رزق میں برکت کے اَسباب
اہم عناصرِ خطبہ :
01. رزاق صرف اللہ تعالی ہے
02. تمام خزانوں کی چابیاں اللہ تعالی کے پاس ہیں
03. رزق میں برکت کے اسباب
پہلا خطبہ
محترم حضرات ! اِس دور میں اکثر لوگ یہ شکایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہمارے رزق میں برکت نہیں ہے ۔ ہم روزی کمانے کیلئے اتنی محنت کرتے ہیں ، دن رات جدو جہد کرتے ہیں اور اپنی ساری توانائیاں کھپا دیتے ہیں ، لیکن پھر بھی خرچے پورے نہیں ہوتے ، بلکہ الٹا ہر مہینے قرضہ چڑھ جاتا ہے ۔ اِس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رزق میں برکت کیسے آ سکتی ہے ؟ اور وہ کونسے اسباب ہیں جنھیں اختیار کیا جائے تو رزق میں برکت آجاتی ہے اور اس سے تمام اخراجات پورے ہوسکتے ہیں ؟
اِس سوال کا جواب دینے سے پہلے دو تین بنیادی باتیں بطور تمہید عرض کرنا چاہتاہوں ۔
پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں اِس بات پر مکمل یقین ہونا چاہئے کہ ہم سب کا رازق اللہ تعالی ہی ہے ۔ اُس کے سوا کوئی رازق نہیں ۔ وہ دیگر اختیارات کی طرح اِس میں بھی وہ وحدہ لا شریک ہے ۔
باری تعالی کا فرمان ہے : ﴿مَآ اُرِیْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ٭ اِِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ ﴾ الذاریات51 :57 ۔58
’’ میں ان سے رزق نہیں چاہتا اور نہ ہی یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں ۔ اللہ تعالی تو خود ہی رزاق ہے۔ بڑی قوت والا اور زبردست ہے ۔ ‘‘
کائنات میں ہر جاندار کے رزق کا ذمہ اللہ تعالی نے اپنے اوپر لے رکھا ہے ۔
اس کا فرمان ہے : ﴿ وَمَا مِن دَآبَّۃٍ فِیْ الأَرْضِ إِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا ﴾ ہود11 : 6
’’ زمین میں چلنے والے ہر جاندار کا رزق اللہ کے ذمے ہے ۔ ‘‘
اور رزق کے فیصلے اللہ تعالی آسمان سے کرتا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَفِیْ السَّمَائِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوعَدُونَ ﴾ الذاریات51 :22
’’ آسمان میں تمھارا رزق ہے اور وہ بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے ۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ ثُمَّ رَزَقَکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ہَلْ مِن شُرَکَائِکُم مَّن یَفْعَلُ مِن ذَلِکُم مِّن شَیْْئٍ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یُشْرِکُونَ ﴾ الروم30 :40
’’ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا ، پھر تمھیں رزق دیا ، پھر تمھیں مارے گا اور پھر تمھیں زندہ کرے گا۔ تو کیا تمھارے شرکاء میں سے کوئی ایک شریک ایسا ہے جو ان کاموں میں سے کوئی کام کرتا ہو ؟ وہ پاک ہے اور ان کے شرک سے بلند وبالا ہے ۔‘‘
دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنی حکمت کے ساتھ جس کو چاہے زیادہ رزق عطا کرے اور جس کو چاہے کم رزق دے ، یہ بس اسی کا اختیار ہے ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَّعِیْشَتَہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا ﴾ الزخرف43 : 32
’’ ہم نے ہی ان کی روزی کو دنیاوی زندگی میں ان کے درمیان تقسیم کردیا ہے اور ہم نے ہی ان میں سے بعض کو بعض پر کئی درجے فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لے سکیں ۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا : ﴿ اَللّٰہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ یَقْدِرُ لَہٗ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ﴾ العنکبوت29:62
’’ اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جسے چاہے فراخ روزی دیتا ہے اور جسے چاہے تنگ ۔ یقینا اللہ تعالی ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے ۔ ‘‘
اور اللہ تعالی جنھیں کم رزق دیتا ہے انھیں کم دینے کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :
﴿ وَلَوْ بَسَطَ اللّٰہُ الرِّزْقَ لِعِبَادِہٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ وَلٰکِنْ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَآئُ اِِنَّہٗ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرٌ م بَصِیْرٌ ﴾ الشوری42 :27
’’ اور اگر اللہ اپنے بندوں کو وافر رزق عطا کردیتا تو یہ زمین میں سرکشی سے اودھم مچا دیتے ۔ مگر وہ ایک اندازے سے جتنا زرق چاہے نازل کرتا ہے ۔ یقینا وہ اپنے بندوں سے با خبر اور انھیں دیکھ رہا ہے ۔ ‘‘
تیسری بات یہ ہے کہ تمام خزانوں کی چابیاں صرف اللہ تعالی کے پاس ہیں ۔ لہٰذا اللہ تعالی ہی سے رزق طلب کرنا چاہئے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿وَإِن مِّن شَیْْئٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُہُ وَمَا نُنَزِّلُہُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ ﴾ الحجر15 :21
’’ کوئی بھی ایسی چیز نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں ۔ اور اسے ہم ایک معلوم مقدار کے مطابق ہی نازل کرتے ہیں ۔‘‘
اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا :
﴿إِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِِ اللّٰہِ لَا یَمْلِکُونَ لَکُمْ رِزْقاً فَابْتَغُوا عِندَ اللّٰہِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوہُ وَاشْکُرُوا لَہُ إِلَیْْہِ تُرْجَعُونَ ﴾ العنکبوت29 : 17
’’ اور جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو وہ تمھیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے ۔ لہذا تم اللہ ہی سے رزق مانگو ، اسی کی عبادت کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔ تم اسی کی طرف ہی لوٹائے جاؤ گے ۔‘‘
اور حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالی نے ارشاد فر مایا :
( یَا عِبَادِیْ! کُلُّکُمْ جَائِعٌ إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُہُ ، فَاسْتَطْعِمُونِیْ أُطْعِمْکُمْ )
’’ اے میرے بندو ! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے جس کو میں کھلاؤں ، لہٰذا تم مجھ سے کھانا طلب کرو، میں تمھیں کھلاؤں گا ۔ ‘‘
( یَا عِبَادِیْ ! کُلُّکُمْ عَارٍ إِلَّا مَنْ کَسَوْتُہُ ، فَاسَتَکْسُوْنِیْ أَکْسُکُمْ ۔۔۔۔۔)
’’ اے میرے بندو ! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے جس کو میں پہناؤں ، لہٰذا تم مجھ سے لباس طلب کرو ، میں تمھیں پہناؤں گا ۔ ‘‘
(۔۔۔۔۔۔ یَا عِبَادِیْ ! لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ ، وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ قَامُوْا فِیْ صَعِیْدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُوْنِیْ فَأَعْطَیْتُ کُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَہُ ، مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِمَّا عِنْدِیْ إِلَّا کَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ ) صحیح مسلم:2577
’’ اے میرے بندو ! تمھارے پہلے اور آخری لوگ ، سب انسان اور سب جِن اگر ایک جگہ پر اکٹھے کھڑے
ہوئے جائیں ، پھر وہ مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کو اس کی منشاء کے مطابق دے دوں تو اس سے میرے خزانوں میں کچھ بھی کمی واقع نہیں ہوگی ، سوائے اس کے کہ جیسے ایک سوئی سمندر کے پانی میں داخل کی جائے ، بس اتنی ہی کمی واقع ہوگی ۔ ‘‘
لہٰذا جو اللہ اتنے بڑے خزانوں کا مالک ہے ، بس اسی سے ہی رزق طلب کرنا چاہئے ۔
اِس تمہیدکے بعد اب آئیے رزق میں برکت کے اسباب بیان کرتے ہیں ۔
01. ایمان وعمل صالح
رزق میں برکت کے اسباب میں سے سب سے اہم سبب ہے : ایمان وعمل وصالح۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ
٭بندہ دل کی گہرائی سے اللہ رب العزت کی وحدانیت کو تسلیم کرے ۔اسے اس کی توحید ربوبیت ، توحید الوہیت اور توحید اسماء وصفات پر مکمل یقین ہو ۔
٭ بندے کو اس بات پر مکمل یقین ہو کہ تمام انبیاء ورسل علیہم السلام اللہ کے چنیدہ بندے ہیں ، جنھیں اللہ تعالی نے نبوت ورسالت کے منصب پر فائز فرمایا اور انھیں دین اسلام کے ساتھ مبعوث فرمایا ۔
٭ بندے کو اس پات پر بھی پختہ یقین ہو کہ فرشتے اللہ تعالی کی نوارنی مخلوق ہیں ۔ وہ اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں اور اللہ کے احکامات پر عمل کرتے ہیں اور اس کی نافرمانی نہیں کرتے ۔
٭ اسی طرح اسے اس بات پر بھی یقین کامل ہو کہ تمام آسمانی کتابیں اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ ہیں اوران میں اللہ تعالی کی وہ تعلیمات ہیں جو انسانوں کیلئے دستورِ حیات ہیں اور ان پر عمل کرکے انسان اللہ تعالی کی رضا کو حاصل کر سکتا ہے ۔
٭ بندے کو اس بات پر بھی مضبوط یقین ہو کہ یہ دنیا ایک دن ختم ہوجائے گی ، پھر قیامت کا دن قائم ہوگا ، جس میں تمام جن وانس کے بارے میں اللہ تعالی فیصلہ صادر فرمائے گا کہ کس کو جنت اور کس کوجہنم میں جاناہے ۔
٭ اسی طرح بندے کو اس بات پر بھی یقین کامل ہو کہ ہر قسم کی تقدیر اللہ تعالی کی طرف سے ہے ، خواہ اچھی یا بری ۔
٭ ایمان کے اِن چھ ارکان کا اقرار کرنے کے ساتھ ساتھ بندہ ان کے تقاضوں کو پورا کرے ۔
چنانچہ وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری کرے اور نافرمانی سے اجتناب کرے ۔
کتاب اللہ اور سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرے ، پھر انہی کی روشنی میں اپنی زندگی بسر کرے ۔
تمام اعمال ِ صالحہ کو اللہ تعالی کیلئے خالص کرے اور انھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کے مطابق سر انجام دے ۔
اِ س دنیا کو فانی تصور کرے اور اپنی زندگی میں آخرت کیلئے اعمال صالحہ کا ذخیرہ جمع کرے ۔
جو شخص اِس طرح ایمان کے ساتھ عمل صالح کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے رزق میں برکت دیتا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثیٰ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَجْرَہُمْ بِأَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ النحل16 :97
’’ جو شخص نیک عمل کرے ، مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ایمان والا ہو تو اسے ہم یقینا بہت ہی اچھی زندگی عطا کریں گے اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے ۔ ‘‘
’ اچھی زندگی ‘ میں رزق کی برکت بھی شامل ہے ۔
اس کے بر عکس اگر کوئی شخص بد عقیدہ ہو ، اس کے ایمان کے اندر خلل پایا جاتا ہو اور وہ بد عمل بھی ہو تو اس کے رزق میں برکت نہیں ہوتی ، چاہے وہ کتنا زیادہ کیوں نہ کماتا ہو ۔
جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمیٰ ٭ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْ أَعْمیٰ وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْرًا ٭ قَالَ کَذٰلِکَ أَتَتْکَ آیَاتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسیٰ﴾ طہ20 :124 ۔126
’’ اور جو شخص میرے ذکر سے روگردانی کرے گا وہ دنیا میں یقینا تنگ حال رہے گا اور روزِ قیامت ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے ۔ وہ کہے گا : اے میرے رب ! تو نے مجھے اندھا کرکے کیوں اٹھایا ہے ؟ دنیا میں تو میں خوب دیکھنے والا تھا ۔ اللہ کہے گا : اسی طرح تمھارے پاس میری آیتیں آئی تھیں تو تم نے انہیں بھلا دیا تھا اور اسی طرح آج تم بھی بھلا دئے جاؤ گے۔ ‘‘
02. تقوی
رزق میں برکت کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ’ تقوی ‘ ہے ۔ یعنی اللہ رب العزت کا ایسا خوف جو انسان کو اُس کی نافرمانی اور محرمات کے اجتناب سے روک دے ۔ اور اسے اللہ رب العزت کے احکامات پر عمل کرنے پہ آمادہ کرے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہُ مَخْرَجًا ٭ وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ ﴾ الطلاق65 :2 ۔3
’’ اور جو شخص اللہ تعالی سے ڈرتا رہے اللہ اس کیلئے مشکلات سے نکلنے کی کوئی نہ کوئی راہ پیدا کردیتا ہے۔ اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہیں ہوتا ۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا : ﴿ وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُریٰ آمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْأَرْضِ﴾ الأعراف7 :96
’’ اور اگر یہ بستیوں والے ایمان لاتے اور اللہ کی نافرمانی سے بچتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات (کے دروازے) کھول دیتے ۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا : ﴿ وَ لَوْ اَنَّ اَھْلَ الْکِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَ لَاَدْخَلْنٰھُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ٭ وَ لَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ﴾ المائدۃ5 :65۔66
’’ اگر اہل کتاب ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ان سے ان کی برائیوں کو مٹا دیتے اور انھیں نعمتوں والے باغات میں داخل کردیتے ۔ اور اگر وہ توراۃ وانجیل اور جو کچھ ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ، اس پر عمل پیرا رہتے تو وہ اپنے اوپر سے بھی کھاتے اور اپنے پیروں کے نیچے سے بھی ۔ ‘‘
عزیزان گرامی ! ’تقوی ‘ کا تقاضا یہ ہے کہ بندۂ مومن حلال کمائے اور خود بھی حلال کھائے اور اپنے زیر کفالت افراد کو بھی حلال ہی کھلائے ۔ اور حرام کمائی کے تمام ذرائع سے اجتناب اور پرہیز کرے ۔ تب اُس کے رزق میں برکت آئے گی ۔ ورنہ اگر کوئی شخص حلال وحرام میں کوئی فرق نہ کرے اور حلال کے ساتھ حرام کی بھی ملاوٹ کرے تو اس کے رزق سے برکت اٹھ جاتی ہے ۔
چنانچہ وہ لوگ جو رشوت لیتے ہیں ، یا خیانت کرتے ہیں ، یا چوری کرتے ہیں ، یا ڈاکہ زنی کرتے ہیں ، یا قرضہ دے کر سود لیتے ہیں ، یا مختلف ساز وسامان ادھار پر لے کر اس کی قیمت ادا کرنے سے انکار کردیتے ہیں ، یا قرضہ لے کر اسے واپس نہیں لوٹاتے ، تو ایسے لوگوں کا رزق یقینی طور پر برکت سے خالی ہوتا ہے۔
اسی طرح وہ لوگ جو لین دین کے معاملات میں جھوٹ بولتے ہیں ، یا دھوکہ دیتے ہیں ، یا فراڈ کرتے ہیں، یا جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں ، یا ماپ تول میں کمی بیشی کرتے ہیں ، یا اشیائے خورد ونوش میں ملاوٹ کرتے ہیں ۔۔۔۔
ایسے تمام لوگوں کے رزق میں بھی برکت نہیں رہتی ۔
اسی طرح وہ سرکاری اورپرائیویٹ ملازمین جو دیانت داری سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے ، بلکہ اپنی ڈیوٹی کے اوقات میں دیگر فضول کاموں میں لگے رہتے ہیں ، اپنے موبائلوں پر گیمیں کھیلتے رہتے ہیں یا نیٹ چلا کر سوشل میڈیا میں مشغول رہتے ہیں ، یا اپنے ذمہ داروں کی اجازت کے بغیر اِدھر اُدھر چلے جاتے ہیں ۔۔۔۔ تو ایسے لوگوں کے رزق سے بھی برکت اٹھا لی جاتی ہے ۔
آئیے ’ تقوی ‘ کا ایک اعلی نمونہ آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ایک غلام ایک دن کھانے کی کوئی چیز لے کر آیا تو انھوں نے اس میں سے کچھ کھا لیا ۔ پھر غلام نے کہا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ جو کچھ آپ نے کھایا ہے یہ کہاں سے آیا ہے ؟ انھوں نے پوچھا : کہاں سے آیا ہے ؟ اس نے کہا :
(کُنْتُ تَکَہَّنْتُ لِإِنْسَانٍ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، وَمَا أُحْسِنُ الْکَہَانَۃَ إِلَّا أَنِّی خَدَعْتُہُ )
’’میں نے جاہلیت کے دور میں ایک آدمی کیلئے کہانت کی تھی ۔ میں کہانت جانتا تو نہ تھا البتہ میں اسے دھوکہ دینے میں کامیاب ہو گیا ۔ ‘‘
آج اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے اُس کہانت کے بدلے میں یہی کھانا مجھے پیش کیا جس سے آپ نے بھی کھایا ہے !
چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اپنے منہ میں داخل کیا اور کوشش کرکے جو کچھ ان کے پیٹ میں تھا اسے قے کر ڈالا ۔ صحیح البخاری:3842
یہ ہے تقوی ! یہ ہے پرہیز گاری ! اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو بھی اپنا خوف اور ڈر نصیب کرے اور تمام محرمات سے بچنے کی توفیق دے ۔
03. تلاوت ِ قرآن مجید
رزق میں برکت کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہے : قرآن مجید کی تلاوت ۔ کیونکہ اللہ تعالی کی یہ کتاب بابرکت ہے ۔ لہٰذا جو بھی اسے پڑھے گا اسے اس کی برکت نصیب ہوگی ۔ اس کی زندگی میں برکت آئے گی ۔ اس کے اہل وعیال میں برکت آئے گی ۔ اور اس کا رزق بھی بابرکت ہوگا ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿وَہَذَا کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ فَاتَّبِعُوہُ وَاتَّقُوا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ﴾ الأنعام6 :155
’’ یہ کتاب جو ہم نے نازل کی ہے یہ بڑی با برکت ہے ۔ لہذا تم اس کی اتباع کرو اور ( اللہ تعالی سے) ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا:﴿کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْا آیَاتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُوْا الْأَلْبَابِ﴾ ص38 :29
’’ یہ کتاب بابرکت ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل فرمایا ہے کہ وہ اس کی آیتوں میں غور وفکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں ۔ ‘‘
آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنے قیمتی اوقات میں سے کئی کئی گھنٹے فضول چیزوں میں برباد کر دیتے ہیں ۔ مثلا ٹی وی ، موبائل فون اور اسی طرح دوستوں کے ساتھ فضول محفلیں وغیرہ ۔
حالانکہ جن قیمتی ا وقات کو ہم ان چیزوں میں ضائع کردیتے ہیں ان میں اگر ہم قرآن مجید کی تلاوت اور اس کا ترجمہ اور اس کی تفسیر پڑھیں تو ہماری زندگی اور ہمارے رزق میں بڑی برکت آسکتی ہے ۔
04. شکر ِ باری تعالی
رزق میں برکت کے اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ ہے کہ اللہ تعالی جتنا رزق عطا کرے ، تھوڑا ہو یا زیادہ ، اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا جائے اور اس کی نا شکری نہ کی جائے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ ﴾ إبراہیم14 :7
’’ اور یاد رکھو ! تمھارے رب نے خبردار کردیا تھا کہ اگر شکر گذار بنو گے تو میں تمھیں اور زیادہ نوازوں گا ۔ اور اگر ناشکری کروگے تو پھر میری سزا بھی بہت سخت ہے ۔ ‘‘
لہٰذا ہم میں سے ہر ایک کو ہر حال میں اللہ رب العزت کا شکر گزار ہونا چاہئے ۔ اگر ہم اللہ رب العزت کے شکر گزار بنیں گے تو اللہ تعالی ہمارے رزق میں برکت بھی دے گا اور اپنے فضل وکرم کے ساتھ مزید بھی عطا کرے گا ۔
05. اللہ تعالی پر توکل
رزق میں برکت کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے : اللہ تعالی پر توکل اور بھروسہ ۔ یعنی انسان رزق
حلال کیلئے جو بھی جائز وسیلہ اختیار کرے اس پر بھروسہ نہ کرے ، بلکہ اللہ تعالی پر بھروسہ کرے ، تو اللہ تعالی اسے ضرور رزق دے گا اور اس میں برکت بھی نصیب کرے گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
( لَوْ أنَّکُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ حَقَّ تَوَکُّلِہٖ لَرَزَقَکُمْ کَمَا یَرْزُقُ الطَّیْرَ ، تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا) جامع الترمذی : 2344 ، وسنن ابن ماجہ :4164۔ وصححہ الألبانی
’’ اگر تم اللہ پر اس طرح بھروسہ کرو جس طرح بھروسہ کرنے کا حق ہے تو وہ تمھیں ایسے ہی رزق دے گا جیسے وہ پرندوں کو رزق دیتا ہے جو صبح کے وقت خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کے وقت پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔‘‘
06. دعا کرنا
رزق میں برکت کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے : اللہ تعالی سے رزق میں برکت کی دعا کرنا ۔
جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یوں دعا فرماتے تھے :
( اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ مَدِیْنَتِنَا ، وَفِیْ ثِمَارِنَا ، وَفِیْ مُدِّنَا وَفِیْ صَاعِنَا ) صحیح مسلم : 1373
’’ اے اللہ ! ہمارے لئے ہمارے شہر کو با برکت بنا دے ۔ اور ہمارے پھلوں میں بھی برکت ڈال دے ۔ اور ہمارے ( ماپ تول کے پیمانوں 🙂 مُدّ اور صاع میں بھی برکت ڈال دے ۔ ‘‘
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک صحابی کے ہاں مہمان بنے اور کھانا کھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیلئے یوں دعا فرمائی :
( اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَہُمْ فِیْمَا رَزَقْتَہُمْ وَاغْفِرْ لَہُمْ وَارْحَمْہُمْ ) صحیح مسلم : 2042
’’ اے اللہ ! انھیں تو نے جو کچھ دیا ہے اس میں برکت دے اور ان کی مغفرت کر اور ان پر رحم فرما ۔ ‘‘
07. اللہ کے راستے میں خرچ کرنا
رزق میں برکت کے اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو جو کچھ دے رکھا ہے ، چاہے وہ تھوڑا ہو یا زیادہ ، اس میں سے حسب توفیق اللہ تعالی کے راستے میں خرچ کریں ۔ یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں ، فقراء ، مساکین اور ضرورتمند لوگوں پر خرچ کریں ۔
آپ اللہ تعالی کی رضا کی خاطر جو کچھ خرچ کریں گے ، اللہ تعالی اس کی جگہ پر آپ کو اور عطا کردے گا ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَیْْئٍ فَہُوَ یُخْلِفُہُ وَہُوَ خَیْْرُ الرَّازِقِیْنَ ﴾ سبأ34 :39
’’ اور تم جو کچھ خرچ کرتے ہو وہ اس کی جگہ پرتمھیں اور دے دیتا ہے۔اور وہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہے ۔‘‘
اورجو شخص اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے اس کیلئے فرشتے مزید مال کی دعا کرتے ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( مَا مِنْ یَوْمٍ یُصْبِحُ الْعِبَادُ فِیْہِ إِلَّا وَمَلَکَانِ یَنْزِلَانِ یَقُوْلُ أَحَدُہُمَا: اَللّٰہُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا ، وَیَقُوْلُ الْآخَرُ : اَللّٰہُمَّ أَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا ) صحیح البخاری :1442، صحیح مسلم :1010
’’ ہر دن صبح کو دو فرشتے نازل ہوتے ہیں ، ان میں سے ایک دعا کرتے ہوئے کہتا ہے: اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو اور مال عطا کر ۔ اور دوسرا کہتا ہے : اے اللہ ! خرچ نہ کرنے والے کا مال تباہ کردے ۔ ‘‘
08. صبح کے بابرکت وقت میں رزق حلال کیلئے کوشش کرنا
رزق میں برکت کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب یہ ہے کہ آپ روزانہ فجر کی نماز با جماعت ادا کریں ، اس کے بعد صبح کے بابرکت وقت کو غنیمت تصور کریں اور اس میں رزق حلال کیلئے سعی اور جد وجہد کریں۔ اس سے یقینا آپ کی کمائی میں برکت آئے گی ۔
کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کیلئے صبح کے وقت میں برکت کی دعا فرمائی تھی ۔
صخر الغامدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لِأُمَّتِیْ فِیْ بُکُوْرِہَا ) سنن أبی داؤد : 2606، جامع الترمذی : 1212۔ وصححہ الألبانی
’’ اے اللہ ! میری امت کے صبح کے اوقات میں برکت دے ۔ ‘‘
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی لشکر کو روانہ کرتے تو دن کے ابتدائی حصے میں روانہ کرتے ۔ اور صخر رضی اللہ عنہ ایک تاجر آدمی تھے اور اپنا تجارتی سامان دن کے شروع میں بھیجا کرتے تھے ۔ اس طرح وہ بہت مالدار ہوگئے ۔
09. خرید وفروخت میں سچ بولنا اور جھوٹ سے اجتناب کرنا
خرید وفروخت میں سچ بولنے کی بناء پر اللہ تعالی رزق میں برکت دیتا ہے اور جھوٹ بولنے کی بناء پر اس کی
برکت کو مٹا دیتا ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ( اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا ، فَإِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُوْرِکَ لَہُمَا فِیْ بَیْعِہِمَا ، وَإِنْ کَذَبَا وَکَتَمَا مُحِقَتْ بَرَکَۃُ بَیْعِہِمَا ) صحیح البخاری :1973، صحیح مسلم :1532
’’ خریدار اور بیچنے والے کو جدا ہونے تک اختیار ہے کہ وہ چاہیں تو سودا طے کر لیں اور اگر چاہیں تو اسے منسوخ کردیں ۔ اگر وہ دونوں سچ بولیں اور ہر چیز کو کھول کر بیان کر دیں تو ان کے سودے میں برکت آئے گی ۔ اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور کسی بات کو چھپائیں تو ان کے سودے میں برکت ختم ہو جائے گی۔‘‘
اسی طرح اگر دو یا اس سے زیادہ لوگ مل کر کاروبار کرتے ہوں ، تو ان میں سے ہرشریک اگر ایک دوسرے کا خیرخواہ ہو اور وہ سب مکمل دیانتداری سے تمام معاملات کو چلائیں تو اللہ تعالی ان کے رزق میں برکت دیتا ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَقُولُ : أَنَا ثَالِثُ الشَّرِیْکَیْنِ مَا لَمْ یَخُنْ أَحَدُہُمَا صَاحِبَہُ ، فَإِذَا خَانَہُ خَرَجْتُ مِنْ بَیْنِہِمْ ) سنن أبی داؤد : 3383۔ وحسنہ الألبانی
’’ اللہ تعالی فرماتا ہے : میں دو شریکوں کا تیسرا ہوتا ہوں ، جب تک ان میں سے کوئی ایک اپنے ساتھی کی خیانت نہ کرے ۔ پھر اگر کوئی خیانت کرے تو میں ان کے بیچ میں سے نکل جاتا ہوں ۔ ‘‘
10. لالچ سے بچنا
رزق میں برکت کے اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ ہے کہ اللہ تعالی آپ کو جو کچھ عطا کرے ، اسے آپ خوش دلی سے قبول کریں اور مزید مال کے لالچ سے بچیں ۔
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( مال ) طلب کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عطا کیا ۔ میں نے پھر مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر عطا کیا ۔ میں نے پھر مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر عطا کیا۔اور فرمایا :
( یَا حَکِیْمُ ! إِنَّ ہَذَا الْمَالَ خَضِرَۃٌ حُلْوَۃٌ ، فَمَنْ أَخَذَہُ بِسَخَاوَۃِ نَفْسِہٖ بُوْرِکَ لَہُ فِیْہِ ، وَمَنْ أَخَذَہُ
بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ یُبَارَکْ لَہُ فِیْہِ کَالَّذِیْ یَأْکُلُ وَلَا یَشْبَعُ ) صحیح البخاری :1472، صحیح مسلم : 1035
’’ اے حکیم ! بے شک یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے ۔ لہٰذا جو شخص اسے اپنے نفس کی سخاوت کے ساتھ ( بغیر لالچ اور بغیر مانگے )لے تو اس میں برکت ڈال دی جاتی ہے ۔ اور جو شخص اسے اپنے نفس کی لالچ کے ساتھ لے تو اس میں برکت نہیں ڈالی جاتی۔ اور وہ اُس شخص کی طرح ہوتا ہے جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا ۔ ‘‘
مال کا لالچ اس قدر خطرناک ہے اور اس سے اتنا نقصان ہوتا ہے کہ جتنا دو بھوکے بھیڑیوں کو بکریوں کے ریوڑ میں آزاد چھوڑنے سے نہیں ہوتا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِی غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَہَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْئِ عَلَی الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِیْنِہِ ) جامع الترمذی : 2376 ۔ قال الألبانی : صحیح
’’ ایسے دو بھوکے بھیڑیے جنھیں بکریوں میں چھوڑ دیا جائے وہ ان میں اتنی خرابی نہیں کرتے جتنی خرابی مال اور جاہ ومنصب پر بندے کی لالچ کی وجہ سے اس کے دین میں ہوتی ہے ۔ ‘‘
11. بر الوالدین اور صلہ رحمی
یعنی والدین سے اچھا سلوک کرنا اور رشتہ داروں سے خوشگوارتعلقات قائم کرنا۔اس کے ذریعے بھی اللہ تعالی رزق میں برکت دیتا ہے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( مَنْ سَرَّہُ أَنْ یُّمَدَّ لَہُ فِیْ عُمُرِہٖ ، وَیُزَادَ فِیْ رِزْقِہٖ فَلْیَبَرَّ وَالِدَیْہِ وَلْیَصِلْ رَحِمَہُ ) مسند أحمد : 13425۔ صححہ الأرناؤط ، وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب :2488
’’ جس شخص کو یہ بات اچھی لگتی ہو کہ اس کی عمر لمبی کر دی جائے اور اس کے رزق میں اضافہ کردیا جائے تو وہ والدین سے اچھا برتاؤ کرے اور اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرے ۔ ‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( مَنْ أَحَبَّ أَن یُّبْسَطَ لَہُ فِیْ رِزْقِہٖ وَأَن یُّنْسَأَ لَہُ فِیْ أَثَرِہٖ فَلْیَصِلْ رَحِمَہُ )
’’ جس آدمی کو یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں فراوانی کردی جائے اور اس کی موت کو مؤخر کردیا جائے تو وہ صلہ رحمی کرے ۔ ‘‘ صحیح البخاری : 5985 ، صحیح مسلم :2557
12. زیادہ سے زیادہ توبہ واستغفار کرنا
توبہ واستغفار کے فوائد بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے :
﴿ فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ إِنَّہُ کَانَ غَفَّارًا ٭ یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا ٭ وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنَّاتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ أَنْہَارًا﴾ نوح71 :10 ۔12
’’ پس میں ( نوح علیہ السلام )نے کہا : تم سب اپنے رب سے معافی مانگ لو ۔ بلا شبہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے ۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا ، مال اور بیٹوں سے تمھاری مدد کرے گا ، تمھارے لئے باغات پیدا کرے گا اور نہریں جاری کردے گا ۔ ‘‘
اِن آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ توبہ واستغفار کرنے سے اللہ تعالی بندے کے رزق میں برکت اور اسے خوشحالی نصیب کرتا ہے ۔
آخر میں اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں با برکت رزق نصیب کرے ۔اور رزق کی بے برکتی سے محفوظ رکھے ۔
دوسرا خطبہ
عزیزان گرامی ! رزق میں برکت کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے :
13. قناعت
یعنی اللہ رب العزت جس شخص کو جو کچھ دے ، وہ اس پر قناعت کرے ۔ اور اُس کثرت ِ مال کی طلب سے اجتناب کرے جو اسے اللہ سے غافل کردے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُ ٭ حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ﴾ التکاثر102 : 1۔2
’’ تمھیں کثرت ( زیادہ مال کی چاہت ) نے غافل کردیا ہے ، یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے ۔ ‘‘
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
( یَقُولُ ابْنُ آدَمَ : مَالِیْ ، مَالِیْ ، وَہَلْ لَّکَ یَا ابْنَ آدَمَ مِن مَّالِکَ إِلَّا مَا أَکَلْتَ فَأَفْنَیْتَ، أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَیْتَ ، أَوْ تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَیْتَ ) صحیح مسلم :2958
’’ ابن آدم کہتا ہے : میرا مال ، میرا مال ! حالانکہ تیرا مال اے آدم کے بیٹے ! صرف وہی ہے جو تم نے کھا لیا اور فنا کردیا ، یا جو پہن لیا اور پرانا کردیا ، یا جو صدقہ کیا اور اسے قیامت تک اپنے لئے باقی رکھا ۔ ‘‘
لہٰذا مومن کو اللہ رب العزت کے دئیے ہوئے رزق پر قناعت کرنی چاہئے اور اُس ’تکاثر ‘ سے اجتناب کرنا چاہئے جو اسے دین سے غافل کردے ۔ اِس طرح اس کے رزق کو اللہ تعالی بابرکت بنا دے گا ۔
’ تکاثر ‘ کی چاہت اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان اپنے سے زیادہ مالدار کو دیکھتا ہے اور خواہش کرتا ہے کہ کاش میں بھی اس کی طرح مالدار ہوتا ، پھر وہ تگ ودو شروع کردیتا ہے اور دین سے بالکل غافل ہوجاتا ہے۔ حالانکہ انسان کو اُس آدمی کی طرف دیکھنا چاہئے جو اس سے مالی لحاظ سے کم تر ہو ۔ اور اُس آدمی کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے جو مالی طور پر اس سے زیادہ مضبوط ہو ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
( اُنْظُرُوْا إِلیٰ مَنْ ہُوَ أَسْفَلَ مِنْکُمْ ، وَلَا تَنْظُرُوا إِلیٰ مَنْ ہُوَ فَوْقَکُمْ ، فَإِنَّہُ أَجْدَرُ أَن لَّا تَزْدَرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ ) صحیح مسلم ۔ الزہد والرقائق :2963
’’ تم اس شحص کی طرف دیکھو جو ( دنیاوی اعتبار سے ) تم سے کم تر ہو ۔ اور اس شخص کی طرف مت دیکھو جو ( دنیاوی اعتبار سے ) تم سے بڑا ہو کیونکہ اس طرح تم اللہ کی نعمتوں کو حقیر نہیں سمجھو گے ۔ ‘‘
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص اپنے سے کم تر انسان کی طرف دیکھے گا وہ اللہ کی ان نعمتوں کو حقیر نہیں سمجھے گا جو اس نے اسے عطا کررکھی ہیں ۔ اور ان نعمتوں میں سے تین نعمتیں ایسی ہیں کہ جو کسی کے پاس موجود ہوں تو اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ گویا اللہ تعالی نے اس کیلئے پوری دنیا جمع کردی ہے اور وہ ہیں : صحت ، امن اور ایک دن کی خوراک ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
( مَنْ أَصْبَحَ مِنْکُمْ مُعَافیً فِیْ جَسَدِہٖ ، آمِنًا فِیْ سِرْبِہٖ ، عِنْدَہُ قُوْتُ یَوْمِہٖ فَکَأَنَّمَا حِیْزَتْ لَہُ الدُّنْیَا ) جامع الترمذی :2346 ، سنن ابن ماجہ : 4141 ۔ وحسنہ الألبانی
’’ تم میں سے جو شخص صبح کے وقت تندرست ہو ، اپنے آپ میں پر امن ہو اور اس کے پاس ایک دن کی خوراک موجود ہو تو گویا اُس کیلئے پوری دنیا کو جمع کردیا گیا ۔ ‘‘
آئیے ایک واقعہ سماعت کیجئے ، جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کس طرح ’قانع ‘تھے ، باوجود اس کے کہ ان کے پاس بہت زیادہ مال نہ تھا ۔
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے ان سے کہا :
کیا ہم فقراء مہاجرین میں سے نہیں ہیں ؟
تو انھوں نے اس سے پوچھا : کیا تیری بیوی ہے جس کے پاس جا کر تو آرام کرتا ہے ؟
اس نے کہا : جی ہاں ، ہے ۔
تو انھوں نے اس سے پوچھا : کیا تیرا گھرہے جس میں تو رہائش پذیر ہے ؟
اس نے کہا : جی ہاں ، ہے ۔
تو انھوں نے کہا : تب تو تُو مالدارلوگوں میں سے ہے ۔
تو اس نے کہا : میرے پاس ایک خادم بھی ہے ۔
تو انھوں نے کہا : تب تو تُو بادشاہوں میں سے ہے ۔ صحیح مسلم:2979
اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن یا ایک رات رسول اکرم گھر سے نکلے ، تو دیکھا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ موجود ہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا :
( مَا أَخْرَجَکُمَا مِنْ بُیُوْتِکُمَا ہَذِہِ السَّاعَۃ ؟ )
’’ تمھیں اِس وقت کس چیز نے گھر سے نکلنے پر مجبور کیا ؟ ‘‘
تو انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! بھوک نے ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( وَأَنَا وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَأَخْرَجَنِیْ الَّذِیْ أَخْرَجَکُمَا ، قُوْمُوْا )
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! مجھے بھی اسی چیز نے نکلنے پہ مجبور کیا ہے جس نے تمھیں نکالا ہے ۔ چلو کھڑے ہو جاؤ ۔ ‘‘
چنانچہ وہ سب کھڑے ہوئے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری صحابی کے گھر تشریف لے گئے ، جہاں وہ موجود نہ تھے ۔ ان کی بیوی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا تو اس نے ( مرحبا وأہلا ) یعنی خوش آمدید کہا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: فلاں کہاں ہے ؟ تو اس نے بتایا کہ وہ ہمارے لئے پانی لینے گئے ہوئے ہیں ۔
اس کے بعدوہ انصاری صحابی آگئے ، انھوں نے اپنے گھر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھیوں کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے ۔ اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا : آج کے دن مہمانوں کے لحاظ سے مجھ سے زیادہ خوش نصیب کوئی نہیں ہے ۔ پھر وہ گئے اور کھجور کے درخت سے ایک گُچھا توڑ کر لے آئے جس پر تازہ کھجور بھی تھی اور پرانی( سوکھی ہوئی ) بھی ۔ اس نے کہا : اس میں سے کھائیے ۔ پھر اس نے چھری پکڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( إِیَّاکَ وَالْحَلُوْبَ ) ’’ دودھ والی بکری مت ذبح کرنا ۔ ‘‘
چنانچہ اس نے ایک بکری ذبح کی ، انھوں نے اس کا گوشت کھایا ، کھجور تناول کی اور پانی پیا ۔ جب پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا اور پیاس بھی بجھا لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے کہا :
(وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَتُسْأَلُنَّ عَنْ ہَذَا النَّعِیْمِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، أَخْرَجَکُمْ مِنْ بُیُوْتِکُمُ الْجُوْعُ ، ثُمَّ لَمْ تَرْجِعُوْا حَتّٰی أَصَابَکُمْ ہَذَا النَّعِیْمُ ) صحیح مسلم:2038
’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم سے ان نعمتوں کے بارے میں قیامت کے دن ضرورپوچھا جائے گا ۔ تمھیں بھوک نے گھروں سے نکلنے پہ مجبور کیا ، پھر تم واپس نہیں لوٹے یہاں تک کہ تمھیں یہ نعمتیں مل گئیں ۔ ‘‘
یہ واقعہ بھی اِس بات کی دلیل ہے کہ اللہ رب العزت کی دی ہوئی نعمتوں پرانسان کو قناعت اختیار کرنی چاہئے ۔ یوں اس کے رزق میں برکت آئے گی اور اس کی زندگی بڑے اطمینان سے گزرے گی ۔
آخر میں ایک بار پھر اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم سب کے رزق میں برکت دے ۔ اور ہمیں دنیا وآخرت کی ہر خیر وبھلائی نصیب کرے اور ہر شر سے محفوظ رکھے ۔ آمین