اسلام میں حیاء کی اہمیت
اسلام میں حیاء کی اہمیت
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
فَإِنَّ الْحَيَاءَ مِنْ الْإِيمَانِ(بخارى/٢٤)
حیاء ایمان کا حصہ ہے
اور فرمایا
الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنْ الْإِيمَانِ (بخاری/٩،مسلم /٣٥)
ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں اور حیاء ایمان کا ایک شعبہ ہے
فرمايا
الْحَيَاءُ لَا يَأْتِي إِلَّا بِخَيْرٍ (بخاری/٦١١٧ و مسلم ٣٧)
حیاء ہمیشہ خیر ہی لاتا ہے
”جو جوانی میں اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے، اسے اسی حفاظت کے بقدر ادھیڑ عمری میں حکمت اور بڑھاپے میں ایمان کی دولت نصیب ہوتی ہے، اور اللہ عز وجل اسے حیا، چہرے کی رونق اور سکینت و وقار سے نوازتے ہیں، اور مومنین کے دل میں اس کی محبت جاگزیں کر دیتے ہیں۔“
(مفتاح طريق الأولياء لابن شيخ الحزاميين : ٣٣)
اللہ تعالیٰ عفت و پاکدامنی کے متلاشی کی مدد کرتے ہیں
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ ثَلَاثَةٌ حَقٌّ عَلَی اللّٰهِ عَزَّ وَ جَلَّ عَوْنُهُمُ
الْمُكَاتَبُ الَّذِيْ يُرِيْدُ الْأَدَاءَ وَالنَّاكِحُ الَّذِيْ يُرِيْدُ الْعَفَافَ وَالْمُجَاهِدُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ] [ نسائي، النکاح، باب معونۃ اللہ الناکح الذي یرید العفاف : ۳۲۲۰۔ ترمذي : ۱۶۵۵، قال الترمذي والألباني حسن ]
’’تین آدمیوں کی مدد اللہ پر حق ہے،
وہ مکاتب جو ادائیگی کا ارادہ رکھتا ہے
اور وہ نکاح کرنے والا جو حرام سے بچنے کا ارادہ رکھتا ہے
اور مجاہد فی سبیل اللہ۔‘‘
اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کرنے والے کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے عرش کے سائے میں داخل کیا جائے گا
حدیث میں عرش کا سایہ حاصل کرنے والے سات خوش بختوں میں ایک وہ بندہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصَبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ ] [ مسلم : ۱۰۳۱۔ بخاری، الزکاۃ، باب فضل إخفاء الصدقۃ : ۶۴۷۹ ]
’’اور ایسا آدمی جسے کوئی منصب اور خوبصورتی والی عورت برائی کی طرف بلائے تو وہ کہے میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں ۔‘‘
انبیاء کرام علیہم السلام اور شرم و حياء کا پیغام
ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلَامِ النُّبُوَّةِ الْأُولَى إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ (بخاری /٣٤٨٣)
لوگوں نے پہلی نبوت کے کلام سے جو تعلیمات حاصل کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب تو حیاء نہ کرے تو پھر جو چاہے کرتا چلا جا (پھر اسلام کو تیری کوئی پرواہ نہیں)
موسی علیہ السلام کا حیاء
موسی علیہ السلام حیا کے پیکر تھے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(بیشک موسی علیہ السلام انتہائی حیادار اور پردے میں رہنے والے تھے، آپ کی حیا کی وجہ سے آپ کی جلد کا کوئی حصہ دِکھ نہیں سکتا تھا (بخاری/٣٤٠٤)
قرآن میں ان کے حیاء کا تذکرہ ایک واقعہ میں ملتا ہے
جب انہوں نے دو عورتوں کی بکریوں کو پانی پلایا تو گھر جانے کے بعد ان میں سے ایک واپس آئی
فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا فَلَمَّا جَاءَهُ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (القصص : 25)
تو ان دونوں میں سے ایک بہت حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی، اس نے کہا بے شک میرا والد تجھے بلا رہا ہے، تاکہ تجھے اس کا بدلہ دے جو تو نے ہمارے لیے پانی پلایا ہے۔ تو جب وہ اس کے پاس آیا اور اس کے سامنے حال بیان کیا تو اس نے کہا خوف نہ کر، تو ان ظالم لوگوں سے بچ نکلا ہے۔
سبحان اللہ ! وہ خاتون کس قدر باحیا ہو گی جس کے بہت حیا کی شہادت رب العالمین نے دی ہے۔
’’ تَمْشِيْ بِاسْتِحْيَاءٍ‘‘ کے بجائے ’’ تَمْشِيْ عَلَى اسْتِحْيَآءٍ ‘‘ اس لیے فرمایا گویا وہ حیا کی سواری پر سوار ہو کر چلی آ رہی تھی، حیا کی ہر صورت اس کی دسترس میں تھی۔
ابن ابی حاتم نے عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا :
[ « فَجَآءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِيْ عَلَى اسْتِحْيَآءٍ » قَائِلَةٌ بِثَوْبِهَا عَلٰی وَجْهِهَا لَيْسَتْ بِسَلْفَعِ مِنَ النِّسَاءِ وَلَّاجَةً، خَرَّاجَةً ]
[ طبري : ۲۷۵۸۵۔ ابن أبي حاتم : ۱۶۸۳۲]
’’وہ نہایت حیا کے ساتھ اپنا کپڑا چہرے پر ڈالے ہوئے آئی، بے باک عورتوں کی طرح نہیں جو بے دھڑک اور بے خوف چلی آتی ہوں، ہر جگہ جا گھستی ہر طرف نکل جاتی ہوں۔‘‘
ابن کثیر نے فرمایا :
’’ هٰذَا إِسْنَادٌ صَحِيْحٌ ‘‘
اور تفسیر ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے فرمایا :
’’وَ سَنَدُهُ صَحِيْحٌ۔‘‘
قَالَتْ اِنَّ اَبِيْ يَدْعُوْكَ:
اس خاتون کے بلانے کے انداز سے بھی اس کی کمال دانائی اور حیا ظاہر ہو رہی ہے۔ اس نے اپنی طرف سے ساتھ چلنے کو نہیں کہا، بلکہ باپ کی طرف سے پیغام دیا، کیونکہ ایک باحیا خاتون کو زیب ہی نہیں دیتا کہ کسی اجنبی مرد کو ساتھ چلنے کے لیے کہے۔
لِيَجْزِيَكَ اَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا:
یہ بات بھی اس نے حیا ہی کی وجہ سے کہی، کیونکہ ایک غیر مرد کو ساتھ لے جانے کی کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے، اس کے بغیر شبہات پیدا ہو سکتے تھے، جن کا اس نے پہلے ہی سدباب کر دیا
قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ (القصص : 26)
دونوں میں سے ایک نے کہا اے میرے باپ! اسے اجرت پر رکھ لے، کیونکہ سب سے بہتر شخص جسے تو اجرت پر رکھے طاقت ور، امانت دار ہی ہے۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے :
’’عمر، ابن عباس، شریح قاضی، ابو مالک، قتادہ، محمد بن اسحاق اور کئی ایک نے فرمایا کہ اس کے والد نے پوچھا، تمھیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی؟ اس نے کہا، اس نے وہ پتھر اٹھا لیا جو دس آدمیوں سے کم اٹھا نہیں سکتے اور جب میں اس کے ساتھ آئی تو اس کے آگے چل رہی تھی، اس نے مجھ سے کہا، میرے پیچھے چلی آؤ اور جہاں راستہ بدلنا ہو مجھے کنکری کے ساتھ اشارہ کر دو، میں سمجھ جاؤں گا کس طرف جانا ہے۔‘‘ تفسیر ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے فرمایا، عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنھم کا قول ابن ابی حاتم نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔
[ ابن أبي حاتم : ۱۶۸۴۳ ]
دوسرے ائمہ کے اقوال بھی طبری (۲۷۶۰۹) یا ابن ابی حاتم نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیے ہیں
(تفسیر القرآن الکریم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)
اس بات سے اس لڑکی کی کمال فراست اور آدمیوں کی پہچان کا اندازہ ہوتا ہے۔ ابن ابی حاتم نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
’’لوگوں میں سب سے زیادہ فراست والے تین ہیں،
ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فراست عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں،
عزیز مصر کی یوسف علیہ السلام کے متعلق فراست، جب اس نے بیوی سے کہا :
«اَكْرِمِيْ مَثْوٰىهُ » [ یوسف : ۲۱ ]
’’اس کی رہائش باعزت رکھ۔‘‘
اور موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ والی خاتون کی فراست کہ جس نے کہا :
« يٰۤاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ » [ القصص : ۲۶ ]
’’اے میرے باپ! اسے اجرت پر رکھ لے، کیونکہ سب سے بہتر شخص جسے تو اجرت پر رکھے طاقت ور، امانت دار ہی ہے۔‘‘
[ ابن أبي حاتم : ۱۶۸۳۸ ]
قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنْكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ
اس نے کہا بے شک میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تجھ سے کردوں، اس (شرط) پر کہ تو آٹھ سال میری مزدوری کرے گا، پھر اگر تو دس پورے کردے تو وہ تیری طرف سے ہے اور میں نہیں چاہتا کہ تجھ پر مشقت ڈالوں، اگر اللہ نے چاہا تو یقینا تو مجھے نیک لوگوں سے پائے گا۔
کسی نکتہ دان نے لکھا ہے کہ میں حیران ہوتا تھا کہ موسی علیہ السلام نے اس عورت میں ایسی کیا بات محسوس کی تھی کہ اسے حاصل کرنے کے لیے دس سال بکریاں چرانے کی شرط قبول فرما لی بالآخر غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ وہ حیاء دار عورت تھی
یوسف علیہ السلام شرم و حیاء کے پیکر
یوسف علیہ السلام نے عفت و پاکدامنی کی مثال قائم کردی جب ملکہءِ مصر نے انہیں برائی پر آمادہ کرنا چاہا
قرآن میں ہے
وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ (يوسف : 23)
اور اس عورت نے، جس کے گھر میں وہ تھا، اسے اس کے نفس سے پھسلایا اور دروازے اچھی طرح بند کرلیے اور کہنے لگی جلدی آ۔ اس نے کہا اللہ کی پناہ، بے شک وہ میرا مالک ہے، اس نے میرا ٹھکانا اچھا بنایا۔ بلاشبہ حقیقت یہ ہے کہ ظالم فلاح نہیں پاتے۔
اہل علم فرماتے ہیں کہ اس وقت یوسف علیہ السلام کو گناہ پر آمادہ کرنے والی ہر چیز موجود تھی اور روکنے والی دنیا کی کوئی چیز نہ تھی۔ یوسف علیہ السلام کی صحت، جوانی، قوت، خلوت، فریق ثانی کا حسن، پیش کش، اس پر اصرار، غرض ہر چیز ہی بہکا دینے والی تھی، جب کہ انسان کو روکنے والی چیز اس کی اپنی جسمانی یا جنسی کمزوری ہو سکتی ہے، یا فریق ثانی کے حسن کی کمی، یا اس کی طرف سے انکار یا مزاحمت کا امکان یا راز فاش ہونے کا خطرہ یا اپنے خاندان، قوم اور لوگوں میں رسوائی کا خوف، ان میں سے کوئی چیز ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں تھی۔ اٹھتی جوانی تھی، بے مثال حسن تھا، دروازے بند تھے، دوسری طرف سے پیش کش بلکہ درخواست اور اس پر اصرار تھا، اپنے وطن سے دور تھے کہ قبیلے یا قوم میں رسوائی کا ڈر ہو۔ یہاں کتنے ہی لوگ باہر کے ملکوں میں جاتے ہیں تو اپنوں سے دور ہونے کی وجہ سے بہک جاتے ہیں، پھر دروازے خوب بند تھے، راز فاش ہونے کی کوئی صورت ہی نہ تھی اور جب مالکہ خود کہہ رہی ہو تو سزا کا کیا خوف؟
(تفسیر القرآن الکریم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)
اہل علم نے یوسف علیہ السلام کے زنا سے بچنے کو عفت کا کمال قرار دیا ہے، کیونکہ دنیاوی لحاظ سے انھیں زنا سے روکنے والی کوئی چیز موجود نہیں تھی، حتیٰ کہ ان کے پاس حرّیت بھی نہیں تھی
شیخ حامد کمال الدین حفظه الله لکھتے ہیں
یوسف علیه السلام کو پانے کے لیے، خاتونِ مصر کی عشوہ طرازی کام نہ آئی۔
لیکن
دخترِ مدین کی حیاء موسیٰ علیه السلام کو پانے میں کامیاب رہی!!
الحیاء لا یأتی إلا بخیر
حیاء خیر ہی لے کر آتی ہے.
مریم علیہا السلام اور حیاء
یہ اتنی حیاء والی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مثال بیان کی ہے
فرمایا
وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا(التحریم 12)
اور عمران کی بیٹی مریم کی (مثال دی ہے) جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی
جب تنہائی میں ایک فرشتہ انسانی شکل میں ان کے پاس آیا تو انہوں نے اپنی عصمت کے دفاع کیلئے فوراً اللہ کی پناہ حاصل کی
فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا(مريم : 17)
تو ہم نے اس کی طرف اپنا خاص فرشتہ بھیجا تو اس نے اس کے لیے ایک پورے انسان کی شکل اختیار کی۔
قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَنِ مِنْكَ إِنْ كُنْتَ تَقِيًّا (مريم : 18)
اس نے کہا بے شک میں تجھ سے رحمان کی پناہ چاہتی ہوں، اگر تو کوئی ڈر رکھنے والا ہے۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور شرم و حیاء
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق فرماتے ہیں
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ حَيَاءً مِنْ الْعَذْرَاءِ فِي خِدْرِهَا
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پردہ نشین کنواری عورت سے بھی زیادہ حیاء والے تھے
(بخاری/٣٥٦٢ و مسلم /٢٣٢٠)
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے حیاء کی گواہی بزبان نبوت
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
إِنَّ عُثْمَانَ رَجُلٌ حَيِيٌّ(مسلم/٢٤٠٢)
عثمان سراپا حیاء آدمی ہے
پھر عائشہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا
أَلَا أَسْتَحْيِي مِمَّنْ يَسْتَحْيِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ(مسلم/٢٤٠١)
کیا میں اس شخص سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں
اسلام میں بے حیائی کی مذمت
دین اسلام بے حیائی، فحاشی اور عریانی کی شدید مذمت کرتا ہے
فرمایا
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ .(النور : 19)
بے شک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ ان لوگوں میں بے حیائی پھیلے جو ایمان لائے ہیں، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
اللہ تعالیٰ بے حیائی سے منع کرتے ہیں
فرمایا
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ.(النحل : 90)
بے شک اللہ عدل اور احسان اور قرابت والے کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے، وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
ایک حدیث کے مطابق کبیرہ گناہوں میں سے تیسرے نمبر پر بڑا گناہ بدکاری ہے
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا
أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ
اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کون سا ہے
تو آپ نے فرمایا
أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ
اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا
میں نے کہا
ثُمَّ أَيُّ
پھر کون سا
تو آپ نے فرمایا
ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ تَخَافُ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ
اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل کرنا
میں نے کہا
ثُمَّ أَيُّ
پھر کون سا
تو آپ نے فرمایا
ثُمَّ أَنْ تُزَانِيَ بِحَلِيلَةِ جَارِكَ
اپنے ہمسایہ کی بیوی سے بدکاری کرنا
(بخاری /٤٧٦١)
اللہ تعالیٰ فحش آدمی سے بغض کرتا ہے
ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
وَإِنَّ اللَّهَ لَيُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْبَذِيءَ(ترمذی/٢٠٠٢) صحيح
اللہ تعالیٰ فحش اور بدزبانی کرنے والے آدمی سے نفرت کرتا ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ وَلَا اللَّعَّانِ وَلَا الْفَاحِشِ وَلَا الْبَذِيءِ(ترمذی /١٩٧٧)
مومن لعن طعن کرنے والا فحش گو اور بدبزبان نہیں ہوتا
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ایک ایسے نوجوان کی تربیت کرتے ہیں جو بے حیائی کی طرف رغبت رکھتا تھا
سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ’’ایک نوجوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے زنا کی اجازت چاہی۔ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے، اسے ڈانٹا اور کہا کہ خاموش ہو جا،
تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ اُدْنُهْ ]
(میرے) قریب آ۔‘‘
وہ قریب آیا اور جب بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا :
[ أَتُحِبُّهُ لِأُمِّكَ؟ ]
’’کیا تو اس کام کو اپنی ماں کے لیے پسند کرتا ہے؟‘‘
اس نے کہا :
’’ نہیں، اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے (ہر گز نہیں)۔‘‘
آپ نے فرمایا :
[ وَلَا النَّاسُ يُحِبُّوْنَهُ لِأُمَّهَاتِهِمْ ]
’’تو لوگ بھی اس کام کو اپنی ماں کے لیے پسند نہیں کرتے۔‘‘
پھر آپ نے فرمایا :
[ أَفَتُحِبُّهُ لِابْنَتِكَ؟ ]
’’اچھا تو اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند کرتا ہے؟‘‘
اس نے کہا :
’’نہیں، اللہ کی قسم ! اے اللہ کے رسول ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے ( ہر گز نہیں)۔‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ وَلَا النَّاسُ يُحِبُّوْنَهُ لِبَنَاتِهِمْ ]
’’لوگ بھی اس کام کو اپنی بیٹیوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ أَ فَتُحِبُّهُ لِأُخْتِكَ؟ ]
’’ کیا تو اس کام کو اپنی بہن کے لیے پسند کرتا ہے؟‘‘
اس نے کہا :
’’نہیں، اللہ کی قسم ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے۔‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ وَلَا النَّاسُ يُحِبُّوْنَهُ لِأَخَوَاتِهِمْ ]
’’ لوگ بھی اس کام کو اپنی بہنوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :
[ أَ فَتُحِبُّهُ لِعَمَّتِكَ ]
’’کیا تو اس کام کو اپنی پھوپھی کے لیے پسند کرتا ہے؟‘‘
اس نے کہا :
’’نہیں، اللہ کی قسم ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ وَلَا النَّاسُ يُحِبُّوْنَهُ لِعَمَّاتِهِمْ ]
’’ لوگ بھی اس کام کو اپنی پھوپھیوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :
[ أَ فَتُحِبُّهُ لِخَالَتِكَ؟ ]
’’کیا تو اس کام کو اپنی خالہ کے لیے پسند کرتا ہے؟‘‘
اس نے کہا :
’’نہیں، اللہ کی قسم ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے( ہرگز نہیں)۔‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ وَلَا النَّاسُ يُحِبُّوْنَهُ لِخَالَاتِهِمْ ]
’’لوگ بھی اس کام کو اپنی خالاؤں کے لیے پسند نہیں کرتے۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس پر رکھا اور یہ دعا کی :
[ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَهُ، وَ طَهِّرْ قَلْبَهُ وَ حَصِّنْ فَرْجَهُ ]
’’الٰہی! اس کے گناہ بخش، اس کے دل کو پاک کر اور اسے عصمت والا بنا۔‘‘
پھر تو یہ حالت تھی کہ یہ نوجوان ایسے کسی کام کی طرف نہیں جھانکتا تھا۔‘‘
[ مسند أحمد : 256/5، ۲۵۷، ح : ۲۲۲۷۴ ]،الصحيحة للالباني:(٣٧٠)
بے حیائی کا وبال اور عذاب
عبدالله بن مسعود رضي الله عنه
مَا ظَهَرَ فِي قَوْمٍ الرِّبَا وَالزِّنَا إِلَّا أَحَلُّوا بِأَنْفُسِهِمْ عِقَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ(مسند احمد/٣٨٠٩)
کسی قوم میں سود خوری یا زنا کاری ظاہر ہو جائے تو وہ قوم اپنے آپ کو اللہ کے عذاب میں دھکیل لیتی ہے
اعلانیہ فحاشی خطرناک بیماریوں کے پھیلنے کا موجب ہوتی ہے
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ حَتَّى يُعْلِنُوا بِهَا إِلَّا فَشَا فِيهِمْ الطَّاعُونُ وَالْأَوْجَاعُ الَّتِي لَمْ تَكُنْ مَضَتْ فِي أَسْلَافِهِمْ الَّذِينَ مَضَوْا[ ابن ماجہ، الفتن، باب العقوبات : ۴۰۱۹۔ مستدرک حاکم : 540/4، ح : ۸۶۲۳، و قال صحیح علی شرط مسلم۔ صحیح الترغیب و الترہیب : ۲۱۸۷ ]
کسی قوم میں جب بھی فحاشی (بے حیائی و بدکاری) عام ہوتی ہے، جو ان میں علانیہ کی جائے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے پہلے گزرے ہوئے لوگوں میں نہیں ہوتی تھیں
نتیجہ اس کا دشمنوں کے خوف، قتل و غارت، بدامنی، وباؤں اور نئی سے نئی بیماریوں کے عذابِ الیم کی صورت میں سب کے سامنے ہے اور قیامت کا عذابِ الیم ابھی باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
عورتوں کا فتنہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ مَا تَرَكْتُ بَعْدِيْ فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ]
[بخاري، النکاح، باب ما یتقي من شؤم المرأۃ… : ۵۰۹۶، عن أسامۃ بن زید رضی اللہ عنھما ]
’’میں نے اپنے بعد مردوں پر کوئی فتنہ عورتوں سے زیادہ نقصان پہنچانے والا نہیں چھوڑا۔‘‘
ہیجانی کیفیت پیدا کرنے والا اور جنسی جذبات کو ابھارنے والا لباس پہننے والی عورتیں جہنم میں جائیں گی
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
صِنْفَانِ مِنْ أُمَّتِي مِنْ أَهْلِ النَّارِ
میری امت کی دو جماعتیں جہنم میں جائیں گی ان میں ایک
نِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مَائِلَاتٌ مُمِيلَاتٌ عَلَى رُءُوسِهِنَّ أَمْثَالُ أَسْنِمَةِ الْإِبِلِ لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا
ایسی عورتیں جو بظاہر لباس پہنے ہوئے ہونگیں مگر لباس کی باریکی، تنگی یا فٹنگ کی وجہ سے حقیقت میں ننگی ہونگیں مردوں کی طرف مائل ہونے والی اور مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی ہونگیں ان کے سروں پر اونٹوں کی کوہانوں کی طرح (فیشن) ہوگا جنت میں داخل ہونگیں اور نہ ہی اس کی خوشبو پائیں گی
اور دوسری قسم
وَرِجَالٌ مَعَهُمْ أَسْيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ(مسلم/٢١٢٨ ،مسند احمد /٨٦٦٥)
ایسے آدمی جن کے ہاتھوں میں بیلوں کی دموں کی طرح کوڑے ہونگے جن سے وہ لوگوں کو مارتے ہونگے
کفار کی خواہش
چونکہ مغربی معاشرے میں فحاشی، عریانی بہت عام ہو چکی ہے اوراس خبیث فعل کی سزا اس وقت مغربی اقوام بھگت رہی ہیں اور انھیں مسلمانوں کے نظام نسب پر شدید حسد ہے، جس کی وجہ سے وہ ان میں بھی بے حیائی اور زنا پھیلانے کا ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں
یہی وجہ ہے کہ آج کل تمام دنیا کے کفار اور ان کے مددگار مسلم حکمرانوں کی پوری کوشش ہے کہ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ، سکول و کالج کی تعلیم، غرض ہر طریقے سے مسلم معاشروں میں زنا اور اس کا تذکرہ عام ہو۔ ایک آدھ ملک کے سوا کسی ملک میں نہ زنا کی حد نافذ ہے نہ بہتان کی۔
وہ مسلمانوں کو ان کے دین سے دور کرنا چاہتے ہیں
وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ.(بقره 109)
بہت سے اہل کتاب چاہتے ہیں کاش! وہ تمھیں تمھارے ایمان کے بعد پھر کافر بنا دیں، اپنے دلوں کے حسد کی وجہ سے
کفار مسلم معاشرے میں فروغِ فحاشی کے خواہاں ہیں
فرمایا
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ.(النور : 19)
بے شک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ ان لوگوں میں بے حیائی پھیلے جو ایمان لائے ہیں، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
کفار کی پوری کوشش یہ ہے کہ مسلمان اگر یہودی یا نصرانی نہ بنیں تو کم از کم اپنے دین سے ضرور بدگمان ہو جائیں
اور اس مقصد کے لیے وہ پوری قوت سے تہذیبی جنگ لڑ رہے ہیں تہذیبی تصادم کے اس دور میں انکا نعرہ ہے
chang the culture of muslem
چینج دی کلچر آف مسلم
(جب لال لال لہرائے گا
تب ہوش ٹھکانے آئے گا)
جیسی ریلیاں
(میرا جسم میری مرضی) جیسے کارڈ
(تم سب بنو ویلنٹائن) جیسے جملے
یہ سب چیزیں اسی تہذیبی تصادم کا حصہ ہیں
ویلنٹائن ڈے کی تباہ کاری
اس موقع پر نکاح کے بندھن سے قطع نظر ایک آزاد اور رومانوی قسم کی محبت کا اظہار کیا جاتا ہے جس میں لڑ کے لڑ کیوں کا آزادانہ ملاپ ۔۔۔۔۔تحائف اور کارڈز کا تبادلہ۔۔۔ اور غیر اخلاقی حرکات کا نتیجہ زنا اور بد اخلاقی کی صورت میں نکلتا ہے جو اس بات کا اظہار ہے کہ ۔۔۔ہمیں مرد اور عورت کے درمیان آزادانہ تعلق پر کوئی اعتراض نہیں ہے،۔۔۔۔! اہل مغرب کی طرح ہمیں اپنی بیٹیوں سے عفت مطلوب نہیں ۔۔۔۔!اور اپنے نوجوانوں سے پاک دامنی درکار نہیں ۔۔۔
اگر یہ رسمِ بد عام ہوجائے تو رشتہ داری کا سارا نظام، جو اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، ختم ہو جائے گا، نہ باپ کا پتا، نہ کوئی چچا نہ دادا، نہ ان کی اولاد کا علم، نہ ان سے کوئی تعلق نہ رشتہ داری، بلکہ انسان اور حیوان کا فرق ہی ختم ہو جائے گا
الغرض یہ مسلمانوں کے عائلی سسٹم پر حملہ ہے
یہ دو قومی نظریہ کی اساس پر کاری وار ہے
یہ اسلام کے امتیازی وصف، شرم و حیاء کو ختم کرنے کا منصوبہ ہے
جس کا بائیکاٹ اور روک تھام انتہائی ضروری ہے
کفار کے تہواروں اور دنوں کو منانے اور سیلیبریٹ کرنے کا شرعی حکم
صحیح البخاري میں ہے:
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا
لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْرًا شِبْرًا ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ ، قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، الْيَهُودُ ، وَالنَّصَارَى ، قَالَ : فَمَنْ(صحیح بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لتتبعن سنن من کان قبلکم،۸:۱۰۳،رقم الحدیث:۷۳۲۰)
تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کی بالشت بربالشت اورہاتھ برہاتھ پیروی کروگے ، حتی کہ اگر وہ گوہ کے بل میں داخل ہوئے توتم بھی ان کی پیروی میں اس میں داخل ہوگے ، ہم نے کہا اے اللہ تعالی کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم : کیا یھودیوں اورعیسائیوں کی ؟ تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اورکون ؟
غیر مسلم تہواروں کے بارے اسلامی نقطہ نظر اس حدیث سے واضح ہوجاتا ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
(من تشبه بقوم فهو منهم) (ابوداود:۴۰۳۱)
”جس نے کسی (غیر) قوم کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہے۔“
ان تہواروں کی حوصلہ شکنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کتنے حساس تھے اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایاجا سکتا ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دورِ جاہلیت میں مدینہ کے لوگ سال میں دو تہوار منایا کرتے تھے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ تشریف لائے تو (صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے) فرمایا:
(وقد أبدلکم الله بهما خيرا منهما: يوم الفطر و يوم الأضحی)(صحیح سنن نسائی؛ ۱۴۶۵)
”اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دونوں تہواروں کے بدلہ میں دو اور تہوار عطاکردیئے ہیں جو ان سے بہتر ہیں اور وہ ہیں: عیدالفطر اور عیدالاضحی۔“
غیر مسلموں کے تہواروں کو منانا تو بہت دور کی بات، جہاں وہ تہوار منایا کرتے تھے وہاں کوئی ایسا کام کرنا جو ان کی مشابہت کا شک پیدا کرے وہ بھی اسلام کے نزدیک جائز نہیں۔
ایک مرتبہ آپ کے پاس ایک صحابی آئے اور کہنے لگے کہ میں نے ’بوانہ‘ نامی مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی منت مانی ہے (کیا میں اسے پورا کروں؟)
آپ نے فرمایا:
کیا دورِ جاہلیت میں وہاں کسی بت کی پوجا تو نہیں ہوا کرتی تھی؟
اس نے کہا نہیں۔
پھر آپ نے پوچھا
(هل کان فيها عيد من أعيادهم؟)
” کیا وہاں مشرکین کے تہواروں /میلوں میں سے کوئی تہوار تو منعقد نہیں ہوا کرتا تھا؟“
اس نے کہا:
نہیں۔
تو آپ نے فرمایا کہ
”پھر اپنی نذر پوری کرو کیونکہ جس نذر میں اللہ کی نافرمانی کا عنصر پایا جائے اسے پورا کرنا جائز نہیں۔“
(ابوداوٴد؛۳۳۱۳)
گویا آپ نے سائل سے جو دو باتیں پوچھیں، یہ دونوں گناہ کی صورتیں تھیں اور اگر ان میں سے کوئی ایک صورت بھی ہوتی تو آپ نے اس صحابی کو اپنی نذر پوری کرنے سے ضرور منع کردینا تھا۔
*اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی*
کیا اسلام اپنے ماننے والوں کو محبت کے اظہار کے لیے کوئی راستہ نہیں دیتا
اسلام دین فطرت ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ انسانوں پر غیر فطری پابندی عائد کرے اسلام نے انسانی جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ان کے لیے اظہار محبت کا بہترین راستہ نکاح کی صورت میں دیا ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
«وَ اَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىِٕكُمْ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ » [ النور : ۳۲ ]
’’اور اپنے میں سے بے نکاح مردوں، عورتوں کا نکاح کر دو اور اپنے غلاموں اور اپنی لونڈیوں سے جو نیک ہیں ان کا بھی، اگر وہ محتاج ہوں گے تو اللہ انھیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘
اور فرمایا
فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ
عورتوں میں سے جو تمھیں پسند ہوں ان سے نکاح کرلو، دو دو سے اور تین تین سے اور چار چار سے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا :
[ يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ! مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَائَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ] [ بخاري، النکاح، باب من لم یستطع البائۃ فلیصم : ۵۰۶۶، ۵۰۶۵ ]
’’اے جوانو کی جماعت! تم میں سے جو نکاح کر سکتا ہو وہ نکاح کرلے، کیونکہ وہ نظر کو بہت نیچا کرنے والا اور شرم گاہ کو بہت محفوظ رکھنے والا ہے اور جو نکاح کا سامان نہ پائے وہ روزے کو لازم پکڑے، کیونکہ وہ اس کے لیے (شہوت) کچلنے کا باعث ہے۔‘‘
اپنی بیوی سے کھیل کود اور دل لگی کرنے کی ترغیب
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
كُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ إِلَّا رَمْيَهُ بِقَوْسِهِ وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ وَمُلَاعَبَتَهُ أَهْلَهُ فَإِنَّهُنَّ مِنْ الْحَقِّ(ترمذی/١٦٣٧)
تیر اندازی کرنے، گھوڑے کو سدھانے اور اپنی بیوی سے کھیلنے کے علاوہ ہر کھیل باطل ہے
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
أَتَزَوَّجْتَ
کیا تو نے شادی کرلی ہے
میں نے کہا
نَعَمْ
جی
تو آپ نے فرمایا
بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا
کنواری سے بیوہ سے
میں نے کہا
ثَيِّبًا
بیوہ سے
تو آپ نے فرمایا
أَفَلَا بِكْرٌ تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ (ابو داؤد 2048)
کنواری سے کیوں نہیں کی کہ تو اس سے کھیلتا اور وہ تجھ سے کھیلتی
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنی بیویوں سے محبت کرنا
باہر کسی عورت سے محبت کرنے کو دل کرے تو گھر آ کر اپنی بیوی سے محبت کرلے
عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى امْرَأَةً فَدَخَلَ عَلَى زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَقَضَى حَاجَتَهُ مِنْهَا ثُمَّ خَرَجَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ لَهُمْ
جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک عورت کو دیکھا تو اپنی بیوی زینب رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گئے اور اپنی حاجت پوری کی پھر صحابہ کرام کی طرف نکلے اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا
إِنَّ الْمَرْأَةَ تُقْبِلُ فِي صُورَةِ شَيْطَانٍ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَلْيَأْتِ أَهْلَهُ فَإِنَّهُ يُضْمِرُ مَا فِي نَفْسِهِ (ابو داؤد 2151)
بے شک عورت شیطان کی صورت میں سامنے آتی ہے تو جو اس (کی خوبصورتی) میں سے کچھ پائے تو وہ اپنی بیوی کے پاس آجائے
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ