شان عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ
إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰی ؕ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ﴾ [الحجرات: 3]
آج کے خطبہ میں جس شخصیت گرامی کا ذکر خیر کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں وہ رسول اکرم ﷺ اور صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد ساری امت میں افضلیت کا اعزاز پانے والی شخصیت ابو حفص عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔
وہ شخصیت کہ اگر خلافت میں پہلا نمبر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا تھا تو دوسرا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے۔ اگر پیغمبر کی رفاقت و صحبت میں پہلا درجہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا تو دوسرا درجہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے۔ اگر عشرہ مبشرہ میں پہلا نام ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے تو دوسرا نام عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے۔ اگر نبیﷺ کے خصوصی وزیروں اور مشیروں میں پہلا نام ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے تو دوسرا رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے۔
آئیے سب سے پہلے قرآن کی زبانی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت کی ایک جھلک دیکھیں صحیح البخاری میں حدیث ہے جب سورۃ الحجرات کی سی آیت مبارکہ نازل ہوئی:
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰی ؕ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ﴾ [الحجرات: 3]
’’یقینا جو لوگ رسول اللہ کے پاس اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کا امتحان تقویٰ (کے مضمون) میں اللہ تعالی نے لیا ہے (اور انہیں متقی قرار دیا ہے) ان کے لیے بخشش اور بہت بڑا اجر ہے۔‘‘
اس آیت کے اترنے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس قدر آہستہ بولتے تھے کہ کئی دفعہ آپﷺ کو دوبارہ پوچھنا پڑتا۔ معلوم ہوا یہ آیت اور اس میں ذکر کردہ انعام (بخشش واجر) کے اولین حقداروں میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا نام ہے۔ پھر قرآن کریم کی وہ تمام آیتیں جو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی موافقت میں نازل ہوئیں۔ وہ شان عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی تاقیامت درخشندہ و تابندہ دلیل ہیں کہ کبھی آپ کی خواہش پر آیات حجاب اترتی ہیں۔ کبھی آپ کی خواہش پر مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھنے کی آیات اترتی ہیں۔ کبھی آپ کی خواہش پر حرمت خمر کی آیات کا نزول ہوتا ہے۔ کبھی بدر کے قیدیوں کے سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے کے مطابق قرآن اترتا ہے۔ جس طرح چند موافقات عمر میں صحیح البخاری کی اس حدیث میں بھی موجود ہیں۔ حضرت انس اور ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ تین باتوں میں میری اپنے پروردگار سے موافقت ہوئی ہے۔ جناب عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں۔ ان میں سے ایک بات یہ تھی (میں نے عرض کیا تھا کہ) اے اللہ کے رسول ﷺ اگر ہم مقام ابراہیم کے قریب (نفل) نماز ادا کرتے تو بہتر ہوتا۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی:
﴿وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيْمَ مُصَلَّى﴾ [البقرة:125)
’’تم مقام ابراہیم کے قریب (نقل) نماز ادا کرو۔‘‘
(اور دوسری بات یہ تھی کہ) اے اللہ کے رسول ﷺ آپ کی بیویوں کے ہاں اچھے اور برے سبھی لوگ آتے جاتے ہیں اگر آپﷺ انہیں پردہ کرنے کا حکم دیں تو بہتر ہو گا۔ اس پر پردے کی آیات نازل ہوئیں۔ (تیسری بات یہ تھی کہ) جب آپ کی بیویاں غیرت کرتے ہوئے اکٹھی ہوئیں۔ (غیرت سے مراد یہ ہے کہ جب نبی ﷺ نے اپنی ایک زوجہ محترمہ کے ہاں شہد پینا شروع کیا تو دیگر ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن نے ایک محاذ قائم کر لیا تھا) تو میں نے (ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن سے) کہا تھا کہ اگر پیغمبرﷺ تمہیں طلاق دیں تو اللہ تعالی آپ کو تم سے بہتر بیویاں عطا کریں گے۔ چنانچہ اسی طرح یہ آیت نازل ہوئی:
﴿ عَسٰی رَبُّهٗۤ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ یُّبْدِلَهٗۤ ﴾
اور دوسری روایت میں ہے: ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں جناب عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا کہ میں نے تین باتوں میں اپنے پروردگار کی موافقت کی ہے۔ پہلی بات مقام ابراہیم کے بارے میں۔ دوسری بات پردے کے بارے میں اور تیسری بات بدر کے قیدیوں کے بارے میں ہے۔[صحيح البخاري، كتاب الصلاة، باب ماجاء في القبلة و من لم ير الإعادة (402) (4483) 4790)]
دیگر احادیث مبارکہ میں مزید موافقات عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھی مذکور ہیں، معلوم ہوا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا سینہ اس قدر روشن تھا کہ آپ کی رائے اور خواہش کے مطابق قرآن اتر پڑتا تھا اور یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ ملہم من اللہ تھے (جس طرح آگے حدیث میں آرہا ہے)۔
قرآن کریم کے بعد حدیث کی دو مستند ترین کتابوں صحیح البخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے بہت سارے فضائل و مناقب درج ہیں ان میں سے چند ارشادات نبویہ آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔
اپنی جان سے بھی زیادہ محبت رسول اللہ ﷺ سے:
1۔ جناب عبداللہ بن ہشام روایت کرتے ہیں ایک دن رسول اللہ ﷺ حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ مجھے اپنی جان کے علاوہ سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ (حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کس قدر کھرے انسان تھے کہ جتنی بات دل میں تھی اتنی ہی بتلائی اپنی طرف سے کچھ نہیں کہا) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ کافی نہیں ہے جب تک تم مجھے اپنی جان سے زیادہ محبوب نہ سمجھو صحیح معنوں میں محب رسول نہیں بن سکتے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے عمررضی اللہ تعالی عنہ! اب تم حقیقی معنوں میں محب رسولﷺ ہوئے ہو۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الأيمان والنذور، باب كيف كانت يمين النبي ﷺ، رقم: 6632]
سبحان اللہ! کیسا ایمان ہے؟ فوراً اپنی اصلاح کرلی اور دل میں رسول اللہﷺ کی محبت کو اپنی جان سے بھی بڑھا لیا۔
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ’’تم سے پہلی امتوں میں الہامی لوگ ہوا کرتے تھے اگر میری امت میں سے کوئی شخص الہامی ہوتا تو وہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہوتا۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب المناقب (3689) ومسلم (3689) والترمذي (3693)]
پیچھے ذکر کردہ موافقات عمر ہی دور سے اس حدیث کی مزید تشریح ہوتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ واقعۃ ملهم من اللہ تھے آپ پر الہام اترتا تھا۔
3۔ ایک موقعہ پر امام الانبیاء جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ سَالِكًا فَجًّا. قَطُّ إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ) [صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب مناقب عمر بن خطاب (3683) و مسلم (22) و احمد (178/1)]
’’اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب کہیں کسی راستے میں شیطان سے تیرا سامنا ہوتا ہے تو وہ تیرا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستہ پر چلنے لگتا ہے۔‘‘
اللہ اکبر! جس سے ڈر کر شیطان راستہ بدل جائے۔ بھلا اس کے ایمان میں کوئی شک ہو سکتا ہے؟ حقیقت ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ایمان میں شک کرنے والا خود ایمان سے خالی و عاری ہے۔
4۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں (معراج کی رات) جنت میں داخل ہوا تو میں نے ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی ’’رمیصاء کو‘‘ دیکھا نیز میں نے چلنے کی آواز سنی چنانچہ میں نے دریافت کیا کہ یہ کون ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ بلال رضی اللہ تعالی عنہ ہے۔ اور میں نے ایک محل دیکھا جس کے صحن میں ایک دوشیزہ تھی۔ میں نے دریافت کیا کہ یہ (محل) کس کے لیے ہے؟ جنتیوں نے بتایا کہ (یہ محل) عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے۔ میں نے چاہا کہ اس میں داخل ہوں اور اسے (غور سے) دیکھوں۔ لیکن میں نے تیری غیرت کو یاد کیا۔‘‘ جناب عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا: اے اللہ کے رسولﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان جائیں، تعجب ہے، کیا میں آپ ﷺ (کے داخل ہونے) پر غیرت کروں گا؟[صحيح البخاري، كتاب المناقب، باب مناقب عمر رضی اللہ تعالی عنہ (3679) و مسلم (21۔ 2395) واحمد (381/3)]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے گھر والوں کے حوالے سے انتہائی غیرت مند تھے حتی کہ رسول اللہ ﷺ نے آپ کی اس غیرت کو ملحوظ رکھا نیز پتہ چلا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے جنت میں محل اس وقت سے تیار ہے جب آپ رضی اللہ تعالی عنہ زمین پر زندگی گزار رہے تھے۔
5۔ غلبہ اسلام میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا کردار:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک بار میں سویا ہوا تھا میں نے دیکھا کہ (کچھ) لوگوں کو مجھ پر پیش کیا جا رہا ہے اور انہوں نے قمیصیں پہن رکھی ہیں کسی کا قمیص (اس کے) سینے تک اور کسی کا اس سے نیچے تھا اور عمر رضی اللہ تعالی عنہ مجھ پر پیش کیے گئے۔ تو وہ قمیص کو کھینچتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ اس کی تاویل کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’اس کی تاویل دین ہے (یعنی ان کے دور میں دین اسلام کو غلبہ حاصل ہوگا)‘‘ [صحيح البخاري، كتاب المناقب، باب مناقب عمر رضی اللہ تعالی عنہ (3691) و مسلم (3690) والترمذی (2285) و احمد (86/3)]
واقعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے قبول اسلام کے بعد دین کو غلبہ ملتا گیا، فقیہ الامت حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں ہم اس وقت سے عزت وغلبہ میں بڑھتے گئے جب سے عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام قبول کیا اور آپ کے دور خلافت میں بے شمار فتوحات ہوئیں۔ مسلمانوں پر اللہ کی زمین وسیع ہوتی گئی۔ یہود و نصاری اور مشرکین و مجوس ذلیل و رسوا ہوتے گئے حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے دور خلافت میں کسی یہودی یا عیسائی کو ایک منشی یا کلرک بھرتی کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتے تھے۔[ فتاوی ابن تیمیه، كتاب الجهاد.]
علم دین:
6۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں سو رہا تھا مجھے خواب میں دودھ کا پیالہ دیا گیا۔ میں نے اسے میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے کہ میں نے محسوس کیا کہ (دودھ کی) سیرابی نے بقیہ (دودھ) عمررضی اللہ تعالی عنہ کو دے دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ آپ اس کی کیا تاویل فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’(اس کی تعبیر) علم ہے۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب المناقب، باب مناقب عمر بن الخطاب فتاوی ابن تیمیه، كتاب الجهاد. (3981) و مسلم (2391) والترمذی (2284) والدارمي (171/2) (2154) و احمد (108/2)]
آج کسی کو علم شریعت کی سند کسی یونیورسٹی سے حاصل ہوتی ہے کسی کو علم دین کی ڈگری کسی اسلامی کالج سے ملتی ہے کسی کو علم وفقہ کی شہادت کسی جامعہ و مدرسہ سے ملتی ہے لیکن جناب عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو علوم نبویہ کی سند زبان نبوت اور لسانِ رسالت سے حاصل ہوئی:
﴿ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ﴾
خلافت
7۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں نیند میں تھا میں نے خود کو ایسے کنوئیں پر پایا جس کی منڈیر نہ تھی اس پر ایک ڈول تھا میں نے جس قدر اللہ نے چاہا کنوئیں سے ڈول نکالے پھر اس ڈول کو ابن ابی قحافہ (ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ) نے پکڑا۔ انہوں نے کنوئیں سے ایک یا دو ڈول نکالے۔ ان کے نکالنے میں کچھ کمزوری تھی۔ (یہ خلافت صدیقی کی قلیل مدت کی طرف اشارہ ہے) اللہ تعالی ان کی کمزوری کو معاف کرے۔ بعد ازاں وہ ڈول بڑے ڈول کی شکل میں تبدیل ہو گیا۔ اور اسے عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پکڑا۔ میں نے کسی مضبوط شخص کو نہیں دیکھا کہ وہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرح ڈول نکالتا ہو حتی کہ لوگ سیراب ہو گئے اور انہوں نے (اپنے اونٹوں اور زمین کو سیراب کیا۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب المناقب، باب مناقب عمر رضی اللہ تعالی عنہ (3664) و مسلم (2392)]
جنت کی بشارت:
8۔ ایک دن رسول اللہﷺ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے واپس آکر آپ ﷺ نے وضو کیا اور چاہ اریس کی منڈیر پر پیر لٹکا کر بیٹھ گئے اور اپنی پنڈلیاں کھول دیں۔ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ آپ کو تلاش کرتے ہوئے وہاں پہنچے۔ آپ کو سلام کیا اور واپس آ کر باغ کے دروازے پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ آئے دروازہ کھٹکھٹایا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا کون ہے؟ کہا: ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: ٹھہریے۔ پھر نبی ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اندر آنے کی اجازت مانگتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا: انہیں اجازت دو اور جنت کی بشارت دو۔ حضرت ابوموسی رضی اللہ تعالی عنہ نے بشارت دی۔ جناب ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اندر آئے اور نبی ﷺ کی داہنی جانب کنوئیں پر پیر لٹکا کر بیٹھ گئے اور اپنی پنڈلیاں کھول دیں۔ تھوڑی دیر بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے اندر آنے کی اجازت طلب کی بھی اسلام نے فرمایا: انہیں اجازت دواور جنت کی بشارت دو۔ حضرت ابو موسی رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں بشارت دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کنوئیں کی منڈیر پر رسول اللہ ﷺ کی بائیں جانب آکر بیٹھ گئے۔[صحيح البخاري، كتاب المناقب، باب مناقب عمر (3695) والترمذي (3710)]
آپ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھے:
9۔ ایک مرتبہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ اے
اللہ کے رسول ﷺ آپ کو سب سے زیادہ کس سے محبت ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے۔‘‘ انہوں نے پوچھا: مردوں میں سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ان کے والد سے (یعنی ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے )۔ انہوں نے کہا پھر کس سے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب المناقب، باب مناقب اي بكر رضی اللہ تعالی عنہ (4359) و مسلم (2384) و ابن ماجه (101)]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ محبوب رسول ﷺ ہیں اور جو شخص محبوب رسول ﷺ ہو اس سے محبت کرنا ہی ایمان کی نشانی ہے اور اس سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے۔ آج اپنے کسی نکمے محبوب پر کٹ مرنے والے محبوب رسول کو برا کہنے کی جسارت کرتے ہیں انہیں اللہ کی بطلش شدید سے ڈرنا چاہیے۔
جناب ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ تمام لوگوں سے افضل ہونے پر تمام صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کا اجماع تھا:
10۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں لوگوں کی فضیلت بیان کرتے تھے تو سب سے افضل ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کو سمجھتے پھر عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو پھر عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو۔[صحيح البخاري، كتاب المناقب، باب مناقب عمر رضی اللہ تعالی تعالی عنہ (3697) و ابوداود (1628) والترمذی (3707)]
حقیقت ہے جس کی افضلیت پر خیر القرون کے لوگ متفق ہوں، کسی سیاہ رو اور سیاہ دل کی ہرزہ سرائی سے اس کی شان میں کمی نہیں آتی بلکہ گستاخی کرنے والے کی اپنی عاقبت برباد ہو جاتی ہے۔
اہل بیت کے ہاں بھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ اور ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد سب سے افضل ہیں:
11۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے بہتر شخص کون ہے؟ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ’’ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ۔ اور پھر پوچھا گیا کہ ان کے بعد کون ہے؟ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: عمر رضی اللہ تعالی عنہ۔[صحيح البخاري، مكتاب المناقب، باب مناقب عمر رضی اللہ تعالی عنہ (3671) و ابوداود (4629)]
ہماری نہیں مانتے نہ مانو جس علی رضی اللہ تعالی عنہ کی محبت کے کھوکھلے راگ الاپتے ہو اور جس علی رضی اللہ تعالی عنہ کی محبت کے مصنوعی دعوے کرتے ہو اس کی بات تو مانو۔ اس نے اپنے بیٹے کو بتلایا کہ امت میں صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد سب سے افضل حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے جنازے کے وقت تبصرہ:
12۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا جنازہ پلنگ پر رکھ دیا گیا تو لوگوں نے چاروں طرف سے جنازہ کو گھیر لیا اور ان کے لیے دعائے خیر کرنے لگے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں بھی ان لوگوں میں کھڑا تھا کہ یکایک ایک شخص میرے پیچھے آ کر کھڑا ہو گیا اور اپنی کہنی میرے کندھے پر رکھ کر کہنے لگا: اللہ تم پر رحمت نازل فرمائے تم نے اپنے بعد کسی ایسے شخص کو نہیں چھوڑا کہ اس کے مثل عمل کر ے۔ مجھے اللہ سے ملنا تمہارے جیسے عمل کر کے ملنے سے زیادہ محبوب ہو۔ اللہ کی قسم! مجھے امید تھی کہ اللہ تمہیں اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ جمع کر دے گا اس لیے کہ میں اکثر رسول اللہﷺ کو اس طرح فرماتے سنا کرتا تھا میں اور ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہم تھے۔ میں اور ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہ ما نے کیا۔ میں اور ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما نکلے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے مڑ کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ شخص جناب علی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔[صحيح البخاري، كتاب الفضائل، باب مناقب أبي بكر، رقم: (3677)]
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے سیرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کی:
13۔ ایک دفعہ جناب عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے ایک شخص نے جناب عمر رضی اللہ تعالی عنہ بے جا تنقید کی حتی کہ انہیں غصہ آگیا قریب تھا کہ کوئی سزا نافذ کر دیتے کہ اتنے میں حضرت حر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا اے امیر المؤمنین! بے شک اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا ہے:
﴿خُذِ الْعَفْوَ وَأَمُرْ بِالعُرْفِ وَأَعْرِضُ عَنِ الْجَاهِلِينَ﴾ [الأعراف:199]
’’اور اے امیر المؤمنین! بے شک یہ شخص جاہلوں میں سے ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہم اکہتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس سے کچھ نہ کہا اور وہ ہمیشہ کتاب اللہ کے مقابلہ میں اپنے ارادہ سے رک جایا کرتے تھے کتاب اللہ کے مطابق عمل کرتے تھے۔[صحيح البخاري، كتاب التفسير، باب خذ العفو وأمر بالعرف وأعرض عن الجاهلين. (4642) (7286)]
غور کیجئے! خیر الامة رئيس المفسرين، ابن عم الرسول جناب عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے چند لفظوں میں کیسی عمدہ سیرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کی:
(وَكَانَ وَفَّاقًا عِنْدَ كِتَابِ اللهِ)
عمده عادات و خصائل
آداب رسول ﷺ کی جھلک:
14۔ ایک سفر میں جناب عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کا اونٹ بار بار رسول اللہ ﷺ کے اونٹ سے آگے نکل جاتا تھا۔ تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے کہا: رسول اللہ ﷺ سے آگے کسی کا بڑھنا جائز نہیں۔[صحيح البخاري، كتاب الجمعة، باب من اھدى له ھدیۃ الخ، رقم: 2610]
کس طرح لخت جگر کو آداب رسولﷺ رہے ہیں اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ انتہائی متبع سنت ثابت ہوئے۔
تعلیم دین کا ذوق:
گورنروں کو ہدایت کی کہ وہ تمام لوگوں کو دین کی تعلیم دیں اور سنت رسولﷺ کے مطابق عمل سکھلائیں۔[صحيح مسلم، كتاب المساجد، باب نهى من أكل ثوما أو بصلاً و كرثا أو نحوها… الخ. رقم: 1288]
آج ہماری حکومتیں مدارس و مساجد کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں، سکولوں کالجوں سے اسلامی نصاب کو خارج کر رہی ہیں اور مدارس میں عصری و دنیاوی علوم پڑھانے پر مصر ہیں اس کے برعکس حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کا طرز عمل کیا ہے کہ گورنروں کو اپنے اپنے علاقوں میں تعلیم دین کا اہتمام کرنے کی تلقین کر رہے ہیں۔
عدل و انصاف
وفات کے وقت ایک انصاری نوجوان نے آپ کو مخاطب کر کے کہا تھا۔ آپ خلیفہ بنائے گئے تو آپ عدل و انصاف کرتے رہے۔[صحیح البخاري، كتاب فضائل اصحابي النبيﷺ باب مناقب عثمان، رقم (3700)]
تاریخ میں لکھا ہے ایک دفعہ ایک گورنر زادے نے تھپڑ مار کر ایک غریب آدمی کا دانت توڑ ڈالا وہ غریب مدینے کی گلیوں میں دہائی دیتا ہے حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کو علم ہوا گورنر کو بھی بلا لیا اور اس کے بیٹے کو بھی طلب کر لیا۔ گورنر نے عرض کیا: غلطی میرے بیٹے کی ہے۔ مجھے کیوں طلب کیا گیا ہے۔ جناب عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: تیرے بیٹے کو یہ جرأت اس خمار کی وجہ سے ہوئی ہے کہ میں گورنر زادہ ہوں۔ اس لیے تیرے سامنے قصاص ہو گا پھر اس غریب سے کہا: اب تو اس گورنر زادے کو تھپڑ مار۔ یہاں تک کہ اس کا دانت بھی ٹوٹ کر زمین پر جا گرے۔
سخاوت
خیبر کی زمین جو ان کے خیال میں ان کا سب سے بہتر مال تھا اللہ کی راہ خیرات کر دی۔[صحيح البخاري، كتاب الشروط، باب الشروط في الوقف، رقم: 2737]
شہادت عمر رضی اللہ تعالی عنہ
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ دعا کیا کرتے تھے۔ (اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَهَادَةٌ فِي سَبِيلِكَ وَاجْعَلْ مَوْتِي فِي بَلَدِ رَسُولِكَ) [سير أعلام النبلاء للذهبي (88/28) و صحیح البخاري، كتاب فضائل المدينة، رقم: 1890]
’’یا اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت عطاء فرما اور مجھے اپنے پیغمبر کے شہر (مدینہ الرسول) میں فوت کرنا۔‘‘
ہائے کیسا ذوق شہادت ہے اور کسی قدر مدینے سے محبت ہے۔
قاتلانہ حملہ:
ایک دن حضرت عمر حسب معمول نماز پڑھانے آئے صفیں درست کروائیں۔ تکبیرِ تحریمہ کہی۔ ایک کافر غلام نے دو دھاری خنجر سے آپ پر حملہ کیا اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو شدید زخمی کر دیا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے: ’’قتلني كلب‘‘ ایک کتے نے مجھے قتل کر دیا۔ (اور وہ شخص واقعتہ بعد میں اپنے ہی خنجر سے کتے کی موت مرا) وہ اس طرح کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو زخمی کرنے کے بعد وہ اپنا خنجر لے کر بھاگا۔ اتنی مضبوط صف بندی تھی کہ اسے پیچھے نکلنے کے لیے 13 افراد (مختلف صفوں میں) زخمی کرنا پڑے جن میں سے سات شہید ہو گئے آخر ایک شخص نے اپنا موٹا باران کوٹ اس کے خنجر پر ڈال دیا جب اس شخص نے دیکھا کہ اب میں پکڑا جاؤں گا۔ اس نے اپنے ہی خنجر سے خود کو ذبح کر ڈالا۔ ادھر جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ زخمی ہو گئے تو آپ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں آگے کر دیا۔ نماز کے بعد جب آپ کے استفسار پر آپ کو بتلایا گیا کہ فلاں کافر غلام نے آپ پر حملہ کیا ہے تو آپ نے کہا: میں نے تو ہمیشہ اس کی خیر خواہی کی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری موت کسی ایسے شخص کے ہاتھ پر نہیں کی جو اسلام کا دعوی کرتا ہوں پھر آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو آپ کے گھر لے جایا گیا۔[ صحيح البخاري، كتاب فضائل أصحاب النبيﷺ، باب مناقب عثمان، رقم: 3700]
جوار رسول ﷺ میں دفن ہونے کی تمنا:
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی تمناؤں میں ایک تمنا یہ بھی تھی کہ مجھے حجرہ پیغمبر میں جوار رسول ﷺ میں تدفین کی جگہ مل جائے۔ آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس اجازت لینے کے لیے بھیجا۔ ام المؤمنین نے کہا: وہ جگہ تو میں نے اپنے لیے مختص کی تھی لیکن میں (امیر المؤمنین) عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے آپ پر ترجیح دیتی ہوں جب حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ خوشخبری سنائی گئی آپ نے کہا: مجھے اس سے زیادہ کسی اور بات کی فکر نہ تھی، پھر فرمایا: جب میں مر جاؤں تو مجھے اٹھا کر وہاں لے جانا۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو سلام کہنا پھر ان سے عرض کرنا، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ پھر اجازت طلب کرتا ہے اگر وہ اجازت دیں تو مجھے وہاں دفن کر دینا ورنہ عام مسلمانوں کے قبرستان میں لا کر دفن کر دینا۔[سیر اعلام النبلاء (91/28) و صحیح البخاری، مكتاب فضائل أصحاب النبيﷺ، باب مناقب عثمان رضی اللہ تعالی عنہ، رقم 3700]
وصیت
چھ افراد کا نام لیا: عثمان، علی، طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہم اور فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی وفات تک ان پہ خوش رہے۔ لہٰذا یہ جس کو بھی خلیفہ بنا دیں وہی خلیفہ ہے۔ اس کی بات سننا اور اطاعت کرنا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی اس وصیت میں ان لوگوں کی کس قدر تردید ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو ایک دوسرے کا دشمن ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ چھ سرکردہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کا نام لے کر ان کی شان بیان فرما رہے ہیں اور ان کے منتخب کردہ خلیفہ کی اطاعت کرنے کی نصیحت فرما رہے ہیں۔
آخری لمحات:
کبھی آہ و بکا سے ممانعت کرتے ہیں کبھی عیادت کرنے والے کو کپڑا ٹخنوں سے اونچا کرنے کی تلقین فرماتے ہیں، کبھی خلافت پر اجر وثواب کی بجائے برابر برابر چھوٹ جانے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں آخر کار حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی اجازت سے مسجد نبوی ﷺ کے پڑوس میں پیغمبر کے حجرہ مبارک میں نبی اکرم ﷺاور صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی رفاقت میں تدفین ہوئی اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بیان کردہ تجرے کے مطابق اپنے صاحبین (حضرت محمد رسول اللهﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ) کے ساتھ اکٹھے ہو گئے۔[صحیح بخاری سابقہ حوالہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔