وفات النبی صلی اللہ علیہ و سلم
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات برحق ہے
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ (الأنبياء : 34)
اور ہم نے تجھ سے پہلے کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی، سو کیا اگر تو مر جائے تو یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ (الزمر : 30)
بے شک تو مرنے والا ہے اور بے شک وہ بھی مرنے والے ہیں۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو جائیں گے، تاکہ آپ کی موت کے متعلق لوگوں میں اختلاف واقع نہ ہو اور وہ آپ کی پرستش نہ کرنے لگیں، جیسا کہ پہلی امتوں میں اپنے انبیاء کی وفات کے متعلق اختلاف واقع ہوا۔
(استاذنا عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ فی تفسیر)
وفات النبی کے قرب کے اشارے
01.سورہ نصر کا نزول
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ (النصر :1)
وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا (النصر :2)
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا (النصر : 3)
جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے۔
اور تو لوگوں کو دیکھے کہ وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں۔
تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر اور اس سے بخشش مانگ، یقینا وہ ہمیشہ سے بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔
یہ سورہ ایام تشریق کے وسط میں نازل ہوئی تھی
ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ ’’اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا وقت ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کی اطلاع دی ہے، فرمایا : « اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ » ’’جب اللہ کی نصرت اور فتح آگئی۔‘‘ یہ (فتح و نصرت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کی علامت ہے، لہٰذا اب آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیے اور اس سے استغفار کیجیے، یقینا وہ تواب ہے۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’جو کچھ تم کہہ رہے ہو اس سورت کے متعلق مجھے بھی یہی معلوم ہے۔‘‘ [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : «فسبح بحمد ربک…» : ۴۹۷۰ ]
02.معاذ سے الوداعی گفتگو
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ(دس ہجری کو) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو یمن کی طرف روانہ فرمایا تو ان کو وصیتیں کرتے ہوئے گئے، سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سوار تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی سواری کے ساتھ ساتھ چلتے جا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی گفتگو سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا:
((یَا مُعَاذُ إِنَّکَ عَسَی أَنْ لَا تَلْقَانِی بَعْدَ عَامِی ہٰذَا، أَوْ لَعَلَّکَ أَنْ تَمُرَّ بِمَسْجِدِی ہٰذَا أَوْ قَبْرِی۔)) فَبَکٰی مُعَاذٌ جَشَعًا لِفِرَاقِ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔)) (مسند احمد: ۲۲۴۰۲)
معاذ! ممکن ہے کہ اس سال کے بعد تمہاری مجھ سے ملاقات نہ ہو سکے اور ہو سکتا ہے کہ تم میری اس مسجد یا قبر کے پاس سے گزرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدائی کے خیال سے رنجیدہ ہو کر سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ روپڑے۔
03.خطبہ حجۃ الوداع کی الوداعی باتیں
شائد کہ اس سال کے بعد میں تمہارے ساتھ حج نہ کر سکوں
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا آپ قربانی کے دن اپنی سواری پر ( سوار ہو کر ) کنکریاں مار رہے تھے اور فرما رہے تھے
«لِتَأْخُذُوا مَنَاسِكَكُمْ، فَإِنِّي لَا أَدْرِي لَعَلِّي لَا أَحُجُّ بَعْدَ حَجَّتِي هَذِهِ» (مسلم 3137)
:’’ تمھیں چا ہیے کہ تم اپنے حج کے طریقے سیکھ لو ، میں نہیں جا نتا شاید اس حج کے بعد میں ( دوبارہ ) حج نہ کر سکوں ۔ ‘‘
ألا أيها الناس فإنما أنا بشر يوشك أن يأتي رسول ربي فأجيب (مسلم 2408)
خبردار اے لوگو میں ایک بشر ہوں قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد آ جائے تو میں اپنے رب کے پاس چلا جاؤں
میں تمہارے اندر کتاب اللہ چھوڑ کر جا رہا ہوں
اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ ہے اللہ کی کتاب
کیا میں نے تم تک دین پہنچا دیا؟
اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے تو تم لوگ کیا کہو گے؟ صحابہ نے کہا: ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپؐ نے تبلیغ کردی، پیغام پہنچا دیا اور خیرخواہی کا حق ادا کردیا۔
یہ سن کر آپﷺ نے انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا: اے اللہ گواہ رہ۔‘‘ (الرحیق المختوم: ص ۷۳۳)
میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا
اور تم لوگ بہت جلد اپنے پروردگار سے ملو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھے گا، لہٰذا دیکھو میرے بعد پلٹ کر گمراہ نہ ہوجانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو
فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ھے
’’لوگو! بے شک تمہارا ربّ ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ ایک ہے، ہاں عربی کو عجمی پر عجمی کو عربی پر،سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیںمگر تقویٰ کے سب
(مجمع الزوائد:۳؍۲۶۶، مسنداحمد:۵؍۴۱۲)
04.مجھ سے ( قیامت کے دن ) تمہاری ملاقات حوض ( کوثر ) پر ہو گی
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (یہ صفر کے آغاز کا واقعہ ہے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ سال بعد یعنی آٹھویں برس میں غزوہ احد کے شہداء پر نماز جنازہ ادا کی۔ جیسے آپ زندوں اور مردوں سب سے رخصت ہو رہے ہوں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا ”میں تم سے آگے آگے ہوں، میں تم پر گواہ رہوں گا اور مجھ سے ( قیامت کے دن ) تمہاری ملاقات حوض ( کوثر ) پر ہو گی۔ اس وقت بھی میں اپنی اس جگہ سے حوض ( کوثر ) کو دیکھ رہا ہوں۔ تمہارے بارے میں مجھے اس کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ تم شرک کرو گے، ہاں میں تمہارے بارے میں دنیا سے ڈرتا ہوں کہ تم کہیں دنیا کے لیے آپس میں مقابلہ نہ کرنے لگو۔“ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ آخری دیدار تھا جو مجھ کو نصیب ہوا (بخاری 4202)
مرض کا آغاز:
۲۹ صفر ۱۱ ھ بروز سوموار رسول اللہﷺ ایک جنازے میں بقیع تشریف لے گئے۔ واپسی پر راستے ہی میں درد ِ سر شروع ہوگیا۔ اور حرارت اتنی تیز ہوگئی کہ سر پر بندھی ہوئی پٹی کے اوپر سے محسوس کی جانے لگی۔ یہ آپﷺ کے مرض الموت کا آغاز تھا۔ آپﷺ نے اسی حالت مرض میں گیارہ دن نماز پڑھائی۔ مرض کی کل مدت ۱۳ یا ۱۴ دن تھی
مرض النبی پر آپ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کا تبصرہ
علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیمارداری سے فارغ ہو کر باہر آئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ سے پوچھا: ابوالحسن! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آج مزاج کیا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ الحمدللہ اب آپ کو افاقہ ہے۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے چچاعباس رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کے کہا
وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَوْفَ يُتَوَفَّى مِنْ وَجَعِهِ هَذَا ، إِنِّي لَأَعْرِفُ وُجُوهَ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عِنْدَ الْمَوْتِ (بخاری 4447)
اللہ کی قسم، مجھے تو ایسے آثار نظر آ رہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مرض سے صحت نہیں پا سکیں گے۔ موت کے وقت بنو عبدالمطلب کے چہروں کی مجھے خوب شناخت ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر رہنے کی خواہش کرتے ہیں
عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں
رسول اللہﷺ کی طبیعت روز بروز بوجھل ہوتی جارہی تھی۔ اس دوران آپﷺ ازواج مطہرات سے پوچھتے رہتے تھے کہ میں کل کہاں رہوں گا ؟ میں کل کہاں رہوں گا ؟ اس سوال سے آپﷺ کا جو مقصود تھا ازواج مطہرات اسے سمجھ گئیں۔ چنانچہ انہوں نے اجازت دے دی کہ آپﷺ جہاں چاہیں رہیں۔ اس کے بعد آپﷺ حضرت عائشہ ؓ کے مکان میں منتقل ہوگئے۔ منتقلی کے وقت حضرت فضل بن عباس اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے درمیان ٹیک لگا کر چل رہے تھے۔ سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ اور پائوں زمین پر گھسٹ رہے تھے۔ اس کیفیت کے ساتھ آپ حضرت عائشہ کے مکان میں تشریف لائے۔ اور پھر حیات ِمبارکہ کا آخری ہفتہ وہیں گذارا۔
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں
جب وہ مرض آپ کو لاحق ہوا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو میں معوذتین پڑھ کر آپ پر دم کیا کرتی تھی اور ہاتھ پر دم کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر پھیرا کرتی تھی (بخاری 4439)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو دوائی کھلانے کا واقعہ
عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں ہم آپ کے منہ میں دوا دینے لگے تو آپ نے اشارہ سے دوا دینے سے منع کیا۔ ہم نے سمجھا کہ مریض کو دوا پینے سے ( بعض اوقات ) جو ناگواری ہوتی ہے یہ بھی اسی کا نتیجہ ہے ( اس لیے ہم نے اصرار کیا ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھر میں جتنے آدمی ہیں سب کے منہ میں میرے سامنے دوا ڈالی جائے۔ صرف عباس رضی اللہ عنہ اس سے الگ ہیں کہ وہ تمہارے ساتھ اس کام میں شریک نہیں تھے (بخاری 4458)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر سات مشکیزوں کا پانی بہایا گیا
یہ وفات سے پانچ دن پہلے (بدھ) کے دن کا واقعہ ہے کہ آپ کے جسم کی حرارت میں مزید شدت آگئی۔ جس کی وجہ سے تکلیف بھی بڑھ گئی۔ اور غَشی طاری ہوگئی تو عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اوپر ایسی سات مشکوں کا پانی ڈالو، جن کے سربند نہ کھولے گئے ہوں۔ تاکہ میں ( سکون کے بعد ) لوگوں کو کچھ وصیت کروں۔ ( چنانچہ ) آپ کو حفصہ رضی اللہ عنہا کے لگن (پانی کے ٹب) میں ( جو تانبے کا تھا ) بیٹھا دیا گیا اور ہم نے آپ پر ان مشکوں سے پانی بہانا شروع کیا۔ جب آپ ہم کو اشارہ فرمانے لگے کہ بس اب تم نے اپنا کام پورا کر دیا تو اس کے بعد آپ لوگوں کے پاس باہر تشریف لے گئے۔ (بخاری 198)
مسجد ميں آ کر نصیحت
پھر آپ منبر پر فروکش ہوئے اور بیٹھ کر خطبہ دیا۔ آپﷺ نے اللہ کی حمد و ثنا کی۔ پھر فرمایا: لوگو! میرے پاس آجاؤ۔ لوگ آپﷺ کے قریب آگئے۔
پھر آپﷺ نے جو فرمایا اس میں یہ فرمایا: ”یہود ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنایا۔” ایک روایت میں ہے کہ ”یہود ونصاریٰ پر اللہ کی مار کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنایا ۔” (بخاری)
آپﷺ نے یہ بھی فرمایا : ”تم لوگ میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی پوجا کی جائے۔”
موطا امام مالک
آپ نے فرمایا
” میں تمہیں انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں۔ کیونکہ وہ میرے قلب و جگر ہیں۔ انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی۔ مگر ان کے حقوق باقی رہ گئے ہیں۔ لہٰذا ان کے نیکوکار سے قبول کرنا۔ اور ان کے بد کار سے درگذر کرنا۔” ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا : ” لوگ بڑھتے جائیں گے اور انصار گھٹتے جائیں گے۔ یہاں تک کہ کھانے میں نمک کی طرح ہوجائیں گے۔ لہٰذا تمہارا جو آدمی کسی نفع اور نقصان پہنچانے والے کام کا والی ہو تو وہ ان کے نیکوکاروں سے قبول کرے اور ان کے بدکاروں سے درگذر کرے۔” (بخاری)
وفات سے چار دن پہلے جمعرات کو جب کہ آپﷺ سخت تکلیف سے دوچار تھے
پھر اسی رو ز آپﷺ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی۔ ایک اس بات کی وصیت کی یہود ونصاریٰ اور مشرکین کو جزیرۃ العرب سے نکال دینا۔ دوسرے اس بات کی وصیت کی کہ وفود کی اسی طرح نوازش کرنا جس طرح آپﷺ کیا کرتے تھے۔ البتہ تیسری بات کو راوی بھول گیا۔ غالباً یہ کتاب وسنت کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کی وصیت تھی یا لشکر ِ اسامہ کو نافذ کرنے کی وصیت تھی۔ یا آپﷺ کا یہ ارشاد تھا کہ ”نماز اور تمہارے زیر ِ دست ” یعنی غلاموں اور لونڈیوں کا خیال رکھنا۔
رسول اللہﷺ مرض کی شدت کے باوجود اس دن تک ، یعنی وفات سے چار دن پہلے (جمعرات ) تک تمام نمازیں خود ہی پڑھایا کرتے تھے۔ اس روز بھی مغرب کی نماز آپﷺ ہی نے پڑھائی۔ اور اس میں سورۂ والمرسلات ِ عُرْفا پڑھی (بخاری)
عشاء کی نماز پڑھانے کے لیے مسجد تک نہ پہنچ سکے
اسی دن عشاء کے وقت مرض کا ثقل اتنا بڑھ گیا کہ مسجدمیں جانے کی طاقت نہ رہی
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض بڑھ گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے عرض کی جی نہیں یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے لیے ایک لگن میں پانی رکھ دو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم نے پانی رکھ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر غسل کیا۔ پھر آپ اٹھنے لگے، لیکن آپ بیہوش ہو گئے۔ جب ہوش ہوا تو پھر آپ نے پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔ ہم نے عرض کی نہیں، یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( پھر ) فرمایا کہ لگن میں میرے لیے پانی رکھ دو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے پھر پانی رکھ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر غسل فرمایا۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی لیکن ( دوبارہ ) پھر آپ بیہوش ہو گئے۔ جب ہوش ہوا تو آپ نے پھر یہی فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔ ہم نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ لگن میں پانی لاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر غسل کیا۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی، لیکن پھر آپ بیہوش ہو گئے۔ پھر جب ہوش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہم نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ لوگ مسجد میں عشاء کی نماز کے لیے بیٹھے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے۔ (بخاری)
ابو بکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم
ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور جب بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ
کہ ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔
اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا بولیں
إِنَّهُ رَجُلٌ رَقِيقٌ ، إِذَا قَامَ مَقَامَكَ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ
کہ وہ نرم دل ہیں جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ان کے لیے نماز پڑھانا مشکل ہو گا
یا آپ نے کہا
إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ الْبُكَاءِ ، فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ
کہ ابوبکر آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو روتے روتے وہ ( قرآن مجید ) سنا نہ سکیں گے
یا یہ فرمایا
إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ إِذَا قَرَأَ غَلَبَهُ الْبُكَاءُ
کہ ابوبکر کچے دل کے آدمی ہیں۔ جب وہ قرآن مجید پڑھتے ہیں تو بہت رونے لگتے ہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا
مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ (بخاری 678)
کہ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں
عائشہ رضی اللہ عنہا نے پھر وہی بات کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں، تم لوگ صواحب یوسف ( زلیخا ) کی طرح ( باتیں بناتی ) ہو۔ آخر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بلانے آیا اور آپ نے لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی نماز پڑھائی
ابو بکر رضی اللہ عنہ نے منصب امامت سنبھال لیا
آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بھیجا اور حکم فرمایا کہ وہ نماز پڑھا دیں۔ بھیجے ہوئے شخص نے آ کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو نماز پڑھانے کے لیے حکم فرمایا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے نرم دل انسان تھے۔ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم نماز پڑھاؤ، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ آخر ( بیماری ) کے دنوں میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھاتے رہے۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ کی سترہ نمازیں
نبیﷺ کی حیات مبارکہ میں ان کی پڑھائی ہوئی نمازوں کی تعداد سترہ ہے۔ جمعرات کی عشاء ، سوموار کی فجر اور بیچ کے تین دنوں کی پندرہ نمازیں۔ (بخاری)
وفات سے تین دن پہلے
حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو وفات سے تین دن پہلے سنا آپﷺ فرما رہے تھے:”یاد رکھو تم میں سے کسی کو موت نہیں آنی چاہیے مگر اس حالت میں کہ وہ اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہو۔”
طبقات ابن سعد ۲/۲۵۵ ، مسند ابی داود طیالسی ص ۲۴۶ حدیث نمبر ۱۷۷۹ ، مسند ابی یعلی۴/۱۹۳ حدیث نمبر ۲۲۹۰
وفات سے ایک دن یا دو دن پہلے
ہفتہ یا اتوار کو نبیﷺ نے اپنی طبیعت میں قدرے تخفیف محسوس کی، چنانچہ دوآدمیوں عباس اور علی رضی اللہ عنہما کے درمیان چل کر ظہر کی نماز کے لیے تشریف لائے۔ اس وقت ابو بکرؓ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھا رہے تھے۔ وہ آپﷺ کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے۔ آپﷺ نے اشارہ فرمایا کہ پیچھے نہ ہٹیں۔ اوران دونوں حضرات سے فرمایا کہ مجھے ان کے بازو میں بٹھا دو۔ چنانچہ آپﷺ کو ابوبکرؓ کے دائیں بٹھا دیا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ رہے تھے ابو بکرؓ رسول اللہﷺ کی نماز کی اقتدا کرر ہے تھے۔اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تکبیر سنا رہے تھے (بخاری 687)
عروہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے آپ کو کچھ ہلکا پایا اور باہر تشریف لائے۔ اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے۔ انہوں نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹنا چاہا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے انہیں اپنی جگہ قائم رہنے کا حکم فرمایا۔
فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِذَاءَ أَبِي بَكْرٍ إِلَى جَنْبِهِ ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ (بخاری 683)
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بازو میں بیٹھ گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی پیروی کرتے تھے
مسجد کا آخری دیدار
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( ایام بیماری میں ) تین دن تک باہر تشریف نہیں لائے۔ ان ہی دنوں میں ایک دن نماز قائم کی گئی۔
سوموار کی صبح فجر کی نماز کیلئے ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھنے کو تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( حجرہ مبارک کا ) پردہ اٹھایا۔
فَلَمَّا وَضَحَ وَجْهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا نَظَرْنَا مَنْظَرًا كَانَ أَعْجَبَ إِلَيْنَا مِنْ وَجْهِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ وَضَحَ لَنَا (بخاری 681)
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دکھائی دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے پاک و مبارک سے زیادہ حسین منظر ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ( قربان اس حسن و جمال کے ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھنے کے لیے اشارہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ گرا دیا اور اس کے بعد وفات تک کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے پر قادر نہ ہو سکا
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے سرگوشی کرتے ہیں
یہ سوموار کے دن یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کے آخری دن چاشت کے وقت کا واقعہ ہے
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے رازی داری سے فاطمہ کے ساتھ بات کی تو وہ شدت سے رونے لگیں ۔ جب آپ نے ان کی شدید بے قراری دیکھی تو آپ نے دوبارہ ان کے کا ن میں کو ئی بات کہی تو ہنس پڑیں ۔ ( بعد میں ) پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا تو میں نے ان سے کہا : آپ مجھے بتائیں کہ آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہا تھا؟انھوں نےکہا : پہلی بار جب آپ نے سرگوشی کی تو مجھے بتایا : کہ اجل ( مقررہ وقت ) قریب آگیا ہے ، اس لئے تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے صبرکرنا ، میں تمھارے لیے بہترین پیش رو ہوں گا ۔ ( حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ) کہا : اس پر میں اس طرح روئی جیسا آپ نے دیکھا ، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری شدید بے قراری دیکھی تو دوسری بار میرے کان میں بات کی اور فرمایا : فاطمہ!کیا تم اس پرراضی نہیں ہوکہ تم ایماندار عورتوں کی سردار بنو یا ( فرمایا : )اس امت کی عورتوں کی سردار بنو؟ کہا : تو اس پر میں اس طرح سے ہنس پڑی جیسے آپ نے دیکھا (مسلم 6313)
پھر آپﷺ نے مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے بتایا کہ آپ کے اہل و عیال میں سب سے پہلے میں آپﷺ کے پیچھے جاؤں گی۔ اس پر میں ہنسی (بخاری 4434)
اس وقت رسول اللہﷺ جس شدید کرب سے دوچار تھے اسے دیکھ کر حضرت فاطمہؓ بے ساختہ پکار اٹھیں۔ واکرب أباہ۔ ”ہائے ابّا جان کی تکلیف ۔”آپﷺ نے فرمایا : تمہارے ابّا پر آج کے بعد کوئی تکلیف نہیں (صحیح بخاری ۲/۶۴۱)
خیبر کے زہر کی تکلیف
آپ کی تکلیف بڑھتی جارہی تھی اور اس زہر کا اثر بھی ظاہر ہونا شروع ہوگیا تھا جسے آپﷺ کو خیبر میں کھلایا گیا تھا۔ چنانچہ آپﷺ حضرت عائشہ ؓ سے فرماتے تھے :
مَا أَزَالُ أَجِدُ أَلَمَ الطَّعَامِ الَّذِي أَكَلْتُ بِخَيْبَرَ ، فَهَذَا أَوَانُ وَجَدْتُ انْقِطَاعَ أَبْهَرِي مِنْ ذَلِكَ السُّمِّ (صحیح بخاری 4428)
اے عائشہ ! خیبر میں جو کھانا میں نے کھالیا تھا اس کی تکلیف برابر محسوس کررہا ہوں۔ اس وقت مجھے محسوس ہورہا ہے کہ اس زہر کے اثرسے میری رگِ جاں کٹی جارہی ہے۔
شدت تکلیف سے کبھی چہرے پر چادر ڈال دیتے اور کبھی ہٹا دیتے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر کھینچ کر باربار اپنے چہرے پر ڈالتے تھے، پھر جب دم گھٹنے لگتا تو چہرے سے ہٹا دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی شدت کے عالم میں فرماتے تھے، یہود و نصاریٰ اللہ کی رحمت سے دور ہوئے کیونکہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( اپنی امت کو ) ان کا عمل اختیار کرنے سے بچتے رہنے کی تاکید فرما رہے تھے (بخاری 4444)
دونوں ہاتھوں سے چہرے پر پانی ڈالتے ہوئے
آپﷺکے سامنے کٹورے میں پانی تھا۔ آپﷺپانی میں دونوں ہاتھ ڈال کر چہرہ پونچھتے جاتے تھے۔ اور فرماتے جاتے تھے۔ لاإلہ إلا اللّٰہ،اللہ کے سوا کوئی معبود(برحق) نہیں۔ موت کے لیے سختیاں ہیں (صحیح بخاری ۲/۶۴۰)
شدت سکرات اور عائشہ رضی اللہ عنہا کا تبصرہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ میری ہنسلی اور ٹھوڑی کے درمیان ( سر رکھے ہوئے ) تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( کی شدت سکرات ) دیکھنے کے بعد اب میں کسی کے لیے بھی نزع کی شدت کو برا نہیں سمجھتی (بخاری 4446)
نماز اور غلاموں کے متعلق نصیحت
آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی وصیت فرمائی۔ فرمایا :
((الصلاۃ الصلاۃ وما ملکت أیمانکم))
”نماز ، نماز ، اور تمہارے زیر ِ دست ” (یعنی لونڈی ، غلام )
آپﷺ نے یہ الفاظ کئی بار دہرائے
بوقت وفات عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں
عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں
تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي وَفِي يَوْمِي ، وَبَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میرے گھر میں، میری باری کے دن ہوئی۔ آپ اس وقت میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں
فَقَبَضَهُ اللَّهُ وَإِنَّ رَأْسَهُ لَبَيْنَ نَحْرِي وَسَحْرِي وَخَالَطَ رِيقُهُ رِيقِي (بخاری 5217)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میرے سینے پر تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن میرے لعاب دہن سے ملا
مسواک کی خواہش
آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں*
ہوا یہ کہ اسی دوران عبدالرحمٰن بن ابی بکر ( ایک مرتبہ ) آئے۔ ان کے ہاتھ میں مسواک تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کی خواہش کی۔ میں نے عبدالرحمن سے مسواک لے کر اس کے سرے کو پہلے توڑا
ثُمَّ مَضَغْتُهُ فَأَعْطَيْتُهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَنَّ بِهِ وَهُوَ مُسْتَسْنِدٌ إِلَى صَدْرِي
پھر اسے چبا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دانت صاف کئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت میرے سینے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے (بخاری 890)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مسواک مجھے عنایت فرمائی اور آپ کا ہاتھ جھک گیا، یا ( راوی نے یہ بیان کیا کہ ) مسواک آپ کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔
فَجَمَعَ اللَّهُ بَيْنَ رِيقِي وَرِيقِهِ فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنَ الدُّنْيَا ، وَأَوَّلِ يَوْمٍ مِنَ الْآخِرَةِ (بخاری 4451)
اس طرح اللہ تعالیٰ نے میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تھوک کو اس دن جمع کر دیا جو آپ کی دنیا کی زندگی کا سب سے آخری اور آخرت کی زندگی کا سب سے پہلا دن تھا
*نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بے ہوش ہو کر جنت میں اپنا گھر دیکھتے ہیں
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں
تندرستی کے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جب بھی کسی نبی کی روح قبض کی گئی تو پہلے جنت میں اس کی قیام گاہ اسے ضرور دکھا دی گئی، پھر اسے اختیار دیا گیا پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پڑے اور وقت قریب آ گیا تو سر مبارک عائشہ رضی اللہ عنہا کی ران پر تھا اور آپ پر غشی طاری ہو گئی تھی، جب کچھ ہوش ہوا تو آپ کی آنکھیں گھر کی چھت کی طرف اٹھ گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ «اللهم في الرفيق الأعلى» ۔ میں سمجھ گئی کہ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ( یعنی دنیاوی زندگی کو ) پسند نہیں فرمائیں گے۔ مجھے وہ حدیث یاد آ گئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تندرستی کے زمانے میں فرمائی تھی (بخاری 4437)
وفات سے کچھ پہلے کی دعا
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ
وفات سے کچھ پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پشت سے ان کا سہارا لیے ہوئے تھے۔ آپ نے کان لگا کر سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا کر رہے ہیں «اللهم اغفر لي وارحمني، وألحقني بالرفيق» ”اے اللہ! میری مغفرت فرما، مجھ پر رحم کر اور میرے رفیقوں سے مجھے ملا۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا بلند ہاتھ جھک گیا اور آپ وفات پا گئے
مسواک سے فارغ ہوتے ہی آپﷺنے ہاتھ یا انگلی اٹھائی، نگاہ چھت کی طرف بلند کی۔ اور دونو ں ہونٹوں پر کچھ حرکت ہوئی۔ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فر ما یا :
میں سناکرتی تھی کہ کو ئی نبی فوت نہیں ہو تا یہاں تک کہ اس کو دنیا آخرت کے درمیان اختیار دیا جا تا ہے
آپ فرماتی ہیں میں نےکان لگایا تو آپﷺفرمارہے تھے :
«مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ، وَالشُّهَدَاءِ، وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا» قَالَتْ: فَظَنَنْتُهُ خُيِّرَ حِينَئِذٍ (مسلم 6295)
”ان انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین کے ہمراہ جنہیں تو نے انعام سے نوازا۔اور یہی بہترین رفیق ہیں ۔ کہا : تو میں نے سمجھ لیا کہ اس وقت آپ کو اختیا ردے دیا گیا ہے
آپ فرما رہے تھے
اے اللہ ! مجھے بخش دے ،۔مجھ پر رحم کر ، اور مجھے رفیق ِ اعلیٰ میں پہنچا دے۔ اےاللہ ! رفیق اعلیٰ ۔’
آخری فقرہ تین بار دہرایا ، اور اسی وقت ہاتھ جھک گیا۔ اور آپﷺ رفیق ِ اعلیٰ سے جا لاحق ہوئے۔ إناللّٰہ وإنا إلیہ راجعون (بخاری 4436)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر مبارک
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُوُفِّيَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ (بخاری 4466)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ کی عمر تریسٹھ سال کی تھی
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی وراثت
مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِينَارًا ، وَلَا دِرْهَمًا ، وَلَا عَبْدًا ، وَلَا أَمَةً إِلَّا بَغْلَتَهُ الْبَيْضَاءَ الَّتِي كَانَ يَرْكَبُهَا ، وَسِلَاحَهُ وَأَرْضًا جَعَلَهَا لِابْنِ السَّبِيلِ صَدَقَةً (بخاری 4461)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ درہم چھوڑے تھے، نہ دینار، نہ کوئی غلام نہ باندی، سوا اپنے سفید خچر کے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوا کرتے تھے اور آپ کا ہتھیار اور کچھ وہ زمین جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں مجاہدوں اور مسافروں کے لیے وقف کر رکھی تھی
فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بیقراری
آپﷺ کی وفات پر حضرت فاطمہ ؓ نے فرطِ غم سے فرمایا:
يَا أَبَتَاهُ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهُ
يَا أَبَتَاهْ مَنْ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهْ
يَا أَبَتَاهْ إِلَى جِبْرِيلَ نَنْعَاهْ (صحیح بخاری باب مرض النبیﷺ ۲/۶۴۱)
”ہائے ابا جان ! جنہوں نے پروردگار کی پکار پر لبیک کہا۔ ہائے ابا جان ! جن کا ٹھکانہ جنت الفردوس ہے۔ ہائے اباجان! ہم جبریل علیہ السلام کو آپﷺ کے موت کی خبر دیتے ہیں۔
پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دفن کر دئیے گئے تو آپ رضی اللہ عنہا نے انس رضی اللہ عنہ سے کہا ”انس! تمہارے دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش پر مٹی ڈالنے کے لیے کس طرح آمادہ ہو گئے تھے۔“ (بخاری 4462)
وفات کے موقع پر ابو بکر رضی اللہ عنہ کی نصیحت
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ (جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے جو {’’ اَلسُّنْح ‘‘} میں تھا، گھوڑے پر تشریف لائے، وہ گھوڑے سے اتر کر مسجد میں آ گئے، لوگوں سے انھوں نے کوئی بات نہ کی، بلکہ سیدھے عائشہ( رضی اللہ عنہا ) کے ہاں چلے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قصد کیا، اس وقت آپ یمنی دھاری دار چادر سے ڈھانپے ہوئے تھے۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے کپڑا ہٹایا، پھر آپ پر جھک کر آپ کو بوسہ دیا، پھر رو پڑے اور کہنے لگے : ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ! اے اللہ کے نبی ! اللہ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا، جو موت آپ پر لکھی گئی تھی، وہ آپ فوت ہو چکے۔‘‘ (بخاری 4452)
ابو سلمہ کہتے ہیں، مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نکلے، عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے باتیں کر رہے تھے، تو فرمایا : ’’بیٹھ جاؤ ۔‘‘ انھوں نے نہ مانا، پھر فرمایا : ’’بیٹھ جاؤ ۔‘‘ وہ پھر بھی نہ مانے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا، اب لوگ ان کی طرف متوجہ ہو گئے اور عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’اما بعد ! تم میں سے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو بے شک اللہ زندہ ہے، کبھی فوت نہیں ہو گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : «وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ » یہ مکمل آیت تلاوت کی۔ (آل عمران : 144)
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’اللہ کی قسم ! ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ لوگ جانتے ہی نہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے، یہاں تک کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی تو لوگوں نے اسے ان سے لے لیا تو جسے سنو یہی آیت پڑھ رہا تھا۔‘‘
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’اللہ کی قسم ! میں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے جب اس آیت کی تلاوت سنی تو میں کھڑے کا کھڑا رہ گیا، میرے پا ؤ ں مجھے اٹھا نہیں رہے تھے، یہاں تک کہ میں گر گیا۔‘‘ [ بخاری، المغازی، باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ووفاتہ : ۴۴۵۲، ۴۴۵۳، ۴۴۵۴ ]
وفات نبی پر ام ایمن رضی اللہ عنہا کے تاثرات
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہمارے ساتھ ام ایمن رضی اللہ عنہا کی ملاقات کے لئے چلو ہم اس سے ملیں گے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملنے کو جایا کرتے تھے ۔ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں ۔ دونوں ساتھیوں نے کہا کہ تم کیوں روتی ہو؟ اللہ جل جلالہ کے پاس اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو سامان ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بہتر ہے ۔ ام ایمن رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں اس لئے نہیں روتی کہ یہ بات نہیں جانتی بلکہ اس وجہ سے روتی ہوں کہ
أَنَّ الْوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ مِنَ السَّمَاءِ، فَهَيَّجَتْهُمَا عَلَى الْبُكَاءِ. فَجَعَلَا يَبْكِيَانِ مَعَهَا (مسلم 6318)
اب آسمان سے وحی کا آنا بند ہو گیا ۔ ام ایمن کے اس کہنے سے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھی رونا آیا پس وہ بھی ان کے ساتھ رونے لگے
اللھم صل وسلم علی نبینا محمد