مسلمان حکمرانوں کے حقوق و فرائض

1030۔  سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ كَرِهُ مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا فَلْيَصْبِرْ عَلَيْهِ، فَإِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ يَخْرُجُ مِنَ السُلْطَانِ شِبْرًا فمَاتَ عَلَيْهِ إِلَّا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً)) (أخرجه البخاري7053، 7054 ومسلم:1849)

’’جس شخص کو اپنے امیر (حاکم) کی کوئی بات بری لگے اسے چاہیے کہ وہ اس پر صبر کرے کیونکہ لوگوں میں سے جو شخص بھی حاکم (کی اطاعت) سے ایک بالشت برابر بھی نکالا اور اسی حالت میں مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔‘‘

1031۔ سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

((مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ لَقِىَ اللهَ يَومَ الْقِيامَةِ لَا حُجَّةً لَهُ ، وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقَهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مَيْتَةً جَاهِلِيَّةٍ)) (أخرجه  مسلم .1851)

’’جس شخص نے (حکمران کے جائز کاموں میں) اطاعت سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالی کے سامنے اس حال میں حاضر ہو گا کہ اس کے حق میں کوئی دلیل نہ ہوگی اور جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ اس کی گردن میں کسی (مسلمان حکمران) کی بیعت نہیں تو  وہ جاہلیت کی موت مرا‘‘

1032۔ سونا عبادہ بن صامت  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں بلایا، ہم نے آپ کی بیعت کی، آپ ﷺ نے ہم سے جن چیزوں پر بیعت کی وہ یہ ہیں: ہم خوشی اور نا خوشی میں، مشکل اور آسانی میں اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دی جانے کی صورت میں بھی اپنے امیر کی بات سنیں گے اور اس کی اطاعت کریں گے اور اس بات پر بھی بیعت لی کہ ہم اقتدار کے معاملے میں اس کی اہمیت

رکھنے والوں سے جھگڑا وغیرہ نہیں کریں گے۔ آپ ﷺنے فرمایا:

((إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفَرًا بَوَاحًا عِنْدَكُمْ مِنَ اللهِ فِيهِ بُرْهَانٌ)) (أخرجه البخاري:7056، 7200 ومسلم:1709 بعد الحديث:1840)

 ’’ہاں، اگر تم انھیں کھلم کھلا کفر کرتے دیکھو اور تمھارے پاس اس کے متعلق کوئی واضح دلیل ہو تو پھر ان کی اطاعت و فرماں برداری نہ کروں۔‘‘

توضیح و فوائد : مطلب یہ ہے کہ حکمرانوں کے خلاف بغاوت اس وقت تک جائز نہیں جب تک دو کھلے لفظوں میں اسلام کا انکار نہ کریں، اصلاح احوال کے لیے ایسا انداز اختیار کیا جائے جو فتنے کا سبب نہ ہے۔ اپنے مفادات کی آڑ میں ملکی حالات کو تہ و بالا کرنا اسلام کے مزاج کے خلاف ہے۔ 1033۔ علقمہ بن وائل حضرمی اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: سلمہ بن یزید جعفی  رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ ﷺسے پوچھا : اللہ کے نبی! اگر ہم پر ایسے لوگ حکمران نہیں جو ہم سے اپنے حقوق کا مطالبہ کریں اور ہمارے حق ہمیں نہ دیں تو اس صورت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟

آپﷺ نے اس سے اعراض فرمایا، اس نے دوبارہ سوال کیا، آپﷺ نے پھر اعراض فرمایا، پھر جب اس نے دوسری یا تیسری بار سوال کیا تو اشعث بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ نے انھیں کھینچ لیا۔

آپ ﷺ نے فرمایا: ((اِسْمَعُوا وَأَطِيعُوا ، فَإِنَّمَا عَلَيْهِمْ مَا حُمِّلُوا وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ)) (أخرجه مسلم:1846)

’’ تم ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو کیونکہ جو ذمہ داری انھیں دی گئی اس کا باران پر ہے اور جو ذمہ داری تمھیں دی گئی ہے، اس کا بوجھ تم پر ہے۔‘‘

توضیح و فوائد: مطلب یہ ہے کہ اپنے حقوق کی آڑ لے کر حکمرانوں کے خلاف بغاوت مت کرو۔ اگر حکمران تمھارا حق نہیں دیتے تو اللہ سے اجر کا سوال کرو۔ اپنے فرائض ادا کرتے رہو اور اطاعت کی راہ اختیار کرو۔

1034۔ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((تَسْمَع وَتُطِيعُ للأَمِيرِ ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ ، وَأُخِذََ مَالُكَ، فَاسْمَعْ وَأَطِعْ)) (أخرجه مسلم:1847)

’’تم اپنے امیر کا حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا، چاہے تمھاری پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں اور تمھارا مال چھین لیا جائے پھر بھی ان کی بات سنتا اور ان کی اطاعت کرنا۔‘‘

1035 سیدنا عرفجہ  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نےنبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

(( مَنْ أَتَاكُمْ وَأَمْرُكُمْ جَمِيعٌ عَلٰى رَجُلٍ وَاحِدٍ، يُرِيدُ أَنْ يَشُقَّ عَصَاكُمْ أَوْ يُفْرِّقَ جَمَاعَتَكُمْ فَاقْتُلُوه)) (أخرجه مسلم:1852)

’’جب تمھارا نظام (حکومت) ایک شخص کے ذمے ہو، پھر کوئی تمھارے اتحاد کی لاٹھی کو توڑنے یا تمھاری جماعت کو منتشر کرنے کے ارادے سے آگے بڑھے تو اسے قتل کر دو۔‘‘

 توضیح و فوائد: اگر کوئی شخص مسلمانوں کا حاکم منتخب ہو جائے ، امن عامہ کی حالت تسلی بخش ہو، اس کے باوجود کوئی اور شخص اٹھ کھڑا ہو اور خود حاکم ہونے کا دعوی کرے تو اسے قتل کر دینے کا حکم ہے۔

1036۔ ام المومنین ام سلمہ  رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ   ﷺ نے فرمایا:

((سْتَلُونَ أَمْرَاءُ فَتَعْرِفُونَ وَتَنْكِرُونَ، فَمَنْ عَرَفَ بَرِئَ، وَمَنْ أَنْكُرَ سَلِمَ ، وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ))

(جلد ہی ایسے حکمران ہوں گے کہ تم انھیں (کچھ کاموں میں) صحیح اور (کچھ میں) غلط پاؤ گے۔ جس نے (ان کی رہنمائی میں ) نیک کام کیے وہ بری ٹھہرا  اور جس نے (ان کے غلط کاموں سے) انکار کر دیا وہ بچ گیا لیکن جو ہر کام پر راضی ہوا اور (ان کی ) پیروی کی (وہ بری ہوا نہ بچ سکا)۔‘‘

صحابہ نے عرض کی: کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپ ﷺنے فرمایا:

((لَا، مَاصَلُّوا)) (أخرجه  مسلم:1854)

 ’’نہیں، جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں (جنگ نہ کرو۔)‘‘

توضیح وفوائد: اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بے نماز حکمران کے خلاف بغاوت جائز ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ جب تک وہ اسلام کا نام لیوا ہے اور واضح کفر کا ارتکاب نہیں کرتا اس کے خلاف بغاوت نا جائز ہے۔

1037۔ سید نا عوف بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((خِيَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ ، وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تَبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُونَكُمْ وَتَلْعَنُونَهُمْ وَيَلْعَنُونَكُمْ))

’’تمھارے بہترین امام (حکمران) وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں، تم ان کے لیے دعا کرو اور وہ تمھارے لیے دعا کریں اور تمھارے بدترین  امام (حکمران) وہ ہیں جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔‘‘

عرض کی گئی: اللہ کے رسول ! کیا ہم انھیں تلوار کے زور سے ہٹا نہ دیں ؟ آپ ﷺنے فرمایا:

((لَا، مَا أَقَامُوا فِيكُمُ الصَّلَاةَ، وَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْ وُلَا تِكُمْ شَيْئًا تَكْرَهُونَهُ فَاكْرِهُوا عمَلَهُ وَلَا تَنْزِعُوا يَدًا مِنْ طَاعَةٍ.)) (أخرجه مسلم:1855)

’’نہیں، جب تک کہ وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں اور جب تم اپنے حکمرانوں میں کوئی ناپسندیدہ چیز یا عمل دیکھو تو ان کے عمل کو نا پسند کرو اور ان کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچو‘‘

1038۔  سید نا ابوہریر ہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(إنَّمَا الإمام جُنَّة، يُقَاتَلُ مِن وَرَائِهِ، وَيُتَّقٰى بِهِ، فَإِنْ أَمَرَ بِتَقْوَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَدَلَ ، كَانَ لَهُ بِذلِكَ أَجْرٌ ، وَإِنْ يَأْمُرْ بِغَيْرِهِ، كَانَ عَلَيْهِ مِنْهُ)) (أخرجه البخاري:2957، و مسلم:1841)

’’امام (مسلمانوں کا حکمران) ڈھال ہے، اس کے پیچھے (اس کی اطاعت کرتے ہوئے) جنگ کی جاتی ہے، اس کے ذریعے سے تحفظ حاصل کیا جاتا ہے،  اگر امام اللہ عز وجل سے ڈرنے کا حکم دے اور عدل و انصاف سے کام لے تو اسے اس کا اجر ملے گا اور اگر اس نے اس کے خلاف کچھ کیا تو اس کا وبال اس پر ہوگا۔‘‘

1039۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو اپنے اس گھر میں فرماتے ہوئے سنا:

((اللَّهُمّ!ا مَنْ وَلِي مِنْ أَمْرٍ أُمَّتِي شَيْئًا، فَشَقَّ عَلَيْهِمْ ، فَاشْفُقْ عَلَيْهِ، وَمَنْ وَلِيَ مِنْ أمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا، فَرَفَقَ بِهِمْ ، فَارْقُقُ بِهِ)) (أخرجه مسلم:1828)

’’اے اللہ! جو شخص بھی میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار ہے اور وہ  انہیں مشقت میں لائے تو تو بھی اس پر سختی فرما۔ اور جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنا اور وہ ان کے ساتھ نرمی کرے تو تو بھی اس کے ساتھ نرمی فرما!‘‘

 توضیح و فوائد : مسلمان حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ رعایا کے حقوق کا خیال رکھیں، انہیں مشقت میں نہ ڈالیں اور ان کی معمولی لغزشوں سے درگزر کر یں۔

1040۔ سید نا تمیم داری  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :

((الدين النصيحة)) ’’دین خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘

ہم (صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم) نے پوچھا: کس کی (خیر خواہی ؟) آپ ﷺنے فرمایا:

((للهِ وَلكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَأَئِمََّةِ الْمُسْلِمِینَ وَعَامَّتِهِمْ)) (أخرجه البخاري في الترجمة قبل الحديث:57، ومسلم:55)

’’ اللہ کی ، اس کی کتاب کی ، اس کے رسول کی، مسلمانوں کے امیروں کی اور عام مسلمانوں کی (خیر خواہی)‘‘

توضیح و فوائد : اللہ تعالی کی خیر خواہی یہ ہے کہ اس کی توحید کا خیال رکھا جائے۔ اس کے ساتھ شرک نہ کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺکی خیر خواہی یہ ہے کہ آپ سے محبت کی جائے اور آپﷺ کی اطاعت اس طرح کی جائے کہ کسی دوسرے کی بات کو آپ ﷺکے فرمان کے مقابلے میں ہیچ اور نا قابل توجہ سمجھا جائے۔

1041۔ سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالی عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم چمڑےکے تکیے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ﷺنے فرمایا:

((سَيَكُونَ بَعْدِي أَمْرَاءُ، فَمَنْ دَخَلَ عَلَيْهِمْ وَصَدَّقَهُمْ بِكَذِبِهِمْ وَأَعَانَهُمْ عَلٰى ظُلمِهِم فَلَيْسَ مِنِّى وَلَسْتُ مِنْهُ، وَلَيْسَ يَرِدُ عَلَىَّ الْحَوْضَ، وَمَنْ لَمْ يُصَدِّقُهُمْ بِكِذْبِهِم ، وَلَمْ يُعِنْهُمْ عَلٰى ظُلْمِهِمْ فَهُوَ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ وَهُوَ وَارِدٌ عَلَّى الْحَوْضَ))(أخرجه التزمذي:2259، وابن جبان:282، 283)

’’عنقریب میرے بعد حکمران ہوں گے، جو ان کے پاس گیا اور ان کے جھوٹ کی تصدیق کی اور ان کے ظلم پر ان کی مدد کی تو وہ مجھ سے نہیں ہے اور نہ میں اس سے ہوں اور نہ وہ میرے پاس حوض کوثر پر پہنچے سکے گا اور جو ان کے پاس نہ گیا، نہ ان کے ظلم پر ان کی اعانت کی اور نہ ان کے جھوٹ کی تصدیق ہی کی تو وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوگا۔‘‘

 توضیح و فوائد: حکمران اگر اچھا ہو تو اس کی مجلس میں بیٹھنا جائز ہے، اس کی اچھی بات کی تائید کرنا، غلط بات کی تردید اور اصلاح کرنا بھی ضروری ہے۔ برے حکمرانوں سے دور رہنے میں عافیت ہے۔

1042۔  سیدنا طارق بن شہاب  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا جبکہ دہ سوار ہونے کے لیے رکاب میں پاؤں رکھے ہوئے تھے : کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا:

((الكَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ)) (أخرجه  أحمد:18828،18830، والبيهقي في الشعب:7585)

’’ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا‘‘

توضیح و فوائد : ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق سب سے بڑا جہاد ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کوئی شخص اس کی تو ہین کرے۔ اگر مقصد اپنے آپ کو بالاکرنے کی بجائے اصلاح کرنا ہو تو نرمی کے ساتھ حق بات واضح کرنے کا حکم ہے۔ اللہ تعالی نے دنیا کے سب سے بڑے ظالم و جابر حکمران فرعون کی طرف موسی اور ہارون علیہم السلام کو بھیجا تو تاکید فرمائی کہ اس سے نرمی سے گفتگو کرنا۔

1043۔  سیدنا معقل بن سیار رضی اللہ تعالی عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺکو فرماتے ہوئے سنا:

((ما مِنْ عَبْدِ يَسْتَرْعِيهِ اللهُ رَعِيَّةً فَلَمْ يَحُطْهَا بِنُصْحِهِ إِلَّا لَمْ يَجِدْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ))(أخرجه البخاري:7150، و مسلم:142)

’’جب اللہ تعالی کسی بندے کو رعایا کا حاکم بناتا ہے اور وہ خیر خواہی کے ساتھ ان کی نگہداشت نہیں کرتا تو وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا۔‘‘

صحیح مسلم کی روایت میں الفاظ کچھ اس طرح ہیں:

 ((مَا مِنْ أَمِيرٍ يَلَى أَمْرَ الْمُسْلِمِينَ، ثُمَّ لَا يَجْهَدُ لَهُمْ وَيَنْصَحُ إِلَّا لَمْ يُدْ خُلْ مَعَهُمْ الجنة))

’’کوئی امیر جو مسلمانوں کے معاملات کی ذمہ داری اٹھاتا ہے، پھر وہ ان (کی بہبود) کے لیے کوشش اور خیر خواہی نہیں کرتا، وہ ان کے ہمراہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘

1044۔  سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

((إِنَّكُمْ سَتَحْرِضُونَ عَلَى الْإِمَارَةِ وَسَتَكُونُ نَدَامَةٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَنِعْمَ الْمُرْضِعَةُ وبئستِ الفَاطِمَةُ))

’’یقینًا تم حکومتی عہدے کا لالچ کرو گے (لیکن یاد رکھو) یہ قیامت کے دن باعث ندامت ہوگا۔ دودھ پلانے والی اچھی لگتی ہے اور دودھ چھڑانے والی بری محسوس ہوتی ہے۔‘‘

توضیح وفوائد: مطلب یہ ہے کہ حکومت کا کام سنبھالنا بہت بڑی ذمہ داری ہے، لاکھوں لوگوں کے حقوق انسان کے سر پر آ پڑتے ہیں، پھر اقتدار جب چھوڑنا پڑتا ہے تو زندگی بھر  اقتدارار کے سہانے دنوں کی یاد ستاتی ہے۔