْرِیَّ ، وَخُذْ مِنْ حَیْثُ أَخَذُوْا )
’’ تم میری تقلید نہ کرو ۔ اور نہ ہی مالک ، شافعی ، اوزاعی اور ثوری کی تقلید کرو ۔ بلکہ تم وہاں سے لو جہاں سے ان سب نے لیا ۔ ‘‘ یعنی ان سب نے بھی دین کتاب وسنت سے لیا ، اسی طرح تم بھی کتاب وسنت سے ہی لو ۔
مسلمان بھائیو ! ائمۂ اربعہ رحمہم اللہ کی تعلیمات بالکل واضح ہیں ۔ لہذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ان پر عمل کرتے ہوئے اندھی تقلید کی بجائے کتاب وسنت کی اتباع کا راستہ اپنائے ۔ یقینی طور پر تمام خیر وبھلائی اسی راستے پر چلنے میں ہے ۔ اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو اس کی توفیق دے ۔
عزیز بھائیو اور دوستو ! آخر میں ایک ضروری تنبیہ ! اور وہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں سے صرف وہ احادیث معتبر اور قابل حجت ہیں کہ جو صحیح سند کے ساتھ ثابت ہوں یا کم ازکم حسن درجے کی ہوں ۔ اور جو احادیث محدثین کے نزدیک ضعیف یا موضوع ومن گھڑت ہوں تو وہ قطعی طور پر معتبر اور قابل حجت نہیں ہیں ۔ ایسی احادیث سے نہ مسائل واحکام اخذ کئے جا سکتے ہیں اور نہ ہی ان سے فضائل اعمال ثابت ہوتے ہیں ۔ لہذا ان احادیث کا تعلق چاہے فضائل اعمال سے ہو یا احکام سے ، دونوں صورتوں میں انھیں ناقابل حجت سمجھنا چاہئے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹی اور من گھڑت احادیث بیان کرنے والے لوگوں کے متعلق پیشین گوئی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا :
( یَکُوْنُ فِی آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُونَ کَذَّابُونَ ، یَأْتُونَکُمْ مِّنَ الْأحَادِیْثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوْا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُکُمْ ، فَإِیَّاکُمْ وَإِیَّاہُمْ ، لَا یُضِلُّونَکُمْ وَلَا یَفْتِنُونَکُمْ ) [ رواہ مسلم فی المقدمۃ ]
’’ آخری زمانے میں کچھ لوگ آئیں گے جو دجل وفریب سے کام لیں گے اور بہت جھوٹ بولیں گے اور وہ تمھیں ایسی ایسی حدیثیں سنائیں گے کہ جو نہ تم نے سنی ہونگی اور نہ تمھارے آباؤ اجداد نے سنی ہونگی ۔ لہذا تم ان سے بچنا ، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمھیں گمراہ کردیں اور تمھیں فتنے میں مبتلا کردیں ! ‘‘
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی حرف بحرف سچی ثابت ہوئی اور کئی لوگ ایسے آئے کہ جنھوں نے ہزاروں کی تعداد میں احادیث گھڑیں اور انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا ۔ اِس طرح کے لوگ پہلے بھی آئے اور آج بھی موجود ہیں جو ’فضائل اعمال ‘کے نام سے سینکڑوں انتہائی ضعیف اور جھوٹی احادیث بیان کرتے ہیں اور انھیں پوری دنیا میں پھیلا رہے ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا :
( مَنْ حَدَّثَ عَنِّی بِحَدِیْثٍ یَّرَی أَنَّہُ کَذِبٌ فَہُوَ أَحَدُ الْکَاذِبِیْنَ ) [ رواہ مسلم فی المقدمۃ ]
’’ جو شخص ایسی حدیث بیان کرے کہ جس کے بارے میں اسے پتہ ہو کہ یہ جھوٹی ہے تو وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے ۔ ‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹی حدیثیں بیان کرنے والے لوگوں کو سخت وعید سناتے ہوئے ارشاد فرمایا :
( لَا تَکْذِبُوا عَلَیَّ فَإِنَّہُ مَن یَّکْذِبْ عَلَیَّ یَلِجِ النَّارَ ) [ رواہ مسلم فی المقدمۃ ]
’’ تم میرے اوپر جھوٹ نہ بولنا ، کیونکہ جو میرے اوپر جھوٹ بولے گا تو وہ جہنم میں داخل ہوگا ۔ ‘‘
اور کئی لوگ سنی سنائی باتوں کو ہی ’ احادیث ‘ تصور کرلیتے ہیں ، پھر انھیں مسائل واحکام میں بھی حجت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور ان سے فضائل اعمال بھی ثابت کرتے ہیں ۔ بلکہ بڑی بڑی بدعات کے ثبوت کیلئے بھی وہ انہی سنی سنائی حدیثوں کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں ! حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ
( کَفٰی بِالْمَرْئِ کَذِبًا أَن یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ ) [ رواہ مسلم فی المقدمۃ ]
’’ آدمی کے جھوٹ کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کرے ۔ ‘‘
لہذا ہم تمام مسلمانوں کو تنبیہ کرتے ہیں کہ وہ اِس فتنے سے متنبہ رہیں ! اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو بیان کرنے میں شدید احتیاط سے کام لیں۔ صرف وہ احادیث بیان کریں اور صرف ان احادیث سے شرعی مسائل واحکام اخذ کریں جو محدثین کے نزدیک سند کے اعتبار سے صحیح یا حسن درجے کی ہوں ۔ اور ان احادیث کو ترک کردیں جو ضعیف یا جھوٹی اور من گھڑت ہوں ۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر مسلمان اِس کا التزام کرلیں تو وہ یقینا بہت ساری بدعات سے نجات حاصل کرسکتے ہیں ۔ اللہ تعالی سب مسلمانوں کو اس کی توفیق دے ۔