عمل کی قبولیت اور آخرت میں اس کے نفع بخش ہونے کے لیے توحید شرط لازم ہے

36۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ابن جُدعان جاہلیت کے دور میں صلہ رحمی کرتا تھا اور محتاجوں کو کھانا کھلاتا تھا تو کیا یہ کام اس کے لیے فائدہ مند ہوں گے؟

آپ ﷺ نے فرمایا: ((لَا يَنْفَعُهُ، إِنَّهُ لَمْ يَقُلْ يَوْمًا: رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:214)

’’(یہ کام) اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے کیونکہ اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا:میرے رب! حساب کتاب کے دن میری خطائیں معاف فرمانا۔‘‘

توضیح و فوائد: توحید کا انکار کرنے والوں کو ان کے اچھے اعمال آخرت میں کوئی فائدہ نہیں دیں گے۔ البتہ دنیا میں انھیں اچھے اعمال کا صلہ، نیک نامی، شہرت اور آسائش وغیرہ کی صورت میں ضرور ملتا ہے۔

37۔سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ ام معبد رضی اللہ تعالی عنہا، (خالیدہ، حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کی اہلیہ، ان کی دوسری کنیت ام مبشر بھی تھی) کے پاس باغ میں تشریف لے گئے، آپ نے پوچھا: ((يَا أَمَّ مَعْبَدا مَنْ غَرَسَ هَذَا النَّخْلَ أَمُسْلِمْ أَمْ كَافِرُ؟))

’’ام معبد! یہ کھجور کے درخت کس نے لگائے ہیں، کسی مسلمان نے یا کافر نے؟“

انھوں نے عرض کی: مسلمان نے۔ آپﷺ نے فرمایا:

((فَلَا يَغْرِسُ مُسْلِمٌ غَرْسًا، وَلَا يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْكُلَ مِنْهُ إِنْسَانٌ وَلَا دَابَّةٌ وَلَا طَيْرٌ إِلَّا كَانَ لَهُ صَدَقَةٌ إِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ))

’’جو بھی مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا کسی زمین میں کاشت کاری کرتا ہے، پھر اس میں سے کوئی

(أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:1552)

انسان، چوپایہ یا پرندہ وغیرہ کچھ کھا لیتا ہے تو وہ اس کے لیے قیامت کے دن تک صدقہ ہوگا۔

توضیح و فوائد: توحید اور اسلام کی برکت سے معمولی نیکی بھی ضائع نہیں ہوتی، اس لیے مسلمان کو زراعت وغیرہ کرتے ہوئے ثواب کی نیت ضرور کرنی چاہیے۔ 8

38۔ سیدنا عبد الله بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللهﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

((مَنْ لَقِيَ اللهَ وَهُوَ لَا يُشْرِكْ بِهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَلَمْ تَضُرَّهُ مَعَهُ خَطِيئَةٌ، كَمَا لَوْ لَقِيَهُ وَهُوَ يُشْرِكْ بِهِ دَخَلَ النَّارَ، وَلَمْ تَنْفَعُهُ مَعَهُ حَسَنَةٌ)) (أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ:6586)

’’جو شخص اللہ سے اس حال میں ملا کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا تو وہ جنت میں جائے گا اور اسے اس کا کوئی گناہ ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اللہ سے اس حال میں ملا کہ اس کے ساتھ شریک ٹھہراتا تھا تو وہ آگ میں داخل ہوگا اور اسے اس کی کوئی نیکی فائدہ نہیں دے گی۔‘‘

توضیح و فوائد: توحید و رسالت کے اقرار اور شرک کی عدم موجودگی میں دیگر گناہوں کی معافی یا مؤاخذے کا انحصار اللہ تعالیٰ کی مشیت پر ہے، وہ چاہے تو معاف کر دے یا سزا دے کر بندے کو پاک کر کے جنت میں داخل کر دے۔ یہ مطلب نہیں کہ موحد کے لیے گناہ کرنے جائز ہیں۔

39۔سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے نبیﷺ سے کہا:ہشام بن مغیرہ صلہ رحمی کرتے، مہمان نوازی کرتے، قیدیوں کو آزاد کراتے، (لوگوں کو) کھانا کھلاتے تھے اور اگر وہ آپ کو پا لیتے تو اسلام بھی لے آتے۔ کیا انھیں یہ تمام (نیک) اعمال (آخرت میں) فائدہ دیں گے؟ آپ ﷺنے فرمایا:

((لا، إِنَّهُ كَانَ يُعْطِي لِلدُّنْيَا وَذِكْرِهَا وَحَمْدِهَا، وَلَمْ يَقُلْ يَوْمًا قَطُّ: رَبِّ اغْفِرْ لِي يَوْمَ الدِّينِ)) (أَخْرَجَهُ الطبراني في معجمه الكبير: 606/23، وأبو يعلى في مسنده:6965)

’’نہیں، وہ تو دنیا کے لیے اور دنیا کے چرچے وستائش کے لیے دیا کرتے تھے، انھوں نے تو ایک دن بھی یہ نہیں کہا:اے میرے رب! مجھے قیامت کے دن معاف کر دے۔“

40۔سیدنا  عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد صلہ رحمی کرتے تھے اور فلاں، فلاں نیکی کرتے تھے، آپﷺ نے فرمایا: ((إِنَّ أَبَاكَ أَرَادَ أَمْرًا فَأَدْرَكَهُ)) (أخرجه أحمد:18262، 18263، 19374،)

’’تیرے والد کی مراد ایک چیز تھی، وہ اس نے پالی‘‘، یعنی ذکر اور شہرت۔

توضیح و فوائد: مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات اللہ کی توحید کے قائل نہیں تھے اور انھوں نے یہ کام اللہ کو راضی کرنے کے لیے نہیں کیے تھے، اس لیے ان کے کارنامے آخرت میں ان کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوں گے۔

41۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عاص بن وائل نے جاہلیت میں سو اونٹ نحر (ذبح) کرنے کی نذر مانی تھی۔ (اس کے بیٹے) ہشام بن عاص نے تو اپنے حصے کے پچاس اونٹ نحر کر دیے۔ جبکہ عمرو بن عاص نے اس بارے میں نبیﷺ سے پوچھا:تو آپﷺ نے فرمایا:

((أَمَا أَبُوكَ فَلَوْ كَانَ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ، فَصُمْتَ، وَتَصَدَّقْتَ عَنْهُ، نَفَعَهُ ذَلِكَ)) (أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ:6704(

’’اگر تمھارے والد نے توحید کا اقرار کیا ہوتا، پھر تم اس کی طرف سے روزہ رکھتے اور صدقہ کرتے جب یہ اعمال اسے فائدہ دیتے۔ “

توضیح و فوائد: اولاد والدین کے لیے صدقہ جاریہ ہے لیکن اسی صورت میں جب والدین مسلمان اور توحید پرست ہوں، بصورت دیگر اولاد کی نیکی سے والدین کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

42۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((يُوتیٰ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصُحُفِ مُخَتَّمَةٍ، فَتَنْصَبُ بَيْنَ يَدَيِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى فَيَقُولُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَلْقُوا هٰذِهِ، وَاقْبَلُوا هٰذِهِ، فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ، وَعِزَّتِكَ مَا رَأَيْنَا إِلَّا خَيْرًا، فَيَقُولُ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّ هٰذَا كَانَ لِغَيْرِ وَجْهِي، وَإِنِّي لَا أَقْبَلُ الْيَوْمَ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا ابْتَغِي بِهِ وَجْهِي)) (أخرجه الدار قطني: 50/1، والطبراني في معجمه الأوسط:2603.)

’’قیامت کے دن مہر شدہ رجسٹر لائے جائیں گے اور انھیں اللہ تعالی کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اللہ  تعالی (کچھ رجسٹروں کے بارے میں) فرمائے گا انھیں پھینک دو (اور بعض رجسٹروں کے بارے میں فرمائے گا) انھیں قبول کر لو۔ فرشتے کہیں گے:(اے اللہ!) تیری عزت و جلال کی قسم ہم نے تو (ان میں)  بھلائی ہی دیکھی ہے۔ اللہ عز وجل فرمائے گا:یہ (اعمال) میری رضا کے لیے نہیں کیے گئے تھے۔ اور آج کے دن میں اعمال میں سے اس عمل کو قبول کروں گا جو میری رضا کے لیے کیا گیا تھا۔‘‘

توضیح و فوائد: مسلمان کا بھی وہی عمل مقبول ہے جو خالص اللہ کے لیے ہو اور اس میں ریا کاری نہ ہو کیونکہ ریا کاری شرک ہے۔ اور شرک کے ہوتے ہوئے کوئی عمل قبول نہیں ہوتا، نیز معلوم ہوا کہ دلوں کے بھید صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ فرشتوں کو بھی علم غیب نہیں ہے۔

43۔سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

((لا يَصْبِرُ أَحَدٌ عَلٰى لَأَوَائِهَا، أَي الْمَدِينَةَ فَيَمُوتَ، إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَفِيْعًا، أَوْ شَهِيْدًا يَّوْمَ الْقِيَامَةِ إِذَا كَانَ مُسْلِمًا)) (أخرجه مسلم: 1374)

’’جو شخص مدینہ منورہ کی تنگ دستی پر صبر کرتے ہوئے فوت ہو جائے، میں قیامت کے دن اس کے حق میں سفارشی یا گواہ بنوں گا بشرطیکہ وہ (موحد) مسلمان ہو۔‘‘

……………..