نبی کریم کی دعاؤں کی تاثیر اور موجودہ دور میں آپ کی دعائیں لینے کے مواقع

 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (التوبة : 103)

ان کے مالوں سے صدقہ لے، اس کے ساتھ تو انھیں پاک کرے گا اور انھیں صاف کرے گا اور ان کے لیے دعا کر، بے شک تیری دعا ان کے لیے باعث سکون ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔

01.عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کی دعا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق دعا کی

اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (ابن ماجہ ،كِتَابُ السُّنَّةِ،بَابُ فَضْلِ عُمَرَؓ،105 صحیح)

‘‘ اے اللہ! اسلام کو عمر بن خطاب کے ذریعے سے قوت بخش۔’’

نتیجہ

اسی دعا کا نتیجہ تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ مسلمان ہوگئے اور آپ کی وجہ سے اسلام کو بہت زیادہ تقویت ملی

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا

مَا زِلْنَا أَعِزَّةً مُنْذُ أَسْلَمَ عُمَرُ (بخاری ،کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ،بَابُ إِسْلاَمِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ ؓ،3863)

کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعدہم لوگ ہمیشہ عزت سے رہے ۔

02. علی رضی اللہ عنہ کے لیے شفاء کی دعا

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے شکایت ہوئی (بیماری ہوئی) رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے، اس وقت میں دعا کررہاتھا :

اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ أَجَلِي قَدْ حَضَرَ فَأَرِحْنِي وَإِنْ كَانَ مُتَأَخِّرًا فَارْفَغْنِي وَإِنْ كَانَ بَلَاءً فَصَبِّرْنِي

اے میرے رب! اگر میری موت کا وقت آپہنچا ہے تو مجھے (موت دے کر) راحت دے اور اور اگر میری موت بعد میں ہوتو مجھے اٹھا کر کھڑا کردے (یعنی صحت دیدے) اور اگر یہ آزمائش ہے تو مجھے صبردے

تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے پاؤں سے ٹھونکا لگایا اور فرمایا

اللَّهُمَّ عَافِهِ أَوْ اشْفِهِ شُعْبَةُ الشَّاكُّ (ترمذی بَاب فِي دُعَاءِ الْمَرِيضِ ،3564)

( اے اللہ ! انہیں عافیت دے، یا شفا دے)

نتیجہ

فرماتے ہیں

فَمَا اشْتَكَيْتُ وَجَعِي بَعْدُ (ترمذی بَاب فِي دُعَاءِ الْمَرِيضِ ،3564)

اس کے بعد مجھے اپنی تکلیف کی پھر کبھی شکایت نہیں ہوئی

03. علی رضی اللہ عنہ کے لیے بہترین فیصل بننے کی دعا

سیدنا علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یمن کا قاضی بنا کر روانہ فرمایا تو میں نے عرض کیا : اے اﷲ کے رسول !

تُرْسِلُنِي وَأَنَا حَدِيثُ السِّنِّ وَلَا عِلْمَ لِي بِالْقَضَاءِ

آپ ﷺ نے فرمایا

إِنَّ اللَّهَ سَيَهْدِي قَلْبَكَ وَيُثَبِّتُ لِسَانَكَ فَإِذَا جَلَسَ بَيْنَ يَدَيْكَ الْخَصْمَانِ فَلَا تَقْضِيَنَّ حَتَّى تَسْمَعَ مِنْ الْآخَرِ كَمَا سَمِعْتَ مِنْ الْأَوَّلِ فَإِنَّهُ أَحْرَى أَنْ يَتَبَيَّنَ لَكَ الْقَضَاءُ

” یقیناً اﷲ تعالیٰ تمہارے دل کو ہدایت دے گا اور تمہاری زبان کو ثابت رکھے گا ۔ جب مقدمے کے دو فریق تمہارے سامنے بیٹھیں تو اس وقت تک ہرگز فیصلہ نہ کرنا جب تک دوسرے سے سن نہ لینا جیسے کہ پہلے سے سنا ہو ۔ بلاشبہ یہی چیز زیادہ لائق ہے کہ فیصلہ تمہارے لیے واضح ہو جائے ۔“

نتیجہ

سیدنا علی ؓ کہتے ہیں :

قَالَ فَمَا زِلْتُ قَاضِيًا أَوْ مَا شَكَكْتُ فِي قَضَاءٍ بَعْدُ (ابوداؤد، كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ، بَابٌ كَيْفَ الْقَضَاءُ،3582 حسن)

چنانچہ میں وہاں قاضی بنا رہا یا ( فرمایا ) مجھے اس کے بعد فیصلہ کرنے میں کوئی تردد نہیں ہوا ۔

04. انس رضی اللہ عنہ کو مال وأولاد کی دعا

انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میری ماں مجھے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں

انھوں نے اپنی آدھی اوڑھنی سے میری کمر پر چادر باندھ دی تھی اور اوڑھنی میرے شانوں پر ڈال دی تھی ۔انھوں نے عرض کی:

يَا رَسُولَ اللهِ، هَذَا أُنَيْسٌ ابْنِي، أَتَيْتُكَ بِهِ يَخْدُمُكَ فَادْعُ اللهَ لَهُ،

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ انیس (انس کی تصغیر ) ہے میرا بیٹا ہے، میں اسے آپ کے پاس لا ئی ہوں تا کہ یہ آپ کی خدمت کرے، آپ اس کے لیےاللہ سے دعاکریں

تو آپ نے فر ما یا :

«اللهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ»

اے اللہ !اس کے مال اور اولاد کو زیادہ کر

ایک روایت میں دعا کے الفاظ اس طرح ہیں

اللَّهُمَّ ارْزُقْهُ مَالًا وَوَلَدًا وَبَارِكْ لَهُ فِيهِ

اے اللہ ! اسے مال اور اولاد عطا فرما او راس کے لیے برکت عطا کر

اس دعا کا نتیجہ کیا نکلا

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:

فَوَاللهِ إِنَّ مَالِي لَكَثِيرٌ، وَإِنَّ وَلَدِي وَوَلَدَ وَلَدِي لَيَتَعَادُّونَ عَلَى نَحْوِ الْمِائَةِ، الْيَوْمَ

(مسلم، كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُم، بَاب مِنْ فَضَائِلِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،6376)

اللہ کی قسم!میرا مال بہت زیادہ ہے اور آج میری اولاداور اولاد کی اولاد کی گنتی سو کے لگ بھگ ہے۔

بخاری کی روایت میں ہے

فَإِنِّي لَمِنْ أَكْثَرِ الْأَنْصَارِ مَالًا وَحَدَّثَتْنِي ابْنَتِي أُمَيْنَةُ أَنَّهُ دُفِنَ لِصُلْبِي مَقْدَمَ حَجَّاجٍ الْبَصْرَةَ بِضْعٌ وَعِشْرُونَ وَمِائَةٌ (بخاری ،كِتَابُ الصَّوْمِ،بَابُ مَنْ زَارَ قَوْمًا فَلَمْ يُفْطِرْ عِنْدَهُمْ،1982)

چنانچہ میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار ہوں۔ اور مجھ سے میری بیٹی امینہ نے بیان کیا حجاج کے بصرہ آنے تک میری صلبی اولاد میں سے تقریباً ایک سو بیس دفن ہو چکے تھے

اور انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

وان ارضی لتثمر فی السنۃ مرتین وما فی البلد شیئ یثمر مرتین غیرھا

حلیۃ الاولیاء 267/8

میری زمین ایک سال میں دوبار پھل دینے لگی حالانکہ اس علاقے میں کوئی بھی زمین ایسی نہ تھی جو سال میں دوبار پھل دیتی ہو

05. ابن عباس رضی اللہ عنہ کے لیے فقاہت کی دعا

ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وضو کا پانی رکھ دیا۔ ( باہر نکل کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ۔

«مَنْ وَضَعَ هَذَا فَأُخْبِرَ فَقَالَ اللَّهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّينِ» (بخاری ،كِتَابُ الوُضُوءِ،بَابُ وَضْعِ المَاءِ عِنْدَ الخَلاَءِ،143)

یہ کس نے رکھا؟ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا تو آپ نے ( میرے لیے دعا کی اور ) فرمایا، اے اللہ! اس کو دین کی سمجھ عطا فرما

وفی روایۃ للبخاری

اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ (بخاری ،کتاب العلم، بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ، 75)

نتیجہ

آپ کی دعا کی برکت سے حضرت ابن عباس فقیہ امت قرار پائے۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

نعم ترجمان القرآن ابن عباس .

(المستدرک للحاکم هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ، ولم يخرجاه و مصنف عبدالرزاق تفسیر ابن کثیر إسناده صحیح)

ابن عباس بہترین مفسر قرآن تھے

وقد روي في الصحيح عن ابنِ مسعودٍ قالَ: "لو أدركَ ابنُ عبَّاسٍ أسنانَنا ما عاشرَهُ منَّا رجُلٌ، وَكانَ يقولُ: نِعمَ تُرجَمانُ القرآنِ ابنُ عبَّاسٍ”(مصنف عبدالرزاق المستدرک علی الصحیحین حکم الالبانی صحیح)

06. ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے لیے قوۃ حافظہ کی دعا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا

يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي سَمِعْتُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا فَأَنْسَاهُ

یا رسول اللہ ! میں نے آپ سے بہت سی احادیث اب تک سنی ہیں لیکن میں انہیں بھول جاتا ہوں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ابْسُطْ رِدَاءَكَ

اپنی چادر پھیلاو

فَبَسَطْتُ

میں نے چادر پھیلادی

فَغَرَفَ بِيَدِهِ فِيهِ ثُمَّ قَالَ ضُمَّهُ

اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اس میں ایک لپ بھر کر ڈال دی اور فرمایا کہ اسے اپنے بدن سے لگالو

نتیجہ

فَضَمَمْتُهُ فَمَا نَسِيتُ حَدِيثًا بَعْدُ (بخاری كِتَابُ المَنَاقِبِ،بَابٌ،3648)

چنانچہ میں نے لگالیا اور اس کے بعد کبھی کوئی حدیث نہیں بھولا ۔

آپ کی دعا کی برکت سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا حافظہ تیز ہوگیا۔ اور پانچ ہزار سے بھی زائد احادیث کے حافظ قرارپائے۔

تف ہے ان لوگوں پر جو ایسے جلیل القدر حافظ الحدیث صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حدیث فہمی میں ناقص قرار دے کر خود اپنی حماقت کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسے علماءوفقہاءکو اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے کہ ایک صحابی رسول کی توہین کی سزا میں گرفتار ہوکر کہیں وہ خسرالدنیا والآخرۃ کے مصداق نہ بن جائیں۔

07. جریر رضی اللہ عنہ کو گھوڑے کی پشت پر جم کر بیٹھنے کی دعا

01.

حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا

مَا حَجَبَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْذُ أَسْلَمْتُ وَلَا رَآنِي إِلَّا تَبَسَّمَ فِي وَجْهِي وَلَقَدْ شَكَوْتُ إِلَيْهِ أَنِّي لَا أَثْبُتُ عَلَى الْخَيْلِ فَضَرَبَ بِيَدِهِ فِي صَدْرِي وَقَالَ اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ وَاجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا (بخاری ،كِتَابُ الأَدَبِ،بَابُ التَّبَسُّمِ وَالضَّحِكِ،6090)

کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اپنے پاس آنے سے ) کبھی نہیں روکا اور جب بھی آپ نے مجھے دیکھا تو مسکرائے

میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میں گھوڑے پر جم کر نہیں بیٹھ پاتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا اور دعا کی کہ اے اللہ ! اسے ثبات فرمایا اسے ہدایت کرنے والا اور خود ہدایت پایا ہوا بنا

نتیجہ

جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس دعا کی ایسی برکت پیدا ہوئی کہ

فَمَا وَقَعْتُ عَنْ فَرَسٍ بَعْدُ (بخاری ،كِتَابُ المَغَازِي،بابُ غَزْوَةِ ذِي الخَلَصَةِ،4357)

پھر اس کے بعد میں کبھی کسی گھوڑے سے نہیں گرا

08. سائب بن یزید کے لیے دعاءِ صحت اور اس کا نتیجہ

جعد بن عبدالرحمن نے بیان کیا کہ میں نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کو چورانوے سال کی عمر میں دیکھا کہ خاصے قوی وتوانا تھے ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ میرے کانوں اور آنکھوں سے جو میں نفع حاصل کررہا ہوں وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت ہے ۔ میری خالہ مجھے ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں لے گئیں ۔ اور عرض کیا

يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنَ أُخْتِي شَاكٍ فَادْعُ اللَّهَ لَهُ (بخاری كِتَابُ المَنَاقِبِ،بَابٌ،3540)

یارسول اللہ ! یہ میرا بھانجا بیمار ہے ، آپ اس کے لیے دعا فرمادیں ۔

انہوں نے بیان کیا

فَدَعَا لِي

کہ پھر آپ نے میرے لیے دعافرمائی ۔

09. عامر رضی اللہ عنہ کے لیے شہادت کی دعا

حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہا : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف روانہ ہوئے تو عامر رضی اللہ عنہ(جوکہ) شاعر آدمی تھے ، وہ اتر کر لوگوں کے ( اونٹوں ) کے لیے حدی خوانی کرنے لگے ، وہ کہہ رہے تھے :

اللهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا، وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا فَاغْفِرْ فِدَاءً لَكَ مَا اقْتَفَيْنَا، وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا، وَأَلْقِيَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا، إِنَّا إِذَا صِيحَ بِنَا أَتَيْنَا، وَبِالصِّيَاحِ عَوَّلُوا عَلَيْنَا

اے اللہ! اگر تو ( فضل و کرم کرنے والا ) نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے ، نہ صدقہ کرتے نہ نماز پڑھتے ، ہم تیرے نام پر قربان ، ہم نے جو گناہ کیے ان کو بخش دے اور اگر ہمارا مقابلہ ہو تو ہمارے قدم جما دے اور ہم پر ضرور بالضرور سکینت اور وقار نازل فرما ۔ ہمیں جب بھی آواز دے کر بلایا گیا ہم آئے ، ہمیں آواز دے کر ان ( آواز دینے والے ) لوگوں نے ہم پر اعتماد کیا ( اور ہم اس پر پورے اترے ۔ )

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :

«مَنْ هَذَا السَّائِقُ؟»

یہ ( حدی خوانی کر کے ) اونٹوں کو ہانکنے والا کون ہے؟

لوگوں نے کہا : عامر ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

«يَرْحَمُهُ اللهُ»

اللہ اس پر رحم کرے!

نتیجہ

لوگوں میں سے ایک آدمی ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ ) نے کہا :

وَجَبَتْ يَا رَسُولَ اللهِ، لَوْلَا أَمْتَعْتَنَا بِهِ،

( اس کے لیے شہادت ) واجب ہو گئی اے اللہ کے رسول! آپ نے ( اس کے حق میں دعا مؤخر فرما کر ) ہمیں اس ( کی صحبت ) سے زیادہ مدت فائدہ کیوں نہیں اٹھانے دیا؟

فَلَمَّا تَصَافَّ الْقَوْمُ كَانَ سَيْفُ عَامِرٍ فِيهِ قِصَرٌ، فَتَنَاوَلَ بِهِ سَاقَ يَهُودِيٍّ لِيَضْرِبَهُ، وَيَرْجِعُ ذُبَابُ سَيْفِهِ، فَأَصَابَ رُكْبَةَ عَامِرٍ فَمَاتَ مِنْهُ (مسلم، كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ،بَابُ غَزْوَةِ خَيْبَرَ،4668)

جب لوگوں نے مل کر صف بندی کی تو عامر رضی اللہ عنہ کی تلوار چھوٹی تھی ، انہوں نے مارنے کے لیے اس ( تلوار ) سے ایک یہودی کی پنڈلی کو نشانہ بنایا تو تلوار کی دھار لوٹ کر عامر رضی اللہ عنہ کے گھٹنے پر آ لگی اور وہ اسی زخم سے فوت ہو گئے ۔

10. عروہ رضی اللہ عنہ کے لیے تجارت میں برکت کی دعا

عروہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ( جو ابوالجعد کے بیٹے اور صحابی تھے )

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَعْطَاهُ دِينَارًا يَشْتَرِي لَهُ بِهِ شَاةً، فَاشْتَرَى لَهُ بِهِ شَاتَيْنِ، فَبَاعَ إِحْدَاهُمَا بِدِينَارٍ، وَجَاءَهُ بِدِينَارٍ وَشَاةٍ، فَدَعَا لَهُ بِالْبَرَكَةِ فِي بَيْعِهِ،

کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک دینار دیا کہ وہ اس کی ایک بکری خرید کرلے آئیں ۔ انہوں نے اس دینار سے دوبکریاں خریدیں ، پھر ایک بکری کو ایک دینار میں بیچ کر دینار بھی واپس کردیا ۔ اوربکری بھی پیش کردی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ان کی تجارت میں برکت کی دعافرمائی ۔

نتیجہ

وَكَانَ لَوِ اشْتَرَى التُّرَابَ لَرَبِحَ فِيهِ» (بخاری كِتَابُ المَنَاقِبِ،بَابٌ،3642)

پھر تو ان کا یہ حال ہوا کہ اگر مٹی بھی خریدتے تو اس میں انہیں نفع ہوجاتا ۔

مصنف عبد الرزاق کی ایک روایت میں ہے وہ فرماتے ہیں

فَمَا اشْتَرَيْتُ شَيْئًا إِلَّا رَبِحْتُ فِيهِ، (مصنف عبد الرزاق١٤٨٣١، وسنده معتبر)

پھر میں جو چیز بھی خرید و فروخت کرتا مجھے اس میں نفع ہی ملتا

11. جابر رضی اللہ عنہ کے سست اونٹ کے لیے تیز رفتاری کی دعا*

جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا

أَنَّهُ كَانَ يَسِيرُ عَلَى جَمَلٍ لَهُ قَدْ أَعْيَا، فَمَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَضَرَبَهُ فَدَعَا لَهُ (بخاری ،كِتَابُ الشُّرُوطِ،بَابُ إِذَا اشْتَرَطَ البَائِعُ ظَهْرَ الدَّابَّةِ إِلَى مَكَانٍ مُسَمًّى جَازَ،2718)

کہ وہ ( ایک غزوہ کے موقع پر ) اپنے اونٹ پر سوار آ رہے تھے ، اونٹ تھک گیا تھا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کو ایک ضرب لگائی اور اس کے حق میں دعا فرمائی

نتیجہ

فَسَارَ بِسَيْرٍ لَيْسَ يَسِيرُ مِثْلَهُ

چنانچہ اونٹ اتنی تیزی سے چلنے لگا کہ کبھی اس طرح نہیں چلا تھا.

12.ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ کے اسلام قبول کرنے کی دعا

حضرت ابو ہریرہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:

”یار سول اللہ! میں نے اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی مگر وہ ہیں کہ کفر و شرک پر نہ صرف ڈٹی ہوئی ہیں بلکہ بدقسمتی سے آپؐ کی شان میں گستاخی بھی کر جاتی ہیں۔ میں سخت پریشان ہوں۔

فَادْعُ اللهَ أَنْ يَهْدِيَ أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ

آپؐ میری والدہ کے لیے ہدایت کی دعا فرمائیے۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی:

«اللهُمَّ اهْدِ أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ»

”پروردگار، اُمِّ ابی ہریرہ کو ہدایت کی دولت عطا فرما۔‘‘

اس کا نتیجہ

ابو ہریرہؓ کو یقین تھاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہو گئی ہے۔ وہ اسی یقین کے ساتھ اس روز صفہ سے اٹھ کر اپنے گھر کی طرف چلے۔ دروازے پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ اندر سے کواڑ بند ہے۔ اندر سے پانی گرنے کی آواز بھی آرہی تھی۔ اس وقت حضرت ابو ہریرہؓ کی والدہ غسل کر رہی تھیں۔ تھوڑی دیر میں غسل سے فارغ ہوئیں اور دروازہ کھولا۔

قبل اس کے کہ ابو ہریرہؓ کچھ عرض کرتے ان کی والدہ گویا ہوئیں:

يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

پھر فوراً ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپؐ کو اطلاع دی

يَا رَسُولَ اللهِ أَبْشِرْ قَدِ اسْتَجَابَ اللهُ دَعْوَتَكَ وَهَدَى أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ (مسلم، كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُم، بَاب مِنْ فَضَائِلِ أَبِي هُرَيْرَةَ الدَّوْسِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ 6396)

کہ آپؐ کی دعا قبول ہو گئی ہے اور ان کی والدہ حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئی ہیں

13.ام ورقہ رضی اللہ عنھا کے لیے شھادت کی دعا

سیدہ ام ورقہ بنت نوفل ؓسے مروی ہے

کہ نبی کریم ﷺ جب غزوہ بدر کے لیے گئے تو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے اپنے ساتھ جانے کی اجازت دیجئیے ۔ میں آپ کے مریضوں کا علاج معالجہ اور خدمت کروں گی اور شاید اللہ تعالیٰ مجھے شہادت نصیب فر دے ۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

قَرِّي فِي بَيْتِكِ, فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَرْزُقُكِ الشَّهَادَةَ

تم اپنے گھر ہی میں ٹھہرو ، اللہ تعالیٰ تمہیں شہادت کی موت دے گا

نتیجہ

فَكَانَتْ تُسَمَّى الشَّهِيدَةُ

چنانچہ یہ ” شہیدہ “ کے لقب سے پکاری جانے لگی

وَكَانَتْ قَدْ دَبَّرَتْ غُلَامًا لَهَا وَجَارِيَةً، فَقَامَا إِلَيْهَا بِاللَّيْلِ، فَغَمَّاهَا بِقَطِيفَةٍ لَهَا، حَتَّى مَاتَتْ، وَذَهَبَا (أبو داؤد، كِتَابُ الصَّلَاةِ،بَابُ إِمَامَةِ النِّسَاءِ،591،حسن)

اس نے ایک غلام اور ایک لونڈی کو مدبر بنایا تھا ۔ ( یعنی اس کی موت کے بعد آزاد ہوں گے ) ۔ یہ دونوں ایک رات اس کی طرف اٹھے اور ایک چادر سے اس کا منہ بند کر دیا ، حتیٰ کہ وہ مر گئی اور خود بھاگ گئے

14.ام حرام رضی اللہ عنہ کے لیے شہادت کی دعا

ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا پیش کیا اس عرصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوگئے‘ جب بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے ۔ ام حرام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کس بات پر آپ ہنس رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، يَرْكَبُونَ ثَبَجَ هَذَا البَحْرِ مُلُوكًا عَلَى الأَسِرَّةِ، أَوْ: مِثْلَ المُلُوكِ عَلَى الأَسِرَّةِ

کہ میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کئے گئے کہ وہ اللہ کے راستے میں غزوہ کرنے کے لئے دریا کے بیچ میں سوار اس طرح جارہے ہیں جس طرح بادشاہ تخت پرہوتے ہیں یا جیسے بادشاہ تخت رواں پر سوار ہوتے ہیں

انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ !

ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهمْ،

آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایئے کہ اللہ مجھے بھی انہیں میں سے کردے‘

فَدَعَا لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کےلئے دعا فرمائی

نتیجہ

فَرَكِبَتِ البَحْرَ فِي زَمَانِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَصُرِعَتْ عَنْ دَابَّتِهَا حِينَ خَرَجَتْ مِنَ البَحْرِ، فَهَلَكَتْ (بخاری، كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَابُ الدُّعَاءِ بِالْجِهَادِ وَالشَّهَادَةِ لِلرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ،2788)

چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ام حرام رضی اللہ عنہ نے بحری سفر کیا پھر جب سمندر سے باہر آئیں تو ان کی سواری نے انہیں نیچے گرادیا اوراسی حادثہ میں ان کی وفات ہوگئی

15.ایک نوجوان کے لیے پاکدامنی کی دعا

سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ’’ایک نوجوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے زنا کی اجازت چاہی۔ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے، اسے ڈانٹا اور کہا کہ خاموش ہو جا،

تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ اُدْنُهْ ]

(میرے) قریب آ۔‘‘

وہ قریب آیا اور جب بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا :

[ أَتُحِبُّهُ لِأُمِّكَ؟ ]

’’کیا تو اس کام کو اپنی ماں کے لیے پسند کرتا ہے؟‘‘

اس نے کہا :

’’ نہیں، اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے (ہر گز نہیں)۔‘‘

آپ نے فرمایا :

[ وَلَا النَّاسُ يُحِبُّوْنَهُ لِأُمَّهَاتِهِمْ ]

’’تو لوگ بھی اس کام کو اپنی ماں کے لیے پسند نہیں کرتے۔‘‘

پھر آپ نے فرمایا :

[ أَفَتُحِبُّهُ لِابْنَتِكَ؟ ]

’’اچھا تو اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند کرتا ہے؟‘‘

اس نے کہا :

’’نہیں، اللہ کی قسم ! اے اللہ کے رسول ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے ( ہر گز نہیں)۔‘‘

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ وَلَا النَّاسُ يُحِبُّوْنَهُ لِبَنَاتِهِمْ ]

’’لوگ بھی اس کام کو اپنی بیٹیوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔‘‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ أَ فَتُحِبُّهُ لِأُخْتِكَ؟ ]

’’ کیا تو اس کام کو اپنی بہن کے لیے پسند کرتا ہے؟‘‘

اس نے کہا :

’’نہیں، اللہ کی قسم ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے۔‘‘

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ وَلَا النَّاسُ يُحِبُّوْنَهُ لِأَخَوَاتِهِمْ ]

’’ لوگ بھی اس کام کو اپنی بہنوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔‘‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :

[ أَ فَتُحِبُّهُ لِعَمَّتِكَ ]

’’کیا تو اس کام کو اپنی پھوپھی کے لیے پسند کرتا ہے؟‘‘

اس نے کہا :

’’نہیں، اللہ کی قسم ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ وَلَا النَّاسُ يُحِبُّوْنَهُ لِعَمَّاتِهِمْ ]

’’ لوگ بھی اس کام کو اپنی پھوپھیوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔‘‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :

[ أَ فَتُحِبُّهُ لِخَالَتِكَ؟ ]

’’کیا تو اس کام کو اپنی خالہ کے لیے پسند کرتا ہے؟‘‘

اس نے کہا :

’’نہیں، اللہ کی قسم ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے( ہرگز نہیں)۔‘‘

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ وَلَا النَّاسُ يُحِبُّوْنَهُ لِخَالَاتِهِمْ ]

’’لوگ بھی اس کام کو اپنی خالاؤں کے لیے پسند نہیں کرتے۔‘‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس پر رکھا اور یہ دعا کی :

[ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَهُ، وَ طَهِّرْ قَلْبَهُ وَ حَصِّنْ فَرْجَهُ ]

’’الٰہی! اس کے گناہ بخش، اس کے دل کو پاک کر اور اسے عصمت والا بنا۔‘‘

اس کا نتیجہ

یہ نکلا

فَلَمْ يَكُنْ بَعْدَ ذَلِكَ الْفَتَى يَلْتَفِتُ إِلَى شَيْءٍ. [ مسند أحمد : 256/5، ۲۵۷، ح : ۲۲۲۷۴ ]،الصحيحة للالباني:(٣٧٠)

یعنی پھر تو یہ حالت تھی کہ یہ نوجوان ایسے کسی کام کی طرف نہیں جھانکتا تھا۔‘‘

16.مدینہ منورہ کو بیماری سے پاک ہونے کی دعا اور اس کا نتیجہ

17.بارش کے لیے دعا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ایک شخص ( کعب بن مرہ یا ابوسفیان ) کا ذکر کیا جو منبر کے سامنے والے دروازے سے جمعہ کے دن مسجد نبوی میں آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے، اس نے بھی کھڑے کھڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہایا رسول اللہ! ( بارش نہ ہونے سے ) جانور مرگئے اور راستے بند ہوگئے آپ اللہ تعالی سے بارش کی دعا فرمائیے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنتے ہی ہاتھ اٹھا دیئے آپ نے دعا کی

اللَّهُمَّ اسْقِنَا اللَّهُمَّ اسْقِنَا اللَّهُمَّ اسْقِنَا

کہ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ اے اللہ! ہمیں سیراب کر

نتیجہ

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

وَاللَّهِ مَا رَأَيْنَا الشَّمْسَ سِتًّا

بارش شروع ہوگئی، خدا کی قسم ہم نے ایک ہفتہ تک سورج ہی نہیں دیکھا۔

پھر ایک شخص دوسرے جمعہ کو اسی دروازے سے آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے، اس شخص نے پھر آپ کو کھڑے کھڑے ہی مخاطب کیا کہ یا رسول اللہ! ( بارش کی کثرت سے ) مال ومنال پر تباہی آگئی اور راستے بند ہو گئے۔ اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ بارش روک دے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی

اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا اللَّهُمَّ عَلَى الْآكَامِ وَالْجِبَالِ وَالْآجَامِ وَالظِّرَابِ وَالْأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ

کہ یا اللہ اب ہمارے اردگرد بارش برسا ہم سے اسے روک دے۔ ٹیلوں پہاڑوں پہاڑیوں وادیوں اور باغوں کو سیراب کر۔

نتیجہ

انہوں نے کہا

فَانْقَطَعَتْ وَخَرَجْنَا نَمْشِي فِي الشَّمْسِ (بخاری ،کِتَابُ الِاسْتِسْقَاءِ،بَابُ الِاسْتِسْقَاءِ فِی المَسْجِدِ الجَامِعِ، 1013)

کہ اس دعا سے بارش ختم ہو گئی اور ہم نکلے تو دھوپ نکل چکی تھی۔

18.آپ کی دعا سے کھانے میں برکت پیدا ہو گئی

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ورایت ہے آپ نے کہا :

ہم ایک سفر میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے ، لوگوں کے زاد راہ ختم ہو گئے حتیٰ کہ آپ ﷺ نے لوگوں کی کچھ سواریاں (اونٹوں ) کو ذبح کرنے کا ارادہ فرما لیا اس پرعمر کہنے لگے : اللہ کے رسول ! لوگوں کا جو زاد راہ بچ گیا ہے اگر آپ اسے جمع فرما لیں اور اللہ تعالیٰ سے اس پر برکت کی دعا فرمائیں ( تو بہتر ہو گا) ، کہا: آپﷺ نے ایسا ہی کیا ۔ گندم والا اپنی گندم لایا اور کھجور والا اپنی کھجور لایا ۔ طلحہ بن مصرف نے کہا : مجاہد نے کہا: جس کے پاس گٹھلیاں تھیں ، وہ گٹھلیاں ہی لے آیا ۔ میں نے (مجاہدسے ) پوچھا : گٹھلیاں کا لوگ کیا کرتے تھے؟ کہا: ان کو چوس کر پانی پی لیتے تھے ۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا:

فَدَعَا عَلَيْهَا قَالَ حَتَّى مَلَأَ الْقَوْمُ أَزْوِدَتَهُمْ، قَالَ: فَقَالَ عِنْدَ ذَلِكَ: «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ، لَا يَلْقَى اللهَ بِهِمَا عَبْدٌ غَيْرَ شَاكٍّ فِيهِمَا، إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ» (مسلم، كِتَابُ الْإِيمَانِ،بَابُ مَنْ لَقِي اللهَ بِالْإِيمَانِ وَهُو غَيْرُ شَاكٍّ فِيهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَحُرِّمَ عَلَى النَّارِ،138)

اس ( تھوڑے سے زاد راہ ) پر آپ ﷺ نے دعا فرمائی تو پھر یہاں تک ہوا کہ لوگوں نے زاد راہ کے اپنے لیے برتن بھر لیے ( ابو ہریرہ نے کہا ) اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ۔ جو بندہ بھی ان دونوں (شہادتوں) کے ساتھ، ان میں شک کیے بغیر اللہ سے ملے گا ، وہ (ضرور) جنت میں داخل ہو گا ۔ ‘‘

19.بدر کے میدان میں کھڑے ہو کر دعا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے میدان میں نصرت ومدد کا وعدہ پورا کرنے کی دعا مانگنے لگے۔

آپﷺ کی دعا یہ تھی :

((اللّٰہم انجز لی ما وعدتنی، اللّٰہم أنشدک عہدک ووعدک۔))

”اے اللہ ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا فرمادے۔ اے اللہ ! میں تجھ سے تیرا عہد اور تیرے وعدے کا سوال کررہا ہوں۔”

اس دعا کا نتیجہ

یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کے پاس وحی بھیجی کہ :

إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ (الأنفال : 9)

جب تم اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمھاری دعا قبول کر لی کہ بے شک میں ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ تمھاری مدد کرنے والا ہوں، جو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں۔

ابن اسحاق کی روایت میں یہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا :

”ابوبکر خوش ہو جاؤ ، تمہارے پاس اللہ کی مدد آگئی۔ یہ جبریل علیہ السلام ہیں اپنے گھوڑے کی لگام تھامے اور اس کے آگے آگے چلتے ہوئے آرہے ہیں اور گرد وغبار میں اَٹے ہوئے ہیں۔”

اس کے بعد رسول اللہﷺ چھپر کے دروازے سے باہر تشریف لائے۔ آپﷺ نے زرہ پہن رکھی تھی۔ آپﷺ پُر جوش طور پر آگے بڑھ رہے تھے اور فرماتے جارہے تھے :

سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ‌ ﴿٤٥﴾ (۵۴: ۴۵)

”عنقریب یہ جتھہ شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا۔”

20.قریش کے سات سرداروں کے لیے بددعا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کعبۃ اللہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سجدہ کی حالت میں گندگی رکھی گئی تو نے تین بار فرمایا۔

«اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ».

یا اللہ! تو قریش کو پکڑ لے

پھر آپ نے ( ان میں سے ) ہر ایک کا ( جدا جدا ) نام لیا

«اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِأَبِي جَهْلٍ، وَعَلَيْكَ بِعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَالوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ، وَأُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ» – وَعَدَّ السَّابِعَ فَلَمْ يَحْفَظْ –

کہ اے اللہ! ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دے۔ ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو۔ ساتویں ( آدمی ) کا نام ( بھی ) لیا مگر مجھے یاد نہیں رہا

پھر آپ فرماتے ہیں

فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَدْ رَأَيْتُ الَّذِينَ عَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَرْعَى، فِي القَلِيبِ قَلِيبِ بَدْرٍ (بخاری ،كِتَابُ الوُضُوءِ،بَابُ إِذَا أُلْقِيَ عَلَى ظَهْرِ المُصَلِّي قَذَرٌ أَوْ جِيفَةٌ، لَمْ تَفْسُدْ عَلَيْهِ صَلاَتُهُ،240)

اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ جن لوگوں کے ( بددعا کرتے وقت ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لیے تھے، میں نے ان کی ( لاشوں ) کو بدر کے کنویں میں پڑا ہوا دیکھا۔

21.تیس نوجوانوں کے لیے بددعا اور اس کا فوری اثر

عبد اللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ میں اس درخت کے نیچے موجود تھے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے۔ اس کی ٹہنیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر سے لگ رہی تھیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،قریش کے نمائندے سہیل بن عمرو کے ساتھ معاہدہ طے کر رہے تھے

یہ معاملہ ہو رہا تھا کہ تیس مسلح نوجوان نکل کر ہمارے سامنے آ گئے اور ہمارے سامنے آ کر مشتعل ہو گئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر بددعا کی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اندھا کر دیا، ہم نے بڑھ کر انھیں گرفتار کر لیا۔

[ مسند أحمد:۴ /۸۶،۸۷،ح:۱۶۸۰۵ ] مسند احمد کے محققین نے اسے صحیح کہا ہے۔

آج 1443 سال بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں لینے کے مواقع

پہلے بیان کردہ واقعات سنتے ہی دل میں خواہش اور تڑپ پیدا ہوتی ہے کہ کاش ہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے اپنے حق میں کوئی دعا کرواتے اور ہمارے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوتی

لیکن

لطف کی بات یہ ہے کہ لمبا عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی ہم ایسے مواقع حاصل کرسکتے ہیں

01.تہجد کے لیے ایک دوسرے کو اٹھانے والا جوڑا

سیدنا ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا قَامَ مِنْ اللَّيْلِ فَصَلَّى وَأَيْقَظَ امْرَأَتَهُ فَصَلَّتْ فَإِنْ أَبَتْ نَضَحَ فِي وَجْهِهَا الْمَاءَ رَحِمَ اللَّهُ امْرَأَةً قَامَتْ مِنْ اللَّيْلِ فَصَلَّتْ وَأَيْقَظَتْ زَوْجَهَا فَإِنْ أَبَى نَضَحَتْ فِي وَجْهِهِ الْمَاءَ (ابوداؤد ،كِتَابُ تَفريع أَبوَاب الوِترِ،بَابُ الْحَثِّ عَلَى قِيَامِ اللَّيْلِ،1450 حسن صحيح)

” رحم کرے اللہ اس شخص پر جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھتا اور اپنی بیوی کو جگاتا ہے اور وہ بھی نماز پڑھتی ہے ۔ اگر انکار کرتی ہے ، تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتا ہے ۔ اور رحم کرے اللہ تعالیٰ اس عورت پر جو رات کو اٹھتی اور نماز پڑھتی ہے اور اپنے شوہر کو بھی جگاتی ہے ۔ اور اگر وہ انکار کرتا ہے ، تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتی ہے ۔ “

02. صبح کے وقت میں

اپنے صبح کے وقت کو بروئے کار لاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے برکت کی دعا وصول کریں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

اللهم بارك لامتي في بكورها

03. حدیث سنیں اور آگے سنائیں

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا:

نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا، فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ غَيْرَهُ (ترمذی ،أَبْوَابُ الْعِلْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى تَبْلِيغِ السَّمَاعِ،2657 صحيح)

‘ اللہ اس شخص کو تروتازہ (اور خوش) رکھے جس نے مجھ سے کوئی بات سنی پھر اس نے اسے جیسا کچھ مجھ سے سنا تھا ہوبہو دوسروں تک پہنچادیا

04. اللہ کے لیے مسجد بنانا

امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” مَنْ بَنَى مَسْجِدًا يَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ بَنَى اللَّهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي الْجَنَّةِ ". [ بخاری، الصلاۃ، باب من بنی مسجدًا : ۴۵۰ ]

’’جو کوئی مسجد بنائے جس کے ساتھ وہ اللہ کا چہرہ طلب کرتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس جیسا (گھر) جنت میں بنائے گا۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان

بَنَى اللَّهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي الْجَنَّةِ

بطور خبر بھی ہوسکتا ہے اور بطور دعا بھی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

” مَنْ بَنَى مَسْجِدًا يُصَلَّى فِيهِ ؛ بَنَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ فِي الْجَنَّةِ أَفْضَلَ مِنْهُ ” (مسند احمد 16005)

جس نے مسجد بنائی کہ اس میں نماز پڑھی جائے تو اللہ تعالی اس کے لیے جنت میں اس سے افضل بنائے گا

سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

مَنْ بَنَى مَسْجِدًا لِلَّهِ كَمَفْحَصِ قَطَاةٍ أَوْ أَصْغَرَ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ (ابن ماجة، كِتَابُ الْمَسَاجِدِوَالْجَمَاعَاتِ،بَابُ مَنْ بَنَى لِله مَسْجِدًا،738)

’’جس نے اللہ کے لئے قطات کے گھونسلے جتنی یا اس سے بھی چھوٹی مسجد بنائی، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر تیار کرے گا۔‘‘

05. آذان کے بعد مقام محمود والی دعا پڑھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شفاعت کروائیں

مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ النِّدَاءَ اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ (بخاری کتاب الآذان، بَاب الدُّعَاءِ عِنْدَ النِّدَاءِ،589)

06. صف درست کرنے ملانے والے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو دعا دیتے ہوئے فرمایا

وَمَنْ وَصَلَ صَفًّا وَصَلَهُ اللَّهُ، وَمَنْ قَطَعَ صَفًّا قَطَعَهُ اللَّهُ (سنن أبي داود | كِتَابُ الصَّلَاةِ | تَفْرِيعُ أَبْوَابِ الصُّفُوفِ | بَابٌ : تَسْوِيَةُ الصُّفُوفِ 666)

07. حج و عمرہ کرتے ہوئے حلق یعنی ٹنڈ کروانے والوں کے لیے دعا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ قَالُوا وَلِلْمُقَصِّرِينَ قَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ قَالُوا وَلِلْمُقَصِّرِينَ قَالَهَا ثَلَاثًا قَالَ وَلِلْمُقَصِّرِينَ (بخاری ،كِتَابُ الحَجِّ،بَابُ الحَلْقِ وَالتَّقْصِيرِ عِنْدَ الإِحْلاَل1728)

اے اللہ ! سر منڈوانے والوں کی مغفرت فرما ! صحابہ رضی اللہ عنہم نے عر ض کیا اور کتروانے والوں کے لیے بھی (یہی دعا فرمائیے ) لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا اے اللہ ! سر منڈوانے والوں کی مغفرت کر۔ پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اور کتروانے والوں کی بھی ! تیسری مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور کتروانے والوں کی بھی مغفرت فرما

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی

اللَّهُمَّ ارْحَمْ الْمُحَلِّقِينَ قَالُوا وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ اللَّهُمَّ ارْحَمْ الْمُحَلِّقِينَ قَالُوا وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ وَالْمُقَصِّرِينَ (بخاری ،كِتَابُ الحَجِّ،بَابُ الحَلْقِ وَالتَّقْصِيرِ عِنْدَ الإِحْلاَلِ،1727)

اے اللہ ! سر منڈوانے والوں پر رحم فرما ! صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی اور کتروانے والوں پر؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اب بھی دعا کی اے اللہ سر منڈوانے والوں پر رحم فرما ! صحابہ رضی اللہ عنہم نے پھر عرض کی اور کتروانے والوں پر؟ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور کتروانے والوں پر بھی

08. فی سبیل اللہ خرچ والے کے لیے دعا

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (التوبة : 103)

ان کے مالوں سے صدقہ لے، اس کے ساتھ تو انھیں پاک کرے گا اور انھیں صاف کرے گا اور ان کے لیے دعا کر، بے شک تیری دعا ان کے لیے باعث سکون ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ الْعِبَادُ فِيهِ إِلَّا مَلَكَانِ يَنْزِلَانِ فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا وَيَقُولُ الْآخَرُ اللَّهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا (بخاری،کتاب الزکوۃ،1374)

عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقہ لے کر آتا تو آپ اس کے لیے دعا کرتے ہوئے کہتے : (( اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی فُلَانٍ )) ’’اے اللہ! فلاں پر رحم فرما۔‘‘ عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ جب میرے والد زکوٰۃ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ نے انھیں دعا دیتے ہوئے فرمایا : (( اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلىٰ آلِ اَبِيْ اَوْفٰی )) ’’اے اللہ! ابو اوفی کی آل پر رحم فرما۔‘‘ [ بخاری، الزکاۃ، باب صلاۃ الإمام و دعاء ہ لصاحب الصدقۃ….: ۱۴۹۷ ]

09. خرید و فروخت اور تقاضا کرنے میں نرمی

جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

رحم الله رجلًا سمحًا إذا باع، وإذا اشترى، وإذا اقتضى (بخاری ،كِتَابُ البُيُوعِ،بَابُ السُّهُولَةِ وَالسَّمَاحَةِ فِي الشِّرَاءِ وَالبَيْعِ، وَمَنْ طَلَبَ حَقًّا فَلْيَطْلُبْهُ فِي عَفَافٍ،2076)

، اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر رحم کرے جو بیچتے وقت اور خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت فیاضی اور نرمی سے کام لیتا ہے۔

10. رعایا پر نرمی کریں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نرمی کی دعا لیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا مانگی

اللَّهُمَّ مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَشَقَّ عَلَيْهِمْ فَاشْقُقْ عَلَيْهِ وَمَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَرَفَقَ بِهِمْ فَارْفُقْ بِهِ (مسلم 1828)

اے اللہ جو میری امت کے کسی معاملے کا حاکم مقرر ہوا پھر اس نے ان پر سختی کی توتو بھی اس پر سختی کر

اور

جو میری امت کے کسی معاملے کا حاکم مقرر ہوا پھر اس نے ان پر نرمی کی تو تو بھی اس پر نرمی کر

11.حسن و حسين رضی اللہ عنہما سے محبت کریں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کریں

حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

«أَحَبَّ اللّٰـهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَیْنًا»[ [جامع الترمذي: أبواب المناقب، باب: رقم3775، حسن]

’’اللّٰہ اس سے محبت کرے جو حسین رضی اللّٰہ عنہ سے محبت کرتا ہے۔‘‘

اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ نبیﷺ نے (حسن و حسین رضی اللّٰہ عنہما)دونوں کے متعلق فرمایا :

«إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّهُمَا» [جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ (بَابُ مَنَاقِبِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَخِي عَلِيٍّ)، رقم 3769]

’’بے شک میں ان دونوں (حسن و حسین رضی اللّٰہ عنہما) سے محبت کرتا ہوں، لہٰذا اے اللّٰہ! تو بھی ان سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو ان دونوں سے محبت کرے۔‘‘

12.انصار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے محبت کریں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کریں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے متعلق ارشاد فرمایا :

«فَمَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ اللّٰـهُ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ اللّٰـهُ» [صحيح البخاري: كتاب مناقب الأنصار، باب حب الأنصار:رقم 3783]

’’جو ان سے محبت کرے اللّٰہ بھی ان سے محبت کرے اور جو ان سے بغض رکھے، اللّٰہ بھى ان سے دشمنى رکھے۔‘‘

13. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل رہیں

اللھم اغفر لأمتی