بچوں کے ساتھ عدل و انصاف کرنا
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ﴿إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ﴾ (سورہ نحل، آیت: 90)
ترجمہ: اللہ تعالی عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔
عَنِ النُّعْمَانِ بن بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: تَصَدَّقَ عَلَى أَبِي بِبَعْضٍ مَالِهِ، فَقالت أمي عمرة بنت رواحة: لا أرضى حَتَّى تُشْهدَ رَسُولَ اللهِ ﷺ. فانطلق أبي إلى التي ليُشهده على صَدَقَتِي، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أفعلت هذا بِوَلَدِكَ كُلِّهِمْ ؟ قَالَ : لا ، قَالَ: اتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا فِي أَوْلَادِكُم. فَرَجَعَ أَبِي فَرَدَّ تِلْكَ الصَّدَقَة (متفق عليه) .
وَفِي رَاوَيَةِ : إِنِّي لَا أَشْهَدُ عَلَى جُورٍ، وَفِي رِوَايَةٍ قَالَ: أَيَسُرُّكَ أَن يَّكُونَوا إِلَيكَ فِي البِرِّ سَوَاء؟ قَالَ: بَلَى، فَلاَ إِذًا۔
(صحیح بخاری: كتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها، باب الاشهاد في الهبة، صحيح مسلم: كتاب الهبات، باب كراهة تفضيل بعض الأولاد في الهبة.)
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میرے والد نے اپنے مال میں سے میرے اوپر کچھ صدقہ (صہ) کیا تو میری ماں (عمرہ بنت رواحہ) نے کہا میں اس پر راضی نہیں ہوں یہاں تک کہ اللہ کے رسول نے اس پر گواہ ہو جا ئیں تو میرے والد نبی ﷺ کے پاس گئے تاکہ آپ میں میرے صدقے پر گواہ ہو جائیں تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے اپنے سارے لڑکوں کے لئے ایسا ہی کیا ہے، تو کہا نہیں، تو آپ ﷺ نے کہا اللہ سے ڈرو اور اولاد کے مابین عدل رکھو، میرے والد گھر لوٹے اور صدقہ لوٹا دیا۔ ایک روایت کے اندر ہے کہ میں ظلم پر گواہی نہیں دیتا ہوں۔ ایک دوسری روایت کے اندر ہے کہ کیا تم اس سے خوش ہو گے کہ تمہاری ساری اولاد تم سے اچھا سلوک کرے تو کہا: ہاں ، تو آپ ﷺ نے فرمایا: پھر ایسا مت کرو یعنی ایک کو دو دوسرے کو محروم کر دو۔
تشریح:
اسلام میں عدل و انصاف کا مقام بہت ہی بلند ہے اور یہ زندگی کے تمام شعبوں میں ہونا چاہئے ، اس کا تعلق خواہ اولاد سے ہو یا بیویوں سے مزدورں سے ہو یا مالکوں سے، بچوں سے ہو یا بڑوں سے ۔ چنانچہ جب رسول اکرم اے کے پاس بشیر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور نعمان کو دیئے ہوئے مال پر اللہ کے رسول ﷺ کو گواہ بنانا چاہا تو آپ ے نے پوچھا کیا تم نے اپنی تمام اولاد کو دیا ہے؟ تو انہوں نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے گواہی دینے سے انکار کر دیا۔ اور حکم دیا کہ تم اپنے بچوں کے ساتھ عدل و انصاف سے کام لو تمام اولاد کو برابر حصہ دو کسی کو کم اور کسی کو زیادہ نہ دو۔ سلف صالحین بھی اپنی اولاد کے درمیان عدل وانصاف کو پسند کرتے تھے یہاں تک کہ بوسہ دینے میں بھی سب کو برابر کا شریک رکھتے تھے۔ چونکہ اولاد کے درمیان عدل و انصاف کا نہ پایا جانا یا ہویوں کے در میان عدل کا نہ ہوتا یا ور کروں اور مزدوروں کے ساتھ عدل نہ کرنا ایسے امور ہیں جن کا انجام دنیا آپسی رنجش بغض و حسد اور دشمنی ہوتا ہے اور آخرت میں بڑا عذاب۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ دو اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف کریں کسی کو کسی پر ترجیح نہ دیں ۔ اللہ تعالی ہمیں اپنی اولاد اور اپنی رعایا کے ساتھ عدل و انصاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ ہر چیز میں عدل و انصاف ضروری ہے۔
٭ کسی چیز کو دینے کی صورت میں بعض اولا د کو بعض پر ترجیح دینا حرام ہے۔
٭٭٭٭