صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی فضیلت، ان کی عزت و توقیر اور سب سے افضل صحابی کا بیان، اور ان کے باہمی جھگڑوں کے بارے میں خاموشی اختیار کرنے کا حکم
934۔ سیدنا عبد الله بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺسے سوال کیا گیا۔ لوگوں میں سب سے بہتر کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
((قرني، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَجِيئُ قَوْمٌ تَبَدُرُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِيْنَهُ، وَتَبَدُرُ يَمِينُهُ شَهَادَتَهُ)) (اخرحه البخاري: 2652، 3651، 6429، 6658، و مسلم: 2533)’’میرے دور کے لوگ، پھر وہ جو ان کے ساتھ (کے دور میں) ہوں گے، پھر وہ جوان کے ساتھ ہوں گے، پھر ایک ایسی قوم آئے گی کہ ان کی گواہی ان کی قسم سے جلدی ہوگی اور ان کی قسم ان کی گواہی سے جلدی ہوگی۔‘‘
توضیح و قوائد: مطلب یہ ہے کہ تیسری صدی کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو سوچے سمجھے اور تحقیق کیے بغیر گواہی دیں گے اور قسمیں کھانے سے ذرا بھی نہیں ہچکچائیں گے۔ وہ گواہی حق کی وجہ سے نہیں دیں گے بلکہ اپنی خواہشات کے زیر اثر یہ کام کریں گے۔
935۔ سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((النُّجُومُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومُ أَتیَ السَّمَاءَ مَا تُوعَدُ، وَأَنَا أَمَنَةٌ لِأَصْحَابِي فَإِذَا ذَهَبْتُ أَنَا أَتيٰ أَصْحَابِي مَا يُوعَدُونَ وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمِّتِي فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتَٰى أُمَّتِي مَا يُوعَدُونَ)) (أخرجه مسلم:2531)
’’ستارے آسمان کے لیے امان اور سلامتی کی ضمانت ہیں اور جب ستارے ختم ہو جائیں گے تو آسمان پر (پھٹنے اور ٹکڑے ہونے کا) وہ مرحلہ آجائے جس کا اس سے وعدہ کیا گیا ہے، اور میں اپنے صحابہ کے لیے امان ہوں، جب میں چلا جاؤں گا تو میرے اصحاب پر وہ (فتنے) آجائیں گے جن سے انھیں ڈرایا گیا ہے اور میرے صحابہ میری امت کے لیے امان ہیں، جب وہ چلے جائیں گے تو میری امت پر وہ (فتنے) آجائیں گے جن سے اسے ڈرایا گیا ہے۔‘‘
936۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ((اسْتَوْصُوا بِأَصْحَابي خيرًا)) (أخرجه أحمد:114، والترمذي: 2165)
’’میرے صحابہ کے بارے میں خیر کی وصیت قبول کرو۔‘‘
توضیح وفوائد: صحابی وہ ہے جس نے ایمان کی حالت میں رسول اکرم ﷺ کا دیدار کیا ہو اور وہ ایمان عی کی حالت میں قوت ہوا ہو۔ صحابہ کرام پر تبصرے سے گریز کرنا چاہیے۔ خصوصًا ان کے باہمی جھگڑوں کے بارے میں زبان بندی ہی ایمان کو بچانے کا محفوظ راستہ ہے۔
937۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ الﷺ نے فرمایا:
((لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِه! لَوْ أَنْ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ)) (أخرجه مسلم:2540، وهو عند الشيخين من حديث أبي سعيد الخدري عند البخاري برقم:3673
ومسلم:2541)
’’میرے صحابہ کو برا مت کہو، میرے صحابہ کو برا مت کہو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا بھی خرچ کرے تو وہ ان (صحابہ) میں سے کسی ایک کے دیے ہوئے ایک مد بلکہ اس کے آدھے کے برابر بھی اجر نہیں پاسکتا۔‘‘
938۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ سَبِّ أَصْحَابِي، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ)) (أخرجه الطبراني في الكبير:12709)
’’جس نے میرے صحابہ کو گالی دی اس پر اللہ تعالی، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔‘‘
939۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((إِذَا ذُكِرَ أَصْحَابِي فَأَمْسِكُوا)) (أخرجه الطبراني في الكبير:1427، 10448)
’’جب میرے صحابہ کا ذکر کیا جائے تو زبان روک لو۔‘‘
940۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ اللهَ تَعَالَى قَالَ: مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا، فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ)) (أخرجه البخاري: 6502)
’’بے شک اللہ تعالی کا ارشاد ہے: جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی کی اس کے خلاف میری طرف سے اعلان جنگ ہے۔‘‘
941۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((لَيْسَ مِنْ أُمَّتِي مَنْ لَمْ يُجِلَّ كَبِيرَنَا، وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيَعْرِفْ لِعَالِمِنَا حَقَّهُ)) (أخرجه أحمد:22755،)
’’جو ہمارے بڑوں کی عزت و تکریم نہ کرے، ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے عالم کا حق نہ جانے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘
توضیح و فوائد صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ یقینًا اس امت کے اکابر اور اللہ کے ولی تھے۔ ان کی ولایت کی تصدیق نبی ﷺنے کی ہے اور ان کے کامل ایمان کی گواہی قرآن کریم نے دی ہے۔
942۔ سیدہ ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
((إِنَّ الْعُلَمَاء وَرَثَةُ الْاَنْبِیَاء)) ’’بلاشبہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔‘‘ (أخرجه أبو داود:3641، والترمذي:2682، وابن ماجه:239)
توضیح و فوائد: اس امت کے علماء کا پہلا طبقہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم ہیں جنھوں نے براہ راست رسالت ماب ﷺ قلم سے فیض پایا ہے اور وہ اس وراثت کے اولین مصداق ہیں۔
943۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
((كنَّا فِي زَمَنِ النبی ﷺ لَا نَعْدِلُ بِأَبِي بَكْرٍ أَحَدًا ثُمَّ عُمَرَ ثُمَّ عُثْمَانَ، ثُمَّ نَتْرُكُ
أَصْحَابَ النَّبِيِّ ﷺ لَا نُفَاصِلُ بَيْنَهُمْ)) (اخرجه البخاري: 3655 و 3698)
’’ہم نبی ﷺ کے عہد مبارک میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے برابر کسی کو خیال نہیں کرتے تھے، پھر سیدنا عمر کو، اس کے بعد سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو، پھر ہم نبیﷺ کے اصحاب کو چھوڑ دیتے تھے، ایک دوسرے سے کسی کو افضل نہیں جانتے تھے۔‘‘
توضیح و فوائد مذکورہ ترتیب کے بعد عشرہ مبشرہ، اصحاب بدر، بیت رضوان والے اور اصحاب احد ہیں، پھر درجہ بدرجہ ان کی فضیات مسلم ہے لیکن فضیلت کا یہ انداز نہیں ہونا چاہیے کہ دوسرے کی تنقیص ہو۔
944۔ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺنے انھیں غزوہ ذات السلاسل میں امیر بنا کر بھیجا تھا۔ (وہ کہتے ہیں کہ) میں (واپس) آپ کے پاس آیا تو میں نے عرض کی: سب لوگوں میں سے آپ کو کون زیادہ محبوب ہے؟
آپﷺ نے فرمایا: ((عائشہ)) ’’عائشہ‘‘
میں نے عرض کی: مردوں میں سے کون؟ آپ نے فرمایا: ((ابو ها)) ’’ان کے والد گرامی‘‘
میں نے پوچھا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: ((ثم عمر بن الخطاب)) ’’پھر عمر بن خطاب‘‘
اسی طرح درجہ بدرجہ آپ نے کئی آدمیوں کے نام لیے۔(أخرجه البخاري:3662، 4358، و مسلم، 2540)
945۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں:
((كان أبو بكر أَحَبَّنَا إِلَى رَسُولِ اللهِ، وَكَانَ خَيرَنَا وَسَيِّدَنَا)) (أخرجه ابن جبان:6862)
’’ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہم سب سے بڑھ کر رسول اکرمﷺ کو پیارے تھے، وہ ہم سب سے افضل اور ہمارے سردار تھے۔‘‘
توضیح و فوائد: صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے محبت ایمان کا حصہ ہے اور جس صحابی رضی اللہ تعالی عنہ سے جتنی محبت رسول اکرم ﷺ کو تھی اسی نسبت سے ان سے محبت کرنا بھی فرض ہے۔ ہماری محبت بھی رسول اکرم ﷺ کی محبت کے تابع ہونی چاہیے۔
946۔سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنے (آخری) مرض کے دوران میں مجھ سے فرمایا:
((أدْعِي لِي أَبَا بَكْرٍ أَبَاكِ، وَأَخَاكِ، حَتّٰى أَكْتُبَ كِتَابًا، فَإِنِّي أَخَافُ أَن يَتَمَنَّى مُتَمَنٍّ وَيَقُولُ قَائِلٌ: أَنَا أَوْلٰى، وَيَأْبَی اللهُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَكْرٍ)) (أخرجه مسلم:2387)
’’اپنے والد ابوبکر اور اپنے بھائی کو میرے پاس بلاؤ تاکہ میں ایک تحریر لکھ دوں، مجھے یہ خوف ہے کہ کوئی تمنا کرنے والا تمنا کرے گا اور کہنے والا کہے گا: میں زیادہ حقدار ہوں جبکہ اللہ بھی ابوبکر کے سوا (کسی اور کی جانشینی) سے انکار فرماتا ہے اور مومن بھی۔‘‘
947۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے مرض وفات میں ایک پٹی سے اپنے سر کو باندھے ہوئے باہر تشریف لائے اور منبر پر فروکش ہوئے اور اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا:
((إِنَّهُ لَيْسَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَمَنَّ عَلَىَّ فِي نَفْسِهِ وَمَالِهِ مِنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي قُحَافَةً وَلَوْ كُنتُ مُتَّخِذًا مِنَ النَّاسِ خَلِيلًا لَاتَخَّذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا، وَلٰكِن خَلَةُ الْإِسلام أَفْضَلُ، سُدُّوا عَنِّى كُلِّ خَوْخَةٍ فِي هٰذَا الْمَسْجِدِ غَيْرَ خَوْخَةِ أَبِي بَكْرٍ)) (أخرجه البخاري:467، ومسلم: 2382)
’’اپنی جان اور مال کو مجھ پر ابوبکر سے زیادہ اور کوئی خرچ کرنے والا نہیں ہے اور میں لوگوں میں سے اگر کوئی دلی دوست بناتا تو یقینًا ابوبکر کو بناتا لیکن اسلامی دوستی سب سے بڑھ کر ہے۔ دیکھو! میری طرف سے ہر وہ کھڑکی، جو اس مسجد میں کھلتی ہے، بند کر دو، صرف ابوبکر کی کھڑکی رہنے دو۔‘‘
توضیح و فوائد: مذکورہ بالا دونوں حدیثیں سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیات پر دلالت کرتی ہیں، اور ان میں صدیق اکبررضی اللہ تعالی عنہ کے خلیفہ بلا فصل ہونے کا کھلا اشارہ موجود ہے۔ یہ واقعہ آپ کے آخری مرض کا ہے، اس سے پہلے آپ نے سیدنا ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ مسجد کی طرف آنے والے تمام دروازے بند کرائے تھے لیکن سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے متبادل راستہ نہ ہونے کی وجہ سے دروازہ کھولنے کی درخواست کی تھی لیکن اس بار آپ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے دروازے کے علاوہ مسجد کی طرف کھلنے والی تمام کھڑکیاں اور دروازے یکسر بند کرادیے۔
948۔ سیدنا سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((عشَرَةٌ فِي الْجَنَّةِ أَبو بكر فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِىٌّ فِي الجنةِ، وَالزُّبَيْرُ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ في الجَنَّةِ، وَابْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدٌ في الْجَنَّةِ، وَسَعِيدُ بن زَيْد في الجَنَّةِ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِي الْجَنَّةِ)) (أخرجه أحمد:1675،، والترمذي:3747، والنسائي في الكبرى:8194، وابن حبان:7002)
’’دس لوگ جنتی ہیں: ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہیں، علی جنتی ہیں، زبیر جنتی ہیں، طلحہ جنتی ہیں ابن خوف جنتی ہیں، سعد جنتی ہیں، سعید بن زید جنتی ہیں اور ابوعبیدہ بن جراح جنتی ہیں رضی اللہ تعالی عنہم۔
949۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: ((أَنْتَ مِنِّی بِمَنْزَلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِي بَعْدِي)) (أخرجه البخاري:3706،4416، ومسلم:2404)
’’تمھارا میرے ساتھ وہی مقام ہے جو ہارون علیہ السلام کا موسی علیہ السلام میت کے ساتھ تھا مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘
توضیح و قوائد: رافضی اس حدیث کو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے خلیفہ بلا فصل ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں، حالانکہ اس میں کہیں بھی سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا ذکر نہیں ہے۔ اس روایت کی تفصیل صحیح بخاری حدیث:4416 میں اس طرح ہے کہ رسول اکرم ﷺغزوہ تبوک کے لیے نکلے تو آپ ﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو مدینے میں اپنا نائب مقرر کیا۔ سیدناعلی رضی اللہ تعالی عنہ کیونکہ میدان کے آدمی تھے، اس لیے انھوں نے پسند نہ فرمایا کہ نبی ﷺ مجھے صورتوں اور بچوں کے پاس چھوڑ جائیں۔ جب انھوں نے اپنے تاثرات کا اظہار نبیﷺ سے کیا تو آپﷺ نے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میرے نزدیک تمھارا وہی درجہ ہو جو موسی علیہ السلام کے نزدیک ہارون علیہ السلام کا درجہ تھا۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اس سے خلافت کا استدلال اس لیے درست نہیں نہیں کہ آپ نے کئی مواقع پر دیگر صحابہ کو بھی اپنا نائب بنایا ہے تو ان اصحاب رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے استدلال کا تو کوئی بھی قائل نہیں بلکہ آپ ﷺ نے ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ کو کئی بار اپنا نائب مقرر فرمایا۔ اس سے مراد خلافت نہیں بلکہ وقتی نیابت ہے کیونکہ ہارون علیہ السلام موسی علیہ السلام کے بعد خلیفہ نہیں بنے۔ وہ موسی ﷺ کی زندگی ہی میں وفات پاگئے تھے۔
950- سیدنا سفینہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا:
((الخِلاقَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَكُونَ مُلكًا)) (أخرجه أحمد:21919،21923، 21928 وأبوداؤد:4647، والترمذي:2226، وابن حبان:6943)
’’میرے بعد تیس سال تک خلافت ہوگی، پھر اس کے بعد بادشاہت آجائے گی۔‘‘
سیدنا سفینہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: دو سال ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے، دس سال عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے، بارہ سال عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ان کے اور چھ سال سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے شمار کر لو۔
توضیح و فوائد: اس روایت کی بنا پر بعض لوگ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی تنقیص کرتے ہیں حالانکہ آپ نے اس بادشاہت کی مذمت نہیں فرمائی بلکہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ آپ نے خلافت کی طرح اسن بادشاہت کو بھی رحمت قرار ديا ((الصحيحة للألباني، حدیث:3270) اور تاریخ گواہ ہے کہ اس بادشاہت سے اسلام اور اہل اسلام کو بہت سے فوائد حاصل ہوئے۔
951۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا:
((وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَ اللهَ أَنْ يَكُونَ قَدِ اطَّلَعَ عَلٰى أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اِعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَد غَفَرْتُ لَكُم ..)) (أخرجه البخاري:3007،3181،3983، 4274،4890،6259،6939،ومسلم:2494)
’’کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو دیکھ کر فرمایا ہے کہ تم جو چاہو عمل کرو یقینًا میں تمہیں بخش چکا ہوں۔‘‘
952۔ سیده ام مبشر رضی اللہ تعالی عنہا نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
((لا يَدْخُلُ النَّارَ إِنْ شَاءَ اللهُ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ أَحَدٌ مِنَ الَّذِينَ بَايَعُوا تَحْتَهَا)) (أخرجه مسلم:2496)
’’ان شاء اللہ درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے کوئی ایک بھی جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘
توضیح و فوائد: اس بہت میں اہل بدر و احد کے علاوہ کئی صحابہ کی کثیر تعداد موجود تھی۔ اس کو بیعت رضوان بھی کہتے ہیں۔
…………..