نیکیوں کے اثرات
هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ
نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کیا ہے۔
الرحمن : 60
شیخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ کا بیان کردہ قصہ
شیخ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک قابل اعتماد شخص نے یہ واقعہ سنایا کہ ایک آدمی اپنی بیوی کو اپنے دروازے پر آنے والے کسی بھی مسکین پر صدقہ کرنے سے منع کیا کرتا تھا
ایک دن ایک مسکین نے دروازے پر آواز لگائی کہ میرے پاس سردی سے بچنے کے لیے لباس نہیں ہے تو اس عورت نے اسے ایک چادر اور تین کھجوریں دے دیں
تو اس کے خاوند نے نیند میں دیکھا کہ قیامت قائم ہو چکی ہے، لوگوں کا جمع غفیر ہے، گرمی بہت سخت ہے، سورج جلا رہا ہے تو اچانک اس کے سر پر ایک چادر آ جاتی ہے لیکن اس چادر میں تین سوراخ ہیں
پھر اچانک تین کھجوروں نے ان تین سوراخوں کو بند کر دیا وہ حیران اور خوفزدہ ہو کر بیدار ہوا
اس نے اپنی اھلیہ کو خواب سنایا تو وہ فوراً سمجھ گئی کہ یہ اسی صدقہ کی خواب ہے پھر اس نے اسے وہ واقعہ سنایا، جب اس نے اسے بتایا تو وہ کہنے لگا آج کے بعد کسی مسکین کو خالی ہاتھ واپس نہ لوٹانا
سچ فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے :
” كُلُّ امْرِئٍ فِي ظِلِّ صَدَقَتِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ بَيْنَ النَّاسِ ”
قیامت کے دن ہر شخص اپنے صدقے کے سایے میں ہوگا
(شرح كتاب الرقائق من صحيح البخاري وشرح عقيدة أهل السنة والجماعة ” للشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ.)
سچ بولنے سے خون معاف ہو گیا
رانا عبداللہ مرتضی السلفی لکھتے ہیں کہ میں نے یہ واقعہ اپنے استاذ گرامی پروفیسر سعید مجتبی سعیدی حفظه اللہ سے سنا اور ان کو یہ واقعہ مولانا محمد رفیق اثری محدث جلالپوری رحمه الله نے بیان فرمایا
بہاولپور کے نواح میں کسی گاوں کے مکین ایک صالح بزرگ عالم دین مولانا عبدالقادر رحمه الله کے بیٹے سے ایک بے گناہ شخص کا قتل سرزد ہوگیا مولانا عبدالقادر رحمه الله کی صالحیت کا عالم یہ تھا کہ مقدمہ عدالت میں گیا تو جج نے فیصلہ سنانے سے قبل یہ اعلان کردیا کہ اگر مولانا اپنے بیٹے کے حق میں گواہی دے دیں تو فیصلہ ان کے حق میں کردیا جائے گا ، مولانا کے ایک جھوٹ بول دینے سے بیٹے کی جان بچ جاتی لیکن مولانا کو معلوم تھا بیٹا قاتل ہے جب جج کا یہ اعلان مولانا نے سنا تو بلا جھجک یہ سوچے بغیر کہ بیٹے کی جان جاسکتی ہے عدالت میں اپنے بیٹے کے خلاف گواہی دیتے ہوئے اس کو ناحق قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا ، مولانا کی راست بازی اور تقوی و للہیت کا فائدہ دنیا میں یہ ہوا کہ اللہ تعالی کی توفیق سے مقتول کے وارثین نے مولانا کی اس صفت حسنہ سے متاثر ہو کر مولانا کے قاتل بیٹے کو خون معاف کردیا
خود نیک بنیں، اللہ تعالیٰ تمہارے بچوں کی حفاظت اپنے ذمے لے گا
اللہ تعالیٰ کے دو رسول، موسی و خضر علیہما السلام چلے جا رہے تھے یہاں تک کہ جب وہ ایک بستی والوں کے پاس آئے، انھوں نے اس کے رہنے والوں سے کھانا طلب کیا تو انھوں نے ان کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کر دیا پھر انھوں نے اس میں ایک دیوار پائی جو چاہتی تھی کہ گر جائے تو خضر علیہ السلام نے اسے سیدھا کر دیا۔
جب موسی علیہ السلام نے اعتراض کیا کہ وہ تو ہمیں کھانا بھی نہیں دے رہے اور آپ ان کی دیواریں سیدھی کررہے ہیں تو خضر علیہ السلام نے وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا :
وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا
اور رہ گئی دیوار تو وہ شہر میں دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لیے ایک خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک تھا تو تیرے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور اپنا خزانہ نکال لیں، تیرے رب کی طرف سے رحمت کے لیے اور میں نے یہ اپنی مرضی سے نہیں کیا۔ یہ ہے اصل حقیقت ان باتوں کی جن پر تو صبر نہیں کرسکا۔
الكهف : 82
معلوم ہوا کہ اگر ہم خود نیک بن جائیں تو ہمارے بچے تو دور کی بات اللہ تعالیٰ ان کی دیواروں کی بھی حفاظت فرمائے گا
پانی کا کنواں کھودنے سے گھٹنے کی بیماری جاتی رہی
ذہبی رحمہ اللہ نے ابن شقیق سے روایت کیا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن المبارک سے ایک آدمی کے بارے میں سنا جو ان سے اپنے عارضہ کے بارے میں پوچھتے ہیں جو سات سالوں سے گھٹنے میں لاحق تھا اور مختلف قسم کا علاج کراچکا تھا اورمختلف قسم کے اطباء سے پوچھا مگر ان لوگوں کی کوئی دوا کام نہ آئی تو اس سے ابن المبارک نے کہا کہ جاؤ اور ایک ایسی جگہ کنواں کھودو جہاں لوگ پانی کے لئے محتاج ہوں ، مجھے امید ہے کہ وہاں سے چشمہ نکلے گا تو تیرے قدم سے بہنے والا خون رک جائے گا،اس آدمی نے ایسا ہی کیا اور اللہ کے حکم سے وہ ٹھیک ہوگیا۔
(سير أعلام النبلاء 8/ 408)
انسان جو بھی نیکی کا کام کرتا ہے اسے اس کا بدلہ ضرور ملتا ہے
چاہے فوراً مل جائے چاہے کچھ دیر بعد ملے چاہے آخرت میں ملے یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فَآتَاهُمُ اللَّهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْآخِرَةِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
تو اللہ نے انھیں دنیا کا بدلہ عطا فرمایا اور آخرت کا اچھا بدلہ بھی اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
آل عمران : 148
ایسا نہیں ہوسکتا کہ انسان کوئی نیکی کرے اور وہ ضائع ہو جائے اور اسے اس کا کوئی فائدہ نہ ہو
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَاصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ
اور صبر کر کہ بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
هود : 115
ہر نیکی کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا
وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ
اور تم جو چیز بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے وہ تمھاری طرف پوری لوٹائی جائے گی اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا
الانفال : 60
بلکہ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو ان کی نیکی سے بڑھ کر دیتے ہیں
فرمایا :
وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ
اور ہم نیکی کرنے والوں کو جلد ہی زیادہ دیں گے۔
البقرۃ : 58
اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کے ساتھ ہیں
فرمایا :
وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ
اور بلاشبہ اللہ یقینا نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
العنكبوت : 69
اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں سے محبت کرتے ہیں
فرمایا :
وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
اور نیکی کرو، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہوتی ہے
فرمایا :
إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
بے شک اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔
الأعراف : 56
الغرض کہ نیکی کرنے والوں کے لیے بہت خوشخبریاں ہیں
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ
اور نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دے۔
الحج : 37
بدی کرنے والا قیامت کے دن خواہش کرے گا : کاش کہ میں ایک مرتبہ دنیا میں لوٹ جاؤں تو میں نیک بن جاؤں گا
أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
یا کہے جب وہ عذاب دیکھے کاش! میرے لیے ایک بار لوٹنا ہو تو میں نیک عمل کرنے والوں میں شامل ہو جاؤں۔
الزمر : 58
یوسف علیہ السلام کو نیکی کا بدلہ
یوسف علیہ السلام جیل میں تھے تو جیل کے لوگوں نے گواہی دی
إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
بے شک ہم تجھے احسان کرنے والوں سے دیکھتے ہیں۔
یوسف : 36
اور
یوسف علیہ السلام حکومت میں تھے تو رعایا نے گواہی دی
إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
یوسف : 78
یعنی یوسف علیہ السلام انتہائی لاچاری کی حالت میں بھی نیک تھے اور انتہائی شان و شوکت کی حالت میں بھی نیک ہی تھے، آپ کی اسی صفت کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ وَلَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ
اور اسی طرح ہم نے اس سرزمین میں یوسف کو اقتدار عطا فرمایا، اس میں سے جہاں چاہتا جگہ پکڑتا تھا۔ہماپنی رحمت جس کو چاہتے ہیں پہنچا دیتے ہیں اور ہم نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔
يوسف : 56
موسی علیہ السلام کو نیکی کا بدلہ
موسیٰ علیہ السلام بے حد حیا والے،نیک، مخلص، بے لوث اور سچے انسان تھے
آپ کی سیرت میں ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کا پہلو بخوبی نظر آتا ہے
قبطی اور بنی اسرائیلی کے درمیان لڑائی ہوتے دیکھی تو کمزور اسرائیلی کی مدد کے لیے آگے بڑھے
مدین کی دو کمزور عورتوں کو لاچاری اور کسمپرسی کی حالت میں دیکھا تو بھوکے ، تھکے ، پردیسی اور مسافر ہونے کے باوجود بے لوث ہوکر جانوروں کو پانی پلانے کی خاطر کنویں سے بھاری ڈول کھینچ لائے
آپ کے شرم و حیاء کا یہ عالم تھا کہ مدین کی ان دو عورتوں میں سے ایک نے کہا : جب میں اپنے والد کے کہنے پر موسیٰ علیہ السلام کو بلانے آئی تو آپ کے آگے آگے چل رہی تھی، تو آپ نے مجھ سے کہا : میرے پیچھے چلی آؤ اور جہاں راستہ بدلنا ہو مجھے کنکری کے ساتھ اشارہ کر دو، میں سمجھ جاؤں گا کس طرف جانا ہے۔‘‘
[ ابن أبي حاتم : ۱۶۸۴۳ ]
موسیٰ علیہ السلام کی انہی نیکیوں کی قیمت لگاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَى آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا اور پورا طاقت ور ہو گیا تو ہم نے اسے قوت فیصلہ اور علم عطا کیا اور اسی طرح نیکی کرنے والوں کو ہم بدلہ دیتے ہیں۔
القصص : 14
عفت و عصمت کی پیکر عورت کو اللہ تعالیٰ نے ایک نبی کی بیوی بنا دیا
شیخ مدین کی بیٹی بہت نیک اور حیاء والی عورت تھی ایسا کمال درجے کا پردہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس عورت کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا :
تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ
کہ وہ بہت حیا کے ساتھ چلتی تھی
القصص : 25
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
"سبحان اللہ ! وہ خاتون کس قدر باحیا ہو گی جس کے بہت حیا کی شہادت رب العالمین نے دی ہے۔
’’تَمْشِيْ بِاسْتِحْيَاءٍ‘‘ کے بجائے ’’تَمْشِيْ عَلَى اسْتِحْيَآءٍ‘‘ اس لیے فرمایا گویا وہ حیا کی سواری پر سوار ہو کر چلی آ رہی تھی، حیا کی ہر صورت اس کی دسترس میں تھی۔
اللہ تعالیٰ کو اس خاتون کی یہ نیکی اس قدر پسند آئی کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اس عورت کا نکاح کر کے ایک نبی کی رفیقہءِ حیات ہونے کی عظیم الشان سعادت نصیب فرمائی اور اسے رہتی دنیا تک اچھی ناموری کے ساتھ زندہ رکھا
نیک لوگ کبھی رسوا نہیں ہوتے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جب پہلی وحی کی خبر دی اور فرمایا کہ میں ڈر گیا ھوں اور مجھے جان کا خطرہ لاحق ھو گیا ہے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :
كَلَّا وَاللَّهِ، مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا ؛ إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ
صحيح البخاري | 3
اللہ کی قسم ! آپ کو ایسا کوئی خطرہ نہیں ھو سکتا ، اللہ آپ کو کبھی غمناک و پریشان نہیں کرے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ۔ کمزوروں کی دست گیری فرماتے ہیں ، ناداروں کو کپڑا پہناتے ہیں اور مہانوں کی میزبانی کرتے ہیں "
اسے اسکی نیکی کی وجہ سے بچا لیا گیا
سيدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے کہا گیا ابراہیم بن محمد بن طلحہ رحمہ اللہ فوت ہو گئے ہیں
انہوں نے پوچھا :کیسے فوت ہوئے ہیں
کہا گیا :انکا مکان ان کے اوپر گر گیا ہے
فرمانے لگے :
هيهات لا يموت مثله هكذا
ہرگز نہیں اس طرح کے شخص کی موت ایسے نہیں ہو سکتی
جب اسے ملبے تلے سے نکالا گیا تو انہوں نے اسے زندہ پایا اسکی ٹانگ بھی نہیں ٹوٹی چنانچہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے پوچھا گیا :
آپ نے جو کچھ کہا ہے کیسے کہہ دیا
فرمانے لگے :
لأنه واصل للرحم وواصل الرحم يوقى ميتة السوء.
سفط الملح وزوح الترح(٢٩)
کیونکہ وہ صلہ رحمی کرنے والا ہے اور صلہ رحمی کرنے والے کو بری موت سے بچا لیا جاتا ہے
نیک بندے کے متعلق زمین اور آسمان میں رہنے والوں کے دلوں میں محبت ڈال دی جاتی ہے
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ الْعَبْدَ نَادَى جِبْرِيلَ : إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحْبِبْهُ. فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ. فَيُنَادِي جِبْرِيلُ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ : إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ. فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ ".
صحيح البخاري | 3209
جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے ۔ تم بھی اس سے محبت رکھو ، چنانچہ جبرئیل علیہ السلام بھی اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں ۔ پھر جبرئیل علیہ السلام تمام اہل آسمان کو پکار دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت رکھتا ہے ۔ اس لیے تم سب لوگ اس سے محبت رکھو ، چنانچہ تمام آسمان والے اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں ۔ اس کے بعد روئے زمین والے بھی اس کو مقبول سمجھتے ہیں
اللہ تعالیٰ نیک بندے کی آنکھیں، کان اور ہاتھ بن جاتا ہے
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ
صحيح البخاري | 6502
اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اورکوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے ( یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز ، روزہ، حج ، زکوٰۃ ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کرکے مجھ سے اتنا نزدیک ہوجاتا ہے کہ میںاس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں
نماز پڑھنے سے رزق ملتا ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى
اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دے اور اس پر خوب پابند رہ، ہم تجھ سے کسی رزق کا مطالبہ نہیں کرتے، ہم ہی تجھے رزق دیں گے اور اچھا انجام تقویٰ کا ہے۔
طه : 132
یعنی اگر نماز پڑھو گے تو تمہارے پاس وہاں سے رزق آئے گا جہاں سے تم نے گمان بھی نہ کیا ہوگا
ایک مقام پر تو اللہ تعالیٰ نے نماز کو اپنی مدد حاصل کرنے کا ذریعہ ہی قرار دیا ہے
اور فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
البقرة : 153
اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، غنی ہو جاؤ گے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ إِنَّ اللّٰهَ تَعَالٰی يَقُوْلُ يَا ابْنَ آدَمَ ! تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِيْ أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًی وَأَسُدَّ فَقْرَكَ وَإِلاَّ تَفْعَلْ مَلَأْتُ يَدَيْكَ شُغْلاً وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ]
[ترمذي : 2466 ]
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اے ابن آدم! میری عبادت کے لیے پوری طرح فارغ ہو جا، (تو) میں تیرا سینہ غنا سے بھر دوں گا اور تیری فقیری دور کر دوں گا اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرے دونوں ہاتھ مشغولیت سے بھر دوں گا اور تیری فقیری دور نہیں کروں گا۔‘‘
غار میں پھنسنے والوں کی تین نیکیاں اور ان کا صلہ
مشہور واقعہ ہے، صحیح بخاری وغیرہ میں موجود ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے، گزشتہ زمانے میں تین افراد سفر پہ جا رہے تھے کہ بارش برسنا شروع ہو گئی، وہ تینوں ایک غار میں بیٹھ گئے کہ بارش تھمنے تک رکتے ہیں، اللہ کی کرنی دیکھیے کہ ایک بھاری چٹان، غار کے منہ پر آ کر رک گئی غار کا دھانہ بند ہو گیا، انہوں نے اسے ہٹانے کی بہت کوشش کی مگر وہ چٹان ان کی قوت سے بھاری تھی ذرا بھر بھی اپنی جگہ سے سرکتی نہیں تھی
اب وہ تینوں اپنی کسی اہم نیکی کو یاد کرنے لگے
ایک نے کہا :میں نے ایک رات اپنے والدین کے ساتھ اس انداز میں نیکی کی کہ ان کے آرام کی خاطر اپنی رات کا آرام قربان کر دیا
دوسرے نے کہا: میں نے ایک مزدور کے ساتھ یہ نیکی کی کہ اس کی اجرت کچھ مکئی یا چاول دینے تھے مگر وہ ناراض ہو کر اپنی مزدوری میرے پاس ہی چھوڑ کر چلا گیا تو میں نے اس کی وہ امانت کاروبار میں لگادی اس سے اتنی برکت پیدا ہوئی کہ بکریوں، گائیوں کے ریوڑ بن گئے
پھر کئی سالوں کے بعد وہ مزدور میرے پاس آیا اور مجھ سے اپنی اجرت کا مطالبہ کرنے لگا تو میں نے ساری بکریاں، گائیاں اور ان کا چرواہا بھی اسے دے دیا
تیسرے نے کہا: میں نے ایک عورت کو برائی کی دعوت دی، اسے پیسے بھی دے دیے مگر جب بری نیت سے اس کے پاس بیٹھا تو اس نے مجھے کہا: اللہ تعالیٰ سے ڈر جا، تو میں صرف اللہ کے ڈر سے بدکاری کیے بغیر اٹھ کر واپس آگیا
اے اللہ تعالیٰ اگر ہمارے یہ نیک کام تجھے پسند ہیں تو ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرما
تو اللہ تعالیٰ نے اس چٹان کو غار کے منہ سے سائیڈ پر کردیا اور وہ تینوں حضرات بحفاظت نکل گئے
امانت داری آزادی کا سبب بن گئی
نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ سے باہر کسی سفر پر تھے ان کے ساتھ دیگر لوگ بھی تھے ایک جگہ پڑاؤ کیا کھانے کے لیے دستر خوان بچھایا اسی دوران وہاں سے ایک چرواہا گزرا
اسے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آؤ اس دسترخوان پر بیٹھو
اس نے کہا میں نے روزہ رکھا ہوا ہے
عبداللہ رضی اللہ عنہ نے(تعجب سے ) اسے کہا اتنے سخت گرمی والے دن اور ان پتھریلے ٹیلوں میں بکریوں کے پیچھے چلتے ہوئے تو نے روزہ رکھا ہوا ہے ❓
اس نے کہا میں آنے والے دنوں کی تیاری کر رہا ہوں
عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کیا تو اپنی ایک بکری ہمیں بیچے گا ہم اس کا گوشت بھی تمہیں کھلائیں گے کہ تو اس کے ساتھ روزہ افطار کر لینا اور تجھے اس کی قیمت بھی ادا کریں گے
اس نے کہا یہ بکریاں میری نہیں ہے یہ میرے مالکوں کی ہیں
اس پر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے(امتحان کی غرض سے) کہا کہ اگر تو انہیں کہہ دے گا کہ بکری کو بھیڑیا کھا گیا ہے تو تیرے مالک تجھے کچھ نہیں کہیں گے
چرواہے نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور یہ کہتے ہوئے آگے چل پڑا
فأين الله ؟؟؟
تو پھر اللہ کہاں ہے
(یعنی اگر میرے مالک نہیں دیکھ رہے تو اللہ تو دیکھ رہا ہے ناں)
اس کے چلے جانے کے بعد ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ مسلسل یہ جملہ دہراتے رہے
فأين الله ؟؟؟ فأين الله ؟؟؟
اللہ کہاں ہے، اللہ کہاں ہے
پھر جب وہ مدینہ واپس لوٹے تو انہوں نے اس چرواہے کہ مالک سے بات چیت کرکے اس سے بکریاں بھی خرید لیں اور بکریوں کا چرواہا بھی خرید لیا پھر اس چرواہے کو آزاد کرکے وہ ساری بکریاں اس کو تحفے میں دے دیں
[ صفة الصفوة (١٨٨/٢)
شعب الإيمان للبیھقی 5291
مختصر العلو للألباني
وسندہ حسن ]
ایمان کی وجہ سے آزاد ہو گئی
(معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ نے )کہا :میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ کے اطراف میں میری بکریا چراتی تھی ‘ایک دن میں اس طرف جاانکلاتو بھیڑیا اس کی بکری لے جا چکا تھا ۔میں بھی بنی آدم میں سے ایک آدمی ہوں‘مجھے بھی اسی طرح افسوس ہوتا ہے جس طرح ان کو ہوتا ہے (مجھے صبر کرناچاہیے تھا)لیکن میں نے اسے زور سے ایک تھپڑجڑدیا اس کے بعد رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہو اآپنے میری اس حرکت کو میرے لیے بڑی (غلط)حرکت قرار دیا۔میں نے عرض کی :اے اللہ کے رسول !کیا میں اسے آزادنہ کردوں؟آپ نےفرمایا:
«ائْتِنِي بِهَا»
’’اسے میرےپاس لے آؤ۔‘‘
میں اسے لےکر آپ کےپاس حاضر ہوا
آپ نےاس سے پوچھا:
«أَيْنَ اللهُ؟»
’’اللہ کہا ں ہے؟ ‘‘
اس نےکہا : آسمان میں۔
آپ نےپوچھا :
«مَنْ أَنَا؟» ’’میں کون ہوں؟‘‘
اس نےکہا: آپ اللہ کےرسول ہیں ۔
تو آپ نے فرمایا:
«أَعْتِقْهَا، فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ»’’اسے آزاد کردو، یہ مومنہ ہے
(مسلم : 1199)
اس نے سنت کو گلے لگایا تو سنت نے اس کا گلا کٹنے سے بچا لیا
مجلہ الدعوہ میں ایک واقعہ پڑھا تھا لاہور میں ہمارے ایک بھائی نے اپنے چہرے پر سنت کے مطابق داڑھی سجھا رکھی تھی ماشاء اللہ گھنی اور لمبی داڑھی نے سینہ ڈھانپ رکھا تھا (ایسے واقعات تو آپ نے بکثرت سنے ہوں گے کہ پتنگ کی ڈور پھرنے سے بندہ مر گیا) بعینہ اس بھائی کے سا بھی یہی واقعہ پیش آیا موٹر-سائیکل پہ جا رہا تھا پتنگ کی ڈور سیدھی گلے پہ آ گئی مگر اللہ کی مدد دیکھیے کہ ٹھوڑی سے گلے اور سینے تک پھیلی ہوئی مبارک سنت نے قاتل ڈور کو دندان شکن ہزیمت سے دوچار کرتے ہوئے اپنے محب کے گلے کو خراش تک نہ آنے دی
من کان للہ کان اللہ لہ
جو اللہ کا ہوجاتا ہے تو پھر اللہ اس کا ہوجاتا ہے
مغرب کے بعد بچی نے رونا بند کر دیا
ہمارے ایک بھائی نے بتایا کہ کسی نے ان سے اپنی چھوٹی بچی کے متعلق اپنی پریشانی کا اظہار کیا کہ وہ روزانہ رات کو مغرب کے کچھ دیر بعد بہت روتی ہے ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ اسے کیا مسئلہ ہے
کہتے ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ اس بچی کو مغرب کے بعد گھر سے باہر تو نہیں لے جاتے
اس نے کہا کہ ہاں ہمارے بچے مغرب کے بعد بھی گلی میں کھیلتے رہتے ہیں
کہتے ہیں میں نے ان سے کہا کہ آج کے بعد آپ کے بچے مغرب کے بعد گھر سے باہر نہ نکلیں
انہوں نے اس عمل کی پابندی کی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچی نے رونا ختم کر دیا
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«خَمِّرُوا الآنِيَةَ، وَأَوْكُوا الأَسْقِيَةَ، وَأَجِيفُوا الأَبْوَابَ وَاكْفِتُوا صِبْيَانَكُمْ عِنْدَ العِشَاءِ، فَإِنَّ لِلْجِنِّ انْتِشَارًا وَخَطْفَةً، وَأَطْفِئُوا المَصَابِيحَ عِنْدَ الرُّقَادِ، فَإِنَّ الفُوَيْسِقَةَ رُبَّمَا اجْتَرَّتِ الفَتِيلَةَ فَأَحْرَقَتْ أَهْلَ البَيْتِ»
پانی کے برتنوں کو ڈھک لیا کرو ، مشکیزوں ( کے منھ ) کو باندھ لیا کرو ، دروازے بند کرلیا کرو اور اپنے بچوں کو اپنے پاس جمع کرلیا کرو ، کیوں کہ شام ہوتے ہی جنات ( روئے زمین پر ) پھیلتے ہیں اور اچکتے پھرتے ہیں اور سوتے وقت چراغ بجھالیا کرو ، کیوں کہ موذی جانور ( چوہا ) بعض اوقات جلتی بتی کو کھینچ لاتا ہے اور اس طرح سارے گھر کو جلادیتا ہے ۔
بخاری 3316
بسم اللہ کے اثر سے دروازوں کا کھلنا ختم ہو گیا
ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
"ہمارے استاذ حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ ان کے پاس ایک شخص نے شکایت کی کہ رات کو اچانک گھر کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں، تو انھوں نے رات بسم اللہ پڑھ کر دروازے بند کرنے کی نصیحت کی تو دروازوں کا کھلنا ختم ہو گیا۔”
اللہ کا نام لینے سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے، جماع اور ذبح وغیرہ کے شروع میں اللہ کا نام لینے کا حکم دیا، رات کو اللہ کا نام لے کر سونے کا حکم دیا اور فرمایا :
[ وَ أَغْلِقُوا الْأَبْوَابَ، وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لاَ يَفْتَحُ بَابًا مُغْلَقًا، وَ أَوْكُوْا قِرَبَكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ، وَ خَمِّرُوْا آنِيَتَكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ، وَلَوْ أَنْ تَعْرُضُوْا عَلَيْهَا شَيْئًا وَ أَطْفِؤا مَصَابِيْحَكُمْ ]
[ بخاري : 5623۔ مسلم : 2012، 97]
’’ (جب رات کی ایک گھڑی گزر جائے تو) دروازے بند کر لو اور اس وقت اللہ کا نام لو، کیونکہ شیطان بند دروازے کو نہیں کھولتا اور اللہ کا نام لے کر اپنے مشکیزوں کا منہ باندھ دو۔ اللہ کا نام لے کر اپنے برتنوں کو ڈھانپ دو، خواہ کسی چیز کو چوڑائی میں رکھ کر ہی ڈھانپ سکو اور اپنے چراغ ( سونے سے پہلے ) بجھا دیا کرو۔‘‘
تین مشکلات کے تین حل
اگر شہوت میں مبتلا ہو تو
اپنی نماز میں تجدیدِ نظر كرو، ضرور نماز میں سستی کرتے ہو گے
فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا
پھر ان کے بعد ایسے نالائق جانشین ان کی جگہ آئے جنھوں نے نماز کو ضائع کر دیا اور خواہشات کے پیچھے لگ گئے تو وہ عنقریب گمراہی کو ملیں گے۔
مريم : 59
اگر تم عدم توفیق اور بدبختی کا شکار ہو تو
اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ تمھارا رابطہ درست نہیں ہے لہذا اس بارے نظرِ ثانی کرو
وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا
اور اپنی والدہ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا (بنایا) اور مجھے سرکش، بدبخت نہیں بنایا۔
مريم : 32
اگر روزی کی تنگی اور زندگی کی مشکلات میں مبتلا ہو تو
قرآن کریم کے ساتھ اپنا رابطہ درست كرو
وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى
اور جس نے میری نصیحت سے منہ پھیرا تو بے شک اس کے لیے تنگ گزران ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے۔
طه : 124
نقصان سے محفوظ رہنے والے
قرطبي رحمہ الله فرماتے ہیں :
ہر وہ شہر مصیبتوں سے محفوظ رہتا ہے جس میں یہ چار قسم کے افراد رہتے ہیں
1 عدل کرنے والا حکمران جو ظلم نہ کرتا ہو
2 ھدائت یافتہ عالم
3 نیکی کا حکم اور برائی سے روکنے والے اور علم اور قرآن کی طلب رکھنے والے لوگ
4 اور ان کی باپردہ بیویاں جو جاہلیت کی طرز پر بناؤ سنگھار نہ کرتی ہوں
*الجامع لأحكام القـران (٤٩/٤)