جمائی کے آداب
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ : إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ العُطَاسَ وَيَكْرَهُ التَّثَاؤُبَ، فَإِذَا عَطِسَ فَحَمِدَ اللهَ فَحَق عَلَى كُلِّ مُسلِم سمعه أن يُشِمِتَهُ، وَأَمَّا التثَاؤُبُ فَإِنَّمَا هُوَ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَلْيَرُدَّهُ مَا اسْتَطَاع فَإِذَا قَالَ هَاءَ ضَحِكَ مِنْهُ الشَّيْطَانُ. (أخرجه البخاري)
(صحيح بخاري كتاب الأدب، باب ما يستحب من العطاس وما يكره من التثاؤب).
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند کرتا ہے۔ اس لئے جب تم میں سے کوئی شخص چھینکے اور ’’الحمد لله‘‘ کہے تو ہر مسلمان پر جو اسے سے حق ہے کہ اس کا جواب ’’یرحمک الله‘‘ سے دے۔ جمائی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے اس لئے جہاں تک ہو سکے اسے رو کے کیونکہ جب تم میں سے کوئی جمائی لیتا ہے تو شیطان اس پر ہنستا ہے۔
عن أبي سَعِيدٍ الخُدْرِي رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : إِذا تثاؤب أحدكم فَلْيُمْسِكَ بَيْدِهِ عَلَى فِيهِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ (أخرجه مسلم).
(صحیح مسلم: کتاب الزهد والرقائق، باب تشميت العاطس وكراهة التثاؤب)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی جمائی لے تو اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لے اس لئے کہ جب منہ کھولتا ہے تو شیطان داخل ہوتا ہے۔
تشریح:
جمائی سستی و کاہلی اور طبیعت کے بوجھل ہونے کی علامت ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے اور یہ عام طور پر شیطان کی طرف سے ہوتی ہے پس مسلمان کو چاہئے کہ جمائی آنے ہی نہ دے یا اگر آرہی ہے تو جمائی کے وقت اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لے اور بار ہاء کی آواز نہ نکالے کیونکہ شیطان اس سے داخل ہو جاتا ہے چنانچہ رسول اکرم ہے۔ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو چاہئے کہ وہ اپنا منہ بندر کے بلا شبہ شیطان داخل ہو جاتا ہے نیز فرمایا کہ اگر جمائی نماز کی حالت میں آئے تو حتی الامکان منہ بند رکھنے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالی سستی و کاہلی سے بچائے۔
فوائد:
٭ جمائی بھاری پن اور ستی کی علامت ہے۔
٭ جمائی کو روکنا اور اسے پی جانا مستحب ہے۔
٭ جمائی کے وقت ہاتھ کو منہ پر رکھنا مستحب ہے۔
٭ جمائی کے وقت آواز بلند کرنا مکروہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو جمائی ناپسند ہے۔
٭٭٭٭٭