ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش بذریعہ اولاد

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿رَبِّ هَبْ لِيْ مِنَ الصَّالِحِيْنَ﴾ [الصافات:100]
گذشتہ سے پیوستہ خطبہ جمعہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مختلف آزمائشوں کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اعلیٰ درجے کی کامیابی حاصل کی اور آج جناب ابراہیم علیہ السلام کی وہ آزمائشیں بیان کی جائیں گی جو اولاد کے سلسلے میں تھیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان میں بھی نمایاں اور شاندار کامیابی حاصل کی۔
در اصل جب انسان کے دل میں ہدایت کا نور پیدا ہو جائے اور اس کا سینہ اللہ کے دین کے لیے کھل جائے اور ایمان و توحید اس کے دل کی گہرائیوں اور رگ وریشے میں سرایت کر جائے تو پھر انسان اللہ کی محبت میں دنیا کی ہر چیز چھوڑنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ انسان کے لیے انتہائی محبوب اور پیاری چیزوں میں ایک چیز اولاد ہے، اور یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ اگر یہ نعمت نہ ملے تب بھی انسان بے تاب اور بے قرار ہو جاتا ہے۔ اس کے حصول کے لیے لاکھوں جتن کرتا ہے، جائزنا جائز کی پرواہ چھوڑ بیٹھتا ہے حتی کہ کئی ضعیف الایمان لوگ عقیدہ توحید سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اور یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کی تکلیف بھی انسان کو برداشت نہیں ہوتی لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اولاد کے حوالے سے بار بار آزمایا گیا اور کئی طرح سے آزمایا گیا
پہلی آزمائش:
دیر تک اللہ تعالی نے اپنے اس خلیل کو اولاد ہی نہ دی۔ دعائیں کرتے رہے:
﴿رَبِّ هَبْ لِيْ مِنَ الصَّالِحِيْنَ﴾ [الصافات:100]
’’اے میرے رب! مجھے ایک صالح (لڑکا) عطا فرما۔‘‘
حتی کہ انتہائی بڑھاپے میں اولاد ملی۔
دوسری آزمائش:
اکلوتے بیٹے اور اس کی ماں ہاجرہ کو مکے جیسے بے آب وگیاہ صحراء میں تنہا چھوڑ کے جانے کا حکم ہوا۔ تھوڑا سا پانی اور تھوڑی سی کھجوریں اور دور دراز تک کوئی انس وبشر نہیں۔ صرف اللہ پر توکل:
﴿﴾
﴿رَبَّنَاۤ اِنِّیْۤ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْۤ اِلَیْهِمْ وَ ارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَشْكُرُوْنَ﴾ [ابراهيم:37]
’’اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد اس بے کھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے۔ اے ہمارے پروردگار! یہ اس لیے کہ وہ نماز قائم رکھیں، پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے۔ اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تا کہ یہ شکر گزاری کریں۔‘‘
درد ناک الوداع:
جب اپنی بیوی اور دودھ پیتے بچے کو چھوڑ کر جانے لگے۔ بیوی ام اسماعیل پوچھتی ہے ہمیں یہاں کیسے چھوڑ کے جا رہے ہو، ابراہیم علیہ السلام نہ مڑ کر دیکھتے ہیں نہ کوئی جواب دیتے ہیں۔ جتی کہ بیوی پیچھے چلتی چلتی کداء نامی جگہ تک آ جاتی ہے اور اپنا سوال تبدیل کرتی ہے اور پوچھتی ہے کیا یہ اللہ کے حکم سے ہے یا اپنی مرضی سے ایسا کر رہے ہو؟ اب جناب ابراہیم علیہ السلام جواب دیتے ہیں کہ یہ اللہ کے حکم سے کر رہا ہوں تو ام اسماعیل مطمئن ہو جاتی ہیں اور کہتی ہیں:
(إِذًا لا يُضيِّعُنَا) ’’پھر اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب احاديث الأنبياء، باب ﴿ويزفون﴾ رقم 3364]
(ذرا سوچئے! ام اسماعیل کا ایمان اور توکل کتنا مضبوط تھا)۔ اور اللہ نے اس توکل کے صلے میں سارے انتظامات کیے۔
آب زم زم:
ام اسماعیل کے پاس جو تھوڑا سا تو شہ تھا وہ ختم ہو گیا، جس کے نتیجے میں بچے کے لیے چھاتی میں دودھ نہ رہا، بچہ بلک رہا ہے، لیکن ام اسماعیل کسی گلے شکوے کی بجائے ہمت کرتی ہیں اور دوڑ کر صفا پہاڑی پر چڑھتی ہیں کہ شاید کوئی انسان دکھلائی دے لیکن کوئی شخص دکھلائی نہ دیا، صفا سے اترتی ہیں اور وادی میں دوڑ کر مروہ پہاڑی پر چڑھ جاتی ہیں وہاں بھی کوئی دکھائی نہیں دیتا، اسی طرح وہ سات چکر پورے کرتی ہیں (رسول اللہﷺ یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں یہ صفا و مروہ کی سعی ام اسماعیل کا ہی عمل ہے، یعنی اللہ تعالی نے اس صابرہ و متوکلہ خاتون کے اس عمل کو تاقیامت جاری کر دیا) جب ام اسماعیل ساتویں بار مردہ پر چڑھیں تو ایک آواز سنائی دی، پھر کان لگایا تو دوبارہ آواز سنائی دی، تو ام اسماعیل نے کہا: (اے اللہ کے بندے) میں نے تیری آواز سنی ہے اگر تو کچھ مدد کر سکتا ہے تو کر، پھر دیکھا تو زم زم والی جگہ ایک فرشتے کو پایا اس نے اپنے پر سے زمین کھودی تو پانی کا چشمہ جاری ہو گیا، ام اسماعیل نے مشکیزہ بھرا اور اپنے ہاتھ سے پانی کو حوض کی شکل دینے لگی۔ پھر اس فرشتے نے کہا: تم اپنی جان کا خوف نہ کرنا، یہاں اللہ کا گھر ہے، یہ بچہ اور اس کا باپ (جناب ابراہیم) دونوں مل کر وہ گھر بنائیں گے۔ (غور کیجئے؟ اللہ رب العزت نے ام اسماعیل کو صبر و استقامت اور توکل علی اللہ کا کیا صلہ دیا کہ بطور کرامت ایک چشمہ جاری کر دیا جو آج تک جاری ہے، جس کا پانی دنیا کے سارے پانیوں سے اعلیٰ ہے اور یہ واحد پانی ہے جو پوری دنیا عرب و حجم اور شرق و غرب میں تقسیم کیا جاتا ہے، اور آج تک اس پانی میں نہ کی آئی ہے نہ اس کے معیار میں فرق آیا ہے)۔
مکہ شہر بن گیا:
ام اسماعیل کے لیے پانی کا انتظام کرنے کے بعد اللہ رب العزت نے اپنے خلیل کی دوسری دعا بھی قبول فرمائی، بنو جرہم قبیلہ ادھر سے گزر رہا تھا ان کے پاس پانی ختم ہو گیا، وہ ایک آبی پرندے سے اندازہ کر کے چاہ زمزم کے پاس پہنچے دیکھا تو ایک پانی کا چشمہ ہے اور ایک عورت اور اس کا معصوم بچہ ہے، وہ بنو جرہم قبیلہ ام اسماعیل سے اجازت لے کر وہاں آباد ہو گیا، اس طرح وہ صحراء و بیابان ایک گنجان آباد شہر بن گیا، اور دنیا بھر کے تمام پھل اور میوہ جات وہاں پہنچنے لگے۔
بہر حال امتحان بہت بڑا تھا کہ معصوم بچہ اور اس کی کمزور ماں کو جنگل بیابان میں چھوڑ کر خود ہجرت کر جانا۔ آج آدمی کے بیوی بچہ گنجان آباد شہر میں ہوں عزیز واقارب ہمسائے محلہ دار سارے موجود ہوں پھر انہیں چھوڑ کر سفر میں جائے تو فکر مند رہتا ہے۔
3۔ تیسری آزمائش:
جناب ابراہیم علیہ السلام کو بڑھاپے میں جو اکلوتا بیٹا ملا اس کے بارے حکم ہوتا ہے (جب وہ بیٹا سہارا بننے کی عمر کو پہنچا) اسے اپنے ہاتھوں قربان کر دو۔ اللہ اکبر کتنا بڑا امتحان ہے۔ کبھی اولاد کے حصول کے لیے دعائیں۔ کبھی چھوٹے سے بچے کی جدائی (جس عمر میں بڑی محبت ہوتی ہے) اور کبھی اپنے ہاتھوں ذبح کرنے کا حکم قرآن نقشہ کھینچتا ہے۔
﴿فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰی ؕ قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ؗ سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ۝۱۰۲ فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَ تَلَّهٗ لِلْجَبِیْنِۚ۝۱۰۳ وَ نَادَیْنٰهُ اَنْ یّٰۤاِبْرٰهِیْمُۙ۝۱۰۴ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْیَا ۚ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۝۱۰۵ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ۝۱۰۶ وَ فَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ۝۱۰۷ وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَۖ۝۱۰۸ سَلٰمٌ عَلٰۤی اِبْرٰهِیْمَ۝۱۰۹ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۝۱۱۰ اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [الصافات: 102 تا 111)
’’پھر جب وہ (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے، تو اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو مجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا ہے اسے بجالائیے ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ غرض جب دونوں مطیع ہو گئے اور اس نے باپ نے) اس کو (بیٹے کو) پہلو کے بل لٹا دیا، تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم یقینًا تو نے اپنے خواب کو سچا بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں، در حقیقت یہ کھلا امتحان تھا، اور ہم نے ایک بڑا ذبیجہ اس کے فدیہ میں دے دیا، اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا، ابراہیم (علیہ السلام) پر سلام ہو، ہم نیکو کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں، بے شک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھا۔‘‘
اور قرآن نے یہ واقعہ سنا کر اسلام کا مفہوم سمجھا دیا۔ جب باپ ذبح کرنے کو تیار اور بیٹا کتنے کو تیار تو کہا: ’’اسلما‘‘ دونوں (حقیقی) مطیع و مسلم ہو گئے۔ یہ ہے اسلام… یہ ہے ایمان۔
غور کیجئے! کیسی استقامت، پامردی، جرات اور ہمت ہے؟ چشم فلک نے یہ منظر پہلے کبھی نہ دیکھا کہ ایک رقیق القلب باپ (کیونکہ ابراہیم علیہ السلام کوئی سخت دل باپ نہیں تھے) مشفق باپ، جو بوڑھا بھی ہے۔ اور بے شمار دکھوں اور دردوں کا ستایا ہوا بھی۔ وہ کس طرح اپنے پھول جیسے بردبار، خدمت گذار، صابر و شاکر اور نیک و صالح بچے کو (جو اتنا نیک اور صالح ہے کہ اللہ کی محبت میں کتنے کو تیار ہے) صرف اللہ کی محبت کی خاطر، اپنے رب کی رضا کے لیے قربان کرنے پہ آمادہ ہے۔ یہ صرف ایمان کی پختگی اور اللہ تعالی سے کمال محبت کی علامت ہے کہ جناب ابراہیم علی کے اپنے لخت جگر، نور نظر اور قرار دل و جان کو اپنے ہاتھوں قربان کرنے پر آمادہ ہو گئے۔
لیکن آج ہم اللہ کی محبت میں چھوٹے چھوٹے کام کرنے کو تیار نہیں، نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، جانور قربان کرتا، صدقہ و خیرات کرنا یہ کتنے آسان کام ہیں لیکن آج مدعیان اسلام کی اکثریت، بے نماز، بے روز وہ بے زکوۃ اور بے عمل ہے۔
بہر حال جناب ابراہیم علیہ السلام نے جب آزمائشوں میں پورے اترے تو اللہ رب العزت نے دنیا میں ہی ہر طرح کے اعلیٰ انعامات سے نوازا۔
پهلا إنعام:
الله رب العزت سورۃ البقرہ آیت نمبر 124 میں فرماتے ہیں:
﴿وَ اِذِ ابْتَلٰۤی اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ ؕ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ۝۱۲۴﴾ [البقرة:124]
’’جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا۔ اور انہوں نے سب کو پورا کر دیا تو اللہ نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا، عرض کرنے لگے اور میری اولا د کو؟ فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے نہیں۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ملنے والے جس انعام کا تذکرہ فرمایا ہے وہ انعام دنیا بھر کے لیے امام نمونہ اور پیشوا بنانا ہے۔
دوسرا انعام: سوره بقره آیت نمبر 130 میں ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَ مَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ ؕ وَ لَقَدِ اصْطَفَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا ۚ وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ﴾ [البقرة:130]
’’دین ابراہیمی سے وہی بے رغبتی کرے گا جو محض بے وقوف ہو، ہم نے تو اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ نیکوکاروں میں سے ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں جناب ابراہیم علیہ السلام کو یہ اعزاز و انعام دیا گیا ہے کہ ان کی ملت اور ان کے دین سے اعراض کرنے کو بیوقوفی، ناکامی و نامرادی قرار دیا گیا ہے۔
تيسرا انعام: رب کائنات سورہ الانعام آیت نمبر 75 میں فرماتے ہیں: ﴿وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ﴾ [الأنعام:75]
’’اور ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھلائیں اور تاکہ کامل یقین کرنے والوں سے ہو جائیں۔‘‘
سبحان اللہ! یہ کتنا بڑا انعام ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے خلیل کو اپنے کارخانہ قدرت کے عجائبات و ملکوت دکھلائے، اپنی قدرت کاملہ کی انوکھی نشانیاں دکھلائیں۔
چوتها إنعام: ارشاد باری تعالی سورۃ الانعام آیت نمبر 83 میں:
﴿وَ تِلْكَ حُجَّتُنَاۤ اٰتَیْنٰهَاۤ اِبْرٰهِیْمَ عَلٰی قَوْمِهٖ ؕ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ ؕ اِنَّ رَبَّكَ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ﴾ [الأنعام:83]
’’اور یہ ہماری حجت تھی وہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی قوم کے مقابلہ میں دی تھی ہم جس کو چاہتے ہیں مرتبوں میں بڑھا دیتے ہیں۔ بیشک آپ کا رب بڑا حکمت والا بڑا علم والا ہے۔‘‘
یہ کیا عظیم الشان انعام ہے کہ خالق کا ئنات نے اپنے خلیل کو اہل کفر اور اہل شرک کے خلاف انتہائی ٹھوس دلیل و حجت عطاء فرمائی، جس کی وجہ سے ان کی قوم اور اس وقت کے ائمہ الکفر لا جواب ہو گئے۔
پانچواں انعام: اللہ رب العزت سورة الانبیاء آیت نمبر (72-73) میں فرماتے ہیں:
﴿وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ ؕ وَ یَعْقُوْبَ نَافِلَةً ؕ وَ كُلًّا جَعَلْنَا صٰلِحِیْنَ۝۷۲
وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءَ الزَّكٰوةِ ۚ وَ كَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَ﴾ [الأنبياء:72-73]
’’اور ہم نے اسے اسحاق عطا فرمایا اور یعقوب اس پر مزید اور ہر ایک کو ہم نے صالح بنایا۔ اور ہم نے انہیں پیشوا بنا دیا کہ ہمارے حکم سے لوگوں کی رہبری کریں اور ہم نے ان کی طرف نیک کاموں کے کرنے اور نمازوں کے قائم رکھنے اور زکوة دینے کی وحی (تلقین) کی، اور وہ سب کے سب ہمارے عبادت گزار بندے تھے۔‘‘
اولاد کے سلسلے میں آزمائشوں میں کامیابی پر خلیل اللہ کو ایک انعام یہ دیا کہ آپ کو ایک بیٹا اسحاق اور پوتا یعقوب عطاء کیا اور ان سب کو نیک، صالح اور امام بنایا۔
چهٹا إنعام:
﴿وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ وَ اٰتَیْنٰهُ اَجْرَهٗ فِی الدُّنْیَا ۚ وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ﴾ [العنكبوت:27]
’’اور ہم نے انہیں (ابراہیم کو) اسحاق و یعقوب (علیہما السلام) عطا کیے اور ہم نے نبوت اور کتاب ان کی اولاد میں ہی کر دی اور ہم نے دنیا میں بھی اسے ثواب دیا اور آخرت میں تو وہ صالح لوگوں میں سے ہے۔‘‘
یہ انتہائی عظیم انعام ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد جتنے انبیاء ورسل مبعوث کیے گئے وہ سارے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہی اولاد اور ذریت میں سے تھے اور آپ کی ذریت پر ہی کتابیں نازل ہوئیں۔
ساتوان إنعام: الله رب العزت سورة الصافات آیت نمبر 108 تا 111 میں فرماتے ہیں:
﴿وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَۖ۝۱۰۸
سَلٰمٌ عَلٰۤی اِبْرٰهِیْمَ۝۱۰۹
كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۝۱۱۰
اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [الصافات:108-111]
’’اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا، ابراہیم (علیہ السلام) پر سلام ہو۔ ہم نیکوکاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں، بیشک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھا۔‘‘
یہ کیسا عظیم انعام ہے کہ خلیل اللہ کو اس کے رب نے سلام کہا، اور آپ کا ذکر خیر تا قیامت جاری کر دیا اور آپ کو مخلص بندۂ مؤمن قرار دیا۔
آٹھواں انعام: رب کائنات سورة النحل آیت نمبر 120 تا 123 میں فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًا ؕ وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ۝۱۲۰ شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖ ؕ اِجْتَبٰىهُ وَ هَدٰىهُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۱۲۱ وَ اٰتَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً ؕ وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَؕ۝۱۲۲ ثُمَّ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا ؕ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ﴾ [النحل:120 تا 123]
’’بیشک ابراہیم پیشوا اور اللہ تعالی کے فرمانبردار اور یک طرفہ مخلص تھے۔ وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے، اللہ نے انہیں اپنا برگزیدہ کر لیا تھا اور انہیں راہ راست سمجھا دی تھی۔ ہم نے اسے دنیا میں بھی بہتری دی تھی اور بے شک وہ آخرت میں بھی نیکوکاروں میں ہیں۔ پھر ہم نے آپ کی جانب وحی بھیجی کہ آپ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کریں، جو مشرکوں میں سے نہ تھے۔‘‘
یہاں اللہ رب العزت اپنے خلیل کی بہت ساری شان و عظمت بیان کرنے کے بعد ایک بے مثال انعام دے رہے ہیں کہ پیغمبروں کے امام، ساری اولاد آدم کے سردار جناب محمد رسول اللہﷺ کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ بھی ملت ابراہیم کی اتباع کریں۔
نوان إنعام: درود ابراهيمي: امام الانبیاء جناب محمد رسول اللہﷺ نے جتنے درود سکھلائے ان سب میں اس بات کا بار بار اعلان ہے کہ اللہ تعالی نے جناب ابراہیم اور ان کی آل پر رحمتیں نازل فرمائیں اور برکتیں اتاریں۔
دسواں انعام مقام ابراهیم کے پاس نماز: وہ پتھر جس پر کھڑے ہو کر جناب خلیل نے کعبۃ اللہ کی تعمیر نو کی، اسے مقام ابراہیم کا نام دیا گیا اور اس کے پاس دو رکعتیں نماز ادا کرنے کی ترغیب دی گئی۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِیْم مُصَلَّى﴾ [البقرة: 125]
’’مقام ابراہیم کے پاس نماز ادا کرو۔‘‘
تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ.
یہ بڑے بڑے دس انعامات ہیں جو جناب خلیل کو بڑی بڑی آزمائشوں میں کامیابی پر ملے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔