بنی اسرائیل کی آزادی اور فرعون کی بربادی، دروس و عبر کی داستان

أعراف 136

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَاِذۡ فَرَقۡنَا بِكُمُ الۡبَحۡرَ فَاَنۡجَيۡنٰکُمۡ وَاَغۡرَقۡنَآ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ وَاَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ‏- [البقرة – آیت 50]

اور جب ہم نے تمہاری وجہ سے سمندر کو پھاڑ دیا، پھر ہم نے تمہیں نجات دی اور ہم نے فرعون کی قوم کو غرق کردیا اور تم دیکھ رہے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا

أَنْتُمْ أَحَقُّ بِمُوْسَی مِنْھُمْ فَصُوْمُوْا  [ بخاری، التفسیر، باب : (وجاوزنا ببني إسرائیل البحر ) : ٤٦٨٠ ]

  ” تم ان (یہود) سے زیادہ موسیٰ (علیہ السلام) پر حق رکھتے ہو، پس روزہ رکھو۔”

آج دس محرم الحرام کا عظیم دن ہے اس دن اللہ تعالٰی نےبنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دی تھی

چنانچہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینے میں تشریف لائے تو یہود کو دیکھا کہ عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں

 آپ نے پوچھا : ” یہ کیا ہے ؟ “

 انھوں نے کہا، یہ ایک عظیم دن ہے، اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کا روزہ رکھا۔

 آپ نے فرمایا :

” میں تم سے زیادہ موسیٰ (علیہ السلام) پر حق رکھتا ہوں۔ “

چناچہ آپ نے اس دن کا روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم دیا۔ [ بخاری، الصوم، باب صوم یوم عاشوراء : ٢٠٠٤ ]

پھر رمضان کے روزے فرض ہونے پر عاشورا کا روزہ نفل قرار دے دیا گیا۔

 وفات سے پہلے آپ نے فرمایا :

 ” آئندہ سال میں زندہ رہا تو نو ( محرم) کا روزہ رکھوں گا۔ “

 مگر آپ اس سے پہلے فوت ہوگئے۔ [ مسلم، الصیام، باب أی یوم یصام فی عاشوراء : ١١٣٤ ]

لہذا اسی مناسبت اور تحدیث نعمت کے طور پر آج ہم بنی اسرائیل کی آزادی اور فرعون کی بربادی کے واقعہ پر گفتگو کریں گے

فرعون کی طرف سے بنی اسرائیل پر ڈھائے جانے والے مظالم

 فرعون  بنی اسرائیل کی کثرت تعداد کی صورت میں ان کے غلبے سے خائف تھا اور اسی خوف کی وجہ سے ان پر ظلم کرتا تھا

جیسا کہ آج کل بھی دنیا بھر کے کفار مسلمانوں کی آبادی بڑھنے سے سخت خائف ہیں اور لالچ اور دھمکی، ہر طریقے سے ان کی آبادی روکنے کی کوشش کر رہے ہیں

فرعون نے بنی اسرائیل کو کمزور اور بےبس کرنے کی انتہا کر رکھی تھی ۔ اس نے ایسا بندوبست کیا کہ قبطی آقا بن کر رہیں، بنی اسرائیل غلام اور خدمت گار بن کر رہیں ۔ چناچہ مشقت کا ہر کام زبردستی ان سے لیتا تھا مثلاً کھیتی باڑی، عمارتیں بنانے اور نہریں وغیرہ کھودنے کا کام ان کے مردوں سے لیتا تھا اور گھروں میں خدمت کا کام ان کی عورتوں سے لیا جاتا۔

اس کے علاوہ لڑکوں کو ذبح کرکے عورتوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے لیے زندہ رکھتا تھا

جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا

وَاِذۡ نَجَّيۡنٰکُمۡ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ يَسُوۡمُوۡنَكُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ يُذَبِّحُوۡنَ اَبۡنَآءَكُمۡ وَيَسۡتَحۡيُوۡنَ نِسَآءَكُمۡ‌ؕ وَفِىۡ ذٰلِكُمۡ بَلَاۤءٌ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ عَظِيۡمٌ[البقرة – آیت 49]

اور جب ہم نے تمہیں فرعون کی قوم سے نجات دی، جو تمہیں برا عذاب دیتے تھے، تمہارے بیٹوں کو بری طرح ذبح کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی۔

طبری نے ابن عباس (رض) سے نقل فرمایا ہے کہ فرعون اور اس کے درباریوں نے باہمی مشورہ کیا  کہ ایسے آدمی مقرر کیے جائیں جن کے پاس چھریاں ہوں، وہ بنی اسرائیل میں چکر لگاتے رہیں، جہاں کوئی نو مولود لڑکا ملے اسے ذبح کردیں، تو انھوں نے ایسا ہی کیا۔

پھر جب دیکھا کہ بنی اسرائیل کے بڑی عمر کے لوگ تو طبعی موت سے مر رہے ہیں اور بچے ذبح ہو رہے ہیں، تو انھوں نے کہا اس طرح تو تم بنی اسرائیل کو فنا کر دو گے، پھر جو خدمت اور مشقت تمھاری جگہ وہ کرتے ہیں وہ تمھیں خود کرنا پڑے گی۔ اس لیے ایک سال ان کے بچے ذبح کرو اور ایک سال انھیں رہنے دو۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہارون علیہ السلام کے ساتھ اس سال حاملہ ہوئیں جس میں لڑکے ذبح نہیں کیے جاتے تھے، اس لیے انھوں نے انھیں بلا خوف جنم دیا اور آئندہ سال ہوا تو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ امید سے ہوئیں۔ (طبری)

ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ بنی اسرائیل پر احسان کیا جائے

فرمایا

وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ [القصص : 5]

اور ہم چاہتے تھے کہ ہم ان لوگوں پر احسان کریں جنھیں زمین میں نہایت کمزور کر دیا گیا اور انھیں پیشوا بنائیں اور انھی کو وارث بنائیں۔

 یعنی فرعون تو اس مظلوم قوم کو مکمل طور پر نیست و نابود کرنے پر تلا ہوا تھا، مگر ہمارا ارادہ یہ تھا کہ ان لوگوں پر احسان کریں جنھیں نہایت کمزور کیا گیا۔

بنی اسرائیل پر احسان کی ابتداء، موسی علیہ السلام کی پیدائش اور پراسرار پرورش

مظلوم بنی اسرائیل پر احسان کی ابتدا یہاں سے ہوئی کہ ان کی نجات کا ذریعہ بننے والے لڑکے کی ماں اس کے ساتھ اس سال حاملہ ہوئی جس میں ان کے لڑکوں کو ذبح کیا جاتا تھا۔

اس سے پہلے ان کے بھائی ہارون علیہ السلام کی ولادت اس سال ہو چکی تھی جس میں لڑکے قتل نہیں کیے جاتے تھے۔ (طبری عن ابن عباس)

 ان کے والد کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمران بیان فرمایا ہے۔

[ دیکھیے مسلم، الإیمان، باب الإسراء برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم … : ۲۶۷ /۱۶۵ ]

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أَنْ أَرْضِعِيهِ [القصص آیت 7]

اور ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی کی کہ اسے دودھ پلا

 اللہ تعالیٰ نے اُمّ موسیٰ کو وحی کی کہ اپنے بچے کو کچھ مدت تک دودھ پلا، تاکہ اس کی ابتدائی غذائی ضرورت پوری ہو جائے، کیونکہ ماں کے دودھ سے بڑھ کر کوئی چیز وہ ضرورت پوری نہیں کر سکتی، اور جسم کچھ مضبوط ہو جائے، جو آخری مرتبہ دودھ پلا کر دریا میں ڈالنے سے لے کر دایہ کا دودھ ملنے تک کا وقفہ برداشت کر سکے۔

’’اسے دودھ پلا‘‘ کے ضمن میں یہ حکم بھی موجود ہے کہ اتنی مدت تک اسے ہرحال میں چھپا کر رکھ، کسی کو اس کی خبر نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ حمل کی پوری مدت، پھر ولادت کے وقت، حتیٰ کہ کچھ عرصہ دودھ پلانے تک فرعون کی مقرر کردہ دایوں اور اس کے جاسوسوں کو اس معاملے کی خبر نہ ہو سکنا اللہ تعالیٰ کا معجزانہ انتظام تھا

اور یہ ساری پرورش خود اللہ تعالیٰ اپنی نگرانی میں کررہے تھے

جیسا کہ فرمایا

 ’’ وَ لِتُصْنَعَ عَلٰى عَيْنِيْ ‘‘ [طہ 93]

تاکہ تیری پرورش میری آنکھوں کے سامنے کی جائے

 دودھ پلانے کا یہ عرصہ کتنا تھا؟ تین ماہ یا چھ ماہ یا سال، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، کیونکہ صحیح ذریعے سے اس کی تعیین ثابت نہیں۔

اللہ تعالیٰ،ام موسی کو فرعونی افواج سے بچنے کی تدبیر سمجھاتے ہیں

فرمایا جب تمھیں فرعون کے جاسوسوں کا خطرہ محسوس ہو تو اس بچے کو دریا میں پھینک دو اور نہ ڈرو کہ ضائع ہو جائے گا، یا اسے کوئی نقصان پہنچے گا اور نہ غم کرو کہ میں نے اپنے بچے کو دریا میں کیوں پھینک دیا۔

قرآن میں ہے

فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ [القصص آیت 7]

پھر جب تو اس پر ڈرے تو اسے دریا میں ڈال دے اور نہ ڈر اور نہ غم کر، بے شک ہم اسے تیرے پاس واپس لانے والے ہیں اور اسے رسولوں میں سے بنانے والے ہیں۔

 اس آیت میں اللہ کے کلام کا اعجاز دیکھیں کہ اس مختصر سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُمّ موسیٰ کو

 دو چیزوں کا حکم دیا ہے،

 یعنی ’’ اَنْ اَرْضِعِيْهِ ‘‘

 اور ’’ فَاَلْقِيْهِ فِي الْيَمِّ ‘‘

اور دو چیزوں سے منع فرمایا ہے، یعنی ’’وَ لَا تَخَافِيْ ‘‘

اور ’’ وَ لَا تَحْزَنِيْ ‘‘

اور دو چیزوں کا وعدہ فرمایا اور خوش خبری دی ہے،

 یعنی ’’اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَيْكِ ‘‘

اور ’’وَ جَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ ‘‘ ۔

سورہ طہ میں ہے

إِذْ أَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّكَ مَا يُوحَى [طه : 38]

جب ہم نے تیری ماں کو وحی کی، جو وحی کی جاتی تھی۔

أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِي وَعَدُوٌّ لَهُ وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي [طه : 39]

یہ کہ تو اسے صندوق میں ڈال، پھر اسے دریا میں ڈال دے، پھر دریا اسے کنارے پرڈال دے ، اسے ایک میرا دشمن اور اس کا دشمن اٹھالے گا اور میں نے تجھ پر اپنی طرف سے ایک محبت ڈال دی اور تاکہ تیری پرورش میری آنکھوں کے سامنے کی جائے۔

موسی علیہ السلام کی بہن بھائی کے صندوق کی نگرانی میں

موسیٰ علیہ السلام کے ایک بھائی ہارون تھے اور ایک بہن تھی

 موسیٰ علیہ السلام کی ماں نے ان کی بہن سے کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے جاؤ۔

قرآن میں ہے

وَقَالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ فَبَصُرَتْ بِهِ عَنْ جُنُبٍ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ [القصص : 11]

اور اس نے اس کی بہن سے کہا اس کے پیچھے پیچھے جا۔ پس وہ اسے ایک طرف سے دیکھتی رہی اور وہ شعور نہیں رکھتے تھے۔

 یعنی وہ کنارے پر رہ کر ساتھ چلتی ہوئی دور سے اسے دیکھتی رہی، اس طرح کہ کسی کو معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ اس کا پیچھا کر رہی ہے۔ اس سے اس لڑکی کی دانائی اور ذہانت کا پتا چلتا ہے۔ ماں نے صرف پیچھے پیچھے جانے کو کہا تھا، یہ اس کی دانش مندی تھی کہ پیچھے کس طرح جانا ہے۔

 ایک عرب شاعر نے خوب کہا ہے :

 إِذَا كُنْتَ فِيْ حَاجَةٍ مُرْسِلاً

 فَأَرْسِلْ حَكِيْمًا وَ لَا تُوْصِهٖ

 ’’جب تم کسی کام کے لیے بھیجو تو دانا آدمی کو بھیجو،

 پھر اسے سمجھانے کی ضرورت نہیں۔‘‘

موسی علیہ السلام کا صندوق فرعون کے گھر

اُمّ موسیٰ کا گھر دریائے نیل کے کنارے پر فرعون کے محل کے بالائی جانب تھا۔ اب وہ صندوق بہتا ہوا فرعون کے محل کے پاس سے گزرا، اس کے لوگوں نے اسے دیکھا تو دریا سے نکال کر فرعون کے پاس لے آئے۔

قرآن میں ہے

فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ [القصص : 8]

تو فرعون کے گھر والوں نے اسے اٹھالیا

فرعون اور اس کی بیوی، اس بچے کے متعلق باہم جھگڑنے لگے

 فرعون اور اس کی بیوی نے صندوق کھلوایا تو اس میں سے نہایت خوب صورت اور پیارا بچہ نکلا، جس میں اللہ تعالیٰ نے ایسی کشش رکھ دی تھی کہ جو دیکھے اس سے محبت کرنے لگے

جیسا کہ فرمایا :

 « وَ اَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ » [ طٰہٰ : ۳۹ ]

’’اور میں نے تجھ پر اپنی طرف سے ایک محبت ڈال دی۔‘‘

مگر جس طریقے سے یہ بچہ آیا تھا اس سے صاف ظاہر تھا کہ یہ بنی اسرائیل کے کسی آدمی کا بچہ ہے، جس نے ذبح ہونے سے بچانے کے لیے اسے دریا کے حوالے کر دیا ہے، اس لیے فرعون اور اس کے خونخوار ساتھیوں نے اصرار کیا کہ اسے ہر حال میں ذبح کیا جائے

مگر فرعون کی بیوی کہنے لگی کہ یہ میری اور تیری آنکھ کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل مت کرو۔ فرعون کی بیوی کا یہ کہنا کہ ’’اسے قتل مت کرو ‘‘ اس بات کا قرینہ ہے کہ وہ لوگ اسے قتل کرنے کے درپے ہو چکے تھے۔

وَقَالَتِ امْرَأَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍ لِي وَلَكَ لَا تَقْتُلُوهُ عَسَى أَنْ يَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ [القصص : 9]

اور فرعون کی بیوی نے کہا یہ میرے لیے اور تیرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، امید ہے کہ وہ ہمیں فائدہ پہنچائے، یا ہم اسے بیٹا بنا لیں اور وہ سمجھتے نہ تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرعون کی بیوی کا نام آسیہ بتایا ہے۔ یہ خاتون دنیا کی سب سے بلند مرتبہ خواتین میں سے ایک تھیں۔

دیکھیں

[بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالٰی : « و ضرب اللہ مثلا…» : ۳۴۱۱، عن أبي موسیٰ رضی اللہ عنہ ]

موسی علیہ السلام کے دودھ کا بندوبست اور اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کمال

اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر تمام دودھ پہلے ہی حرام کر دیے تھے یعنی پینے سے منع کر دیا تھا۔

فرمایا

وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ

اور ہم نے اس پر پہلے سے تمام دودھ حرام کر دیے

  فرعون کی بیوی کو موسیٰ علیہ السلام سے بے پناہ محبت ہو گئی تھی اور وہ ہر قیمت پر ان کے لیے دودھ کا انتظام کرنا چاہتی تھی، مگر جو دایہ بھی لائی گئی، موسیٰ نے اس کا دودھ پینے سے انکار کر دیا۔ فرعون کی بیوی سخت فکر مند تھی کہ دودھ نہ پینے کی وجہ سے اتنا پیارا بچہ کہیں فوت نہ ہو جائے۔

موسی علیہ السلام کی بہن کا مشورہ

 موسیٰ علیہ السلام کی بہن اجنبی بن کر یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ جب موسیٰ علیہ السلام کو دودھ پلانے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں تو اس نے موقع پا کر کہا، کیا میں تمھیں ایک ایسے گھر والے بتاؤں جو تمھارے لیے اس کی کفالت کریں گے اور وہ اس کے خیر خواہ ہوں گے۔

قرآن میں ہے

فَقَالَتْ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى أَهْلِ بَيْتٍ يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَ [القصص 12]

 تو اس نے کہا کیا میں تمھیں ایک گھر والے بتلائوں جو تمھارے لیے اس کی پرورش کریں اور وہ اس کے خیر خواہ ہوں۔

موسی علیہ السلام واپس اپنی والدہ محترمہ کے پاس

 ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ سلطنت کی ملکہ ہر حال میں اس بچے کے لیے دودھ کا انتظام کرنا چاہتی تھی

 غرض انھوں نے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو بلوایا جوں ہی ماں نے بچے کے منہ سے اپنی چھاتی لگائی بچہ خوش ہو کر دودھ پینے لگا۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں

فَرَدَدْنَاهُ إِلَى أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ [القصص : 13]

تو ہم نے اسے اس کی ماں کے پاس واپس پہنچا دیا، تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور وہ غم نہ کرے اور تاکہ وہ جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچ ہے اور لیکن ان کے اکثر نہیں جانتے۔

 سورہ طہ میں ہے

 فَرَجَعْنَاكَ إِلَى أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ [طه : 40]

 پس ہم نے تجھے تیری ماں کی طرف لوٹا دیا، تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور وہ غم نہ کرے۔

یعنی ہم نے موسیٰ علیہ السلام کی ماں سے جو وعدہ کیا تھا کہ اسے تمھارے پاس واپس لائیں گے، اتنی دیر ہی میں پورا کر دیا جتنی دیر کوئی بچہ ماں کے دودھ کے بغیر گزار سکتا ہے۔

 قدیم زمانے میں ان ممالک کے بڑے اور خاندانی لوگ بچوں کو اپنے ہاں پالنے کے بجائے دودھ پلانے والی عورتوں کے سپرد کر دیتے تھے۔ خود ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حلیمہ سعدیہ کے ہاں صحرا میں پرورش پائی۔ اس کے مطابق موسیٰ علیہ السلام کو ان کی والدہ اپنے گھر لے گئیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے بیٹے کو واپس لانے کا جو وعدہ کیا تھا وہ بھی پورا ہوا اور شاہی خزانے سے ماں کو جو وظیفہ ملتا رہا وہ اس کے علاوہ تھا۔

موسی علیہ السلام جوان ہوئے تو اللہ نے خوب حکمت و علم عطا کیا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَى آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ [القصص آیت 14]

اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا اور پورا طاقت ور ہو گیا تو ہم نے اسے قوت فیصلہ اور علم عطا کیا اور اسی طرح نیکی کرنے والوں کو ہم بدلہ دیتے ہیں۔

موسی علیہ السلام اپنی قوم کی حالت زار دیکھتے ہیں

 چونکہ موسیٰ علیہ السلام کے رضاعت کے ایام اپنی والدہ کے پاس گزرے، جس سے انھیں اپنے والدین، بھائی بہن قوم اور خاندان سے شناسائی ہو گئی اور آئندہ بھی اس تعلق کی وجہ سے میل جول جاری رہا، جس سے وہ اپنے آبائے کرام ابراہیم، اسحاق اور یعقوب علیھم السلام اور ان کے دین سے واقف ہو گئے اور بنی اسرائیل کی زبوں حالت پر براہ راست مطلع رہنے لگے۔

موسی علیہ السلام کا اپنی قوم کو صبر کی تلقین کرنا

ایسے حالات میں موسیٰ (علیہ السلام)  اپنی قوم کو تسلی دینا ضروری سمجھتے تھے ، چناچہ انھیں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے اور صبر کرنے کی تلقین فرماتے رہتے تھے

قَالَ مُوۡسٰى لِقَوۡمِهِ اسۡتَعِيۡنُوۡا بِاللّٰهِ وَاصۡبِرُوۡا‌

موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو

تحریکِ آزادی کا آغاز

قومِ موسی آزادی کی دعائیں کرنے لگی

چنانچہ انھوں نے ظالموں سے پناہ کی وہ دعا لازم کرلی جو اللہ تعالیٰ نے سورة یونس میں ذکر فرمائی ہے :

رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ ، وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ  [ یونس : ٨٥، ٨٦ ]

موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں تسلی دیتے ہوئے یہ خوش خبری بھی سنائی کہ آج اگر مصر پر فرعون حکمران ہے تو کل اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی سرزمین کا وارث، یعنی حکمران بنا سکتا ہے۔

اِنَّ الۡاَرۡضَ لِلّٰهِ ۙ يُوۡرِثُهَا مَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ‌ ؕ وَالۡعَاقِبَةُ لِلۡمُتَّقِيۡنَ‏[الأعراف – آیت 128]

بیشک زمین اللہ کی ہے، وہ اس کا وارث اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے بناتا ہے اور اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے۔

موسی اور ان کے بھائی ھارون، فرعون کی پارلیمنٹ میں قراردادِ آزادی پیش کرتے ہیں

ارشاد باری تعالیٰ ہے

فَأْتِيَاهُ فَقُولَا إِنَّا رَسُولَا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ قَدْ جِئْنَاكَ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكَ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى [طه : 47]

تو اس کے پاس جائو اور کہو بے شک ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں، پس تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے اور انھیں عذاب نہ دے، یقینا ہم تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے ایک نشانی لے کر آئے ہیں اور سلام اس پر جو ہدایت کے پیچھے چلے۔

موسی علیہ السلام فرعونیوں کے لیے بددعا کرتے ہیں

جب فرعون اور اس کے ساتھی کفر اور ظلم سے کسی صورت باز نہ آئے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے تنگ آکر ان کے حق میں بددعا کی

فرمایا

رَبَّنَا اطۡمِسۡ عَلٰٓى اَمۡوَالِهِمۡ وَاشۡدُدۡ عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ فَلَا يُؤۡمِنُوۡا حَتّٰى يَرَوُا الۡعَذَابَ الۡاَلِيۡمَ[يونس – آیت 88]

 اے ہمارے رب ! ان کے مالوں کو مٹا دے اور ان کے دلوں پر سخت گرہ لگادے، پس وہ ایمان نہ لائیں، یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔

یعنی

اے ہمارے رب ❗ان کا ظلم اب حد سے بڑھ گیا ہے، اس لیے تیرے حضور درخواست ہے کہ تو ان کے مالوں کو مٹا دے، جن کے زور پر یہ تیری راہ سے گمراہ کرتے ہیں

اللہ تعالٰی موسی علیہ السلام کی دعا قبول کرتے ہیں

قرآن میں ہے

قَالَ قَدۡ اُجِيۡبَتۡ دَّعۡوَتُكُمَا فَاسۡتَقِيۡمَا وَلَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِيۡلَ الَّذِيۡنَ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏[ يونس – آیت 89]

فرمایا بلاشبہ تم دونوں (موسی اور ہارون علیہ السلام)کی دعا قبول کرلی گئی، پس دونوں ثابت قدم رہو اور ان لوگوں کے راستے پر ہرگز نہ چلو جو نہیں جانتے۔

( فاستقیما )کا معنی ہے کہ اب آپ اپنی اس بد دعا پر قائم رہنا، ایسا نہ ہو کہ میرا عذاب آنے پر ان کی سفارش کرنے لگو۔

یہ ایسے ہی ہے جس طرح نوح (علیہ السلام) نے بددعا کی تو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ سارے کافر غرق ہوں گے، مگر اب مجھ سے ان ظالموں کے (حق میں) بات نہ کرنا۔

اللہ تعالیٰ کو نوح اور موسیٰ ( علیہ السلام) کی بددعا کے باوجود ان کے دل کی نرمی کا علم تھا، اس لیے انھیں کہا کہ اب اپنی بات پر ہی رہنا کہیں ایسا نہ ہو کہ عذاب دیکھ کر تمہارے دل ان کافروں کے حق میں نرم پڑ جائیں

اللہ تعالیٰ، موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو ہجرت کا حکم دیتے ہیں

فرمایا

فَاَسۡرِ بِعِبَادِىۡ لَيۡلًا اِنَّكُمۡ مُّتَّبَعُوۡنَۙ  ( الدخان – آیت 23)

 کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے کر نکل جاؤ، تاکہ فرعون کو فوری خبر نہ ہو سکے  اور تمہیں ہجرت کا یہ سفر پوری احتیاط کے ساتھ ہوشیار رہ کر کرنا ہوگا اور یاد رکھو ! تمہارا تعاقب کیا جائے گا، اس لیے اتنا فاصلہ طے کرلو کہ تعاقب کرنے والے جلدی تم تک نہ پہنچ سکیں۔

چناچہ ایسے موقع پر معروف طریقے کے مطابق پورے مصر کے بنی اسرائیل کے لیے ایک وقت اور ایک جگہ مقرر کردی گئی، جس پر وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ جلد از جلد فرعون کی سلطنت (مصر) سے نکل جانے کے لیے رات کو روانہ ہوگئے۔

اللہ تعالٰی نے ہجرت پر روانہ ہوتے ہوئے موسی علیہ السلام کو تسلی دی فرمایا

ۙ لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّلَا تَخۡشٰى [ طه – آیت 77]

 نہ تو پکڑے جانے سے خوف کھا اور نہ( ہی کسی دوسری چیز سے )ڈر

یعنی غرق ہونے، راستہ بھول جانے، بھوک پیاس سے ہلاک ہونے یا کسی اور دشمن کے حملے سے، غرض کسی بھی خطرے کا تجھے ڈر نہیں ہوگا۔

فرعونی نیٹو فورسز کی تشکیل

صبح ہوئی فرعون اور اس کے لوگوں نے دیکھا کہ بنی اسرائیل جا چکے ہیں تو وہ سخت برافروختہ ہوئے، وہ کسی صورت انھیں جانے نہیں دینا چاہتے تھے، کیونکہ وہ ان سے گھروں اور کھیتوں کی محنت مشقت کی بیگار لیتے تھے۔ اس لیے انھیں واپس لانے کے لیے فرعون نے فوجیں اکٹھی کرنے کے لیے تمام شہروں میں آدمی بھیج دیے۔

قرآن میں ہے

فَاَرۡسَلَ فِرۡعَوۡنُ فِى الۡمَدَآٮِٕنِ حٰشِرِيۡنَ‌ ۚ[الشعراء – آیت 53]

تو فرعون نے شہروں میں اکٹھا کرنے والے بھیج دیے۔

چند ہی دنوں میں فرعون نے بنی اسرائیل کے تعاقب کے لیے ایک لشکر جرار تیار کرلیا۔ اس کے نزدیک تو یہ کام نہایت عقل مندی کا تھا کہ اس نے پورے ملک سے اپنی ساری قوت اکٹھی کرلی، تاکہ بنی اسرائیل کو زبردستی دوبارہ اپنی غلامی میں واپس لے آئے، یا انھیں دنیا سے مٹا دے، مگر اللہ تعالیٰ کی تدبیر غالب ہے۔ اس نے فرعون کی چال اسی پر پلٹ دی، اس کی سلطنت کے بڑے بڑے ستون پورے ملک سے اکٹھے ہوگئے، تمام فوجیں بھی یکجا ہوگئیں اور ایک ہی وقت میں سمندر میں غرق کردی گئیں۔ اگر وہ بنی اسرائیل کے لیے فوجیں جمع نہ کرتا تو زیادہ سے زیادہ ایک قوم اس کے ہاتھ سے نکل جاتی، مگر اس کی سلطنت اور عیش و عشرت کے اسباب باقی رہتے۔ اب اس کی تدبیر کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ خود، اس کی افواج اور اس کے امراء و وزراء، جو اس کی سلطنت کا خلاصہ تھے، سب سمندر میں غرق ہوگئے

فرعون اپنی قوم کو جنگ کے لیے ابھارتا ہے

اس نے اپنی قوم اور فوج کو جنگ پر ابھارنے، تیار کرنے اور بہادری پیدا کرنے کے لیے زبردست بیان بازی اور گرما گرم تقریریں کی، جس میں اس نے کہا کہ

إِنَّ هَؤُلَاءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِيلُونَ

کہ بے شک یہ لوگ تو ایک تھوڑی سی جماعت ہیں۔

وَإِنَّهُمْ لَنَا لَغَائِظُونَ [الشعراء : 55]

اور بلاشبہ یہ ہمیں یقینا غصہ دلانے والے ہیں۔

وَإِنَّا لَجَمِيعٌ حَاذِرُونَ [الشعراء : 56]

اور بے شک ہم یقینا سب چوکنے رہنے والے ہیں۔

یعنی یہ لوگ ایک چھوٹی سی جماعت اور تھوڑے سے لوگ ہیں، ہمیں ان کی کیا پروا ہے، ہم آسانی سے انھیں نیست و نابود کرسکتے ہیں اور چاہیں تو معمولی وسائل کے ساتھ انھیں واپس لاسکتے ہیں۔ ان الفاظ کے ساتھ وہ اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو دلیری دے رہا تھا، جب کہ اس سے اس کا سخت خوف زدہ ہونا ظاہر ہو رہا تھا کہ اگر واقعی وہ اتنے ہی قلیل اور بےوقعت ہیں تو تمہیں اتنی فوجیں اکٹھی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اس نے اپنی قوم کو ان کا پیچھا کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے سب سے پہلے یہ کہا کہ وہ قلیل تعداد والے چھوٹا سا گروہ ہیں، ان کے تعاقب میں کوئی مشکل درپیش نہیں، پھر یہ ذکر کیا کہ وہ ہمارے شدید دشمن ہیں اور انھوں نے ہمیں غصہ دلا دیا ہے، اس لیے ان کا ہر حال میں پیچھا کرنا ہوگا اور آخر میں اس نے لازمی احتیاطی تدبیر کے طور پر ان کے تعاقب کو ضروری قرار دیا۔ یہ سب باتیں اس نے اپنے خوف کو چھپانے کے لیے کیں کہ اتنا بڑا بادشاہ ہو کر ان بےسرو سامان لوگوں سے ڈر رہا ہے

 فرعونی فورسز، بنی اسرائیل کے تعاقب میں

وہ لوگ سورج طلوع ہوتے ہی بنی اسرائیل کے تعاقب میں روانہ ہوگئے اور مشرق کی طرف رخ کیے ہوئے ان کے پیچھے چل پڑے۔

فرمایا

فَاَتۡبَعُوۡهُمۡ مُّشۡرِقِيۡنَ[الشعراء – آیت 60]

تو انھوں نے سورج نکلتے ان کا پیچھا کیا۔

اگر نقشے کو غور سے دیکھیں تو مصر کے مشرق میں بحر قلزم ہے، جو شمال کی طرف پھیلتا گیا ہے، اس کے آخر میں مصر خشکی کے ذریعے سے صحرائے سینا کے ساتھ ملا ہوا ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر سے نکلنے کے لیے مشرق کی طرف سمندر کا رخ کیا، جس کے ساتھ ساتھ شمال کی طرف چلتے ہوئے وہ صحرائے سینا میں داخل ہونا چاہتے تھے، مگر فرعون نے انھیں سمندر پر ہی جا لیا۔ اب ان کے آگے سمندر تھا اور پیچھے فرعون اور اس کا لشکر تھا

أصحاب موسی ، فرعونی افواج اور سمندر کے درمیان پھنس گئے

ادھر بنی اسرائیل سمندر پر پہنچے تو پیچھے سے فرعون بھی پہنچ گیا، بنی اسرائیل سخت خوف زدہ ہوگئے کہ اب دوبارہ پکڑے جائیں گے

قرآن نے اس منظر کو یوں بیان کیا

فَلَمَّا تَرَآءَ الۡجَمۡعٰنِ قَالَ اَصۡحٰبُ مُوۡسٰٓى اِنَّا لَمُدۡرَكُوۡنَ‌ۚ[الشعراء – آیت 61]

پھر جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا بیشک ہم یقینا پکڑے جانے والے ہیں۔-

 انہوں نے شدید خوف کا اظہار کیا کہ اب ہر صورت یہ لوگ ہمیں مار ڈالیں گے، یا پھر غلام بنا کر ساتھ لے جائیں گے۔

یہاں ” قَالَ بَنُوْ إِسْرَاءِیْلَ “ کے بجائے ” قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰٓي “ اس لیے فرمایا کہ ہجرت کرکے آنے والوں میں بنی اسرائیل کے علاوہ مسلمان بھی تھے۔

موسی علیہ السلام خوف زدہ قوم کو تسلی دیتے ہوئے

 فرمایا

 كَلَّا‌‌ ۚ اِنَّ مَعِىَ رَبِّىۡ سَيَهۡدِيۡنِ  [الشعراء – آیت 62]

فرمایا، ایسا ہرگز نہیں ہوگا، بلکہ میرا رب میرے ساتھ ہے، اس نے فرعون کی طرف روانہ کرتے ہوئے خود مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ

(اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ ) [ الشعراء : ١٥ ]

 ” بیشک ہم تمہارے ساتھ خوب سننے والے ہیں۔ “

 اسی کے حکم سے میں یہاں آیا ہوں، یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اب وہ مجھے بےیارو مددگار چھوڑ دے، وہ مجھے ضرور ان سے نجات کا راستہ بتائے گا۔

موسی علیہ السلام کو سمندر میں لاٹھی مارنے کا حکم

 اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی کی

فَاَوۡحَيۡنَاۤ اِلٰى مُوۡسٰٓى اَنِ اضۡرِبْ بِّعَصَاكَ الۡبَحۡرَ‌ؕ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرۡقٍ كَالطَّوۡدِ الۡعَظِيۡمِ‌ۚ [الشعراء – آیت 63]

کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مار۔ انہوں نے ایساہی  کیا تو سمندر پھٹ گیا اور پانی کا ہر حصہ اپنی جگہ ایک بڑے پہاڑ کی شکل میں کھڑا ہوگیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل خیریت سے گزر گئے

 سورة طٰہٰ میں ہے کہ ان کے درمیان (سمندر کی تہ کی گیلی اور دلدلی زمین میں) خشک راستہ بن گیا، فرمایا :

 (فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيْقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا)  [ طٰہٰ : ٧٧ ]

 ” پس ان کے لیے سمندر میں ایک خشک راستہ بنا۔ “

اور پھر بنی اسرائیل آزاد ہو گئے

چنانچہ بنی اسرائیل آزاد ہوگئے

فرمایا

وَاَنۡجَيۡنَا مُوۡسٰى وَمَنۡ مَّعَهٗۤ اَجۡمَعِيۡنَ‌ۚ[الشعراء – آیت 65]

اور ہم نے موسیٰ کو اور جو اس کے ساتھ تھے، سب کو بچالیا۔

جس مالک نے آگ میں جلانے کی اور پانی میں بہنے اور ڈبونے کی خاصیت رکھی ہے، وہ جب چاہے ان سے یہ خاصیت واپس بھی لے سکتا ہے۔ یہ لوگ اندھے بہرے مادے ہی کو اپنا معبود بنائے بیٹھے ہیں، جو اپنے آپ پر بھی کوئی اختیار نہیں رکھتا

سمندر سے گزرنے کے بعد بنی اسرائیل دوبارہ خوف میں مبتلا ہوتے ہیں

انہیں خیال آیا کہ اگر سمندر اسی حالت میں رہا تو فرعون اور اس کی فوجیں بھی انہیں راستوں سے سمندر عبور کرکے ہمارے پیچھے آ جائیں گے،

چنانچہ ان کے اس خوف کو دور کرنے کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالٰی نے حکم دیا

وَاتۡرُكِ الۡبَحۡرَ رَهۡوًا‌ؕ اِنَّهُمۡ جُنۡدٌ مُّغۡرَقُوۡنَ۔[الدخان – آیت 24]

کہ پریشان نہ ہوں اور  سمندر کو اسی حالت میں ٹھہرا ہوا چھوڑ دیں کہ اس میں الگ الگ راستے کھلے ہوں، تعاقب کی فکر مت کریں، اس لشکر کو اسی سمندر میں غرق کیا جانا ہے۔

فرعونی ٹائی ٹینک سمندر میں

فرعونی افواج نے بنی اسرائیل کا تعاقب کرنے کے لیے انہیں راستوں کو استعمال کیا

وَجَاوَزۡنَا بِبَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ الۡبَحۡرَ فَاَتۡبـَعَهُمۡ فِرۡعَوۡنُ وَجُنُوۡدُهٗ بَغۡيًا وَّعَدۡوًا‌ ؕ

اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار کردیا تو فرعون اور اس کے لشکروں نے سرکشی اور زیادتی کرتے ہوئے ان کا پیچھا کیا

یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص تصرّف تھا کہ فرعون اور اس کی قوم سمندر میں داخل ہوگئی، ورنہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ فرعون جیسا مادہ پرست ایسے خوفناک منظر کو دیکھتے ہوئے کیسے سمندر میں داخل ہوگیا۔

فرعونی غرق ہوتے ہوئے

اللہ تعالٰی فرماتے ہیں

فَاَتۡبَعَهُمۡ فِرۡعَوۡنُ بِجُنُوۡدِهٖ فَغَشِيَهُمۡ مِّنَ الۡيَمِّ مَا غَشِيَهُمۡؕ‏[طہ___78]

پس فرعون نے اپنے لشکروں کے ساتھ ان کا پیچھا کیا تو انھیں سمندر سے اس چیز نے ڈھانپ لیا جس نے انھیں ڈھانپا۔

فرعون توبہ کرتا ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

اِذَاۤ اَدۡرَكَهُ الۡغَرَقُ قَالَ اٰمَنۡتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِىۡۤ اٰمَنَتۡ بِهٖ بَنُوۡۤا اِسۡرَآءِيۡلَ وَ اَنَا مِنَ الۡمُسۡلِمِيۡنَ

جب اسے ڈوبنے نے پا لیا تو اس نے کہا میں ایمان لے آیا کہ بیشک حق یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرماں برداروں سے ہوں۔

فرعون نے تین دفعہ مسلمان ہونے کا اقرار کیا :

01 ۔ اٰمَنْتُ

02. .       ,. ” اَنَّہ لَآ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِيْٓ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ “

03.  وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ

یہ سارا معاملہ غیب کا ہے، ڈوبتے وقت اس نے کیا کہا ؟ اللہ تعالیٰ یا اس کے فرشتوں کے سوا وہاں کون تھا ؟ سو یہ ساری بات اللہ تعالیٰ ہی نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کے ذریعے بتائی، جو آپ کی نبوت کی زبردست دلیل ہے

فرشتوں کا فرعون پر سخت غصہ

فرعون سے توبہ کرنے پر اللہ کے فرشتوں نے کہا

آٰلۡــٰٔنَ وَقَدۡ عَصَيۡتَ قَبۡلُ وَكُنۡتَ مِنَ الۡمُفۡسِدِيۡنَ- [يونس – آیت 91]

کیا اب ؟ حالانکہ بیشک تو نے اس سے پہلے نافرمانی کی اور تو فساد کرنے والوں سے تھا۔

فرعون کی سرکشی پر اللہ کے فرشتوں کو کس قدر قدر غصہ تھا اس کا اندازہ اس روایت سے کیا جا سکتا ہے

 ابن عباس (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا :

 ( قَالَ لِیْ جِبْرِیْلُ لَوْ رَأَیْتَنِیْ وَأَنَا آخِذٌ مِنْ حَالِ الْبَحْرِ فَأُدُسُّہٗ فِيْ فَمِ فِرْعَوْنَ مَخَافَۃَ أَنْ تُدْرِکَہُ الرَّحْمَۃُ ) [ السلسلۃ الصحیحۃ : ٥؍٢٦، ح : ٢٠١٥۔ مسند طیالسی : ٢٦١٨۔ ترمذی : ٣١٠٨ ]

” مجھ سے جبریل (علیہ السلام) نے کہا، کاش ! آپ مجھے دیکھتے کہ میں سمندر کا سیاہ کیچڑ اٹھا کر فرعون کے منہ میں ٹھونس رہا تھا، اس خوف سے کہ کہیں اس کو رحمت نہ آپہنچے۔

عذاب نازل ہوجانے کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے

 فرمایا

 فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا  [ المؤمن : ٨٥]

 ” پھر یہ نہ تھا کہ ان کا ایمان انھیں فائدہ دیتا جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا۔ “

اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

 إِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ  [ ترمذی، الدعوات، باب إن اللہ یقبل توبۃ العبد ما لم یغرغر۔۔ : ٣٥٣٧، عن ابن عمر ]

” بیشک اللہ بندے کی توبہ قبول کرتا ہے، جب تک اس کا غرغرہ (جان نکلنے کی حالت) نہ ہو۔ “

اللہ تعالٰی نے فرعون کی لاش کو بعد والوں کے لیے عبرت بنا دیا

 فرمایا

فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ [يونس : 92]

پس آج ہم تجھے تیرے (خالی) بدن کے ساتھ بچالیں گے، تاکہ تو ان کے لیے عظیم نشانی بنے جو تیرے بعد ہوں اور بے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے یقینا غافل ہیں۔

 فرعون اور اس کی ساری فوج کے غرق ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرعون کی لاش سمندر کے کنارے پر باہر نکال پھینکی، تاکہ وہ بعد والوں کے لیے عظیم نشانی بنے اور بنی اسرائیل کے کمزور عقیدے والوں کو بھی خدائی کے دعوے دار کی حقیقت اور انجام آنکھوں سے دیکھنے کا موقع مل جائے اور فرعون اور اس کا سمندر میں غرق ہونے کا واقعہ بعد میں ہر اس شخص کے لیے قدرت کی عظیم نشانی بن جائے جو اس کو سنے یا پڑھے۔

عام طور پر مشہور ہے کہ فرعون کی لاش مصر کے عجائب گھر میں اب تک محفوظ ہے مگر اس کی کوئی دلیل نہیں کہ یہ اسی فرعون کی لاش ہے۔

 شیخ محمد عبدہ (رض) لکھتے ہیں : ” آج تک جزیرہ نمائے سینا کے مغربی ساحل پر اس مقام کی نشان دہی کی جاتی ہے، جہاں فرعون کی لاش سمندر میں تیرتی ہوئی پائی گئی۔ اس زمانے میں اس مقام کو جبل فرعون یا حمامہ فرعون کہا جاتا ہے۔ اس کی جائے وقوع ابوزنیمہ (جہاں تانبے وغیرہ کی کانیں ہیں) سے چند میل اوپر شمال کی جانب ہے، آج قاہرہ کے عجائب گھر میں جن فرعونوں کی لاشیں موجود ہیں ان میں سے ایک فرعون کی لاش کو اسی فرعون کی لاش بتایا جاتا ہے۔ ١٩٠٧ ء میں جب فرعونوں کی لاشیں دریافت ہوئی تھیں تو اس فرعون کی لاش پر نمک کی ایک تہ جمی ہوئی پائی گئی تھی جو سمندر کے کھاری پانی میں اس کی غرقابی کی کھلی علامت تھی۔

اس واقعہ میں ہمارے لیے دروس و عبر

اللہ تعالٰی فرماتے ہیں

اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ  لَاٰيَةً   ؕ وَمَا كَانَ اَكۡثَرُهُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ-[الشعراء – آیت 67]

بیشک اس میں یقینا ایک نشانی ہے اور ان کے اکثر ایمان لانے والے نہیں تھے۔

اس واقعہ میں ہمارے لیے بہت زیادہ دروس موجود ہیں

01. سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام پر ایمان لانا اور ان سے محبت کرنا، حتی کہ ان کی خوشی میں شریک ہونا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا اسوہ حسنہ ہے

02. نہ گفتہ بہ حالات میں مایوس ہونے کی بجائے اللہ تعالٰی سے دعا اور تعلق مضبوط کیا جائے اور اللہ تعالٰی سے مدد طلب کی جائے

03. فرعون وقت سے مرعوب ہوتے ہوئے تھک ہار کر بیٹھنے کی بجائے جہد مسلسل جاری رکھی جائے

04. إعلاء کلمۃ اللہ کے لیے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ضرورت پڑے تو اپنے علاقے چھوڑنے میں تامل نہ کیا جائے

05. اللہ تعالٰی کی نصرت اور مدد پر بھرپور یقین رکھا جائے جیسے موسی علیہ السلام نے فرمایا تھا

 كَلَّا‌‌ ۚ اِنَّ مَعِىَ رَبِّىۡ سَيَهۡدِيۡنِ[الشعراء – آیت 62]

ہرگز نہیں ! بیشک میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ مجھے ضرور راستہ بتائے گا۔….

06. اس بات پر یقین رکھا جائے کہ اللہ تعالٰی قادر مطلق ہیں

یہ اس قادر و مختار کا کام تھا کہ ایک طرف اس نے فرعون کو، اس کی پوری قوت کو اور اس کی قوم کے سرداروں کو ان کے باغوں، چشموں، خزانوں اور عالی شان مقامات سے نکالا اور سمندر میں لا کر غرق کردیا اور دوسری طرف بنی اسرائیل کو خیریت کے ساتھ مصر سے نکال کر آزادی سے ہمکنار کردیا

07. مرنے سے پہلے پہلے توبہ کرلیں موت کے آثار دیکھ کر توبہ قبول نہیں ہوتی اور چونکہ ہمیں موت کا وقت معلوم نہیں ہے اس لیے ہر وقت توبہ کرتے ہی رہنا چاہیئے

( نوٹ ❗

یہ مکمل واقعہ الاستاذ المکرم الشیخ الحافظ عبد السلام بن محمد حفظہ اللہ تعالٰی کی مایہ ناز تالیف ( تفسیر القرآن الکریم )کے مختلف مقامات سے اکٹھا کیا گیا ہے

مصادر و مراجع کے لیے تفسیر کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے )