شب قدر کی فضیلت
الحمد لله غافر الذنب وقابل التوب، شديد العقاب ذي الطول، لا إله إلا هو، إليه المصير، أحمده سبحانه وأشكره على نواله الكثير… وأستغفره وأتوب إليه من كل خطأ كبير وصغير، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له المطلع على مكنون الضمير، وأشهد أن سيدنا محمداً عبده ورسوله السراج المنير، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه أهل الخير والتشمير.
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جو گناہ بخشنے والا تو یہ قبول کرنے والا سخت سزا دینے والا اور بڑا فضل کرنے والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے، میں اس کے بے شمار فضل و احسان پر حمد و شکر ادا کرتا اور ہر چھوٹے بڑے گناہ سے بخشش چاہتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں اور وہ دل کی پوشیدہ باتوں سے بھی باخبر ہے۔ اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ جنہیں اس نے ’’سراج منیر‘‘ بنا کر دنیا میں مبعوث فرمایا۔ اے اللہ تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
اللہ کے بندو! اللہ سے ظاہر اور پوشیدہ ہر حال میں ڈرو اور اس عظیم احسان پر اس کا شکر ادا کرو جو اس نے ماہ مبارک کے صیام و قیام کی توفیق دے کر تم پر فرمایا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے۔ جسے دیگر مہینوں پر فضیات و بزرگی عطا کی ہے۔ اور اس کے آخری عشرہ کو سب سے افضل قرار دیا ہے۔ اس آخری عشرہ میں ایک ایسی رات رکھی ہے۔ جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اور اس ایک رات کی عبادت دیگر ہزار مینوں کی عبادت سے فزوں تر ہے۔ یہ وہ رات ہے۔ جسے اللہ رب العالمین نے عظمت و فضیلت بخشی ہے۔ اس میں اس نے افضل ذکر قرآن مجید نازل فرمایا جو لوگوں کا رہنما ہے، جس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں۔ اور جو حق و باطل کو الگ الگ کرنے والا ہے۔
لهذا سعید و نیک بخت وہی ہے۔ جس نے ان دنوں اور راتوں کوغنیمت جاننا ان کی قدر و منزلت پہچانی اور ان کے حق ادا کئے اپنے روزے لغو اور بے ہودہ باتوں سے محفوظ رکھے ان مبارک اوقات کو صدقہ و خیرات احسان و بھلائی تلاوت قرآن توبہ واستغفار اور ذکر الہی کے لئے غنیمت سمجھا۔ خشوع اور انابت کے ساتھ اس کی شب بیداری کی اور خالص اللہ کے لئے عمل کیا کیونکہ اخلاص ہی قبولیت عمل کی بنیاد ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم کے اندر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(قال الله تبارك وتعالى: أنا أغنى الشركاء عن الشرك، من عمل عملا أشرك فيهِ مَعِي غيري تركته وشركه) [صحیح مسلم، کتاب التربد باب تحريم الرياء (2985)]
’’اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔ کہ میں شرک سے تمام شریکوں میں سب سے زیادہ بے نیاز ہوں، جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں میرے علاوہ کسی اور کو بھی شریک بنایا تو میں اس کو اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘
نیز مسند احمد میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(ألا أخبركم بما هو أخوف عليكم عندي من المسيح الدجال؟ قال قلنا: بلى، فقال: الشرك الخفي، ان يقوم الرجل يصلي فيزين صلاته لما يرى من نظر رجل)[سنن ابن ماجہ: کتاب الزھد، باب الریاء (3203) علامہ البانی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ دیکھئے: صحیح سنن ابن ماجه حواله مذکور]
’’کیا میں تمہیں اس چیز کی خبر نہ دے دوں جس کا مجھے مسیح دجال سے بھی زیادہ تم پر خوف ہے؟ صحابہ نے کہا: ہاں اے اللہ کے رسول! آپ ضرور فرمائیں، آپ نے فرمایا: وہ شرک خفی ہے۔ (جس کی صورت یہ ہے۔ کہ) آدمی نماز کے لئے کھڑا ہو تو وہ اس لئے اپنی نمازا چھی طرح سے پڑھے کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘
لہٰذا! اخلاص عمل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حسن اتباع اور آپ کی سیرت و ہدایت کی سچی پیروی کے حریص بنو آپ کی عادت مبارک یہ تھی کہ ان مبارک راتوں میں زیادہ سے زیادہ عمل کرتے رمضان کے پہلے دونوں عشروں میں تو آپ نماز بھی ادا فرماتے اور سوتے بھی تھے لیکن جب آخری عشرہ ہوتا تو کامل طور پر مستعد ہو جاتے اہل خانہ کو بیدار کرتے شب قدر کی تلاش میں شب بیداری فرماتے اور جائے اعتکاف لازم پکڑے رہتے کیونکہ شب قدر وہ مقدس رات ہے۔ جس میں ہر امر حکیم کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اور اس سال ہونے والے تمام امور کی بحکم الھی تقدیر مرتب ہوتی ہے، جس نے اس بابرکت رات کو ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے شب بیداری کی اس کے گذشتہ سارے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ اور جس نے اس میں کو تاہی کی اور اس خیر سے اپنے آپ کو محروم رکھا وہ خیر کثیر سے محروم رہا۔ اس رات کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے۔ کہ جس شخص کی اس مبارک مہینہ میں بالخصوص اس کے آخری عشرہ میں مغفرت نہ ہوئی ہو شب قدر میں اس کی بھی بخشش ہو جاتی ہے۔
اللہ کے بندو! اس لئے اس مقدس رات کے اندر احسان و بھلائی توبہ و استغفار کثرت نماز وطواف وغیرہ کے ذریعہ خوب خوب اللہ کی عبادت کرو اور اس سے جنت کے سوال اور جہنم سے پناہ کے لئے بالخصوص قبولیت کے اوقات مثلاً بحالت سجدہ یا بوقت سحر بکثرت دعا مانگو۔ شب قدر ویسے تو آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہے۔ لیکن ستائیسویں شب کے ہونے کی زیادہ امید ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! اگر شب قدر مجھے مل جائے تو میں اس میں کیا دعا کروں؟ آپ نے فرمایا: یوں کہو:
(اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ، تحب العفو، فاعف عني) [مسند احمد: 1/2 (25439) و سنن ابن ماجه، کتاب الدعاء، باب الدعاء بالعفو (3850)]
’’اے اللہ! تو بے پناہ در گذر کرنے والا ہے، عفو و در گذر پسند کرتا ہے۔ لہٰذا مجھے در گذر فرما‘‘
اس دعائے نبوی کا بکثرت ورد کرو تاکہ اللہ تعالی تمہیں در گذر فرمادے گناہ بخش دے اور جہنم سے آزاد کر دے۔ ساتھ ہی اس مقدس رات میں خوب خوب عمل صالح احسان وصلہ رحمی اور فقیروں اور محتاجوں پر شفقت و مہربانی کرو:
﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ﴾ (ھود: 114)
’’یقینا نیکیاں گناہوں کو دور کر دیتی ہیں۔‘‘
اللہ کے بندو! اس مبارک مہینہ کا اکثر حصہ گذر چکا ہے۔ صرف چند دن باقی رہ گئے ہیں۔ لہٰذا اپنے نفس کا جائزہ لو اور جو چوک ہو گئی ہے۔ اس کی تلافی کرو، جس نے اس مہینہ کو بحسن و خوبی گذارا ہے۔ وہ اسی انداز پر قائم رہ کر باقی ماند و ایام پورے کرے اور جس نے غفلت و کوتاہی کی ہے اس کے لئے ضروری ہے۔ کہ توبہ و استغفار کرے اور ان آخری ایام کو صحیح ڈھنگ سے گزارے کیونکہ اعمال کا دار ومدار خاتمہ پر ہے۔
مسلمانو! رمضان کا مہینہ اب رخصت ہو رہا ہے۔ لیکن سوچو تو سہی! کیا اس مہینہ میں تم نے اللہ کا تقویٰ اختیار کیا؟ اس کے حقوق ادا کئے؟ کیا اس مہینہ کے اندر تمہارے دل کو روزہ و شب بیداری کے ذریعہ کچھ جلا ملی؟ کیا تمہارے دل میں یتیموں اور مسکینوں کے لئے کچھ شفقت و ہمدردی پیدا ہوئی؟ کیا ظلم کرنے والے کو تم نے معاف کر دیا؟ بدسلوکی سے پیش آنے والے کو در گذر کر دیا؟ کیا گالی گلوچ اور جھوٹ سے اپنی زبان کو محفوظ رکھا؟ بغض و حسد اور غیبت و چغلخوری سے خود کو پاک و صاف کیا؟ کیا لہو و لعب اور گانے اور موسیقی سے دور رہے؟ قرآن کریم سن کر محفوظ ہوئے؟ کیا موسیقی خانوں، رقص و سرور کی محفلوں اور فسق و فجور کی جگہوں سے کنارہ کشی اختیار کی؟ اور مسجد میں حاضر ہو کر رکوع و سجود کئے؟
لوگو! بھلا وہ شخص رمضان المبارک کو کیسے الوداع کرتا ہے۔ جس نے اس مینہ کے اندر بھی بداعمالیاں کی ہیں۔ اور اس کے گرانقدر لیل و نہار سے نفع اندوز نہیں ہوا ہے؟ کاش! یہ معلوم ہوتا کہ کس کا روزہ قبول ہوا ہے۔ تاکہ ہم اس کو مبارکباد پیش کرتے اور کسی کا قبول نہیں ہوا ہے۔ تاکہ اس کی تعزیت کرتے۔ یااللہ! ہم پر اپنے فضل و رحمت کی بارش برسا اپنے عفو و کرم سے ہمیں معاف فرما اور ہمارے ساتھ شفقت واحسان کا سلوک کر۔
مولی گناہوں نے ہمیں گونگا بنا دیا ہے، عیوب نے تیرے سامنے شرمندہ کر دیا ہے، ہم تیری رحمت اور تیرے فضل و کرم سے پوری امید لے کر کہتے ہیں، ہمیں معاف فرمادے اور ہمارے ساتھ مہربانی کا یہی معاملہ کر:
﴿قَالَ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ ؕ یَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ ؗ وَ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ۹۲﴾ (یوسف: 92)
’’آج کے دن تمہارے اوپر کوئی عتاب نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ بہت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم ﴿اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِۚۖ۱ وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ۲ لَیْلَةُ الْقَدْرِ ۙ۬ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ۳ تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ ۚ مِنْ كُلِّ اَمْرٍۙۛ۴ سَلٰمٌ ۛ۫ هِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ۠۵﴾ (سورة القدر)
’’ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں روح الامین اور فرشتے ہر کام کے لئے اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں۔ یہ رات طلوع صبح تک سلامتی ہے۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن العظيم، ويهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه، إنه هو الغفور الرحيم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔