اپنے آپ کو بدعات سے کیسے بچائیں
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ.(آل عمران : 85)
اور جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں سے ہوگا۔
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
(مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ ) [ مسلم : ١٨/١٧١٨ ]
” جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔
دین اسلام اللہ تعالٰی کا پسندیدہ اور منتخب دین ہے جسے اللہ تعالٰی نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے نازل کیا ہے، اور اس کی حفاظت کی بھی اللہ تعالٰی نے خود ذمہ داری لی ہے فرمایا کہ ہم نے ہی اسے نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں یہی وجہ ہے کہ آج کئی صدیاں گزرنے کے باوجود اسلام کی اصل شکل بغیر کسی تغیر و تبدل کے ہمارے پاس موجود ہے اور یہ بالکل صاف، روشن اور واضح دین ہے اتنا روشن کہ اس کی رات بھی اس کے دن کی طرح عیاں ہے
لیکن افسوس کہ برصغیر پاک و ہند میں بعض لوگوں نے اسلام کے اصلی چہرہ کو مسخ کرنے کے لیے اس میں بہت سی بدعات و خرافات داخل کردی ہیں
جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ بدعات سے گرا ہوا ہے ہر طرف بدعات ہی بدعات نظر آتی ہیں اور مسلسل زور پکڑتی جا رہی ہیں، نا چاہتے ہوئے بھی ان بدعی مناظر کا سامنا کرنا پڑتا ہے بالخصوص محرم اور ربیع الاول کے مہینے میں تو بدعات کی بھرمار ہوتی ہے
ایسے حالات اور بدعی ماحول میں اپنے آپ کو ان خرافات سے کیسے بچایا جا سکتا ہے اس کے لیے آج کے خطبہ میں ہم چند اہم عوامل کا تذکرہ کرتے ہیں
1⃣ بدعات سے بچنے کا عزم مصمم اورپختہ کوشش کریں
کیونکہ آدمی جس چیز کی نیت اور کوشش کرتا ہے وہ چیز اسے مل جاتی ہے
قرآن میں ہے
وَاَنۡ لَّيۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ.(النجم – آیت 39)
اور یہ کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی۔
مزید فرمایا
وَمَنۡ اَرَادَ الۡاٰخِرَةَ وَسَعٰى لَهَا سَعۡيَهَا وَهُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰۤٮِٕكَ كَانَ سَعۡيُهُمۡ مَّشۡكُوۡرًا.(الإسراء – آیت 19)
اور جس نے آخرت کا ارادہ کیا اور اس کے لیے کوشش کی، جو اس کے لائق کوشش ہے، جبکہ وہ مومن ہو تو یہی لوگ ہیں جن کی کوشش ہمیشہ سے قدر کی ہوئی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
"”يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ، وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى (بخاری 6953)
اے لوگو! اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی وہ نیت کرے گا ۔
اگر ہم خلوص نیت سے صراط مستقیم اور بدعات سے پاک اسلام کے متلاشی ہونگے تو اللہ تعالٰی ضرور ہماری مدد کریں گے
فرمایا
وَالَّذِيۡنَ جَاهَدُوۡا فِيۡنَا لَنَهۡدِيَنَّهُمۡ سُبُلَنَا ؕ وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ.(العنكبوت – آیت 69)
اور وہ لوگ جنھوں نے ہمارے بارے میں پوری کوشش کی ہم ضرور ہی انھیں اپنے راستے دکھادیں گے اور بلاشبہ اللہ یقینا نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی تلاش حق کے لیے کوششیں اور جد و جہد ہمارے لیے بہترین مشعل راہ ہیں
2⃣ بدعات و خرافات سے بچنے کے لیے اللہ تعالٰی سے عافیت، سیدھے راستے اور ھدائت کی دعا کرتے رہیں
اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ
اے اللہ ❗ ھدائت یافتہ لوگوں میں مجھے بھی ھدائت عطا فرما، ترمذی
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالسَّدَادَ
اے اللہ ❗مجھے تجھ سے ھدائت اور درستگی کا سوال کرتا ہوں، مسلم
رَبِّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ
اے میرے رب ❗اپنا ذکر، شکر اور اچھی عبادت کرنے کے لیے میری مدد فرما
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ
اے ہمارے رب ❗ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔
رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ هَدَيۡتَنَا وَهَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ رَحۡمَةً ۚ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡوَهَّابُ.(آل عمران – آیت 8)
اے ہمارے رب ❗ ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر، اس کے بعد کہ تو نے ہمیں ہدایت دی اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بیشک تو ہی بےحد عطا کرنے والا ہے۔
ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے
( یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ! ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ ) [ ترمذی : ٣٥٢٢، وصححہ الألبانی ]
” اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔ “
3⃣ قرآن و حدیث کا مطالعہ اور علم میں پختگی حاصل کریں
کیونکہ فتنوں اور بدعات سے وہی بچ سکتا ہے جو صحیح معنوں میں قرآن و حدیث کا عالم ہوگا
اس لیے کہ عالم کبھی بھی کسی شریعت بگاڑنے والے، فراڈیے کے دجل اور دھوکے میں نہیں آ سکتا
جیسا کہ مدینہ کے یہود نے جب غلط بیانی کرتے ہوئے تورات کا( رجم والا )مسئلہ بدلنے اور اس کی جگہ ایک نئ چیز پیدا کرنے کی کوشش کی تو تورات کے عالم، صحابی رسول عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فوراً ان کی اس سازش کو بے نقاب کیا تھا
اللہ تعالٰی نے فرمایا
ؕ اِنَّمَا يَخۡشَى اللّٰهَ مِنۡ عِبَادِهِ الۡعُلَمٰٓؤُا.(فاطر – آیت 28)
اللہ سے تو اس کے بندوں میں سے صرف جاننے والے ہی ڈرتے ہیں، بیشک اللہ سب پر غالب، بےحد بخشنے والا ہے۔
اللہ تعالٰی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو علم کی دعا کرنے کا حکم دیا
فرمایا
وَقُلْ رَّبِّ زِدۡنِىۡ عِلۡمًا.(طه – آیت 114)
اور کہہ اے میرے رب ❗مجھے علم میں زیادہ کر۔
لھذا ترجمة و تفسیر قرآن پڑھیں،
بخاری و مسلم و دیگر احادیث کا مطالعہ کریں
بنی اسرائیل بہت سی بدعات و خرافات میں لتھڑے ہوئے تھے لیکن ان میں سے بھی بدعات و خرافات سے بچتے ہوئے صراط مستقیم کا راہی وہی بن سکا جو راسخ فی العلم تھا
قرآن نے بھی اس بات کا تذکرہ کیا ہے
فرمایا
لٰـكِنِ الرّٰسِخُوۡنَ فِى الۡعِلۡمِ مِنۡهُمۡ وَالۡمُؤۡمِنُوۡنَ يُـؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ وَمَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِكَ (نساء 62)
لیکن ان( یہود)میں سے وہ لوگ جو علم میں پختہ ہیں اور جو مومن ہیں، وہ اس پر ایمان لاتے ہیں جو تیری طرف نازل کیا گیا اور جو تجھ سے پہلے نازل کیا گیا
4⃣ ہر مسئلے کا حل صرف اللہ اور اس کے رسول کے پاس تلاش کریں
عوام الناس کی اکثریت کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اپنے شرعی ماخذ و مصدر کا ہی علم نہیں ہے بدعات میں واقع ہونے کا بہت بڑا سبب یہ ہے کہ انہیں یہ ہی معلوم نہیں ہے کہ ہم نے دینی، شرعی مسائل کہاں سے لینے ہیں، اکثر لوگ علامہ اقبال، قائد اعظم، عبد القادر جیلانی(ان کی عزت و تکریم اپنی جگہ) اور ہر جبہ پوش، زرق برق لباس والے کے اعمال کو دین سمجھ رہے ہوتے ہیں
خود میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تھا کہ جب میں نے ایک بزرگ کو داڑھی رکھنے کا کہا تو انہوں نے آگے سے جواب دیا داڑھی کون سی ضروری ہے، علامہ اقبال اور قائد اعظم کی بھی تو داڑھی نہیں تھی، الغرض ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ شارع( جس کے احکامات شریعت بنتے ہیں )کون ہے
اللہ تعالٰی کا حکم ہے کہ صرف وحی کی پیروی کرو اور یہی دین ہے
فرمایا
اِتَّبِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكُمۡ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ وَلَا تَتَّبِعُوۡا مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اَوۡلِيَآءَ ؕ قَلِيۡلًا مَّا تَذَكَّرُوۡنَ.(الأعراف – آیت 3)
اس کے پیچھے چلو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا اور دوستوں کے پیچھے مت چلو۔ بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو۔
ایک اور مقام پر فرمایا
فَاسۡتَمۡسِكۡ بِالَّذِىۡۤ اُوۡحِىَ اِلَيۡكَ ۚ.(الزخرف – آیت 43)
پس تو اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھ جو تیری طرف وحی کیا گیا ہے،
قرآن و حدیث کو چھوڑ کر کسی تیسرے کے پاس جانے کی ضرورت بھی کیا ہے
(اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ ) [ المائدۃ : ٣ ]
کے مطابق دین کا ہر مسئلہ قرآن و حدیث میں موجود ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
مَا بَقِيَ شَيْءٌ يُقَرِّبُ مِنَ الْجَنَّةِ، ويُبَاعِدُ مِنَ النَّارِ، إِلا وَقَدْ بُيِّنَ لَكُمْ. سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ 2488
کوئی چیز ایسی باقی نہیں بچی جو جنت سے قریب کر دے اور جہنم سے دور کر دے مگر میں نے تمہارے سامنے اسے بیان کر دیا ہے۔
قرآن و سنت کے مقابلے میں کسی کی بات مت مانو، خواہ وہ کتنا ہی بڑا امام، بزرگ، محقق یا دانش ور ہو، ہر ایک کی بات کو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔
ایک دفعہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ لوگوں سے مسئلے بیان کر رہے تھے اور آپ ہر مسئلے کی دلیل میں کہتے تھے قال اللہ وقال رسولہ( اللہ اور اس کے رسول نے یوں فرمایا )
اسی دوران کسی نے کہہ دیا کہ ابوبکر و عمر تو یوں کہتے ہیں، یہ سنتے ہی آپ غصے میں آ گئے اور کہا
"يوشك أن تنزل عليكم حجارة من السماء! أقول لكم: قال الله وقال رسول الله، وتقولون: قال أبو بكر وقال عمر”، هذا، وأبو بكر هو هو، وعمر هو هو، الشيخان على قدرهما وجلالتهما، لكن قولهما عند قول رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ليس بشيء، ( فتح المجيد للإمام عبد الرحمن بن حسن رحمهما الله تعالى ص383 )
قریب ہے کہ تمہارے اوپر آسمان سے پتھروں کی بارش اتر پڑے، میں تمہیں کہتا ہوں اللہ اور اس کے رسول نے ایسے کہا اور تم کہتے کہ ابوبکر و عمر تو ایسے کہتے تھے، یاد رکھو ابوبکر و عمر اپنی عظمت و جلالت میں بہت عظیم ہیں مگر ان کی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات کے نزدیک کچھ بھی نہیں ہے
شيخ الإسلام محمد بن عبد الوهاب رحمه الله تعالی فرماتے ہیں :
« کہنے والے کے مقام و مرتبے اور عظمت کی وجہ سے باطل حق نہیں ہو جاتا ».
[* الجواهر المضيئة : ٢٢ *]|
5️⃣ ہر مسئلے کی دلیل پوچھا کریں
اکثر لوگوں کے بدعات میں واقع ہونے کا بہت بڑا سبب یہ بھی ہے کہ لوگوں میں مسئلے کی دلیل پوچھنے کا رجحان نہیں ہے، لکیر کے فقیر اور بھیڑ چال کے عادی بن چکے ہیں، معاشرہ اور ماحول ہی ان کا دین ہے، جدھر لوگ چلتے بس وہ بھی ادھر ہی چل پڑتے ہیں جبکہ اللہ تعالٰی کا حکم ہے کہ تحقیق کیا کرو
فرمایا
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَكُمۡ فَاسِقٌ ۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِيۡبُوۡا قَوۡمًا ۢ بِجَهَالَةٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰى مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِيۡنَ.(الحجرات – آیت 6)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کرلو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو لاعلمی کی وجہ سے نقصان پہنچا دو ، پھر جو تم نے کیا اس پر پشیمان ہوجاؤ۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں
"كل أحد يؤخذ من قوله ويترك، إلا صاحب هذا القبر”، وأشار إلى قبر النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- ( ابن عبد البر في الجامع 2/91)
یعنی ہر کسی سے اس کے کہے کی دلیل پوچھی جا سکتی ہے سوائے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے
دستار کے ہر تار کی تحقیق ہے لازم،
ہر صاحب دستار معزز نہیں ہوتا
(اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ )
اس آیت کی تفسیر میں بہت سے علماء نے لکھا ہے
اگر کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ کسی دوسرے کے کہے ہوئے حلال کو حلال اور حرام کو حرام مانے اور اس کے متعلق اچھا گمان رکھتے ہوئے کہ وہ غلطی نہیں کر سکتا، اس سے اس کے فتوے کی دلیل نہ مانگے تو گویا کہ اس نے اس شخص کو اپنا رب بنا لیا ہے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے دلیل مانگتے ہیں
جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منکرین زکوۃ کے خلاف اعلان جہاد کیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا
كَيْفَ تُقَاتِلُ؟بخاری
آپ کے پاس ان سے لڑنے کی کیا دلیل ہے
پھر جب ابوبکر صدیق اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم نے دلیل پیش کی تو آپ خاموش ہو گئے
اعتبار دلیل ہی کا ہے
علامة مقبل الوادعي رحمه الله فرماتے ہیں :
والله لو خَالفَنِي ابن باز، والألباني ، وابن عثيمين ، ما يزيدُني إلا ثَبَاتاً ، لكن إذا كان عندِي دليل! .
البشائر : ( ص30 )
کثرت کو دلیل مت بنائیں
عموماً لوگوں میں یہ ذھن پایا جاتا ہے کہ جدھر کثرت ہوگی وہی حق ہے اور اس طرح بہت سے لوگ گمراہ ہو کر بدعات میں واقع ہو جاتے ہیں
جبکہ اللہ تعالٰی نے اس دلیل کو رد کرتے ہوئے فرمایا
وَاِنۡ تُطِعۡ اَكۡثَرَ مَنۡ فِى الۡاَرۡضِ يُضِلُّوۡكَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِؕ اِنۡ يَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنۡ هُمۡ اِلَّا يَخۡرُصُوۡنَ.(الأنعام – آیت 116)
اور اگر تو ان لوگوں میں سے اکثر کا کہنا مانے جو زمین میں ہیں تو وہ تجھے اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے، وہ تو گمان کے سوا کسی چیز کی پیروی نہیں کرتے اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اٹکل دوڑاتے ہیں۔
6⃣ لوگوں کی پرواہ نہ کریں معاشرے سے متاثر نہ ہوں
بدعات و خرافات میں واقع ہونے کی یہ بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے کہ جس معاشرے ، خاندان اور برادری میں انسان پیدا ہوتا اور آنکھ کھولتا ہے وہ بدعت اس خاندان اور معاشرے میں پہلے سے چلی آ رہی ہوتی ہے گویا وہ اسے وراثت میں ملتی ہے، ایسی بدعت سے جان چھڑانا بہت مشکل کام ہے لیکن یاد رکھیں کہ دین آباؤ اجداد نہیں بلکہ وحی الہی کا نام ہے
اللہ تعالٰی فرماتے ہیں
وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمُ اتَّبِعُوۡا مَآ اَنۡزَلَ اللّٰهُ قَالُوۡا بَلۡ نَـتَّبِعُ مَآ اَلۡفَيۡنَا عَلَيۡهِ اٰبَآءَنَا ؕ اَوَلَوۡ كَانَ اٰبَآؤُهُمۡ لَا يَعۡقِلُوۡنَ شَيۡـًٔـا وَّلَا يَهۡتَدُوۡنَ.(البقرة – آیت 170)
اور جب ان سے کہا جاتا ہے اس کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے تو کہتے ہیں بلکہ ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے، کیا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ سمجھتے ہوں اور نہ ہدایت پاتے ہوں۔
بسا اوقات لوگوں کا پریشر انسان کو بے بس کردیتا ہے
رشتہ داروں کا پریشر ہوتا ہے
یا معاشرے کا دباؤ ہوتا ہے
یا کسی کی ناراضگی کا ڈر ہوتا ہے
ہم نے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو اپنے کسی عزیز کی وفات پر دوسرے، ساتویں اور چالیسویں دن کچھ بھی نہیں کرنا چاہتے لیکن برادری کے سامنے مجبور ہوتے ہیں
فرمایا
ۚ فَلَا تَخۡشَوُا النَّاسَ وَاخۡشَوۡنِ.(المائدة – آیت 44)
تو تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو ۔
مزید کہا
ؕ اَتَخۡشَوۡنَهُمۡ ۚ فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشَوۡهُ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ.(التوبة – آیت 13)
کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ تو اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔
اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا کہ لوگوں کی بجائے اللہ اور اس کے رسول کو راضی رکھو
وَاللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗۤ اَحَقُّ اَنۡ يُّرۡضُوۡهُ اِنۡ كَانُوۡا مُؤۡمِنِيۡنَ.(التوبة – آیت 62)
اللہ اور اس کا رسول زیادہ حق دار ہے کہ وہ اسے خوش کریں، اگر وہ مومن ہیں۔
7⃣ علماء سے فتن اور بدعات سے متعلق پوچھیں
راسخ فی العلم علماء کے پاس بیٹھا کریں
ان سے فتنوں اور بدعات کے متعلق پوچھتے رہا کریں
کیونکہ بیمار کی شفاء سوال کرنے میں ہی ہے
اللہ تعالٰی فرماتے ہیں
فَسۡـــَٔلُوۡۤا اَهۡلَ الذِّكۡرِ اِنۡ كُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَۙ.(النحل – آیت 43)
سو ذکر والوں سے پوچھ لو، اگر تم شروع سے نہیں جانتے۔
اور
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِيۡنَ.(التوبة – آیت 119)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
جیسے حذیفہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے فتنوں کے متعلق پوچھا کرتے تھے
8⃣ بدعت شناس بنیں
جب انسان اپنے اندر سنت کی محبت بھر دیتا ہے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنن سے خوب لگاؤ پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ دور سے ہی پہچان لیتا ہے کہ سنت کیا اور بدعت کیا ہے
جیسے ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے مسجد میں
حلقے بنا کر گٹھلیوں پر تکبیر، تہلیل اور تسبیح کرنے والے لوگوں کو دیکھا تو تو فورا بھانپ گئے کہ یہ سنت نہیں ہو سکتی بلکہ ضرور یہ کوئی نئی اختراع ہے
جلدی سے اس سارے معاملے کے بارے میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو آگاہ کیا تو انہوں نے فوراً مسجد آ کر بڑے سخت لہجے میں کہا
يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ مَا أَسْرَعَ هَلَكَتَكُمْ هَؤُلَاءِ صَحَابَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ وَهَذِهِ ثِيَابُهُ لَمْ تَبْلَ وَآنِيَتُهُ لَمْ تُكْسَرْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّكُمْ لَعَلَى مِلَّةٍ هِيَ أَهْدَى مِنْ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ أَوْ مُفْتَتِحُو بَابِ ضَلَالَةٍ ،دارمي
اے امت محمد ❗تم اتنی جلدی ہلاک ہو گئے ہو، ابھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کثیر تعداد میں موجود ہیں، ابھی تک تو آپ کے کپڑے بھی بوسیدہ نہیں ہوئے، اور نہ ہی آپ کے برتن ٹوٹے ہیں
مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کیا تم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے دین سے زیادہ اچھا دین لانا چاہتے ہو یا تم گمراہی کا دروازہ کھولنا چاہتے ہو
9⃣ اہل بدعت کی صحبت مت اختیار کریں
ہر ایسی مجلس میں شرکت حرام ہے جہاں قرآن و سنت کا مذاق اڑایا جاتا ہو، چاہے وہ کفار و مشرکین کی مجلس ہو یا اہل بدعت اور فساق و فجار کی۔ جب برائی کو ہاتھ سے بھی نہ روک سکے، نہ زبان سے تو پھر خاموش بیٹھ کر سنتے رہنا اور دل میں برا بھی نہ جاننا تو کمزور ترین ایمان کے بھی منافی ہے، بلکہ فرمایا ” تم بھی اس وقت ان جیسے ہو گے۔ “
اللہ تعالٰی فرماتے ہیں
وَاِذَا رَاَيۡتَ الَّذِيۡنَ يَخُوۡضُوۡنَ فِىۡۤ اٰيٰتِنَا فَاَعۡرِضۡ عَنۡهُمۡ حَتّٰى يَخُوۡضُوۡا فِىۡ حَدِيۡثٍ غَيۡرِهٖ ؕ وَاِمَّا يُنۡسِيَنَّكَ الشَّيۡطٰنُ فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّكۡرٰى مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَ.(الأنعام – آیت 68)
اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات کے بارے میں (فضول) بحث کرتے ہیں تو ان سے کنارہ کر، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ بات میں مشغول ہوجائیں اور اگر کبھی شیطان تجھے ضرور ہی بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھ۔
اہل بدعت کی صحبت اس صحبت سے بھی کئی درجے بدتر ہے جس میں گناہوں کا علانیہ ارتکاب ہو رہا ہو، خصوصاً اس شخص کے لیے جو علمی اور ذہنی طور پر پختہ نہ ہو اور بدعتیوں کی غلط تاویلوں کی غلطی سمجھنے کی اہلیت نہ رکھتا ہو۔ ہاں، اہل علم ان کی غلط باتوں پر تنقید کے لیے اور کلمۂ حق بلند کرنے کے لیے ایسی مجلسوں میں شریک ہوسکتے ہیں
حدیث میں ایسی مجلس میں بیٹھنے سے بھی منع کیا گیا ہے جہاں اللہ کے حکم کی صریح نافرمانی ہو،
چناچہ فرمایا :
” جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اس دسترخوان پر نہ بیٹھے جس پر شراب کا دور چلتا ہو۔ “
[ أحمد : ١؍٢٦، ح : ١٢٦، و حسنہ الألبانی فی غایۃ المرام ]
اہل بدعت سے دلی دوستی مت کیجئے ورنہ وہ آپ کو ضرور گمراہ کر کے ہی چھوڑیں گے
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ، فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ ، . ابو داؤد و ترمذی 2378،، سندہ حسن
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اس لیے تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے“
ایسی دوستی کا نتیجہ افسوس اور ندامت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا
قرآن میں ہے :
يٰوَيۡلَتٰى لَيۡتَنِىۡ لَمۡ اَتَّخِذۡ فُلَانًا خَلِيۡلًا.(الفرقان – آیت 28)
ہائے میری بربادی ! کاش کہ میں فلاں کو دلی دوست نہ بناتا۔
0⃣1⃣ دین کے معاملے میں غافل نہ رہیں چوکنے ہو کر رہیں
کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی بہروپیا اپنی ظاہری ملمع سازی اور چکنی چپڑی باتوں سے تمہیں اپنا گرویدہ بنا کر تمہارے دین کا نقصان کر جائے اور لاشعوری طور پر آپ کسی بدعت میں مبتلاء ہو جائیں
ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہے
شیطان کی طرف سے بدعت ہمیشہ خوبصورت، پر کشش، جاذب نظر اور مزین ہو کر آتی ہے
کیونکہ یہ اس کا طریقہ واردات ہے
قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغۡوَيۡتَنِىۡ لَاُزَيِّنَنَّ لَهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ وَلَاُغۡوِيَـنَّهُمۡ اَجۡمَعِيۡنَۙ.(الحجر – آیت 39)
اس نے کہا اے میرے رب ! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں ضرور ہی ان کے لیے زمین میں مزین کروں گا اور ہر صورت میں ان سب کو گمراہ کردوں گا۔
قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے دل و دماغ کو بدعت اور سنت کی پہچان میں استعمال کریں
اس معاملے میں غفلت، سستی اور عدم توجہگی قطعاً درست نہیں ہے
فرمایا
لَهُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا يَفۡقَهُوۡنَ بِهَا وَلَهُمۡ اَعۡيُنٌ لَّا يُبۡصِرُوۡنَ بِهَا وَلَهُمۡ اٰذَانٌ لَّا يَسۡمَعُوۡنَ بِهَا ؕ اُولٰۤٮِٕكَ كَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ هُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰۤٮِٕكَ هُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ.(الأعراف – آیت 179)
ان کے دل ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں، یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں، بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں، یہی ہیں جو بالکل بیخبر ہیں۔
اس معاملے میں سستی جہنم کا سبب بن سکتی ہے
فرمایا :
وَقَالُوۡا لَوۡ كُنَّا نَسۡمَعُ اَوۡ نَعۡقِلُ مَا كُنَّا فِىۡۤ اَصۡحٰبِ السَّعِيۡرِ۔(الملك – آیت 10)
اور وہ کہیں گے اگر ہم سنتے ہوتے، یا سمجھتے ہوتے تو بھڑکتی ہوئی آگ والوں میں نہ ہوتے۔
1⃣1⃣ عزیمت و استقامت اپنائیں
بسا اوقات انسان کو کسی نہ کسی بدعت میں مجبوراً مبتلاء ہونا پڑتا ہے
کسی کی طرف سے زبردستی وہ کام کروایا جا رہا ہوتا ہے
تو ایسے مواقع پر استقامت اور عزیمت کی راہ پر ہی چلنا بہتر ہے
اس حوالے سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی مثال ہمارے لیے بہترین مشعل راہ ہے جب خلیفہ وقت نے انہیں خلق قرآن کی بدعت کو تسلیم کرنے پر ہر طرح سے آمادہ کرنے کی کوشش کی حتی کہ انہیں اتنا مارا گیا کہ وہ خود کہتے ہیں اگر اتنے کوڑے کسی ہاتھی پر مارے جاتے تو شائد وہ بھی برداشت نہ کر پاتا، لیکن اس سب کے باوجود انہوں نے تسلیم بدعت پر کسی قسم کا کوئی کمپرومائز نہ کیا
2⃣1⃣ بدعت کی سنگینی اور خطرناک نتائج سامنے رکھیں
اس ضمن میں قرآن و حدیث میں بہت سی وعیدیں وارد ہوئی ہیں جنکا مطالعہ انسان کو بے حد محتاط بنا دیتا ہے
جب انسان کے سامنے بدعت کے خوفناک نتائج ہونگے تو وہ کبھی کسی کچی اور بے دلیل بات کی طرف نہیں جانکے گا
ہر بدعت جہنم کا باعث ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ نسائی 1579
اور بدترین کام نئے کام ہیں، اور ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے
گویا کہ بدعتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو (نعوذ باللہ)خائن سمجھ رہا ہوتا ہے
إمام مالک رحمہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں
جس نے اسلام میں کوئی بدعت ایجاد کی اور اپنے تئیں اسے بہت اچھا سمجھتا رہا، گویا اس نے یہ گمان کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم تک مکمل دین پہنچانے میں خیانت کی ہے( نعوذ باللہ من ذلك )
▪︎قال الامام القرطبي رحمه الله تعالى :
"قيل لبني إسرائيل :
قولوا حطة وهي التوبة،
فقالوا : حنطة،
فزادوا حرفاً فلقوا من البلاء ما لقوا ،
فالزيادة في الدين والابتداع في الشريعة عظيمة الخطر شديد الضرر.
هذا في تغيير كلمة،
فما ظنك بتغيير ما هو من صفات المعبود؟!”
تفسير القرطبي ( ١٣٢/٢)
3⃣1⃣ اندھی عقیدت اور غلو سے بچیں
اکثر بدعات اور خرافات کا سبب بزرگوں، بڑوں اور اولیاء کرام سے محبت میں غلو اور اندھی عقیدت ہوتی ہے
عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث
یہود کی مخالفت عیسی
بعض مسلمانوں کی عید میلاد النبی
محرم کا تعزیہ
گیارہویں شریف کا ختم
قبر پرستی
عرس اور میلے
ان سب بڑی بڑی بدعات کے پیچھے دراصل غلو ہی کارفرما ہے
غلو کی مذمت میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں :
يٰۤـاَهۡلَ الۡكِتٰبِ لَا تَغۡلُوۡا فِىۡ دِيۡـنِكُمۡ وَلَا تَقُوۡلُوۡا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الۡحَـقَّ ؕ
اے اہل کتاب ! اپنے دین میں حد سے نہ گزرو اور اللہ پر مت کہو مگر حق
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
( لاَ تُطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارٰی ابْنَ مَرْیَمَ ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُہُ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ ) [ بخاری : ٣٤٤٥ ]
” مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھاؤ جس طرح نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم کو بڑھایا۔ میں تو اس کا بندہ ہوں، لہٰذا تم مجھے صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہا کرو۔ “