قراءت قرآن میں ریا کاری کرنے، اسے دولت کمانے کا ذریعہ بنانے اور اس پر فخر کرنے والے کی مذمت

372۔ سیدنا عبد الرحمن بن شبل رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((اقْرَءُوا الْقُرْآنَ، وَلَا تَغْلُوا فِيهِ، وَلَا تَجْفُوا عَنْهُ، وَلَا تَأْكُلُوا بِهِ، وَلَا تَسْتَكْثِرُوا بِهِ)) (أخرجه أحمد15529، 15668،15670)

’’تم قرآن مجید پڑھو اور اس میں غلو نہ کرو، نہ اس سے بے رخی اختیار کرو، نہ اس کے ذریعے سے کھاؤ اور نہ اس کے ذریعے سے مال کو زیادہ بنانے کی کوشش کرو۔‘‘

373۔سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((اقْرَءُوا الْقُرْآنَ وَابْتَغُوا بِهِ اللهَ، مِنْ قَبْلِ أَنْ يَّأْتِ قَوْمٌ يُقِيمُونَهُ إِقَامَةَ الْقِدْحِ يَتَعَجَّلُونَهُ وَلَا يَتَأْجَلُونَهُ)) (أخرَجَهُ أَحْمَدُ: 14855، وأبو دَاوُد:830)

’’تم قرآن پڑھو اور اس کے ذریعے سے اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرو، اس سے پہلے کہ ایسے لوگ آجائیں جو اسے (قراءت قرآن کو) ایسے سیدھا کریں جیسے تیر سیدھا کیا جاتا ہے، وہ اس کا اجر (دنیا میں) جلد ہی لینا چاہیں گے، آخرت کے لیے ذخیرہ نہیں کریں گے۔“

374۔ سیدنا  عمران ہی حصین رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک قاری کے پاس سے گزرے جو قرآن مجید کی تلاوت کر رہا تھا، پھر اس نے (لوگوں سے) سوال کیا تو سیدنا عمران بن حصین  رضی اللہ تعالی عنہ نے ﴿إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا

إِلَيْهِ رَاجِعُون﴾ پڑھا، پھر فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَلْيَسْأَلِ اللهَ بِهِ فَإِنَّهُ سَيَجِيءُ أَقْوَامٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ يَسْأَلُونَ بِهِ النَّاسَ(((أَخْرَجَهُ أحمد: 19885، 19944، والترمذي: 2917، وابن أبي شيبة:479/10، والبزار في مسنده:3553، 3554، و الطبراني في الكبير: 370، 371، 372/18، والبيهقي في الشعب:2629)

’’جو شخص قرآن مجید کی تلاوت کرے تو وہ اللہ سے مانگے کیونکہ عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن پڑھیں گے، پھر لوگوں سے اس کے ذریعے سے سوال کریں گے۔‘‘

توضیح و فوائد: قرآن مجید کی تعلیم پر اجرت لینا جائز ہے، بلکہ ایک حدیث میں اسے بہترین معاوضہ قرار دیا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، الطب، حديث:  5737) البتہ اسے دولت کمانے کا ذریعہ بنانا یا مال کمانے کی نیت سے پڑھنا پڑھانا ناجائز ہے۔ مقصد اگر اللہ کی رضا اور خوشنودی ہو اور گزران زندگی کے لیے تنخواہ لے لے تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں کیونکہ وہ اپنا سارا وقت اس کام پر لگا رہا ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کی بآواز بلند یا تجوید کے ساتھ خوبصورت آواز میں تلاوت جائز ہے لیکن اگر مقصد دکھلا وا، تکبر، یا بلا وجہ تکلف ہو تو ناجائز ہے۔ مزید برآں اس حدیث میں تلاوت کلام اللہ کے بعد اللہ تعالی سے دعا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

375۔ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

((اَلْجَاهِرُ بِالْقُرْآنِ كَالْجَاهِرِ بِالصَّدَقَةِ وَالْمُسِرُّ بِالْقُرْآنِ كَالْمُسِرِ بِالصَّدَقَةِ)) (أَخْرَجَهُ الترمذي:2919)

’’قرآن کی اونچی آواز سے قراءت کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جو اعلانیہ صدقہ کرتا ہے (تاکہ دوسرے لوگ بھی کریں) اور آہستہ آواز سے قراءت کرنے والا ایسے ہے جیسے چھپا کر صدقہ کرنے والا ہے (تاکہ ریا کاری سے بچے)۔‘‘

توضیح و فوائد: مقصد اگر اللہ کی رضا اور خوشنودی کا حصول ہو تو بلند یا آہستہ آواز میں تلاوت کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جس طرح کبھی چھپا کر صدقہ کرنا افضل ہوتا ہے اور کبھی اعلامیہ اسی طرح حالات و واقعات کے اعتبار سے کبھی بآواز بلند تلاوت افضل ہوتی ہے اور کبھی آہستہ آواز میں۔

376۔سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((يَظْهَرُ الْإِسْلَامُ حَتّٰى تَخْتَلِفَ التَّجَارُ فِي الْبَحْرِ، وَحَتّٰى تَخُوضَ الْخَيْلُ فِي سَبِيلِ اللهِ، ثُمَّ يَظْهَرُ قَوْمٌ يَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ، يَقُولُونَ: مَنْ أَقْرَأُ مِنَّا مَنْ أَفْقَهُ مِنَّا مَنْ أَعْلَمُ مِنَّا؟)) (أخرجه الطبراني في الأوسط:  6242، والبزار في مسنده: 283)

’’اسلام غالب آئے گا یہاں تک کہ تاجر (کاروبار کے لیے) سمندر میں سفر کریں گے اور گھوڑے بھی اللہ کے راستے میں کود پڑیں گے، پھر ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو قرآن پڑھیں گے اور کہیں گے: ہم سے بڑھ کر بہترین قاری کون ہے؟ ہم سے بڑا عالم کون ہے؟ ہم سے زیادہ فقیہ کون ہے۔“

پھر آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا:

((هَلْ فِي أُولٰئِكَ مِنْ خَيْرٍ؟ ’’کیا ان میں کوئی خیر ہے؟“

انھوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی خوب جانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:

((أُولٰئِكَ مِنْكُمْ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ، وَأُولَئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ))

’’وہ لوگ تم میں سے، یعنی اس امت سے ہوں گے، اور وہ دوزخ کا ایندھن ہوں گے۔ “

توضیح و فوائد:  قرآن کی طرف لوگوں کو راغب کرنے کے لیے حسن قراءت کے مقابلے جائز ہیں لیکن طلبہ اور قراء صاحبان کے ذہنوں میں یہ بات پختہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ حسن قراءت کی وجہ سے تکبر نہ کریں بلکہ خوش آوازی سے قراءت کرنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر کریں۔

377۔ سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

((الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَيَعْمَلُ بِهِ كَالْأُتُرُجَّةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَرِيحُهَا طَيِّبٌ وَالْمُؤْمِنُ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَيَعْمَلُ بِهِ كَالتَّمْرَةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَلَا رِيحَ لَهَا، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَالرِّيْحَانَةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ، وَطَعْمُهَا مُرٌّْ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَالْحَنْظَلَةِ طَعْمُهَا مُرٌّْ أَوْ خَبِيتٌ، وَرِيحُهَا مُرٌّ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي: 5059، 5427، وَمُسْلِمٌ:797)

’’اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا اور اس پر عمل بھی کرتا ہے سنگترے کی طرح ہے جس کا مزہ بھی لذیذ اور خوشبو بھی اچھی ہے۔ اور وہ مومن جو قرآن نہیں پڑھتا مگر اس کی تعلیمات پر عمل کرتا ہے اس کی مثال کھجور کی سی ہے جس کا ذائقہ تو اچھا ہے لیکن اس کی خوشبو نہیں ہوتی۔ اور اس منافق کی مثال جو قرآن  پڑھتا ہے گل ببونہ (نیاز بو) کی ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہوتی ہے لیکن ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔ اور اس منافق کی مثال جو قرآن بھی نہیں پڑھتا اندرائن (تمے) کی طرح ہے جس کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے اور اس کی بو بھی خراب ہوتی ہے۔“