اسلامی شریعت ہی امن و سلامتی کی ضامن ہے

الحمد لله الذي من علينا بالإسلام ورضيه لنا دينا، وكتب العزة والكرامة والنصر لمن تمسك به، وجعل الذلة والصغار على من خالف أمره وحاد عن نهجه، أحمده سبحانه وأشكره على سوابغ نعمه. وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن سيدنا محمدا عبده ورسوله المصطفى، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه:
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں مذہب اسلام کی نعمت سے نواز اور اسے بطور دین ہمارے لئے پسند فرمایا اس دین کی پیروی کرنے والے کو عزت و سر بلندی اور فضیلت و برتری عطا کی اور نافرمانوں پر ذلت ورسوائی مسلط کی میں اللہ کی بے پایاں نعمتوں پر اس کی حمد اور شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اوہ وحدہ لا شریک ہے اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد – صلی اللہ علیہ وسلم۔ اس کے برگزیدہ بندے اور رسول ہیں۔ صلى الله عليه وعلى آله وصحبه وسلم – اما بعد!
مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو صراط مستقیم اور دین قیم کا اتباع کرو اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو قرآن مجید میں اللہ کی رسی ہے اور قرآن مجید کے احکام و اوامر کی بجا آوری منہیات سے اجتناب اور اس کے اخلاق و آداب کو اپنا لینا یہی اس رسی کو مضبوطی سے تھامنا ہے۔ اسلام ہی وہ دین ہے جو قوموں کی ترقی کا سب سے اہم ذریعہ اور ان کے کلمئہ اتحاد کی بنیاد ہے اس کا مقدس مقصد یہ ہے کہ اللہ رب العالمین کو ایک مانا جائے اس سے لو لگائی جائے اور خالص اسی کے لئے عبادات واعمال انجام دیئے جائیں۔ دین ہی کے اصول و مبادی پر امت اسلامیہ کو متحد کیا جائے اور امت کے افراد باہمدگر ہر اس کام میں ایک دوسرے کے ممد و معاون ہوں جس سے دین کو غلبہ واعزاز حاصل ہو اور عقلی، فکری اور مادی ہر ممکن طریقہ سے اسلام اور اہل اسلام سے باطل حملوں کو روکا جاسکے اللہ عزو جل کا ارشاد ہے:
﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبَرِّ وَالتَّقْوٰى﴾ (المائده:2)
’’نیکی اور پر ہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو۔‘‘
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إن المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا) [صحیح بخاری، كتاب الصلاة باب تشبيك الأصابع في المسجد (481) صحیح مسلم، کتاب البر، باب تراحم المومنین (2585)]
’’ایک مومن دوسرے مومن کے لئے عمارت کی مانند ہے جس کا بعض بعض کو تقویت دیتا ہے۔‘‘
اسلام ایک عالمگیر دین ہے اس کے سوا کوئی بھی دین کائنات کو راس نہیں آسکتا دین اسلام کو اپنا کر اور اس کی تعلیمات کو زندگی میں جاری وساری کر کے ہی بندوں کے امور و معالات درست ہو سکتے اور ان کے مصالح پورے ہو سکتے ہیں یہ دین اعتقادی گروہ بندی، علاقائی تعصب اور جاہلی حمیت سے پاک و صاف ہے اور سارے انسانوں کو مساوات کی نگاہ سے دیکھتا ہے کسی قوم کو دوسری قوم پر ترجیح دیتا ہے نہ کسی کو کسی پر کوئی فوقیت عطا کرتا ہے بلکہ تقوی کو معیار برتری و فضیلت قرار دیتا ہے:
﴿إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمْ﴾ (الحجرات:13)
’’اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘
ساتھ ہی اس نے باہم متعارف ہونے اور تعلقات استوار رکھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا:
[يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّأُنثٰى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا﴾ (الحجرات: 13)
’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قو میں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔‘‘
چنانچہ اسی تعارف و تعلقات کے نتیجہ میں بندوں کے مصالح ایک دوسرے سے قریب ہوتے ہیں ان کے مقصد میں اتحاد پیدا ہوتا ہے۔ منفعت کے مواقع ملتے ہیں اور پورے عالم اسلام کے مسلمان ایک قوت بن کر امر بالمعروف اور نہی عن المعر کا فریضہ انجام دیتے ہیں ان کا طاقتور اپنے ضعیف کا خیال رکھتا ہے، غنی فقیر کی خبر گیری کرتا ہے اور صحت مند مریض کی مزاج پرسی کرتا ہے اور اس طرح سے ان کا اتحاد باہمی مستحکم ہو جاتا ہے، شان و شوکت بڑھ جاتی ہے ان کی حکومت و سلطنت مضبوط ہوتی اور انہیں سربراہی حاصل ہوتی ہے لوگوں کے ولوں میں ان کا رعب ودبدبہ پیدا ہوتا ہے ان کے اپنے حقوق محفوظ ہوتے ہیں اور دیگر قوموں پر ان کی فضیلت و برتری ثابت ہوتی ہے۔
لیکن یہ سب کچھ اسی وقت حاصل ہو گا جب وہ اپنے رب کی کتاب قرآن مجید اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو اپنائیں اور شریعت مطہرہ کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں نافذ کریں۔
بندگان الهی! کوئی قوم تہذیب و تمدن کے معاملہ میں خواہ کتنا بھی ترقی کرلے، تنظیم و اجتماعیت میں خواہ کتنا بھی بلند ہو جائے اور اقتصادی معاشرتی اور اخلاقی میدان میں خواہ کتنا بھی آگے نکل جائے مگر عدل و مساوات تعاطف و تراحم، ظلم پر پابندی کمزوروں کے حقوق کی محافظت اور امن و شانتی اور اطمینان و سکون کے حصول میں اس وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب اللہ حکیم و خبیر کی نازل کردہ شریعت اور اس کی تعلیمات کو اپنالے اور اپنی زندگی میں اسے نافذ کرلے کیونکہ انسان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور وہ اس کی فطرت و جہالت سے باخبر اور اس کے فکر و مزاج سے بخوبی واقف ہے اور اس کے مطابق اس نے ایسی تعلیمات نازل فرمائیں جو انسان کے فکر و مزاج سے ہم آہنگ اور اس کے ذہن و دماغ کو اپیل کرنے والی ہوں:
﴿اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ﴾ (الملك: 14)
’’کیا جس نے پیدا کیا وہ بے خبر ہے ؟ وہ تو پوشیدہ باتوں کو جاننے والا اور ہر چیز سے آگاہ ہے۔‘‘
کسی فرد بشر کے بس کی بات نہیں کہ وہ انسان کے نفوس کا جائزو لے کر ان کے مطابق دستور و نظام بنائے اور ان پر نافذ کرے یہ صرف اور صرف اللہ وحدہ کا حق ہے جو ہر چیز سے بخوبی واقف ہے۔
﴿وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْر﴾ (فاطر: 14)
’’اللہ خبیر کے خبر دینے کی طرح تم کو کوئی خبر نہیں دے گا۔‘‘
اسی مقصد کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تاکہ بندوں کو مخلوق کی عبادت سے نکال کر ایک اللہ کی عبادت کی طرف لائیں اور اس کو معبود و پروردگار تسلیم کرائیں لوگوں کو غلامی سے آزادی بخشیں، ظلم کے خندق سے عدل کی شاہراہ پر لائیں اور شقاوت و بد بختی سے نکال کر سعادت و کامرانی کی منزل عطا کریں۔
اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید نازل فرمایا جو کام ہدایت و رحمت اور بیماری دل کے لئے شفا ہے اور زندگی کے ہر شعبہ اور ہر معاملہ میں صحیح راستہ کی رہنمائی کرتا ہے لوگ خواہ وہ حاکم ہوں یا محکوم اگر اپنے عقیدہ اور دین و اخلاق میں اس کتاب مقدس کی تعلیمات کو اپنائیں اور اپنی زندگی میں نافذ کریں تو اس کے نتیجہ میں وہ امن و سکون خوش عیشی
اور ابدی سعادت حاصل ہو گی جو ہر فرد بشر کے لئے محبوب و مطلوب ہے۔ قرآنی تعلیمات کے مطابق اگر مجرم پر حد شرعی نافذ کی جانے لگے تو اس کے نتیجہ میں معاشرہ کے اندر جرائم کی تعداد کم ہو جائے گی اور ظالم و باغی، مفسد اور غلط قسم کے لوگوں کے حوصلے پست ہو جائیں گے، جیسا کہ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:
﴿وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ (البقره: 179)
’’اے اہل عقل ا قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے کہ تم ( قتل و خونریزی سے) بچو۔‘‘
چنانچہ قتل کا ارادہ رکھنے والا اگر یہ سمجھ لے کہ قتل کی پاداش میں قصاصاً اسے بھی قتل کر دیا جائے گا تو خود اپنے نفس کو قتل سے بچانے کے لئے وہ دوسرے کو قتل کرنے سے باز آجائے گا بشرطیکہ اس کے ہوش و حواس درست ہوں۔ ایک چور اگر جان لے کہ چوری کے جرم میں اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا تو اپنے ہاتھ کو بچانے کے لئے وہ چوری سے رک جائے گا۔ ایک زانی کو اگر یہ ڈر ہو کہ زنا کرنے پر اس کے اوپر حد شرعی نافذ ہو گی اور حسب اختلاف اسے سنگسار کر دیا جائے گا یا سو (100) کوڑے لگائے جائیں گے تو اس حرکت بد سے وہ یقینًا توبہ کرلے گا۔ ایک شراب نوش کو اگر حد جاری ہونے کا یقین ہو جائے تو اس گندی دنا پاک شئے کے کبھی قریب بھی نہ جائے کہ جس کا گناہ اس کے فائدہ سے کہیں زیادہ ہے اور جو اب تک نہ جانے کتنوں کو ذلت و رسوائی اور ملک جرائم میں مبتلا کر چکی ہے۔ شرعی حدود کا نفاذ کو اس میں بظاہر شدت اور قساوت قلبی معلوم ہوتی ہے مگر در حقیقت اسی میں پورے معاشرہ کی بھلائی ہے کیونکہ مجرم یہ سمجھتا ہے کہ یہ حدود انسان کے وضع کردہ نہیں بلکہ خود اس ذات کے مقرر کردہ ہیں جس نے انہیں تخلیق بخشی ہے اور اپنے کسی بندہ پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا ہے یہ حدود ہر اس شخص کے لئے ہیں جو ان جرائم کا مرتکب ہو اور اللہ رب العالمین کے عتاب و توبیخ پر اس کا ایمان ہو۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ یہی حدود اور سزائیں ایک مجرم کے لئے اصلاح حال اور اللہ کی جانب رجوع وانابت کا سبب بن جاتی ہیں۔ ایک حاکم کتاب و سنت کی روشنی میں اگر کوئی فیصلہ کرتا ہے تو اس سے وہ شخص بھی راضی ہو جاتا ہے جس کے خلاف یہ فیصلہ ہوا ہوتا ہے بشرطیکہ اللہ رب العالمین پر اس کا ایمان ہو ارشاد ربانی ہے:
﴿فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ﴾ (النساء: 65)
’’تیرے رب کی قسم! یہ مومن نہیں ہو سکتے تاوقتیکہ اپنے نزاعی معاملات میں تم کو اپنا فیصل تسلیم نہ کر لیں۔‘‘
شریعت کا فیصلہ جس فریق کے خلاف پڑ رہا ہے اگر اس کی جانب سے کوئی نازیبا حرکت یا غیظ و غضب کا اظہار بھی ہوتا ہے تو دوسرے مسلمان اس پر نکیر و توسیع کرتے اور اسے ناپسند گردانتے ہیں کہ اس نے اپنی عزت بچانے کی فکر میں اور معاشرہ کے اندر اپنا وقار مجروح ہو جانے کے ڈر سے اللہ کی شریعت کا فیصلہ تسلیم نہیں کیا لیکن اس کے بر خلاف اگر وہ کسی انسان کے وضع کردہ قوانین کے تحت کئے گئے فیصلہ کو رد کر دیتا ہے تو کوئی دین یا معاشرہ اسے روک نہیں سکتا وہ شخص اس فیصلہ کو تسلیم نہ کرے تو لوگوں کی لعنت و ملامت کا مستحق نہیں ہوگا، بلکہ اس کے اعوان و انصار خود اس کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں گے اور لوگوں کے درمیان اس معاملہ میں شدید اختلاف و نزاع کی صورت پیدا ہو جائے گی اسی وجہ سے رسول صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ و سلم نے امت اسلامیہ کے سلسلہ میں فرمایا تھا:
(وما لم تحكم أئِمَّتهم بكتاب الله إلا جعل الله بأسهم بينهم) [یہ حدیث ایک طویل حدیث کا جزء ہے ملاحظہ ہو: سنن ابن ماجہ کتاب الفتن، باب العقوبات (3019) نیز علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے دیکھئے: سلسلة الاحادیث الصحيحة: 169تا 167/1 (106)]
’’جب اس امت کے ائمہ کتاب اللہ سے فیصلہ کرنا چھوڑ دیں گے تو اللہ تعالی اس امت کے اندر اختلاف ڈال دے گا۔‘‘
اسلامی تعلیمات جملہ حقوق کی محافظ ہیں خواہ وہ حقوق عام ہوں یا خاص مادی ہوں یا معنوی۔ اسلام غصب کردہ حقوق ان کے اہل کو واپس دلاتا اور ایسے لوگوں کی تائید و تقویت فرماتا ہے بلکہ حقوق کی حفاظت پر اجر عظیم کا وعدہ کرتا ہے اور حقوق کی حفاظت میں اگر موت واقع ہو جائے تو اس موت کو شہادت کا درجہ دے کر اسے دخول جنت کا باعث اور انبیاء و صلحاء اور شہداء و صد یقین کے مقام و مرتبہ تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(من قتل دون دمه فهو شهيد، ومن قبل دُونَ مَالِهِ فهو شهيد ومن قتل دون عرضه فهو شهيد) [امام سیوطی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے ملاحظہ ہو: فیض القدیر 2 / 195]
’’جو شخص اپنی جان کی حفاظت میں قتل ہو جائے وہ شہید ہے جو اپنے مال کی حفاظت میں قتل ہو جائے وہ شہید ہے اور جو اپنی عزت کی حفاظت میں قتل ہو جائے وہ شہید ہے۔‘‘
جب عام انسانی حقوق کی حفاظت میں موت شہادت کا درجہ رکھتی ہے تو اسلام کے کسی حق کے دفاع و حفاظت میں ہونے والی موت یقینا سب سے اعلی و ارفع درجہ کی شہادت ہو گی۔ اسلام نے تو جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب دی ہے اور اسے اسلام کا مقدس ترین فریضہ قرار دیا ہے جہاد اگر خالص اللہ کے لئے اور اس کے راستہ میں مقدسات اسلامیہ پر دست درازی کرنے والوں کی سرکوبی شعائر اسلام کی حفاظت، مسلمانوں کے حقوق کے دفاع حق کی مدد اور باطل کا قلع قمع کرنے کے لئے ہو تو یہ سب سے افضل عمل اور مقدس ترین قربانی ہے ایسے موقع پر ایک مومن کی تمنا یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ورضامندی کے حصول اور اس کے اس وعدہ کی تصدیق میں اپنی جان مال اور اپنا سب کچھ قربان کر دے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنصُرُوا اللهَ يَنصُرُكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ﴾( محمد:7)
’’اے اہل ایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہارے مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا۔‘‘
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿وَلَيَنْصُرَنَّ اللهُ مَنْ يَّنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾ (الحج:40)
’’جو شخص اللہ کی مدد کرتا ہے اللہ اس کی ضرور مدد کرتا ہے بے شک اللہ توانا اور غالب ہے۔
نفعني الله وإياكم بالقرآن العظيم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب . فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خطبه ثانیه
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه ونستغفره ونتوب إليه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن سيدنا محمداً عبده ورسوله. اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه:
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے، ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اس سے مدد مانگتے ہیں اس سے بخشش چاہتے ہیں اور اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں، میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ! تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
مسلمانو! اللہ سے ڈرو۔ اس کے احکام و اوامر کی تعمیل کرو اور منہیات سے بچو، تعلیمات دین کی حفاظت و تعمیل کر کے اور اسے خود اپنی زندگی میں نافذ کر کے اور اپنے ماتحتوں کو اس کا پابند بنا کر اپنے ایمان کا ثبوت دو۔ فرائض و واجبات کی محافظت کرو۔ اور امانتوں کا خیال رکھو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿يَاأَيُّهَاالَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللهَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ (الانفال:27)
’’اے اہل ایمان نہ تو اللہ اور رسول کی امانت میں خیانت کرو اور نہ ہی اپنی امانتوں میں خیانت کرو اور تم ان باتوں کو جانتے ہو۔‘‘
اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور ان پر اپنی مقدس کتاب قرآن مجید نازل فرمائی، جس کے اندر کھلی نشانیاں اور واضح راہیں موجود ہیں اس کتاب کو جو شخص بھی اپنا قائد و امام بنا لے دنیا و آخرت کی سعادت و کامرانی سے ہمکنار ہو گا:
﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾ (النحل:97)
’’جو شخص نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور وہ مومن بھی ہوگا تو ہم اس کو (دنیا میں) پاک اور آرام کی زندگی سے زندہ رکھیں گے اور (آخرت میں) اس کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے۔
اس کے بر خلاف وہ شخص جو قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی سنت و شریعت پر عمل پیرا نہ ہو اسے دنیا میں بھی ضلالت وگمراہی اور ذلت و تنگدستی سے دوچار ہوتا پڑے گا اور آخرت میں بھی شقاوت و بدبختی اور عذاب اس کا مقدر ہو گا جیسا کہ قرآن کریم کا اعلان ہے:
﴿وَمَنْ كَانَ فِيْ هَذِهِ أَعْمٰى فَهُوَ فِي الآخِرَةِ أَعْمٰى وَأَضَلُّ سَبِيلاً﴾ (الاسراء: 72)
’’جو شخص اس دنیا میں اندھا ہو وہ آخرت میں بھی اندھا ہو گا اور نجات کے رستے سے بہت دور۔‘‘