قومی نسلی، علاقائی اور معاشرتی فرقہ واریت کی ممانعت

981۔ سیدنا جندب بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ قُتِلَ تَحْتَ رَايَةٍ عِمِيَّةٍ يَدْعُو عَصَبِيَّةً أَوْ يَنصُرُ عَصَبِيَّةً، فَقِتْلَةٌ جَاهِلِيَّةٌ))(أخرجه مسلم: 1850)

’’جو شخص اندھے (قومی، نسلی، لسانی) جھنڈے کے نیچے عصبیت کی پکار لگاتے ہوئے یا عصبیت  (والوں) کی حمایت کرتے ہوئے مارا گیا تو (یہ) جاہلیت کی موت ہوگی۔‘‘

توضیح و فوائد: مسلمانوں کے باہمی جھگڑے میں برادری ازم کو پیش نظر رکھ کر کسی کی مدد و نصرت حرام ہے۔ مسلمانوں کو ہمیشہ سچ کا ساتھ دینا چاہیے۔ برادری ازم کو ہوا دینا جاہلیت کا شیوہ و شعار ہے۔

982۔ سیدنا ابوہریر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ اللهَ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَفَخَرَهَا بِالْآبَاءِ، مُؤْمِنٌ تَقِیٌ، وَفَاجِرٌ شَقِىٌّ، أَنتُمْ بَنُو آدَمَ، وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ، لَيَدَعَنَّ رِجَالٌ فَخْرَهُمْ بِأَقْوَامٍ، إِنَّمَا هُمْ فَحْمٌ مِنْ فَحْمِ جَهَنَّمَ، أَوْ لَيَكُونُنَّ أَهْوَنَ عَلَى اللهِ مِنَ الْجِعْلَانِ الَّتِي تَدْفَعُ بِانْفِهَا النَّتن))(أخرحه أحمد: 8736، 8792، 10781، و أبو داؤد: 5116، و الترمذي: 3956)

’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی موت اور آباء واجداد پر فخر کرنا ختم کر دیا ہے۔ متقی مومن (اللہ کے ہاں عزت والا ہے) اور فاجر بدبخت (اللہ کے ہاں ذلیل ہے) تم آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں، لوگوں کو اپنی قوم پر فخر ہر صورت چھوڑ دینا چاہیے، بلاشبہ وہ جہنم کا ایندھن یا وہ اللہ کے نزدیک گندگی کے کیڑے سے بھی بدتر ہیں جو اپنی ناک کے ذریعے سے گندگی کو ہٹاتا رہتا ہے۔‘‘

 توضیح وفوائد: اللہ تعالی کے نزدیک عزت کا معیار تقویٰ اور پرہیز گاری ہے، برادری کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ سب انسان آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور ان کے دنیا میں آنے کا طریقہ بھی ایک ہی ہے، پھر جن آبا و اجداد پر فخر کیا جاتا ہے ہو سکتا ہے وہ کفر کی بنا پر جہنم کا ایندھن ہوں اور اللہ کے نزدیک ذلیل تر ہوں تو ان پر نظر چہ معنی دارد؟ نیز جو شخص برادری کی بنا پر فخر کرے اور دوسرے کو حقیر سمجھے، ایسے شخص کو اس کی اصل یاد دلانی چاہیے جیسا کہ حدیث: 985 میں ہے۔

983۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک غزوے (غزوہ مریسیع) میں نبی ﷺ کے ساتھ تھے، وہاں ایک مہاجر نے ایک انصاری کی سرین پر ضرب لگائی۔

انصاری نے کہا: اے انصار (آؤ، مدد کرو) اور مہاجر نے کہا: اے مہاجرو! (آؤ، مدد کرو)۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَا بَالُ دَعْوَى الجَاهِية)) ’’کیا زمانہ جاہلیت کی طرح کی چیخ و پکار ہے؟‘‘

انھوں نے کہا: اللہ کے رسول! ایک مہاجر شخص نے ایک انصاری کی سرین پر مارا ہے، آپﷺ نے فرمایا:

((دَعُوهَا فَإِنَّهَا مُنْتِنَةٌ)).

’’برادری ازم کی بنا پر ایک دوسرے کو مدد کے لیے پکارنے کو چھوڑ دو، یہ ایک ناگوار اور بدبودار بات ہے۔‘‘

عبد الله بن اُبی نے یہ بات سنی تو کہنے لگا:  (اچھا) انھوں نے (ایسا) کیا ہے، اللہ کی قسم! جب ہم مدینہ پہنچیں گے تو ہم میں سے عزت والا ذلت والے کو وہاں سے نکال باہر کرے گا۔

سیدنا عمر  رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: مجھے چھوڑیے، میں اس منافق کی گردن اڑاتا ہوں، آپﷺ نے فرمایا:

((دَعهُ لَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلْ أَصْحَابَهُ)). (أخرجه البخاري:3518، 4905، 4907 ومسلم: 2584)

’’اسے رہنے دو، کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد (ﷺ) اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کر رہے ہیں۔‘‘

984۔ سیدنا حارث اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَنِ ادَّعٰي دَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ فَإِنَّهُ مِنْ جُثَا جَهَنَّمَ))

 (أخرجه أحمد:17170 والترمذي:2863، 2864)

’’جس نے جاہلیت کی پکار پکاری بلاشبہ وہ جہنم کا ایندھن ہے۔‘‘

ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! خواہ وہ نماز پڑھے اور روزے رکھے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

((ووَإِنْ صَلّٰى وَصَامَ، فَادْعُوا بِدَعْوَى اللهِ الَّذِي سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ الْمُؤْمِنِينَ عِبَادَ اللهِ))

’’خواہ وہ نماز روزے کی پابندی کرنے والا ہو۔ اللہ کی پکار کے ساتھ پکارو جس نے تمھارا نام مسلمان مؤمن اور عباد اللہ (اللہ کے بندے) رکھا ہے۔‘‘

985۔ سیدنا ابی بن کعب  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:

((كُنَّا نُؤْمَرُ: إِذَا الرَّجُلُ تَعَزَّى بِعَزَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَعِضُّوهُ بِهَنِ أَبِيهِ وَلَا تَكْنُوا))(أخرجه أحمد:21236)

’’ہمیں حکم ہوتا کہ جب کوئی آدمی جاہلیت کا نعرہ لگائے اسے اس کے باپ کی شرمگاہ چوسے کا کہو اور اس میں کنایہ نہ کرو۔‘‘

توضیح و فوائد: اسلام  فحش گوئی کے سخت خلاف ہے لیکن جو شخص آباواجداد اور برادری پر فخر کر کے دوسروں کو حقیر سجھے اسے کھلے الفاظ میں اس کی حقیقت بتانے کا حکم ہے کہ جس جگہ سے نکلا ہے کیا وہ تو بھول گیا ہے۔ کس قدر گھٹیا چیز کی بنا پر فخر کر رہا ہے۔