ایمان اور عمل صالح
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ، ﴿إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ جَنَّتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُريْدُ﴾ (الحج: 14)
’’ایمان اور نیک عمل کرنے والے مومنوں کو اللہ تعالیٰ بہتی نہروں والی جنتوں میں داخل کرے گا۔ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‘‘
انسان کی فلاح و کامیابی دو چیزوں پر موقوف ہے:
(۱) ایمان (۲) عمل صالح، مگر افسوس عام طور پر لوگ اب ان دونوں میں سست نظر آتے ہیں، بعض میں کچھ ایمان ہے، تو عمل بالکل نہیں، اگر کچھ عمل ہے تو صحیح ایمان نہیں، حالانکہ ایمان و عمل صالح لازم و ملزوم کی سی حیثیت رکھتے ہیں، ان دونوں کے پائے جانے کے بعد انسان دین و دنیا میں تمام مشکلات و مصائب سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔
دنیاوی کامیابی بھی صرف ذہنی تخیل سے نہیں ہو سکتی، جب تک کہ اس کے مطابق کام نہ کیا جائے، صرف اتنا تسلیم کرنے سے کہ روٹی سے بھوک جاتی رہتی ہے، بھوک بند نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس روٹی کے حاصل کرنے کے لیے کوشش نہ کی جائے، اس کے حاصل کرنے کے لیے جدو جہد بھی کرنی پڑے گی، اور خاص طریقے سے پکا کر کھانا بھی پڑے گا، ان تمام مرحلوں کے طے کرنے کے بعد بھوک کا علاج ہو گا، حج کا تصور کر لینے سے حج نہیں ہو سکتا، جب تک اس کی طرف قدم نہیں بڑھائے جائیں گے، اور چل کر وہاں نہ پہنچیں گے، دنیا کی عدالتوں ہی کی مثال لے لیجئے، کہ آپ جس حکومت میں رہتے ہیں، اس کے قوانین کی تصدیق و تسلیم ہی سے آپ حکومت کی زمین میں نہیں رہ سکتے، بلکہ تسلیم و تصدیق کے بعد ان قوانین کو برتنے کی ضرورت ہے، اگر ایسا ہو کہ قانون تسلیم کر کے عمل نہ کریں، یا خلاف قانون عمل کریں، تو آپ کا شمار باغیوں میں ہوگا، اور آپ کیفر کردار تک پہنچادیے جائیں گے۔ بالکل اسی طرح اخروی عدالت میں بھی نجات کا یہی حال ہے، کہ جب تک ایمان اور عمل صالح دونوں کو ساتھ ساتھ وجود میں نہ لایا جائے، فلاح غیر ممکن ہے۔ عمل صالح کا مفہوم بہت وسیع ہے، اس کے اندر ہر قسم کے نیک اور اچھے اچھے کام شامل ہیں، جیسے سچائی، پاک بازی، دیانتداری، امانتداری، شرم و حیا، عدل و انصاف، علم اور بردباری، رحم و کرم تواضع احسان عفو درگز را ایشان اخلاص مودت و محبت مہمان نوازی تیمار داری، بیوہ اور یتیم کے ساتھ حسن سلوک، اور حاجت مندوں کی حاجت برآری، اور خلق خدا کی خدمت اور خالق کی عبادت وغیرہ سب عمل صالح کی شاخیں ہیں، غرض ہر وہ نیک کام جو خدا کی خوشنودی کے لیے کیا جائے عمل صالح ہے۔
قرآن مجید میں ایمان کے ساتھ ساتھ، جگہ جگہ عمل صالح کو ضرور بیان کیا گیا ہے، جس کا یہی مقصد ہے کہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کا ہونا ضروری ہے، بغیر عمل صالح کے ایمان کا اعتبار نہیں، اسلامی صداقت کی یہ ایک بڑی دلیل ہے، کہ یہ افراط و تفریط سے خالی ہے، انسانی نجات نہ صرف ایمان پر ہی موقوف رکھی ہے، جیسا کہ عیسائیوں میں ہے، اور نہ صرف نیکوکاری و تپسیا سے نروان کا درجہ ملتا ہے، جیسا کہ بعض مذہبوں میں ہے، بلکہ ان دونوں کی اہمیت اور اس کی جز او ثواب کی بابت قرآنی آیتوں کو سینے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(1) ﴿وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنهر﴾ (البقرة: 25)
’’اور آپ ان لوگوں کو خوشخبری سنا دیجئے، جو ایمان لائے اور عمل صالح کیے، کہ یقینًا ان کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔‘‘
یعنی خدا اور رسول ﷺ کی تصدیق کرنے اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے ایسے عالیشان باغات ہیں، جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، اور وہاں ہر قسم کا عیش و آرام ہے۔‘‘
(2) ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُو وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ (البقرة:62)
’’یقینًا جو لوگ مومن ہیں اور جو یہودی ہونے، اور نصاری، اور بے دین ہیں، ان میں سے جو بھی اللہ اور قیامت پر ایمان لائے اور عمل صالح کیے، تو ان کے لیے ان کے رب کے پاس ثواب ہے، اور نہ ان کو کچھ ڈر ہے، اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔‘‘
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی یہ تفسیر بیان فرماتے ہیں، کہ خدا کو کسی کی ذات سے عداوت اور دشمنی نہیں ہے، اور نہ خاندانی وجاہت و پستی کا اس کے نزدیک کوئی اعتبار ہے، اور نہ کوئی امتیاز بلکہ ایمان اور عمل صالح پر دارو مدار ہے، کوئی بھی ہو، رسول اللہﷺ کے مبارک زمانے کے مومن ہوں یا دور اسرائیل کے یہودی یا عہد عیسی کے نصاری ہوں، یا اپنے زمانے کے صابی، بہر حال کسی کا بھی زبانی دعوی معتبر نہیں ہے، بلکہ ان میں سے جس کا خالص ایمان خدا اور قیامت پر ہوگا، اور اعمال نیک ہوں گے، تو اس کے لیے خدا کے یہاں ضرور اچھا بدلہ ہے، نہ وہاں خوف ہے، اور نہ رنج وغم ہو گا ۔
حقیقت یہی ہے کہ اللہ کے یہاں حسب و نسب کی اہمیت نہیں ہے وہاں عمل صالح ہی کی اہمیت ہے، جسکا ایمان صحیح ہے اور عمل صالح موجود ہے، وہی خدا کا مقرب ہے، خواہ حسب و نسب کے اعتبار سے کیسا ہی ہو۔
دارین راه فلاں ابن فلاں چیزے نیست
دیکھئے حضرت نوح علیہ السلام کے نافرمان بیٹے کا کیا حشر ہوا عمل صالح نہ ہونے کی وجہ سے انہ عمل غير صالح) وہ خاندان نبوت سے الگ ہو کر فرق آب ہوا، خاندانی نسب نہ بچا سکا حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی خیانت اور غیر معمل صالح کی وجہ سے تباہ و برباد ہو گئی، قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:۔
﴿ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَةَ نُوحٍ وَ امْرَأَةَ لُوطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَينَ فَخَانَتَهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ﴾ (التحريم:10)
’’اللہ تعالی نے کافروں کے لیے نوح اور لوط کی بیوی کی کہاوت بیان فرمائی ہے، کہ یہ دونوں ہمارے صالح بندوں کے گھر میں تھیں، ان دونوں نے ان کی نافرمانی کی، پس یہ دونوں صالح بندے ان دونوں غیر صالح عورتوں کو اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے اور حکم دیا گیا، ان دونوں عورتوں کو دوزخ میں جانے والوں کے ساتھ دوزخ میں داخل کر دو۔‘‘
حالانکہ یہ دونوں عورتیں دو نبیوں کے نکاح میں تھیں، ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والی تھیں، مگر ایمان اور عمل صالح کے نہ ہونے کی وجہ سے دوزخ میں داخل ہوئیں ۔
حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا فرعون کی بیوی تھیں لیکن ایمان اور عمل صالح کی وجہ سے جنت الفردوس میں داخل ہو ئیں،
سچ ہے اللہ تعالی شکل وصورت اور مال و دولت کو نہیں دیکھتا، بلکہ تقوی اور عمل صالح ہی کو دیکھتا ہے، جو بھی ان دونوں خوبیوں سے متصف ہو گا، وہی اللہ کے نزدیک پیارا ہے، فرمایا:
﴿وَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصَّلِحَتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أنثى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا﴾ (النساء: 124)
’’اور جو مرد یا عورتیں کچھ نیک کام کریں، بشرطیکہ وہ مؤمن ہوں، تو وہ جنت میں داخل ہوں گے، اور تل برابران پر ظلم نہ ہوگا۔‘‘
یعنی جو مرد یا عورت ایمان کے ساتھ عمل صالح کرے، وہ جنتی ۔ ہے، اور ذرہ برابر ان پر ظلم نہ کیا جائے گا، یہی ایمان اور عمل صالح دیدار ولقاء الہی کا سبب بنے گا، فرمایا: ﴿فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا﴾ (الكهف:110) ’’جسے اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو، اسے عمل صالح کرنا چاہیے، اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔‘‘
اسی ایمان اور عمل صالح کی ہر جگہ ضرورت ہے، اور ہر شخص سے ان ہی دونوں کا مطالبہ ہے، زندگی ایک مسلسل جہاد ہے، اور ایمان و عمل صالح اس جہاد میں کام آنے والے فولادی ہتھیار ہیں، بالکل درست کہا اقبال مرحوم نے
یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں
ایمان اور عمل صالح پر قرآن مجید میں جتنا زور دیا گیا ہے، غالبا اتنا زور دوسرے مسئلوں پر نہیں دیا گیا ہو گا، کوئی سورۃ ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ﴾ سے غالبا خالی نہیں ہوگی، اب آپ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصلحت والی آیت کو ترجمہ سمیت پڑھ کر ایمان کو تاز و کیجئے
(1) (وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ فَأُولَئِكَ أَصْحَبُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ) (البقرة: (82)
’’جو لوگ ایمان لا چکے ہیں، اور اچھے اچھے کام کیے ہیں، یہی لوگ جنتی ہیں، اور ہمیشہ جنت میں ہی رہیں گے۔‘‘
(2) (إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَآتَوُا الزَّكَوةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ) (البقرة: (277)
’’تحقیق جو لوگ ایمان لائے، اور عمل صالحہ کیے اور نماز کو قائم کیا، اور زکوۃ ادا کی، ان کے لیے رب کے پاس ثواب ہے، اور نہ انہیں خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔‘‘
(3) ﴿وَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّلِحٰتِ فَيُوَفِّيْهِمْ أُجُوْرَهُمْ﴾ (آل عمران: 57)
’’جو لوگ ایمان لے آئے، اور اچھے کام کیے، ان کو اللہ تعالی پورا پورا اجر عطافرمائے گا۔‘‘
(4) ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِيْنَ فِيْهَا﴾ (النساء: 57)
’’اور جو لوگ ایمان لے آئے، اور انہوں نے اچھے کام کیے تو ہم عنقریب ان کو ایسے باغوں میں داخل کریں گے، جن میں نہریں بہتی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
(5) ﴿وَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصَّلِحٰتِ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا يَخَافُ ظُلْمًا وَلَا هَضْمًا﴾ (طه: 112)
’’جو نیک عمل کرے گا، اور وہ ایماندار بھی ہو، تو اسے نہ بے انصافی کا خوف ہوگا اور نہ نقصان کا ڈر ہوگا۔‘‘
(6) ﴿وَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصَّلِحٰتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعِيهِ وَإِنَّا لَهُ كَاتِبُونَ﴾ (الانبياء: 94)
’’جو مومن نیک عمل کرے گا، تو اس کی کوشش و محنت کی ناقدری نہ ہوگی، اور اس کے عملوں کو ہم لکھنے والے ہیں۔‘‘
(7) (وَالَّذِينَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ) (حج: 50)
’’ایمان داروں اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے بخشش ہے، اور عمدہ روزی ہے۔‘‘
(8) ﴿يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ‘‘ (المومنون:51)
’’اے رسولو! پاکیزہ اور حلال چیزوں کو کھاؤ، اور عمل صالح کرو، میں تمہارے عملوں سے خوب واقف ہوں‘‘
(9) ﴿إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾ (الفرقان: 70)
’’مگر جس نے توبہ کی، اور ایمان لایا، اور نیک عمل کیے تو اللہ تعالی ان کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔)
(10) ﴿وَأَمَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَعَسَى أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُفْلِحِينَ﴾ (القصص: 67)
’’جس نے توبہ کی، اور ایمان لے آیا، اور عمل صالح کیے، تو ممکن ہے کہ فلاح پانے والوں میں سے ہو جائے۔‘‘
(11) ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِي الصَّالِحِينَ﴾ (العنكبوت: 9)
’’جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیے، ہم ان کو نیک لوگوں میں داخل کریں گے ۔‘‘
(12) ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا. خَالِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا﴾ (كہف: 107، 108)
’’تحقیق جو لوگ ایمان لا چکے ہیں، اور نیک عمل کیے ہیں، ان کی مہمانی کے لیے جنت الفردوس ہے، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اور بھی بھی یہاں سے نکلیں گے نہیں۔‘‘
اس قسم کی اور بہت سی آیتیں ہیں، جن میں ایمان اور عمل صالح والے کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے آخرت میں رحمت، مغفرت، فردوس اور جنت کی نعمتوں کی بڑی بڑی بشارتیں دی گئی ہیں، آخرت میں عمل صالح کرنے والے کو جو ملے گا، وہ تو یقینی امر ہے، لیکن اس کے علاوہ دنیا ہی میں ان دونوں یعنی ایمان اور عمل صالح کی بدولت بڑی بڑی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں، جن کا بیان قرآن مجید میں متعدد جگہ مختلف لفظوں سے آیا ہے، دنیا کی تمکنت، خلافت، نیابت سلطنت اور امارت اسی ایمان اور عمل صالح سے دستیاب ہوتی ہے ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
(13) ﴿وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۪ وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ؕ یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْـًٔا ؕ وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ۵۵﴾ (سورة النور: 55)
’’ایماندار اور عمل صالح والوں سے اللہ تعالی نے وعدہ فرمایا ہے، کہ انہیں ضرور بالضرور ملک کا حاکم بنا دے گا، جیسا کہ ان لوگوں کو بنا دیا تھا، جو ان سے پہلے تھے، اور یقینًا ان کے لیے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جمادے گا، جسے ان کے لیے پسند فرما چکا ہے، اور ان کے خوف و خطر کو امن وامان سے بدل دے گا، اگر میری ہی عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا میں گے، اس کے بعد جو میری ناشکری کرے گا، وہ یقینًا نا فرمان ہی نا فرمان ہے۔‘‘
یعنی اللہ نے نیک عمل کرنے والے ایمانداروں سے وعدہ فرمایا ہے کہ ان کو زمین کا مالک بنا دے گا۔ لوگوں کا حاکم اور بادشاہ مقرر فرمادے گا، ملک ان کی وجہ سے آباد ہوگا، بندگان خدا ان سے دل شاد ہوں گے، آج یہ لوگوں سے لرزاں وتر ساں ہیں بکل طمینان ہوں گے، حکومت ان کی ہوگی، سلطنت ان کے ہاتھوں میں ہوگی، الحمد للہ یہی ہوا بھی، مکہ، خیبر بحرین، جزیرہ عرب اور یمن تو خود آنحضرت ﷺ کی موجودگی میں فتح ہو گیا، ہجر کے مجوسیوں نے جزیہ دے کر ماتحتی قبول کر لی، شام کے بعض حصوں کا بھی یہی حال ہوا، شام اور روم کے ہر قل نے تجھے روانہ کیسے مصر کے والی نے بھی خدمت اقدس میں تھے بھیجے، اسکندریہ کے باشاہ مقوقس نے اور عمان کے بادشاہوں نے بھی یہی کیا، اور اس طرح اپنی اطاعت گزاری کا ثبوت دیا، حبشہ کے بادشاہ اصحمہ رحمہ اللہ تو مسلمان ہو ہی گئے تھے، اور اس کے بعد جو والی حبشہ ہوا، اس نے بھی سرکار محمدیﷺ عقیدت مندی کے ساتھ تحائف روانہ کیے۔
پھر جب کہ اللہ رب العزت نے اپنے محترم نبیﷺ کو اپنی مہمانی میں بلایا، آپﷺ کی خلافت صدیق اکبر نے سنبھالی، جزیرہ عرب کی حکومت انہوں نے مضبوط اور مستقل بنائی، ساتھ ہی ایک جرار لشکر سیف اللہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی سپہ سالاری میں بلاد فارس کی طرف بھیجا، جس نے وہاں فتوحات کا سلسلہ شروع کیا، حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ وامراء کے ماتحت شام کے ملکوں کی طرف لشکر اسلام کے جانبازوں کو روانہ کیا، انہوں نے بھی یہاں محمدی جھنڈا بلند کیا، اور صلیبی نشان اوندھے منہ گرائے، مصر کی طرف مجاہدین کا لشکر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کی سرداری میں روانہ فرمایا، بصری، دمشق، حران وغیرہ کی فتوحات کے بعد آپ بھی رائی ملک بقا ہوئے، اور خدا کے الہام ہی سے حضرت فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے زبردست اور زور آور ہاتھوں میں سلطنت اسلام کی باگیں دے گئے، سچ تو یہ ہے، کہ آسمان کے قتلے کسی نبی کے بعد ایسے پاک خلیفوں کا دور نہیں ہوا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی قوت، طبیعت، آپ کی نیک سیرت، آپ کے عدل کا کمال، آپ کی خدا ترسی کی مثال دنیا میں تلاش کرنا محض بے سود اور لا حاصل ہے، تمام ملک شام، پورا علاقہ مصر، اکثر حصہ فارس آپ کی خلافت کے زمانے میں فتح ہوا، سلطنت کسری کے ٹکڑے اڑ گئے، خود کسری کو منہ چھپانے کے لیے کوئی جگہ نہ ملی، کامل ذلت اور اہانت کے ساتھ بھا کتا پھرا، قیصر کوفا کر دیا، نام مٹادیا، اور شام کی سلطنت سے اسے دست بردار ہونا پڑا، قسطنطنیہ میں جا کر منہ چھپایا، ان سلطنتوں کی صدیوں کی جمع کی ہوئی دولت اور بے شمار خزانے ان بندگان خدا کے نیک نفس اور مسکین خصلت بندوں پر خرچ کیے، اور اللہ کے وہ و وعدے پورے ہوئے، جو اس نے حبیب اکرم ﷺ کی زبانی کیے تھے۔
پھر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا دور آتا ہے، اور مشرق و مغرب کی انتہا تک خدا کا دین پھیل جاتا ہے، خدائی لشکر ایک طرف اقصیٰ مشرق تک اور دوسری طرف انتہا مغرب تک پہنچ کر دم لیتا ہے، اور مجاہدین کی آبدار تلواریں، خدا کی توحید کو دنیا کے گوشے گوشے اور چپے چپے میں پہنچا دیتی ہیں، اندلس، قبرص قروان، اور چین تک آپ کے زمانے میں فتح ہوئے، کسری قتل کر دیا گیا، اس کے ملک کا نام و نشان تک کھود کر پھینک دیا گیا، اور ہزار ہا برس کے آتش کدے بجھا دیئے گئے، اور ہر اونچے ٹیلے سے صدائے ’’اللہ اکبر‘‘ آنے لگی۔
دوسری جانب مدائن، عراق، خراسان، اور اہواز سب فتح ہو گئے، ترکوں سے جنگ عظیم ہوئی، آخر ان کا بڑا باشاہ خاقان خاک میں ملا، ذلیل و خوار ہوا، اور زمین کے مشرقی اور مغربی کونوں نے اپنے اپنے خراج بارگاہ عثمانی میں پہنچا دیے، حق تو یہ ہے کہ مجاہدین کی ان جانبازیوں میں جان ڈالنے والے چیز حضرت عثمان کی تلاوت قرآن کی برکت تھی، آپ کو قرآن سے ایسا شغف تھا، جو بیان سے باہر ہے، قرآن کے جمع کرنے، اس کے حفظ کرنے، اس کی اشاعت کرنے، اس کے سنبھالنے میں جو نمایاں خدمتیں خلیفہ ثالث سے ظاہر ہوئیں، وہ یقینًا عدیم المثال ہیں، آپ کے زمانے کو دیکھو، اور اللہ کے رسولﷺ کی اس پیشین گوئی کو دیکھو، کہ آپ نے فرمایا تھا، میرے لیے زمین سمیٹ دی گئی ہے، یہاں تک کہ میں مشرق و مغرب کو دیکھ لیا، عنقریب میری امت کی سلطنت وہاں تک پہنچ جائے گی، جہاں تک مجھے اس وقت دکھائی گئی ہے۔[1]
مسلمانو! رب کے اس وعدے کو، اور پیغمبر کی اس پیشین گوئی کو دیکھو، پھر تاریخ کے اوراق پلٹو، اور اپنی گذشتہ عظمت و شان کو دیکھ آؤ نظریں ڈالو، آج تک اسلام کا پرچم بحمد اللہ بلند ہے، اور مسلمان ان مجاہدین کرام کی مفتوح زمینوں میں شاہانہ حیثیت سے چل پھر رہے ہیں، بیشک اللہ کے رسول بچے ہیں۔
مسلمانو! حیف اور صد حیف اس پر جو قرآن اور حدیث کے دائرے سے باہر نکلے، حسرت اور صد حسرت اس پر جو اپنے آبائی ذخیرے کو غیر کے حوالے کر کے اپنے آباء و اجداد کے خون کے قطروں سے خریدی ہوئی چیز کو اپنے نالائقوں اور بے دینوں سے غیر کی بھینٹ چڑھا دے اور سکھ سے بیٹھا اور لیٹا رہے، اللہ تعالی ہمیں ایمان کامل اور عمل صالح کی توفیق مرحمت فرمائے، اور دونوں جہان کی فلاح اور کامیابی سے سرخروئی عنایت فرمائے، آمین ثم آمین۔
(رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاَ خْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُوْنَا بِالْإِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ اٰمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوْفَ الرَّحِيمِ وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ﴾
( وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: 390/2 کتاب الفتن، باب هلاك هذه الأمة بعضهم ببعض …. رقم الحديث:7257-