مساجد و مدارس کا مقام

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ ۙ یُسَبِّحُ لَهٗ فِیْهَا بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِۙ۝۳۶ رِجَالٌ ۙ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءِ الزَّكٰوةِ ۪ۙ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْهِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُۗۙ۝۳۷﴾ [النور:36-37]
’’ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے وہاں صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اور زکوۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں اُلٹ پلٹ ہو جائیں گی۔
وقال تعالى في مقام آخر:
﴿ وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ یُّذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ وَ سَعٰی فِیْ خَرَابِهَا ؕ اُولٰٓىِٕكَ مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْهَاۤ اِلَّا خَآىِٕفِیْنَ ؕ۬ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ [البقرة: 114]
’’اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالی کی مسجدوں میں اللہ تعالی کے ذکر کیے جانے کو روکے اور ان کی بربادی کی کوشش کرے۔ ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہیں اس میں جانا چاہیئے ان کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے۔‘‘
دین اسلام میں مساجد و مدارس کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی تخلیق کا مقصد ہی اللہ احکم الحاکمین کی عبادت کرتا ہے۔
سورة الذاریات میں ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ﴾ [الذاريات]
اور تمام عبادات میں اہم ترین عبادت نماز ہے اس لیے قرآن کریم میں بیسیوں بار نہیں بلکہ سینکڑوں بار نماز کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اور مسجدیں نماز کی جگہیں ہیں جہاں اللہ کی بارگاہ میں قیام رکوع سجود اور دعاء و مناجات کی جاتی ہے۔ اور چونکہ عبادات قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کیے بغیر ادا نہیں کی جا سکتیں، اس لیے مساجد کے ساتھ ساتھ ان مدارس دینیہ کی ترغیب دی گئی ہے جہاں قرآن وسنت کی تعلیم دی جائے رسول اللہﷺ کے دور میں مدینہ اور گردو نواح میں جتنی مسجد میں معرض وجود میں آئیں تمام میں تعلیم و تربیت۔ بھی انتظام موجود تھا۔
اور وہاں ایسے مخلص دینی طالب علم قیام پذیر تھے جو اپنی ضروریات کے لیے لکڑیاں اکٹھی کرتے اور دین سیکھ کر دوسرے لوگوں میں دین کی تعلیم و تربیت کا کام کرتے تھے۔
دنیا میں بڑے بڑے پیغمبروں کی چھوڑی ہوئی یادگاریں کوئی شاہی محل نہیں، اور نہ ہی کوئی عالیشان بنگلہ ہے۔ نبیوں کی نشانیاں اور یادگاریں تو مسجدیں اور مدرسے ہیں۔ حتی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جو عظیم الشان بادشاہ اور نبی تھے ان کی نشانی بھی کسی تفریحی پارک یا کوٹھی بنگلے کی صورت میں دنیا میں موجود نہیں۔ ان کی یادگار مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس ہے۔
جد الانبیاء خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اگر کوئی تعمیر کا کام کرتے ہیں تو بیت اللہ کی تعمیر کے لیے پتھر اٹھاتے ہیں اور مسجد حرام بناتے ہیں۔
پیغمبروں کے امام اور ساری اولاد آدم کے سردار نبی اللہ نبی الرحمۃ نبی التوبة جناب محمد رسول الله ﷺ کبھی قبل از نبوت کعبتہ اللہ کی تعمیر میں بنفس نفیس حصہ لیتے ہیں اور خود پتھر اٹھاتے ہیں اور رکھتے ہیں۔ اور کبھی ہجرت کے بعد مسجد قباء اور مسجد نبوی کی تعمیر میں عملاً حصہ لیتے ہیں۔ کتب حدیث میں مسجد نبوی کی تعمیر کے دوران پیش آنے والا ایک ایمان افروز واقعہ مذکور ہے:
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت پتھر اٹھا رہے تھے ان کی کمر پر مٹی لگ گئی۔ رسول اللہﷺ بڑے پیار کے ساتھ اپنے دست مبارک سے حضرت عمار رضی اللہ تعالی عنہ کی کمر پہ لگی مٹی جھاڑتے ہیں اور دُعا دیتے ہیں۔[صحيح البخاري، كتاب الصلاة، باب التعاون في ابناء المسجد (447)]
غور کیجئے! رسول اللہﷺ ہجرت فرما کے مدینہ آئے۔ چند دن قباء کے محلے میں رونق افزاء ر ہے۔ تو مسجد قباء بنوا دی پھر مدینہ شہر میں جلوہ افروز ہوئے رہائش کی ضرورت ہے لیکن حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ جیسے غریب صحابی کے جھونپڑے نما مکان میں رہنا پسند فرما لیا اپنا گھر نہیں بنایا۔ لیکن پہلے مسجد تعمیر کی۔ بعد میں اپنے لیے سادہ سا گھر تعمیر کیا۔ آپﷺ نے اپنے ارشادات میں بھی مسجدیں بنانے ان کی صفائی و نظافت کا خیال رکھنے اور ان کی ضرورتیں پوری کرنے اور آباد کرنے کی زبردست ترغیب دی ہے۔ چند احادیث مبارکہ عرض کرتا ہوں:
1۔ (مَنْ بَنٰى لِلَّٰهِ مَسْجِداً بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ) [صحيح البخاري، كتاب الصلاة، باب من بنى مسجدا(450) عن عثمانؓ]
’’جس نے اللہ کے لیے مسجد بنائی اللہ تعالی اس کے لیے جنت میں گھر بنائیں گے۔‘‘
کیسی زبردست فضیلت ہے؟ کہ دنیا میں مسجد تعمیر کرنے کے بدلے میں جنت کے اندر ہمیشہ کے لیے ایک بنگہ مل جائے۔
2۔ أَمَرَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّورِ وَأَنْ تُنظَّفَ وَتُطَيَّبَ) [سنن أبی داود، كتاب الصلاة، باب اتخاذ المساجد في الدور (455)]
’’رسول اللہ ﷺ نے آبادیوں اور کالونیوں میں مسجدیں بنانے کا حکم دیا اور انہیں صاف ستھرار رکھنے اور خوشبو لگانے کا حکم دیا۔‘‘
3۔ اللہ کے عرش کا سایہ پانے والے سات خوش نصیبوں میں ایک خوش نصیب:
(وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ بِالْمَسْجِدِ) [صحيح البخاري، كتاب الزكاة، باب الصدقة باليمين (1423) و مسلم (1031)]
’’وہ بندہ جس کا دل مسجد سے چمٹا ہوا ہے ایک نماز پڑھ کے باہر نکلا ہے اور انگلی نماز کے لیے مسجد جانے کو بے تاب اور بے قرار ہے۔‘‘
سبحان اللہ! مسجد سے دل لگانے کی کتنی بڑی شان و فضیلت ہے کہ ایسے شخص کو اس دن اللہ کے عرش کا سایہ ملے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا۔
4۔ ایک شخص (مرد یا عورت) مسجد نبوی میں جھاڑو دیا کرتا تھا۔ ایک روز نبی ﷺ نے اسے نہ پایا۔ ساتھیوں سے اس کے بارے دریافت کیا لوگوں نے بتلایا وہ رات وفات پا گیا تھا۔ ہم نے دفنا دیا۔ فرمایا:
(هَلَّا آذَنْتُمُوْنِي)
’’مجھے خبر کیوں نہ دی۔‘‘
لوگوں نے عرض کیا: ہم نے رات کے وقت آپ کو زحمت دینا پسند نہ کیا۔ فرمایا:
(دلوني على قبره)
’’مجھے اس کی قبر بتلاؤ۔‘‘
قبر بتلائی گئی آپ نے قبر پر نماز جنازہ ادا کی۔[صحیح البخاري، كتاب الجنائز، باب الصلاة على القبر بعد ما يدفن (1337)]
غور کیجئے! مسجد کا خادم جھاڑو دینے والا رسول اللہ ﷺ کی نگاہ میں کسی قدرو منزلت کا مالک تھا۔
5۔ بندہ جب صبح کرتا ہے اس کے ہر جوڑ کی طرف سے صدقہ کرنا اس کے ذمہ ہے لوگوں نے عرض کیا360 جوڑ 360 صدقات کیسے کریں۔؟ فرمایا گھبراؤ نہیں۔ ان تین کاموں میں سے کوئی ایک کام کر لو تمام جوڑوں کا صدقہ ادا ہو جائے گا۔ مسجد میں کوئی گندگی وغیرہ ہوا سے باہر پھینک دو۔ صفائی کر دو۔ یا راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دو یا پھر ضحی کی دو رکعتیں پڑھ لو۔ انگ انگ کا صدقہ ادا ہو جائے گا۔[سنن أبی داود، (1286) و مسلم (720) (1007)]
6۔ (أَحَبُّ الْبِلَادِ إِلَى اللَّهِ الْمَسَاجِدُ) [صحیح مسلم، كتاب المساجد، باب فضل الجلوس في مصلاه بعد الصبح وفضل المسجد (671)]
’’زمین کے تمام ٹکڑوں میں سے اللہ کے ہاں محبوب ترین ٹکڑے مسجدیں ہیں۔‘‘
7۔ مسجد میں داخل ہونے کی دعا:
(اللهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ) [سنن ابن ماجه، كتاب المساجد، باب الدعا عند دخول المسجد (771) و صحیح ابن ماجه (625)]
’’یااللہ میرے لیے رحمتوں کے دروازے کھول دئے۔‘‘
اس دعا سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجدوں میں اللہ تعالی کی خصوصی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔
8۔ نماز اللہ کی عبادت ہے لیکن ایک تو بلا شرعی عذر فرض نماز گھر میں جائز نہیں دوسرا مسجد میں ادا کرنے سے 25 یا 27 درجے زیادہ اجر و ثواب ملتا ہے۔[صحيح البخاري، كتاب الأذان باب فضل صلاة الجماعة (645) و صحیح مسلم (249)]
اس سے بھی مسجد کی شان و عظمت واضح ہوتی ہے۔
9۔ نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھنا گناھوں کی بخشش کا ذریعہ، درجات کی بلندی کا باعث اور شیطان کے حملے سے بچاؤ کے لیے مورچہ بندی کا کام دیتا ہے۔[صحيح مسلم، المساجد و مواضع الصلاة، باب فضل صلاة الجماعة و انتظار الصلاة.]
10۔ نماز پڑھ کر مسجد میں بیٹھنا فرشتوں کی دعاؤں کا ذریعہ ہے۔
وہ دعا کرتے ہیں:
(اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ) [صحیح مسلم، ايضا، و بخاری (647)]
(تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ )
دوسری طرف قرآن کریم بھی مساجد کی اہمیت و فضیلت بیان کرتا ہے:
1۔ ﴿فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ ﴾ [النور:36]
مسجدوں کے احترام کا اللہ نے حکم دیا ہے اور ان میں ذکر الہی کی تاکید فرمائی ہے۔ اور مردان حق مومن بندے صبح و شام (یعنی رات اور دن کی مختلف گھڑیوں میں) مسجدوں کے اندر اللہ کی تسبیح و تقدیس پڑھتے ہیں یہ آیت مساجد کی اہمیت کا کھلا اعلان کر رہی ہے اور ان مؤمن بندوں کی فضیلت و بزرگی بیان کر رہی ہے جو نماز قرآن کی تلاوت اور ذکر واذکار کے ذریعے مسجدوں کو آباد کرتے ہیں۔
2۔ ﴿اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَی الزَّكٰوةَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰۤی اُولٰٓىِٕكَ اَنْ یَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ۝۱۸﴾ [التوبة: 18]
’’اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لانے والے، نمازیں پڑھنے والے، زکوۃ دینے والے اور صرف ایک اللہ سے ڈرنے والے مسجدیں بناتے اور آباد کرتے ہیں۔‘‘
اور کافروں سے ڈرنے والے بنی بنائی مسجد میں گزار ہے ہیں انہوں نے کافروں کو خوش کرنے کے لیے اسلامی دارالحکومت اسلام آباد میں 20 کے قریب مسجد میں شہید کر دیں۔
3۔ ﴿وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ﴾ [البقرة:114]
’’مسجدوں کو برباد کرنے والے اور مسجدوں سے روکنے والے سب سے بڑے ظالم لوگ ہیں۔‘‘
اللہ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ ہمیں مسجدیں بنانے والوں مسجدیں آباد کرنے والوں اور مسجدوں کی دیکھ بھال کرنے والوں میں شامل فرمائے۔ آمین!
لیکن آج یہ بات انتہائی الم ناک ہے کہ بعض اسلامی ممالک میں سینما گھر بنانا، گرجا گھر بنانا کوئی شیطانی اڈہ تعمیر کرنا مشکل نہیں لیکن مسجد بنانا بہت مشکل ہو چکا ہے۔
فلاں سے اجازت لؤ فلاں سے پوچھو…..
اور بعض نام نہاد مذہبی جماعتیں ایسے برے کردار کا مظاہرہ کرتی ہیں کہ وہ کسی شیطانی اڈے کی راہ میں تو رکاوٹ نہیں بنتیں اور مسجد کی تعمیر روکنے کے لیے پیش پیش ہوتی ہیں۔
یاد رکھیے! عموماً سرکاری و غیر سرکاری رکاوٹوں کے باوجود مسجد تو بن ہی جاتی ہے لیکن کسی کا نام مسجد بنانے والے مومنوں میں درج ہو جاتا ہے اور کسی کا نام مسجد روکنے والے ظالموں میں لکھا جاتا ہے۔
ایک عبرتناک واقعہ:
ہمارے شہر (گوجرانوالہ) میں ایک مفتی صاحب ایم این اے بن گئے ان کے محلے میں بہت بڑا سینما گھر موجود ہے وہ اسے ختم نہیں کروا سکے، اور انہوں نے اسے ختم کروانے کے لیے نہ کبھی محنت کی اور نہ ہی کبھی سوچا۔ لیکن ان کے محلے میں ایک نئی مسجد کی تعمیر شروع ہو گئی تو انہوں نے مسجد رکوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور یہاں تک بیان دیا کہ وہ لوگ ہماری لاشوں سے گزر کر مسجد بنائیں گے۔
کتا ہوا ظلم ہے؟ کہ اللہ کی دی ہوئی قوت سینما گھر جیسے شیطانی اڈے کو ختم کرنے کے لیے استعمال نہ کی اللہ کے گھر (مسجد) کو رکوانے کے لیے استعمال کی اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت بخشے۔
گھر کی مسجد:
رسول اللہ ﷺ تو گھر میں نفلی عبادت کے لیے گھر گھر میں مسجد بنانے کی ترغیب دیا کرتے تھے خیر القرون میں تقریباً ہر گھر میں ایسی مسجد ضرور ہوتی تھی جسے مسجد البيت يا مسجد الدار کہا جاتا تھا۔ وہاں نفلی نماز ادا کی جاتی اور قرآن کی تلاوت کی جاتی تھی اللہ کا ذکر کیا جاتا تھا۔
لیکن آج مسلمان کی کوٹھی، مکان اور بنگلے کے نقشے میں ٹی وی کا اڈہ تو موجود ہے لیکن گھر کی مسجد کا کوئی تصور موجود نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔