محمدﷺ بحیثیت مسافر
مختلف شہروں اور ملکوں کے سفر اور نقل و حرکت کے دوران انسان رب واحد و قہار کی قدرت کے ایسے حیران کن نظارے دیکھتا ہے جن سے نظر و عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ انسان سفر میں چونکہ باری تعالی کی کاریگری کے نمونوں کا مطالعہ کرتا ہے، اس کی قدرت کے عجائبات دیکھتا ہے اور کائنات میں اللہ تعالی کی پیدا کی ہوئی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَفِي الْأَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ﴾
’’اور یقین کرنے والوں کے لیے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں۔‘‘ (الذریت 20:51)
اللہ تعالی نے کائنات میں غور و فکر کرنے اور عبرت حاصل کرنے کے لیے زمین میں چلنے پھرنے کا حکم دیا۔
ارشاد باری تعالی ہے : ﴿قُلْ سِيْرُوْا فِي الْأَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِيْنَ﴾
’’(اے نبی!) کہہ دیجیے: تم زمین میں گھومو پھرو، پھر دیکھو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ؟‘‘ (الأنعام 11:6)
نبی ﷺکے تمام سفر اپنے رب کی اطاعت کے لیے تھے۔ حج ہو، عمرہ ہو یا اللہ تعالی کی راہ میں جہادہ آپ نے اپنی امت کو تمام سفروں کے آداب سکھائے اور ان کی تعلیم دی۔ آپ ﷺسفر کے آغاز سے پہلے قرض ادا کرنے اور امانتیں ان کے مالکوں کے حوالے کرنے کی ترغیب دیتے۔ آپ ﷺ نے ہجرت کے موقع پر سید نا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو پیچھے چھوڑا تا کہ وہ کفار قریش کی وہ امانتیں واپس کریں جو انھوں نے صادق و امینﷺ کے پاس رکھی ہوئی تھیں۔ غور کریں، کس طرح کفار قریش نے آپ ﷺ کو اپنے مالوں پر امین سمجھا اور رب ذوالجلال کی رسالت پر امین نہ سمجھا۔ دنیا کے امور میں آپ کی تصدیق کی اور اللہ تعالیٰ کی آیات کے بارے میں آپ کو جھٹلایا۔ یہ کیسا کھلا تضاد ہے!
مکہ سے مدینہ کی طرف سفر کرنے سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی اکرمﷺ کو سواری لاکر پیش کی تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’یہ قیمتًا ہو گی۔‘‘ یعنی آپ ﷺ اس کی قیمت ادا کریں گے، مفت نہیں لیں گے تاکہ آپ کا تمام عمل خالص اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کے لیے ہو۔ آپ نے کسی کا کوئی احسان نہیں لیا خواہ وہ کتنا ہی قریبی تھا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا بھی احسان نہیں لیا، حالانکہ وہ بہت زیادہ خرچ کرنے والے تھے۔ آپ کا مقصد یہ تھا کہ سفر خالص اللہ تعالی کی رضا کے لیے ہو۔
جب آپ ﷺ سفر کا ارادہ کرتے تو اپنے صحابہ کو الوداع کرتے اور کہتے :
((أَسْتَوْدِعُ اللهَ دِيْنَكَ وَأَمَانَتَكَ وَخَوَاتِيمَ عَمَلِكَ))
’’میں تیرے دین، امانت اور عمل کے خاتمے کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔‘‘ (سنن ابی داود، الجهاد، حدیث: 2600)
غور کریں کہ آپ اپنے صحابہ کو تین اہم کاموں میں اللہ تعالی کے سپرد کر رہے ہیں: دین جو ذریعۂ نجات ہے۔ امانت جو میثاق ہے اور اعمال کا خاتمہ جو انجام کار ہے۔ اگر ممکن ہوتا تو آپ ﷺ جمعرات کو سفر کا آغاز کرتے، جیسا کہ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے : رسول اکرم ﷺجب سفر کے لیے نکلتے تو ایسا بہت کم ہوتا کہ آپ ﷺ جمعرات کو نہ نکلے ہوں۔ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 2949)
اگر آپ ﷺسفر میں کسی بیوی کو لے جانا چاہتے تو سفر شروع کرنے سے پہلے ان کے درمیان قرعہ ڈالتے کہ کون ساتھ جائے گی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺجب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے۔ جس کا قرعہ نکل آتا، اسے سفر میں اپنے ساتھ لے جاتے۔‘‘ (صحيح البخاري، الشهادات، حديث: 2661)
جب آپ ﷺاپنے گھر سے نکلتے تو یہ دعا پڑھتے :
((بِسْمِ اللهِ، تَوَكَّلْتُ عَلَى اللهِ ، اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوْذُ بِكَ أَنْ نَزِلَّ، أَوْ نَضِلَّ، أَوْ نَظْلِمَ أَوْ نُظْلَمَ، أَوْ نَجْهَلَ أَوْ يُجْهَلَ عَلَيْنَا))
’’اللہ کے نام کے ساتھ۔ میں نے اللہ پر توکل کیا۔ اے اللہ ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں اس بات سے کہ ہم پھسلیں یا گمراہ ہوں، یا ہم ظلم کریں یا کسی کے ظلم کا شکار بنیں یا ہم جہالت کریں یا ہم سے جہالت کی جائے۔‘‘ (جامع الترمذي، الدعوات، حديث: 3427)
جب آپ ﷺ سفر کے لیے نکلتے اور اپنی سواری پر بیٹھ جاتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے اور پھر یہ دعا پڑھتے :
(( سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هٰذَا، وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلٰى رَبَّنَا لَمُنْقَلِبُونَ، اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِي سَفَرِنَا هٰذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى. اَللّٰهُمَّ هَوِّنَ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هٰذَا، وَاطْوِعَنَّا بُعْدَهُ. اَللّٰهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ، وَكَابَةِ الْمَنْظَرِ، وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَالْأَهْلِ))
’’پاک ہے وہ ذات جس نے اس جانور کو ہمارے تابع کر دیا اور ہم اس کو قابو میں نہ رکھ سکتے تھے۔ بلاشبہ ہم اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جانے والے ہیں۔ اے اللہ! ہم تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور پر ہیز گاری مانگتے ہیں اور ایسے کام کا سوال کرتے ہیں جسے تو پسند کرے۔ اے اللہ ! ہم پر یہ سفر آسان کر دے اور ہمارے لیے اس کی دوری لپیٹ دے۔ اے اللہ! تو ہی سفر میں ساتھی اور گھر میں نگران ہے۔ اے اللہ میں تجھ سے سفر کی تکلیفوں، منظر کی غمگینی اور اپنے مال اور گھر والوں میں برے حال میں لوٹ کر آنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث : 1342)
سفر میں آپ کا یہ طریقہ کار تھا کہ جب چڑھائی چڑھتے تو اللہ اکبر کہتے اور جب کسی پہاڑ یا بلند جگہ سے نیچے اترتے تو سبحان اللہ کہتے۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جب ہم کسی بلندی پر چڑھتے تو اللہ اکبر کہتے اور جب کسی بلندی سے اترتے تو سبحان اللہ کہتے۔‘‘ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 2893)
مقصد یہ ہے کہ بلندیوں کی طرف جانے والے کو احساس برتری ہو تو وہ یاد کرے کہ اللہ تعالی سب سے بڑا ہے اور جو کسی ڈھلان یا وادی کی طرف نیچے کو جائے، اسے چاہیے کہ اللہ تعالی کو ہر قسم کی پستی سے پاک قرار دے کیونکہ وہ سب سے اعلیٰ اور جلیل القدر ہے۔ نماز کو بھی اس مقصد کے مطابق مرتب کیا گیا ہے کہ ہر اٹھتے وقت تکبیر اور رکوع وسجود میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح ہے۔
سفر میں نماز کے متعلق رخصت کی چند صورتیں
٭تیمم: ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآىِٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُ ؕ مَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهِّرَكُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ﴾
’’اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے فارغ ہو کر آیا ہو یا تم نے عورتوں سے ہم بستری کی ہو، پھر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لو۔ پس اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو۔ اللہ نہیں چاہتا کہ تمھیں تنگی میں ڈالے، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک کر دے اور تم پر اپنی نعمت پوری کرے تا کہ تم شکر کرو۔ ‘‘(المائدہ 6:5)
٭سفر میں نماز قصر اور جمع کرنا: سفر میں نماز قصر کرنے اور دو نمازیں ایک ساتھ پڑھنے کی اجازت ہے، جیسا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے نبیﷺ کے ہمراہ نکل کر مدینہ سے مکہ تک کا سفر کیا۔ آپ اس سفر کے دوران میں مدینہ واپسی تک دو دو رکعت ہی پڑھتے رہے۔‘‘ (صحیح البخاري، أبواب تقصير الصلاة، حديث (1081)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺکی صحبت میں رہا ہوں ، آپ دوران سفر میں دو رکعت سے زیادہ نماز نہیں پڑھتے تھے۔ اس طرح سیدنا ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ تعالی عنہم بھی دو رکعت سے زیادہ نماز ادانہیں کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، أبواب تفصير الصلاة، حديث : 1102)
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک والے سال ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر پر نکلے۔ آپ نمازیں جمع کرتے تھے۔ آپ ظہر و عصر اور مغرب و عشاء ملا کر پڑھتے تھے، حتی کہ ایک دن آیا کہ آپ نے نماز مؤخر کر دی، پھر آپ باہر نکلے اور ظہر اور عصر اکٹھی پڑھیں۔ پھر آپ اندر تشریف لے گئے۔ اس کے بعد آپ پھر باہر نکلے اور مغرب اور عشاء اکٹھی پڑھیں۔ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث (5947 (706))
یہ اور ان کے علاوہ کئی احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے سفر میں چار رکعتوں والی نماز پوری نہیں پڑھی۔ آپ امت کی آسانی کے لیے قصر ہی کرتے تھے اور اللہ تعالی کی دی ہوئی رخصت پر عمل کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جس طرح اپنے فیصلوں اور لازم کیے ہوئے احکام پر عمل کو پسند کرتا ہے، اسی طرح یہ بھی پسند کرتا ہے کہ اس کی دی ہوئی رخصت سے فائدہ اٹھایا جائے۔‘‘ (صحیح ابن حبان، حدیث: 354)
اور ایک روایت میں ہے کہ جس طرح وہ یہ نا پسند کرتا ہے کہ اس کی معصیت و نافرمانی کی جائے۔ (الخلاصة للنووي: 729/2)
کبھی آپ ﷺ نے قیامت تک آنے والی امت کی آسانی اور سہولت کے لیے ظہر اور عصر ایک ساتھ اور مغرب و عشاء ایک ساتھ پڑھیں اور فجر اس کے وقت پر ادا کی۔
سفر میں فرض نماز سے پہلے یا بعد میں نفل پڑھنا نبی ﷺ سے ثابت نہیں۔ ظاہر ہے جب فرائض میں کمی کر دی گئی ہے تو آسانی اور رحمت کا تقاضا ہے کہ نوافل کی بالا ولی رخصت ہو، البتہ آپ فجر کی سنتیں اور وتر سفر و حضر میں ادا کرتے تھے۔
سفر میں آپ ﷺکی آسانیوں میں یہ بات بھی ہے کہ آپ نوافل سواری ہی پر ادا کر لیتے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺسفر کے دوران میں رات کی نماز اپنی سواری پر اشارے سے پڑھتے تھے، اس کا جدھر کو بھی منہ ہو جاتا۔ اسی طرح نماز وتر بھی اپنی سواری پر پڑھ لیتے لیکن فرض نماز اس پر نہ پڑھتے تھے۔ (صحیح البخاري، الوتر، حديث: 1000)
رسول اللہﷺ جب سفر میں ہوتے اور رات (کے آخری حصے ) میں آرام کے لیے لیٹتے تو دائیں پہلو پر لیٹتے اور جب صبح سے ذرا پہلے لیٹتے تو اپنی کہنی کھڑی کر لیتے اور سر ہتھیلی پر ٹکا لیتے۔ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث:683)
اہل علم کہتے ہیں کہ کہنی کھڑی کرنے کی وجہ یہ تھی کہ گہری نیند نہ آجائے اور نماز فجر ضائع نہ ہو۔ آپ ﷺ جب رمضان میں سفر کرتے تو روزہ نہ رکھتے ، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ﴾
’’پھر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کر لے۔‘‘ (البقرة 2: 184)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ سفر کیا کرتے تھے، روزہ رکھنے والا، چھوڑنے والے پر اور چھوڑنے والا روزہ دار پر عیب نہیں لگاتا تھا۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1947)
اور جہاں تک نفلی روزوں کا تعلق ہے تو آپ ﷺ کی اہم بعض اوقات سفر میں روزہ رکھ لیتے تھے۔ سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ ہم نبی کریمﷺ کے ساتھ ایک سفر میں نکلے۔ دن انتہائی گرم تھا۔ گرمی کی شدت کی وجہ سے آدمی اپنے سر پر ہاتھ رکھ لیتا تھا۔ نبی کریم ﷺ اور ابن رواحہ رضی اللہ تعالی عنہ کے سوا کوئی شخص روزے سے نہیں تھا۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1945)
سفر میں رسول اکرم ﷺنے جو رخصتیں دی ہیں، ان میں موزوں اور جرابوں پر عام دنوں سے زیادہ ایام تک مسح کرنا بھی ہے۔ اور اس کا مقصد مسافر کے لیے آسانی اور اس پر رحمت و شفقت ہے۔ سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا تو اپنے موزوں پر مسح کیا اور پوچھنے پر بتایا کہ میں نے رسول اکرمﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:387)
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا (آپ وضو کر رہے تھے) میں جھکا تاکہ آپ کے دونوں موزے اتاروں تو آپﷺ نے فرمایا: ’’انھیں رہنے دو، میں نے انھیں باوضو پہنا تھا۔‘‘ پھر آپ نے ان پر مسح فرمایا۔ (صحيح البخاري، الوضوء، حديث: 206)
سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں موزوں پر مسح کرنے کا حکم دیا، بشرطیکہ ہم نے باوضو پہنے ہوں۔ سفر میں تین دن اور حضر میں ایک دن رات اس کی حد مقرر فرمائی اور فرمایا کہ بول و براز اور نیند کی وجہ سے انھیں اتارنے کی ضرورت نہیں۔ صرف جنابت کی صورت میں انھیں اتار کر غسل کرنا واجب ہے۔ (مسند أحمد ، حدیث : 18093)
آپ ﷺ نے یہ خوشخبری دی کہ مسافر حالتِ اقامت میں جو نیک عمل کرتا ہے، اسے سفر میں بھی اللہ تعالی کے فضل و احسان سے ان کا پورا پورا ثواب ملتا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِذَا مَرِضَ الْعَبْدُ أَوْ سَافَرَ كُتِبَ لَهُ مِثْلُ مَا كَانَ يَعْمَلُ مُقِيْمًا صَحِيْحًا))
’’جب آدمی بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے تو وہ جس قدر عبادات، اقامت کی حالت اور دوران صحت میں کرتا تھا، اس کے لیے وہ سب لکھی جاتی ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 2996)
سفر میں آپ ﷺ اپنے صحابہ کو نصیحت و تاکید فرماتے:
((مَنْ نَّزَلَ مَنْزِلًا ثُمَّ قَالَ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ، لَمْ يَضُرُّهُ شَيْءٌ حَتّٰى يَرْتَحِلَ مِنْ مَنْزِلِهِ ذَلِكَ))
’’جو شخص کسی بھی منزل پر اترا اور اس نے یہ کلمات کہے: ’’میں اللہ تعالی سے اس کے مکمل ترین کلمات کی پناہ طلب کرتا ہوں، ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی‘‘ تو اس شخص کو اس منزل سے چلے جانے تک کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حدیث: 2708)
ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا:
’’جب تم شادابی کے زمانے میں سفر کرو تو زمین میں سے اونٹوں کو ان کا حصہ دو اور جب تم خشک سالی یا قحط زدہ زمین میں سفر کرو تو اس زمین پر سے جلدی گزرو۔ اور جب تم رات کے آخری حصے میں پڑاؤ کرو تو راستے سے ہٹ جاؤ کیونکہ رات کو وہ، یعنی راستے کی جگہ حشرات الارض کا ٹھکانا ہوتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم) الإمارة، حديث: 1926)
اس حدیث میں مسافر کے لیے یہ ہدایات ہیں کہ جب وہ اونٹ وغیرہ جانور پر سوار ہو کر سرسبز و شاداب علاقے سے گزرے تو سواری کو تیز نہ کرے بلکہ اسے تھوڑا بہت چرنے دے تا کہ اس کا پیٹ بھر جائے۔ اور اگر زمین بنجر ہو اور گھاس وغیرہ نہ ہو تو پھر افضل یہ ہے کہ منزل کی طرف جلدی بڑھ جائے تا کہ جانور کو بھی بھوک اور پیاس سے تخفیف ملے۔ پھر رات کے وقت پڑاؤ کی صورت میں راستے سے ہٹ کر ٹھہرنے کا حکم دیا کیونکہ رات کو موذی جانور راستوں پر آجاتے ہیں۔
اسی طرح آپ ﷺ نے ان قوموں کے علاقوں سے گزرنے سے بھی منع فرمایا جو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے تباہ ہو ئیں، البتہ عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی غرض سے گزرنا جائز ہے۔ رسول اکرمﷺ ثمودیوں کے گھروں کے قریب سے گزرے تو اپنے صحابہ سے فرمایا:
((لَا تَدْخُلُوْا مَسَاكِنَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا أَنْفُسَهُمْ أَنْ يُّصِيْبَكُمْ مَّا أَصَابَهُمْ ، إِلَّا أَنْ تَكُوْنُوْا بَاكِينَ، ثُمَّ قَنَّعَ رَأْسَهُ وَ أَسْرَعَ السَّيْرَ حَتّٰى أَجَازَ الْوَادِيَ.))
’’جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، تم ان کی بستیوں سے گزرو تو روتے اور گریہ وزاری کرتے ہوئے گزرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر وہی عذاب آ جائے جو ان پر آیا تھا۔ پھر آپ نے اپنے سر مبارک پر چادر ڈال لی اور بڑی تیزی کے ساتھ چلنے لگے یہاں تک کہ اس وادی سے باہر نکل گئے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث4419)
غور کریں کس طرح رسول اکرم ﷺنے احتیاط ، خوف اور عبرت و نصیحت کو ایک ساتھ ملحوظ رکھا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ جب کسی سفر میں ہوتے اور سحر کے وقت اٹھتے تو فرماتے : ”ہماری طرف سے اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کے انعام کی خوبصورتی کے اعتراف کا سننے والا یہ بات دوسروں کو بھی سنا دے۔ اے ہمارے رب ! ہمارے ساتھ رہ۔ ہم پر احسان فرما۔ میں آگ سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتے ہوئے یہ دعا کر رہا ہوں۔‘‘ (صحيح مسلم، الذكر والدعاء، حدیث: 2718)
اس دعا میں آپ ﷺ نے قبولیت کی گھڑی، یعنی سحری کے وقت میں نعمتوں پر حمد و ثناء شکر اور آزمائش میں تعوذ کو کس طرح ایک ساتھ جمع فرمایا۔
آپ ﷺ سفر میں اپنے صحابہ خانہ سے نمایاں اور ممتاز نظر نہیں آتے تھے۔ آپ ان کے ساتھ چلتے اور ایک ہی اونٹ پر اپنی باری آنے پر سوار ہوتے۔ اپنے ساتھی کو اس کی باری پر سوار کرتے اور سفر میں ایثار کرنے کی ترغیب دیتے، جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا:
((مَنْ كَانَ مَعَهُ فَضْلُ ظَهْرٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلٰى مَنْ لَّا ظَهْرَ لَهُ، وَمَنْ كَانَ لَهُ فَضْلٌ مِّنْ زَادٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلٰى مَنْ لَّا زَادَ لَهُ))
’’جس کے پاس ضرورت سے زائد سواری ہو، وہ اس کے ذریعے سے ایسے شخص کے ساتھ نیکی کرے جس کے پاس سوار نہیں ہے اور جس کے پاس ضرورت سے زیادہ زاد راہ ہے، وہ اس کے ذریعے سے ایسے شخص کی خیر خواہی کرے جس کے پاس زاد راہ نہیں۔‘‘ (صحيح مسلم، اللقطة، حديث: 1728)
کبھی یوں ہوتا کہ نوجوان صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سفر میں آپ ﷺ کی خدمت کرتے۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: ’’تم اپنے یہاں کے بچوں میں سے کوئی بچہ تلاش کر لاؤ جو میرے کام کر دیا کرے۔‘‘ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ مجھے لے کر نکلے اور اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ جب بھی کہیں پڑاؤ کرتے تو میں آپ کی خدمت کرتا۔ (صحيح البخاري، الأطعمة، حديث: 5425)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عالم دین، حاکم وقت، صاحب مرتبہ اور ضرورت مند کا کسی سے خدمت کرانا جائز ہے اور یہ تکبر نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون ہے۔
جو شخص سفر میں دوسروں کی خدمت کرتا ہے، آپ ﷺ نے اسے اجر وثواب کی خوشخبری سنائی ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ ہم میں سے کچھ روزہ دار تھے اور کچھ روزہ نہ رکھنے والے تھے۔ ہم نے سخت گرمی کے دن میں ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ ہم میں سب سے زیادہ سائے والا وہ تھا جو چادر رکھتا تھا۔ اور ہم میں کوئی ایسا بھی تھا جو اپنے ہاتھ سے سورج کی دھوپ سے بچاؤ کر رہا تھا۔ روزہ دار (کمزوری سے ) بیٹھ رہے اور روزہ نہ رکھنے والے (کام کے لیے) کھڑے ہو گئے۔ انھوں نے خیمے لگائے اور سواریوں کو پانی پلایا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ آج افطار کرنے والے زیادہ اجر وثواب لے گئے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث : 1119)
آپ ﷺنے اپنے صحابہ کو سفر میں اکٹھا رہنے کا حکم دیا اور الگ الگ ہونے سے منع فرمایا۔ سیدنا ابو ثعلبہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ پڑاؤ کرتے تو لوگ وادیوں اور گھاٹیوں میں بکھر جاتے تھے۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تمھارا ان وادیوں اور گھاٹیوں میں بکھر جانا شیطان کی طرف سے ہے۔‘‘ چنانچہ اس کے بعد جب بھی آپ کسی منزل پر پڑاؤ کرتے تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم ایک دوسرے کے بہت ہی قریب رہتے حتیّٰ کہ کہا جاتا: اگر ان پر ایک ہی کپڑا تان دیا جائے تو سب پر آجائے۔ (سنن أبي داود، الجهاد، حدیث: 2828)
اور یہ اس لیے کیا جاتا کہ اجتماع میں برکت اور قوت ہے۔
آپﷺ رات کے وقت اکیلے سفر کرنے سے منع کرتے تھے، چنانچہ آپﷺ نے فرمایا:
((لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي الْوَحْدَةِ مَا أَعْلَمُ مَا سَارَرًا كِبٌ بِلَيْلٍ وَّحْدَهُ))
’’تنہا سفر کرنے کا جو نقصان مجھے معلوم ہے، وہ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے تو کوئی سوار بھی رات کے وقت اکیلے سفر نہ کرے۔‘‘ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 2998)
اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان اکیلے آدمی پر آسانی سے قابو پالیتا ہے اور اگر اہل ایمان اکٹھے ہوں تو وہ محفوظ و مامون رہتے ہیں۔
آپ ﷺ ایک ساتھ سفر کرنے والوں کو حکم دیتے کہ وہ اپنے میں سے کسی ایک کو امیر سفر بنائیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ))إِذَا خَرَجَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ ) ’’جب تین افراد سفر پر نکلیں تو انھیں چاہیے کہ ایک کو اپنا امیر مقرر کر لیں۔‘‘ (سنن أبي داود، الجهاد، حديث: 2608)
رسول اکرم ﷺنے ہمیں تعلیم دی کہ مسافر کا سفر جب ختم ہو جائے اور جس غرض کے لیے اس نے سفر کیا، وہ پوری ہو جائے تو پھر بلا وجہ سفر کو طول دینے کے بجائے وہ اپنے اہل و عیال کے پاس لوٹ آئے۔ آپ ﷺنے فرمایا: ((السَّفَرُ قِطْعَةٌ مِّنَ الْعَذَابِ، يَمْنَعُ أَحَدُكُمْ نَوْمَهُ وَ طَعَامَهُ، فَإِذَا قَضٰى نَهْمَتَهُ مِنْ وَجْهِهِ فَلْيُعَجِّلْ إِلٰى أَهْلِهِ))
’’سفر تو عذاب کا ایک ٹکڑا ہے جو تمھاری نیند اور کھانے کو روک دیتا ہے، اس لیے جب تم میں سے کوئی دورانِ سفر میں اپنی ضرورت پوری کر لے تو جلد اپنے گھر لوٹ آئے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأطعمة. حديث:5429)
نبیﷺ نے مسافر کے لیے مسنون ٹھہرایا کہ وہ پیشگی اطلاع کے بغیر رات کے وقت یا اچانک گھر نہ آئے۔
سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ انسان رات کو اچانک گھر والوں کے پاس جا پہنچے اور ان کو خیانت (جس طرح خاوند نے کہا ہوا ہے، اس طرح نہ رہنے) کا مرتکب سمجھے اور ان کی کمزوریاں ڈھونڈے۔ (صحیح مسلم، الإمارة، حديث: 4969 (715)
ایک سفر سے واپسی پر آپ ﷺ نے اپنے صحابہ شان رضی اللہ تعالی عنہم سے فرمایا: ((إِذَا قَدِمَ أَحَدُكُمْ لَيْلًا، فَلَا يَأْتِيَنَّ أَهْلَهُ طُرُوقًا، حَتّٰى تَسْتَحِدَّ الْمُغِيبَةُ، وَتَمْتَشِطَ الشَّعِثَةُ))
’’جب تم میں سے کوئی شخص رات کے وقت گھر واپس آئے تو رات کو اچانک اپنے گھر میں داخل نہ ہوتی کہ شوہر کی غیر موجودگی میں رہنے والی اپنی صفائی کر لے اور بکھرے بالوں والی اپنے بال سنوار لے۔‘‘ (صحيح مسلم، الإمارة، حديث: 4964 (715)
سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبیﷺ اپنے گھر والوں کے پاس اپنے سفر سے رات کے وقت واپس نہ آتے تھے۔ آپ ﷺ صبح کے وقت گھر آتے یا شام کے وقت تشریف لاتے تھے۔ (صحیح البخاري) أبواب العمرة، حديث (1800)
یہ میاں بیوی کے درمیان اچھے تعلق، حسن معاشرت اور خوبیوں کے تحفظ کی دلیل ہے، چنانچہ سنت یہ ہے کہ جب آدمی لمبے عرصے تک گھر والوں سے دور رہے تو اچانک اور رات کے وقت آنے کے بجائے دن کے وقت آئے اور گھر والوں کو پیشگی اطلاع دے۔ دور حاضر میں فون کال یا میسج کے ذریعے سے خبر دے دے تا کہ اہلیہ وغیرہ اس کے استقبال کی تیاری کر لیں اور میاں بیوی کے درمیان محبت و مودت اور تعلق برقرار رہے۔
جب آپﷺ سفر سے لوٹتے اور اپنے شہر کے قریب ہوتے تو تکرار کے ساتھ ((آئِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبَّنَا حَامِدُوْنَ)) کا ذکر کرتے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں اور ابوطلحہ نبیﷺ کے ہمراہ سفر سے واپس آئے اور سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا آپ کی اونٹنی پر آپ کے پیچھے سوار تھیں۔ جب ہم مدینہ کے بالائی حصے میں تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ((آئِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبَّنَا حَامِدُوْنَ)) ’’ہم لوٹنے والے، تو بہ کرنے والے، عبادت کرنے والے اور اپنے رب کی تعریف کرنے والے ہیں۔‘‘ آپ ﷺ مسلسل یہی کلمات کہتے رہے یہاں تک کہ ہم مدینہ آگئے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1345)
سید نا عبد الله بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺجب کسی غزوے یا حج یا عمرے سے لوٹتے تو سطح زمین سے ہر بلند جگہ پر چڑھتے وقت تین دفعہ اللہ اکبر کہتے ، پھر کہتے :
((لّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ آئِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ، صَدَقَ اللهُ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ))
’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کے لیے بادشاہی ہے۔ اور اس کے لیے تمام تعریفیں ہیں۔ اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قدرت رکھنے والا ہے۔ ہم تو بہ کرتے ہوئے، اس کی عبادت کرتے ہوئے، اپنے رب کی حمد وثنا کرتے ہوئے لوٹ رہے ہیں۔ اللہ تعالی نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا۔ اس نے اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے نے تمام لشکروں کو شکست دی۔‘‘ (صحیح البخاري الدعوات، حديث: 6385)
آپ مدینہ طیبہ میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے مسجد جاتے اور گھر جانے سے پہلے دو رکعت نماز ادا کرتے۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ایک اونٹ خریدا۔ جب آپ مدینہ پہنچے تو آپ ﷺنے مجھے حکم دیا کہ میں مسجد آؤں اور دور رکعتیں پڑھوں۔ (صحیح مسلم، المساجد و مواضع الصلاة، حدیث:715)
آپ ﷺ تبرک اور نیک فال کے طور پر مسجد سے ابتدا کرتے تاکہ مسافر کا لوٹنے کے بعد سب سے پہلا کام اطاعت الہی ہو۔
آپ ﷺجب سفر سے واپس تشریف لاتے تو بچے آپ کا استقبال کرتے۔ آپ کمال شفقت اور رحمت سے انھیں گلے لگا لیتے۔ اپنی گود میں بٹھا لیتے اور بوسہ دیتے۔ سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب کسی سفر سے آتے تو آپ کے گھر کے بچوں کو (باہر لے جا کر) آپ سے ملایا جاتا۔ ایک بار آپ ﷺسفر سے آئے۔ مجھے سب سے پہلے آپ کے پاس پہنچا دیا گیا تو آپ نے مجھے اپنے سامنے بٹھا لیا۔ پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہاکے ایک صاحبزادے کو لایا گیا تو انھیں آپ نے پیچھے بٹھا لیا۔ کہا: پھر ہم تینوں کو ایک سواری پر مدینہ کے اندر لایا گیا۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حديث: 2428)
بچے آپ کی آمد پر خوش ہو کر شہر سے باہر جا کر آپ سے ملتے کیونکہ آپﷺ سب کے روحانی باپ اور والد ہیں۔ آپ ﷺ لیے اور طویل سفر سے واپس آنے والے سے بعض اوقات گلے ملتے، جیسا کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ تشریف لائے جبکہ رسول اللہ ﷺ میرے گھر پر تھے۔
وہ آپ کے پاس آئے اور دروازے پر دستک دی تو رسول اللہﷺ (خوشی و مسرت سے ) ننگے بدن، اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے اس کی طرف بڑھے۔ اللہ کی قسم! اس سے پہلے یا بعد میں میں نے آپ ﷺ کو ( گھر سے باہر نکلتے ہوئے) ننگے بدن نہیں دیکھا۔ آپ ﷺنے انھیں گلے لگایا اور بوسہ لیا۔ (جامع الترمذي، أبواب الاستئذان، حديث: 2732)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ جب حبشہ سے تشریف لائے تو نبی اکرم ﷺنے ان کا استقبال کیا، انھیں گلے لگایا اور ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔ (المعجم الكبير
للطيراني، حديث: 1470 )
اب مجھے آپ ﷺ کے سفر کے متعلق کچھ احساسات اور یادوں کو شیئر کرنے دیں۔ میں نے مکہ اور مدینہ کے درمیان کئی بار سفر کیا اور میں ہر بار آپ ﷺ کے سفر کو یاد کرتا ہوں۔ اگر چہ میں آرام دہ اے سی گاڑی میں سفر کرتا ہوں۔ انواع و اقسام کے لذیذ کھانے میسر ہوتے ہیں۔ خادم ساتھ ہوتے ہیں۔ صاف ستھرے نئے کپڑے زیب تن کیے ہوتے ہیں اور لگژری ہوٹلوں میں قیام ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود میں اپنے دل میں کہتا ہوں: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ نے کتنے مشکل حالات میں سختیاں برداشت کر کے یہ سفر کیا۔ گھر بار اور وطن چھوڑا۔ دشمنوں کی دھمکیوں اور مخالفین کی ایذا رسانیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے چلچلاتی دھوپ میں بھوک و پیاس کے ساتھ یہ سفر کیا۔ صبر و استقامت کا پہاڑ بن کر آپ ﷺ نے یہ سب کچھ ثواب کی غرض سے کیا یہاں تک اللہ تعالی کا پیغام پہنچا دیا، اس کے نور کو پھیلا دیا اور لا إله إلا الله کے ساتھ بند دلوں کو کھول دیا۔ میں اللہ جل شانہ سے دعا گو ہوں کہ وہ آپﷺ پر اتنی تعداد میں درود و سلام نازل فرمائے جتنی درود بھیجنے والوں اور درود سے غافل لوگوں کی ہے۔
………………..