اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں غور و فکر اور ایمان کے بارے میں وسوسے سے بچنے کا حکم
612۔ سیدنا عبد اللہ بن ﷺ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((لَا تَفَكَّرُوْا فِي اللهِ وَتَفَكَّرُوا فِي خَلْقِ اللهِ)) (حلية الأولياء:67/6، وذكر شواهده الألباني في الصحيحة:1788)
’’اللہ تعالیٰ کی ذات میں غور و فکر نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں غور وفکر کرو۔“
613۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((يَأْتِي الشَّيْطَانُ أَحَدَكُمْ فَيَقُولُ: مَنْ خَلَقَ كَذَا؟ مَنْ خَلَقَ كَذَا؟ حَتّٰى يَقُولَ: مَنْ خَلَقَ رَبَّكَ فَإِذَا بَلَغَهُ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللهِ وَلْيَنْتَهِ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي:3276، ومُسْلِمٌ:134)
’’شیطان تم میں سے کسی ایک کے پاس آتا ہے اور اس سے کہتا ہے: یہ کس نے پیدا کیا؟ وہ کس نے پیدا کیا ؟ حتی کہ سوال کرنے لگتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا ؟ لہٰذا جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے تو اسے اللہ تعالی کی پناہ میں آنا چاہیے اور اس شیطانی خیال کو ترک کر دینا چاہیے۔“
614۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((لَا يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَاءَلُونَ حَتّٰى يُقَالَ: هٰذَا، خَلَقَ اللهُ الْخَلْقَ، فَمَنْ خَلَقَ اللهَ؟ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذٰلِكَ شَيْئًا، فَلْيَقُلْ آمَنْتُ بِاللهِ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ: 134)
’’لوگ ہمیشہ ایک دوسرے سے بے فائدہ اور (فضول) سوال کرتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ سوال بھی ہوگا کہ اللہ تعالی نے سب مخلوق کو پیدا کیا ہے تو پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ جس شخص کے دل میں اس قسم کے خیالات پیدا ہوں تو وہ کہے: میں اللہ پر ایمان لایا ہوں۔‘‘
615۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ لوگ حاضر ہوئے اور انھوں نے آپﷺ سے پوچھا: ہم اپنے دلوں میں ایسی چیزیں محسوس کرتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی انھیں زبان پر لانا بہت سنگین سمجھتا ہے۔ آپ نے پوچھا:
((أَوَقَدْ وَجَدْتُمُوهُ؟)) ‘‘کیا تم نے واقعی اپنے دلوں میں ایسا محسوس کیا ہے؟“
انھوں نے عرض کی: جی ہاں۔
آپﷺ نے فرمایا: ((ذَاكَ صَرِيحُ الْإِيمَانِ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ: 132)
’’یہی صریح ایمان ہے۔“
616۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے دل میں پیدا ہونے والے وسوسوں کی شکایت کرتے ہوئے کہا: اللہ کے رسول! بلاشبہ ہمارے دل میں ایسے وسوسے اور خیالات پیدا ہوتے ہیں کہ اگر ہم میں سے کوئی شخص حقیقتا آسمان سے گر پڑے تو وہ اسے زیادہ پسند ہو یہ نسبت اس کے کہ وہ چیز اپنی زبان پر لائے تو نبی کریمﷺ نے فرمایا:
((ذَاكَ مَحْضُ الْإِيمَان)) ’’یہ خالص ایمان (کی نشانی) ہے۔‘‘ (أخرجه أَحْمَدُ: 24752)
توضیح و فوائد: مطلب یہ ہے کہ ان وسوسوں سے پریشان ہونا اور انھیں برا سمجھتا ایمان کی علامت ہے۔ وسوسے آنا ایمان کی علامت نہیں۔
617۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی مذکورہ حدیث کی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بھی حدیث بیان کرتے ہیں:
جس میں (نبی ﷺ کے یہ) الفاظ بھی ہیں:
( (اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي رَدَ كَيْدَهُ إِلَى الْوَسْوَسَةِ)) (أَخْرَجَهُ أحمد:2097)
’’اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر، تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے شیطان کے مکر و فریب کو وسوسوں تک محدود کر دیا۔‘‘
618۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ اللهَ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ يَتَكَلَّمُوا أَوْ يَعْمَلُوا بِهِ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي، 5269، 6664، وَمُسْلِمٌ:127)
’’بلاشبہ اللہ تعالی نے میری امت سے ان خیالات اور وسوسوں کو معاف کر دیا ہے جو ان کے دلوں میں پیدا ہوں جب تک وہ انھیں اپنی زبان پر نہ لائیں اور ان کے مطابق عمل نہ کریں۔‘‘
توضیح و فوائد: ذہنی خیالات اگر عزم کی صورت اختیار لیں اور انسان انھیں عملی شکل میں ڈھالنے کے لیے پکا ارادہ کر لے تو ان پر مؤاخذہ ہو گا۔