صلہ رحمی

وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا
اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور قرابت والے کے ساتھ اور یتیموں اور مسکینوں اور قرابت والے ہمسائے اور اجنبی ہمسائے اور پہلو کے ساتھی اور مسافر (کے ساتھ) اور (ان کے ساتھ بھی) جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ بنے ہیں، یقینا اللہ ایسے شخص سے محبت نہیں کرتا جو اکڑنے والا، شیخی مارنے والا ہو۔
النساء : 36

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مختلف احکامات جاری کئے ہیں

سب سے پہلے یہ کہ عبادت صرف ایک اللہ کی کریں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کیا جائے

دوسرا حکم وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ہے
یعنی والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا :
’’سب سے افضل عمل کون سا ہے۔‘‘
فرمایا :
[ اَلصَّلاَةُ عَلٰی وَقْتِهَا ]
’’نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا۔ ‘‘
پوچھا :
’’پھر کون سا؟‘‘
فرمایا :
[ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ ]
’’ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔‘‘
پوچھا :
’’پھر کون سا؟‘‘
فرمایا :
”جہاد فی سبیل اللہ“
[ بخاری : 527 ]

ایک آدمی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور عرض کی اے اللہ کے رسول !
إِنِّي أَصَبْتُ ذَنْبًا عَظِيمًا، فَهَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٌ ؟
مجھ سے بہت بڑا گناہ سرزد ہوگیا ہے۔ کیا میرے لیے توبہ ہے
آپ نے فرمایا :
"هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ؟”
کیا تیری ماں ہے ؟
اس نے کہا : نہیں۔
آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے پوچھا :
"هَلْ لَكَ مِنْ خَالَةٍ؟”.
کیا تیری خالہ ہے
اس نے کہا :ہاں۔
آپ نے فرمایا :
"فَبِرَّهَا”
[ ترمذی : 1904]
اس کی خدمت کرو۔“

خالہ کی عزت ماں کی طرح ہے

خالہ کے متعلق نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا فرمان ہے:
الخَالَةُ بمنزِلَةِ الأُمِّ
خالہ ماں کے درجے میں ہے.
(صحیح بخاری، 2699)

چچا اور تایا کی عزت باپ کی طرح کریں

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا:
الْعَبَّاسُ عَمُّ رَسُولِ اللَّهِ، وَإِنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيهِ ”
سنن الترمذي | 3761،صحيح
عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں اور بے شک آدمی کا چچا اس کے باپ کے مانند ہوتا ہے.

لھذا یہ بھی صلہ رحمی میں سے ہے کہ آدمی اپنے چچا کی توقیر اور احترام کرے، خواہ وہ عمر میں اس سے چھوٹا ہو اسی طرح بھانجی کو اپنی خالہ کا احترام کرنا چاہیے، چاہے وہ اس سے چھوٹی عمر کی ہو کیوں کہ چچا باپ کی جگہ ہے اور خالہ ماں کے مقام پر.

تیسرا حکم وَبِذِي الْقُرْبَى ہے
یعنی رشتہ داروں کے ساتھ اچھے تعلقات اور روابط رکھے جائیں

چوتھا حکم وَالْيَتَامَى ہے
یعنی یتیم بچوں کے ساتھ ہمدردی، تعاون اور خیر خواہی کی جائے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ هَكَذَا”
بخاری : 6005
’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔‘‘
پھر آپ نے اپنی شہادت کی اور درمیانی انگلی کو ملا کر بتایا۔

پانچواں حکم وَالْمَسَاكِينِ ہے
یعنی مسکینوں کے ساتھ تعاون اور ان کی مدد کرنا
مسکین وہ ہوتا ہے جس کی آمدنی اس کی ضروریات سے کم ہے
ہم اپنے اردگرد دیکھیں کتنے مزدور لوگ ایسے مل جائیں گے جن کی انکم ان کی ضروریات سے کم ہے
مختلف دکانوں پر کام کرنے والے حضرات جو 20،25 ہزار روپے تنخواہ پہ کام کر رہے ہیں اس دور میں یقیناً یہ انکم ان کے اخراجات سے کم ہے

چھٹا حکم وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ ہے
یعنی ہمسائیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا
خواہ وہ ہمسائے رشتہ دار ہوں اور خواہ اجنبی ہوں

دین اسلام میں ہمسائیوں کے حقوق پر بہت زور دیا گیا ہے ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جبریل علیہ السلام مجھے ہمیشہ پڑوسی کے متعلق وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ پڑوسی کو وارث قرار دے دیں گے۔‘‘
[ بخاری : 6015 ]

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ فرمایا :
’’اللہ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا۔‘‘
صحابہ نے پوچھا : ’’کون شخص ؟‘‘
فرمایا :
’’وہ شخص جس کی ایذا رسانیوں سے اس کا ہمسایہ بے خوف نہ ہو۔‘‘
[ بخاری : 6016 ]

ساتواں حکم وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ ہے
یعنی پہلو کا ساتھی
پہلو کے ساتھی سے ہم نشین دوست، سفر کا ساتھی، بیوی، علم سیکھنے کے لیے آنے والے یا کاروباری سلسلے میں پاس آ بیٹھنے والے سب مراد ہیں۔
گاڑی میں سفر کے دوران دائیں بائیں بیٹھنے والے،
نادرا آفس ، پاسپورٹ آفس، بینک، ریلوے اسٹیشن،وغیرہ میں لائن میں پاس کھڑے یا بینچ پہ ساتھ بیٹھنے والے
کلاس روم، ورکشاپ یا کسی بھی ٹریننگ سینٹر میں ساتھ بیٹھنے والے کلاس فیلوز
ساتھ مل کر مزدوری کرنے والے
ساتھ مل کر کاشت کاری کرنے والے
مارکیٹ میں آس پاس کے دکاندار
یہ سب لوگ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ میں آتے ہیں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا لازم ہے

ٹرین یا بس وغیرہ میں سفر کے دوران قریب کھڑے کسی بوڑھے، کمزور مرد یا عورت کے لیے اپنی سیٹ چھوڑ دینا چاہے کچھ وقت کے لیے ہی چھوڑے، وہ بھی اسی حکم میں آجاتا ہے

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
بدر کے دن ہم میں سے ہر تین افراد کے پاس ایک اونٹ ہوتا تھا حضرت علی اور ابو لبابہ رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدل چلنے کی باری آتی تو وہ دونوں کہتے
نَحْنُ نَمْشِي عَنْكَ
کہ اے اللہ کے رسول آپ کی باری پر بھی ہم ہی چلیں گے تو آپ انہیں جوابا ارشاد فرماتے
مَا أَنْتُمَا بِأَقْوَى مِنِّي وَلَا أَنَا بِأَغْنَى عَنْ الْأَجْرِ مِنْكُمَا
نہ تو تم دونوں مجھ سے طاقت میں زیادہ ہو اور نہ ہی میں ایسا ہوں کہ مجھے اجر کی ضرورت نہیں ہے
مسند احمد

سیدنا معاذ بن جبل ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
الْغَزْوُ غَزْوَانِ, فَأَمَّا مَنِ ابْتَغَى وَجْهَ اللَّهِ، وَأَطَاعَ الْإِمَامَ، وَأَنْفَقَ الْكَرِيمَةَ وَيَاسَرَ الشَّرِيكَ، وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ، فَإِنَّ نَوْمَهُ، وَنُبْهَهُ أَجْرٌ كُلُّهُ, وَأَمَّا مَنْ غَزَا فَخْرًا، وَرِيَاءً، وَسُمْعَةً، وَعَصَى الْإِمَامَ، وَأَفْسَدَ فِي الْأَرْضِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَرْجِعْ بِالْكَفَافِ
ابوداؤد كِتَابُ الْجِهَادِ،حسن،2515
” جہاد دو قسم کا ہے :
جس نے اللہ کی رضا چاہی ، امام کی اطاعت کی ، عمدہ مال خرچ کیا ، اپنے شریک کار سے نرمی کا برتاؤ کیا اور فساد سے بچتا رہا ، تو بلاشبہ ایسے مجاہد کا سونا اور جاگنا سبھی اجر و ثواب کا کام ہے لیکن جس نے فخر ، دکھلاوے اور شہرت کی نیت رکھی ، امام کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد کیا تو بلاشبہ ایسا آدمی ( ثواب تو کیا ) برابری کے ساتھ بھی نہیں پلٹا ( گناہ سے بچ آنا بھی مشکل ہے)“

آٹھواں حکم وَابْنِ السَّبِيلِ ہے
اس سے مراد راہ چلتے مسافر ہیں
اور اس سے مراد مہمان بھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کا اکرام ( عزت افزائی) کرے۔‘‘
[ بخاری : 6018 ]

نوواں حکم وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ہے
اس سے مراد غلام اور لونڈیاں ہیں، کیونکہ وہ ملکیت میں ہونے کی وجہ سے بالکل ہی بے بس ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وصیت کرتے ہوئے فرمایا :
’’نماز اور تمھارے غلام (ان دونوں کا خاص خیال رکھنا)۔‘‘
[ أبو داوٗد : 5156 ]

کسی آدمی کے ماتحت سبھی افراد اس کے حسن سلوک کے حق دار ہیں، مثلاً گھر، دکان اور کارخانوں کے ملازم اور نوکر چاکر وغیرہ۔
لھذا ایسے لوگوں کی سہولیات اور ضروریات کا خیال رکھنا اس آدمی پر لازم ہے اور یہ بھی کہ ان کی تنخواہ بروقت ادا کرے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’آدمی کو اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ وہ جن لوگوں کی خوراک کا مالک ہے ان کی خوراک روک لے۔‘‘
مسلم : 996

اس آیت مبارکہ کا خلاصہ

اس میں بیان کردہ سبھی احکامات کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ کوئی بھی شخص جس کے ساتھ کسی بھی قسم کا کوئی تھوڑا یا زیادہ، رشتہ ناطہ، تعلق بنتا ہے انسان پر لازم ہے کہ اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے
اسی کو صلہ رحمی کہتے ہیں

صلہ رحمی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا

جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر پہلی وحی ۔ اقرا باسم ربک الذی خلق ۔ نازل ھوئي تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ( غار حراء ۔ جبل نور ) سے کانپتے ہوئےواپس آۓ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس گھر پہنچتے ہی فرمانے لگے : زمّلونی(مجھے کمبل اوڑھا دیجیے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے معاملہ کی خبر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو دی اور فرمایا کہ میں ڈر گیا ھوں اور مجھے جان کا خطرہ لاحق ھو گیا ہے ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :
كَلَّا وَاللَّهِ، مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا ؛ إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ
صحيح البخاري | 3
اللہ کی قسم ! آپ کو ایسا کوئی خطرہ نہیں ھو سکتا ، اللہ آپ کو کبھی غمناک و پریشان نہیں کرے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ۔ کمزوروں کی دست گیری فرماتے ہیں ، ناداروں کو کپڑا پہناتے ہیں اور مہانوں کی میزبانی کرتے ہیں "

سعید بن مسیب رحمہ اللہ کا حیران کن واقعہ

سيدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے کہا گیا ابراہیم بن محمد بن طلحہ رحمہ اللہ فوت ہو گئے ہیں
انہوں نے پوچھا :کیسے فوت ہوئے ہیں
کہا گیا :انکا مکان ان کے اوپر گر گیا ہے
فرمانے لگے :
هيهات لا يموت مثله هكذا
ہرگز نہیں اس طرح کے شخص کی موت ایسے نہیں ہو سکتی
جب اسے ملبے تلے سے نکالا گیا تو انہوں نے اسے زندہ پایا اسکی ٹانگ بھی نہیں ٹوٹی چنانچہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے پوچھا گیا :
آپ نے جو کچھ کہا ہے کیسے کہہ دیا
فرمانے لگے :
لأنه واصل للرحم وواصل الرحم يوقى ميتة السوء.
سفط الملح وزوح الترح(٢٩)
کیونکہ وہ صلہ رحمی کرنے والا ہے اور صلہ رحمی کرنے والے کو بری موت سے بچا لیا جاتا ہے

اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو رشتہ داری ملاؤ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ
وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ
وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ”.
صحيح البخاري | 6138
جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیئے
اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ وہ صلہ رحمی کرے
جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو ، اسے چاہیئے کہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ چپ رہے ۔

جو تعلق توڑنے کی کوشش کرتا ہے اس سے بھی جوڑیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ وَلَكِنَّ الْوَاصِلُ الَّذِيْ إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهٗ وَصَلَهَا]
[بخاري : 5991]
’’صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو صلہ رحمی کے مقابلے میں صلہ رحمی کرتا ہے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کی رشتہ داری قطع کی جائے تو وہ اسے ملائے۔‘‘

ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ھوا اور اس نے عرض کیا :
” میرے رشتہ دار ایسے ہیں کہ میں ان سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کرتا ھوں مگر وہ مجھ سے قطع تعلقی کا رویہ اپناتے ہیں ، میں ان پر نیکی و احسان کرنے کی راہ اپناتا ھوں ، مگر وہ میرے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں ۔ میں حلم و بردباری سے کام لیتا ھوں مگر وہ مجھ پر زیادتی کرتے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
"لَئِنْ كُنْتَ كَمَا قُلْتَ فَكَأَنَّمَا تُسِفُّهُمُ الْمَلَّ ، وَلَا يَزَالُ مَعَكَ مِنَ اللَّهِ ظَهِيرٌ عَلَيْهِمْ مَا دُمْتَ عَلَى ذَلِكَ”
( صحیح مسلم 2558)
اگر تو ایسے ہی ہے جیسے تو بتا رہا ہے تو انھیں انگاروں پر لوٹا رہا ہے اور جب تک تم اپنی اسی روش پر قائم رھو گے ۔ اللہ کی طرف سے تمھارے لۓ ایک مدد گار مقرر رہے گا "

رشتہ داروں پر خرچ کرنے کا دوگنا اجر

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :
” الصَّدَقَةُ عَلَى الْمِسْكِينِ صَدَقَةٌ، وَهِيَ عَلَى ذِي الرَّحِمِ ثِنْتَانِ : صَدَقَةٌ، وَصِلَةٌ ”
سنن الترمذي | 658
"مسکین پر صدقہ صرف صدقہ ہے جبکہ قرابت داروں پر صدقہ ہی نہیں بلکہ ساتھ صلہ رحمی بھی ( دوگنا اجر و ثواب ) ہے "

اپنا باغ رشتہ داروں میں تقسیم کر دیا

ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی :
’’یا رسول اللہ ! میری جائداد میں سے مجھے سب سے محبوب ’’بَيْرُحَاء‘‘ باغ ہے (جو عین مسجد نبوی کے سامنے تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا نفیس پانی پیا کرتے تھے) اور اے اللہ کے رسول ! میں اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور اس کے اجر و ثواب کی امید رکھتا ہوں، آپ اس کے بارے میں جو چاہیں فیصلہ فرما دیں۔‘‘
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الْأَقْرَبِينَ”.
میری رائے یہ ہے کہ آپ اسے اپنے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردیں
فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَبَنِي عَمِّهِ
صحيح البخاري | 1461
تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے قریبی رشتہ داروں اور چچا کے بیٹوں میں تقسیم کر دیا

خالہ زاد بھائی کی بلامعاوضہ تنخواہ مقرر کر دی

مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خالہ زاد بہن کے بیٹے تھے (بعض نے انھیں خالہ زاد بھی کہا ہے)، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے قرابت اور ان کے فقر کی وجہ سے ان کا وظیفہ مقرر کر رکھا تھا
بخاری : 4750

صلہ رحمی ،فراخی رزق کا سبب ہے

انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ، وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ”.
صحيح البخاري | 5986
جو چاہتا ہو کہ اس کی روزی میں کشادگی ہو اور اس کی عمر میں اضافہ ہو تو اسے اپنے رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا چاہیے۔

صلہ رحمی دخول جنت کا سبب ہے

ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے پوچھا:
اے اللہ کے رسول !
أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ
کوئی ایسا عمل مجھے بتایئے کہ اس کے ذریعہ جنت حاصل کر لوں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا :
"تَعْبُدُ اللَّهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ.”
صحيح البخاري | 5983
"اللہ کی خالص بندگی کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کیا کرو۔“

عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصِلُوا الْأَرْحَامَ، وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ ".
سنن ابن ماجه | 3251، صحيح
” اے لوگو ! سلام کو عام کرو ، بھوکوں کو کھانا کھلاؤ ، صلہ رحمی کرو ، راتوں کو جب لوگ سوئے ھوئے ھوتے ہیں تم نماز ( تہجد ) ادا کرو ، اس طرح آسانی و سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ھو جاؤ گے ” ۔

سورہ بلد میں اللہ تعالیٰ نے نیکی کے بڑے بڑے کام ذکر کیے مثال کے طور پر فرمایا :
فَكُّ رَقَبَةٍ
(وہ) گردن چھڑانا ہے۔
البلد : 13
أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ
یا کسی بھوک والے دن میں کھانا کھلانا ہے۔
البلد : 14
يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ
کسی قرابت والے یتیم کو۔
البلد : 15
أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ
یا مٹی میں ملے ہوئے کسی مسکین کو۔
البلد : 16
ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ
پھر (یہ کہ) ہو وہ ان لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو رحم کرنے کی وصیت کی۔
البلد : 17

یہ سب ذکر کرنے کے بعد فرمایا :
أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ
یہی لوگ دائیں ہاتھ والے ہیں۔
البلد : 18

رشتہ داری نے رحمان کے عرش سے لٹک کر ایک دعا کی

اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"الرَّحِمُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ، تَقُولُ : مَنْ وَصَلَنِي وَصَلَهُ اللَّهُ، وَمَنْ قَطَعَنِي قَطَعَهُ اللَّهُ ”
مسلم : 2555
”رشتہ عرش الٰہی سے آویزاں ہے، وہ کہتا ہے جس نے مجھے جوڑا اللہ اسے جوڑے اور جس نے مجھے توڑ دیا، اللہ اسے توڑ دے۔“

الله تعالیٰ نے رشتہ داری کی دعا قبول کی

اللہ تعالیٰ نے رشتہ داری سے فرمایا :
أَلَا تَرْضَيْنَ أَنْ أَصِلَ مَنْ وَصَلَكِ وَأَقْطَعَ مَنْ قَطَعَكِ
کیا تم اس پر راضی نہیں کہ میں ناطہٰ کو جوڑنے والے سے اپنے رحم کا ناطہٰ جوڑوں اور ناطہٰ کو کاٹنے والوں سے جدا ہو جاؤں۔
اس نے کہا :کیوں نہیں اے میرے رب!
تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فَذَلِكِ لَكِ
صحيح البخاري | 4830
یہ تیرے لیے ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ الرَّحِمَ شَجْنَةٌ مِنَ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ اللَّهُ: مَنْ وَصَلَكِ وَصَلْتُهُ، وَمَنْ قَطَعَكِ قَطَعْتُهُ
بخاري : 5988
رحم کا تعلق رحمن سے جڑا ہوا ہے پس جو کوئی اس سے اپنے آپ کو جوڑتا ہے اللہ پاک نے فرمایا کہ میں بھی اس کو اپنے سے جوڑ لیتا ہوں اور جو کوئی اسے توڑ تا ہے میں بھی اپنے آپ کو اس سے توڑ لیتا ہوں ۔

رشتہ داری توڑنے والے نقصان اٹھانے والے ہیں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو، اسے پختہ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور اس چیز کو قطع کرتے ہیں جس کے متعلق اللہ نے حکم دیا کہ اسے ملایا جائے اور زمین میں فساد کرتے ہیں، یہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔
البقرة : 27

”اللہ کے نزدیک سب سے غصے والا عمل

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
ابغض الأعمال إلى اللہ الاشراك باللہ، ثم قطيعة الرحم
[صحيح الجامع الصغير، رقم : 166]
”اللہ کے نزدیک سب سے بُرا عمل رب کائنات کے ساتھ شرک کرنا، پھر رشتہ داری توڑنا ہے۔“

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
” لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ ”
مسلم : 2556
”جنت میں رشتہ توڑنے اور کاٹنے والا نہ جائے گا۔“

دنیا میں سب سے جلدی جس گناہ کی سزا ملتی ہے

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا :
"مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ يُعَجِّلَ اللَّهُ تَعَالَى لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا، مَعَ مَا يَدَّخِرُ لَهُ فِي الْآخِرَةِ ؛ مِثْلُ الْبَغْيِ وَقَطِيعَةِ الرَّحِمِ”.
رواه أبو داود 4902 وصححه الألباني
”کوئی گناہ ایسا نہیں کہ اس کا کرنے والا دنیا میں ہی اس کا زیادہ سزا وار ہو اور آخرت میں بھی یہ سزا اسے ملے گی سوائے ظلم اور رشتہ توڑنے کے۔“

رشتہ داری توڑنے والے کے اعمال کا معاملہ

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
"تُعْرَضُ الْأَعْمَالُ فِي كُلِّ يَوْمِ خَمِيسٍ وَاثْنَيْنِ، فَيَغْفِرُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ، لِكُلِّ امْرِئٍ لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا، إِلَّا امْرَأً كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ، فَيُقَالُ: ارْكُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا، ارْكُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا”
صحیح مسلم: 2565
ہر سوموار اور جمعرات کو اعمال پیش کیے جاتے ہیں ، اللہ اس دن میں ہر اس شخص کو معاف فرما دیتے ہیں جو اللہ کے ساتھ کچھ بھی شرک نہ کرتا ہو، مگر وہ شخص جسکے اور اسکے بھائی کے درمیان بغض ہے (انہیں معاف نہیں کیا جاتا) ، کہا جاتا ہے ان دونوں کو رہنے دو، حتى کہ یہ صلح کر لیں، ان دونوں کو رہنے دو، حتى کہ یہ صلح کر لیں۔

ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
"إِنَّ أَعْمَالَ بَنِي آدَمَ تُعْرَضُ كُلَّ خَمِيسٍ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَلَا يُقْبَلُ عَمَلُ قَاطِعِ رَحِمٍ”
مسند أحمد | 10272
بنی آدم کے اعمال جمعرات کی شام اور جمعہ کی رات کو اللہ تعالیٰ کے پاس پیش کئے جاتے ہیں تو آپ قطع رحمی کرنے والے کے عمل کو قبول نہیں کرتے۔”

صلہ رحمی میں یہ بھی شامل ہے کہ رشتہ داروں کو دین سکھائیں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ
اور اپنے سب سے قریب رشتہ داروں کو ڈرا۔
الشعراء : 214

اور یہ بھی کہ انہیں نماز پڑھنے اور اس پر پابند رہنے کا حکم دیا جائے
فرمایا :
«وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَيْهَا »
[ طٰہٰ : ۱۳۲ ]
’’اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دے اور اس پر خوب پابند رہ۔‘‘

اور یہ بھی کہ انہیں جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کی جائے
فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچائو
التحریم : 6

رشتہ داری ٹوٹنے کے اسباب

1 غلطیوں سے درگزر نہ کرنا

اکٹھے رہتے ہوئے اونچ نیچ ہوجانا ایک فطری امر ہے لیکن معاملہ تب بگڑتا ہے جب لوگ ایک دوسرے کی ہلکی پھلکی غلطیوں کو نظر انداز کرنے کی بجائے باریک باریک حساب چکانے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں صاف بات ہے کہ رشتے بچانے کے لیے بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے ہروقت کورے کرارے بنے رہنے سے رشتوں میں دراڑیں پیدا ہو جاتی ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"الْمُؤْمِنُ الَّذِي يُخَالِطُ النَّاسَ، وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يُخَالِطُ النَّاسَ، وَلَا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ”
سنن ابن ماجه | 4032
وہ مومن بندہ جو دیگر لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے آنے والی پریشانیوں پر صبر کرتا ہے اس مومن سے بہتر ہے جو نہ لوگوں سے گھل مل کر رہتا ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے آنے والی پریشانیوں پر صبر کرتا ہے

شاعر نے اس موضوع پر یوں اظہار سخن کیا ہے:
إذا ما خليلي أساء مرَّةً
وقد كان مِن قَبْلُ ذا مجمِلا
ذكرتُ المقَدَّمَ مِن فعلِه
فلم يُفسدِ الآخرُ الأوَّلا
(العقد الفرید:2/275)
"جب میرے کسی پرانے احسان مند دوست سے کوئی برائی سرزد ہوجاتی ہے تو میں اس کے سابقہ احسانات کو یاد کر تاہوں۔اس طرح پرانی دوستی بگڑنے نہیں پاتی”

2 غربت

غربت قطع رحمی کا کوئی سبب نہیں ہے لیکن لوگوں نے اسے سبب بنا لیاہے۔
کوئی رشتہ دار غريب ہو تو مالدار رشتہ دار ان سے منہ موڑ لیتے ہیں
ان کے ساتھ چلنا اپنے سٹیٹس کے خلاف سمجھا جاتا ہے اور یوں وہ آہستہ آہستہ دور ہوجاتے ہیں
حالانکہ یہ سوچ اور ذہن اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں

3 برادری کی رسومات

لوگوں نے خوشی اور غمی کے مواقع پر ایسی رسومات اختیارکی ہوئی ہیں جنہیں پوراکرنا غریب آدمی کے بس کی بات نہیں مثلاً شادی کے موقع پر کسی کی دی ہوئی رقم سے زیادہ رقم سلامی کے طور پر دینا، ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ یاپھر غمی کے موقع پر بعض رشتہ داروں کے لئے ضروری تصور کیا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کو لازما کھاناکھلائیں ۔
تو جو غریب رشتہ دار ہوتے ہیں وہ جب طاقت نہیں رکھتے تو ان سے دوری اختیار کر لی جاتی ہے

4 رشتے لین دین

عموماً دیکھا گیا ہے کہ بہنوں بھائیوں کا آپس میں بہت سلوک اور اتفاق ہوتا ہے ہنسی خوشی زندگی گزر رہی ہوتی ہے پھر ایک وقت آتا ہے کہ جب ان کی اولادیں جوان ہوجاتی ہیں اور ایک دوسرے سے رشتے لینے دینے کی باری آتی ہے تو اگر کسی بھائی یا بہن کی طرف سے رشتہ کے سلسلے میں جواب دے دیا جائے تو پچھلے چالیس، پچاس سال کی رفاقت کو لمحے بھر میں اڑا دیا جاتا ہے اور پھر موت تک جینا مرنا ختم ہو جاتا
جبکہ یہ عادت اچھی نہیں ہے
ایک رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے بہن بھائیوں کے ساتھ گزرے بچپن کے حسین لمحات اور جوانی کی خوبصورت یادیں ملیامیٹ کردینا کون سی عقل مندی ہے

5 طلاق

چچے ،تائے، خالہ، پھوپھی کے گھر اپنے کسی عزیز یا عزیزہ کا رشتہ طے کیا تھا مگر کسی وجہ سے طلاق ہو گئی تو اب کیا ہوتا ہے کہ طرفین کے افراد زندگی بھر ایک دوسرے سے قطع تعلق کرلیتے ہیں
جبکہ
حقیقت یہ ہے کہ طلاق نہ تو دشمنی ہے اور نہ ہی جنگ اور نقصان کا دروازہ۔
اللہ تعالیٰ نے طلاق کے واقع ہوجانے کے بعد طرفین سے فرمایا ہے :
وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ
اور آپس میں احسان کرنا نہ بھولو
البقرۃ : 237

حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ کا واقعہ

استاذ العلماء، محدث دوراں حافظ کی بیٹی کو ان کے داماد نے طلاق دے دی تو حافظ صاحب اسے کہنے لگے :
بیٹا! ہمارا ایک رشتہ( مساہرت والا) ختم ہوا ہے دوسرا رشتہ (اسلام والا) ابھی باقی ہے

ہسپتال میں تعاون کے لیے سابقہ شوہر سے رابطہ

شيخ بدر بن علي العتيبي لکھتے ہیں :
ایک سعودی عورت جس کی سرجری کا وقت قریب تھا اور اسے سرجری کے لیے چھ ہزار ریال رقم کی شدید ضرورت تھی، ایسے موقع پر اسے اپنے سابقہ ​​شوہر کے علاوہ اس کی مدد کرنے والا کوئی نظر نہ آیا ، اس نے اسے میسیج کیا اور اس نے بھی پرانے تعلق کی بنیاد پر وفاداری نبھائی اور بروقت سخاوت کرکے اس کی مشکل حل کردی۔
اللہ پاک اس کا چہرہ تر و تازہ رکھے اور اس کا داہنا ہاتھ کبھی تنگ نہ ہو