توحید کی نصیحت و تاکید

27-سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی  عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی:

اللہ کے رسول! مجھے ایسا عمل بتائیے کہ میں اس پر عمل کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ((تَعْبُدُ اللهَ لَا تُشْرِكْ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلاةَ الْمَكْتُوبَةَ، وَتُؤْدِّي الزَّكَاةَ الْمُفْرُوضَةَوَتَصُومُ رَمَضَانَ))

’’تم اللہ کی بندگی کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، فرض نماز قائم کرو، فرض زکاۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔“ وہ کہنے لگا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں اس میں کسی چیز کا اضافہ (اور کمی) نہیں کروں گا۔ جب وہ آدمی واپس جانے لگا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَّنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِّنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْيَنْظُرُ إِلٰى هٰذَا)) (أَخْرَجَةُ البُخَارِي:1397، وَمُسْلِمُ:14)

’’جو شخص کسی جنتی آدمی کا دیدار کرنا چاہے، وہ اس شخص کو دیکھ لے۔‘‘

28۔سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے۔ دوران سفر ایک اعرابی (دیہاتی آدمی) آپ کے سامنے آکھڑا ہوا، اس نے آپ کی اونٹنی کی مہار یا نکیل پکڑ لی، پھر کہا:اللہ کے رسول! مجھے وہ بات بتائیے جو مجھے جنت کے قریب اور آگ سے دور کر دے۔ (أَخْرَجَهُ البُخَارِي:1396، ومُسْلِمٌ:13)

ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ (یہ بات سن کر)  رک گئے اور اپنے ساتھیوں پر نظر دوڑائی، پھر فرمایا: ((لَقَدْ وَفِقَ، أَوْ لَقَدْ هُدِىَ))

’’یقینا اسے توفیق یا ہدایت سے نوازا گیا ہے۔‘‘

 آپﷺ نے دیہاتی آدمی سے پوچھا: ((کیف قلت؟)) ’’تم نے کیا بات کی ہے؟‘‘

اس نے اپنی بات دہرائی تو نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ((تَعْبُدُ اللهَ وَلَا تُشْرِكْ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ، دَعِ النَّاقَةَ)) ’’تم اللہ تعالی کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکاۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو۔ (اب میری) اونٹنی چھوڑ دو۔‘‘

صحیح مسلم کی روایت میں صحیح بخاری میں مذکور باتوں کے ساتھ اس بات کا بھی اضافہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ((وَتَصُومُ رَمَضَانَ)) ’’اور رمضان کے روزے رکھو۔“

29۔سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ  سے روایت ہے کہ انھوں نے کسی سفر کا ارادہ کیا تو عرض کی:اللہ کے

رسول! مجھے کوئی نصیحت فرمائیے: آپﷺ نے فرمایا: ((اعْبُدِ اللهَ، وَلَا تُشْرِكْ بِهِ شَيْئًا))

’’اللہ تعالی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔‘‘

عرض کی:اللہ کے رسول! مزید نصیحت فرمائیے، آپ ﷺ نے فرمایا: ((إِذَا أَسَاْتَ فَأَحْسِنْ)) ’’جب تم سے کوئی جرم یا گناہ سرزد ہو جائے تو اس کے بعد نیکی کرو‘‘

پھر کہا:اللہ کے رسول! مزید فرمائیے، آپ ﷺ نے فرمایا:

((اِسْتَقِمْ وَلْتُحْسِنْ خُلُقَكَ،)) ’’دین اسلام پر ڈٹے رہو اور اپنے اخلاق کو اچھا بناؤ۔“ (أخرجه الحاكم: 54/1، 244/4، وصححه ووافقه الذهبي، والطبراني في الكبير: 59/20)

توضیح و فوائد: باب کی پہلی دونوں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سوال کرنے والے دیہاتی مسلمان تھے اور سیدنا معاذ رضی اللہ تعالی عنہ وہ جلیل القدر صحابی ہیں جن کے بارے میں رسول اکرم ﷺنے فرمایا تھا: ’’معاذ اللہ کی قسم! مجھے تم سے محبت ہے۔‘‘ لیکن اس کے باوجود آپ ﷺنے انھیں توحید کے حوالے سے محتاط رہنے اور شرک سے بچنے کی تاکید فرمائی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کو توحید کے حوالے سے بے فکر نہیں ہونا چاہیے۔ ایمان لانے کے بعد بھی توحید میں خلل آسکتا ہے اور شرک کے خدشات منڈلاتے رہتے ہیں۔ اس میں ان لوگوں کا بھی رد ہے جو کہتے ہیں کہ امت محمد (ﷺ)  شرک نہیں کر سکتی، اس لیے ہمیں اپنے متعلقین کو توحید کے حوالے سے خصوصی تاکید کرنی چاہیے۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ انبیائے کرام علیہ السلام نے اپنی اولاد کو توحید کی خصوصی وصیت فرمائی، حالانکہ وہ انبیاء کی اولاد اور مسلمان تھے۔

………….