نماز قضاء
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَنْ نَسِيَ صَلَاةٌ فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَها لَا كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ . وَأَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْرِى (أخرجه البخاري ومسلم)
(صحیح بخاری: کتاب مواقيت الصلاة، باب من نسى صلاة فليصل إذا ذكر ولا يعيد إلا تلك الصلاة) (صحیح مسلم: کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب قضاء الصلاة الفائتة واستحباب تعجيل قضائها)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اگر کوئی نماز پڑھنا بھول جائے تو جب بھی یاد آ جائے اس کو پڑھ لے۔ اس قضاء کے سوا اور کوئی کفارہ نہیں۔ اور اللہ تعالی نے فرمایا کہ (وَأَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْرِى) نماز میرے یاد آنے پر قائم کر۔
وَعَنْ أَبِي قَتَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سِرْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ لَيْلَةً، فَقَالَ بَعْضُ القَوْمِ: لَوْ عَرَّستَ بِنا يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: أَخَافُ أَنْ تَنَامُواعَنِ الصَّلَاةِ قَالَ بِلال: أنا أُوقِظُكُمْ فَاضْطَجَعُوا، وَأسْنَدَ بِلَالٌ ظَهْرَهُ إِلَى رَاحِلَتِهِ فَغَلَبَتُهُ عَيْنَاهُ فَنَامَ، فَاستيقظ النبي ﷺ وَقَدْ طَلَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ، فَقَالَ : يَا بِلالُ أينَ مَا قُلْتَ؟ قَالَ: مَا الْقِيتُ عَلَى نَوْمَةٌ مِثْلُهَا قَطُّ، قَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حِينَ شَاءَ وَرَدَّهَا عَلَيْكُمْ حِينَ شَاءَ، يَا بَلالُ قُمْ فَأَذْنَ بِالنَّاسِ بِالصَّلَاةِ، فَتَوَضَّأَ فَلَمَّا ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ وَابْيَاضْتُ قَامَ فَصَلَّى (أخرجه البخاري).
(صحیح بخاری: کتاب مواقيت الصلاة، باب الأذان بعد ذهاب الوقت.)
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم (خیبر سے لوٹ کر) نبی کریم ﷺ کے ساتھ رات میں سفر کر رہے تھے ۔ پس کسی نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ! اب آپ پڑاؤ ڈال دیتے تو بہتر ہوتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ڈر ہے کہیں نماز کے وقت بھی تم سوتے نہ رہ جاؤ۔ اس پر بلال رضی اللہ عنہ بولے کہ میں آپ سب لوگوں کو جگا دوں گا۔ چنانچہ سب لوگ لیٹ گئے۔ اور بلال رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی پیٹھ اپنی سواری سے لگالی۔ اور ان کی بھی آنکھ لگ گئی۔ تو نبی کریم ﷺ بیدار ہوئے اس حال میں کہ سورج کے اوپر کا حصہ نکل چکا تھا۔ آپ نے فرمایا: بلال! تو نے کیا کہا تھا۔ وہ بولے آج جیسی نیند مجھے کبھی نہیں آئی۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی تمہاری ارواح کو جب چاہتا ہے قبض کر لیتا ہے اور جس وقت چاہتا ہے واپس کر دیتا ہے۔ اے بلال! اٹھ اور اذان دے۔ پھر آپ ﷺ نے وضو کیا اور جب سورج بلند ہو کر روشن ہو گیا تو آپﷺ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھائی۔
وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ عُمَرَ بنِ الخَطَّابِ جَاءَ يَومَ الْخَنْدَقِ بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَجَعَلَ يَسُبُّ كُفَّارَ فَرِيشٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا كِدْتُ أَصَلَّى العَصْرَ حَتَّى كَادَتِ الشَّمْسُ تَغْرُبُ، قَالَ النَّبِيُّ وَاللَّهِ مَا صَلَّيْتُهَا . فَقُمْنَا إِلَى بَطْحَانِ وَادٍ فِي الْمَدِينَةِ فَتَوَضَّأُ لِلصَّلَاةِ وتوضأنَا لَهَا، فَصَلَّى العَصْرَ بَعدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهَا المَغرِبَ. (أخرجه البخاري)
(صحیح بخاری: کتاب مواقيت الصلاة، باب من صلى بالناس جماعة بعد ذهاب الوقت)
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے موقع پر سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور وہ کفار قریش کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ اور کہا کہ اے اللہ کے رسول الله! سورج غروب ہونے کے قریب میں نے نماز عصر پڑھی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تو پڑھی ہی نہیں ۔ پھر ہم وادی بطحان (مدینہ کی ایک وادی) میں گئے، اور آپ ﷺ نے وہاں نماز کے لئے وضو کیا، ہم نے بھی وضو بنایا ۔ اس وقت سورج ڈوب چکا تھا۔ پہلے آپ نے عصر کی نماز پڑھائی اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھائی۔
تشریح:
بھولنا انسان کی فطرت میں شامل ہے اب اگر کسی انسان کے ساتھ نیند یا نسیان کا معاملہ بغیر قصد وارادہ کے پیش آ جائے جس کی وجہ سے اس کی نماز فوت ہو جائے تو ایسے حالات میں اللہ تعالی اس سے مواخذ وہ نہیں کرے گا لیکن ایسے انسان پر واجب ہے کہ جب اسے نماز یاد آ جائے یا نیند سے بیدار ہوئے اور سارے مواقع ختم ہو جائیں تو وہ فورا نماز ادا کرے۔ اب اس کے لئے نماز کو مؤخر کرنا یا کسی دوسرے وقت میں ادا کرنا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت سے نوازے اور نمازوں کو یاد آجانے کے بعد فوراً ادا کرنے کی توفیق بخشے۔
فوائد:
٭ مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت بے شمار ہے۔
٭ جس کی نماز سہوا یا سونے کی وجہ سے چھوٹ گئی ہو تو یاد آتے ہی فورا اسے ادا کرے۔
٭ فوت شدہ نمازوں کی قضاء ترتیب سے ادا کرنا مسنون ہے۔
٭٭٭٭