فضائل محرم ورد بدعات محرم

الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ
﴿ اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ؕ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ۙ۬ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً كَمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةً ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ۝۳۶﴾ (سورة التوبة: 36)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے ان میں سے چار حرمت وادب کے ہیں، ہیں ۔ یہی درست دین ہے ہے تو تم ان مہینوں ں میں میں اپنی اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں جان رکھو کہ اللہ تعالی متقیوں کے ساتھ ہے۔‘‘
وہ حرمت والے چار مہینے یہ ہیں: رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم، محرم کے مہینے کو تم اس کی تعظیم کی وجہ کہتے ہیں اس لئے چاروں مہینے اللہ کے نزدیک حرمت اور تعظیم کے لائق ہیں ان مہینوں میں خصوصیت سے اللہ کے حکم کے خلاف کوئی کام نہیں کرنا چاہئے اور نہ کوئی گناہ کرنا چاہیے۔ ان مہینوں کی حرمت ابتدائے آفریش عالم سے ہے رسول اللہﷺ نے اپنے حج کے خطبہ میں فرمایا تھا کہ زمانہ گھوم گھام کر اپنی اصلیت پر آگیا ہے سال کے بارہ مہینے ہوا کرتے ہیں، جن میں سے چار حرمت و ادب والے ہیں، تین تو پے در پے ذو القعدہ ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا ر جب المرجب جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان میں ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: 632/2 كتاب المغازي، باب حجة الوداع، رقم الحديث (1406)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلامی سال کی ابتدا محرم الحرام کے مہینے سے شروع ہوتی ہے کیونکہ اس مقدس ماہ کی عظمت ابتدائے آفرنیش سے ہے۔
اور اس مہینے میں فرعون فرق آب ہوا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے ظلم و تشدد سے نجات ملی تھی ۔ اسلام سے پہلے کے لوگ عاشور و محرم کا روز رکھتے تھے اور اس کے خاتمہ پر عید کی طرح خوشی مناتے تھے ابتدائے اسلام میں عاشورہ محرم کا روز و فرض تھا جب رمضان شریف کا روزہ فرض ہو گیا تب عاشور و حرم کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی، استحباب کا درجہ باقی ہے جس کا جی چاہے رکھئے جس کا جی چاہے نہ رکھے جب آنحضرتﷺ ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تھے یہودیوں کو عاشورہ محرم کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ تم اس روز کیوں روزہ رکھتے ہو انہوں نے جواب دیا کہ یہ ہماری نجات کا دن ہے اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلائی اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکریہ میں روزہ رکھا آپ نے فرمایا حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ ہم تم سے زیادہ موافقت رکھنے کے حق دار ہیں اس لئے آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔[1]
اور ایک حدیث میں آپﷺ فرماتے ہیں:
(أَفْضَلُ الصِيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ)[2]
’’رمضان المبارک کے بعد محرم الحرام کا روز و رکھنا زیادہ افضل ہے۔“
اور فرمایا کہ عاشورہ کے دن روزہ رکھنے سے ایک سال کے گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے۔[3]
جب رمضان شریف کے روزے فرض ہوئے تو آپ نے اعلان کرایا کہ اب عاشورہ کا روزہ ضروری نہیں جو چاہے رکھے جو چاہے نہ رکھئے لیکن خود آپﷺ ایم نے روز وہ رکھا یہودیوں کی مشابہت سے بچنے کے لئے آپﷺ نے فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو محرم کی نویں کا بھی روزہ رکھوں گا۔ مگر آئندہ سال آپ محرم کے آنے سے پہلے فوت ہو گئے لیکن یہ حکم باقی رہا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے عمل کیا لہذا محرم نویں اور دسویں یا دسویں اور گیارہویں کو دو دن کا روزہ رکھنا چاہئے صرف ایک دن کا روزہ نہ رکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاری: ١268/1، كتاب الصيام باب صوم يوم عاشوراء رقم الحديث 2004.
[2] مسلم:368/1 كتاب الصيام، باب فضل الصوم المحرم، رقم 2755.
[3] مسلم 367/1 كتاب الصيام، باب استحباب صيام ثلاثة ايام من كل شهر …..، رقم الحديث: 2746.
[4] مسلم: 359/1 كتاب الصياء باب صوم يوم عاشوراء رقم الحديث:2666.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدعات محرم
روزے کے بدلے میں لوگوں نے اس مہینے میں بہت سی ناجائز ہاتیں ایجاد کر لی ہیں نوحہ اور ماتم گریہ وزاری کے علاوہ وہ تعزیہ داری کی رسم اسی مہینے میں ادا کی جاتی ہے جس کا ثبوت نہیں ہے بلکہ یہ کھلا ہوا کفر اور شرک کا کام ہے اب میں تعزیہ نوحہ و ماتم و غیرہ کے متعلق چند باتیں بیان کرتا ہوں ۔
تعریف تعزیہ:
تعزیہ کے لغوی معنی کسی مصیبت زدہ کو تلقین صبر کرنے اور تسکین دینے کے ہیں چونکہ کسی کا مرنا بھی اسی کے ورثا کے لئے ایک سخت مصیبت اور باعث رنج و غم ہے لہذا ان کے تلقین صبر کرنے کو بھی تعزیت کہتے ہیں بلکہ اکثر اسی پر بولا جاتا ہے شریعت میں اس کے یہ معنی ہیں کہ کسی کے مرنے پر صرف تین دن تعزیت جائز ہے جس میں نہ رونا ہے نہ پیٹنا، نہ چیچنا ہے نہ چلانا، نہ کپڑا پھاڑنا، نہ گریبان چاک کرنا، نہ بال نوچنا نہ سینہ کونا اور نہ زانو اور رخساروں پر ہاتھ مارنا، نہ اجتماع واہتمام اور جزع و فزع کی ضرورت ہے، نہ میت کی مدح و ذم کی حاجت ہے جیسا کہ عوام کالانعام میں کسی کے مرنے کے وقت دیکھا جاتا ہے۔
لیکن یہ سب خرافات کچھ زیادتی کے ساتھ آج جس تعزیہ میں ہوتا ہے و ہ محرم کا تعزیہ ہے۔ جس کو حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے روضہ منورہ کی نقل کہا جاتا ہے یعنی بانس کی تیلیوں اور بچیوں کا ایک ڈھانچہ بنا کے اس کے اوپر کاغذ اور ابرک منڈھے ہیں اس کے اندر ایک قبر ہوتی ہے جس کے اوپر چادر چڑھی ہوتی ہے اس کے اوپر گنبد سا ہوتا ہے اس میں روپیہ پیسہ کوڑی، ناریل، مٹھایاں اور ریوڑی، بتاشے، گٹے، غلاف اور کھچڑا پکا کر کونڈوں میں بھر کر چڑھاتے ہیں۔
ہزاروں مرد و عورتیں اس کے پاس باادب دست بستہ تعظیم کے لئے کھڑے ہوتے ہیں، اور جھک جھک کر اسے سلام اور سجدہ کرتے ہیں کوئی اپنے جان و مال کی ترقی چاہتا ہے کوئی اولاد مانگتا ہے اکثر مردوعورتیں تعزیہ کے نیچے سے اس فاسد خیال سے نکلتے ہیں اور اپنے بچوں کو نکالتے ہیں کہ امام صاحب کی پناہ میں آ جائیں گے اور تمام بلاؤں اور آفتوں سے محفوظ رہیں گئے کسی قسم کا ہم کو نقصان نہ پہنچے گا ہماری اولاد دیر تک زندہ رہے گی اس کا طواف کرتے ہیں اور اپنی خاطر خواہ مراد میں مانگتے ہیں، کوئی کہتا ہے اگر یہ کام ہو گیا تو آئندہ سال حضرت حسین ر ضی اللہ تعالی عنہ کے نام کا تعزیہ بنائیں گئے۔ کوئی کہتا ہے اگر میں یا میری اولاد فلاں بیماری سے اچھی ہوگئی تو تعزیہ بنا کے چڑھاوے چڑھائیں گئے اور کوئی ہائے حسین ہائے حسین کے نعرے بلند کر کے مرثیہ خوانی کرتا ہے کوئی علم اور سیاہ جھنڈا لئے کھڑا ہے کوئی مور پھل تھل رہا ہے کہ مکھی نہ بیٹھنے پائے کوئی ڈھول تماشہ بجا کر اچھلتا کودتا ہے۔ کوئی چھری دستے سے مصنوعی جنگ کر رہا ہے کوئی لکڑی کی تلوار چلاتا ہے کوئی کشتی اور اکھاڑے کا جوہر دکھا رہا ہے اور کہیں سبیلیں حضرت حسین رض اللہ تعال عنہ کے نام کی لگائی جا رہی ہیں آبخورے رکھے ہوئے ہیں کوئی شربت پلاتا ہے آخر دسویں محرم کو بازاروں اور گلی کوچوں میں پھرا کے ایک میدان میں لے جا کے دفن کر آتے ہیں اور بعض لوگ تبرکًا اپنے گھروں میں رکھ چھوڑتے ہیں تاکہ اس کا سایہ رہے اور کوئی آفت و مصیبت نہ پہنچے حالانکہ یہ سب کام کفر و شرک کے ہیں اور حرام ہیں ان کی مفصل و مدیل تشریح انشاء اللہ العظیم آگے بیان کی جائے گی۔
تعزیہ اور دسہرہ (رام لیلا )
الغرض جس طرح ہندو اپنے بتوں اور دیوتاؤں کی پوجا پاٹ کر رتے ۔ ہیں اور اور تعظیم عظیم و تکریم بجالاتے ہیں اور نذر و نیاز کرتے ہیں اسی طرح مدعیان اسلام مسلمان بھی سال بھر میں بیسیوں میلے لگاتے ہیں جس طرح یہ ہندو ہر دیو اور مہادیو وغیرہ کی جھنڈیاں چھڑیاں بناتے ہیں، مسلمان بھی حضرت حسین علیہ السلام سید سالار، مدار، قطب صاحبان کی جھنڈیاں اور چھڑیاں بنا کر چڑھاتے ہیں، جس طرح یہ ہندو اپنے بتوں بزرگوں اور دیوتاؤں کے نام چبوترے بناتے ہیں اسی طرح بعض مسلمان بھی حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے نام کے چبوترے بناتے ہیں جس طرح ہندو رام لیلا ہر سال بڑے دھوم دھام سے کرتے اور نکالتے ہیں اور بازاروں میں گلی کوچوں میں ڈھول تاشہ بجاتے، اچھلتے کودتے پھرتے ہیں بہت سے مرد اور عورتیں بچے جوان اور بوڑھے اچھے اچھے لباس پہن کر میلے میں شریک ہوتے ہیں، پھر دسویں تاریخ کو توڑ پھوڑ کر اس کو میدان میں پھینک آتے ہیں، بس بالکل ہو بہو بعض مسلمان بھی حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی قبر کی نقل یعنی تعزیہ بنا کر محرم کی دسویں تاریخ کو ڈھول تاشے اور قسم قسم کے باجے بجاتے ہوئے اور مرثیہ گاتے ہوئے تمام مرد عورتیں، بوڑھے بچے جوان عمده عمده و لباس فاخرہ پہن کر تعزیہ کے ہمراہ پھرتے ہیں۔ دیکھئے تو سہی ہندوؤں کے یہاں (دسہرہ رام لیلا) میں دس دن ہیں اور تعزیہ پرستوں کے ہاں بھی دس دن میں ان کے یہاں ایک جنگ کا ذکر ہے تو ان کے یہاں بھی ایک جنگ کا ذکر ہے وہ رام رام کہہ کر پکارتے ہیں اور یہ بعض نام نہاد مسلمان حسین حسین کہہ کر پکارتے ہیں، پس تعزیہ دراصل دسہرہ کی نقل ہے جیسا کہ مولانا شاہ عبد العزیز صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تحفہ اثنا عشریہ باب گیارھواں شیعہ کے خواص کے ذیل میں نوع شانزدہم میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
کسی چیز کی صورت اور نقل کو اصل ٹھہرا لینا یہ ایک وہم ہے اور اس وہم نے اکثر بت پرستوں کو سیدھی راہ سے بہکا کر گمراہی کے گڑھے میں گرا دیا ہے شیعہ حضرات میں بھی اس قسم کے وہم نے بہت غلبہ حاصل کر لیا ہے یہ لوگ حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی قبروں کی نقل بنا کر خیال کرتے ہیں کہ یہ ان بزرگوں کی نورانی قبریں ہیں اور ان کے ساتھ از حد تعظیم کرتے ہیں، بلکہ سجدہ بھی کرتے ہیں فاتحہ درودو سلام بھیجتے ہیں اور ان کے گردا گرد مکھیوں کو ہٹانے کیلئے مور چھیل لئے قبروں کے مجاوروں کی طرح کھڑے رہتے ہیں اور خوب شرک کی داد دیتے ہیں سمجھدار انسان کے نزدیک ان چھوٹے چھوٹے بچوں اور بچیوں کی حرکتوں میں (جو کپڑے کی گڑیاں وغیرہ بنا کر ان کی شادی رچاتی ہیں اور تیلیوں اور کاغذوں سے ان کے مکان پلنگ زیور وغیرہ بناتی ہیں اور ان تعزیہ کے بنانے والوں میں کوئی فرق نہیں (مختصر از تحفہ )
تاریخ تعزیہ اور موجد تعزیہ
پس ان رسموں کا پتہ نہ قرآن و حدیث میں ہے اور نہ صحابہ کرام اور نہ ائمہ اہل بیت کی تعلیم مقدس میں ہے بلکہ اس تعزیہ اور ان رسموں کے موجد قاتلان حسین شیعہ حضرات ہی ہیں جیسا کہ علامہ جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفا، ص 277 میں مطیع اللہ القاسم کے احوال میں معز الدوار شیعی کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:۔
341ھ میں ایک قوم جو تناسخ کی قائل تھی ظاہر ہوئی ان میں سے ایک نوجوان شخص نے دعوی کیا کہ حضرت علی کی روح اس کے اندر حلول کر آئی ہے اور اس کی بیوی نے دعوی کیا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی روح اس کے اندر حلول کر آئی ہے اور اسی جماعت کے ایک شخص نے دعوی کیا کہ میں بذات خود جبرئیل ہوں جب یہ خبر ندرت اثر خلیفہ تک پہنچی تو تینوں کو تعزیر تشہیر کا حکم دیا تب اس قوم نے مکر و کید سے کام لے کر اپنے کو اہل بیت کی طرف منسوب کر دیا تاکہ اس سزا سے بچ جائیں، معز الدول شیعی نے بہت سفارش کر کے تینوں کو بری کرا کے بڑے بڑے مراتب و مناصب تک پہنچا دیا اسی شرارت کے باعث معز الدولہ کی نسبت امام سیوطی یہ فرماتے ہیں هٰذا مِنْ أَفْعَالِهِ الْمَلْعُونَةِ الخ یعنی یہ اس کے لعنتی کاموں میں سے ہے۔
آگے چل کر اس کتاب کے ص 278 پر تحریر فرماتے ہیں کہ 351 ھ میں شیعوں نے بغداد کی مسجدوں کے دروازوں پر یہ عبارت لکھ دی۔ لَعْنَةُ مُعَاوِيَةَ وَلَعْنَهُ مَنْ غَضَبَ فَاطِمَةَ حَقَّهَا مِنْ فِدَكَ وَمَنْ مَنَعَ الْحَسَنَ أَنْ يَّدْفَن مَعَ جَدِهِ وَمَنْ نَفٰى اَبَا ذر
رات کو کسی نے مٹا دیا لیکن معز الدولہ نے اس کام کے لئے رغبت دلائی کہ دوبارہ وہی عبارت لکھی جائے تو وزیر مہلبی کے مشورہ سے یہ عبارت لکھی گئی: لَعَنَ الله الظَّالِمِينَ لِاٰلِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مگر حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر لعن طعن خوب ظاہر کیا گیا اس کے بعد اس کتاب کے ص 278 پر علامہ سیوطی تحریر فرماتے ہیں کہ:
۳۵۲ھ میں معز الدولہ نے لوگوں پر لازم و واجب کر دیا کہ عاشورا کے دن تمام دکانیں اور بازار بند کر دیئے جائیں خرید و فروخت مطلق نہ کریں نانبائی اور باورچی تندور نہ سلگائیں اور دال روٹی وغیرہ نہ پکائیں اور بازاروں میں قباب (گنبدوں) کو نصب کرا دیا جن کے اوپر ناٹ کپڑا وغیرہ چڑھا ہوا تھا اور عورتیں بال کھولے اپنے منہ پر طمانچے مارتی اور سینوں پر گھونسے مارتی ہوئیں مرثیے نوحے پڑھتی ہوئی گلیوں بازاروں میں گشت لگائیں اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ پر ماتم کریں یہ پہلا دن ہے کہ بغداد میں یہ رسم ادا کی گئی اور یہ بدعت سالوں جاری رہی۔
اس عبارت سے یہ معلوم ہوا کہ تعزیہ معز الدول شیعی کے حکم سے بنا ماتم داری وگر یہ و تعزیہ داری ادا کی گئی اور ایجاد ہوئی اس کے بعد اس کے ان کے لڑکے عز الدولہ نے اپنے باپ کی گدی سنبھالی اور مذہب شیعہ امامیہ کی ترویج کی اس نے خطبہ عباسیہ کو اپنی رائے سے قطع کر کے یہ جملہ ایجاد کیا۔
’’اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدِ نِ الْمُصْطَفٰى وَعَلٰى عَلِيِّ نِ الْمُرْتَضَى وَعَلَى فَاطِمَةَ الْبَنُولِ وَعَلَى الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ سِبْطِ الرَّسُولِ وَصَلِّ عَلَى الْأَئِمَّةِ أَبْنَاءِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَمُعِزّ الدولة“
اور اذان میں یہ کلمہ بڑھایا حَیَّ عَلٰى خَيْرِ الْعَمَلِ یہ بدعت سیئہ تمام دمشق میں پھیل گئی کیونکہ اس کا معین و مددگار جعفر بن فلاح ہوگیا تھا چونکہ عنان حکومت اس کے ہاتھ میں تھی اس لئے کسی کو انکار کی گنجائش نہ تھی۔
زیادہ تشریح تاریخ الخلفاء میں ملاحظہ فرمائیے ہمارا مقصود تو صرف آغاز تعزیہ داری تھا وہ یہاں پر بقدر ضرورت بیان کر دیا گیا کہ اس بدعت سیئہ کا موجد معز الدولہ شیعی اور معین اس کا پسر عز الدولہ اور موید اس کا نائب جعفر بن فلاح ہوئے اور ہدیہ مجدیدیہ تحفہ اثنا عشریہ کے ترجمہ میں ہے کہ مختار بن عبید شیعی نے (اس کی تفصیل آگے بیان ہوگی) بنام تابوت سکینہ جناب امیر کی کرسی کی پرستش شروع کی حالانکہ یہ کرسی (جناب امیر) کی نہ تھی بلکہ طفیل بن جعدہ کسی روغن فروش کی دکان سے اٹھا لایا تھا (ہدیہ مجیدیہ ص:42)
علامہ عبد الکریم شہرستانی الملل و النحل کے ص 84 پر اس کرسی کی بابت تحریر فرماتے ہیں کہ وہ ایک پرانی کرسی تھی، جس پر مختار نے ریشمی غلاف چڑھا کر اور خوب آراستہ پیراستہ کر کے ظاہر کیا کہ یہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے توشہ خانہ سے ملی ہے جب کسی دشمن سے جنگ کرتا تو اس کو صف اول میں رکھ کر اہل لشکر سے کہتا بڑھو اور قتل کرو فتح و نصرت تمہارے شامل حال ہے یہ تابوت سکینہ تمہارے درمیان مثل تابوت بنی اسرائیل کے ہے اس میں دل کی تسکین اور فرشتے امداد کے لئے نازل ہوتے ہیں۔ (الملل والنحل ص84)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ در اصل تعزیہ داری پہلے یہیں سے شروع ہوئی، چنانچہ صاحب تذکرہ الکرام اس عبادت کے نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ:
در اصل تعزیہ داری کی ابتداء یہیں سے معلوم ہوتی ہے جو بعد میں بت پرستی بن گئی اور ہندوستان میں اس تعزیہ داری کی اشاعت کی یہ بھی وجہ بتائی جاتی ہے کہ تیموری عہد میں چونکہ بادشاہ وزیر اور بیگمات و نیز اہل لشکر شیعہ تھے اور ہندوستان میں سلطنت و جنگ کے انتظامات کے باعث ہر سال کربلائے معلی نہیں جاسکتے تھے یہ شکایت بادشاہ کے گوش گزار ہوئی تو امیر تیمور نے کربلا سے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے روضہ کی نقل حاصل کرا کے اس کو تعزیہ کی صورت میں تیار کرایا کہ ہندوستان کے شیعہ اس کی نقل کے ذریعہ سے کربلائے معلی کی زیارت کا ثواب یہیں حاصل کر لیں چنانچہ یہی ہوا اور بجائے کربلا کے اس نقل کی زیارت ہونے لگی جس نے کم و بیش بہت جلد یہ صورت اختیار کر لی جو اب مروج ہے چنانچہ تلخیص مرقع کر بلا کے مصنف شیعہ بھی رقم طراز ہیں کہ جوہری صاحب طوفان البکاء نے امیر تیمور کا عراق میں آنا اور زیارت کرنا اور پیادہ پا چلتا اور وزراء کا پیادہ روی سے منع کرنا اور اس کا قرآن میں فال دیکھنا اور یہ آیت ﴾فَاخْلَعُ نَعْلَيْكَ﴾ کا نکلنا اور تبرکات کا لانا اور انفاذ تعزیہ داری خصوصاً ہندوستان میں سب مفصل لکھا ہے اور سب جانتے ہیں۔ (مرقع ص 82)
پھر اس میں بتدریج بڑی ترقی ہوئی اور اب تو اس کے ساتھ دلدل اور علم وغیرہ بھی نکلنے لگے اور شیعہ اور جاہل سنی اس تعزیہ کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں جو درجہ شرک کو پانچ جاتا ہے مولوی خیرات احمد وکیل شیعہ نے اپنی کتاب نور ایمان میں اعمال محرم کے عنوان سے ص 332 سے384 تک تعزیہ اور اس کے متعلقات پر مفصل بحث کی ہے اس میں یہ بھی درج ہے کہ تعزیہ نقل روضہ مبارک حضرت حسین رضی اللہ تعالی ہے اس کی غرض (دکھانے کے لئے تاکہ قتل حسین رضی اللہ تعالی عنہ بدنما دھبہ مٹ جائے) یہ ہے کہ چونکہ ہم لوگ روضہ مبارک سے دور بستے ہیں، اس لئے تعزیہ کے دیکھنے سے روضہ مبارک اور واقعات کربلا یاد آ جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔
تعزیہ کی تردید قرآن مجید سے
الغرض تعزیہ کے بانی مبانی موجد و معین و مصدق سب شیعه قاتلان حسین رضی اللہ تعالی عنہ ہیں یہ آنحضرت ﷺ کے عرصہ دراز کے بعد ایجاد ہوا پھر بھی اس کو دین میں داخل کر لیا، تعجب یہ ہے کہ خود ہی اس کو اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں اور خود ہی اس سے حاجت روائی کی دعا کرتے ہیں اس کے سامنے سجدہ طواف وغیرہ کرتے ہیں اللہ تعالی نے سچ فرمایا:
﴿اَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ، وَاللهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ﴾ (صافات : 95، 96)
’’یعنی کیا تم اس چیز کو پوجتے ہو جس کو خود تراشتے ہو حالانکہ اللہ نے تم کو اور تمہارے اعمال کو پیدا کیا‘‘
اور عبادت کا حق دار پیدا کرنے والا ہی ہے انصاف کیجئے کہ اگر کفار پتھروں کی مورتیں تراش کر پوچھیں تو و مشرک کہلا ئیں اور اگر مسلمان کاغذ اور تیلیوں کا ڈھانچہ بنا کر عبادت کریں تو پکے مسلمان رہیں، مولانا حالی مرحوم نے کیا ہی خوب فرمایا ہے۔
کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر
جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں مزاروں اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پر دن رات نذریں چڑھائیں شہیدوں سے جا جا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے نه اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
وہ دیں جس سے توحید پھیلی جہاں میں ہوا جلوہ گر حق زمین و زماں میں!
رہا شرک باقی نہ وہم و گماں میں وہ بدلا گیا آ کے ہندوستان میں
ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں وہ دولت بھی کھو بیٹھے آخر مسلماں
اللہ تبارک و تعالیٰ ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے:
﴿وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ﴾ (يوسف: 106)
’’یعنی اکثر لوگ ایمان لانے کے بعد شرک کے کام کرتے ہیں۔‘‘
مشرکین عرب و کفار مکہ بھی اپنے بزرگوں کی اس طرح کی تعظیم و تکریم کرتے اور ان کے نام کی نذرو نیاز کرتے اور ان کی یاد گار قائم کرنے کے لئے مورتیں بنا کے گھروں اور کعبہ میں نصب کرتے اور ضرورت کے وقت ان کے نام لے کر پکارتے تھے اللہ تعالی ان کے اس فعل کی تردید کر کے فرماتا ہے:
﴿وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللهِ قُلْ اتنبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ (سوره یونس: 18)
’’مشرکین اللہ تعالی کے سوا ایسی چیزوں کو پوجتے ہیں، جو ان کو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہماری سفارش خدا کے پاس کریں گئے اے نبی تم ان سے کہ وہ کہ تم اللہ کو وہ چیز بتاتے ہو جس کا وجود آسمان وزمین میں نہیں ہے وہ پاک ہے اور ان لوگوں کے شرک سے اس کی ذات بالاتر ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ سے یہ بات بخوبی واضح ہوئی کہ مشرکین اپنے بزرگوں کی تصویروں مورتوں، قبروں وغیرہ ایسی چیزوں کو پوجتے تھے جن کی اگر پرستش چھوڑ دی جائے تو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتیں اور اگر عبادت کی جائے تو کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتیں لیکن باوجود اس کے کہتے ہیں کہ ان بزرگوں کی تصویروں مورتوں قبروں اور تھانوں کی پرستش کرتے ہیں اور ان کی روح خوش ہو کر ہماری سفارش کرے اور ہمارے مصائب و مشکلات دور ہوں، تجارت وزراعت وغیرہ میں ترقی ہو اور اولاد حاصل ہو لیکن اللہ تعالی نے ان کے عقیدہ کی پر زور تردید کر کے فرمایا کہ یہ لوگ اللہ تعالی سے زیادہ جاننے والے ہیں؟ کہ خدا کو وہ چیز بتانا چاہتے ہیں کہ جس کا وجود آسمان وزمین میں نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ خدا سے زیادہ جاننے والا کوئی نہیں اگر ان کا وجود ہوتا تو اللہ تعالیٰ کو ضرور معلوم ہوتا لہذا ان چیزوں کا کوئی وجود نہیں اور یہ سب بے سند اور لایعنی باتیں ہیں، جیسا کہ اللہ تعالی دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے:
﴿أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنُ بِهِ اللَّهُ﴾ (الشورى:21)
’’کیا ان کے ایسے شریک ہیں کہ انہوں نے ان کے واسطے دین کی ایسی راہ نکالی ہے جس کا حکم اللہ نے انہیں دیا۔ ‘‘
پس اے میرے عزیز و اور بزرگو! خدا کے لئے آنکھیں کھولو اور ہوش درست کرو اور ایسے جہنمی قول و فعل سے تو بہ کرو ورنہ تمہارے لئے وہی وعید تیار ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ اَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ یَّتَّخِذُوْا عِبَادِیْ مِنْ دُوْنِیْۤ اَوْلِیَآءَ ؕ اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِیْنَ نُزُلًا۝۱۰۲
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاؕ۝۱۰۳
اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا۝۱۰۴
اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ لِقَآىِٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا﴾ (الكهف: 102 تا 105)
’’کیا کافروں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ میرے سوا میرے بندوں کو اپنا ولی و حمایت بنالیں گے ہم ان کو چھوڑ دیں گے ہرگز نہیں، ہم نے ان کافروں کے لئے دوزخ کو مہمانی کی جگہ بنایا ہے اے ہمارے نبی! آپ ان لوگوں سے فرما دیجئے کہ کیا میں تم کو بہت زیادہ عملی نقصان والی جماعت بتاؤں وہ لوگ ہیں، جن کی کوشش دنیا کی زندگی ہی میں بیکار ہو جاتی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اچھا کام کر رہے ہیں یہ لوگ اپنے رب کی آیتوں (احکام) کا انکار کرتے ہیں حالانکہ اس کی ملاقات کے بھی منکر ہوتے ہیں پس ان کے اعمال بیکار ہو جاتے ہیں ہم ان کے لئے قیامت کے دن اعمال کی میزان بھی کمی نہ کریں گے (بلکہ یونہی جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے۔‘‘
اس آیت کا مطلب بالکل واضح ہے کہ بہتیرے ایسے لوگ ہیں کہ فضول اور لغو حرکت کر کے اسے اچھا کام تصور کرتے ہیں، جیسے تعزیہ بنانے والے تعزیہ کو بہت متبرک اور اچھا سمجھتے ہیں حالانکہ ان کی ساری کوششیں رائیگاں اور برباد ہیں اس تعزیہ میں علاوہ کفر و شرک کے مال کی بربادی بھی ہے کہ ہر سال لاکھوں روپیہ اس لغو کام میں فضول خرچ کرتے ہیں۔
یہ سب فضول خرچی نہیں تو اور کیا ہے کیا اس سے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی روح مبارک خوش ہوتی ہے؟ یا اس سے قوم وملت کو کچھ فائدہ پہنچتا ہے ایسی فضول خرچی کا اللہ تعالی ضرور حساب لے گا اور وہ اس لغو حرکت کو پسند بھی نہیں کرتا ۔ ﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ﴾﴿إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ﴾ (بنی اسرائیل:27)
’’فصول خرچی کرنے والے شیکان کے بھائی ہیں‘‘
الله اکبرا جتنا روپیہ اس لغو حرکت میں خرچ ہوتا ہے اگر یہی روپیہ و پیسہ ہر سال قوم صلی اللہ علیہ و سلم و تربیت میں خرچ ہوتا یعنی اس روپیہ سے دینی علوم کے مدارس ہر شہرو دیہات میں کھول دیئے جاتے تو اسلام کو کس قدر فائدہ پہنچتا اگر یہی روپیہ صنعت و حرفت میں لگا کر مدرسے اور کارخانے کھولے جائیں تو قوم کا افلاص دور ہو گدا گری اور بے ہنری دنیا سے معدوم ہو جائے اگر یہی روپیہ یتیم خانوں اور مسافر خانوں کی تعمیر میں خرچ ہو تو قوم کو کس قدر آرام و آسائش نصیب ہو اگر یہی روپیہ مولویوں اور واعظوں کے لشکر تیار کرنے میں خرچ کیا جائے اور ان واعظوں اور مولویوں کو ملک بملک اشاعت کے لئے بھیجا جائے جیسا کہ عیسائیوں کی جانب سے پادری بھیجے جاتے ہیں تو دین محمدی کو اس قدر ترقی نصیب ہو اگر یہی روپیہ خرچ کر کے ہر ملک کی زبان میں مذہبی کتابیں ترجمہ کرائی جائیں اور ہر ملک کی زبان میں اسلامی جرائد اور رسالے نکالے جائیں تو کتنے جاہل راہ راست پر آجائیں اور کتنے ناواقف اپنے دین اسلام سے واقف ہو کر خدا اور رسول کو پہچاننے لگ جائیں گے۔ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ۔
نوحه و ماتم :
دنیا میں حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد جس نے سب سے پہلے نوحہ و ماتم ایجاد کر کے کار خیر سمجھا ہے وہ بقول شیعہ حضرات یزید ہے جو ان کے نزدیک اور ان کے خیال کے مطابق اول درجہ کا دشمن اور قاتل حسین رضی اللہ تعالی عنہ تھا چنانچہ ملا جعفر مجلسی (شیعی) اپنی مشہور کتاب جلاء العیون میں لکھتے ہیں کہ:۔ جب اہل حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا قافلہ کوفہ سے دمشق آیا اور یزید کے دربار میں پیش ہوا تو یزید کی بیوئی ہندہ، بے تاب ہو کر بے پردہ مجلس یزید میں چلی آئی، یزید نے دوڑ کر اس کے سر پر کپڑا ڈال دیا اور کہا کہ گھر میں جا اور آل رسولﷺ خدا قریشی کے بزرگوار پر نوحہ وزاری کر کہ ابن زیاد نے ان کے بارے میں جلدی کی، میں ان کے قتل پر ہرگز راضی نہ تھا (جلاء العیون ص 256)
جب اہل بیت یزید کے محل میں داخل ہوئے تو اہل بیت یزید نے زیور اتار کر لباس ماتم پہنا، صدائے نوحه وگریہ بلند کی اور یزید کے گھر تین روز تک ماتم برپا رہا۔ (جلاء العیون ص624)
اور اسی کتاب جلاء العیون کے ص 293 میں ہے کہ یزید کے ہاتھ میں رومال تھا، جس سے وہ آنسو پونچھتا تھا، اس نے کہا ان کو میرے محل میں ہندہ بنت عامر کے پاس لے جا جب اس کے پاس پہنچائی گئیں تو اندر سے صدائے گریہ وزاری بلند ہوئی جو باہر سنائی دیتی تھی۔
نیز نواسخ التواریخ ص 278) اور منہج ص 328 میں کم و بیش اس ماتم کا ذکر ہے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ پر ماتم و نوحہ کا یہ پہلا دن تھا جو بحکم یزید محل میں ہوا اور اہل بیت یزید نے اہتمام سے کام لیا۔
غرض اس طرح محرم کے تعزیہ کی روح ماتم داری نے اول اول خانہ یزید میں جنم لیا پھر جب یزید نے چند دن کے بعد اہل بیت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو بعزت و حرمت شام میں رہنے یا مدینہ جانے کا اختیار دیا تو انہوں نے ماتم برپا کرنے کی اجازت چاہی جو دی گئی اور شام میں جو قریش اور بنی ہاشم تھے سب شریک ماتم ہوئے۔ ایک ہفتہ یہ گریہ وزاری قائم رہی بعد ازاں یزید نے بآرام تمام ان کو مدینہ کی جانب روانہ کیا۔ (جلاء العیون
ص 531)
اور منہج ص 535 میں ہے کہ یہ دوسرا ماتم تھا جو باجازت یزید اہتمام سے ہوا۔
یزید کے مرنے کے بعد دوسرا شخص مختار بن عبید شیعہ ہے جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پیشین گوئی فرمائی ہے: (يَكُونُ فِي الثَّقِيفِ كَذَّابٌ)[1]
’’قبیلہ ثقیف میں ایک بہت چھوٹا شخص ہوگا‘‘
وہ مختار ثقفی ہے اس نے نبوت کا بھی دعوی کیا تھا۔ یہ حقیقت میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا سخت دشمن تھا، لیکن ظاہر میں ان کا محبت و خیر خواو و ہمدرد بنا ہوا تھا جب حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کی خبر موصول ہوئی تو اس نے لوگوں کو مجبور کیا کہ جو شخص حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ محبت رکھتا ہے وہ مرثیہ خانی نوحہ کرنا رونا پیٹنا وغیرہ رسوم کرئے۔ تب وہ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا محب بن سکتا ہے یہ کذاب ہمیشہ اپنی زندگی میں ایسی ہی فتیح باتوں پر لوگوں کو مجبور کرتا رہا حتی کہ 67ھ میں مصعب بن عمیر کی حکومت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]مسلم:312/2 کتاب فضائل الصحابه، باب ذكر كذاب ثقيف رقم الحديث:6496.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں قتل کر دیا گیا۔
تیسر ا شخص معز الدولہ ہے جس نے اول بغداد میں بزور حکومت عشرہ محرم میں نہایت دھوم دھام سے رسم ماتم منائی تھی اور تبرٰی وغیرہ کا اضافہ کیا۔ دیکھو تاریخ ابن خلدون ج 3 ص 425)
اور کامل ابن اثیر جلد دوم میں ہے کہ معز الدولہ نے دس محرم 350 ھ کو حکم دیا کہ سب دکانیں بند کر دی جائیں بازار اور خرید و فروخت کا کام روک دیا جائے لوگ نوحہ کریں اور کمبل کا لباس پہنیں، عورتیں پراگندہ بال اور گریبان چاک اور دوہتڑ مارتی ہوئیں شہر کا چکر لگائیں ۔ (کامل ابن اثیر ج 2 ص 197، تاریخ الخلفاء ص:278)
آنریل سید امیر علی سپرٹ آف اسلام انگریزی میں لکھتے ہیں معز الدولہ نے بیاد گار شہادت سیدنا
حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ و دیگر شہدائے کربلا یوم عاشوراء کو، ماتم کا دن مقرر کیا (ص:461)
اس کو مولوی اعجاز حسین شیعی بھی اپنی کتاب تخصیص مرقع کربلا ‎: 78، 79 میں بحوالہ تاریخ الخلفاء تسلیم کرتے ہیں کہ معز الدولہ پہلا بادشاہ مذہب امامیہ پر تھا جس نے یوم عاشورا کو بازار بند کر دیئے اور نانباائیوں کو کھانا پکانے کی ممانعت کر دی عورتیں سر کھولے نکلیں اور ماتم حسین کریں18 ذ والحجہ کو عید غدیر کی وغیرہ وغیرہ۔
یہ رسم ماتم عاشورہ کی مختصر داستان ہے جو بحکم یزید اس کے گھر سے شروع ہوئی اور مختار معز الدولہ نے اس کو ترقی دی، پھر شیعوں نے اس پر مذہبی رنگ چڑھایا اب عشرہ محرم میں شیعوں کے گھر گھر بس اسی کا جلوہ ہے کسی نے سچ کہا ہے:
رسم ماتم بنا یزید نمود
هر که آمد برآن مزید بود
جب شیعان کوفہ نے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کر دیا تو امام زین العابدین نے دیکھا کہ یہ لوگ رو رہے ہیں تو ان رونے والوں کے متعلق فرمایا:
(إِنَّ هَؤُلَاءِ يَبْكُونَ فَمَنْ قَتَلَنَا غَيْرُهُم.)
(احتجاج طبري ص: 156)
’’یہ لوگ رورہے ہیں حالانکہ ان ہی لوگوں نے ہم کو قتل کیا ہے۔‘‘
ان تمام تاریخی واقعات سے آپ کو بخوبی معلوم ہو گیا کہ باقاعدہ بدعت نوحہ و ماتم کی ایجاد چوتھی صدی میں ہوئی جو یقینًا جہنم میں لے جانے والی ہے اب چند حدیثوں کو بھی ملاحظہ فرما لیجئے جن سے معلوم ہوگا کہ نوحہ و ماتم شرعًا حرام اور گناہ کبیرہ ہے آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ :۔
(1) (لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْحُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ).[1]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: 173/1 کتاب الجنائز، باب ليس منا من ضرب الخدود رقم الحديث 1297)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جو ماتم کرتا ہوا اپنے رخسار اور منہ پیٹے، گریبان پھاڑے اور جاہلیت کی طرح پکارے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘
(2) (آنَا بَرِىٌ مِمَّنْ حَلَقَ وَ صَلَقَ وَ خَرَقَ).[1]
’’میں اس سے بیزار ہوں جو (ماتم میں) سر کے بال منڈائے یا بلند آواز سے روئے یا کپڑے پھاڑے۔‘‘
(3) (( ثِنْتَانِ فِي النَّاسِ هُمَا كُفْرٌ الطَّعْنُ فِي النَّسَبِ وَ النِّيَاحَةُ عَلَى الْمَيِّتِ).[2]
’’دو باتیں مسلمانوں میں کفر کی ہیں نسب میں طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا۔‘‘
اور ایسی ہی بہت سی حدیثیں ہیں جن سے ماتم اور نوحہ کی حرمت ثابت ہوتی ہے اور اس حرمت پر تمام امت کا اتفاق ہے چنانچہ حاشیہ مراقی الفلاح میں ہے۔
(وَقَدِ اجْتَمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلَى تَحْرِيمِ النَّوْحِ وَالدَّعْوَى بِدَعْوَى الجَاهِلِيَّةِ) [3]
’’تمام امت کا اس پر اتفاق ہے کہ نوحہ اور جاہلیت کی طرح پکار پکار کر رونا حرام ہے۔‘‘
علامہ ابن حجر مکی صواعق محرقہ میں فرماتے ہیں کہ اس بات کی بہت ہی تاکید ہے کہ انسان روافض کی بدعات میں مشغول ہونے سے پر ہیز کرے اسی طرح نوحہ وغم وغیرہ کرنے سے بھی بچے اس لئے کہ یہ تمام چیزیں ایمانداروں کے اخلاق کے خلاف ہیں اگر اس طرح کا نوحہ و ماتم جائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کا دن اس کے لئے زیادہ مناسب ہوتا۔
شاہ عبدالحق صاحب محدث دہلوی شرح سفر السعادت ص 673 میں فرماتے ہیں اہل سنت کا دستور یہ ہونا چاہئے کہ روز عاشورا، کو فرقہ رافضیہ کی نکالی ہوئی بدعتوں مثلا مرثیہ ماتم ونو حہ وغیرہ سے احتیاط کی جائے یہ کام مومنوں کے نہیں ورنہ اس غم والم کا سب سے زیادہ مقدار خود پیغمبرﷺ کا یوم وفات تھا۔
اور فتاوی رشیدیہ جلد اول ص 66 میں ہے کہ ذکر شہادت کا ایام عشرہ محرم میں کرنا مشابہت روافض کی وجہ سے منع ہے اور ماتم و نوجہ کرنا حرام ہے۔ لِمَا فِي الحَدِيثِ نهٰى عَنِ الْمَرَاثِی اور فتاوی مولانا عبدالحئی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ جلد دوم ص اس 31 میں اس ماتم و نوحہ کی کافی تردید موجود ہے اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ منہاج السنہ میں فرماتے ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاری: 173/1، کتاب الجنائز باب ما ينهى من الحلق عند المصيبة، رقم الحديث 1296.
[2] مسلم: 58/1 کتاب الايمان، باب اطلاق اسم الكفر على الطعن في النسب الخ. رقم 227.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَاقْبَحُ مِنْ ذَلِكَ وَأَعْظَمُ مِنْهُ مَا يَفْعَلُ الرَّافِضَهُ مِنَ اتِّخَاذِهِ مَاْتمَّا يُقْرَءُ فِيهِ الْمِصْرَعُ وَيُنْشَدُ قَصَائِدُ النِّيَاحَةِ وَ يَعْطِشُونَ فِيهِ أَنْفُسَهُمْ وَيَلْطِمُونَ الْخُدُودَ وَيَشْقُّوْنَ الْجُيُوتِ وَيَدْعُونَ فِيهِ دِعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ إِلَى أَنْ قَالَ مَا يُفْعَلُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ مِن اتِّخَاذِهِ بِدْعَةٌ أَشْنَعُ مِنْهَا وَهِيَ مِنَ الْبَدَعِ الْمَعْرُوفَةِ فِي الرَّوَافِضِ
’’اس سے بھی زیادہ جو اوپر بیان کیا گیا ہے فتیح اور گناہ کبیرہ ہے کہ رافضیوں نے اس دن (عاشوراء) ما تم بنا لیا ہے توجہ کے شعر و اشعار پڑھتے ہیں اور پیاسے رہتے ہیں اور رخساروں پر طمانچے تھپڑ مارتے ہیں گریبان اور کپڑا پھاڑتے ہیں اور کفار کی طرح چیختے چلاتے ہیں شیخ نے یہاں تک فرمایا: عاشورا کے دن میلا کرنا ناچنا کھیل تماشا وغیرہ کرنا بدعت ہے اور ماتم وغیرہ کرنا اس سے بری بات ہے۔ یہ رافضیوں کی مشہور بدعت ہے ۔ (منہاج السنہ)
بہر حال نوحہ و ماتم واویلا کرنا شرعا وعقلاً معیوب و مذموم ہے اور حضرت حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی وصیت کے بھی خلاف ہے کیونکہ آپ اپنی شہادت سے پہلے اپنے خیمہ میں تشریف لا کر تمام اہل بیت کو مخاطب فرما کر یہ وصیت فرماتے ہیں کہ:
أُوصِيكُنَّ إِذَا أَنَا قُتِلْتُ فَلَا تَشْفَقْنَ عَلَىَّ جَيْبًا وَلَا تَلْطَمْنَ عَلَىَّ خَدًّا وَلَا تَخْدَشْنَ عَلَىَّ وَجهًا، (اسوه حسين ص:23)
’’میں تمہیں یہ وصیت کرتا ہوں کہ جب میں دشمن کے ہاتھوں قتل کر دیا جاؤں تو تم میرے ماتم میں گریبان چاک نہ کرنا، نہ اپنے رخساروں پر طمانچے مارنا، نہ اپنے منہ کو زخمی کرنا۔
یہ ہے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی تعلیمی وصیت مگر افسوس آج کل جوان کی محبت کا دم بھرنے والے ہیں وہی ان تمام خرافات کرنے کو معیار محبت و عظمت قرار دیتے ہیں، نعوذ باللہ اس کے اثبات میں جو روایت پیش کی جاتی ہے وہ موضوع ہے اسی طرح غنیۃ والی روایت بھی موضوع ہے اور ام سلمہ کا خواب قابل حجت نہیں ہے۔
ماتم و سوگ کرنا مرد کے لیے کسی حالت میں درست نہیں ہے ہاں عورت کے لئے اپنے شوہر کی وفات کے بعد چار ماہ دس دن تک سوگ منانے کے بارے میں البتہ آیا ہے علاوہ شوہر کے اگر کوئی اس کے عزیزوں میں سے مر جائے تو صرف تین دن کے لئے اگر زینت وغیر ہ کو ترک کر دے تو جائز ہے اور تین دن کے بعد جائز نہیں جیسا کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ
(لايَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلٰى مَيْتٍ فَوْقَ ثَلَثَةِ أَيَّامٍ إِلَّا عَلٰى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا)[1]
’’جو عورت اللہ پر قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لئے جائز نہیں کہ میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے ہاں اپنے خاوند کے فوت ہو جانے پر چار ماہ دس دن سوگ کرے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان عورت کے لئے تین دن سے زیادہ سوگ و ماتم میں رہنا حرام ہے مگر اپنے شوہر کے لئے چار مہینے دس دن تک سوگ کرے اس سے زیادہ خاوند کی موت پر بھی سوگ کرنا حرام ہے۔ مردوں کے لئے تو کسی وقت کسی حالت میں سوگ درست نہیں ہے پس مرد و عورت دونوں کو سوگ میں رہنا، مثلاً عطر خوشبو کا نہ لگانا، رنگا ہوا کپڑا استعمال نہ کرنا، چوڑیاں وزیور نہ پہننا، شادی والے گھر نہ جانا، چالیس روز تک گوشت نہ کھانا، گھر میں سرکہ چارہ ڈالنا، سویاں نہ پکانا، ایک برس تک چارپائی پر نہ سونا یہ سب جاہلانہ رسمیں ہیں سوائے اس مدت کے جو اوپر بیان کی گئی ہے ہر قسم کا سوگ حرام ہے۔
عشرہ محرم میں لباس اور زینت کی چیزوں کو ترک کرنا
بعض لوگ عشرہ محرم میں زینت اور عمدہ لباس کو چھوڑ کر اظہار غم کرتے ہیں ننگے سر ننگے پاؤں ننگے بدن رہتے ہیں حالانکہ یہ سب جاہلیت کی رہیں ہیں۔
(اَفَبِفِعْلِ الْجَاهِلِيَّةِ تَأْخُذُونَ أَوْ بِصُنْعِ الْجَاهِلِيَّةِ تَشَبَّهُونَ).
’’کیا تم لوگ جاہلیت کا کام کرتے ہو یا جاہلیت کی ہم کی مشابہت کرتے ہو۔‘‘
آپ کا یہ فرمان سن کر لوگوں نے اپنی چادریں لے لیں اور اس کے بعد بھی اس قسم کی کوئی رسم نہیں کی۔ ( مسند احمد وابن ماجه)
اس حدیث سے صاف معلوم ہوا کہ کسی مصیبت میں یا سوگ کی وجہ سے لباس ترک کر کے ننگے سر ننگے پاؤں اور ننگے بدن رہنا درست نہیں بلکہ یہ اسلام سے پہلے کے زمانہ جاہلیت کی رسم ہے اس لئے مسلمانوں کو ان تمام رسموں سے بچنا چاہئے جو کفار کے اندر موجود ہوں یا ان کی رسموں سے ملتی جلتی ہوں بنا بریں معلوم ہوا کہ تعزیوں کے ساتھ جاہل مسلمانوں کا ننگے سر اور کرتے اتار کر ننگے بدن چلنا، جاہلیت کی رسموں میں سے ہے۔ اللہ تعالی مسلمانوں کو ان مشرکانہ رسموں سے بچائے اور صراط مستقیم پر چلائے۔ آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاری: 804/2، کتاب الطلاق، باب القسعد للحادة عند الطهر، رقم الحديث: 5341.
[2] ابن ماجه، کتاب الجنائز، باب ماجاء في النهي التسلب مع المجنارة. رقم الحديث: 1485.۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔