شرم و حیا کی فضیلت
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ﴿ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی وَ یَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ ۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۹۰﴾ (نحل: 90)
’’اللہ تعالی حکم کرتا ہے انصاف کرنے کا اور بھلائی کرنے کا اور قرابت والوں کو دینے کا اور منع کرتا ہے بے حیائی سے اور نامعقول کام سے اور سرکشی ہے۔ تم کو وہ سمجھاتا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تین باتوں کے کرنے کو حکم دیا ہے۔ عدل، احسان، اور ایتاء ذی القربی۔ اور ان تین چیزوں سے منع بھی فرمایا ہے۔ فحشا و منکر اور بغی۔
فحشاء سے مراد بے حیائی اور بے شرمی کی باتیں ہیں۔ شرم و حیا ایک فطری خوبی ہے جس میں یہ خوبی ہے جس میں یہ خوبی پائی جاتی ہے وہ شریف کہلاتا ہے۔ یہ انسان کو ہر قسم کی برائیوں سے روکتی ہے۔ حیا اور شرم ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان اور حیوان کے درمیان ما بہ الامتیاز ہے اس واسطے کہا گیا ہے:
(الْحَيَاءُ مِنَ الْإِيمَانِ)[1]
’’یعنی حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘
اور دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
(الْحَيَاءُ خَيْرٌ كُلَّهُ) [2]
’’ہر قسم کی حیا بھلائی ہی بھلائی ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب ایمان باب الحياء من الإيمان۔
[2] مسلم: کتاب الإيمان باب بيان العدد شعب الإيمان۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یعنی حیا نیکیوں کی طرف متوجہ کرتی ہے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ)[3]
’’جب تو شرم نہیں کرتا تو جو تیرا جی چاہے کر۔‘‘
یعنی بے حیا باش و هرچه خواہی کن۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(اَلْحَيَاءُ مِنَ الْإِيْمَانِ وَالْإِيْمَانُ فِي الْجَنَّةِ وَالْبَذَاء مِنَ الْجَفَاءِ وَالْجَفَاءُ فِي النَّارِ)[2]
’’حیا ایمان کی ایک شاخ ہے اور ایمان (یعنی اہل ایمان) بہشت میں ہیں اور بے حیائی اکھٹرپن ہے اور اکھٹرپن کا ٹھکانا دوزخ ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ الْحَيَاءَ وَالْإِيْمَانَ قُرَنَاءُ جَمِيعًا فَإِذَا رُفِعَ أَحَدُهُمَا رُفِعَ الْآخَرُ)[3]
’’حیا اور ایمان دونوں باہم ملے جلے ہیں اور ایک دوسرے کو لازم ہیں۔ تو جب کسی شخص سے ان میں سے ایک اٹھا لیا جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔‘‘
یعنی اگر ایمان ہے تو حیا ہے اور حیا ہے تو ایمان ہے اور حیا نہیں تو ایمان نہیں۔
اس سے معلوم ہوا حیا دار مومن ہے اور بے حیا کامل مؤمن نہیں۔ حیا کا مطلب یہی ہے کہ برائیوں سے اپنے آپ کو بچایا جائے، آنکھ، زبان، پیٹ، شرم گاہ وغیرہ کی کما حقہ نگرانی کی جائے یعنی بری نگاہ سے کسی کو نہ دیکھا جائے اور زبان سے کسی کی برائی نہ کی جائے زنا کاری، بدکاری سے بچا جائے۔
اور شرم و حیا کرنے والا محبوب ہے جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا:
(مَا كَانَ الْفَحْشُ فِي شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ وَمَا كَانَ الْحَيَاءُ فِي شَيْ وَإِلَّا زَانَهُ)[4]
’’بے حیائی عیب دار بنا دیتی ہے اور شرم و حیا مزین و خوب صورت بناتی ہے۔‘‘
یہ شرم و حیا ایک فطری چیز ہے جو ہر مرد و عورت کے لیے ضروری ہے قرآن مجید میں بھی شرم کا تذکر و متعدد جگہ آیا ہے اور اس کی مدح سرائی کی گئی ہے حضرت موسی علیہ السلام کو مدین کے سفر میں دو لڑکیوں سے سابقہ پڑا تھا وہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري کتاب الأدب باب اذا لم تستحيى. [2] ترمذي: کتاب البر والصلة باب ما جاء في الحياء (147/3)
[3] مستدرك حاكم: كتاب الإيمان باب اذا رني العبد خرج منه الايمان (22/1)
[4] ابن ماجه: كتاب الزهد باب الحياء (4185)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ بدویا نہ زندگی بسر کرنے کی عادی تھیں تاہم ان میں یہ وصف نمایاں تھا کہ خدا نے اس کا ذکر کیا ہے کہ ان کی عادت یہ تھی کہ جب تک تمام لوگ اپنے اپنے مویشیوں کو پانی پلا کر پلٹ نہ جاتے وہ اپنے مویشیوں کو پانی نہیں پلاتی تھیں۔ تاکہ مردوں کی کشمکش اور اس کے اختلاط سے الگ رہیں اور جب ان کے باپ نے ان میں سے ایک کو موسی علیہ السلام کے بلانے کے لیے بھیجا۔
﴿ فَجَآءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِیْ عَلَی اسْتِحْیَآءٍ ؗ قَالَتْ اِنَّ اَبِیْ یَدْعُوْكَ﴾ (القصص:25)
’’تو ان لڑکیوں میں سے ایک شرماتی ہوئی ان کے پاس آئی اور کہا کہ میرے ابا جان آپ کو بلاتے ہیں۔‘‘
عریانی کے فتنہ سے بھی اسلام نے منع کیا ہے۔ ستر پوشی کے معاملہ میں اسلام نے انسانی شرم و حیا کی جس قدر صحیح اور مکمل تعلیم دی ہے اس کی نظیر و مثال دنیا کے کسی مذہب اور سوسائٹی میں نہیں ہے۔ آج دنیا کی مہذب ترین قوموں کا یہ حال ہے کہ ان کے مردوں اور ان عورتوں کو اپنے جسم کا کوئی حصہ کھول دیتے ہیں (خوف) نہیں ان کے لباس صرف زینت کے لیے ہیں ستر پوشی کے لیے نہیں ہیں مگر اسلام کی نگاہ میں زینت سے زیادہ ستر پوشی کی اہمیت ہے اس لیے دونوں کو جسم کے ان حصوں کو پوشیدہ رکھنے کا حکم دیا ہے جن میں ایک دوسرے کے لئے صنفی کشش پائی جاتی ہے۔ عریانیت اور برہنگی ایک ایسی ناشائستگی ہے جس کو اسلامی حیا کی حالت میں برداشت نہیں کر سکتی۔ غیر تو غیر ہے۔ اسلام تو اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے سامنے بالکل برہنہ ہوں۔
اس سے بڑھ کر شرم و حیا یہ ہے کہ بلاوجہ تنہائی میں بھی برہنہ رہنا اسلام کو گوارا نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے حیا کی جائے اور ساتھ ہی فرشتوں سے بھی۔
اسلامی محاسن میں ایک سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے ستر پوشی کی بڑی تاکید کی ہے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:
﴿ یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا ؕ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰی ۙ﴾ (الاعراف: (26)
’’ہم نے تمہارے واسطے لباس پیدا کر دیا جو تمہاری شرم گاہوں کو پوشیدہ کرے اور زینت کا پہناؤ اور پرہیز گاری کا لباس ہے۔‘‘
بہرحال حیا اور شرم ایک اعلی درجہ کی صفت ہے جس سے ہر انسان کو متصف ہونا ضروری ہے لیکن اگرچہ فتنہ شرم و حیا اظہار کے لیے مانع ہو تو ایسے موقع پر حق ظاہر کر دیا جائے اور حق کے اظہار کے مقابلہ میں حیا کا لحاظ نہ کیا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿إِنَّ اللهَ لَا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَهَا﴾ (بقرة: 26)
’’اللہ کسی مثال کے بیان کرنے میں شرم نہیں کرتا، خواہ مچھر کی ہو یا اس سے بھی کمتر چیز کی ہو۔‘‘
اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ ؗ وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ ﴾ (احزاب:53)
’’اس سے پیغمبر کو ایذا ہوتی تھی اور وہ لحاظ کرتے تھے اور اللہ تو (حق بات کے کہنے) میں کسی کا کچھ لحاظ نہیں کرتا۔‘‘
ایک صحابیہ آپ سے ایک مسئلہ دریافت کرنے آتی ہیں اور یہ سمجھتی ہیں کہ یہ سوال عورت کی فطری، شرم و حیا کے خلاف ہے تاہم اس شرعی حیا کی بنا پر پہلے کہ دیتی ہیں کہ یا رسول اللہﷺ خدا حق بات سے نہیں شرماتا اگر عورت خواب میں ناپاک ہو جائے تو کیا اس پر بھی غسل فرض ہے۔؟ فرمایا: ہاں جب پانی نظر آئے۔[1]
انصاریہ عورتیں رسول اللہ ﷺ سے عورتوں کے مسئلے پوچھتی تھیں اور یہ ان کا خاص اخلاقی وصف سمجھا جاتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
(نِعْمَ النِّسَاءُ نِسَاءُ الْإِنْصَارِ لَمْ يَكُنْ يَمْنَعُهُنَّ الْحَيَاءُ أَنْ يَتَفَقَّهُنَّ فِي الدِّينِ)[2]
’’انصار کی عورتیں کسی قدر اچھی ہیں کہ دین کے حاصل کرنے سے ان کو حیا نہیں مانع ہوتی۔
حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(لا يَتَعَلَّمُ الْعِلْمَ مُسْتَحْيٍ وَلَا مُسْتَكْبِرٌ)[3]
’’جو شخص شرم کرے یا شیخی کرے اس کو علم نہیں آئے گا۔‘‘
معلوم ہوا کہ امر حق کے اظہار کرنے اور علم حاصل کرنے میں شرم و حیا کرنا عمدہ صفت نہیں ہے اور ان کے علاوہ ہر جگہ شرم و حیا نہایت ہی عمدہ صفت ہے۔ اللہ ہم کو اور آپ کو بے حیائی سے بچائے اور شرم و حیاء سے آراستہ فرمائے۔ آمین۔
(أَقولُ قَوْلِى هَذَا وَاسْتَغْفِرُ اللهَ لِي وَلَكُمْ وَلِسَائِرِ الْمُسْلِمِينَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح بخاري: كتاب العلم باب الحياء في العلم و صحيح مسلم كتاب الحيض باب وجوب
الغسل على المرأة بخروج المنى منها۔
[2] صحیح مسلم: کتاب الحيض باب استحباب استعمال المغتسلة من الحيض فرصة من مسك في موضع الدم
[3] بخاري: كتاب العلم باب الحياء في العلم تعليقا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔