اولادِ رسول ﷺ کے فضائل و مناقب
إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠۴۰﴾ [الأحزاب:40]
وقال الله عز وجل في موضع آخر!
﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۵۹﴾ [الأحزاب:59]
آج کے خطبہ میں رسول اللہ ﷺ کے اہل بیت میں سے آپﷺ کے بیٹوں اور بیٹیوں کا تذکرہ کیا جائے گا (گذشتہ خطبات میں آپ ﷺ کی ازواج مطہرات امهات المؤمنین کا ذکر کیا جا چکا ہے اور ان کے اہل بیت میں شامل ہونے کے مضبوط واضح اور ٹھوس دلائل دیئے جا چکے ہیں) اور آج ان شاء اللہ اولادِ رسول ﷺ کے فضائل و مناقب بیان کیے جائیں گے۔
نرینہ اولاد، ابناء رسول ﷺ:
رسول اللہ ﷺ کو اللہ رب العزت نے چار بیٹے عطاء فرمائے اور یہ چاروں بچپن میں ہی وفات پاگئے اس کی دلیل سورۃ الاحزاب کی ایک آیت مبارکہ ہے: اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ﴾ [الأحزاب:40]
محمد (ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں۔‘‘
غور کیجئے! رب ارض و سماء نے آپ کاﷺ اسم گرامی محمدﷺ بول کر وضاحت فرمائی کہ آپ کسی مرد کے باپ نہیں یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ ﷺ کے تمام بیٹے مرد بننے کی عمر سے پہلے پہلے وفات پاگئے۔
ایک اہم نکته:
دنیا بھر میں اللہ رب العزت نے صرف دو شخصیتوں کو اپنا خلیل بنایا۔ ایک حضرت ابراہیم عیہ السلام اور دوسرے حضرت محمد ﷺ۔ اور ایک خلیل (حضرت ابراہیم) کو رب کا ئنات نے انتہائی بڑھاپے میں اولاد دی جناب ابراہیم علیہ السلام لمبی مدت اولاد کے لیے دعاء و التجاء کرتے رہے:
﴿رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ﴾ (الصّٰفّٰت:100)
اور دوسرے خلیل جناب محمد رسول اللہ ﷺ کو جتنی نرینہ اولاد دی وہ بچپن میں ہی واپس بلائی۔ ان دو عظیم المرتبت خلیلوں کے ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ اولاد کا معاملہ اللہ کے اختیار میں ہے اولاد دینے والا بھی اللہ اولاد کو زندگی بخشنے والا بھی اللہ اور اولاد سے محروم رکھنے والا بھی اللہ قرآن اٹھائیے سورۃ الشوری نکالیے رب کائنات اعلان فرما رہے ہیں:
﴿لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ؕ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ ؕ یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّكُوْرَ﴾ [الشورى:49-50]
’’آسمانوں اور زمینوں کی بادشاہت صرف اللہ کے لیے ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹے عطاء کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں (دونوں) عطاء کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے اولاد بھی رہنے دیتا ہے یقینًا اللہ (سب کچھ) جاننے والا خوب قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘
بہر حال اللہ رب العزت نے اپنے خلیل جناب محمد رسول اللہ ﷺ کو چار بیٹے عطاء فرمائے اور چاروں بچپن میں ہی واپس بلا لیے۔
سب سے بڑے صاحبزادے کا اسم گرامی قاسم تھا اور اس کے نام پر آپ کی کنیت ابو القاسم تھی۔ سب سے چھوٹے۔ ابراہیم تھا۔ یہ آپ کی لونڈی حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے آپ نے اپنے اس لخت جگر کا اسم گرامی اپنے جد امجد جدالانبیاء خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام پہ ابراہیم رکھا۔ آپ کے اس پیارے صاحبزادے نے تقریباً اٹھارہ ماہ کی عمر میں رسول اللہ ﷺ کی وفات سے تقریباً 3 ماہ پہلے وفات پائی۔
جناب ابراہیم بن محمدﷺ کی وفات کی تفصیل بخاری و مسلم میں ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ اور سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی معیت میں ہم ابوسیف لوہار کے ہاں گئے (اور وہ آپ کے بیٹے ابراہیم کو دودھ پلانے والی عورت کے خاوند میں) رسول اللہ ﷺ نے ابراہیم کو اٹھایا اس کا بوسہ لیا اور اس کے ساتھ پیار کیا۔ اس کے بعد ہم وہاں گئے تو ابراہیم نزع کے عالم میں تھا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ چنانچہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ آپ ﷺ سے مخاطب ہوئے اور استفسار کیا، اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ آنسو بہا رہے ہیں) آپ مال اسلام نے فرمایا: ’’اے ابن عوف آنسو بہانا رحمت ہے‘‘
پھر آپ ﷺ دوبارہ اشکبار ہو گئے اور آپ ﷺ نے فرمایا:
’’آنکھیں اشکبار ہیں، دل غمزدہ ہے اور ہم وہی کلمات کہتے ہیں جن کو ہمارا پروردگار پسند رکھتا ہے اور اے ابراہیم! بلا شبہ ہم تیری جدائی پرغم زدہ ہیں‘‘[صحيح البخاري، كتاب الجنائز، باب قول النبي: الرما بك لمحزونون، رقم: 1303]
جناب ابراہیم چونکہ دودھ پینے کی عمر میں ہی وفات پاگئے تھے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’ابراہیم کے لیے جنت میں ایک دودھ پلانے والی مقرر کر دی گئی ہے۔‘‘[صحيح البخاري كتاب بدء الخلق]
جناب قاسم اور جناب ابراہیم کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کے دو صاحبزادے تھے ایک کا اسم گرامی عبداللہ اور دوسرے کا اسم گرامی طیب طاہر تھا، بعض اہل سیرت کے نزد یک جناب عبداللہ کے ہی یہ دونوں لقب ہیں (امام ابن القیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں یہی موقف درست قرار دیا ہے) اور بعض کے نزدیک یہ علیحدہ بیٹے کا اسم و لقب ہے۔
لمحہ فکریہ:
رسول اللہ ﷺ نے اپنے پیارے بیٹوں کے کتنے پیارے نام رکھے (عبدالله، قاسم، طاہر طیب اور ابراہیم) اور آپ ﷺ لوگوں کو بھی یہی تعلیم دیا کرتے تھے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ أَحَبَّ أَسْمَائِكُمْ إِلَى اللَّهِ: عَبْدُ اللَّهِ وَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ) [صحيح مسلم، كتاب الادب، باب النهي عن التكنى بأبي القاسم و بيان ما يستحب من الأسماء (2132) و ابوداود (4949)]
’’یقینا ناموں میں سے اللہ کے ہاں زیادہ محبوب نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔‘‘
اور صحیح مسلم میں ہی ہے: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک بیٹی کا نام عاصیہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کا نام ’’جمیلہ‘‘ رکھا۔[صحیح مسلم، كتاب الآداب، باب استحباب تغيير الإسم القبيح إلى الحسن، رقم: 5605]
جامع ترمذی میں ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں:
(إنَّ النَّبِي كَانَ يُغَيِّرُ الْإِسْمَ الْقَبِيحَ) [جامع الترمذي، كتاب الأدب، باب ما جاء في تغيير الأسماء، رقمع 2839]
’’کہﷺ قبیح (برے) نام تبدیل کیا کرتے تھے۔‘‘
لیکن آج لوگ ادا کاروں، فنکاروں، کرکٹروں اور گلو کاروں کے ناموں پر نام رکھتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے پسندیدہ ناموں کو پرانے نام کہہ کر نظر انداز کرتے ہیں۔
بنات رسول الله ﷺ۔
امام الانبیاء، شافع روز جزا جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی چار صاحبزادیاں تھیں سورۃ الاحزاب میں ارشاد باری تعالی ہے:
﴿يایُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّأَزْواجِكَ وَبَنَاتِكَ﴾ [الأحزاب:59]
یہ لفظ بنات جمع ہے جو کم از کم تین پر بولا جاتا ہے معلوم ہوا کہ آپ کی صرف ایک بیٹی نہیں زیادہ بیٹیاں ہیں۔ اور کتب حدیث اور کتب سیرت میں آپ کی چار بیٹیوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہن۔
رسول اللہ ﷺ علم کی تمام بیٹیاں مؤمنات مسلمات اور صالحات تھیں۔ اور آپ اپنی تمام بیٹیوں سے بڑی محبت رکھتے تھے اور آپ کی تین بیٹیاں (حضرت زینب حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہن) آپ کی حیات طیبہ میں ہی وفات پاگئیں اور ایک بیٹی (حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا) نے رسول اللہ ﷺ کی وفات سے چھ ماہ بعد وفات پائی۔
پہلی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا:
رسول اللہ رضی اللہ تعالی عنہا کی سب سے بڑی بیٹی ہیں۔ آپ ﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح ابو العاص بن ربیع سے کیا تھا ابو العاص پہلے مسلمان نہیں تھے (اور اس وقت غیر مسلموں اور مشرکوں سے نکاح کی ممانعت نہیں تھی) غزوہ بدر کے بعد جناب ابو العاص رضی اللہ تعالی عنہ مسلمان ہو گئے اور اچھے مسلمان اور اچھے داماد رسول ثابت ہوئے، رسول اللہﷺ نے ایک دفعہ ان کی تعریف میں یہ کلمات کہے: اس نے مجھ سے جو بات کہی اسے سچ کر دکھایا۔[صحیح البخاري، كتاب فضائل اصحاب النبي اور باب ذكر أمهار النبيﷺ. رقم: 3729]
بدر کے معرکے میں ابو العاص بھی مسلمانوں کی قید میں آگئے تفصیلی واقعہ (مسند احمد، ابو داؤد) میں درج ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں جب مکہ والوں نے اپنے قیدیوں کا فدیہ بھیجا تو جناب زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے ابو العاص رضی اللہ تعالی عنہ کے فدیہ میں کچھ مال اور وہ ہار بھیجا جو اسے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ابو العاص کے ساتھ رخصت کرتے ہوئے دیا تھا جب رسول اللہ ﷺ نے ہار دیکھا تو آپ ﷺ پر شدید رقت طاری ہو گئی اور آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے قیدی کو رہا کر دو اور اس کے ہار کو بھی واپس کر دو؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے اس بات کو منظور کیا اور نبیﷺ نے ابو العاص رضی اللہ تعالی عنہ سے عہد لیا کہ وہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو آپ کی جانب بھجوا دے گا چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ اور ایک انصاری کو روانہ کیا (ان سے) کہا کہ
’’تم بطن یا جج (مقام) میں جاؤ تمہارے پاس زینب کی رضی اللہ تعالی عنہا آجائے گی تم اس کو اپنے ساتھ لے آنا‘‘[مسند احمد (276/6) (26416) اسناده حسن لذاته]
حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات:
حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے جبکہ ہم آپ کی بیٹی کو غسل دے رہی تھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کو تین یا پانچ یا اس سے زیادہ بار اگر تم مناسب سمجھو، پانی میں بیری کے پتوں کی (مناسب) آمیزش کر کے غسل دو اور آخری بار میں کچھ مشک کافور ڈالو۔ جب (غسل دینے سے) فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا۔ (ام عطیہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں) جب ہم فارغ ہوئیں تو ہم نے آپ کو مطلع کیا۔ آپﷺ نے ہماری جانب اپنا تہ بند بھیجا اور فرمایا: ’’اس کو بطور شعار استعمال کرو۔‘‘[صحیح البخاری، کتاب الجنائز، باب غسل الميت وضوء، بماء و سدر (1253) و مسلم (939) و ابوداود (3142) و این ماجه (1458)]
غور کیجیے! آپ ﷺ نے کسی قدر محبت کا اظہار فرمایا۔
ایک اور انداز محبت:
آپ ﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہل کی بیٹی اپنی نواسی حضرت امامہ رضی اللہ تعالی عنہا کو کندھوں پر بٹھا کر نماز پڑھائی۔[ صحيح البخاري، كتاب الصلاة، باب اذا حمل جارية صغيرة على عنقه في الصلاة (516) ومسلم (543) و احمد (295/5)]
ظاہر ہے تو اس سے اس قدر محبت کا اظہار بیٹی کی محبت کی بہت بڑی دلیل ہے۔
دوسری بیٹی حضرت رقیه رضی اللہ تعالی عنہا:
یہ وہ بنت رسول ﷺ ہے جو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کے نکاح میں تھیں۔ غزوۂ بدر کے وقت حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا بیمار تھیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’عثمان رضی اللہ تعالی عنہ! میری بیٹی کی تیمار داری و بیمار پرسی کرو۔ آپ کو اس کے صلے میں گھر بیٹھے بدر کے غازیوں برابر دنیاوی اجر (مال غنیمت) اور اُخروی ثواب (نعیم جنت) ملے گا۔‘‘[صحیح البخاری، کتاب فرض الخمس، باب اذا بحث الإمام رسولًا الخ، رقم: 3130]
تیسری بیٹی حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا:
جناب رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات کے بعد جناب ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کر دیا۔[ازالۃ الخفاء (ص (222) رحمة للعالمين (128/2)]
حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات:
صحیح البخاری کتاب الجنائز میں ہے جب حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا نے وفات پائی آپ ﷺ قبر کے کنارے بیٹھے تھے (ابھی قبر تیار نہیں ہوئی تھی) آپ کنارے پہ بیٹھے زارو قطار روئے جا رہے تھے جب قبر تیار ہوگئی آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کون ہے جس نے آج رات کوئی لغزش بھی نہیں کی؟‘‘ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: ’’میں حاضر ہوں۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’(قبر کے اندر سے مزید اصلاح اور درستگی کے لیے) آپ قبر میں اتریں۔‘‘
چوتھی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا:
یہ رسول اللہ ﷺ کو اپنی تمام بیٹیوں میں زیادہ پیاری تھیں۔ اور آپ ﷺ کے فضائل و مناقب بھی بہت زیادہ ہیں۔ آپ میں دنیا کا نکاح غزوہ بدر کے کچھ دیر بعد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوا۔[رحمة للعالمين (129/2)]
جرأت:
حضرت فاطمہ علی رضی اللہ تعالی عنہا اپنے دلیر، شجاع اور بہادر باپ کی طرح انتہائی دلیر اور جرأت مند تھیں ایک دفعہ (مکی دور میں) رسول اللہﷺ کعبہ اللہ کے دامن میں نماز ادا فرمارہے تھے جب آپ سر بسجود ہوئے ایک ملعون نے ابو جہل کے کہنے پر اونٹ کی اوجڑی آپ کی کمر مبارک پر ڈال دی حضرت فاطمہ علی رضی اللہ تعالی عنہا کو خبر ہوئی دوڑتی ہوئی آئیں اور کسی کافر سردار کی پرواہ کیے بغیر وہ اوجڑی اپنے پیارے بابا جان کی کمر سے نیچے اتاری۔[صحيح البخاري، كتاب الوضوء، باب إذا ألقي على ظهر المصلى قذر الخ، رقم: 240]
خدمت رسول ﷺ:
غزوۂ احد میں جب رسول اللہﷺ زخمی ہوئے حضرت فاطمہ علی رضی اللہ تعالی عنہ نے زخم دھویا۔ چٹائی کا ٹکڑا جلا کر راکھ زخم میں بھری۔[بخاري، كتاب المغازی، باب غزوه احد]
گھر کے کام کاج:
خود چکی چلاتی تھیں، مشکیزے میں پانی بھر کر لاتی تھیں، جھاڑو دیتی تھیں۔ کیسی عاجزی وانکساری ہے؟
آج کئی گھرانوں میں گھریلو کام کاج کی وجہ سے بات طلاق لینے تک پہنچ جاتی ہے، بیوی انانیت کی بناء پہ کہتی ہے: مجھے بیوی بنا کر لائے ہو یا خادمہ بنا کر لائے ہو؟ ایسی عورتیں رسول اللہﷺ کی تعظیم بیٹی کو نمونہ بنائیں۔
شرم و حیاء:
ایک دفعہ ضروری کام کے لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں دور سے دیکھا آپ ﷺ کے پاس لوگ بیٹھے ہیں شرما کے پلٹ گئیں۔[سنن أبي داود، كتاب الأدب، باب في التسبيح عند النوم، رقم: 5063.]
آج اللہ کی پناہ۔ بیٹیاں اپنے باپوں کے سامنے (شادی بیاہ کی تقریبات میں) نیم برہنہ ہو کر ناچتی گاتی اور بھنگڑے ڈالتی ہیں اور ان کے دیوث باپ کو مبارک دی جاتی ہے کہ آپ کی بیٹی اچھا ناچ لیتی ہے۔ یہ فلموں، ڈراموں، ناولوں اور ڈائجسٹوں کا نتیجہ ہے۔
مزید فضائل و مناقب:
بخاری و مسلم میں ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم نبی ﷺ ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن آپ کی خدمت میں حاضر تھیں، اس دوران آپ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا چلتی ہوئی آئی اس کا چلنا رسول اللہ ﷺ کے چلنے سے ملتا جلتا تھا۔ جب آپ ﷺ نے دیکھا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’میں اپنی بیٹی کو خوش آمدید کہتا ہوں۔‘‘ پھر آپﷺ نے اس کو اپنے قریب بٹھایا اور اس سے سرگوشی کی چنانچہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا شدت سے رونے لگی۔ جب آپ ﷺ نے دیکھا کہ وہ بہت زیادہ غمگین ہے تو آپﷺ نے اس سے دوبارہ سرگوشی کی۔ چنانچہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا ہنسنے لگیں۔ (عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں) جب رسول اللہ ﷺ (وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے تو میں نے فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے دریافت کیا کہ آپ ﷺ نے تیرے ساتھ کیا سرگوشی کی۔ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے راز افشاء نہیں کروں گی۔
جب رسول اللہ ﷺ فوت ہوئے تو میں نے (فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے) کہا کہ میں تجھے اس حق کا واسطہ دے کر قسم دیتی ہوں جو میرا تم پر ہے کہ تم مجھے ضرور بتاؤ۔ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نےکہا: اب میں آپ کو بتاتی ہوں کہ جب آپﷺ نے مجھ سے پہلی بار سر گوشی کی تو آپﷺ نے مجھے بتایا تھا کہ جبرائیل علیہ السلام ہر سال میرے ساتھ ایک مرتبہ قرآن پاک دہرایا کرتے تھے لیکن اس سال انہوں نے میرے ساتھ دو بار قرآن پاک دہرایا۔ میرا خیال یہ ہے کہ میری موت کا وقت قریب ہے۔ پس تو اللہ سے ڈر اور (میری جدائی پر) صبر کر۔ میں تیرے لیے بہترین پہلے جانے والا ہوں۔ یہ سن کر میں رونے لگی جب آپﷺ نے مجھے غم ناک پایا تو آپ ﷺ نے دوسری مرتبہ مجھ سے سرگوشی کی اور فرمایا: اے فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا! کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ تو جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہو۔ یا ایمان دار عورتوں کی سردار ہو؟[صحيح مسلم، كتاب فضائل الصحابه، باب فضائل فاطمة (6313)]
اور صحیحین کی ہی دوسری حدیث میں ہے: حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ سلیم نے فرمایا:
(فَاطِمَةُ بُضْعَةٌ مِنِّي، فَمَنْ أَغْضَبَهَا اغْضَنِي)
’’فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا میرے جسم کا ٹکڑا ہے۔ جس شخص نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ ’’جس چیز سے اسے رنج پہنچتا ہے وہ مجھے بھی بے چین کر دیتی ہے۔ جو چیز اس کو تکلیف دیتی ہے وہ چیز مجھے بھی تکلیف دیتی ہے۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب فضائل الصحابه، باب مناقب قرابة رسول پر (3714)]
جو رسول اللہ ﷺ کی پسند وہی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی پسند:
ایک دفعہ آپﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا: ’’کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتی جس کو میں پسند کرتا ہوں؟“
تو حضرت فاطمہ میں نے کہا: ’’ہاں۔‘‘[صحیح البخاري، كتاب الهند، باب من أهدى إلى صاحبه و تحری بعضی نسائہ دون بعض، رقم: 2581]
اس میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عظیم الشان سیرت کی جھلک دکھلائی دیتی ہے کہ وہ ہر اس چیز کو پسند کرتی تھیں جسے رسول اللہ ﷺ پسند کرتے تھے اور اس سے محبت کرتی تھیں جس سے آپ محبت کرتے تھے اس لیے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بڑی محبت تھی۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ ہماری ماؤں بہنوں، بہو، بیٹیوں کو مغربی بے پردہ و بے حیاء عورتوں کی تقلید سے بچائے ازواج مطہرات (حضرت خدیجہ و عائشہ، حفصہ و میمونہ رضی اللہ تعالی عنہن وغیرہ) اور بنات رسول ﷺ (حضرت زینب، حضرت رقیه، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہن) کو نمونہ واسوہ بنانے کی توفیق عطاء فرمائے۔
ضروری وضاحت:
سورۃ الطور کی آیت 21 بھی اولا د رسول ﷺ (یعنی رسول اللہﷺ کے بیٹوں اور بیٹیوں) کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔