محمدﷺ بحیثیت راضی رہنے والے

نبی اکرم ﷺآسانی و سنگی سختی و خوشحالی اور جنگ و امن وغیرہ زندگی کے تمام مراحل میں اپنے مولا کی رضا پر خوش رہنے والے تھے۔ شرح صدر، قلبی سکون اور روحانی خوشی آپ کا دائمی وصف تھا۔ آپ اس وقت بھی اپنے اللہ سے راضی اور خوش تھے جب یتیمی کے کڑوے گھونٹ بھر رہے تھے، پھر اللہ نے آپ کو ٹھکانا دیا، حفاظت فرمائی اور چن لیا۔ آپﷺ فقر کے مصائب جھیل رہے تھے تو بھی اللہ سے راضی و خوش تھے، پھر اللہ نے آپ کو غنی کر دیا اور خوب نوازا۔ آپ مصائب و مشکلات اور سختیوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی اللہ سے راضی تھے، پھر اللہ تعالی نے آپ کی نصرت و تائید فرمائی اور حاجت روائی کی۔ ام المومنین سیدہ عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:

’’رسول اللہ یا جب کوئی اچھی چیز (یا اچھی صورت حال ) دیکھتے تو فرماتے: ((اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي بِنِعْمَتِهِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ)) ’’سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس کے فضل و انعام سے نیک کام (اور مقاصد ) پورے ہوتے ہیں۔‘‘ اور جب کوئی ناپسندیدہ چیز (یا بری صورتِ حال) سامنے آتی تو فرماتے: ((اَلْحَمدُ اللهِ عَلٰى كُلِّ حَالٍ)) ’’ہر حال میں اللہ کی تعریف اور اس کا شکر ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجه، الأدب، حدیث: 3803)

 آپﷺ بڑے بڑے سانحات اور مصائب کا اطمینانِ قلب اور شرح صدر سے سامنا کرتے اور اپنے رب کے وعدے پر دلی طور پر راضی رہتے۔ آپ ﷺ کو اس بات پر پختہ یقین تھا کہ اللہ تعالی نے جو مقدر ٹھہرایا ہے، وہ اس کے حق میں بہتر اور کمال حکمت پر مبنی ہے۔ انسانی زندگی میں کئی موڑ ایسے آتے ہیں جب وہ گھبرا جاتا ہے، اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے، اس کا دل گھٹن محسوس کرتا ہے اور اس پر عدم رضا اور بے چینی و بے قراری کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، مثلاً فقر، قرض اور مرض جیسے کٹھن حالات میں۔ یہ سب حالات ہمارے نبیﷺ کو در پیش آئے بلکہ ان سے بھی بڑے مصائب اور مشکل حالات سے آپ کو واسطہ پڑا مگر آپ نے راضی خوشی ان کا سامنا کیا اور تسلیم و اطاعت کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ آپ نے کانٹوں کے راستے پر چل کر بھی شکایت نہیں کی۔ اگر آپ کی زندگی کا خلاصہ ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ ’’رضا‘‘ ہوگا۔ آپ نے صبر و رضا سے بڑے بڑے مصائب اور خطرات کا سامنا کیا، سخت معر کے لڑے ،مشکل حالات پر قابو پایا اور بحرانوں سے گزر گئے۔

آپ ﷺکے دشمنوں نے آپ کو جھٹلا یا، آپ سے لڑائی کی، آپ کو برا بھلا کہا، اذیت دی، گھر سے نکالا، جنون کا الزام لگایا، جادوگر کہا مگر آپ نے اپنے رب کی رضا کی خاطر یہ سب کچھ خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور اپنے مولا کا فیصلہ تسلیم کیا۔

آپ ﷺنے اپنے صحابہ  رضی اللہ تعالی عنہم کو اذیتیں سہتے دیکھا کہ سخت گرمی میں انھیں ریلی زمین پر گھسیٹا جاتا، کوڑے مارے جاتے، بھوکا رکھا جاتا، شعب ابی طالب میں ان کا محاصرہ کیا گیا مگر آپ ﷺ اللہ کے فیصلے پر راضی رہے اور اللہ کی نصرت و تائید سے یہ سفر جاری رکھا۔

آپ ﷺکا دفاع کرنے والے چچا سردار ابو طالب فوت ہوئے تو آپﷺ تسلیم و رضا کی تصویر بن گئے۔ آپ کی غم خوار، ہر مصیبت میں آپ کے ساتھ کھڑی ہونے والی اور آپ کو حوصلہ و ہمت دینے والی بیوی سیدہ خدیجہ  رضی اللہ تعالی عنہا فوت ہوئیں تو بھی آپﷺ نے اللہ کے فیصلے کو بخوشی تسلیم کیا۔

آپﷺ کی نصرت و تائید اور مدد کرنے والے چچا سیدنا حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کر دیا گیا تو آپ نے کوئی واویلا کیے بغیر اللہ کے فیصلے پر رضا مندی کا اظہار کیا اور نہایت اطمینان قلب سے معاملہ اللہ کے سپر د کر دیا۔

آپﷺ کی قوم نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہوئے آپ کو مکہ سے نکالا۔ آپ نے صحرا میں ٹھوکریں کھائیں۔ آغاز جوانی میں تھکے ماندے بھوکے پیاسے مکہ سے دور گرمی کی شدت برداشت کی اور جب آپ نے اللہ کی بہترین زمین کو چھوڑا اور کفار کی بغض و کینہ اور سازشوں سے بھری تلواروں کے محاصرے سے نکل کر غار میں پناہ لی تو دشمن تلاش کرتے کرتے وہاں بھی پہنچ گئے مگر ان کٹھن حالات میں بھی آپ ﷺکا دل اطمینان و رضا سے اس طرح لبریز تھا جیسے شیریں چشمہ پانی سے بھرا ہوا ہو۔

آپﷺ کے ساتھی میدان جنگ میں آپ کے سامنے شہید ہوتے ہیں، آپ کا چہرہ مبارک زخمی کیا جاتا ہے، پیشانی خون آلود ہوتی ہے اور آپ کے رباعی دانت توڑ دیے جاتے ہیں مگر آپﷺ پھر بھی تسلیم و رضا کا پیکر بنے نظر آتے ہیں۔

آپ ﷺمشرکوں کی دسیسہ کاریوں کو دیکھتے ہیں، یہود کی مکاریوں کا سامنا کرتے ہیں، منافقوں کی غداریوں سے آگاہ ہوتے ہیں اور آپ کی دعوت کو مٹانے اور آپ کو اذیت پہنچانے کے لیے ہر حربہ اختیار کیا جاتا ہے مگر آپ اسے اپنے رب کی رضا سمجھ کر بخوشی برداشت کرتے ہیں اور اپنے رب سے مدد طلب کرتے ہیں۔

آپ ﷺ پر فقر کے وہ دن بھی آتے ہیں کہ نہ تو روٹی کا ایک ٹکڑا ہے نہ مٹھی بھر کھجور یں۔ بھوک سے پیٹ ساتھ لگا ہوا ہے اور آپ خوراک کی قلت کے اس بحران میں زندگی گزارتے ہیں کہ کئی کئی مہینے گزر جاتے ہیں اور آپ کا چولھا نہیں جلتا، پھر بھی آپ اپنے رب کے حکم پر راضی اور خوش ہیں۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالی عنہا نے سیدنا عروہ بن زبیر  رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا:

’’ہمارا یہ حال تھا کہ ہم دو ماہ میں تین چاند دیکھتے تھے اور رسول اللہﷺ کے گھروں میں آگ نہیں سلگتی تھی۔ میں نے پوچھا: پھر آپ کا گزارا کیسے ہوتا تھا؟ انھوں نے فرمایا: دو سیاہ چیزوں، یعنی پانی اور کھجوروں پر۔ ہاں، آپ کے کچھ انصاری پڑوسی تھے جن کے پاس دودھ دینے والی اونٹنیاں تھیں، وہ رسول اللہﷺ کے لیے دودھ بھیج دیتے اور آپ ہمیں وہ دودھ پلا دیتے تھے۔“ (صحيح البخاري، الرقاق، حديث: 6459)

آپ ﷺمیدان جنگ میں اپنے لشکر پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کی تعداد بہت کم ہے اور سامنے دیکھتے ہیں تو مشرکوں کے لشکر حد نگاہ تک پھیلے ہوئے ہیں جو پورے ساز و سامان کے ساتھ لیس ہیں مگر پھر بھی آپ راضی ہیں اور اپنا معاملہ اپنے رب کے سپرد کر کے مطمئن ہیں۔

آپﷺ سخت بیمار ہوتے ہیں، نہایت تھکاوٹ میں مبتلا ہوتے ہیں، بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہوتے ہیں اور مسلمانوں کو بری طرح شکست ہوتی ہے مگر آپ کی پاکیزہ روح سے تسلیم و رضا کا اظہار ٹھنڈے میٹھے پانی سے بھرے مسلسل برسنے والے بادلوں کی طرح ہو رہا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ کو تیز بخار تھا۔ میں نے آپ کے بدن کو چھوتے ہوئے کہا: آپ کو تو بہت تیز بخار ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:

’’ہاں، جیسے تم میں سے دو آدمیوں کو بخار ہوتا ہے۔ ‘‘سیدنا عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اس سے آپ کو ثواب بھی دو گنا ہو گا ؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔ جب بھی کسی مسلمان کو بیماری یا کوئی اور تکلیف لاحق ہو تو وہ اس کے تمام گناہ جھاڑ دیتی ہے جس طرح درخت اپنے پتے جھاڑ دیتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، المرضٰى، حدیث: 5667)

آپﷺ اپنے لخت جگر سیدنا ابراہیم  رضی اللہ تعالی عنہ اور تین بیٹیوں کو اپنے ہاتھوں سے دفناتے اور سفر آخرت پر روانہ کرتے ہیں۔ آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں۔ دل غم وحزن میں ڈوبا ہوتا ہے مگر آپ تسلیم و رضا کے ساتھ اپنے رب کا فیصلہ قبول کرتے ہیں۔ آپﷺ ابراہیم  رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کا معاملہ اپنے رب کے سپرد کرتے ہوئے کہتے ہیں:

((إنَّ العَيْنَ تَدْمَعُ، والقَلْبَ يَحْزَنُ، وَلَا نَقُوْلُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبُّنَا، وَإِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ))

’’آنکھ اشکبار اور دل غمزدہ ہے لیکن ہم نے زبان سے وہی کہنا ہے جس سے ہمارا مالک راضی ہو۔ اسے ابراہیم! ہم تیری جدائی سے یقیناً غمگين ہیں۔‘‘ (صحيح البخاري، الجنائز، حدیث: 1303)

اُس وقت سیدنا ابراہیم  رضی اللہ تعالی عنہ آپ کے اکلوتے بیٹے تھے اور ہم جانتے ہیں کہ باپ اور بیٹے کا کیا رشتہ ہوتا ہے اور اس  پر مستزاد یہ کہ وہ ابھی چھوٹے تھے اور چھوٹے بچوں سے لگاؤ کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے مگر اس سب کے باوجود کے آپ نے اپنے رب کا فیصلہ برضا و رغبت تسلیم کیا کیونکہ آپ کو کامل یقین تھا کہ اللہ کا ہر فیصلہ خیر اور بھلائی پر مبنی ہوتا ہے۔ اس پاکیزہ جان کے کیا کہنے جسے اللہ کے رسول ﷺاپنے بازوؤں پر اٹھائے ہوئے تھے! اس وقت آپ کے ایمان و رضا اور اطمینان و پاکیزگی کا گراف کسی قدر بلند تھا ؟!

ہم جانتے ہیں کہ بیٹیاں باپ کو عزیز از جان ہوتی ہیں بالخصوص جب وہ نیک، پارسا، با ایمان اور پاکباز ہوں۔ آپ کی بیٹیاں یکے بعد دیگرے وفات پا جاتی ہیں مگر آپ اپنے رب کی رضا پر راضی ہیں اور اپنا معاملہ اپنے رب کے سپرد کر دیتے ہیں کیونکہ آپ کو پختہ یقین تھا کہ آپ کا رب آپ کے ساتھ ہمیشہ بھلائی والا معاملہ فرمائے گا۔

تمام تر مشکلات اور مصائب برداشت کرنے کے باوجود آپ اپنے صحابہ کو مطمئن رکھتے، ان کے دلوں میں اللہ کی تقدیر پر خوش و راضی رہنے کا جذبہ پیدا کرتے اور انھیں اللہ کی تقسیم پر سر تسلیم خم کرنے کا درس دیتے۔ آپﷺ انھیں کھو جانے والی ہر چیز پر اللہ کی طرف سے معاوضے کی یقین دہانی کراتے اور ہر نقصان کی تلافی کی امید دلاتے کہ اللہ تعالی نے ان کے لیے اپنے جوار میں ہمیشہ قائم رہنے والی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں۔ آپ ﷺنے زندگی کا خلاصہ رب کی رضا پر خوش رہنے میں بتایا، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: ((اِرْضَ بِمَا قَسَمَ اللهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ)) ’’تم اللہ کی تقسیم پر راضی ہو جاؤ، لوگوں میں سب سے زیادہ غنی ہو جاؤ گے۔ ‘‘ (جامع الترمذي، الزهد، حدیث: 2305)

سو اللہ کی رضا پر راضی رہنے سے دل کو غنا اور روح کو تسکین کی دولت نصیب ہو گی۔ آپ اللہ کی تقدیر پر خوش ہوں گے تو اللہ کے فیصلے کی تحسین آپ کو خوب محسوس ہو گی۔

آپ ﷺاکیلے اللہ کی رضا تلاش کرنے کی ترغیب دلاتے اور فرماتے:

((مَنِ الْتَمَسَ رِضَا اللهِ بِسَخَطِ النَّاسِ كَفَاهُ اللهُ مُؤْنَةَ النَّاسِ وَمَنِ الْتَمَسَ رِضَا النَّاسِ بسَخَطِ اللهِ وَكَّلَهُ اللهُ إِلَى النَّاسِ))

’’جس شخص نے اللہ کی رضا کی خاطر لوگوں کو ناراض کیا، اللہ اس کو لوگوں کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف و اذیت سے بچاتا ہے اور جو شخص لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اللہ کو ناراض کر لیتا ہے، اللہ اسےلوگوں کے سپرد کر دیتا ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، الزهد، حديث: 2414)

یعنی جب تم اللہ سے راضی ہو جاؤ اور اللہ تم سے راضی ہو جائے تو پھر کسی اور چیز کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔

آپ ﷺفرمایا کرتے تھے:

((لَيْسَ الْغِنٰى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ، وَلَكِنَّ الْغِنَٰى غِنَى النَّفْسِ))

’’کثرت ساز و سامان کا نام غنا نہیں، اصل غنا دل کا غنی ہونا ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الرقاق، حديث: 6448) انسان مال و دولت اور خزانوں سے امیر نہیں ہوتا۔ وہ صرف اس قیمتی خزانے سے مال دار ہوتا ہے جو اس کے دل میں ہوتا ہے اور وہ ہے رضا کا خزانہ۔ جب اللہ تعالی آپ کو یہ خزانہ عطا کر دے تو دنیا کے تمام خزا نے آپ کو بے قیمت معلوم ہوں گے اور آپ اللہ کے تمام بندوں سے زیادہ مال دار ہو جائیں گے۔

آپ ﷺ نے اپنی دعا میں بھی رب کی رضا کو شامل رکھا۔ آپﷺ تہجد میں دعا کرتے اور گڑگڑاتے جبکہ آپ کی پاکیزہ روح عرش الہی کے ارد گرد طواف کر رہی ہوتی اور آپ رلا دینے والا یہ جملہ دہرا رہے ہوتے: ((اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِرَضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ)) ’’ اے اللہ! میں تیری ناراضی سے تیری رضامندی کی پناہ میں آتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 486)

اس جذباتی، سچی اور اخلاص پر مبنی دعا کے کیا کہنے جو آپﷺ کے پاکیزہ دل سے نکلی پاک ہے وہ ذات جس نے آپ کو آسمان وزمین کے رب سے مناجات کے لیے اتنی فصیح و بلیغ دعا الہام فرمائی۔ یہ امیدوں کی انتہاء، التجا کی اخیر اور رب ذوالجلال کے سامنے گریہ وزاری کا کمال درجہ ہے کہ آپ اپنی دعا میں کہتے ہیں: ((أَسْأَلُكَ الرَّضَا بَعْدَ الْقَضَاءِ))

’’میں قضا و قدر (کے فیصلے ) کے بعد تیری رضا مندی کا سوال کرتا ہوں۔ ‘‘ (المعجم الأوسط للطبر الي 185/6)

 مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں اس روشن اور چھکتی ہوئی نبوی عبارت کی کیسے تعبیر کروں جس کے ساتھ اللہ کے نبیﷺ دعا کرتے تھے۔ میں بس یہی کہ سکتا ہوں: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ کی قسم! اگر ہم اللہ کے فیصلے پر راضی ہونے کا جذبہ پیدا کر لیں تو بڑی بڑی مصیبتیں اور مشکلات برداشت کرنا نہایت آسان ہو جائے۔

آپﷺ نے ہمیں سکھایا کہ اللہ جل شانہ کے تمام فیصلے لطف و کرم اور رحمت و عدل پر مبنی ہوتے ہیں۔ اگر ہمیں اس کا یقین ہو جائے تو اللہ کی رحمت سے ہمیں جینے کا لطف آئے اور آخرت کی جنت سے پہلے دنیا ہی جنت بن جائے۔ آپﷺ استخارے کی دعا میں پڑھتے تھے:

((وَاقْدُرْلِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ، ثُمَّ رَضِّنِي بِهِ))

’’اور خیر جہاں بھی ہو، اسے میرے مقدر میں کر دے، پھر مجھے اس پر راضی کر دے۔‘‘ (صحیح البخاري، الدعوات، حدیث (6382)

’’وَاقْدُرْلِيَ اْلَخْير‘‘ کے بعد ’’ ثُمَّ رَضِّنِي بِهِ‘‘  کتنا خوبصورت جملہ ہے۔ جب اللہ کے نبیﷺ اپنے رب سے درخواست کر رہے ہیں کہ جو خیر آپ نے میرے مقدر میں کی ہے، اس پر مجھے راضی کر دے تو یقیناً آپ ﷺاللہ کی تقدیر پر راضی رہتے تھے، خواہ اس میں دشواری اور مشکل کا سامنا کرنا پڑتا۔

اور یہ رضا کا اعلیٰ درجہ ہے کیونکہ اللہ کی تقدیر پر ناراضی کا اظہار کرنا کفر اور نفاق کی علامت ہے اور اس سے اللہ کی تقدیر میں شکوک و شبہات کی راہیں کھلتی ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ذٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا مَا أَنزَلَ اللهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ﴾

’’یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے اس چیز کو نا پسند کیا جو اللہ نے نازل کی تو اس نے بھی ان کے اعمال ضائع کر دیے۔‘‘ (محمد 9:47)

سیدنا انس بن مالک رضی  اللہ تعالی عنہ  سے مروی ہے، نبی اکرم ﷺنے فرمایا:

’’بلا شبہ بڑا صلہ بڑی مصیبت کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت فرماتا ہے تو اسے آزماتا ہے۔ جو اللہ سے راضی ہوا، اس کو اللہ کی رضا ملے گی اور جو اس سے ناراض ہوا، اس کے لیے ناراضی ہو گی۔‘‘ (جامع الترمذي، الزهد، حديث: 2396)

یہ حکم نبوی ہے۔ انسان دو صورتوں میں سے ایک کا انتخاب کر سکتا ہے:

1۔ وہ چاہے تو اللہ کے احکام اور قضا و قدر میں اس سے راضی اور خوش ہو جائے، اس صورت میں اس کے لیے اللہ کی رضا مندی اور خوشنودی ہے۔

2۔اللہ کی شریعت اور تقدیر پر برہمی کا اظہار کرے ۔

اللہ اس سے اپنی پناہ میں رکھے۔ اس صورت میں اس کے لیے اللہ کی ناراضی اور غصہ ہے۔ اللہ تعالی عدل و انصاف کرنے والا ہے۔ جو شخص اس سے راضی ہو، اپنا معاملہ اس کے سپرد کر دے اور اس کے احکام کو دل و جان سے تسلیم کرے، اللہ اس کا سینہ رضا مندی تسکین اور اطمینان سے بھر دے گا اور وہ اس کی مٹھاس اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ اور جس نے ناراضی کا اظہار کیا اور اللہ پر اعتراض کیا تو اسے زندگی بھر ناراضی، غصے، غضب اور دکھ سے واسطہ پڑے گا یہاں تک کہ وہ اللہ سے جا ملے گا۔

صحابہ کرام رضی  اللہ تعالی عنہم کے لیے وہ کیا خوبصورت لمحہ تھا اور کیا عظیم گھڑی تھی جب جبریل امین  علیہ السلام درج ذیل ارشادِ باری تعالی لے کر نازل ہوئے:

﴿ لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاۙ۝﴾

’’بلا شبہ یقیناً اللہ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے، تو ان کے دلوں میں جو (خلوص ) تھا، وہ اس نے جان لیا، پھر اس نے ان پر تسکین نازل کی اور بدلے میں انھیں قریب کی فتح دی۔‘‘ (الفتح 18:48)

یہ رضا تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم  کو حاصل ہوئی مگر غور کریں کہ جو ہستی ان کی ہدایت اور ایمان کا باعث بنی، انھیں  اپنے رب کا تعارف کرایا، نبی کی بیعت پر آمادہ کیا اور اپنے خالق کے دین کی نصرت کے لیے تیار کیا یہاں تک کہ انھیں اللہ کی رضا حاصل ہوئی، ان کے ساتھ رب رحمن و رحیم کسی قدر راضی ہو گا ؟!

قیامت تک جو بھی مومن مرد یا عورت اللہ کی تقدیر پر رضا مندی کا عقیدہ رکھے، وہ یہ سب عبادت گزاروں کے سردار اور رب کی رضا پر بہترین طریقے سے راضی رہنے والی ہستی محمد رسول اللہ ﷺہی سے سیکھے گا۔

آپ ﷺ نے واضح فرمایا کہ اللہ کے فیصلوں کو دل و جان سے تسلیم کرنا سب سے اعلیٰ درجہ اور ارفع مقام ہے۔ سیدنا عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، آپ ﷺنے فرمایا:

((ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللهِ رَبَّا، وَبِالْإِسْلامِ دِيْنًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَّسُوْلًا))

’’اس شخص نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا جو اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد (ﷺ) کے رسول ہونے پر راضی ہوا۔‘‘ (صحيح مسلم، الإيمان، حديث (34)

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، رسول اکرم ﷺنے فرمایا:

((مَنْ قَالَ: رَضِيْتُ بِاللهِ رَبًّا، وَبِمُحَمَّدٍ رَّسُوْلًا، وَبِالْإِسْلَامِ دِيْنًا، غُفِرَ لَهُ ذَنْبُهُ))

’’جس نے کہا: میں اللہ کے رب ہونے ،محمدﷺ کے رسول ہونے اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں تو اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے۔“ (صحيح مسلم، الصلاة، حدیث (386)

ابو داود کی روایت میں ہے: ((وَ جَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ))

’’اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حديث:1529)

ایمان کی لذت، گناہوں کی بخشش اور جنت میں داخلہ اللہ عز وجل پر راضی اور خوش ہونے کا حاصل ہے۔ جب آپ ان پاکیزہ اور عالی شان مقامات، یعنی اللہ کی ربوبیت، دین اسلام، شریعت اور رسول کریمﷺ کی نبوت و رسالت پر مطمئن ہوں تو اللہ عز وجل کی رضامندی پر خوش ہو جائیں اور اللہ رب العزت کے جوار میں جنت الفردوس کے اندر بہت بڑے انعام اور تحفے کا انتظار کریں۔ جب اپنے سفر کے انتظام پر آپ اپنے نامہ اعمال پر مہر الہی ان الفاظ میں ثبت دیکھیں گے:

﴿رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهُرُ خَلِدِيْنَ فِيْهَا أَبَدًا ذٰلِكَ الْفَوْرُ

العَظِيْمُ﴾

’’اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے۔ اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘ (التوبة100:9)

 انسان جتنی کامیابیاں حاصل کرتا ہے اور جتنے انعامات، عطیات، لذتوں کے سامان یا نعمتیں پاتا ہے، اللہ کی رضا مندی ان سب سے بڑھ کرہے۔

اگر آپ کو معلوم ہو جائے کہ عرش پر مستوی رحمٰن آپ سے خوش ہے تو آپ کے کیا احساسات ہوں گے؟ کیا اس کے بعد آپ کی کوئی خواہش اور طلب باقی رہ جائے گی ؟!

نبی اکرم ﷺکے رب اور خالق ہونے پر راضی تھے کہ وہ اپنی تخلیق میں بے مثال ہے۔ اس کے معبود ہونے پر راضی تھے کہ اس نے نہایت احسن شریعت دی۔ اس کے مدبر ہونے پر خوش تھے کہ وہ جل شانہ اپنی تقسیم میں نہایت عدل کرنے والا ہے۔ اسی لیے آپﷺ زندگی کے تمام مراحل میں پر امن اور اطمینان و سکون سے رہے اور آپﷺ کی عام زندگی سراپا اطمینان تھی۔ آپ دل و جان سے اپنے رب کے فیصلوں اور تقسیم پر راضی تھے۔ آپ ﷺاپنے دل کی خوشیوں، اپنے رب پر اعتماد، اپنے مولا پر بھروسے، اپنے خالق پر توکل اور اپنے معبود کا حکم ماننے میں اپنے رب پر راضی نظر آتے ہیں۔ گویا آپ کی زندگی سراپا رضا تھی۔ آپ کی زبان اور اعضاء احکام الہی پر رضا کا مظہر تھے۔ آپ ﷺ ہمیشہ کائنات کے اکیلے حاکم اور شہنشاہ رحمن کے شکر گزار اور ممنون و احسان مند رہتے۔

میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں! بھلا آپ ﷺکیسے اپنے رب سے راضی نہ رہتے ؟! کیا اللہ نے آپ کاسینہ نہیں کھولا؟ آپ کے گناہ نہیں بخشے؟ آپ کا ذکر بلند نہیں کیا ؟ آپ کی مدد نہیں کی؟ آپ کے حاسدوں کی ناک خاک آلود نہیں کی ؟ منبروں پر آپ کے اصولوں کے چرچے نہیں کرائے؟ میناروں سے آپ کا نام بلند نہیں کرایا ؟ اربوں لوگوں کو آپ پر درود و سلام بھیجنے میں نہیں لگایا ؟ اس کی قبولیت کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھلوائے؟ قیامت تک آپ کے پیروکاروں سے زمین کو آباد نہیں کیا؟ ہر کتاب، صحیفے، دیوان، رجسٹر اور یونیورسٹی وسکول میں آپ کا نام داخل نہیں کیا ؟ آپﷺ کیوں اپنے رب پر راضی نہ ہوں کہ آپ کے رب نے دنیا میں آپ کو نبوت سے سرفراز کیا۔ مقام محمود اور پر چم حمد دینے کا وعدہ کیا اور سب سے قیمتی اور عظیم تحفہ و ہدیہ عطا کیا۔ اللہ پاک نے فرمایا:

 ﴿وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبِّكَ فَتَرْضٰى﴾

’’اور یقیناً جلد آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔‘‘ (الضحی 5:93)

اس وعدے کے بعد بات کرنے کا یارا رہتا ہے نہ عقل کچھ سوچنے کی جرات کرتی ہے اور قلم بھی کچھ لکھنے سے عاجز آجاتا ہے۔ عزتوں کے بادشاہ کے اپنے عظیم ترین رسول کے لیے اس اعزاز کے کیا کہنے! زہے نصیب! یہ اعزاز رب تعالی نے براہ راست دیا جو آپ ﷺ کے اللہ کے قرب اور اس کی محبت پر دلالت کرتا ہے۔ ﴿يُعْطِيْكَ﴾ کے میں براہ راست بغیر واسطے کے نوازنے کا اشارہ ہے اور ﴿رَبُّكَ﴾میں منتخب کرنے اور خاص کر لینے کا ذکر ہے اور ﴿فَتَرْضٰی﴾ سے مراد انتہائی خوشی، سرور اور حد درجہ فرحت ہے۔

جب میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: ﴿وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰی﴾ پڑھتا ہوں جس میں اس نے اپنے نبی کو مخاطب کیا ہے تو میں حیرت زدہ اور ششدر رہ جاتا ہوں کیونکہ جب میں دنیاوی عنایات پر نظر دوڑاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالی نے آپ کو زیادہ دنیاوی آسائشیں نہیں دیں۔ نہ آپ ﷺ کے پاس محلات اور کوٹھیاں تھیں، نہ باغات اور فارم ہاؤس۔ نہ نہریں چلتی تھیں اور نہ خزانے تھے بلکہ اس کے برعکس آپ ﷺ ایک کمرے میں رہتے تھے۔ ایک چٹائی پر بیٹھتے تھے۔ پیوند لگی چادر زیب تن کرتے تھے اور خشک روٹی کھاتے تھے۔ نہ آپ کے پاس نشان زدہ نسلی گھوڑے تھے اور نہ جاگیر یں اور خزانے۔ آپ نے فقر و احتیاج، بھوک اور تنگی والی زندگی گزاری۔ میں دوبارہ آیت پر غور کرتا ہوں اور ﴿وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبِّكَ فَتَرْضٰی﴾ پڑھتا ہوں تو ایک دوسری نوازش اور عطا پاتا ہوں جو دنیا کے تمام مناصب سے بہت زیادہ مہنگی، قیمی، اعلی اور بلند و بالا ہے۔ وہ دنیا کے تمام جمع شدہ محفوظ خزانوں اور تمام عمدہ اور قیمتی اشیاء سے اعلی و ارفع ہے۔ وہ ایسی نوازش اور عطا ہے جس نے نبیﷺ کو دن رات واحد و قہار رب سے راضی کر دیا اور وہ ہے نبوت کی عطاء، رسالت کا عطیہ، وہی رہائی کا تحفہ، فیض روحانی کا ہدیہ عظیم ایمان کی نوازش، شرح صدر کے ساتھ نفع بخش علم، ذہنی و قلبی سکون و اطمینان اور روحانی خوشی کا انعام و اکرام۔

اس پر مستزاد یہ کہ اللہ نے انسانیت کی ہدایت اور رب کا ئنات کا تعارف کرانے کا شرف بھی آپ کو عطا کیا۔ یقیناً آپﷺ کے رب نے دنیا ہی میں آپ کو راضی کر دیا کہ آپ کی خوب مدد و نصرت فرمائی۔ آپ کو فتح مبین عطا کی۔ صراط مستقیم کی ہدایت دی۔ آپ کے لیے دین مکمل کیا۔ آپ پر نعمت پوری کی۔ آپ کے دشمنوں کو نا کام کیا اور مخالفین کی کمر توڑ دی۔ آپ کے دین کو پھیلایا اور آپ کے اصحاب اور پیروکاروں کو قیامت کے دن تک عزت بخشی۔ پھر اللہ تعالی نے آپ کو اخروی نعمتوں سے نواز کر مزید انعام و احسان فرمایا جو ان دنیاوی نوازشوں سے کہیں عظیم نفیس اور قیمتی ہیں، مثلاً: شفاعت کبرٰی عطا فرمائی عظیم نہر کوثردی۔ تمام انسانوں سے پہلے جنت میں داخل ہونے کا شرف بخشا، نیز وسیلہ عطا کیا جو کہ جنت میں ایک اعلی اور بلند درجہ ہے جو آپ ﷺ کے سوا کسی کو نہیں ملے گا۔ اور اللہ پاک نے آپ پر یہ احسان بھی فرمایا کہ آپ کو اپنی رضا کی چابی اور اس کا بڑا دروازہ اور اس کو حاصل کرنے کا راستہ بتا دیا، چنانچہ فرمایا:

﴿وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِهَا ۚ وَ مِنْ اٰنَآئِ الَّیْلِ فَسَبِّحْ وَ اَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضٰی۝﴾

’’اور طلوع شمس سے پہلے اور اس کے غروب سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیے۔ اور رات کی کچھ گھڑیوں میں بھی تسبیح کیجیے۔ اور دن کے (دونوں) حصوں میں بھی تاکہ آپ راضی ہو جائیں۔‘‘ (طہ 130:20)

سو اللہ تعالی نے اپنی تسبیح اور اپنے دائمی ذکر کی طرف آپ کی راہنمائی فرمائی کیونکہ اس عمل میں رضا کی چوٹی اور سعادت کی انتہا ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا: ﴿ لَعَلَّكَ تَرْضٰی﴾ یہ نہیں فرمایا: (لَعَلِّی اَرضٰی) ’’میں راضی ہو جاؤں‘‘ کیونکہ وہ بلا شک و شبہ اپنے رسول و نبیﷺ سے راضی اور خوش ہے، لیکن اس لیے کہ اے محمد! تاکہ تم سعادت مند بن جاؤ تمھیں فرحت و سرور ملے۔ تمھارا دل مطمئن ہو اور تمھاری روح کو خوشی ملے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺسب لوگوں سے زیادہ اللہ کی تسبیح و تحمید اور کبریائی بیان کرنے والے اور سب سے بڑھ کر ذکر کرنے والے تھے، چنانچہ آپ اللہ کی رضا کے آخری درجے پر پہنچے اور انتہائی فرحت و مسرت حاصل کی۔ خوش ہونا اور اللہ کا آپ پر راضی ہونا آپ کو مبارک ہو۔ دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا ہر زمان و مکان میں آنسوؤں، محبت اور اس عظیم نبی اور کریم امام ﷺ کی ملاقات کے شوق میں آپ پر درود و سلام بھیجنا آپ کو مبارک ہو۔

بلاشبہ یقیناً ہمارے رسول ﷺنے ہمیں اپنے رب کی تخلیق اور اس کے حکم پر راضی رہنا سکھایا کہ ہم اس بات کو تسلیم کریں کہ وہ اپنی کاریگری میں یکتائے روزگار اور اس کے احکام و شریعت نہایت خوبصورت ہیں۔ جس طرح اللہ تعالی نے کا نکات کو خوبصورت، انوکھا اور مربوط بنایا ہے اور اسے نہایت احسن انداز سے منظم کیا ہے، اسی طرح اس کی شریعت بھی نہایت محکم و پختہ، اس کا کلام نہایت واضح اور اس کی تقدیر اور فیصلے بھی نہایت احسن ہیں۔ سو آپﷺ نے ہمیں بتایا کہ اللہ کا ہر فیصلہ خوبصورت، مناسب اور درست ہے اور وہ اپنے بندے کے لیے جو فیصلہ کرے،  وہ ہر حال میں اس کے لیے بہتر ہے اور جو شخص اس عقیدے پر پکا ہو، وہ اللہ کا ہر فیصلہ دل و جان سے قبول کرنے کی وجہ سے مکمل اطمینان و رضا پاتا ہے اور جس دن اسے اس کا پختہ یقین ہو جائے، اس دن اسے کوئی رنج و غم اور پریشانی نہیں رہتی بلکہ وہ اطمینان و سکون محسوس کرتا ہے۔ یہی مسئلہ رضا کا راز ہے۔

نبی اکرم کی ہم نے رزق کے حوالے سے اللہ کی تقسیم پر راضی اور مطمئن رہنے کا ایک نہایت آسان طریقہ بتایا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:

((إِذَا نَظرَ أَحَدُكُمْ إِلٰى مَنْ فُضِّلَ عَلَيْهِ فِي الْمَالِ وَالْخَلْقِ، فَلْيَنْظُرْ إِلٰى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ مِمَّنْ فُضِّلَ عَلَيْهِ))

’’جب تم میں سے کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو مال و دولت اور شکل وصورت میں اس سے بڑھ کر ہے تو اس وقت اسے ایسے شخص کو بھی دیکھنا چاہیے جو اس سے کہیں کم درجے کا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الرقاق، حديث (6490)

آپﷺ نے ہمیں بتایا کہ جو شخص اللہ کی تقسیم پر راضی اور خوش ہو، اللہ تعالی اسے جنت میں بہت بڑا ثواب اور ہمیشہ کے گھر میں بلند درجات عطا فرمائے گا۔ آپﷺ نے فرمایا:

’’اللہ تبارک و تعالی اہل جنت سے فرمائے گا: اے اہل جنت! وہ (جنتی) عرض کریں گے: ہم تیری سعادت حاصل کرنے کے لیے حاضر ہیں۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا: کیا تم لوگ اب خوش ہو گئے ہو؟ وہ عرض کریں گے: ہم کیوں خوش نہ ہوں جبکہ تو نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو اپنی مخلوق میں سے اور کسی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں تمھیں اس سے بھی بہتر نعمت عطا کرتا ہوں۔ وہ (جنتی ) کہیں گے: اے ہمارے رب! اس سے بہتر اور کیا چیز ہو سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ((أُحِلُّ عَلَيْكُمْ رِضْوَانِي فَلَا أَسْخَطُ عَلَيْكُمْ بَعْده اَبَدًا)) ’’میں نے تمھارے لیے اپنی رضا کو حلال کر دیا ہے۔ اب میں تم سے کبھی ناراض نہیں ہوں گا۔‘‘ (صحیح البخاري، الرقاق، حديث: 6549)

اور آپ ﷺنے ہمیں ایک ایسی چیز بتائی کہ اگر ہم اس پر پختہ یقین کر لیں تو اللہ تعالی کے تمام فیصلے ہمیں شفا بخش اور سلامتی پر مبنی معلوم ہوں حتی کہ وہ فیصلے بھی جو بظاہر پریشان کن، تکلیف دہ اور نقصان والے دکھائی دیتے ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا:

((عَجَبًا لِّأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَالِكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَّهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَّهُ))

’’مومن کا معاملہ عجیب ہے۔ اس کا ہر معاملہ اس کے لیے بھلائی کا ہے اور یہ بات مؤمن کے سوا کسی اور کو میسر نہیں۔ اسے خوشی اور خوشحالی ملے تو شکر کرتا ہے اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچے تو (اللہ کی رضا کے لیے ) صبر کرتا ہے، اس میں (بھی) اس کے لیے بھلائی ہوتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الزهد والرقاق، حديث: 2999)

آپﷺ نے ہمیں خوشخبری دی کہ اللہ کے فیصلے کو راضی خوشی تسلیم کرنا یقین کی پختگی اور اللہ رب العالمین کے ساتھ اچھے گمان کی دلیل ہے اور یہ اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کا سب سے قریب ترین راستہ ہے۔ اللہ کے فیصلوں پر راضی ہونے سے دکھوں، غموں، پریشانیوں، بے چینی و بیقراری، اضطراب اور نفسیاتی دباؤ وغیرہ سے نجات مل جاتی ہے۔ اللہ کی تقدیر پر راضی رہنے والا شخص ہمیشہ مطمئن، خوش دل اور ذہنی طور پر خوش و خرم ہوتا ہے۔ وہ پرسکون اور بھر پور زندگی گزارتا ہے کیونکہ وہ اللہ سے راضی ہوتا ہے اور اللہ اس سے خوش ہوتا ہے۔

حالات کتنے بھی کٹھن ہوں، رسول اکرم ﷺنے اپنی امت کو ہر حال میں اللہ سے راضی رہنے کا درس دیا، اس لیے ایسی صفات کے حامل افراد کی اللہ تعالی نے تعریف فرمائی ہے۔ ارشاد فرمایا:

﴿وَ لَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ ۙ وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَ رَسُوْلُهٗۤ ۙ اِنَّاۤ اِلَی اللّٰهِ رٰغِبُوْنَ۠۝﴾

’’اور (کیا ہی اچھا ہوتا ) اگر بے شک وہ اس پر راضی رہتے جو اللہ اور اس کے رسول نے انھیں دیا۔ اور وہ کہتے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے۔ جلد ہی اللہ ہمیں اپنے فضل سے دے گا اور اس کا رسول بھی۔ بے شک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں۔‘‘ (التوبہ59:9)

یہاں کلمہ ﴿رَضُوا﴾ پر غور کریں۔ یہ نہیں کہا کہ اگر وہ قبول کرتے یالے لیتے بلکہ ﴿ رَضُوا﴾ کا لفظ استعمال کیا، یعنی وہ اللہ کے فرض کردہ پر راضی ہوتے اور کھلے دل سے اسے قبول کرتے۔ دوسرے لفظوں میں وہ روک لے تو بھی راضی، زیادہ دے تو بھی راضی اور تھوڑا دے تو بھی خوش، نعمتوں سے نوازے تو بھی خوش، آزمائشوں میں ڈالے تو بھی راضی۔ صحت و تندرستی دے تو بھی راضی، بیماری میں مبتلا کرے تو بھی خوش۔ اولاد سے نوازے تو بھی راضی اور اگر نہ دے تو بھی مطمئن۔ مال و دولت عطا کرے تو بھی راضی اور فقر میں مبتلا کر دے تو بھی خوش۔ سو ہر حال میں اللہ سے خوش رہتا، جیسا کہ نبی کریم ﷺنے سکھایا ہے، اس زندگی میں پیش آنے والی مشکلات، بحرانوں اور رکاوٹوں سے نبٹنے کا سب سے عظیم اسلحہ ہے اور یہی دنیا و آخرت کی جنت کا بڑا درواز و اور جنت الفردوس کا راستہ ہے۔ یہ تسلیم و رضا کا آخری درجہ بندگی کا دیوان اور اطاعت گزاری کا راز ہے۔ یہ ایسی بارش ہے جو اللہ تعالی مطمئن دلوں پر برساتا ہے اور ایسا سکون ہے جو اللہ تعالی پاکیزہ روحوں پر اتارتا ہے۔ یہ شرح صدر، معاملات کی اصلاح اور تنگی کو آسانی میں بدلنے کا راز ہے۔ یہ ایسی بھر پور خوشی ہے جس کا ادر اک صرف وہ شخص کر سکتا ہے جو اپنا معاملہ اپنے رب کے سپرد کر دے اور اسے اپنے خالق کی تدبیر پر پورا اعتماد ہو اور وہ یہ یقین رکھتا ہو کہ اس کا مالک اس کے لیے جو پسند کرے، وہ اس کی اپنی پسند سے زیادہ بہتر ہے۔ پھر وہ ہر حال اور ہر زمان و مکان میں راضی اور خوش رہتا ہے۔ وہ اللہ کی تقدیر اور ہر فیصلے پر خوش رہتا ہے۔ وہ آزمائش اور کٹھن حالات کو بھی اللہ کی تقدیر سمجھ کر خوشی خوشی قبول کرتا ہے۔ وہ اللہ کی رضا کے لیے نا پسندیدہ امور سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے۔ تکلیفیں اسے مرغوب لگتی ہیں اور اللہ اسے تنگی، آسانی، سختی و خوشحالی وغیرہ جس حال میں رکھے، وہ خوش رہتا ہے کیونکہ وہ پختہ یقین اور ایمان رکھتا ہے کہ اس کا رب اس کا برا نہیں چاہتا بلکہ اس کے لیے احسن اور اجمل کا انتخاب فرماتا ہے۔

آخر میں، میں بدحال، فقراء و مساکین، یتیموں، محروموں، مصیبت کے ماروں، پریشان حال اور بے آسرا و بے گھر افراد سے کہوں گا تمھارے پیشوا اولادِ آدم کے سردار رسول اللہﷺ ہیں۔ تسلیم و رضا، قناعت و اطمینان اور قلبی سکون، آسانیوں کے انتظار اللہ کی طرف جھکاؤ اور اس کے فضل و کرم اور بہتر فیصلے پر یقین و اعتماد میں آپ ہی کی پیروی کریں۔ ہر مصیبت، بحران، حادثے، مشکل اور تکلیف و آزمائش میں اس آیت کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھیں: ﴿ وَ عَسٰۤی اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْـًٔا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ ۚ وَ عَسٰۤی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْـًٔا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠۝﴾

’’اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو نا پسند کرو اور وہ تمھارے لیے بہتر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمھارے لیے بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ (البقرة 216:2)

میں سید المرسلین ﷺکی سنت پر چلنے والے مسلمانوں سے کہوں گا: مال و دولت، فقر و فاقہ، خوشی و می بنگی و آسانی صحت و بیماری، فتح و شکست وغیرہ کے تمام مراحل میں رب العالمین کے فیصلوں کو اسی طرح برضا و رغبت تسلیم اور قبول کرو جیسے رسول اکرمﷺ نے کیا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم نے ایسا کر لیا تو تھیں شرح صدر اور خوشیاں نصیب ہوں گی۔ ہر دکھ، تکلیف، تم اور پریشانی ختم ہو جائے گی۔ دنیا تمھارے لیے جنت بن جائے گی اور تم اللہ کی تقدیر پر خوش اور لطف اندوز ہو گے کیونکہ وہ کمال حکمت والا ہے اور سب سے مناسب اور بہتر انتخاب فرماتا ہے۔ اس طرح تمھیں دنیا و آخرت کی سعادت نصیب ہو گی۔

………………