ہٹے گا غار سے پتھر خدا سے رابطہ رکھو
حالات جیسے بھی ہو جائیں ایک بندہ مومن کے اپنے رب کے متعلق گمان اچھے ہی رہتے ہیں، وہ اپنے رب پر اعتماد کرتا ہے، اس کے متعلق حسن ظن رکھتا ہے، اس کے متعلق اپنے دل میں بدگمانی پیدا نہیں ہونے دیتا
موجودہ حالات میں بہت سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے بارے سوءِ ظن کا شکار دیکھا گیا ہے، کوئی کہتا ہے کہ اللہ تو ہماری سنتا ہی نہیں ہے، کسی کا نقصان ہو جائے تو جھٹ سے کہہ دیتا ہے کہ نقصان پہچانے کے لیے اللہ کو میں ہی ملا تھا؟ بھلا میں نے اللہ کا کیا بگاڑا تھا؟
یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ کے متعلق سوء ظن کے زمرے میں آتی ہیں
اللہ تعالیٰ کے متعلق سوء ظن رکھنا گناہ ہے
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أعظم الذّنوب عند الله، إساءة الظن به. (الدّاء والدّواء (صـ ٣١٨)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ اس کے ساتھ بدگمانی ہے
جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ راستہ نکلنے کی امید رکھی جائے ، کشادگی کا انتظار کیا جائے، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے پرامید رہا جائے
اللہ کی رحمت سے کشادگی کا انتظار کرتے رہنا باعث اجر ہے
شيخ ابن عثيمين رحمه الله فرماتے ہیں:
من انتظر الفرج أُثيب على ذلك الإنتظار؛ لأن انتظار الفرج حُسن ظن بالله، وحُسن الظن بالله عمل صالح يُثاب عليه الإنسان. [ فتاوى نور على الدرب (٢٢٥)]
جس نے تنگی سے نکلنے کا انتظار کیا اسے اس انتظار کا ثواب دیا جاتا ہے کیونکہ تنگی سے نکلنے کا انتظار اللہ تعالیٰ پے حسن ظن ہے اور اللہ تعالیٰ پے حسن ظن نیک عمل ہے جس پے انسان ثواب دیا جاتا ہے
نوح علیہ السلام صحراء میں کشتی بناتے رہے ،قوم مذاق کرتی رہی
اور جب بھی قوم مذاق کرتی تو اپنے رب پر پورے یقین سے کہتے :
إِنْ تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ
کہ ایک دن آئے گا یہ کشتی اسی علاقے میں چلے گی پھر ہم بھی تم سے ایسے ہی مذاق کریں گے جیسے تم ہم سے مذاق کر رہے ہو
اور پھر واقعی ایسے ہی ہوا، پانی بھی آیا، کشتی بھی چلی اور دشمن تباہ ہوئے
یوسف علیہ السلام کنویں میں گر رہے ہیں، بظاہر موت کے منہ میں جا رہے ہیں مگر اسی دوران انہیں اپنے رب کی اس بات پر پورا یقین تھا
لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِأَمْرِهِمْ هَذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
کہ اے یوسف! ایک دن آئے گا تو ضرور ہی انھیں ان کے اس کام کی خبر دے گا
اور پھر وہ دن بھی آیا کہ یہی یوسف اپنے انہی بھائیوں کو کہہ رہے تھے :
هَلْ عَلِمْتُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِيُوسُفَ وَأَخِيهِ (يوسف : 89)
کیا تم جانتے ہو تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا؟
موسیٰ علیہ السلام کی والدہ بظاہر اپنے بچے کو موجوں کے تھپیڑوں کے حوالے کر رہی ہے مگر انہیں اللہ تعالیٰ کے اس وعدے پر بہت یقین تھا کہ یہ بیٹا میرے پاس واپس پلٹے گا
وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ (القصص : 7)
اور نہ ڈر اور نہ غم کر، بے شک ہم اسے تیرے پاس واپس لانے والے ہیں اور اسے رسولوں میں سے بنانے والے ہیں
کچھ ہی وقت کے بعد لوگوں نے دیکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی بچے کو اس کی ماں کی طرف پورے شاہی پروٹوکول کے ساتھ واپس لوٹایا
سمندر اور فرعون کے درمیان پھنسی ہوئی قوم سے موسی علیہ السلام نے کیا خوبصورت جملہ إرشاد فرمایا :
كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ (الشعراء : 62)
ہرگز نہیں! بے شک میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ مجھے ضرور راستہ بتائے گا۔
اور پھر واقعی راستے بھی بنے، لوگوں نے دیکھا اور گزرے اور آگے نکلے
میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگ پتھر ماررہے تھے، آپ کا جسم لہولہان ہے، پردیس میں ہیں، کوئی حمایت کرنے والا نظر نہیں آرہا
مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے :
بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلاَبِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ، لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا (بخاری : 3231)
مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو اکیلے اللہ کی عبادت کرے گی ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی ۔
پھر لوگوں نے دیکھا کہ ھند و سند کو اسلام کے تابع کرنے والے محمد بن قاسم اور حجاج بن یوسف رحمهما اللہ انہیں قبیلوں سے تعلق رکھنے والے تھے
دشمن نے شعب ابی طالب میں بند کر دیا ہے معاشی بائیکاٹ ہے فاقے کاٹے جا رہے ہیں جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پورے یقین سے کہہ رہے تھے :
وَلَيُتِمَّنَّ اللَّهُ هَذَا الْأَمْرَ
اللہ تعالیٰ ہمارے مشن کو ضرور بضرور پورا کریں گے
لوگ ملک بدر کررہے ہیں، ہجرت کی رات ہے، غار میں پناہ لی ہوئی ہے مگر اسی دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں :
أُمِرْتُ بِقَرْيَةٍ تَأْكُلُ الْقُرَى يَقُولُونَ يَثْرِبُ وَهِيَ الْمَدِينَةُ (بخاری : 1871)
"میں ایک ایسا ملک بنانے والا ہوں جو دنیا کے سارے ملکوں پر چھا جائے گا
پیٹ پہ دو دو پتھر باندھ کر بھوک کی کمزوری کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے خندق کھود کر دفاع کیا جا رہا ہے مگر چٹان پر ضرب لگاتے ہوئے اپنے رب پر پورا یقین رکھتے ہوئے فرما رہے ہیں :
یمن فتح ہوگا، شام فتح ہوگا، روم فتح ہوگا اور آج کے بعد دشمن ہمارے اوپر نہیں بلکہ ہم دشمن پر حملہ کریں گے
شاید یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ عروج دینے کے لیے پہلے کمزور کرتا ہے
ابراهيم علیہ السلام کو دیکھ لیں خلیل الرحمٰن بننے سے پہلے آگ سے گزرنا پڑا
یوسف علیہ السلام کو دیکھ لیں عزیز مصر بننے سے پہلے کنویں سے گزرنا پڑا
موسیٰ کو کلیم اللہ بننے سے پہلے پانی سے گزرنا پڑا
اسماعیل کو ذبیح اللہ بننے کے لیے چھری کے نیچے سے گزرنا پڑا
محمد رسول اللہ کو حبیب اللہ بننے کے لیے شعب ابی طالب سے گزرنا پڑا
مایوسی میں ڈوبے انسان کیا کبھی تو نے یہ سوچا
کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ (المجادلة : 21)
اللہ نے لکھ دیا ہے کہ ضرور بالضرور میں غالب رہوں گا اور میرے رسول، یقینا اللہ بڑی قوت والا، سب پر غالب ہے ۔
کبھی اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پڑا ہے؟
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ (النور : 55)
اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، وعدہ کیا ہے کہ وہ انھیں زمین میں ضرور ہی جانشین بنائے گا
کیا کبھی اللہ تعالیٰ کی یہ بات نہیں سنی پڑھی؟
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (آل عمران : 139)
اور نہ کمزور بنو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب ہو، اگر تم مومن ہو۔
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو کیوں بھول جاتے ہیں؟
وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ (آل عمران : 140)
اور یہ تو دن ہیں، ہم انھیں لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں
بھلا کسی میں طاقت ہے کہ وہ ان وعدوں کو بدل سکے؟؟؟
اللہ تعالیٰ کے متعلق اچھا گمان رکھو گے تو اللہ تعالیٰ اچھا سلوک کریں گے
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
والله الذي لا إله غيره، لا يُحسن عبد بالله ظنه إلا أعطاه الله إياه. (شعب الإيمان (۳۲۲/۲))
اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے کوئی بندہ اللہ کے متعلق اچھا گمان رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے وہی عطا کرتا ہے
اور برا، مایوس-کن گمان رکھو گے تو ویسا ہی سلوک ہوگا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بدو کی عیادت کی اور اسے فرمایا :
لا بَأْسَ، طَهُورٌ إنْ شاءَ اللَّهُ
پریشان نہ ہو اللہ نے چاہا تو یہ مصیبت ضرور ٹل جائے گی
وہ کہنے لگا :
كَلَّا، بَلْ هي حُمَّى تَفُورُ -أوْ تَثُورُ- علَى شَيخٍ كَبِيرٍ، تُزِيرُهُ القُبُورَ،
ہرگز نہیں بلکہ یہ تو ایک بوڑھے شخص پر جوش مارتا ہوا بخار ہے جو اسے قبر تک چھوڑ کر آئے گا
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فَنَعَمْ إذنْ. (البخاري : 5656)
ٹھیک ہے پھر ایسے ہی ہوگا
خود اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے
أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي (بخاری 121)
میں اپنے بندے کے ساتھ ویسے ہی ہوں جیسے وہ میرے متعلق گمان رکھتا ہے
اللہ تعالیٰ کے متعلق اچھا گمان رکھتے ہوئے موت آنی چاہیے
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا ‘ آپ ﷺ نے اپنی وفات سے تین روز پہلے فرمایا تھا:
لَا يَمُوتُ أَحَدُكُمْ إِلَّا وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللَّهِ (ابو داؤد، كِتَابُ الْجَنَائِزِ،3113)
” تم میں سے کسی کی موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ کے ساتھ عمدہ گمان رکھتا ہو ۔ “
اس حدیث سے معلوم ہوا بندے کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھنا چاہیے کہ اللہ مجھے ضائع نہیں کرے گا اور نہ مجھے تنہا چھوڑے گا کیونکہ موت کا کچھ علم نہیں کسی وقت بھی بلاوا آسکتا ہے
اللہ تعالیٰ کے متعلق سوء ظن رکھنے والے منافقین اور مشرکین
وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ (الفتح : 6)
اور (تاکہ) ان منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے بارے میں گمان کرنے والے ہیں، برا گمان۔
یقین رکھیں اپنے رب پر جو ہر چیز پر قادر ہے
وہ جس کا نام ” الخبیر ” ہے یعنی ” خبر رکھنے والا” پھر وہ کیسے تمہاری سسکیوں سے بے خبر ہو سکتا ہے؟
وہ جس کا نام ” الودود” ہے یعنی ” محبت کرنے والا” پھر وہ کیسے تمھاری محبت کی لاج نہیں رکھے گا۔
جس کا نام "الوکیل” ہے یعنی کام بنانے والا” پھر وہ کیسے تمھاری کہانی کو ادھورا رہنے دے سکتا ہے؟
وہ جس کا نام ہی "المتین” ہے یعنی "طاقت والا ” پھر وہ کیسے تمھیں کمزور رہنے دے سکتا ہے..!!
یقین رکھیں اپنے رب پر جو ہر چیز پر قادر ہے
ویسے مایوسی کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی
مایوس آدمی سے پوچھا جائے کہ تمہیں کیا ہوا ہے؟ تو جواب ملتا ہے کہ مجھے غم گھیرے ہوئے ہیں!
کیوں بھائی کیا تمہیں کہہ دیا گیا کہ اب تمہاری دعا قبول نہیں کی جائے گی؟
خود پر قابو رکھو۔دعا کرو، وہ مشکل کشا ہے، وہ حاجت روا ہے، تمہیں بند غار سے ضرور نکالے گا، ضرور نکالے گا
سجاؤ خواب آنکھوں میں یہ دل آراستہ رکھو
ہٹے گا غار سے پتھر خدا سے رابطہ رکھو
وہ ماؤں سے کہیں بڑھ کر محبت کرنے والا ہے
تمہیں تنہا نہ چھوڑے گا دعا کا سلسلہ رکھو
شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قد يُعطي الله السّائل خيراً ممّا سأل ، وقد يصرف عنه من الشّرّ أفضل ممّا سأل ؛ فعليكَ بحُسن الظّنّ بالله. [ مجموع فتاوى ومقالات متنوعة (304/5) ]
کبھی اللہ تعالیٰ دعاء کرنے والے کو اس کے سوال سے کہیں بہتر چیز عطا فرماتے ہیں اور کبھی اسے بہت بڑے شر سے محفوظ رکھتے ہیں اس لیے اللّٰہ تعالیٰ پر حسن ظن کو تھامے رکھیں
ایک ریڑھی لگانے والے پھل فروش کا خوبصورت جملہ
ایک ریڑھی لگانے والے پھل فروش نے اپنی فروٹ والی ریڑھی پہ بہت خوبصورت جملہ لکھا ہوا تھا
"کیف أخاف الفقر وأنا عبدالغنی”
میں فقر سے کیوں ڈروں میں تو الغنی (بہت مالدار، بے پرواہ) کا بندہ ہوں
ایک سچی ذات کی 90 مرتبہ کہی ہوئی بات پر شک اور ایک جھوٹے کی 1 مرتبہ کہی ہوئی بات پر یقین کیوں؟
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
میں نے قرآن میں 90 جگہوں میں یہ پڑھا ہے
أنَّ الله قدَّرَ الأرزاقَ وضمنها لخلقه
کہ اللہ تعالی نے مخلوق کے لیے رزق مقرر کیا ہے اور اسے اپنے ذمے لیا ہے
اور
صرف ایک جگہ پر پڑھا ہے کہ
{الشيطانُ يعدكم الفقر ويأمركم بالفحشاء}،
شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے
تو ہم نے ایک سچی ذات کی 90 مرتبہ کہی ہوئی بات پر شک اور ایک جھوٹے شیطان کی 1 مرتبہ کہی ہوئی بات پر یقین کرلیا
[ذكره القرطبي في كتاب-قمع الحرص بالزهد والقناعة(ص60) الأثر رقم120]
بیمار ہوگئے تو پھر کیا ہوا؟
حالت مرض میں بھی اپنے رب سے حسن ظن رکھیں، بیمار تندرست ہو ہی جاتے ہیں، یقین رکھیں کہ وہ ضرور شفاء دے گا
وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ (الشعراء : 80)
اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔
اپنے رب سے محبت بھرے انداز میں کہیں :
وَأَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا
کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمارے غفور رحيم رب نے ہر مرض کی دوا بھی نازل کی ہے
ما أنْزَلَ اللَّهُ داءً إلَّا أنْزَلَ له شِفاءً (بخاري : 5678)
رات کی تنہائی میں اس جملے کی لذت تو چکھیں
اللھم انت ربی وانا عبدک
بار بار دھرائیں
اللھم انت ربی وانا عبدک
اللھم انت ربی وانا عبدک
کیا ھی بہترین حسنِ ظن ھے
ایک آدمی سے کہا گیا کہ تم مر جاؤ گے
اس نے کہاں پھر کہاں جائیں گے ؟
کہا گیا کہ اللہ کے پاس !!
کہنے لگا آج تک جو خیر بھی پائی ھے اللہ کے یہاں سے پائی ھے پھر اس سے ملاقات سے کیا ڈرنا؟
ایک بزرگ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ھیں جس کی دعا قبول کی جاتی ھے ؟
بزرگ نے جواب دیا نہیں ، مگر میں اس کو جانتا ھوں جو دعائیں قبول کرتا ھے –
کیا کمال حسن ظن ہے
مایوس کیوں کھڑا ہے؟، اللہ بہت بڑا ہے
کیا اس رب نے یہ کہنا چھوڑ دیا ہے جو ہر روز آسمان دنیا پر اتر کر کہتا ہے :
مَنْ يَّدْعُوْنِيْ فَأَسْتَجِيْبَ لَهُ؟
مَنْ يَّسْأَلُنِيْ فَأُعْطِيَهُ؟
مَنْ يَّسْتَغْفِرُنِيْ فَأَغْفِرَ لَهُ؟
’’کون ہے جو مجھے پکارے اور میں اس کی دعا قبول کروں؟
کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے عطا کروں؟
کون ہے جو مجھ سے بخشش کی درخواست کرے اور میں اسے بخشوں؟‘‘
کیا اس رب نے یہ ذمہ داری چھوڑ دی ہے جس نے کہا ہے :
وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا
اور زمین میں کوئی چلنے والا (جاندار) نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی پر ہے
اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر تو نے اپنے آپ کو مایوس ہو کر دعائیں کرنا کیوں چھوڑ دی ہیں
بیس سال ہوگئے دعا کرتے کرتے
سلف میں سے کسی کا کہنا ہے :
”بیس سال ہو گئے رب سے ایک حاجت کا سوال کرتے ہوئے، نہ وہ حاجت پوری ہوتی ہے نہ میں مایوس ہوتا ہوں …“
(الآداب الشرعية لابن مفلح : ١٧٠/٢، عَن بعض السلف)
اپنے رب پہ امید رکھتے ہوئے بسم اللہ کریں، کام بن جائے گا
اللہ تعالیٰ پہ یقین رکھو وہ تمہیں ویران کنویں سے نکال کر ساری سلطنت کا بادشاہ بھی بنا سکتا ہے
دروازے بند ہیں تو پھر کیا؟ برائی کو چھوڑ کر دوڑ لگادو، آپ کا رب بھی وہی ہے جس نے یوسف علیہ السلام کے بند دروازے کھولے تھے
خشک زمین پر ایڑی تو رگڑو، چشمہ ضرور پھوٹے گا
دریا میں لاٹھی مار دو رستہ بن جائے گا
اس کی خاطر آگ میں کود جاؤ، وہ آج بھی ٹھنڈی کرنے پر قادر ہے
وہ تمہیں کیوں نہیں دے گا
جو یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں دیتا رہا
یوسف علیہ السلام کو کنویں میں سنبھالتا رہا
موسیٰ علیہ السلام کو صندوق میں پالتا رہا
ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں کھلاتا رہا
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو شعب ابی طالب میں نوازتا رہا
بھلا
وہ مجھے اور تجھے نہیں دے گا؟؟؟
ضرور دے گا
بس تھوڑا سا حوصلہ، تھوڑا سا صبر، تھوڑا سا شکر اور تھوڑی سی استقامت دکھانا ہوگی
چمن کے مالی بنالیں مناسب شعار اب بھی
چمن میں اتر سکتی ہے روٹھی بہار اب بھی
اس کی خاطر اپنے آپ کو بدل کر تو دیکھو
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ تَرَكَ شَيئًا لِلهِ ، عَوَّضَهُ اللهُ خيرًا مِنْه. (المحدث: الألباني، المصدر:حجاب المرأة، إسناده صحيح)
جس نے اللہ کے لیے کوئی چیز چھوڑ دی تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر دے گا
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
من ظن بالله أنه إذا ترك لأجله شيئاً لم يعوضه خيراً منه ، فقد ظن به ظن السوء . (زاد المعاد [272/3])
جس نے اللہ تعالیٰ کے بارے یہ گمان رکھا کہ جب اس نے اللہ تعالیٰ کی خاطر کوئی چیز چھوڑ دی تو وہ اسے اس کا بدلہ اس سے بہتر نہیں دے گا تو یقینا اس نے اللہ تعالیٰ کے بارے بدگمانی کی
کبھی وہ دن تھے
ماضی میں مسلمانوں پر گزرنے والے نازک حالات کا مطالعہ کریں
برصغیر میں مغلیہ، اور دیگر مسلم حکومتیں ختم ہو گئیں
ترکی میں عثمانی خلافت بھی جاتی رہی
پاکستان تھا نہ بنگلہ دیش، ترکی تھا نہ سعودی عرب، ہر طرف کفر ہی کفر، غلامی ہی غلامی، مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہ تھا
کہیں برطانیہ، امریکہ کا غلبہ تو کہیں روس کا غلبہ
کتنے علاقوں میں مسلمانوں کو نماز، روزہ، جمعہ اور قرآن رکھنے پڑھنے کی اجازت نہ تھی، اپنے بچوں کے اسلامی نام نہیں رکھ سکتے تھے، عربی رسم الخط لکھنے پڑھنے پہ ممانعت تھی
رہے دن وہ نہیں تو رہیں گے یہ بھی نہیں
مگر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بحران سے نکالا، آزادیاں ملنا شروع ہوئیں، پاکستان بنا، ترکی مستحکم ہوا، سعودی عرب میں توحیدی انقلاب آیا،برطانیہ بھاگا، روس ٹوٹا، اس کے پیٹ سے دسیوں مظلوم ریاستیں آزاد ہوئیں
اب تو
مسلمان پہلے سے کہیں بہتر پوزیشن میں ہیں، ان شاء اللہ ایک وقت آئے گا، یہ موجودہ بحران بھی حل ہوں گے، آئی ایم ایف، امریکہ اور برطانیہ جیسے بدمعاشوں کا سریا ٹوٹے گا
ان شاء اللہ