حقوق الوالدین
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ ﴿ وَ قَضٰی رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ؕ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا۲۳ وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ۲۴﴾ (بنی اسرائیل: 23 – 24)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور تیرے رب نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کو مت پو جو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو تم ان کو اونھ، اف بھی مت کہو اور نہ ان پر خفا ہو اور نہ ان کو جھڑ کو اور ان سے ادب، عزت اور نرم لہجہ میں بات چیت کرو اور ان کے لئے اطاعت کا بازو محبت سے بچھا دو اور کہو اے پروردگار! تو ان کی کمزوری میں ان پر ایسا ہی رحم فرما جس طرح انہوں نے میرے بچپن میں مجھے مہربانی سے پالا پوسا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ مربی حقیقی ہے والدین یعنی ماں باپ مربی حجازی ہیں اور پرورش کرنے والے ہیں اولاد پر ماں باپ کا بڑا احسان ہے کہ بچپن سے بچوں کی پرورش کرتے اور پالتے ہیں اور اس سلسلہ میں ہر قسم کی تکلیفیں اٹھاتے ہیں، اس لئے اولاد پر حق ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کی خدمت کریں اور ہر طرح سے آرام پہنچانے کی کوشش کریں اور کسی قسم کی تکلیف نہ دیں اس خدمت گزاری کو اللہ تعالیٰ نے فرض کر دیا ہے جیسا کہ مندرجہ بالا آیت میں فرمایا ہے۔
والدین کی اطاعت اور خدمت گزاری فرض ہے اگر وہ کافر مشرک بھی ہوں تب بھی ان کی دنیاوی خدمت کی جائے لیکن شرک اور کفر کے متعلق ان کی بات قابل تسلیم نہ ہوگی جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
(1) ﴿ وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا ؕ وَ اِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ؕ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۸ ﴾ (عنكبوت (8)
’’اور ہم نے انسان کو بتنا دیا۔ کہ ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور اگر وہ تجھ کو مجبور کریں کہ خدا کے ساتھ اس کو شریک کر جس کا تجھ کو علم نہیں ہے۔ تو تو ان کا کہا نہ مان، سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے اور تم کو تمہارے کرتوت سے آگاہ کروں گا۔‘‘
اور دوسری جگہ فرمایا:
(2) ﴿ وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ ۚ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰی وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَ ؕ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ۱۴ وَ اِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰۤی اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۙ فَلَا تُطِعْهُمَا وَ صَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا ؗ ﴾ (سورة لقمان: 15۔14)
’’اور ہم نے انسان کو جتا دیا کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اس کی ماں نے اس کو تھک تھک کر پیٹ میں رکھا اور دو سال میں اس کا دودھ چھڑایا کہ وہ میرا اور اپنے ماں باپ کا احسان مانے میرے ہی پاس پھر آنا ہے اگر وہ دونوں تجھ کو اس پر مجبور کریں کہ میرے ساتھ اس کو شریک کر جس کو تو نہیں جانتا تو ان کا کہنا نہ مان اور دنیا میں ان کے ساتھ بھلائی سے گزران کر۔‘‘
جو لوگ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں ان کی خدمت بجالاتے ہیں اور ان کے لئے خدا سے دعائے خیر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس نیکی کے بدلہ میں ان کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے اور اپنی خوشنودی کی لازوال دولت ان کو عطا فرماتا ہے:
(3) ﴿ وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًا ؕ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّ وَضَعَتْهُ كُرْهًا ؕ وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا ؕ حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ بَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً ۙ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ ؕۚ اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْكَ وَ اِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۱۵ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَ نَتَجَاوَزُ عَنْ سَیِّاٰتِهِمْ فِیْۤ اَصْحٰبِ الْجَنَّةِ ؕ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِیْ كَانُوْا یُوْعَدُوْنَ۱۶﴾ (سورة الاحقاف: 15 – 16)
’’اور ہم نے انسان کو تاکید کر کے کہ دیا کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا اس کی ماں نے اس کو تکلیف کر کے پیٹ میں اٹھایا اور تکلیف کر کے جنا اور تیس مہینوں تک اس کو بیٹ میں رکھا اور دودھ چھڑایا یہاں تک کہ وہ بچے سے بڑھ کر جوان ہوا اور چالیس برس کا ہوا اس نے کہا کہ میرے پروردگار! مجھ کو تو فیق دے کہ تیرے اس احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیا اور اس کی کہ میں وہ کام کروں جس کو تو پسند کرے اور میری اولاد کو نیک کر میں تیری طرف لوٹ کر آیا اور میں تیرے فرمانبرداروں میں سے ہوں، یہی وہ ہیں جن کے اچھے کام ہم قبول کرتے ہیں اور برے کاموں سے درگزر کرتے ہیں یہ جنت والوں میں ہوں گے یہ سچائی کا وعدہ ہے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا۔‘‘
نبی ﷺ نے اس کی مزید تاکید فرمائی ایک شخص نے آ کر آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا تیری ماں، تین دفعہ آپ نے یہی جواب دیا چوتھی دفعہ اس نے پھر پوچھا؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تیرا باپ۔ [1]
خدا نے ماؤں کی نافرمانی حرام کر دی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمُ عُقُوقَ الْأُمَّهَاتِ.)[2]
’’خدا نے ماؤں کی نافرمانی تم پر حرام کر دی ہے۔‘‘
اور فرمایا کہ ماں باپ کا نافرمان جنت میں داخل نہیں ہوگا:
(ثَلثَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ اَلْعَاقُ لِوَالِدَيْهِ وَالدَّيُّوثُ وَالرَّجُلَةُ)[3]
’’تین قسم کے لوگ جنت میں داخل نہیں ہونے پائیں گے (1) ماں باپ کا نافرمان (2) دیوث
(3) مردوں سے مشابہت کرنے والی عورت ۔“
اسلام میں مخلوقات انسانی میں والدین اور ماں باپ کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ یہی دونوں تخلیق انسانی کی ظاہر علت مادی ہیں، لیکن ان میں ماں کو باپ سے زیادہ تفوق اور برتری حاصل ہے، کیونکہ ماں نے اپنے بچے کو اپنا خون پلا پلا کر بڑھایا اور نو مہینے اس کی مشکل سہہ کر اور سختی اٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا اور پھر اس سے جننے کی ناقابل برداشت تکلیف کو ہنسی خوشی برداشت کیا پھر اس نو پید مضغہ گوشت کو اپنی چھاتیوں سے لگا کر اپنا خون پانی ایک کر کے پلایا اور اس کی پرورش اور غور و پرداخت میں اپنی ہر راحت قربان اپنا ہر آرام ترک اور اپنی ہر خوشی نثار کر دی ایسی حالت میں کیا ماں سے بڑھ کر انسان اپنے وجود میں مخلوقات میں کسی اور کا محتاج ہے؟ اسی لئے شریعت محمدی نے اپنی تعلیم میں جو بلند سے بلند مرتبہ اس کو عنایت کیا ہے وہ اس کی سزاوار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب الادب* باب البر والصلة.
[2] بخاري: کتاب الاستقراض باب ما ينهي عن اضاعة المال.
[3] نسائي: کتاب الزكواة باب المنان بما أعطى: 292/1 (2563)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں کے ساتھ جو دوسری ہستی بچہ کی تولید و تکوین میں شریک ہے وہ باپ ہےاور اس میں شک نہیں کہ اس کی نشوونما اورتربیت میں ماں کے بعد باپ ہی کی جسکانی اور مالی کوششیں شامل ہیں اس لیے جب بچہ ان کی محنتوں اور کوششوں سے قوت کو پہنچے تو اس پر فرض ہے کہ اپنے ماں باب سے حاصل کی ہوئی قوت کا شکرانہ ماں باپ کی خدمت کی صورت میں ادا کرے، چنانچہ اسلام نے نہ صرف پہلے صحیفوں کی طرح ان کی عزت کرنے، اور ان کی نافرمانی سے ڈرتے رہنے کے وعظ پر اکتفا کی بلکہ ان کی خدمت ان کی اطاعت اور ان کی امداد، ان کی دلدہی وغیرہ ہر چیز فرض قرار دی، بلکہ یہاں تک کہ ان کی بات پر اف تک نہ کرو، ان کے سامتے ادب سے جھکے رہو، ان کی دعاؤں کو اپنے حق میں قبول سمجھو، ان کی خدمت انسان کا سب سے بڑا جہاد ہے بلکہ ان ہی کی خوشنودی سے خدا کی خوشنودی ہے جیساکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
(رضی الرب فی رضی الوالد و سخط الرب فی سخط الوالد)[1]
’’خدا کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور خدا کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے۔‘‘
ماں باپ کی اطاعت و معصیت چونکہ خدا کے حکم سے ہی ہے اس لیے ان کی اطاعت خدا کی اطاعت اور ان کی نافرنی خدا کی نافرمانی ہے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(الوالد اوسط ابواب الجنة فان شئت فحافظ علي الباب او ضيع)[2]
’’باپ جنت کے دروازوں کا عمدہ ترین دروازہ ہے یعنی بہشت میں جانے کا سبب باپ کی رضا مندی کی نگہداشت ہے تو جو بہشت میں بہترین دروازے میں جانا چاہتا ہے اسے باپ کی رضا مندی کی نہگداشت کرنی چاہیے۔‘‘
اسلام میں جہاد کی اہمیت جو کچھ ہے وہ ظاہر ہے مگر والدین کی خدمت گزاری کا درجہاس سے بھی بڑھ کر ہے، ان کی اجازت کے بغیر جہاد بھی جائز نہیں، کہ جہاد کے میدان میں سر ہتھیلی پر رکھ کر جانا ہوتا ہے اور ہر وقت جان جانے کا امکان رہتا ہے اس لیے والدین کی اجازت کے بغیر ان کو اپنے اس جسم و جان کو کھونے کا حق نہیں ہے جس کو ان کی خدمت گزاری کےلئے وقف ہونا چاہیے تھا اس لیے حدیث شریف میں ہے کہ جاہمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ عرض کیا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذي: كتاب البر و الصلة باب الفضل في رضا الوالدين: 116/3، مستدرك حاكم: 151، 152/4.
[2] ترمذي: كتاب البر و الصلة باب ماجاء في فضل بر الوالدين: 116/3
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(يا رسول الله ودت ان اغزو و قد جئت استشيرك فقال هل لك من ام قال نعم قال فالزمها فان الجنة تحت رجلها)[1]
’’ یارسول اللہ! ﷺ میں جہاد کرنا چاہتا ہوں اور آپ کے پاس مشورہ لینے کی غرض سے حاضر ہوا ہوں۔ فرمایا: کیا تیری والدہ موجود ہے. عرض کیا: ہاں۔ فرمایا اس کی خدمت میں حاضر رہنے کو لازم پکڑلے کیونکہ جنت اس کے قدموں کے پاس ہے۔‘‘
افضل اعمال میں نماز کے بعد والدین کی خدمت گزاری کا درجہ ہے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا:
(أي الأعمال افضل الي الله؟ قال الصللة لوقتها، قلت ثم ايٌ؟ قال بر الوالدين ، قلت ثم أيٌ؟ قال الجهاد في سبيل الله)[2]
’’کہ خدا کو کون سا عمل سب سے پسندیدہ ہے؟ فرمایا: وقت پر نمار پڑھنا ہے میں نے عرض کیا پھر کو نسا عمل ہے؟ فرمایا: ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا، مین نے کہا پھر کونسا؟ فرمایا راہ خدا میں جہاد کرنا۔‘‘
ماں باپ کی نافرمانی گاہ کبیرہ اور حرام ہے اور ماں باپ کا نافرمان جنت میں نہیں جائے گا۔ اس لیے کسی صورت میں بھی ماں باپ کی نافرمانی نہیں کرنی چاہئیے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
(أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات قال : (( لا تشرك بالله شيئا وإن قتلت وحرقت ، ولا تعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك ، ولا تتركن صلاة مكتوبة متعمداً ، فإن من ترك صلاة مكتوبة متعمداً ، فقد برئت منه ذمة الله ولا تشربن خمراً ، فإنه رأس كل فاحشة وإياك والمعصية ، فإن بالمعصية حل سخط الله عز وجل ، وإياك والفرار من الزحف ، وإن هلك الناس وإذا أصاب الناس موتان وأنت فيهم فاثبت وأنفق على عيالك من طولك ، ولا ترفع عنهم عصاك أدبا وأخفهم في الله )) . مسند الإمام أحمد : 5/238 .)
’’ رسول اللہ ﷺ نے مجھے دس باتوں کی وصیت فرمائی(1) اللہ تعالی کے ساتھ کسی حالت میں کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراؤ آگرچہ تم کو مار ڈالا جائے اور جلا دیا جائے۔ (2) ماں باب کی نافرمانی نہ کرنا اگرچہ تم ………..مال و دولت چھوڑ دو۔ (3) اور فرض نماز کو قصدا نہ چھوڑنا ……………. اللہ تعالی اس سے بری ہے نبعنی حدا کا امن باقی نہیں رہتا۔ (4) اور شراب نہ پینا شراب تمام برئیوں کی جڑ ہے (5) گناہ سے اپنے آپ کو بچائے رہو۔ کیونکہ گناہ کے ساتھ اللہ تعالی کا غصہ اترتا ہے۔ (6) اور کافروں کی لڑائی کے دن بھاگنے سے بچنا جبکہ لوگ مر رہے ہوں (7) اور جب لوگوں میں بیماری پھیل جائے تو تم ان لوگوں میں موجود ہو تو تم وہاں ٹھہرے رہو، یعی موت کے خوف سے وہاں سے نہ بھاگنا۔ (8) اپنے کنبے کے لوگوں پر اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرو (9) او ادب کی لاٹھی ان سے نہ اٹھاؤ یعنی اپنے بال بچوں کو ادب سکھاؤ اسی ادب میں اگر لاٹھی سے مارنے کی نوبت آ جائے تو ادب سکھانے کے لیے ان کومارو۔ (10) اور خداکے بارے میں ان کو ڈراؤ۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین شخصوں کی طرف اللہ تعالی رحمت کی نظر سے نہ دیکھے گا۔ (1)والدین کے نافرمان کی طرف (2) شراب پینے والے کی طرف (3) احسان جتلانے والے کی طرف۔ [1]
اور آپ ﷺ نے فرمایا ماں باپ کو گالی دینے والے پر خدا کی لعنت برستی ہے لعن اللہ من سب والدیہ[2]
ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے اور ان کی خدمت گزاری کرنے سے اللہ تعالی دنیا و آخرت کی مصیبتوں دور کرتا ہے ایک بار نبی ﷺ نے والدین کی اطاعت کے ثواب کو ایک نہائت مؤثر حکایت میں بیان کیا کہ تین افراد ایک پہاڑ پر چڑھ رہے تھے اتنے میں موسلا دھار بارش برسنے لگی تینوں نے بھاگ کر ایک غار میں پناہ لی ایک چٹان اوپر سے گری کہ اس سے اس غار کا منہ بند ہو گیا اب ان کی بے کسی اور چارگی اور بے اقراری کا کون اندازہ کر سکتا ہے ان کی مون سامنے کھڑی نظر آتی تھی اسی وقت انہوں نے خشوع خضوع کے ساتھ بار گاہ الہی میں ہاتھ اٹھائے، ہر ایک نے کہا: کہ ایک کو اپنی خالص نیکی کا اللہ کو واسطہ دینا چاہیے
ان میں سے ایک نے کہا یا اللہ تو جانتا ہے کہ میریے والدین بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے میں بکریاں چرایا کرتا تھا اور اسی پر ان کی روزی کا سہارا تھا میں شام کو بکریاں لے کر جب گھر آتا تو دودھ دوھ کر پہلے اپنے ماں باپ کی خدمت میں لاتا تھا، جب وہ پی چکتے تب میں اپنے بچوں کو پلاتا ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں بکریاں چرانے کو دور نکل گیا لوٹا تو میرے والدین سو چکے تھے میں دودھ لے کر ان کے سرہانے کھڑا ہو گیا، نہ ان کو جگاتا تھا کہ ان کی راحت میں خلل آجاتا اور نہ ہتا تھا کہ خدا جانے کس وقت ان کی آنکھیں کھلیں، اور دودھ مانگیں، بچے بھوک سے بلک رہے تھے، مگر مجھے گوارا نہ تھا کہ میرے والدین سے پہلے میرے بچے سیر ہوں میں اسی طرح پیالے میں دودھ لئے رات بھر ان کے سرہانے کھڑا رہا اور وہ آرام کرتے رہے خداوند تجھے معلوم ہے کہ میں نے یہ کام تیری خوشنودی کے لئے کیا ہے تو اس غار کے منہ سے چٹان کو ہٹا دئے یہ کہنا تھا کہ چٹان کو خود بخود جنبش ہوئی اور غار کے منہ سے تھوڑا سا سرک گئی اور اس کے بعد باقی دو مسافروں کی باری آئی اور انہوں نے بھی اپنے کاموں کو وسیلہ بنا کر دعا کی اور غار کا منہ کھل گیا اور وہ سلامتی کے ساتھ باہر نکل آئے۔ [1]
والدین کے لئے دعا نیک بخت اولاد کی سعادت مندی یہ ہے کہ ماں باپ کے حق میں نیک دعائیں کرے اور اس کی تعلیم قرآن اور حدیث میں دی گئی ہے اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے لئے دعا کرنے کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ تم اس طرح دعا کرو۔
(1) ﴿رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا﴾ (بنی اسرائیل: 24)
’’اے میرے پروردگار! جس طرح انہوں نے مجھے بچپن سے پالا ہے اور میرے حال پر وہ رحم کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح تو بھی ان پر اپنا ر تم کیجیو۔‘‘
(2) ﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ﴾ (ابراهيم: 41)
(ابراہیم(علیہ السلام) نے دعا کرتے وقت یہ بھی کہا کہ اے ہمارے پروردگار! جس دن (اعمال) کا حساب ہونے لگے) مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور سب ایمان والوں کو بخش دیجیو۔‘‘
(3) ﴿رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مَؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ، وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَبَارًا﴾ (نوح: 28)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري كتاب الانبياء باب حديث الغار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( نوح (علیہ السلام) نے قوم کی طرف سے مایوس ہوکہ یہ دعا کی کہ ’’اے میرے پروردگار مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور جو شخص ایمان لا کر میرے گھر میں پناہ لینے آیا ہے اس کو اور عام با ایمان مردوں اور ایمان والی عورتوں کو بخش دے اور ایسا کر کہ ان ظالموں کی تباہی روز بروز بڑھتی چلی جائے۔‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کے حق کی ادائیگی کے بعد ماں باپ کا حق ہے اللہ تعالیٰ رب حقیقی ہے اور والدین رب مجازی ہیں، اس لئے ان دونوں کے حقوق کی ادائیگی سے آدمی نجات کا مستحق ہو سکتا ہے اور فلاح دارین حاصل کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے بچوں کو سعادت مند اور ماں باپ کا مطیع اور فرمانبردار بنائے آمین یا رب العالمین۔
﴿وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ﴾
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔