بچوں سے محبت اور ان کا احترام کرنا

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَحْسَنَ النَّاسِ خُلْقًا، وَكَانَ لِي أَخٌ يُقَالُ لَهُ أبو عمير ، قَالَ : أَحْسِبُهُ فَطِيمًا، وَكَانَ إِذَا جَاءَ قَالَ: يَا أَبَا عُمَيرٍ مَا فَعَلَ النَّغَيْرُ (متفق عليه).
)صحیح بخاري كتاب الأدب، باب الكنية للصبى وقبل أن يولد الرجل، صحيح مسلم: كتاب الآداب، باب جواز كنية من لم يولد، وكنية الصغير)
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے حسن اخلاق میں سب لوگوں سے بڑھ کر تھے، میرا ایک بھائی ابو عمیر نامی تھا۔ میرا خیال ہے کہ وہ دودھ پینا چھوڑ چکا تھا اور تھوڑی بہت اس میں شدید آگئی تھی) ۔ آپ ﷺ جب تشریف لاتے تو اس سے مزاحاً فرماتے ’’يا أبا عمير ما فعل النغير‘‘ اے ابو میر غیر نے کیا کیا ؟ (بغیر چھوٹی چڑیا کو کہتے ہیں)۔
وَعَنْ بُرَيْدَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَأَقْبَلَ الحسن والحسينُ، عَلَيْهِمَا قَمِيصَانِ أَحْمَرَانِ، يَعْثَرَانِ وَيَقُومَانِ، فَنَزَلَ فَأَخَذَهُمَا فَصَعِد بهما المنبر ثُمَّ قَالَ: صدق اللَّهُ: وَإِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُم فِتْنَةٌ ، رَأيتُ هَذَيْنِ فَلَمْ أَصْبر، ثم أخذ في الخطبة، (أخرجه أبو داود).
(سنن ابو داود: كتاب الصلاة، باب الإمام يقطع الخطبة للعمد يحدث، وصححه الألباني في صحيح من أبي داود (1109)
بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ حسن اور حسین گرتے پڑتے آئے انہوں نے سرخ قمیص پہنی ہوئی تھی۔ آپ نیچے اترے اور دونوں کو لے کر منبر پر چڑھ گئے۔ پھر ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے سچ فرمایا: ﴿اِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ﴾ (سورة تغابن، آیت:15)
کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں۔
میں نے ان دونوں کو دیکھا تو صبر نہ کر سکا۔ پھر آپ نے خطبہ دینا شروع کر دیا۔
وَعَن سهل بن سعدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَتِي بشراب فَشَرِبَ مِنهُ، عَنْ يَمِينِهِ غُلامٌ وَعَنْ يَسَارِهِ الْأَشْيَاحُ فَقَالَ لِلغُلَامِ: أَتَاذَنَ لِي أَنْ أَعْطِىَ هٰؤُلَاءِ؟ فَقَالَ الغُلامُ : وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَا أُوثِرُ بِنَصِيْبِيْ مِنْكَ أَحَدًا، قَالَ : قَتَلَّهُ رَسُولُ اللَّهِ فِي يَدِهِ (متفق عليه).
(صحیح بخاری: کتاب المظالم، باب إذا أذن له أو أحله ولم يبين كم هو، صحيح مسلم: كتاب الأثرية، باب استحباب إدارة الماء واللبن ونحوهما عن يمين المبتدئ)
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شربت پیش کیا گیا آپ ﷺ نے اس میں سے پیا، آپ کے دائیں طرف ایک لڑکا بیٹھا ہوا تھا اور بائیں طرف بوڑھے لوگ تھے۔ آپ ﷺ نے بچے سے کہا کیا تم اجازت دو گے کہ میں ان بوڑھے لوگوں کو پہلے دے دوں ۔ لڑکے نے کہا اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول ! آپ کے جھوٹے کا جو حصہ مجھے مل رہا ہے وہ میں کسی اور کو ہرگز نہ دوں گا۔ راوی کا بیان ہے کہ آپ ﷺ نے لڑکے کے ہاتھ میں پیالہ تھما دیا۔
تشریح:
آپ ﷺ کی ذات وصفات اور سیرت و اخلاق بچوں کی تربیت کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ آپ کا معاملہ بچوں کے ساتھ بہت ہی اچھا ہوتا تھا۔ لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ بھی اپنے بچوں کے ساتھ اسی طرح پیش آئیں جس طرح رسول اکرم صحابہ کرام کے بچوں کے ساتھ پیش آتے تھے۔ آپ بچوں سے بہت زیادہ پیار کرتے ، ان کے ساتھ کھیلتے ، ان سے ہنسی مذاق کرتے ، ان پر شفقت کرتے اور ان سے محبت کرتے تھے اور ان سے بھی ناراض نہیں ہوتے تھے اور انہیں کسی چیز سے محروم نہیں رکھتے تھے چنانچہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ جب آپ ﷺ کے نواسے حسن و حسین رضی اللہ عنہما آئے تو آپ نے اپنی باتوں کو ختم کر کے فورا انہیں شفقت و محبت کی وجہ سے اٹھالیا آپ کا یہ اخلاق ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ ہم بھی اپنے بچوں کے ساتھ کھیلیں ، ان سے ہنسی مذاق کریں اور ان سے محبت کا اظہار کریں اگر بچے کسی چیز کے حقدار ہیں تو محض انہیں بچے ہونے کی وجہ سے محروم کرنا اور بڑوں کو عطا کرنا جائز نہیں نیز انہیں ناراض بھی نہ ہونے دیں۔ اللہ تعالی ہمیں بچوں کے ساتھ محبت و شفقت کے ساتھ پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ بزرگوں کا بچوں کے ساتھ جنسی مذاق کرنا ان کے خوشی کا باعث ہے۔
٭ مجلس میں بچوں سے شفقت و محبت کا اظہار کرنا جائز ہے۔
٭ بچوں کا احترام ضروری ہے۔
٭ بچے اگر کسی چیز کے حقدار ہیں تو بڑوں کو ان پر ترجیح نہیں دی جائے گی۔
*****