کسب حلال

الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ
( يَأَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ فَإِذَا قُضِيَّتِ الصَّلَوةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ
فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَكُمْ تُفْلِحُونَ) (الجمعة: 9 تا 10)
اللہ تعالی فرماتا ہے: ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو جمعہ کے دن جب نماز کی اذان دی جائے تو
تم اللہ کے ذکر کی طرف جلدی آیا کرو اور خرید و فروخت چھوڑ دیا کرو یہ تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے اگر تم کو سمجھ ہے پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ۔ اور خدا کا فضل تلاش کیا کرو اور کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کیا کرو تا کہ تم فلاح پاؤ۔ ‘‘
اللہ تعالی نے حیوانوں اور انسانوں کو پیدا کیا اور ان کی پرورش کی ذمہ داری خود اپنے ذمہ لازم ٹھہرائی ہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
﴿وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا﴾ (هود: (6)
’’زمین میں ہر چلنے پھرنے والے جانوروں کی روزی اللہ ہی کے ذمہ ہے۔‘‘
ایک اور جگہ فرمایا:
﴿إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينَ﴾ (الذاريات: 58)
’’بے شک اللہ تعالی ہی سب کو روزی دینے والا مضبوط طاقت والا ہے۔ ‘‘
اللہ تعالی ہی روزی کا سامان آسمان وزمین سے پیدا کرتا ہے آسمان سے بارش برساتا ہے اور زمین سے غلہ اگاتا ہے، چناچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
﴿وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ﴾ (سورة الذاريات: 22)
’’اور آسمان میں تمہاری روزی ہے (وہاں سے مینہ برساتا ہے) اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہے:
﴿وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَهُ بِرَازِقِينَ﴾ (سورة الحجر: 20)
’’اور ہم نے اس زمین میں تمہارے لئے روزی کے سامان بنائے ہیں اور ان کے لئے بھی جن کو تم روزی نہیں دیتے ہو ( بلکہ ہم ہی روزی دیتے ہیں‘‘
بے شمار جانوروں کو ان کے درجہ کے مطابق روزی اللہ تعالیٰ ہی پہنچا رہا ہے غور فرمائے صبح کے وقت پرندے اور جانور اپنے گھونسلوں اور بلوں سے بستیوں اور جنگلوں کی طرف نکلتے ہیں اور دن بھر اپنی روزی ادھر ادھر تلاش کر کے شام کو پیٹ بھر کر واپس ہوتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
لَوْ أَنَّكُمْ تَتَوَكَّلُوْنَ عَلَی اللَّهِ حَقَّ تَوَكَّلِهِ لَرَزَقَكُمْ كَمَا يُرْزَقُ الطَّيْرُ تَغْدُوا خِمَاصًا وَ تَرُوحُ بِطَانًا)[1]
’’اگر تم خدا پر کما حقہ اعتماد کر لو تو جس طرح وہ پرندوں کو روزی دیتا ہے اسی طرح تم کو بھی دے گا کہ دو صبح بھو کے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے واپس ہوتے ہیں۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالی مختلف پیشے والوں کو بھی روزی عنایت فرماتا ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے:
﴿نَحنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَات﴾ (سورة الزخرف:32)
’’ہم نے لوگوں کی روزیوں کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کر دیا ہے کسی کو درجے میں اونچا کر دیا ہے کسی کو اس سے کم‘‘
دوسری جگہ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
﴿اَللهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاءُ وَيَقْدِرُ﴾ (سور الرعد: 26)
’’اللہ تعالیٰ جس کی روزی کو کشادہ کرنا چاہتا ہے کشادہ کر دیتا ہے اور جس کی روزی کم کرنا چاہتا ہے کم کر دیتا ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]مسند احمد: 1/ 52،30 و ترمذی 3/ 268 كتاب الزهد باب ما جاء في الزهادة في الدنيا رقم
الحديث: 2344۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزی کی کمی بیشی میں خاص حکمت اور مصلحت ہے زیادہ روزی پانے والے کو اللہ تعالی آزماتا ہے کیونکہ اس کے مال میں دوسرے لوگوں کا بھی حق ہے وہ صرف تن تنہا اس کو استعمال نہیں کر سکتا اور تنگ روزی پانے والے کا بھی امتحان لیتا ہے کہ وہ روزی کی تنگی میں کتنے ثابت قدم رہتے ہیں ہر شخص کو اپنی طاقت اور ہمت کے مطابق روزی تلاش کرنے میں جدو جہد کرنا ضروری ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَأَنْ لَّيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعٰى﴾ (النجم: (39)
’’انسان کو جو کچھ ملتا ہے دو اس کی سعی اور کوشش سے ملتا ہے۔‘‘
قرآن مجید میں متعدد جگہ کوشش اور محنت کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ آپ پہلی آیت میں سن چکے ہیں اور سورہ مزمل میں ارشاد فرمایا ہے۔
﴿وَاخَرُوْنَ يَضْرِبُوْنَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللهِ﴾ (سورة المزمل:20)
’’اور کچھ ایسے ہیں جو زمین میں چلتے پھرتے ہیں اور اللہ کے فضل یعنی روزی کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
﴿وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ وَ إِلَيْهِ النَّشُوْر﴾ (سورة الملك: 15)
’’وہ اللہ جس نے تمہارے لیے زمین کو مسخر کر دیا کہ تم اس کے راستوں میں چلو اور اس کی دی ہوئی روزی میں سے کھاؤ اور اسی کے پاس مرنے کے بعد زندہ ہو کر جانا ہے۔‘‘
حلال کی کمائی
حلال طریقے سے روزی کھانا اور رزق کی تلاش کرنا فرض ہے اسلام نے اس کی بڑی تاکید کی ہے اللہ تعالیٰ کے نبیوں اور رسولوں اور نیک بندوں نے حلال طریقے سے روزی کمائی ہے روزی دو طرح سے حاصل کی جاتی ہے ایک حلال طریقہ ہے دوسرے حرام ذریعہ سے حرام ذریعہ سے روزی حاصل کرنا بہت ہی برا ہے، جس کو ہر شخص جانتا ہے حلال کمائی کی بری بزرگی دین و دنیا کی سعادت اس میں پوشیدہ ہے حلال کمائی کرنے والا سب کی نظروں میں محبوب سمجھا جاتا ہے خدا بھی اس کو اپنا پیارا بنا لیتا ہے جو عبادت کرتا ہے اس کو قبول فرما لیتا ہے حرام کھانے والے کی کوئی عبادت قبول نہیں کی جاتی۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا وَإِنَّ اللهَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ فَقَالَ يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا كُلُوْا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَكُمْ ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ یَارَبِّ يَارَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَ مَشْرَبَهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُدِى بِالْحَرَامِ فَأَنّٰى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ)[1]
’’یقینا اللہ تعالی پاک ہے اور پاک ہی کو قبول فرماتا ہے اللہ تعالی نے جو نبیوں اور رسولوں کو حکم دیا ہے وہی عام مسلمانوں کو بھی حکم دیا ہے چنانچہ فرمایا: اے رسولو! تم پاکیزہ چیزوں کو کھاؤ اور اچھے کام کرو اور فرمایا اللہ تعالی نے: اے ایمان والو! ان پاک چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تم کو دی ہیں پھر رسول اللہﷺ نے اس آدمی کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے پراگندہ حال گرد آلود اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف کئے ہوئے کہتا ہے کہ اے میرے رب ا یعنی گڑ گڑا کر دعا مانگتا ہے ہے کہ خدایا تو ایسا کر، یہ دے، وہ دے۔ حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے پینا حرام ہے اور اس کا پہننا حرام ہے اور حرام مال ہی سے اس کی پرورش ہوتی ہے تو اس کی دعا کس طرح قبول کی جائے گی۔‘‘
اس حدیث کا مطلب بالکل صاف ہے کہ دعا اور عبادت کی قبولیت حلال روزی کے استعمال کرنے پر موقوف ہے اس لئے کہا جاتا ہے کہ دعا کے دو بازو ہیں ایک اکل حلال دوسرے صدق مقال یعنی حلال اور پاکیزہ کمائی اور سچ بولنا۔
حرام مال میں سے صدقہ کرنے سے صدقہ قبول نہیں ہوتا۔ اللہ تعالی پاک ہے اور پاک وصاف کو قبول فرماتا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے۔
لَا تُقبْلُ صَلٰوةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ وَلَا صَدَقَةٌ مِنْ غُلُولٍ)[2]
’’ بغیر پاکیزگی کے نماز قبول نہیں ہوتی اور حرام مال سے صدقہ بھی قبول نہیں ہوتا‘‘
یعنی حلال کمائی کا صدقہ قبول کیا جاتا ہے اور حرام کمائی کا صدقہ بھی قبول نہیں ہوتا۔ جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحيح مسلم: 326؍1 كتاب الزكاة بات قبول الصدقة من الكسب الطيب وتربيتها رقم
الحديث:2346۔
[2] صحيح مسلم: 119/1 كتاب الطهارة باب وجوب الطهارة للصلاة رقم الحديث: 535۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ۪ وَ لَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْهِ اِلَّاۤ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِ ؕ ﴾ (سورة البقرة: 367)
’’اے ایمان والو! اپنی حلال کمائی میں سے خرچ کرو اور جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے پیدا کیا ہے اس میں سے خرچ کرو اور حرام مال اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا ارادہ مت کرو اور خود تم اس خراب مال کو نہیں لو گے یہ کہ تم چشم پوشی کر جاؤ تو دوسری بات ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے خبیث اور مال حرام کے خرچ کرنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ حرام مال خبیث اور ناپاک ہے وہ گناہ کو پاک وصاف نہیں کر سکتا۔
حرام مال سے پلا ہوا گوشت جہنم میں جلایا جائے گا۔
(لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ لَحْمٌ وَدَم نَبَتَا عَلَى سُحْتِ، النَّارُ أَوْلَى بِهِ)[1]
’’جنت میں وہ گوشت اور خون داخل نہیں ہوگا جو حرام سے پلا ہوگا اس کے لئے تو دوزخ ہی مناسب ہے۔‘‘
کمائی میں حلال اور حرام کا خیال رکھنا چاہئے
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(يَأتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يُبَالِي الْمَرْءُ مَا أَخَدَ اَمِنَ الْحَلَالِ أَمْ مِنَ الْحَرَامِ)[2]
’’لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ آدمی کو اس کی پروا نہیں ہوگی کہ روزی حلال طریقے سے کمائی ہے یا حرام ہے۔‘‘
اور آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے:
حرام روزی سے بچنا چاہئے جو لوگ حرام روزی کھاتے ہیں وہ خدا کے نزدیک بے حیا اور بے شرم ہیں قیامت کے دن ان سے سخت باز پرس ہوگی کہ روزی کہاں سے کمائی ہے اور کہاں خرچ کی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(مَا تَزَالُ قَدَمًا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيمَةِ حَتَّى يُسْئِلَ عَنْ أَرْبَعٍ عَنْ عُمْرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ وَعَنْ شَبَابِهِ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] جامع ترمذی: 416/1 كتاب الصلاة باب ما ذكر في فضل الصلوة رقم الحديث:614۔
[2] بخاري: 276/1 كتاب البيوع باب من لم يبال من حيث كسب المال رقم الحديث: 2059-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فِيْمِا اِبْلاهُ وَعَنْ مَالِهِ مِنْ ایْن اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ انْفَقَهُ وَعَنْ عِلْمِهِ مَاذَا عَمِلَ فِيْهِ)[1]
’’قیامت کے دن بندے کے قدم نہیں ہٹ سکتے۔ جب تک چار چیزوں کے متعلق پوچھ کچھ نہ ہو جائے ۔ (1) عمر کہاں گنوائی (2) جوانی کہاں برباد کی (3) مال کو کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ (4) اور جو علم سیکھا تھا اس پر کیا عمل کیا۔
جس طرح حرام سے بچنا ضروری اسی طرح شک و شبہ کی کمائی اور مشکوک مال سے بھی بچنا ضروری ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور اس حلال و حرام کے بیع میں بعض شبہ والی چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ آیا وہ حلال ہیں یا حرام ہیں، جو بعض شک و شبہ والی چیزوں سے بچا اس نے اپنے دین (عزت کو) بچا لیا اور جو ان شبہ والی چیزوں میں پڑ گیا تو اسکی مثال اس چرواہے جیسی ہے جو شاہی چرا گاہ کے پاس اپنے جانوروں کو چرائے قریب ہے کہ کوئی جانور اس میں گھس جائے۔ خبر دار! ہر ایک بادشاہ کی ایک مخصوص چراگاہ ہے جس میں دوسرے کے جانوروں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے سن تو اللہ تعالیٰ کی چراگاہ میں یعنی اس کی زمین اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں خبر دار! جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جب وہ درست رہا تو سارا جسم درست رہا۔ اور جب وہ خراب ہو گیا تو سارا جسم خراب ہو گیا اسن اور وہ دل ہے۔ [2]
یعنی دل میں تقویٰ اور ڈر ہونا چاہئے اگر خدا کے خوف سے حرام اور شک والی چیزوں کو چھوڑ دے تو وہ نیک شمار ہوگا اور اگر بے خوف ہو کر حرام اور شبہ والی چیزوں کو استعمال کرے تو اچھا نہیں سمجھا جائے گا اصل پرہیز گاری یہی ہے کہ شک و شبہ والی چیزوں کو بھی چھوڑ دیا جائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شک و شبہ والی چیز کو چھوڑ کر وہ کام کرو جس میں شک و شبہ نہ ہو۔
مکر و فریب اور جھوٹ سے اور اصلی چیزوں میں نقلی ملا کر فروخت کر کے روزی کمانا سخت گناہ ہے اور ایسا کرنے والا مسلمان نہیں ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا)[3]
’’جو ہم کو غریب دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] شعب الايمان 286/2 رقم الحديث: 1785۔
[2] صحیح بخاري: 1/ 275 كتاب البيوع باب الحلال بين و الحرام بين و بينهما مشتبهات رقم الحديث: 2051۔
[3] صحیح مسلم: 1/ 70 کتاب الايمان باب قول النبيﷺ من غشنا فليس منا رقم الحديث: 283۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دین خیر خواہی کا نام ہے لین دین کرنے والے آپس میں ایک دوسرے کے ہمدرد اور خیر خواہ رہیں تب دونوں کے معاملہ میں برکت رہے گی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(فَإِنْ صَدْقًا وَبَيَّنَا بُوْرِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا وَإِنْ كَتَمَا وَكَذبَا مُحِقَّتْ بَرَكَةُ بيعهما)[1]
’’اگر بیعنے خرید نے والے سچ سچ بولیں اور اپنی چیزوں کے عیب و نقصان کو بیان کر دیں تو دونوں کے معاملہ میں برکت ہوگی اور اگر عیب پوشی کریں اور جھوٹ بولیں تو ان کی سوداگری میں برکت نہیں ہوگی۔‘‘
اور آپ نے ایک شخص کو فرمایا تھا کہ جب سود بیعو تو لا خلابة،[2] کہہ دیا کرو۔ کہ دھوکا بازی نہیں ہے اور نہ ہمیں کوئی فریب نقصان دے اور نہ ہم کسی کو دھوکا دیں جیسا کہ دوسری حدیث میں فرمایا (بیع المُسْلمِ المُسلِمَ)[3] بیچنا مسلمان کا مسلمان سے ہے ۔ یعنی ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو دھوکہ نہیں دیتا ہے دین خیر خواہی کا نام ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
(الدِّينُ النَّصِيحَة) [ 4]
حافظ ابن حجر سے اس حدیث کی شرح میں حضرت جریر رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ فتح الباری میں لکھا ہے کہ ان کے غلام نے تین سو روپے میں ایک گھوڑ ا خریدا جب حضرت جریر نے اس گھوڑے کو دیکھا تو بائع سے کہا تمہارا گھوڑا تین سو سے بہتر ہے قیمت میں اضافہ فرماتے رہے یہاں تک کہ آٹھ سو روپے عنایت فرمائے۔
اللہ کے نیک بندوں نے اپنے ہاتھوں سے کما کر کھایا پیا ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(ما أكل أحَدٌ طَعَامًا قَط خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدَيْهِ وَإِنَّ نَبِيُّ اللَّهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامَ كَانَ يَأْكُلْ مِنْ عَمَلٍ يَدَيْهِ)‘‘[5]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]صحیح بخاري: 279/1 كتاب البيوع باب ما يمحق الكذب والكتمان في البيع رقم الحديث2082۔
[2] صحیح بخاري: 284/1 كتاب البيوع باب ما يكره من الخداع في البيع رقم الحديث: 2117۔
[3] صحیح بخاري: 279/1 کتاب البیوع باب نمبر 19 اذا بين البيعان ولم يكتما و نصحا (تعليقا) و ترمذی: 229/2 کتاب البيوع باب ما جاء في كتابة الشروط رقم الحديث: 1216
[4] صحیح بخاري: 1/ 13 کتاب الايمان باب قول النبي ﷺ الدين النصيحة (تعليقا) وصحیح مسلم: 1/ 54 كتاب الإيمان باب بيان أن الدين النصيحة رقم 196
[5] صحیح بخاري: 1/ 278 كتاب البيوع باب كسب الرجل و عمله بيده رقم الحديث: 2072
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے ہاتھ سے کما کر کھا نا سب کھانوں سے بہتر ہے اور اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتے تھے۔‘‘
اور آپﷺ نے سچی تجارت کے متعلق فرمایا:
(التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِقِينَ وَالشُّهَدَاءِ)[1]
’’سچا امانت دار تاجر قیامت کے دن نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔‘‘
اس کو ہم خرما وہم ثواب کہتے ہیں، دنیا میں روزی ملی اور قیامت میں جنت ملی اور ایسے پاکباز لوگوں کی رفاقت ملی اس سے بڑھ کر اور کیا شرافت و سعادت ہو سکتی ہے قرآن مجید میں بھی تجارت اور اکل حلال کی بڑی اہمیت بتائی گئی ہے۔
اکثر صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کا پیشہ تجارت تھا اور ان کو تجارت کے معاملہ میں مہارت تامہ حاصل تھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بڑے تاجر تھے تجارتی کاروبار میں زیادہ مصروف رہنے کی وجہ سے دربار رسالت میں زیادہ تر نشست و برخاست کا موقع نہیں پاتے تھے اس لئے حدیثیں ان سے بہت کم مروی ہیں اس کا انہیں خود اعتراف ہے
چنانچہ فرماتے ہیں۔ أخْفَى عَلَّى مِنْ أَمْرِ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَلْهَانِي الصَّفْقُ بِالأسوَاقِ)[2]
’’رسول اللہﷺ کی حدیثیں مجھ سے اس وجہ سے مخفی رو گئیں کہ میں تجارت کے کاروبار میں زیادہ مشغول رہتا تھا۔‘‘
آپ کا تجارتی کاروبار اس قدر پھیلا ہوا تھا کہ دوسرے ملکوں کے بازاروں میں ان کی نکاسی ہوتی تھی۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کپڑوں کی تجارت کرتے تھے۔ خود فرماتے ہیں۔
(لَقَدْ عَلِمَ قَوْمِي أَنَّ حِرْفَتِي لَمْ تَكُنْ تَعْجِزُ عَنْ مَئُونَةِ أَهْلِي الخ)[3]
’’میری قوم خوب جانتی ہے کہ میرا کاروبار میرے اہل و عیال کی کفالت سے عاجز نہیں ہے۔‘‘
حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ بہت بڑے سوداگر تھے اسلام لانے سے پہلے تجارت کرتے تھے اسلام قبول کرنے کے بعد جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں بھی تجارتی کاروبار شروع کیا اس سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] جامع ترمذی: 227/2 كتاب البيوع باب ما جاء في التجارة و اسمية النبي ﷺ اياهم. رقو الحديث: 1209-
[2] صحیح بخاري: 1/ 277 كتاب البيوع باب الخروج في التجارة رقم الحديث: 2062
[3] صحیح بخاری 1/ 278 كتاب البيوع باب كسب الرجل و عمله بيده رقم الحديث: 2070.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کو بہت فائدہ ہوا حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ تعالی عنہ کو بھائی بھائی بنایا تو سعد رضی اللہ تعالی عنہ مال دار تھے انہوں نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ میں اپنے مال کا آدھا حصہ تم کو دیتا ہوں، تمہیں ہر طرح کے تصرف کا حق ہے اس پر حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
(بَارَكَ اللهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ دُلُّوْنِي عَلَى السُّوقِ)[1]
’’ اللہ آپ کے اہل وعیال اور مال میں برکت دے تم مجھے بازار کا رستہ بتا دو (میں تجارت کر کے اپنی روزی پیدا کرلوں گا۔)‘‘
چنانچہ انہوں نے بازار میں سودا بیچنا شروع کیا جس سے ان کو تھوڑے ہی عرصہ میں اتنا فائدہ ہوا کہ وہ دوسروں سے بے نیاز ہو گئے۔
زراعت
کسب حلال جس طرح تجارت اور دیگر صنعت و حرفت سے حاصل ہوتا ہے اسی طرح کھیتی باڑی اور باغبانی سے بھی حلال کمائی حاصل کی جاتی ہے چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے شریعت کے مطابق کھیتی کرنے اور باغ لگانے کی بڑی تعریف فرمائی ہے۔
(مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ إِلَّا كَانَ لَهُ صَدَقَةٌ)[2] .
’’جو مسلمان کوئی درخت لگائے یا کھیتی کرنے اس میں سے کوئی پرندہ یا انسان یا کوئی جانور کھائے تو اس باغ لگانے والے یا کھیتی کرنے والے کو صدقہ کا ثواب ملے گا۔‘‘
گویا یہ انسان تمام انسانوں اور حیوانوں پر صدقہ کر رہا ہے اور سب اس کے صدقے کو کھا رہے ہیں اس زراعتی پیشہ میں کوئی شرم اور بے عزتی کی بات نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں نے یہ پیشہ اختیار کر کے حلال روزی حاصل کی ہے اس زراعتی کام کو خدا نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے جیسا کہ اللہ نے ارشاد فرمایا:
﴿أَفَرَءَیْتُم مَّا تَحْرُثُوْنَ أَنتُمْ تَزْرَعُوْنَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُوْنَ﴾ (الواقعة : 23،24)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح بخاري: 274/1 كتاب البيوع باب ما جاء في قول الله عز و جل فاذا قضيت الصلاة. رقم الحديث: 2049۔
[2] صحیح بخاري: 2/ 889 كتاب الادب باب رحمة الناس والبهائم رقم الحديث: 6012۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یہ بتاؤ کہ جو کچھ تم بوتے ہو، اسے تم اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں۔‘‘
یعنی زمین میں جو کچھ بوتے ہو، دانہ لگانا ہمارا کام ہے تمہارا کام نہیں ہے کھیتی کا پیشہ نہایت حلال پیشہ ہے بشرطیکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو اور نہ خدا کی عبادت میں کسی قسم کی کوتاہی ہو جو اس کا شتکاری کے کاروبار میں حد سے زیادہ مصروف ہونے کی وجہ سے عبادت الہی کو نہ بجالائے اور حقوق انسانی کی نگہداشت بھی نہ کرے وہ شرعی مجرم ہے نیز دوسرے کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنے والے بہت برے ہیں قیامت کے دن ان پر سخت عذاب ہوگا اور ان زمینوں کا ہار اس کے گلے میں ڈالا جائے گا۔
اللہ تعالی ہم سب کو دوزخ کے عذابوں اور دنیا کے فتنوں بلاؤں سے بچائے اور نیک عملوں کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
(اَقُوْل قَوْلِي هٰذَا وَاسْتَغْفِرُ اللهَ لِي وَلَكُمْ وَلِسَائِرِ الْمُسْلِمِينَ وَاٰخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ إِلَهَ الْحَقِّ) (آمين)
……………………………………