ابراہیمی اسباق

اہم عناصر :

❄ ہر حال میں اللہ کا وفادار رہنا ہے          ❄ تبلیغ کا آغاز گھر سے کرنا ہے

❄ تبلیغ حکمت کے ساتھ کرنی ہے            ❄ باپ کا احترام کرنا ہے

❄مہمان نواز بننا ہے                            ❄اولاد کے لئے اچھے ماحول کا انتخاب کرنا ہے

❄صرف اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنا ہے        ❄نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرناہے

إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم  قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ [الممتحنہ: 4]

ذی وقار سامعین!

اللہ تعالی نے انسان کی رشد و ہدایت کے لیے مختلف انبیاء اور رسولوں کو دنیا میں مبعوث فرمایا ، وہ دنیا میں آئے ، اللہ تعالی کے حکم کے مطابق اللہ کا بتایا ہوا فریضہ سرانجام دیا اور پھر اپنا وقت پورا کر کے اللہ کے پاس واپس چلے گئے۔ اللہ تعالی نے قران مجید میں 25 انبیاء اور رسولوں کا تذکرہ کیا ہے ، کئی نبی اور رسول ایسے ہیں جن کے واقعات کو اللہ تعالی نے تفصیلی طور پر قران کے مختلف مقامات پر بیان کیا ہے ، ان میں سے ایک نام سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا بھی ہے جن کا تذکرہ اللہ تعالی نے قران مجید میں مختلف مقامات پر کیا ہے۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے بڑے مقام اور رتبے سے نوازا ، سب سے بڑا مقام اور رتبہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے جتنے بھی پیغمبر آئے ہیں وہ سارے کے سارے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے پیدا ہوئے ہیں حتی کہ خود جناب محمد رسول اللہﷺ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے پیدا ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں؛

❄ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا وَإِبْرَاهِيمَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ

"اور بلاشبہ یقیناً ہم نے نوح اور ابراہیم کو بھیجا اور ان دونوں کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی۔” [الحدید: 26]

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ابراھیم علیہ السلام کے کئی فضائل بیان کئے ہیں؛

❄ وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا

"اور اللہ نے ابراہیم کو خاص دوست بنا لیا۔” [نساء: 125]

❄ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

"بے شک ابراہیم ایک امت تھا، اللہ کا فرماں بردار، ایک اللہ کی طرف ہوجانے والا اور وہ مشرکوں سے نہ تھا۔” [النحل: 120]

❄ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا

"فرمایا بے شک میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔” [البقرہ: 124]

❄  وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى

"اور تم ابراہیم کی جائے قیام کو نماز کی جگہ بناؤ۔” [البقرہ: 124]

❄ وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا

"اور اس کتاب میں ابراہیم کا ذکر کر، بے شک وہ بہت سچا تھا، نبی تھا۔” [مریم: 41]

ان تمام آیات سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا مقام و مرتبہ واضح ہوتا ہے ، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ آپ سنتے رہتے ہیں آج کے خطبہ جمعہ میں ہم سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے حاصل ہونے والے سبق سمجھیں گے کہ ایک جلیل القدر نبی کی زندگی سے ہمیں کیا کیا اسباق اور کون کون سی باتیں سمجھ آتی ہیں کیونکہ اللہ تعالی نے قران مجید میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کو اسوہ حسنہ قرار دیا ہے۔

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ  [الممتحنہ: 4]

"یقیناً تمھارے لیے ابراہیم اور ان لوگوں میں جو اس کے ساتھ تھے ایک اچھا نمونہ تھا۔ "

دوسرے مقام پر فرمایا ؛

وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ ۚ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ

"اور ابراہیم کی ملت سے اس کے سوا کون بے رغبتی کرے گا جس نے اپنے آپ کو بے وقوف بنا لیا، اور بے شک ہم نے اسے دنیا میں چن لیا اور بلا شبہ وہ آخرت میں یقیناً صالح لوگوں سے ہے۔” [البقرہ: 130]

1۔ ہر حال میں اللہ کا وفادار رہنا ہے

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت سے سب سے پہلا سبق یہ ملتا ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں ، مشکلات جتنی بھی ہوں اللہ تعالی کے وفادار رہنا ہے ، ایک اللہ کے در سے وفا کرنی ہے ، یکجائی ہونا ہے ، ہرجائی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے کئی مقامات پر بیان فرمایا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام مشرک نہیں تھے بلکہ "حنیف” تھے یعنی ایک طرف ہو کر اور یکسو ہو کر اللہ کی عبادت کرنے والے تھے۔

❄ قُلْ صَدَقَ اللَّهُ ۗ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

"کہہ دے اللہ نے سچ فرمایا، سو تم ابراہیم کی ملت کی پیروی کرو، جو ایک طرف کا تھا اور وہ شرک کرنے والوں سے نہ تھا۔” [آل عمران: 95]

❄ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

"بے شک ابراہیم ایک امت تھا، اللہ کا فرماں بردار، ایک اللہ کی طرف ہوجانے والا اور وہ مشرکوں سے نہ تھا۔” [النحل: 120]

❄ ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

"پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ ابراہیم کی ملت کی پیروی کر، جو ایک اللہ کی طرف ہوجانے والا تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔” [النحل: 123]

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں بے پناہ مشکلات آئیں لیکن ہر حال میں اللہ کے در سے وفا کی ہے اور اللہ کے حکم پر سر تسلیم خم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ؛

وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ

"اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں کے ساتھ آزمایا تو اس نے انھیں پورا کردیا۔ فرمایا بے شک میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ کہا اور میری اولاد میں سے بھی؟ فرمایا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا۔” [البقرہ: 124]

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو باپ نے کہا کہ ایک اللہ کی طرف دعوت دینا چھوڑ دو ورنہ میں تمہیں گھر سے نکال دوں گا یا تمہیں رجم کر دوں گا۔ اس کے باوجود سیدنا ابراہیم علیہ السلام اللہ کے وفادار رہے ہیں۔                                                                                                                       اللہ تعالی نے ایک طویل عرصے کے بعد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بیٹا عطا فرمایا تو اللہ تعالی نے حکم دیا کہ اسے اور اس کی والدہ کو جنگل بیابان میں چھوڑ آؤ تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فوراً حکم مانا۔

خواب میں دیکھا کہ میں بیٹے کو ذبح کررہا ہوں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سمجھ گئے کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم دیا ہے ، تو یہ نہیں کہا کہ اے اللہ یہ کیا؟ بیٹے کو ذبح کروں؟ بلکہ فوراً تیار ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ؛

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ

"پھر جب وہ اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچ گیا تو اس نے کہا اے میرے چھوٹے بیٹے! بلاشبہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ بے شک میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، تو دیکھ تو کیا خیال کرتا ہے ؟ اس نے کہا اے میرے باپ! تجھے جو حکم دیا جا رہا ہے کر گزر، اگر اللہ نے چاہا تو تو ضرور مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔” [الصافات: 102]

فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ وَنَادَيْنَاهُ أَن يَا إِبْرَاهِيمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ

"تو جب دونوں نے حکم مان لیا اور اس نے اسے پیشانی کی ایک جانب پر گرا دیا۔ اور ہم نے اسے آواز دی کہ اے ابراہیم! یقیناً تو نے خواب سچا کر دکھایا، بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ بے شک یہی تو یقیناً کھلی آزمائش ہے۔ اور ہم نے اس کے فدیے میں ایک بہت بڑا ذبیحہ دیا۔” [الصافات: 107-103]

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکنے کا فیصلہ کیا گیا تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام گھبرائے نہیں بلکہ اس موقع پر بھی اللہ تعالی کے وفادار رہے ہیں

عن ابن عباس، قال كان آخر قول إبراهيم حين ألقي في النار حسبي الله ونعم الوكيل‏.‏

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو آخر ی کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا ” حسبی اللہ ونعم الوکیل “ تھا یعنی میری مدد کے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کام بنانے والا ہے ۔ [بخاری: 4564]

2۔ تبلیغ کا آغاز گھر سے کرنا ہے

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت سے دوسرا سبق ہمیں یہ ملتا ہے کہ تبلیغ کا اغاز اپنے گھر سے کرنا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سب سے پہلے اپنے والد کو دعوت دی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا يا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَٰنِ عَصِيًّا ياأَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَن يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمَٰنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا

"اور اس کتاب میں ابراہیم کا ذکر کر، بے شک وہ بہت سچا تھا، نبی تھا۔جب اس نے اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ! تو اس چیز کی عبادت کیوں کرتا ہے جو نہ سنتی ہے اور نہ دیکھتی ہے اور نہ تیرے کسی کام آتی ہے؟ اے میرے باپ! بے شک میں، یقیناً میرے پاس وہ علم آیا ہے جو تیرے پاس نہیں آیا، اس لیے میرے پیچھے چل، میں تجھے سیدھے راستے پر لے جاؤں گا۔اے میرے باپ! شیطان کی عبادت نہ کر، بے شک شیطان ہمیشہ سے رحمان کا نافرمان ہے۔ اے میرے باپ! بے شک میں ڈرتا ہوں کہ تجھ پر رحمان کی طرف سے کوئی عذاب آپڑے، پھر تو شیطان کا ساتھی بن جائے۔” [مریم: 45-41]                                                   سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دعوت اور تبلیغ کا اغاز اپنے گھر سے کیا اللہ تعالی نے قران مجید میں حکم دیا ہے کہ سب سے پہلے اپنے اپ کو اور پھر اپنے گھر والوں کو اگ سے بچاؤ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ

"اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں، اس پر سخت دل، بہت مضبوط فرشتے مقرر ہیں، جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انھیں حکم دے اور وہ کرتے ہیں جو حکم دیے جاتے ہیں۔” [التحریم: 6]

اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو بھی یہی حکم دیا؛

وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ

"اور اپنے سب سے قریب رشتہ داروں کو ڈرا۔” [الشعراء: 214]

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ جب آیت : ﴿ وَ اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ﴾ اتری تو رسول اللہﷺ صفا پہاڑ پر چڑھے اور آواز دینے لگے :

  يَا بَنِيْ فِهْرٍ! يَا بَنِيْ عَدِيٍّ! لِبُطُوْنِ قُرَيْشٍ، حَتَّی اجْتَمَعُوْا، فَجَعَلَ الرَّجُلُ إِذَا لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَّخْرُجَ أَرْسَلَ رَسُوْلًا لِيَنْظُرَ مَا هُوَ، فَجَاءَ أَبُوْ لَهَبٍ وَ قُرَيْشٌ فَقَالَ أَرَأَيْتَكُمْ لَوْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلًا بِالْوَادِيْ تُرِيْدُ أَنْ تُغِيْرَ عَلَيْكُمْ أَ كُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ؟ قَالُوْا نَعَمْ مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا، قَالَ فَإِنِّيْ نَذِيْرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيْدٍ، فَقَالَ أَبُوْ لَهَبٍ تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ، أَ لِهٰذَا جَمَعْتَنَا؟ فَنَزَلَتْ : ﴿ تَبَّتْ يَدَا اَبِيْ لَهَبٍ وَّ تَبَّ (1) مَا اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَ مَا كَسَبَ ﴾  [ بخاري: 4770 ]

’’یا بنی فہر! یا بنی عدی!‘‘ قریش کے مختلف قبائل کو آواز دی، یہاں تک کہ وہ جمع ہو گئے، کوئی آدمی خود نہ آ سکتا تو کسی دوسرے کو بھیج دیتا، تاکہ وہ دیکھے کیا معاملہ ہے۔ غرض ابولہب اور قریش سب آ گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ’’یہ بتاؤ کہ اگر میں تمھیں اطلاع دوں کہ اس وادی میں ایک لشکر تم پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے تو کیا تم مجھے سچا جانو گے؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’ہاں! ہم نے آپ پر سچ ہی کا تجربہ کیا ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا : ’’پھر میں تمھیں ایک شدید عذاب سے پہلے ڈرانے والا ہوں۔‘‘ تو ابو لہب نے کہا : ’’تیرے لیے سارا دن ہلاکت ہو، کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا ہے؟‘‘

اس پر یہ سورت اتری :  تَبَّتْ يَدَا اَبِيْ لَهَبٍ وَّ تَبَّ   مَا اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَ مَا كَسَبَ  [ اللھب : 2-1 ]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :

 يَا بَنِيْ عَبْدِ مَنَافٍ! اشْتَرُوْا أَنْفُسَكُمْ مِنَ اللّٰهِ، يَا بَنِيْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ! اشْتَرُوْا أَنْفُسَكُمْ مِنَ اللّٰهِ، يَا أُمَّ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ عَمَّةَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ! يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ! اشْتَرِيَا أَنْفُسَكُمَا مِنَ اللّٰهِ، لَا أَمْلِكُ لَكُمَا مِنَ اللّٰهِ شَيْئًا، سَلَانِيْ مِنْ مَالِيْ مَا شِئْتُمَا

’’اے بنی عبد مناف! اپنی جانیں اللہ سے خرید لو، اے بنی عبد المطلب! اپنی جانیں اللہ سے خرید لو، اے زبیر بن عوام کی ماں اور رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی (صفیہ)! اے فاطمہ بنت محمد! تم دونوں اپنی جانیں اللہ سے خرید لو، میں اللہ کے ہاں تمھارے لیے کچھ اختیار نہیں رکھتا، مجھ سے میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو۔‘‘ ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے قریش کو اور اپنے چچا عباس کو بھی مخاطب فرمایا۔ [ بخاري: 3527 ]

3۔ تبلیغ حکمت کے ساتھ کرنی ہے

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت سے تیسرا سبق ہمیں یہ ملتا ہے کہ اللہ کی طرف لوگوں کو دعوت دینی ہے تبلیغ کرنی ہے تو حکمت کے ساتھ کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں؛

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

"کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑا کیا، اس لیے کہ اللہ نے اسے حکومت دی تھی، جب ابراہیم نے کہا میرا رب وہ ہے جو زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے، اس نے کہا میں زندگی بخشتا اور موت دیتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا پھر اللہ تو سورج کو مشرق سے لاتا ہے، پس تو اسے مغرب سے لے آ، تو وہ جس نے کفر کیا تھا حیرت زدہ رہ گیا اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔” [البقرہ: 258]

سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اس ظالم بادشاہ کو حکمت اور دلائل سے چپ کروا کر ہمیں یہ سبق دیا کہ تبلیغ حکمت کے ساتھ کرنی ہے اور الجھے بغیر ایسی دلیل پیش کرنی ہے جس سے وہ لاجواب ہو جائے۔

حکمت کے ساتھ تبلیغ کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دیا ہے ؛

ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ

"اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلا اور ان سے اس طریقے کے ساتھ بحث کر جو سب سے اچھا ہے۔ بے شک تیرا رب ہی زیادہ جاننے والا ہے جو اس کے راستے سے گمراہ ہوا اور وہی ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔” [النحل: 125]

4۔ باپ کا احترام کرنا ہے

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت سے چوتھا سبق ہمیں یہ ملتا ہے کہ باپ کا احترام کرنا ہے وہ چاہے مشرک ہو۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے والد مشرک تھے انہوں نے اپنے والد کو توحید کی دعوت دی تو کہا "ياأَبَتِ” اے میرے باپ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے توحید کی دعوت دی تو باپ نے دعوت قبول کرنے کی بجائے دھمکی دی۔

قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْرَاهِيمُ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ ۖ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا

"اس نے کہا کیا تو میرے معبودوں سے بے رغبتی کرنے والا ہے اے ابراہیم!؟ یقیناً اگر تو باز نہ آیا تو میں ضرور ہی تجھے سنگسار کر دوں گا اور مجھے چھوڑ جا، اس حال میں کہ تو صحیح سالم ہے۔” [مریم: 46]

اتنی بڑی اور خطرناک دھمکی کے باوجود سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کسی قسم کی کوئی بدتمیزی نہیں کی ، بلکہ کہا؛

قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ ۖ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي ۖ إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا

کہا تجھ پر سلام ہو، میں اپنے رب سے تیرے لیے ضرور بخشش کی دعا کروں گا، بے شک وہ ہمیشہ سے مجھ پر بہت مہربان ہے۔ [مریم: 47]

5۔ مہمان نواز بننا ہے

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت سے پانچواں سبق ہمیں یہ ملتا ہے کہ مہمان نواز بننا ہے ، مہمان نوازی میں تساہل سے کام نہ لیا جائے، بلکہ حسب استطاعت نیکی کے جذبے سے مہمانی کا حق ادا کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ؛

هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ قَوْمٌ مُّنكَرُونَ فَرَاغَ إِلَىٰ أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِينٍ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ

"کیا تیرے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی بات آئی ہے؟جب وہ اس پر داخل ہوئے تو انھوں نے سلام کہا۔ اس نے کہا سلام ہو، کچھ اجنبی لوگ ہیں۔ پس چپکے سے اپنے گھر والوں کی طرف گیا، پس (بھنا ہوا) موٹاتازہ بچھڑا لے آیا۔ پھر اسے ان کے قریب کیا کہا کیا تم نہیں کھاتے؟” [الذاریات: 27-24]

دوسرے مقام پرع فرمایا؛

وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَىٰ قَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ ۖ فَمَا لَبِثَ أَن جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ

"اور بلاشبہ یقیناً ہمارے بھیجے ہوئے ابراہیم کے پاس خوش خبری لے کر آئے، انھوں نے سلام کہا، اس نے کہا سلام ہو، پھر دیر نہیں کی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آیا۔” [ھود: 70-69]

6۔ اولاد کے لئے اچھے ماحول کا انتخاب کرنا ہے

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت سے چھٹا سبق یہ ملتا ہے کہ اولاد کے لیے اچھے ماحول کا انتخاب کرنا ہے۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اولاد مانگی۔

رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ

"اے میرے رب! مجھے (لڑکا) عطا کر جو نیکوں سے ہو۔” [الصافات: 100]

تو اللّٰہ تعالیٰ نے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی شکل میں اولاد عطا فرما دی۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اولاد کے بارے میں بڑے فکر مند رہتے تھے اور اولاد کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ؛

❄ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ

"اور جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب! اس شہر کو امن والا بنادے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بچا کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔” [ابراھیم: 35]

❄ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ

"اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی، اے ہمارے رب! اور میری دعا قبول کر۔” [ابراہیم: 40]

جب اللہ تعالی نے حکم دیا کہ ابراہیم اپنی بیوی کو اور اپنے بیٹے کو بیت اللہ کے پاس جنگل بیابان میں چھوڑ دو تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم کی تعمیل کی اور وہاں چھوڑ دیا اور اس کا مقصد یہ بیان کیا ؛

رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ

اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی کچھ اولاد کو اس وادی میں آباد کیا ہے، جو کسی کھیتی والی نہیں، تیرے حرمت والے گھر کے پاس، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ سو کچھ لوگوں کے دل ایسے کر دے کہ ان کی طرف مائل رہیں اور انھیں پھلوں سے رزق عطا کر، تاکہ وہ شکر کریں۔ [ابراھیم: 37]

اولاد کے لئے اچھے ماحول کا انتخاب کیا کہ یہاں رہیں تاکہ نماز ادا کریں۔

7۔ صرف اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنا ہے

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت سے ساتواں سبق ہمیں یہ ملتا ہے کہ وہ صرف رب تعالیٰ کا خوف دل میں رکھنے والے تھے، اسی لیے تو قوم سے برملا فرما دیا کہ اے لوگو! میں تمہارے جھوٹے خداؤں سے بالکل خائف نہیں ہوں، تم بلا دلیل انہیں رب کا شریک بنا کر ان سے ڈرتے پھرتے ہو اور رب ذوالجلال سے نہیں ڈرتے، قرآن کریم کے الفاظ درجہ ذیل ہیں:

وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ ۚ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللّٰهِ  وَقَدْ هَدَانِ ۚ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَن يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا  وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًاۗ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ  وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُم بِاللّٰهِ  مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا ۚ فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ

’’ابراہیم (علیہ السلام) سے ان کی قوم جھگڑا کرنے لگی تو انہوں نے کہا: کیا تم اللہ کے بارے میں مجھ سے جھگڑا کرتے ہو حالانکہ وہ مجھے ہدایت دے چکا ہے، میں ان سے نہیں ڈرتا جنہیں تم اللہ کا شریک بناتے ہو ہاں اگر میرا پروردگار چاہے (تو وہ اور بات ہے) میرے پروردگار کے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ میں تمہارے شریکوں سے کیسے ڈروں، جب کہ تم بلا دلیل لوگوں کو اللہ کا شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے، اگر جانتے ہو تو، دو فریقوں (تمہارے اور ہمارے) میں سے کون امن کا زیادہ مستحق ہے؟‘‘ [آل عمران: 175]

معلوم ہوا کہ مشرک رب کی بجائے اپنے شریکوں کا خوف دل میں زیادہ رکھتا ہے، اپنے پیرومرشد کے رنج و غصہ سے بچتا ہے، اس کی ناراضگی کو اپنے لیے دنیا و آخرت کی ناکامی سمجھتا ہے، ان سے ہر وقت ڈرتا ہے کہ کہیں حضرت صاحب ناراض ہو گئے تو میرے مال و جان کی خیر نہیں، میری اولاد میرا رزق مجھ سے چھن جائے گا، جبکہ موحد آدمی ان سب چیزوں کو شرک سمجھتے ہوئے صرف رب کا خوف دل میں رکھتا ہے، اسی لیے وہ بڑی بڑی طاغوتی قوتوں سے ٹکرا جاتا ہے اور بڑی بڑی سپر پاوروں کو جوتے کی نوک سے ٹھوکر لگانا جانتا ہے، کیونکہ وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو مقتدر اعلیٰ سمجھتا ہے دنیا کی کسی ہستی کو خیروشر کا خالق نہیں سمجھتا۔

یہی ایمانی غیرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے سینے میں موجود تھی تو باطل کے ایوانوں میں اکیلے تہلکا مچا دیتے تھے اور ہر پیغمبر اور مومن کا یہی شیوہ ہے کہ صرف رب کا خوف اور باقی سب سے بے خوف اور یہی ایمان کا تقاضا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں یہ مضمون کثرت سے بیان ہوا ہے، دو مقامات پیش خدمت ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللّٰهِ  وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللّٰهَ وَكَفَىٰ بِاللّٰهِ  حَسِيبًا

’’وہ اللہ تعالیٰ کی رسالت کو پہنچاتے ہیں اور صرف اللہ سے ڈرتے ہیں، اللہ کے علاوہ کسی سے بھی نہیں درتے اور حساب و کتاب کے لیے اللہ ہی کافی ہے‘‘۔ [الاحزاب: 39]

اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں سب طاغوتی قوتیں اکٹھی ہو جائیں اور اپنے جتھوں اور طاقتوں سے تمہیں دھمکا رہے ہوں تو بھی ان سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں اگر مومن بننا چاہتے ہو تو پھر ان سے بالکل نہ ڈرو صرف مجھ سے ڈرو فرمایا؛

إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

یعنی: ’’یہ شیطان ہے جو تمہیں اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے لہٰذا اگر تم مومن ہو تو ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ہی ڈرو‘‘۔ [آل عمران: 175]

کہ تم نے اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی پس اگر تم خبر رکھتے ہو تو بتاؤ کہ ان دو جماعتوں میں سے امن کا مستحق کون ہے‘‘۔

8۔ نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرناہے

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت طیبہ سے آٹھواں سبق ہمیں یہ ملتا ہے کہ اپنے رب کی شکرگزاری کی جائے کیونکہ آپ علیہ السلام ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کے شکرگزار رہے، قرآن کریم سے دو مقامات ملاحظہ فرمائیں:

❄ الْحَمْدُ للّٰهِ  الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ

’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے کے باوجود اسماعیل اور اسحاق نصیب فرمائے۔ بلاشبہ میرا رب دعاؤں کو ضرور سنتا ہے‘‘۔ [ابراہیم: 39]

❄ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا للّٰهِ  حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ شَاكِرًا لِّأَنْعُمِهِ ۚ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

’’بیشک ابراہیم علیہ السلام یکسو ہو کر اللہ کی فرمانبرداری کرنے والے مقتدیٰ تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کے شکرگزار تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں منتخب فرما لیا اور سیدھے راستہ کی طرف رہنمائی فرما دی‘‘۔ [النحل: 121-120]

آج کتنے انسان ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بھلا دیتے ہیں، نعمتیں ملیں تو غافل ہو گئے، اگر چھن گئیں تو ناشکری اور کفر کے کلمے بول دیے۔

وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَىٰ بِجَانِبِهِ ۖ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَئُوسًا

’’جب ہم انسان کو نعمتیں دیتے ہیں تو اعراض کر لیتا ہے اور پہلوتہی کرتا ہے اور جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ مایوس ہو جاتا ہے‘‘۔ [الاسراء: 83]

اسی طرح انسان کی اکثریت کا حال یہ ہے، فرمایا؛

وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ

’’اور میرے بندوں میں سے تھوڑے ہی شکرگزار ہیں‘‘۔ [سباء: 13]

دوسرے مقام پر فرمایا؛

وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ

’’لیکن اکثر لوگ شکرگزاری نہیں کرتے‘‘۔ [یوسف: 38]

حالانکہ اللہ تعالیٰ تو غنی ہے اسے انسان کے شکریہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا؛

وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ

’’جو کوئی شکرگزاری کرے گا، وہ اپنے لیے کرے گا اور جو ناشکری کرے گا تو اللہ بڑا بے پروہ تعریف کیا گیا ہے‘‘۔ [لقمان: 12]

اور اسی طرح فرمایا ؛

لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ

’’اگر تم شکرگزاری کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بہت سخت ہے‘‘۔ [ابراہیم: 7]