دعوت و تبلیغ کا آغاز توحید ہی کی تشریح و تفہیم سے کرنا چاہیے
80۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جب سیدنا معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا:
((إِنَّكَ تَقْدِمُ عَلٰى قَوْمٍ أَهْلِ كِتَابٍ، فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ عِبَادَةُ اللهِ، فَإِذَا عَرَفُوا اللهَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللهَ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمِهِمْ وَلَيْلَتِهِمْ، فَإِذَا فَعَلُوا فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ زَكَاةً تُؤْخَذُ مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَتُرَدُّ عَلٰى فُقَرَائِهِمْ، فَإِذَا أَطَاعُوا بِهَا فَخُذْ مِنْهُمْ وَتَوَقَّ كَرَائِمَ أَمْوَالِ النَّاسِ))(أخرج البخاري:1458، و مسلم: 19(31)
’’تم ایک ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں۔ سب سے پہلے تم انھیں اللہ کی عبادت کی دعوت دینا۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں تو پھر انھیں بتانا کہ اللہ تعالی نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ اس پر عمل پیرا ہو جائیں تو انھیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے اموال میں زکاة فرض کی ہے جو ان کے (مال داروں کے) اموال سے وصول کر کے انھی کے غرباء پر تقسیم کی جائے گی۔ جب وہ اس کی اطاعت پر آمادہ ہو جائیں تو ان سے زکاۃ وصول کرنا لیکن زکاۃ وصول کرتے ہوئے لوگوں کے عمدہ مال لینے سے اجتناب کرنا۔ ‘‘
صحیح بخاری کی ایک روایت میں اللہ کی عبادت کی دعوت دینے کے بجائے یہ الفاظ ہیں: ((إِلٰى أَنْ يُّوَحِّدُوا الله)) ’’(سب سے پہلے تم) انھیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ اللہ کو ایک مانیں، یعنی توحید کا اقرار کریں۔‘‘
بقیہ روایت کے الفاظ مذکورہ روایت کے مطابق ہیں۔
سیدنا حارث اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا:
((إن اللهَ عَزَّ وَجَلَّ أَمَرَ يَحْيَى بْنَ زَكَرِ يَا عَلَيْهِ السَّلَامُ بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ أَنْ يَّعْمَلَ بِهِنَّ. وَأَنْ يَّأْمُرَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يَّعْمَلُوا بِهِنَّ، وَكَادَ أَنْ يُبْطِئَ، فَقَالَ لَهُ عِيسَى: إِنَّكَ قَدْ أُمِرْتَ بِخَمْسٍ كَلِمَاتٍ أَنْ تَعْمَلَ بِهِنَّ، وَتَأْمُرَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يَّعْمَلُوا بِهِنَّ، فَإِمَّا أَنْ تَبَلِّغَهُنَّ، وَإِمَّا أَنْ أَبَلِغَهُنَّ، فَقَالَ:يَا أَخَى إِنِّي أَخْشٰى إِنْ سَبَقْتَنِي أَنْ أُعَذِّبَ أَوْ يُخْسَفَ بي قَالَ فَجَمَعَ يَحْيَى بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ حَتَّى امْتَلَا الْمَسْجِدُ، فَقُعِدَ عَلَى الشّرْفِ. فَحَمِدَ الله وأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَمَرَنِي بِخَمْسٍ كَلِمَاتٍ أَنْ أعْمَلَ بِهِنَّ وَأَمْرَكُمْ أَنْ تَعْمَلُوا بِهِنَّ أَوْلَهُنَّ أَنْ تَعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا)) (أخرجه أحمد:17170، والترمذي:2863، 2864)، والحاكم:118/1، وابن خزيمة:1895، وابن حبان:6233)
’’اللہ عز وجل نے یحیی بن زکر یا للہ کو حکم دیا کہ پانچ کلمات پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دیں۔ قریب تھا کہ وہ سستی میں مبتلا ہو جاتے، سیدنا عیسی علیہ السلام نے ان سے کہا:یقینا آپ کو پانچ کلمات پر عمل کرنے کا حکم ملا ہے اور یہ حکم بھی ملا ہے کہ بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دیں۔ یا تو آپ ان کلمات کی تبلیغ کریں یا پھر میں انھیں لوگوں تک پہنچاتا ہوں، یحی علیہ السلام نے کہا:بھائی جان! مجھے ڈر ہے کہ اگر آپ مجھ سے سبقت لے گئے تو مجھے عذاب دیا جائے گا یا مجھے زمین میں دھنسا دیا جائے گا، پھر یحیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو بیت المقدس میں جمع کیا، یہاں تک کہ مسجد بھر گئی، آپ ایک بلند جگہ پر تشریف فرما ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی، پھر فرمایا:یقینا اللہ عز وجل نے مجھے پانچ باتوں کا حکم دیا ہے کہ میں خود بھی ان پر عمل کروں اور تمھیں بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دوں، ان میں سے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔‘‘
توضیح و فوائد: مذکورہ احادیث میں دعوت و تبلیغ کا نبوی مناع واضح کیا گیا ہے اور وہ یہی ہے کہ لوگوں کو سب سے پہلے اللہ کی توحید کی طرف بلایا جائے۔ وہ دعوت کفار کو ہو جیسا کہ حدیث معاذ (نمبر: 80) میں ہے یا مسلمانوں کو جیسا کہ حدیث حارث (نمبر: 81) میں ہے کہ یحیٰ علیہ السلام نے اپنی مسلمان قوم کو خطاب فرمایا تو اپنے خطاب کا آغاز ہی توحید کی تاکید سے فرمایا۔ خود نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کو جو پند و نصائح فرمائے ان میں توحید کے سبق ہی کو سرفہرست رکھا۔
82۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں عبد القیس کا وفد آیا۔ وہ (لوگ) کہنے لگے: اللہ کے رسول! ہم ربیعہ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان (قبیلہ) مضر کے کافر حائل ہیں اور ہم حرمت والے مہینے کے سوا بحفاظت آپ تک نہیں پہنچ سکتے، لہٰذا آپ ہمیں وہ حکم دیجیے جس پر ہم خود بھی عمل کریں اور جو لوگ پیچھے ہیں ہم انھیں بھی اس کی دعوت دیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
((آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: اَلْإِيمَانِ بِاللهِ، شَهَادَةِ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهَ. وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَأَنْ تُؤَدُّوا لِلهِ خُمْسَ مَا غَنِمْتُمْ، وَأَنْهَاكُمْ عَنِ الدُّبَّاءِ، وَالنَّقِيرِ، وَالْحَنْتَمِ، وَالْمُزَفَتِ))
’’میں تمھیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں: (جن کا حکم دیتا ہوں وہ یہ ہیں:) ’’اللہ تعالی پر ایمان لانا‘‘ یعنی اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا اور جو مال غنیمت تمھیں حاصل ہو، اس میں سے پانچواں حصہ ادا کرنا۔
اور میں تمھیں روکتا ہوں: کدو کے برتن، سبز گھڑے، لکڑی کے اندر سے کھود کر بنائے ہوئے برتن اور ایسے برتنوں کے استعمال سے جن پر تارکول مل دیا گیا ہو۔‘‘
توضیح و فوائد: اس حدیث میں جن چار قسم کے برتنوں کے استعمال سے منع فرمایا۔ وہ اس زمانے میں شراب تیار کرنے کے لیے بروئے کار لائے جاتے تھے۔ شراب کو حرام قرار دینے کے بعد وقتی طور پر ان برتنوں پر بھی پابندی عائد کر دی تاکہ شراب کی یاد تازہ نہ ہونے پائے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ان برتنوں کے مسام بند ہونے کی وجہ سے نبیذ بھی بہت جلد نشہ آور ہو جاتی تھی، اس لیے ان کے استعمال سے منع کر دیا۔
(أخرجه البخاري:4369، ومُسْلِمٌ:17)
…………………..