شب براءت کی حقیقت و فضیلت

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ؕ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ۙ۬ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً كَمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةً ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ﴾ (سورة توبه، آیت: 36)
ترجمہ: مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے اسی دن سے جب آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت وادب کے ہیں، یہی درست دین ہے تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ تعالی متقیوں کے ساتھ ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ : كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَصُومُ حَتّٰى نَقُوْلُ لا يُفْطِرُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى تَقُولُ لَا يَصُومُ، وَمَا رَأَيْتُ النَّبِيِّ ﷺ استكمل صِيَامَ شَهْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ، وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ- (أخرجه البخاري).
(صحيح بخاري: كتاب الصوم، باب صوم شعبان)
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب روز و رکھنے لگتے تھے تو ہم کہتے تھے کہ اب افطار نہیں کریں گے اور جب روزه رکھنا چھوڑ دیتے تھے تو ہم کہتے تھے کہ اب روزہ نہیں رکھیں گے اور میں نے نہیں دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے علاوہ کسی مہینہ میں مکمل ایک ماہ کا روز ورکھا ہو، اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ رمضان کے بعد شعبان مہینہ سے زیادہ کسی اور مہینہ میں روزہ رکھتے ہوں۔
عَنْ أَمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ النَّبِيِّ ﷺ يَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَابِعَيْنِ إِلَّا شَعْبَانَ وَرَمَضَانَ (اخرجه الترمذي).
(سنن الترمذي، أبواب الصوم، باب ما جاء في وصال شعبان برمضان، وقال حديث حسن، وصححه الألباني في صحيح سنن ابن ماجه (1648)
ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو شعبان اور رمضان کے علاوہ کسی اور دو مہینے میں مسلسل روزه ر کھتے ہوئے نہیں دیکھا۔
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ النَّبِيِّ الله فِي شَهْرٍ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ، كَانَ يَصُومُهُ إِلَّا قَلِيلاً بَلْ كَانَ يَصُومُهُ كُلَّهُ (أخرجه الترمذي).
(سنن الترمذي، أبواب الصوم، باب ما جاء في وصال شعبان برمضان، وقال حديث حسن، وصححه الألباني في صحيح سنن ابن ماجه (1648).
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کو نہیں دیکھا کہ شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں روزہ رکھتے ہوں ، چند دن چھوڑ کر پورے ماه روزہ رکھتے تھے۔
تشریح:
اللہ تعالی نے ابتداء آفرینش سے ہی مہینوں کی تعداد بارہ مقرر کر رکھی ہے جن میں چار مہینے حرمت کے ہیں اور وہ مہینے ذو القعدہ ، ذو الحجہ محرم اور رجب کے ہیں۔ تین مہینے پے در پے اور ایک مہینہ فاصلہ کے ساتھ ، ان مہینوں میں قتال وجدال ممنوع ہے۔ شعبان میں آپ ﷺ کثرت سے روزو رکھا کرتے تھے ایسا لگتا تھا کہ آپ افطار ہی نہیں کریں گے۔ اس مہینے کی فضیلت حدیث میں آئی ہوئی ہے۔ لیکن آج کے دور میں دیکھا ہے۔ جاتا ہے کہ لوگ اس مہینے کی پندرہویں تاریخ یا نصف شعبان کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ اس کے سامنے رمضان کی راتیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ اور اس کی فضیات اور مقام و مرتبہ طرح کی روایتیں پیش کرتے ہیں جو یقینًا کسی نہ کسی ناحیے سے ضعیف و مرسل دمتروک ہیں۔ ان حدیثوں کا اعتبار نہیں کیا جائے گا بلکہ جو رسول اللہ ﷺ اللہ سے ثابت ہیں اس پر عمل کیا جائے گا۔
اس مہینے کی پندرہویں رات جسے ہم شب براءت کا نام دیتے ہیں اس میں طرح طرح کے خرافات کئے جاتے ہیں، حلوہ اور بریانی پکائی جاتی ہیں مجلسیں منعقد ہوتی ہیں، نمازوں کا اہتمام ہوتا ہے، مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں، چراغاں کئے جاتے ہیں، آتش بازی، پٹاخے اور بارود کی بارش ہوتی ہے اور بڑے ہی اہتمام اور تیاری کے ساتھ قبرستان کی زیارت کی جاتی ہے نیز یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ سال میں یہی ایک ایسی رات ہے جس میں ہمارے آباء واجداد کی روحیں میں ہمارے گھر واپس آتی ہیں اس لئے ان کے اہتمام میں یہ ساری چیزیں کی جاتی ہیں۔ جبکہ یہ بات محقق ہے کہ جب انسان اس دنیا سے چلا جاتا ہے ہے تو وہ عالم برزخ میں ہوتا ہے اب اس کا دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں رہ جاتا ہے۔ اور دنیا کی کوئی چیز اسے فائدہ نہیں پہنچا سکتی ہے سوائے تین چیزوں کے جن کی تفصیل اللہ کے رسول ﷺ نے بیان فرمائی ہے کہ ایک صدقہ جاریہ دوسرے نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے اور تیسرے علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس کے علاوہ دنیا کی کوئی بھی چیز چاہے وہ مٹھائی، بریانی، چراغاں وغیرہ کسی بھی شکل میں ہو اس کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ اللہ تعالی ہمیں بدعات وخرافات سے محفوظ رکھے۔
فوائد:
٭ ماہ شعبان کے ابتدائی حصہ میں کثرت سے روزہ رکھنا مسنون ہے۔
٭ شعبان کی پندرہویں شب میں حلوہ پراٹھا اور بریانی وغیرہ دینا شرعا ناجائز ہے۔
٭ خاص کر شعبان کی پندرہویں رات میں قبرستان کی زیارت کرنا بدعت ہے۔
٭٭٭٭