تعلیم القرآن اہمت و فضیلت
قرآن سراپا ھدائت ہے
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرة : 2)
یہ کتاب، اس میں کوئی شک نہیں، بچنے والوں کے لیے سرا سر ہدایت ہے۔
سورہ آل عمران میں ہے
هُدًى لِلنَّاسِ (آل عمران : 4)
لوگوں کی ہدایت کے لیے۔
سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا (الإسراء : 9)
بلاشبہ یہ قرآن اس (راستے) کی ہدایت دیتا ہے جو سب سے سیدھا ہے اور ان ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں، بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔
قرآن ایسا نور ہے جو لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
«فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ النُّوْرِ الَّذِيْۤ اَنْزَلْنَا » [ التغابن : ۸ ]
’’سو تم اﷲ اور اس کے رسول اور اس نور پر ایمان لاؤ جو ہم نے نازل کیا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ
بے شک تمھارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی اور واضح کتاب آئی ہے۔
اس آیت میں نور سے مراد قرآن ہی ہے
اس کے بعد فرمایا
يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (المائدة : 16)
جس کے ساتھ اللہ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیچھے چلیں، سلامتی کے راستوں کی ہدایت دیتا ہے اور انھیں اپنے حکم سے اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے اور انھیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔
کائنات کی سب سے بہترین کلام قرآن ہے
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ (مسلم، كِتَابُ الْجُمُعَةِ، بَابُ تَخْفِيفِ الصَّلَاةِ وَالْخُطْبَةِ2005)
بلا شبہ بہترین حدیث (کلام )اللہ کی کتاب ہے اور زندگی کا بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ زندگی ہے
قرآن شفاء ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا (الإسراء : 82)
اور ہم قرآن میں سے تھوڑا تھوڑا نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے سراسر شفا اور رحمت ہے اور وہ ظالموں کو خسارے کے سوا کسی چیز میں زیادہ نہیں کرتا۔
اور فرمایا
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ (يونس : 57)
اے لوگو! بے شک تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے عظیم نصیحت اور اس کے لیے سراسر شفا جو سینوں میں ہے اور ایمان والوں کے لیے سرا سر ہدایت اور رحمت آئی ہے۔
قرآن سراپا برکت ہے
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
وَهَذَا ذِكْرٌ مُبَارَكٌ أَنْزَلْنَاهُ أَفَأَنْتُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ (الأنبياء : 50)
اور یہ ایک با برکت نصیحت ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے، تو کیا تم اسی سے منکر ہو؟
سورہ انعام میں ہے
وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الأنعام : 155)
اور یہ عظیم کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے، بڑی برکت والی، پس اس کی پیروی کرو اور بچ جاؤ، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
قرآن پڑھنے سے سکینت نازل ہوتی ہے
براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
[ كَانَ رَجُلٌ يَقْرَأُ سُوْرَةَ الْكَهْفِ وَإِلٰی جَانِبِهِ حِصَانٌ مَرْبُوْطٌ بِشَطَنَيْنِ، فَتَغَشَّتْهُ سَحَابَةٌ فَجَعَلَتْ تَدْنُوْ وَ تَدْنُوْ، وَجَعَلَ فَرَسُهُ يَنْفِرُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ أَتَي النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذٰلِكَ لَهُ، فَقَالَ تِلْكَ السَّكِيْنَةُ تَنَزَّلَتْ بِالْقُرْآنِ ] [ بخاری، فضائل القرآن، باب فضل الکہف : ۵۰۱۱ ]
’’ایک آدمی سورۂ کہف پڑھ رہا تھا، اس کے ایک طرف ایک گھوڑا تھا جو دو رسیوں سے بندھا ہوا تھا، تو اسے بادل کے ایک ٹکڑے نے ڈھانپ لیا، پھر اس نے قریب آنا شروع کر دیا اور مزید قریب آتا گیا، چنانچہ اس کا گھوڑا بدکنے لگا، جب صبح ہوئی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’وہ سکینت تھی جو قرآن کے ساتھ اتری۔‘‘
قرآن حفظ کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم سنت ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید حفظ کیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو نماز پڑھانا اور نماز میں جھری قرات کرنا اس کی واضح دلیل ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن حفظ ہونے کی پشین گوئی
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى (الأعلى : 6)
ہم ضرور تجھے پڑھائیں گے تو تو نہیں بھولے گا۔
یہ پیشین گوئی ابتدائے اسلام میں مکہ کے اندر ہوئی، پھر سب لوگوں نے دیکھا کہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف ایک دفعہ جبریل علیہ السلام سے سن کر کسی کتابت یا تکرار کے بغیر اتنا بڑا قرآن حفظ ہوگیا۔ یہ قرآن کا بھی معجزہ ہے کہ اس کی پیشین گوئی پوری ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی جنھیں قرآن یاد ہوا اور پھر بھولا نہیں۔
سورہ قیامۃ میں ہے
لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ (القيامة : 16)
تو اس کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دے، تاکہ اسے جلدی حاصل کرلے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ جلدی پڑھنے کے پیچھے اصل جذبہ زیادہ سے زیادہ علم کے حصول اور حفظ کا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے صرف جلدی کرنے سے منع فرمایا، مگر اصل جذبے کی تعریف کی اور اس کی تکمیل کے لیے دعا سکھائی
فرمایا
وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا ((طہ، آیت 114))
اور کہہ اے میرے رب! مجھے علم میں زیادہ کر۔
جیسا کہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھاتے ہوئے رکوع کی حالت میں پایا تو صف میں ملنے سے پہلے ہی رکوع میں چلے گئے اور پھر اسی حالت میں رکوع میں مل گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ زَادَكَ اللّٰهُ حِرْصًا وَلَا تَعُدْ ] [ بخاري، الأذان، باب إذا رکع دون الصف : ۷۸۳ ]
’’اللہ تمھاری حرص زیادہ کرے اور دوبارہ ایسا نہ کرنا۔‘‘
یعنی دوبارہ ایسی جلدی سے منع کرنے کے ساتھ نیکی میں حرص کی تعریف فرمائی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے میں قرآن جمع کرنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ لیتے ہیں
فرمایا
إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ (القيامة : 17)
بلاشبہ اس کوجمع کرنا اور (آپ کا ) اس کو پڑھنا ہمارے ذمے ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کا اسے پڑھنا ہمارے ذمے ہے۔
(تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)
اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان المبارک میں جبریل علیہ السلام سے مل کر قرآن کا دور کیا کرتے تھے
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں
وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ القُرْآنَ (بخاري ،كِتَابُ بَدْءِ الوَحْيِ،حدیث نمبر 6)
جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے
حفظ، ترجمۃ اور تفسیرالقرآن کی کلاسیں اللہ کی خاص رحمت کی لپیٹ میں ہوتی ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمْ السَّكِينَةُ وَغَشِيَتْهُمْ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمْ الْمَلَائِكَةُ وَذَكَرَهُمْ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ (مسلم، كِتَابُ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ بَابُ فَضْلِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى تِلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَعَلَى الذِّكْرِ6853)
اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں لوگوں کا کوئی گروہ اکٹھا نہیں ہوتا، وہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کا درس و تدریس کرتے ہیں مگر ان پر سکینت (اطمینان و سکون قلب) کا نزول ہوتا ہے اور (اللہ کی) رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین میں جو اس کے پاس ہوتے ہیں ان کا ذکر کرتا ہے اور جس کے عمل نے اسے (خیر کے حصول میں) پیچھے رکھا، اس کا نسب اسے تیز نہیں کر سکتا۔”
قرآن سیکھنے اور سکھانے والے سب سے بہتر لوگ ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"خيركم من تعلم القرآن و علمه "
(صحيح البخاري، كِتَابٌ : فَضَائِلُ الْقُرْآنِ ،بَابٌ : خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ. رقم الحديث: 5027)
تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھے اور پڑھائے
سعد بن عبیدہ نے بیان کیا کہ ابو عبد الرحمن سلمی نے لوگوں کو عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت سے حجاج بن یوسف کے عراق کے گورنر ہونے تک قرآن مجید کی تعلیم دی ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ یہی حدیث ہے جس نے مجھے اس جگہ ( قرآن مجید پڑھا نے کے لئے ) بٹھا رکھا ہے ۔
(بخاري ایضاً)
حاملِ قرآن عزت و تکریم کا مستحق ہے
سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللَّهِ إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ، وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَيْرِ الْغَالِي فِيهِ وَالْجَافِي عَنْهُ، وَإِكْرَامَ ذِي السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ
(ابو داؤد كِتَابُ الْأَدَبِ بَابٌ فِي تَنْزِيلِ النَّاسِ مَنَازِلَهُمْ4843)
دیکھئے صحیح الجامع ، حدیث 2095
” بلاشبہ بوڑھے مسلمان اور صاحب قرآن کی عزت کرنا جو اس میں غلو اور تقصیر سے بچتا ہو اور ( اسی طرح ) حاکم عادل کی عزت کرنا ‘ اللہ عزوجل کی عزت کرنے کا حصہ ہے ۔ “
اللہ تعالیٰ قرآن کے ذریعے عزت بلند کرتے ہیں
نافع بن عبدالحارث (مدینہ اور مکہ کے راستے پر ایک منزل) عسفان آکر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملے،(وہ استقبال کے لئے آئے) اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انھیں مکہ کا عامل بنایا کرتے تھے،
انھوں (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اہل وادی،یعنی مکہ کے لوگوں پر(بطور نائب) کسے مقرر کیا؟
نافع نے جواب دیا:
ابن ابزیٰ کو۔
انھوں نے پوچھا
ابن ابزیٰ کون ہے؟
کہنے لگے :
ہمارے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےکہا:
تم نے ان پر ایک آزاد کردہ غلام کو اپنا جانشن بنا ڈالا؟
تو (نافع نے) جواب دیا:
وہ اللہ عزوجل کی کتاب کو پڑھنے والا ہے اور فرائض کا عالم ہے۔
عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:
(ہاں واقعی) تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔
إِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ (مسلم، کتاب فضائل القرآن وما يتعلق به بَابُ فَضْلِ مَنْ يَقُومُ بِالْقُرْآنِ، وَيُعَلِّمُهُ، وَفَضْلِ مَنْ تَعَلَّمَ حِكْمَةً مِنْ فِقْهٍ، أَوْ غَيْرِهِ فَعَمِلَ بِهَا وَعَلَّمَهَا1897)
اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن) کے ذریعے بہت سے لوگوں کو اونچا کردیتا ہے اور بہتوں کو اس کے ذریعے سے نیچا گراتا ہے۔”
حافظ قرآن، لوگوں میں سب سے زیادہ امامت کا حقدار ہے
حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ فِي الْهِجْرَةِ فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ سِنًّا وَلَا تَؤُمَّ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ وَلَا تَقْعُدْ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلَّا أَنْ يَأْذَنَ لَكَ
(نسائی ،كِتَابُ الْإِمَامَةِ مَنْ أَحَقُّ بِالْإِمَامَةِ781)
’’لوگوں کی امامت وہ شخص کرائے جو ان میں سے اللہ تعالیٰ کی کتاب کو زیادہ پڑھنے والا ہو۔ اگر وہ قراءت میں برابر ہوں تو جس نے پہلے ہجرت کی ہو۔ اگر وہ ہجرت میں بھی برابر ہوں تو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زیادہ جانتا ہو۔ اگر سنت کے علم میں بھی برابر ہوں تو جو عمر میں بڑا ہو۔ اور تو کسی شخص کی سلطنت و اختیار میں اس کی امامت نہ کرا اور نہ اس کی مسند عزت پر بیٹھ، مگر یہ کہ وہ تجھے اجازت دے۔‘‘
صاحب قرآن قابلِ رشک ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ عَلَّمَهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَتْلُوهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ فَسَمِعَهُ جَارٌ لَهُ فَقَالَ لَيْتَنِي أُوتِيتُ مِثْلَ مَا أُوتِيَ فُلَانٌ فَعَمِلْتُ مِثْلَ مَا يَعْمَلُ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُهْلِكُهُ فِي الْحَقِّ فَقَالَ رَجُلٌ لَيْتَنِي أُوتِيتُ مِثْلَ مَا أُوتِيَ فُلَانٌ فَعَمِلْتُ مِثْلَ مَا يَعْمَلُ (بخاری، كِتَابُ فَضَائِلِ القُرْآنِ بَابُ اغْتِبَاطِ صَاحِبِ القُرْآنِ5026)
رشک تو بس دو ہی آدمیوں پر ہونا چاہئے ایک اس پر جسے اللہ تعالی نے قرآن کا علم دیا اور وہ رات دن اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے کہ اس کا پڑوسی سن کر کہہ اٹھے کہ کاش مجھے بھی اس جیسا علم قرآن ہوتا اور میں بھی اس کی طرح عمل کرتا اور وہ دوسرا جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے حق کے لئے لٹا رہا ہے ( اس کو دیکھ کر ) دوسرا شخص کہہ اٹھتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی اس کے جتنا مال ہوتااور میں بھی اس کی طرح خرچ کرتا ۔
رشک یعنی دوسرے کو جو نعمت اللہ نے دی ہے اس کی آرزو کرنا یہ درست ہے، حسد درست نہیں۔ حسد یہ ہے کہ دوسرے کی نعمت کا زوال چاہے۔ حسد بہت ہی برا مرض ہے جو انسان کو اور اس کی جملہ نیکیوں کو گھن کی طرح کھا جاتاہے۔
دو آیات سیکھنا دو اونٹنیوں سے اور تین آیات تین اونٹنیوں سے اور جتنی آیات اتنی ہی اونٹنیوں سے بہتر
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،انھوں نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سےنکل کر تشریف لائے۔ہم صفہ(چبوترے) پر موجود تھے
آپ نے فرمایا:
أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنْ يَغْدُوَ كُلَّ يَوْمٍ إِلَى بُطْحَانَ أَوْ إِلَى الْعَقِيقِ فَيَأْتِيَ مِنْهُ بِنَاقَتَيْنِ كَوْمَاوَيْنِ فِي غَيْرِ إِثْمٍ وَلَا قَطْعِ رَحِمٍ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ نُحِبُّ ذَلِكَ قَالَ أَفَلَا يَغْدُو أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَيَعْلَمُ أَوْ يَقْرَأُ آيَتَيْنِ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ خَيْرٌ لَهُ مِنْ نَاقَتَيْنِ وَثَلَاثٌ خَيْرٌ لَهُ مِنْ ثَلَاثٍ وَأَرْبَعٌ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَرْبَعٍ وَمِنْ أَعْدَادِهِنَّ مِنْ الْإِبِلِ (مسلم، کتاب فضائل القرآن وما يتعلق به، بَابُ فَضْلِ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ فِي الصَّلَاةِ وَتَعَلُّمِهِ1873)
” تم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ روزانہ صبح بطحان یا عقیق(کی وادی) میں جائے اور وہاں سے بغیر کسی گناہ اور قطع رحمی کے دو بڑے بڑے کوہانوں والی اونٹنیاں لائے؟”ہم نے عرض کی ،اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم سب کو یہ بات پسندہے آپ نے فرمایا:”پھر تم میں سے صبح کوئی شخص مسجد میں کیوں نہیں جاتا کہ وہ اللہ کی کتاب کی دو آیتیں سیکھے یا ان کی قراءت کرے تو یہ اس کے لئے دو اونٹنیوں (کے حصول) سے بہتر ہے اور یہ تین آیات تین اونٹنیوں سے بہتر اور چار آیتیں اس کے لئے چار سے بہتر ہیں اور(آیتوں کی تعداد جو بھی ہو) اونٹوں کی اتنی تعداد سے بہتر ہے۔”
حافظ قرآن بار بار قرآن پڑھنے کی وجہ سے سب سے زیادہ اجر حاصل کرتا ہے
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا لَا أَقُولُ الم حَرْفٌ وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ (ترمذی ،أَبْوَابُ فَضَائِلِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ،بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنَ الْقُرْآنِ مَالَهُ مِنَ الأَجْرِ2910 صحيحح)
جس نے کتاب اللہ کاایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی،اور ایک نیکی دس گنا بڑھادی جائے گی ، میں نہیں کہتا ‘ الم ‘ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے’۔
قرآن حفظ کرنے کے دوران سبق، سبقی اور منزل کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے حافظ قرآن ایک ایک آیت کو بیسیوں مرتبہ دھراتا ہے
نمازوں کی امامت بالخصوص نماز تراویح میں ایک پارہ قرآن سنانے کے لیے کم از کم تین چار مرتبہ دھرانا پڑتا اور یوں حافظ قرآن، نماز تراویح میں جو ایک مرتبہ قرآن ختم کرتا ہے حقیقتاً تین چار قرآن ختم کر رہا ہوتا ہے
قرآن پڑھنے والوں کو اللہ کےخاص بندے ہونے کا شرف حاصل ہے
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ لِلَّهِ أَهْلِينَ مِنَ النَّاسِ»
قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ هُمْ؟
قَالَ: «هُمْ أَهْلُ الْقُرْآنِ، أَهْلُ اللَّهِ وَخَاصَّتُهُ» (ابن ماجہ، كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ فَضْلِ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ215)
’’ لوگوں میں سے کچھ افراد اللہ والے ہوتے ہیں۔‘‘
صحابہ کرام نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟
فرمایا:
’’ قرآن والے ،وہی اللہ والے اور اس کے خاص بندے ہیں۔‘‘
قرآن والے یعنی قرآن پڑھنے والے، یاد کرنے والے، احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اس کا فہم حاصل کرنے والے، اس پر عمل کرنے والے، اور اس کی تبلیغ کرنے والے، یہ سب قرآن والوں میں شامل ہیں۔
قرآن کے ساتھ تعلق رکھنے والے اللہ کے خاص بندے اور اس کے مقرب ہیں، لہذا قیامت اور جنت میں بھی ان پر خصوصی انعامات ہوں گے۔ اور یہ بہت بڑا شرف ہے کہ اللہ نے انہیں اپنے قرار دیا ہے۔
قرآن کے قاری ہونے کی برکت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود أبی بن کعب رضی اللہ عنہ کا نام لے کر تذکرہ کیا
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت میں یہ امتیاز حاصل تھا کہ آپ قرآن کے بہت عمدہ قاری اور مضبوط حافظ تھے
ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مختلف صحابہ کی مختلف خوبیوں کا تذکرہ کیا
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ وَأَشَدُّهُمْ فِي أَمْرِ اللَّهِ عُمَرُ وَأَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ وَأَعْلَمُهُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَأَفْرَضُهُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَأَقْرَؤُهُمْ أُبَيٌّ وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينٌ وَأَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الجراح (ترمذي صحیح)
میری امت میں سے سب سے رحم دل ابوبکر ہیں
اللہ کے معاملے میں سب سے سخت عمر ہیں
سب سے زیادہ حیاء والے عثمان ہیں
سب سے زیادہ حلال و حرام کو جاننے والے معاذ بن جبل ہیں
فرائض کو سب سے زیادہ جاننے والے زید بن ثابت ہیں
سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں
اور ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابو عبیدہ بن جراح ہیں
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اچھی قرأت اور إتقان القرآن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کا خاص تذکرہ کیا
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أُقْرِئَكَ الْقُرْآنَ قَالَ آللَّهُ سَمَّانِي لَكَ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَقَدْ ذُكِرْتُ عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ نَعَمْ فَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ
[بخاري، التفسیر، سورۃ : «لم یکن» : 4677 ]
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھیں ’’قرآن ‘‘ پڑھ کر سناؤں۔‘‘
اُبی رضی اللہ عنہ نے کہا :
’’ کیا اللہ نے میرا نام بھی لیا ہے؟‘‘
آپ نے فرمایا : ’’ہاں!‘‘
انہوں نے کہا :کیا واقعی اللہ رب العالمین کے ہاں میرا تذکرہ کیا گیا
آپ نے فرمایا :’’ہاں!‘‘
تو اُبی رضی اللہ عنہ (یہ سن کر خوشی سے) رونے لگے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حافظ شہید کو غیر حافظ شہید سے مقدم کرتے
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ ثُمَّ يَقُولُ أَيُّهُمْ أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ فَإِذَا أُشِيرَ لَهُ إِلَى أَحَدِهِمَا قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ وَقَالَ أَنَا شَهِيدٌ عَلَى هَؤُلَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ فِي دِمَائِهِمْ وَلَمْ يُغَسَّلُوا وَلَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِمْ
(بخاری، كِتَابُ الجَنَائِزِ،بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الشَّهِيدِ1343)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دو دو شہیدوں کو ملا کر ایک ہی کپڑے کا کفن دیا۔ آپ دریافت فرماتے کہ ان میں قرآن کسے زیادہ یاد ہے۔ کسی ایک کی طرف اشارہ سے بتایا جاتا تو آپ بغلی قبر میں اسی کو آگے کرتے اور فرماتے کہ میں قیامت میں ان کے حق میں شہادت دوں گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو ان کے خون سمیت دفن کرنے کا حکم دیا۔ نہ انہیں غسل دیا گیا اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی۔
قرآن کے 70 حُفاظ کے قاتلین کے خلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے 40 دن بددعا کی
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا:
کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: ہمارے ساتھ کچھ آدمی بھیج دیں جو (ہمیں) قرآن اور سنت کی تعلیم دیں۔ آپ نے ان کے ساتھ ستر انصاری بھیج دیے جنہیں قراء کہا جاتا تھا، ان میں میرے ماموں حضرت حرام (بن ملحان رضی اللہ عنہ) بھی تھے، یہ لوگ رات کے وقت قرآن پڑھتے تھے، ایک دوسرے کو سناتے تھے، قرآن کی تعلیم حاصل کرتے تھے، اور دن کو مسجد میں پانی لا کر رکھتے تھے اور جنگل سے لکڑیاں لا کر فروخت کرتے اور اس سے اصحاب صفہ اور فقراء کے لیے کھانا خریدتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان (آنے والے کافروں) کی طرف بھیجا اور انہوں نے منزل پر پہنچنے سے پہلے (راستے ہی میں دھوکے سے) ان پر حملہ کر دیا اور انہیں شہید کر دیا
(مسلم، كِتَابُ الْإِمَارَةِ بَابُ ثُبُوتِ الْجَنَّةِ لِلشَّهِيدِ4917)
صحيح بخاری میں ہے
فَدَعَا عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ صَبَاحًا عَلَى رِعْلٍ وَذَكْوَانَ وَبَنِي لَحْيَانَ وَبَنِي عُصَيَّةَ الَّذِينَ عَصَوُا اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
(بخاری، كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَابُ مَنْ يُنْكَبُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ 2801)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس دن تک صبح کی نماز میں قبیلہ رعل‘ ذکوان‘ نبی لحیان اور بنی عصیہ کے لئے بد دعاکی تھی جنہوں نے اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی تھی ۔
قرآن، قیامت کے دن اپنے اصحاب کی سفارش کرے گا
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث بیان کی،انھوں کہا:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا:
اقْرَءُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ اقْرَءُوا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ وَسُورَةَ آلِ عِمْرَانَ فَإِنَّهُمَا تَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ كَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا اقْرَءُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ قَالَ مُعَاوِيَةُ بَلَغَنِي أَنَّ الْبَطَلَةَ السَّحَرَةُ (بخاری ،کتاب فضائل القرآن وما يتعلق به بَاب فَضْلِ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَسُورَةِ الْبَقَرَةِ1874)
"قرآن پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اصحاب قرآن(حفظ وقراءت اور عمل کرنے والوں) کا سفارشی بن کر آئےگا۔دو روشن چمکتی ہوئی سورتیں:البقرہ اور آل عمران پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان ہوں یا جیسے وہ ایک سیدھ میں اڑتے پرندوں کی وہ ڈاریں ہوں،وہ اپنی صحبت میں(پڑھنے اور عمل کرنے)والوں کی طرف سے دفاع کریں گی۔سورہ بقرہ پڑھا کرو کیونکہ اسے حاصل کرنا باعث برکت اور اسے ترک کرناباعث حسرت ہے اور باطل پرست اس کی طاقت نہیں رکھتے۔”
معاویہ نے کہا:
مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ باطل پرستوں سے ساحر(جادوگر) مراد ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق قرآن کریم قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرے گا فرمان نبوی ہے :
(الصِّيامُ والقرآنُ يشفَعانِ للعبدِ يومَ القيامةِ يقولُ الصِّيامُ أي ربِّ منعتُهُ الطَّعامَ والشَّهواتِ بالنَّهارِ فشفِّعني فيهِ ويقولُ القرآنُ منعتُهُ النَّومَ باللَّيلِ فشفِّعني فيهِ قالَ فَيشفَّعانِ)
(قیامت کے دن روزے اور قرآن مجید سفارش کریں گے ، روزے کہیں گے اے میرے رب میں نے دن کے وقت اسے کھانے پینے اور شھوات سے روک دیا تھا اس کے متعلق میری سفارش قبول کر ، اور قرآن مجید کہے گا کہ اے رب میں نے اسے رات کو سونے سے روکے رکھا آج میری سفارش قبول کر تو اللہ تعالی ان دونوں کی سفارش قبول کریں گے )
(مسند احمد اور طبرانی اور حاکم نے اسے روایت کیا ہے ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع حدیث نمبر ( 3882 ) میں صحیح کہا ہے ۔)
المستدرك على الصحيحين للحاكم (1/ 742)
2043 – أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، ثنا مُعَاذُ بْنُ نَجْدَةَ الْقُرَشِي، ثنا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى، ثنا بَشِيرُ بْنُ مُهَاجِرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْقُرْآنُ كَالرَّجُلِ الشَّابِّ فَيَقُولُ لِصَاحِبِهِ: أَنَا الَّذِي أَسْهَرْتُ لَيْلَكَ، وَأَظْمَأْتُ نَهَارَكَ «.» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ "
شیخ البانی حافظ زبیر شیخ ارناووط شیخ حسین سلیم اسد وغیرہ سب نے حسن کہا ہے
تنبیہ: قرآن اللہ سبحانہ وتعالی کا کلام کے، اس کی صفت ہے. اس کی کوئی صفت کسی انسان سے مشابہ نہیں ہو سکتی. چنانچہ قرآن کا مرد کی شکل میں آنے سے مراد ہے کہ قاری کا قرآن کی تلاوت کا عمل اس کے سامنے آئے گا، قرآن بذات خود نہیں
واللہ اعلم
قرآن یاد کرنے والے دل کو عذاب نہیں ہوگا
ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
اﻗﺮءﻭا اﻟﻘﺮﺁﻥ ﻭﻻ ﺗﻐﺮﻧﻜﻢ ﻫﺬﻩ اﻟﻤﺼﺎﺣﻒ اﻟﻤﻌﻠﻘﺔ، ﻓﺈﻥ اﻟﻠﻪ ﻟﻦ ﻳﻌﺬﺏ ﻗﻠﺒﺎ ﻭﻋﻰ اﻟﻘﺮﺁﻥ
(سنن دارمی :(3362) کی یہ موقوفا روایت صحیح ہے جو حکما مرفوع ہے، شیخ ابو انس طیبی حفظہ اللہ تعالیٰ )
قرآن پڑھا کرو، اور یہ معلق پڑے ہوئے صحیفے کہیں تمہیں دھوکے میں نہ مبتلا کر دیں( یعنی اپنے تئیں تم بس اسی پر خوش رہو کہ ہمارے پاس قرآن کے نسخے پڑے ہوئے ہیں اور ان کی تلاوت نہ کرو)
پس بے شک اللہ ہرگز ایسے دل کو عذاب نہیں دے گا جس نے قرآن حفظ کیا
امام ابو حنیفہ کے شاگرد زفر بن ہذیل کا واقعہ
شرح مسند ابی حنیفہ میں لکھا ہے کہ
أنّ زفر بن الهذيل [أكبر تلامذ أبي حنيفة]
حفظ القرآن في آخر سَنَتَين مِن عمره،
فرُئِيَ بعد موته في المنام،
فسُئل: ما حالك؟ فقال:
لولا السّنتَين لَهَلَك زفر!! ".
[شرح مسند أبي حنيفة (١/٤٥)
زفر بن ہذیل امام ابو حنیفہ کے شاگرد تھے انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دو سالوں میں قرآن مجید حفظ کیا تھا
ان کی موت کے بعد کسی نے انہیں خواب میں دیکھا
ان سے پوچھا گیا کہ آپ کا کیا حال ہے
تو انہوں نے کہا
اگر میری زندگی کے آخری دو سال نہ ہوتے تو میں ہلاک ہو جاتا
قال شعيب بن حرب رحمه الله :
رأيت النبي صلى الله عليه وسلم في النوم ومعه أبو بكر وعمر، فجئت فقال :
أوسعوا له فإنه حافظ لكتاب الله عز وجل.
صفة الصفوة (2/ 184).
قیامت کے دن قرآن اپنے اصحاب پر سایہ فگن ہوگا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اقْرَءُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ اقْرَءُوا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ وَسُورَةَ آلِ عِمْرَانَ فَإِنَّهُمَا تَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ كَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا اقْرَءُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ قَالَ مُعَاوِيَةُ بَلَغَنِي أَنَّ الْبَطَلَةَ السَّحَرَةُ (مسلم، کتاب فضائل القرآن وما يتعلق به، بَاب فَضْلِ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَسُورَةِ الْبَقَرَةِ1874)
قرآن پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اصحاب قرآن(حفظ وقراءت اور عمل کرنے والوں) کا سفارشی بن کر آئےگا۔دو روشن چمکتی ہوئی سورتیں:البقرہ اور آل عمران پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان ہوں یا جیسے وہ ایک سیدھ میں اڑتے پرندوں کی وہ ڈاریں ہوں،وہ اپنی صحبت میں(پڑھنے اور عمل کرنے)والوں کی طرف سے دفاع کریں گی۔سورہ بقرہ پڑھا کرو کیونکہ اسے حاصل کرنا باعث برکت اور اسے ترک کرناباعث حسرت ہے اور باطل پرست اس کی طاقت نہیں رکھتے۔”
معاویہ نے کہا: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ باطل پرستوں سے ساحر(جادوگر) مراد ہیں۔
مسلم ہی کی ایک اور روایت میں ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
يُؤْتَى بِالْقُرْآنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَهْلِهِ الَّذِينَ كَانُوا يَعْمَلُونَ بِهِ تَقْدُمُهُ سُورَةُ الْبَقَرَةِ وَآلُ عِمْرَانَ وَضَرَبَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ أَمْثَالٍ مَا نَسِيتُهُنَّ بَعْدُ قَالَ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ ظُلَّتَانِ سَوْدَاوَانِ بَيْنَهُمَا شَرْقٌ أَوْ كَأَنَّهُمَا حِزْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ صَاحِبِهِمَا (مسلم، کتاب فضائل القرآن وما يتعلق به، بَاب فَضْلِ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَسُورَةِ الْبَقَرَةِ1874)
:”قیامت کے دن قرآن اور قرآن والے ایسے لوگوں کو لایا جائے گا جو اس پر عمل کرتے تھے،سورہ بقرہ اورسورہ آل عمران اس کے آگے آگے ہوں گی۔”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سورتوں کے لئے تین مثالیں دیں جن کو(سننے کے بعد)میں (آج تک) نہیں بھولا،آپ نے فرمایا:”جیسے وہ دو بادل ہیں یا دو کالے سائبان ہیں جن کے درمیان روشنی ہے جیسے وہ ایک سیدھ میں اڑنے والے پرندوں کی دو ٹولیاں ہیں،وہ ا پنے صاحب(صحبت میں رہنے والے)کی طرف سے مدافعت کریں گی۔
قرآن و حدیث کی تعلیم کے لیے سفر کرنے والے کے لیے جنت کا راستہ آسان ہو جاتا ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ (مسلم، كِتَابُ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ بَابُ فَضْلِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى تِلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَعَلَى الذِّكْرِ6853)
اور جو شخص اس راستے پر چلتا ہے جس میں وہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے
قرآن، جنت میں اپنے ساتھی کے درجات بلند کرے گا
سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا فَإِنَّ مَنْزِلَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَؤُهَا
(ابو داؤد، كِتَابُ تَفريع أَبوَاب الوِترِ بَابُ اسْتِحْبَابِ التَّرْتِيلِ فِي الْقِرَاءَةِ،حدیث نمبر 1464)
” صاحب قرآن سے کہا جائے گا کہ پڑھتا جا اور چڑھتا جا ، اور اسی طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھ ، جیسے کہ دنیا میں پڑھا کرتا تھا ، جہاں آخری آیت ختم کرے گا وہیں تیرا مقام ہو گا ۔ “
اس حدیث میں مخلص باعمل حفاظ قراء اور قرآن کی تلاوت کو اپنا معمول بنانے والوں کی فضیلت کا بیان ہے۔کہ عام مسلمانوں کے مقابلے میں یہ لوگ سب سے افضل ہوں گے۔
جو شخص قرآن پڑھتاہےاور وہ اس کاحافظ بھی ہے،وہ مکرم اور نیک لکھنے والے(فرشتوں)کی طرح ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَهُوَ حَافِظٌ لَهُ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ وَمَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ وَهُوَ يَتَعَاهَدُهُ وَهُوَ عَلَيْهِ شَدِيدٌ فَلَهُ أَجْرَانِ
(بخاری، كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ سُورَةُ عبس4937)
اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا حافظ بھی ہے ، مکرم اور نیک لکھنے والے ( فرشتوں ) جیسی ہے اور جو شخص قرآن مجید باربار پڑھتا ہے ۔ پھر بھی وہ اس کے لئے دشوار ہے تو اسے دو گنا ثواب ملے گا ۔
بعض لوگوں کی زبانوں پر الفاظ قرآن پاک جلدی نہیں چڑھتے اور ان کو باربار مشق کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان ہی کے لئے دوگنا ثواب ہے کیونکہ وہ کافی مشقت کے بعد قرات قرآن میں کامیاب ہوتے ہیں۔
قیامت کے دن قرآن پڑھنے، سیکھنے اور اس پر عمل کرنے والے کو تاج اور اسکے والدین کوپوری دنیا سے زیادہ قیمتی لباس پہنایا جائے گا
بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من قرأ القرآن و تعلمه و عمل به ألبس يوم القيامة تاجا من نور ضوؤه مثل ضوء الشمس و يكسى والديه حلتان لا يقوم بهما الدنيا
فيقولان : بما كسينا؟
فيقال: بأخذ ولدكما القرآن.
(رواہ الحاكم (1/567 ح 2086)
و سنده حسن و صححه الحاكم على شرط مسلم و وافقه الذهبي)
(انوار الصحيفة للشيخ زبير عليزئى رحمه الله ص/185)
جس نے قرآن پڑھا، اسے سیکھااور اس پر عمل کیا اسے قیامت کے دن نور کا ایسا تاج پہنایا جائے گا کہ جس کی روشنی سورج کی روشنی کی طرح ہوگی اور اس کے والدین کو کپڑوں کے ایسے دو جوڑے پہنائے جائیں گے جو پوری دنیا سے زیادہ قیمتی ہونگے
وہ دونوں کہیں گے ہمیں یہ کس نیکی کے عوض پہنائے گئے ہیں
تو کہا جائے گا تمہارے بیٹے کے قرآن سیکھنے کی وجہ سے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ إِذَا مَاتَ الإِْنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُوْ لَهُ ]
[ مسلم، الوصیۃ، باب ما یلحق الإنسان من الثواب بعد وفاتہ : ۱۶۳۱، عن أبي ہریرۃ رضی اللہ عنہ ]
’’جب انسان فوت ہوتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے مگر تین عمل جاری رہتے ہیں، صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور صالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘
اے اللہ قرآن کو ہمارے دلوں کی بہار بنا دے
{ اللَّهُمَّ إنِّي عَبْدُك ابْنُ عَبْدِك ابْنُ أَمَتِك نَاصِيَتِي بِيَدِك
أَسْأَلُك بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَك
سَمَّيْت بِهِ نَفْسَك
أَوْ أَنْزَلْته فِي كِتَابِك
أَوْ عَلَّمْته أَحَدًا مِنْ خَلْقِك
أَوْ اسْتَأْثَرْت بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَك
أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ
رَبِيعَ قَلْبِي
وَنُورَ صَدْرِي
وَجَلَاءَ حُزْنِي
وَذَهَابَ هَمِّي وَغَمِّي}
یا اللہ! میں تیرا بندہ ہوں ، اور تیرے بندے اور باندی کا بیٹا ہوں میری پیشانی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، میری ذات پر تیرا ہی حکم چلتا ہے، میری ذات کے متعلق تیرا فیصلہ سراپا عدل و انصاف ہے، میں تجھے تیرے ہر اس نام کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جو توں نے اپنے لیے خود تجویز کیا، یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو وہ نام سکھایا، یا اپنی کتاب میں نازل فرمایا، یا اپنے پاس علم غیب میں ہی اسے محفوظ رکھا، کہ توں قرآن کریم کو میرے دل کی بہار، سینے کا نور،غموں کیلئے باعث کشادگی اور پریشانیوں کیلئے دوری کا ذریعہ بنا دے۔
قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سامنے قرآن چھوڑنے والوں کی شکائت کریں گے
سورہ فرقان میں ہے
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان آیت 30)
اور رسول کہے گا اے میرے رب! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑا ہوا بنا رکھا تھا۔
استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ لکھتے ہیں
’’ قَوْمِي ‘‘ میں وہ تمام ایمان لانے والے بھی شامل ہیں جنھوں نے کسی طرح بھی قرآن کو چھوڑا۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’قرآن کو سننے سے گریز، اس میں شور ڈالنا اور اس پر ایمان نہ لانا، اسے چھوڑنا ہے۔
اسی طرح بقدر ضرورت اس کا علم حاصل نہ کرنا اور اسے حفظ نہ کرنا بھی اسے چھوڑنا ہے۔
اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش نہ کرنا، اس کے اوامر پر عمل نہ کرنا اور اس کی منع کردہ چیزوں سے باز نہ آنا بھی اسے چھوڑنا ہے۔
اسے چھوڑ کر دوسری چیزوں کو اختیار کرنا بھی اسے چھوڑنا ہے، مثلاً گانے بجانے کو، عشقیہ اشعار کو، لوگوں کے اقوال و آراء کو اور ان کے بنائے ہوئے طریقوں کو قرآن پر ترجیح دینا اسے چھوڑنا ہے۔‘‘