دوست اور ساتھی کا بیان

ارشاد ربانی ہے: ﴿ اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىِٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ﴾ (سورہ زخرف: آیت: 67)
ترجمہ: اس دن (گہرے) دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیز گاروں کے۔
عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِي اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَثَلُ الجَلِيسِ الصالح والسُّوء كحامل المسك ونافخ الكيْرِ، فَحَامِلُ المِسْكِ إِمَّا أَن يُحْذِيَكَ وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً، وَنَافِخُ الكِيرِ إِمَّا أَن يُحْرِقُ لِيَابَكَ وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَةٌ، (متفق عليه).
(صحیح بخاري: كتاب الذبائح والصيد، باب السمك، صحيح مسلم كتاب البر والصلة والآداب، باب استحباب مجالسة الصالحين ومجانبة قرناء السوء.)
ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اچھے ساتھی اور برے ساتھی کی مثال مشک بیچنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے، مشک والا یا تو تجھے تحفہ کے طور پر کچھ دے دے گا یا تو اس سے خریدے گا یا تو اس سے اچھی خوشبو پائے گا، لیکن بھٹی پھونکنے والا یا تو تیرے کپڑے جلا دے گا یا تو تم کو بدبو ملے گی۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُر أَحَدُكُمْ مَنْ يُخالل. (أخرجه أبو داود والترمذي).
(سنن أبو داود: كتاب الأدب، باب من يؤمر أن يجالس، سنن ترمذی: ابواب الزهد عن رسول الله باب ما جاء في أحد المال بحقه وقال حسن غريب، وحسنه الألباني في صحيح سنن الترمذي: (2497)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انسان اپنے عزیز ساتھی کے دین پر ہوتا ہے تو تمہیں چاہیے کہ غور کرو کہ تم کس سے دوستی کر رہے ہو۔
تشریح:
انسان کو چاہئے کہ وہ آپس میں بھائی چارگی اور دوستی بنائے رکھیں یہی وہ چیز ہے جو انسان کو پریشانی اور مصیبت کے اوقات میں کام آتی ہے۔ دوست و احباب کے تعلق سے اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ دوست نیک ہوں اچھے کردار واخلاق کے حامل ہوں اور یہ دوستی اللہ کے لئے ہو کسی دنیاوی اغراض و مقاصد کے لئے نہ ہو کیونکہ دوست کا اثر دوسرے دوست کے اوپر پڑتا ہے اب اگر دوست اچھے ہوں گے تو اچھا مشورہ دیں گے لیکن خدا نخواستہ اگر دوست برے اخلاق اور بری خصلت کے ہیں تو وہ اپنے دوست کو برائی کی طرف لے جائیں گے ۔ چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ نے اچھے ساتھی اور دوست کے اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے اور بہترین دوست کی مثال عطر فروش سے دی ہے جس کی دوستی فائدہ سے خالی نہیں اگر آپ اس سے عطر نہیں خریں گے تو وہ آپ کو خوشبو ضرور عطا کرے گا اور برے دوست کی مثال لو ہار کی بھٹی پھونکنے والے سے دی ہے کہ وہ آپ کے کپڑے کو جلائے گا یا بد بو سے نوازے گا۔ اللہ تعالی ہمیں بہترین دوست اختیار کرنے کی توفیق دے۔
فوائد:
٭ دنیاوی اغراض و مقاصد کے لئے دوستی کرنا منع ہے۔
٭ نیک دوست اختیار کرنا چاہئے۔
٭ ایک دوست کا دوسرے دوست کے اوپر گہرا اثر ہوتا ہے۔
٭٭٭٭