نیک آدمی سے دعا کرانے کا وسیلہ جائز ہے

683۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ عادت تھی کہ جب لوگ قحط سالی میں مبتلا ہوتے تو وہ سیدنا عباس بن عبد المطلب سے دعائے استقاء کی اپیل کرتے اور اللہ کے حضور یوں دعا کرتے:

  ((اَللّٰهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَكَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا، وَإِنَّا نَتَوَكَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا)) . (أخرجه البخاري:1010، 3710)

’’اے اللہ! پہلے ہم اپنے نبی ﷺ سے دعائے استقاء کی اپیل کیا کرتے تھے تو (ان کی دعا کے نتیجے میں) تو بارش برسا دیتا تھا۔ اب ہم تیرے نبی ﷺ کے چچا ( کی دعا) کے ذریعے سے بارش کی التجا کرتے ہیں تو (اب بھی رحم فرما کر) بارش برسا دے۔‘‘

راوی حدیث بیان کرتے ہیں کہ پھر بارش برسنے لگتی تھی۔

توضیح وفوائد: اس حدیث میں سیدنا عباس جی کی ذات کو بطور وسیلہ پیش نہیں کیا گیا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام نے نبی ﷺ کو کبھی بطور وسیلہ پیش نہیں کیا بلکہ ہمیشہ نبی ﷺسے دعا کراتے تھے اور سیدنا عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی دعا ہی کرائی ہے۔ اگر ذات کا وسیلہ ہوتا تو رسول اکرم ﷺ کی ذات کا وسیلہ پیش کرتے کیونکہ ذات کے وسیلے کے قائل لوگ فوت شدگان کے وسیلے کے بھی قائل ہیں۔

684۔ سيدنا اسیر بن جابر  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جب اہل یمن میں سے کوئی (جہاد میں حصہ لینے والے) دستے آتے تو وہ ان سے پوچھتے: تم میں اویس بن عامر بھی ہیں؟ یہاں تک کہ وہ اویس سے مل گئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے (ان سے) کہا: آپ اویس بن عامر ہیں؟

انھوں نے کہا: ہاں۔ پوچھا: کیا آپ مراد کے قبیلے اور اس کے بعد قرن ( کی شاخ) سے ہیں؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ سیدنا عمر ہی نے پوچھا: کیا آپ کو برص (کی بیماری) تھی، پھر آپ ٹھیک ہو گئے، بس ایک درہم کے برابر جگہ رہ گئی؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ پھر پوچھا: آپ کی والدہ ہیں؟ جواب دیا: ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپ فرماتے تھے:

((يَأْتِي عَلَيْكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادٍ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ مُرَادٍ ثُمَّ مِنْ قَرْنٍ، كَانَ بِهِ بَرْضٌ فَبَرأَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ، لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِهَا بَرٌّ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَهُ. فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ فَافْعَلْ)) (أخرجه مسلم:2542، 223، و 225)

’’تمھارے پاس اہل یمن کے دستوں کے ہمراہ اویس بن عامر آئے گا۔ وہ قبیلہ مراد، پھر اس کی شاخ قرن میں سے ہوگا۔ اسے برص کی بیماری ہوئی ہو گی، پھر ایک درہم کی جگہ چھوڑ کر باقی ٹھیک ہو گئی ہوگی۔ اس کی والدہ ہے، وہ اس کا پورا فرمانبردار ہے۔ اگر وہ اللہ تعالی پر (کسی کام کی قسم کھا لے تو وہ اسے پورا کر دے گا۔ اگر تم یہ کر سکو کہ تمھاری درخواست پر ) وہ تمھارے لیے بخشش کی دعا کرے تو یہ  ( درخواست) کر لینا‘‘

اس لیے (اب) تم میرے لیے بخشش کی دعا کرو تو انھوں نے ان کے لیے بخشش کی دعا کی۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا: آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟ انھوں نے کہا: کوفہ ( کی چھاؤنی) میں۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: کیا میں تمھارے لیے وہاں کے عامل کو خط نہ لکھ دوں؟ انھوں نے کہا: مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ میں خاک نشیں (عام) لوگوں میں رہوں۔ کہا: جب اگلا سال آیا تو ان (قرنیوں) کے اشراف میں سے ایک شخص حج پر آیا، وہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے ملا تو انھوں نے اس سے اویس رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں پوچھا۔ اس نے کہا: میں اسے ایک بوسیدہ گھر اور تھوڑی سی پونجی کے ساتھ چھوڑ کر آیا ہوں۔ (سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے) کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے:

((يَأْتِي عَلَيْكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادٍ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ مُرَادٍ ثُمَّ مِنْ قَرْنٍ، كَانَ بِهِ بَرْضٌ فَبَرأَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ، لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِهَا بَرٌّ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَهُ. فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ فَافْعَلْ)) (أخرجه مسلم:2542، 223، و 225)

’’تمھارے پاس اولیس بن عامر یمن کے دستوں کے ہمراہ آئے گا۔ وہ قبیلہ مراد، پھر اس کی شاخ قرن میں سے ہے۔ اسے برص کی بیماری تھی جو ایک درہم کی جگہ چھوڑ کر ساری ٹھیک ہو گئی ہے۔ اس کی بس والدہ ہے جس کا وہ بہت فرماں بردار ہے۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ پر (کسی کام کی قسم کھالے تو وہ اسے پورا فرما دے گا۔ اگر تمھارے بس میں ہو کہ وہ تمھارے لیے مغفرت کی دعا کرے تو (دعا کی درخواست) کر لینا۔‘‘

وہ شخص سیدنا اویس رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آیا اور ان سے کہا: میرے لیے مغفرت کی دعا کر دو۔ انھوں نے کہا: تم ابھی ایک نیک سفر سے آئے ہو، تم میرے لیے دعا کرو۔ اس شخص نے (پھر) کہا: میرے لیے بخشش کی دعا کر دیں۔ انھوں نے کہا: تم ابھی ایک نیک سفر سے آئے ہو، تم میرے لیے بخشش کی دعا کرو، پھر (اس کا اصرار دیکھا تو) پوچھا: تم سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے ملے تھے؟ اس نے کہا: ہاں، تو انھوں نے اس کے لیے مغفرت کی دعا کی، پھر لوگ ان کے بارے میں جان گئے تو وہ کسی طرف چلے گئے۔

سیدنا اسیر فرماتے ہیں: میں نے انھیں ایک چادر اڑھائی تھی۔ جب بھی کوئی انسان اسے دیکھتا تو پوچھتا: اویس کے پاس یہ چادر کہاں سے آئی؟ (وہ ایسے تھے کہ ایک مناسب چادر بھی ان کے پاس ہونا باعث تعجب تھا)۔

685۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ  کہتے ہیں میری والدہ مجھے لے کر رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حا        ضر ہوئیں انہوں نے میری کمر پر چادر باندھ دی تھی اور آدھی میرے شانوں پر ڈال دی تھی ۔انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ انیس (انس کی تصغیر) ہے، میرا بیٹا ہے، میں اسے آپ کے پاس لائی ہوں تاکہ آپ کی خدمت کرے۔ آپ اس کے لیے اللہ سے دعا کریں تو آپﷺ نے فرمایا:

((اَللّٰهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ))

’’اے اللہ اس کے مال اور اولاد کو زیادہ کر‘‘

 سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! میرا مال بہت زیادہ ہے اور آج میری اولاد اور اولاد کی اولاد کی گنتی سو کے لگ بھگ ہے۔(أخرجه البخاري: 6334، مسلم:2481)

686۔ سیدنا عثمان بن حنیف بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: آپ دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے عافیت دے دے۔ آپﷺ نے فرمایا:

((إِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ، وَإِنْ شِئْتَ صَبَرْتَ، فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ))

’’اگرتم چاہتے ہو تو میں دعا کر دیتا ہوں اور اگر تم چاہتے ہو تو صبر کر لو، صبر کرنا تمھارے۔ لیے بہتر ہے۔‘‘

اس نے کہا: دعا ہی کر دیں۔

سیدنا عثمان بن حنیف کہتے ہیں: آپ علیہ نے اسے حکم فرمایا کہ اچھی طرح وضو کرو اور یہ دعا مانگو:

((اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِي الرَّحْمَةِ، إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلٰى رَبِّي فِي حَاجَتِي هٰذِهِ لِتُقْضٰى لِي، اَللّٰهُمَّ فَشَفَعَهُ فِيَّ))

’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور نبی رحمت اور تیرے نبی سیدنا محمدﷺ کے ذریعے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ (اے اللہ کے نبی) یقینًا میں آپ کے ذریعے سے اپنی ضرورت و حاجت کے سلسلے میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں، (تاکہ) میری یہ ضرورت اور حاجت پوری ہو جائے۔ اے اللہ! (میرے حق میں) نبی اکرم ﷺ کی سفارش قبول فرما۔‘‘

 اور مسند احمد کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

((وَتُشَفِّعْنِي فِيهِ، وَتُشَفِّعَهُ فِيَّ)) ((أخرجه أحمد: 17240، والترمذي: 3578، والحاكم: 313/1، 519، والنسائي في الكبرى: 1495، وفي

عمل اليوم والليلة 659، وابن ماجه:1385، وابن خزيمة: 1219، أخرجه أحمد: 17241)

’’(اے اللہ !) اس کے متعلق میری سفارش قبول فرما اور میرے متعلق اس کی سفارش قبول فرما۔‘‘

 توضیح و فوائد: اہل بدعت اس حدیث کو انبیاء و صالحین کی ذات کا وسیلہ پکڑنے کے لیے بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ اس نابینا صحابی نے نبی ﷺ کی ذات کو بطور وسیلہ پیش کیا تو اس کی آنکھیں ٹھیک ہو گئیں لیکن ان کا یہ استدلال درج ذیل وجوہ کی بنا پر مردود ہے۔ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’التوسل‘‘ میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہے جس کا خلاصہ پیش خدمت ہے:

1۔ وہ نابینا صحابی خود صراحت فرماتے ہیں کہ میں دعا کرانے کے لیے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! میرے لیے دعا کریں اللہ مجھے عافیت دے۔ .. اگر ذات کا وسیلہ مقصود ہوتا تو وہ آپ کی خدمت میں حاضری کی بجائے اپنے گھر ہی میں یہ دعا کر لیتے کہ اے اللہ میں تیرے نبی کی عظمت کے واسطے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ ان کا ایسا نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ انھوں نے دعا کرانے کا وسیلہ اختیار کیا جو شرعاً جائز ہے۔

2۔ نبی ﷺ نے اس سے دعا کا وعدہ فرمایا اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ اگر صبر کرو تو تمھارے لیے بہتر ہے۔

3۔ نابینا صحابی کے اصرار پر آپ نے دعا کی کیونکہ جب آپ نے اسے صبر اور دعا کا اختیار دیا اور اس نے دعا کو اختیار کیا تو آپ نے یقینًا اس کے لیے دعا کی ہوگی۔ مزید آپ نے اسے وضو کرنے، نماز پڑھنے اور خود دعا کرنے کا حکم دیا جو نیک عمل ہے تاکہ وسیلے کی دونوں صورتیں جمع ہو جائیں۔

4۔ نبی ﷺ نے انھیں جو دعا سکھلائی اسے ذات و جاہ وغیرہ کے وسیلے پر محمول کرنا محال ہے۔ آپﷺ نے فرمایا تم یوں دعا کرو: ((اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِیَّ)) یعنی اے اللہ اللہ کے نبی نے میرے لیے دعا کی ہے اسے میرے حق میں قبول فرما۔ شفاعت لخت میں دعا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ (لسان العرب) اور ((فَشَفِّعْنِی فِیهِ)) کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے میرے حق میں جو دعا کی ہے کہ اس کی آنکھیں واپس آجائیں، اس دعا کو بھی قبول فرما۔

5۔ علماء نے اس حدیث کو نبی نئی کے معجزات میں شامل کیا ہے جیسا کہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  نے دلائل النبوۃ میں تحریر کیا ہے۔ معجزہ خاص ہوتا ہے عمومی دلیل نہیں ہوتا، نہ اس پر قیاس کرتے ہوئے مسائل کا استنباط کیا جا سکتا ہے۔ اور ((اَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِكَ)) كا مطلب مذکورہ دلائل کی روشنی میں یہی ہو گا کہ تیرے نبی کی دعا کے ساتھ تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں۔

6۔ اگر اسے ذات کا وسیلہ تسلیم بھی کر لیا جائے تو یہ نبیﷺ کا خاصا ہے جس میں دیگر انبیاء وصالحین شریک نہیں اور صرف اس صحابی کے ساتھ خاص ہے امت کا کوئی دوسرا فرد اس میں شریک نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ کے دور میں کئی نابینا صحابی تھے لیکن کسی نے ایسا نہیں کیا، نہ اس سے یہ مسئلہ سمجھا۔

687۔ سيدنا عطاء بن ابي رباح سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ مجھے سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: کیا میں تجھے ایک جنتی عورت نہ دکھاؤں؟ میں نے کہا: ضرور دکھائیں۔ انھوں نے کہا: اس سیاہ فام عورت نے نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے، اس وجہ سے میرا ستر کھل جاتا ہے۔ آپ میرے لیے اللہ تعالی سے دعا کریں۔ آپﷺ نے فرمایا:

((إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَكِ الْجَنَّةُ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللهَ أَنْ يُعَافِيَكِ)) (أخرجه البُخَارِي: 5652، ومُسْلِمٌ:2576)

’’اگر تم چاہو تو صبر کرو، اس کے عوض تمھیں جنت ملے گی اور اگر تم چاہتی ہو تو میں اللہ تعالی سے دعا کر دیتا ہوں کہ وہ مجھے تندرستی دے۔“

اس نے کہا: میں صبر کروں گی، پھر اس نے عرض کی کہ مرگی کے دورے کے دوران میں میرا ستر کھل جاتا ہے، آپ میرے لیے اللہ سے دعا کریں کہ میرا ستر نہ کھلا کرے تو آپﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔