سیدنا عثمان غنی: فضائل و خصائل

اہم عناصر :

❄ سیدنا عثمان غنیکا تعارف             ❄ سیدنا عثمان غنیکے فضائل

❄سیرتِ عثمانی کے چند قابلِ عمل گوشے             ❄ شہادت سیدنا عثمان غنی

إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم لَّقَدْ رَضِيَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا [الفتح :18]

ذی وقار سامعین!

ہمارے نبی جناب محمد رسول اللہ ﷺ جب اسلام کا پیغام لے کر مکہ میں آئے تو چند ایک کو چھوڑ کر باقی نے آپ کی پر زور مخالفت کی اور آپ کی دعوت کو روکنے کے لیے ہر طرح کا جتن کیا ۔ لیکن دھیرے دھیرے اللہ تعالیٰ کی مشیت سے آپ کے ارد گرد آپ کے ماننے والوں اور آپ کی رسالت کی تصدیق کرنے والوں کی تعداد بڑھتی گئی اور اس طرح اسلام کی یہ روشنی کفر وشرک کی ظلمتوں کو چاک کر کے مکہ اور مکہ سے باہر تک پھیلتی گئی ۔ اور جب ۲۳  سال تک دعوت وتبلیغ کا کام کرنے کے بعد آپ اس دنیائے فانی کو خیر باد کہہ رہے تھے تو ایک لاکھ سے زائد کی تعداد آپ کی دعوت کو لبیک کہہ چکی تھی۔                                      کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو اسلام کے بنیادی مصادر ماننے والی اس امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد آپ کے یہ اصحاب مجموعی طور پر اس امت کے سب سے افضل لوگ ہیں ، اور ان میں سب سے افضل خلیفہ او ل ابو بکر ، ان کے بعد خلیفہ دوم عمر اور ان کے بعد خلیفہ سوم حضرت عثمان ہیں ۔ یہ حضرات سابقین اولین میں سے ہیں اور انہیں متعدد بار اللہ کے رسول ﷺ نے جنت کی بشارت دی ہے ۔ در حقیقت ان مبارک ہستیوں نے اسلام اور نبی اسلام کے لیے اپنے تن، من، دھن کی بازی لگا دی تھی اور فدائیت کی ایسی مثال قائم کر دی کہ اس کی نظیر ملنی مشکل ہے ۔ ان کے مناقب وفضائل سے کتابیں بھری پڑی ہیں ، اور اس سے بڑھ کر یہ کہ قرآن کریم کی بہت ساری آیتیں ان کے مقام ومرتبے کی گواہ ہیں جن کو رہتی دنیا تک لوگ پڑھتے رہیں گے ۔

آج کے خطبہ جمعہ ہم اللہ کے فضل وکرم سے سیدنا عثمان غنی﷜کے تعارف ، فضائل اور ان کی شہادت کے بارے میں چند باتیں سمجھیں گے؛

سیدنا عثمان غنی ﷜کا تعارف
نام ونسب ، کنیت اور لقب:

عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبدمناف بن قصی بن کلاب۔ اس طرح عبدمناف پر آپ کا سلسلہ نسب رسول اللہ ﷺ کے سلسلہ نسب میں جا ملتا ہے۔ آپ کی والدہ ارویٰ بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبدشمس بن عبدمناف بن قصی ہیں۔

اورآپ کی نانی ام حکیم بیضاء بنت عبدالمطلب ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے والد عبداللہ کی سگی بہن تھیں، اور زبیر بن بکار کی روایت کے مطابق دونوں جڑواں پیدا ہوئے تھے۔ اس طرح عثمان ﷜رسول اللہ ﷺ کے پھوپھی زاد بہن کے لڑکے تھے، اور رسول اللہ ﷺ آپ کی والدہ کے ماموں زاد بھائی تھے۔ آپ کی والدہ مشرف بہ اسلام ہوئیں اور آپ کی خلافت میں وفات پائی اور آپ ہی انہیں قبرستان لے گئے۔[الخلافۃ الراشدۃ والدولۃ الأمویۃ ص: 388]

آپ کے والد دور جاہلیت ہی میں وفات پا چکے تھے۔

دور جاہلیت میں آپ کی کنیت ابو عمرو تھی، لیکن جب آپ کی زوجیت میں رقیہ بنت رسول اللہ آئیں اور ان کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبداللہ رکھا گیا اس وقت سے آپ نے ابوعبداللہ کی کنیت اختیار کی اور مسلمانوں نے اسی کنیت سے آپ کو یاد کرنا شروع کر دیا۔

عثمان ﷜کو ذوالنورین کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا، علامہ بدر الدین عینی بخاری کی شرح میں لکھتے ہیں:

’’اس لیے کہ آپ کے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جس کی زوجیت میں نبی کی دو بیٹیاں آئی ہوں۔‘‘[عمدۃ القاری: 2016]

’’مہلب بن ابی صفرہ سے پوچھا گیا کہ عثمان ﷜کو ذوالنورین کیوں کہا گیا؟ تو انہوں نے فرمایا:

عبداللہ بن عمر بن ابان جعفی کہتے ہیں، مجھ سے میرے ماموں حسین الجعفی نے کہا: تمہیں معلوم ہے کہ عثمان ﷜کو ذوالنورین کیوں کہا گیا؟ میں نے عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: جب سے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اس وقت سے لے کر قیامت تک عثمان ﷜کے علاوہ کسی کی زوجیت میں نبی کی دوبیٹیاں نہیں آئیں۔ اسی لیے آپ کو ذوالنورین سے ملقب کیا گیا۔[سنن البیہقی: 737]

ولادت:

 آپ صحیح قول کے مطابق مکہ میں عام الفیل کے چھ سال بعد پیدا ہوئے۔ بعض لوگوں نے مقام ولادت طائف قرار دیا ہے۔ آپ رسول اللہ ﷺ سے تقریباً پانچ سال چھوٹے تھے۔

قبولِ اسلام :

جس وقت ابوبکر ﷜نے آپ کو اسلام کی دعوت پیش کی اس وقت آپ کی عمر چونتیس (۳۴) سال تھی۔ اس دعوت پر آپ نے کوئی لیت و لعل نہ کیا بلکہ ابوبکر ﷜کی دعوت پر فوراً لبیک کہا اور سابقین اولین کی سنہری فہرست میں داخل ہو گئے۔ چنانچہ ابو اسحاق کا بیان ہے: ابو بکر، علی اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم کے بعد سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے عثمان ﷜تھے۔ اس طرح مردوں میں چوتھے نمبر پر اسلام قبول کرنے والے آپ تھے۔ [السییرۃ النبویۃ ابن ہشام]

سیدنا عثمان غنی ﷜کے فضائل

سیدنا عثمان غنی﷜کے بہت سارے فضائل ہیں۔ چند ایک پیشِ خدمت ہیں:

زبانِ نبوت سے شہید کا لقب ملا:

❄حضرت انس بن مالک ﷜سے روایت ہے کہ ایک دن نبی ﷺاحد پہاڑ پر تھے،آپ کے ساتھ ابوبکر،عمر اور عثمان بھی تھے ،اتنے میں پہاڑ تھرتھرانے لگا۔نبی ﷺ نے فرمایا ؛

اسکن أحد، فلیس علیک إلا نبي وصدیق وشہیدان

” اے احد !ٹھہر جا،کیونکہ تیرے اوپر ایک نبی،ایک صدیق ،اور دو شہید موجود ہیں۔”[بخاری: 3699]

❄حضرت ابوہریرہ ﷜سے روایت ہے کہ ایک روز نبی اکرم ﷺ حراء پہاڑ پر تھے، آپ کے ساتھ ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم بھی تھے، اتنے میں چٹان حرکت کرنے لگی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛

اہدأ فما علیک إلا نبي أو صدیق أو شہید

"تھم جاؤ، کیونکہ تمہارے اوپرنبی، صدیق، اور شہید ہیں۔”[مسلم: 2417]

زبانِ نبوت سے بارہا جنت کی بشارت ملی:

❄ حضرت ابو موسیٰ ﷜فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مدینہ کے ایک باغ میں تھا، ایک شخص آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ان کے لیے دروازہ کھول دو، اور انہیں جنت کی خوشخبری دے دو، میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ابو بکر ہیں، میں نے فرمان نبوی کے مطابق انہیں خوشخبری سنائی تو انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا، پھر ایک شخص آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ان کے لیے بھی دروازہ کھول دواور انہیں جنت کی بشارت دے دو، میں نے دروازہ کھولا تو دیکھاکہ عمر ہیں، میں نے ان کو فرمان نبوی کی خبر دی تو انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا، پھر ایک تیسرے آدمی آئے اور دروازہ کھٹکھٹایاتو آپ نے مجھ سے کہا ؛

افتح لہ وبشرہ بالجنۃ علی بلوی تصیبہ

"ان کے لیے دروازہ کھول دواور انہیں جنت کی خوشخبری دے دوایک مصیبت کے بعد جو ان پر آئے گی۔ "

دیکھا تو وہ عثمان تھے۔ میں نے انہیں اللہ کے رسول کی فرمائی ہوئی بات کی خبر دی، انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا کہ اللہ مدد فرمائے۔ [بخاری: 3693]

❄عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَخْنَسِ، أَنَّهُ كَانَ فِي الْمَسْجِدِ، فَذَكَرَ رَجُلٌ عَلِيًّا- عَلَيْهِ السَّلَام-، فَقَامَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ: أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي سَمِعْتُهُ وَهُوَ يَقُولُ:عَشْرَةٌ فِي الْجَنَّةِ: النَّبِيُّ فِي الْجَنَّةِ: وَأَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ، وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدُ بْنُ مَالِكٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ. وَلَوْ شِئْتُ لَسَمَّيْتُ الْعَاشِرَ! قَالَ: فَقَالُوا: مَنْ هُوَ؟ فَسَكَتَ، قَالَ: فَقَالُوا: مَنْ هُوَ؟ فَقَالَ: هُوَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ.

ترجمہ : جناب عبدالرحمٰن بن الاخنس سے روایت ہے کہ  وہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے جب ایک شخص نے سیدنا علی﷜ کا ذکر کیا تو سیدنا سعید بن زید ﷜کھڑے ہوئے اور کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ، آپ ﷺ فرماتے تھے : ” دس اشخاص جنت میں ہیں ۔ نبی ﷺ جنت میں ہیں ، ابوبکر جنت میں ہیں ، عمر جنت میں ہیں ، عثمان جنت میں ہیں ، علی جنت میں ہیں ، طلحہ جنت میں ہیں ، زبیر بن عوام جنت میں ہیں ، سعد بن مالک جنت میں ہیں اور عبدالرحمٰن بن عوف جنت میں ہیں ۔ “ اگر میں چاہوں تو دسویں کا نام بھی لے سکتا ہوں ۔ لوگوں نے پوچھا وہ کون ہے ؟ تو وہ خاموش ہو رہے ۔ لوگوں نے پوچھا : وہ کون ہے تو انہوں نے کہا : وہ سعید بن زید ہے ۔ [ابوداؤد: 4649 صححہ الالبانی]

❄سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھا

 إذ جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فصافحه، فلم ينزع النبي صلى الله عليه وسلم يده من يد الرجل حتى انتزع الرجل يده ثم قال له‏:‏ يا رسول الله جاء عثمان، قال‏:‏ ‏”‏امرؤ من أهل الجنة‏”‏‏.

اتنے میں ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے مصافحہ کیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس وقت تک اپنا ہاتھ اس آدمی کے ہاتھ سے نہیں چھڑایا جب تک اس آدمی نے اپنا ہاتھ نہیں چھڑایا پھر رسول اللہ ﷺ سے کہنے لگے کہ عثمان آگیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ (عثمان) جنتی آدمی ہیں ۔ [رواه الطبراني في الأوسط والكبير 14530وإسناده حسن‏]

❄غزوہِ تبوک کے موقع پر جیشِ عسرہ کی تیاری کے وقت مسجدِ نبوی کے اندر جب رسول اللہ ﷺ نے اعلان  فرمایا:

مَنْ جَهَّزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَلَهُ الْجَنَّةُ

"جو شخص جیشِ عسره کو ساز و سامان سے لیس کر دے گا تو اسے جنت کی بشارت ہے ۔”

توعثمان رضی الله نے ہی اسے مسلح کیا تھا۔[بخاری: 2778]

❄ایک مرتبہ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم ﷺ کے پاس گئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول! ہمیں کوئی جنتی آدمی دکھلائیے۔ آپ نے فرمایا؛

النبي من أھل الجنۃ وابوبکر وعمر من أھل الجنۃ وعثمان من اہل الجنۃ

’’نبی جنتی ہیں، ابو بکر وعمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہیں‘‘[فضائل الصحابہ للامام احمد بن حنبل: حدیث نمبر 557 بإسناد حسن]

❄سیدناعبداللہ بن مسعود ﷜بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛

القائِمُ بعدِي في الجنةِ ، والّذي يقومُ بعدَهُ في الجنةِ ، والثالثُ والرابِعُ في الجنةِ

‏‏‏‏            "میرے بعد شریعت پرعمل پیرا ہونے والا جنت میں جائے گا اور اس کے بعد شریعت کو اپنانے والا اور اس کے بعد تیسرے دور کا آدمی اور اسکے بعد چوتھے دور کا آدمی سب جنت میں داخل ہوں گے۔” [سلسلہ صحیحہ: 2319]

اس حدیث سے مراد خلفاءِ اربعہ ہیں اور تیسرے سے مراد حضرت عثمان ﷜ہیں۔

بدری صحابی:

سیدنا عثمان غنی﷜غزوہ بدر میں شریک نہیں  ہوسکے تھے ، اس کے باوجود ان کو بدری صحابہ والا مقام اور مرتبہ ملا۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں موجود ہے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: إِنَّمَا تَغَيَّبَ عُثْمَانُ عَنْ بَدْرٍ، فَإِنَّهُ كَانَتْ تَحْتَهُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ مَرِيضَةً، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لَكَ أَجْرَ رَجُلٍ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا وَسَهْمَهُ»

ترجمہ: سیدنا ابن عمر ﷜سے روایت ہے کہ حضرت عثمان ﷜بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہو سکے تھے ۔ ان کے نکاح میں رسول کریم ﷺ کی ایک صاحبزادی تھیں اور وہ بیمار تھیں ۔ ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا بدر میں شریک ہونے والے کسی شخص کو ‘ اور اتنا ہی حصہ بھی ملے گا ۔ [بخاری: 3130]

یہ عثمان کا ہاتھ ہے:

جب رسول اللہ ﷺ کو بیعتِ رضوان کا حکم دیا گیا تو عثمان بن عفان ﷜رسول اللہ ﷺ کے قاصد بن کر اہلِ مکہ کے پاس گئے ہوئے تھے۔ بیعت لیتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا :

هذِه يَدُ عُثْمانَ. فَضَرَبَ بها علَى يَدِهِ، فقالَ: هذِه لِعُثْمانَ.

"یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔ اور پھر اسے اپنے بائیں ہاتھ پر مار کر فرمایا: یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے۔” [بخاري: 3698 ]

بیعتِ رضوان ایک ایسی بیعت تھی جو صرف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کے لیے لی گئی ۔

بیعتِ رضوان اور اس میں شریک صحابہ کی بہت زیادہ فضیلت ہے:

❄حضرت جابر ﷜سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لا يَدْخُلُ النارَ أحدٌ ممَن بايعَ تحتَ الشجرةِ.

ان لوگوں میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہو گا جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی (یعنی صلح حدیبیہ کے وقت بیعتِ رضوان میں شریک رہے) [صحيح أبي داود: 4653 ]

❄یہ وہ عظیم بیعت تھی جس پر خود رب العزت کی طرف سے خوشنودی کا اظہار کیا گیا اور قرآنِ پاک میں آیت نازل فرما دی :

لَّقَدْ رَضِيَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا

"یقیناً اللہ مومنوں سے راضی ہوگیا جب وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے پس وہ جان گیا اس اخلاص کو جو ان کے دلوں میں تھا اس لئے ان پر سکون و اطمینان نازل کیا اور بطورِ جزا ایک قریبی فتح سے نوازا۔” [الفتح :18]

یہ آیت ان اصحابِ بیعتِ رضوان کے لیے رضائے الٰہی اور ان کے پکے سچے مومن ہونے کا سرٹیفکیٹ ہے جنہوں نے حدیبیہ میں ایک درخت کے نیچے اس بات پر بیعت کی کہ وہ قریشِ مکہ سے لڑیں گے اور راہِ فرار اختیار نہیں کریں گے۔

❄عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما  کو یہ کہتے سنا کہ:

قالَ لَنَا رَسولُ اللہِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَومَ الحُدَيْبِيَةِ: أنتُمْ خَيْرُ أهْلِ الأرْضِ. وكُنَّا ألْفًا وأَرْبَعَ مِئَةٍ، ولو كُنْتُ أُبْصِرُ اليومَ لَأَرَيْتُكُمْ مَكانَ الشَّجَرَةِ.

ترجمہ: حدیبیہ کے دن رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا :  تم زمین والوں میں سب سے بہتر ہو۔ اور (اس وقت) ہم چودہ سو تھے اور اگر آج مجھے دکھائی دیتا ہوتا تو میں تمہیں اس درخت کی جگہ دکھاتا۔ [بخاري: 4154 ]

❄ام مبشر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ؛

لَا يَدْخُلُ النَّارَ، إِنْ شَاءَ اللہُ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ أَحَدٌ الَّذِيْنَ بَايَعُوْا تَحْتَهَا

’’ان شاء اللہ اس درخت والوں میں سے کوئی بھی آگ میں داخل نہیں ہو گا جنہوں نے اس کے نیچے بیعت کی۔‘‘ [مسلم: 2494 ]

❄حضرت جابر ﷜بیان کرتے ہیں کہ حاطب ﷜کا ایک غلام حاطب ﷜کی شکایت لے کر آیا اور کہنے لگا : ’’یا رسول اللہ! حاطب ضرور آگ میں داخل ہو گا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ؛

كَذَبْتَ لَا يَدْخُلُهَا فَإِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا وَالْحُدَيْبِيَةَ

ترجمہ: تو نے غلط کہا وہ آگ میں داخل نہیں ہو گا کیونکہ اس نے تو بدر اور حدیبیہ میں شرکت کی ہے۔‘‘ [مسلم: 2495]

❄حضرت جابر ﷜بیان کرتے ہیں ؛

كُنَّا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ أَلْفًا وَ أَرْبَعَ مِائَةٍ فَبَايَعْنَاهُ وَعُمَرُ آخِذٌ بِيَدِهِ تَحْتَ الشَّجَرَةِ وَهِيَ سَمُرَةٌ

ہم حدیبیہ کے دن چودہ سو تھے۔ ہم نے آپ ﷺ سے بیعت کی اور عمر ﷜درخت کے نیچے آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور وہ کیکر کا درخت تھا۔‘‘ [مسلم: 1856 ]

دو مرتبہ ہجرت:

حضرت عثمان ﷜اسلامی تاریخ کی وہ عظیم ہستی ہیں جنہوں نے دینِ اسلام کے لیے صرف ایک بار نہیں بلکہ دو مرتبہ ہجرت کی ہے۔ عبیداللہ بن عدی بن خیار بیان کرتے ہیں کہ ؛

دَخَلْتُ علَى عُثْمانَ، فَتَشَهَّدَ ثُمَّ قالَ: أمَّا بَعْدُ، فإنَّ اللہَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بالحَقِّ، وكُنْتُ مِمَّنِ اسْتَجابَ لِلہِ ولِرَسولِهِ وآمَنَ بما بُعِثَ به مُحَمَّدٌ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، ثُمَّ هاجَرْتُ هِجْرَتَيْنِ، ونِلْتُ صِهْرَ رَسولِ اللہِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، وبايَعْتُهُ، فَواللہِ ما عَصَيْتُهُ ولا غَشَشْتُهُ حتَّى تَوَفَّاهُ اللہُ

"میں عثمان ﷜کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے حمد و شہادت پڑھنے کے بعد فرمایا : اما بعد ! کوئی شک و شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا۔ میں بھی ان لوگوں میں تھا جنہوں نے اللہ اور اسکے رسول کی دعوت پر ( ابتدا ہی میں ) لبیک کہا اور میں ان تمام چیزوں پر ایمان لایا جنہیں رسول اللہ ﷺ لے کر مبعوث ہوئے تھے ۔ پھر میں نے دو ہجرتیں کیں اور حضورِ اکرم ﷺ کی دامادی کا شرف مجھے حاصل ہوا اور حضور ﷺ سے میں نے بیعت کی ۔ اللہ کی قسم ! میں نے آپ ﷺ کی نہ کبھی نا فرمانی کی اور نہ کبھی آپ سے دھوکہ بازی کی یہاں تک کہ آپ کا انتقال ہو گیا ۔” [بخاري: 3927 ]

سیدنا عثمان غنی﷜صحابہ کی نظر میں:

❄حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہم لوگ کہا کرتے تھے کہ اس امت میں نبی کریم ﷺ کے بعد سب سے افضل ابو بکر ہیں، پھرعمر، پھر عثمان، یہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچتی تھی مگر آپ اس کا انکار نہیں کرتے۔[فضائل الصحابہ للامام احمد بن حنبل: روایت نمبر 857 بإسناد صحیح لغیرہ]

❄حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ؛

لاتسبوا عثمان فإنا کنا نعدہ من خیارنا

’’عثمان کو برا بھلا مت کہو، ہم تو ان کو اپنے بہترین لوگوں میں شمار کرتے تھے۔ [فضائل الصحابہ: روایت نمبر ۷۷۴ باسناد صحیح]

❄محمد بن حاطب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی ﷜کو فرماتے ہوئے سنا؛

 إن الذین سبقت لہم منا الحسنی أولئک عنھا مبعدون [الانبیاء:۱۰۱]

 ’’بے شک جن کے لیے ہماری طرف سے نیکی پہلے ہی ٹھہر چکی ہے وہ سب جہنم سے دور ہی رکھے جائیں گے‘‘

 ان ہی میں سے عثمان ہیں۔[فضائل الصحابہ للامام احمد بن حنبل: حدیث نمبر 771 بإسناد صحیح]

سیرتِ عثمانی کے چند قابلِ عمل گوشے

سیدنا عثمان غنی﷜کی زندگی ہمارے لئے نمونہ ، مثال اور ماڈل ہے ، اب ہم سیرتِ عثمانی کی چند باتیں آپ کے سامنے رکھیں گے جن پر عمل کرکے زندگیاں سنواری جا سکتی ہیں۔

1۔ شرم و حیاء:

❄ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ کے گھر میں لیٹے ہوئے تھے، اس وقت آپ کے زانو یا پنڈلیاں کھلی ہوئی تھیں، حضرت ابو بکر ﷜نے اندر آنے کی اجازت چاہی، آپ نے اسی حالت میں اجازت دے دی، پھر حضرت عمر ﷜آئے انہیں بھی اسی حالت میں اندر آنے کی اجازت دے دی، پھر حضرت عثمان ﷜نے اندر آنے کے لیے اجازت طلب کی، تو اللہ کے رسول ﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنا کپڑا درست کرلیا۔ یہ دیکھ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کی وجہ دریافت کی، آپ نے فرمایا؛

ألا أستحیي من رجل تستحیي منہ الملائکۃ

"کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔”[مسلم: 2401]

❄حضرت انس ﷜سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری امت کے ساتھ سب سے زیادہ رحم دلی کرنے والے امتی ابوبکر ہیں اور اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے سخت عمر ہیں،’’واصدقہم حیاء عثمان‘‘ اور ان میں سب سے سچے حیا دار عثمان ہیں۔۔۔۔۔[ترمذی: 3791 صححہ الالبانی]

2۔ سخاوت:

سیدنا عبدالرحمٰن بن سمرہ ﷜سے روایت ہے کہ جب نبی ﷺ جہاد (جیش العسرۃ) کی تیاری کر رہے تھے تو (سیدنا) عثمان ﷜اپنی آستین میں ایک ہزار دینار لے آئے اور انھیں آپ ﷺ کی جھولی میں ڈال دیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ انھیں جھولی میں الٹ پلٹ رہے تھے اور فرما رہے تھے؛

ماضر عثمان ما عمل بعد الیوم

"آج کے بعد عثمان جو بھی عمل کریں انھیں نقصان نہیں ہو گا۔” [ترمذی: 3701 حسنہ الالبانی]

صبر واستقامت:

عثمان رضی اللہ عنہ صفت صبر سے متصف تھے، آپ کے ان مواقف میں سے جو اس صفت پر دلالت کرتے ہیں فتنہ کے دور میں آپ کا ثابت قدم رہنا ہے، اس وقت جب کہ آپ اور دیگر مسلمانوں پر مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے، اس کے مقابلہ میں آپ نے جو موقف اختیار کیا وہ فدائیت و قربانی کی ایسی اعلیٰ مثال ہے جسے ایک فرد جماعتی وجود، امت کی کرامت اور مسلمانوں کے خون کی حفاظت کی راہ میں پیش کر سکتا ہے، اگر آپ کو اپنی جان عزیز ہوتی اور امت کا وجود پیش نظر نہ ہوتا تو آپ کے لیے یہ ممکن تھا کہ آپ اپنی جان کو بچا لیتے، اور اگر آپ خود غرض ہوتے اور صرف اپنی ذات کی فکر ہوتی اور ایثار و قربانی کے جذبات سے سرشار نہ ہوتے تو بلوائیوں کے مقابلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ابنائے مہاجرین و انصار کو اپنی حفاظت اور دفاع میں لگا دیتے، لیکن آپ نے امت کے اتحاد کو برقرار رکھنا چاہا اس لیے انتہائی صبر و ثبات اور احتساب کے ساتھ اپنی جان کی قربانی پیش کر دی،اور اعلان کیا کہ میں صبر جمیل کے ساتھ اس عظیم فتنہ کا مقابلہ کروں گا۔ اس طرح اس آیت کریمہ پر آپ کا مکمل عمل رہا:

الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ

’’وہ لوگ کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلہ پر لشکر جمع کر لیے ہیں تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے ان کا ایمان اور بڑھا دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کار ساز ہے۔‘‘ [آل عمران: 173]

عثمان ﷜قوی ایمان، اعلیٰ ظرف، مؤثر بصیرت اور عظیم صبر کے مالک تھے، اور اسی وجہ سے آپ نے امت کی خاطر اپنی جان قربان کر دی، جو مسلمانوں کے نزدیک آپ کے عظیم ترین فضائل میں شمار ہوا۔

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’تو اتر سے یہ بات ثابت ہے کہ عثمان ﷜سب سے زیادہ خون سے بچنے والے، اور آپ کی عزت پر انگلی اٹھانے والوں اور آپ کے خون کے پیاسے لوگوں پر سب سے زیادہ صبر کرنے والے تھے،

چنانچہ جب شرپسندوں نے آپ کا محاصرہ کر لیا اور آپ کے قتل کے درپے ہو گئے اور آپ کو ان کے ارادئہ قتل کا بخوبی علم ہو گیا اور مسلمان آپ کی نصرت و تائید کے لیے پہنچے اور ان شرپسندوں سے قتال کرنے کا مشورہ دیا، تو آپ برابر انہیں قتال سے روکتے رہے، لوگوں نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ مکہ چلے جائیں تو آپ نے فرمایا: میں حرم میں الحاد کرنے والا نہیں بنوں گا۔ لوگوں نے کہا شام چلے جائیں۔ فرمایا: دار ہجرت کو نہیں چھوڑ سکتا۔ پھر آپ سے کہا گیا: تو پھر ان سے قتال کریں۔ فرمایا: محمد ﷺ کے بعد ان کی امت میں پہلا تلوار اٹھانے والا نہیں بنوں گا، اور پھر آپ نے اس قدر صبر کیا کہ قتل کر دیے گئے، آپ کا یہ کردار آپ کے عظیم ترین فضائل میں سے قرار پایا۔‘‘[منہاج السنہ]

شجاعت اور بہادری:

عثمان رضی اللہ عنہ انتہائی شجاع اور بہادر تھے، اس کی دلیل یہ ہے:

1۔آپ کا جہاد کے لیے نکلنا، اور تمام غزوات و معرکوں میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شرکت کرنا۔ رہا مسئلہ غزوہ بدر میں عدم شرکت کا تو اس کے جواب میں ہم یہ عرض کر چکے ہیں کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے حکم سے تھا، اور آپ ﷺ نے آپ کو غزوئہ بدر میں شرکت کرنے والوں میں سے شمار کیا، اور مال غنیمت میں آپ کے لیے حصہ مقرر فرمایا، اور ان شاء اللہ اجر و ثواب کے بھی مستحق بنے۔ پھر بھلا رسول اللہ ﷺ کی بات کے آگے کس کی بات ہو سکتی ہے۔

2۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے سفیر کی حیثیت سے قریش کے پاس جانا۔حدیبیہ کے موقع پر جس وقت رسول اللہ ﷺ نے آپ کو قریش کے پاس بحیثیت سفیر بھیجنا چاہا آپ نے برضا و رغبت آپ کے فرمان کو عملی جامہ پہنایا، حالاں کہ آپ کو بخوبی معلوم تھا کہ یہ مہم کس قدر خطر ناک ہے لیکن آپ کی شجاعت و بہادری تھی کہ آپ نے انکار نہ کیا اور سراپا اطاعت بن گئے، یقینا جو شخص ان سنگین حالات میں سفارت کو قبول کرے وہ انتہائی عظیم بہادر و شجاع اور نادر الوجود ہیرو ہی ہو سکتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ پر صحیح ہے کہ چوں کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا حکم تھا جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا تھا، اس لیے عثمان ﷜میں بھی انکار کی تاب نہ تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ اس واقعہ میں آپ کی شجاعت و بہادری بھی عیاں ہے کیوں کہ عام آدمی اور بزدل شخص اس اہم ذمہ داری کو ان حالات میں قبول نہیں کر سکتا۔

شہادتِ عثمان غنی ﷜

باغیوں نے مختلف الزامات لگا کر آپ کو معزول کرنے کی مہم چھیڑ رکھی تھی اور بار بار ان سے مسند خلافت سے کنارہ کش ہونے کا مطالبہ کررہے تھے، ادھر حضرت عثمان ﷜کو نبی اکرم ﷺ کی یہ وصیت بھی یاد تھی کہ اگر لوگ آپ سے اس خلعت کو اتارنے کا مطالبہ کریں جو اللہ تعالیٰ آپ کو پہنائے گا تو آپ اسے نہ اتاریں اور صبر کریں۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا؛

يا عثمانُ إنَّهُ لعلَّ اللہَ يقمِّصُكَ قميصًا ، فإن أرادوكَ على خَلعِهِ فلا تخلعهُ لَهُم

"اے عثمان ! شاید اللہ تمہیں کوئی کرتہ پہنائے اگر لوگ اسے اتارنا چاہیں تو تم اسے ان لوگوں کے لئے ہرگز نہ اتارنا۔” [صحيح الترمذي: 3705]

” کرتہ ” سے مراد خلافت ہے کہ اگر منافقین تمہیں خلافت سے دستبردار ہونے کو کہیں اور اس سے معزول کرنا چاہیں تو ایسا مت ہونے دینا کیونکہ اس وقت تم حق پر قائم رہو گے اور دستبرداری کا مطالبہ کرنے والے باطل پر ہوں گے. اللہ کے رسول ﷺ کے اسی فرمان کے پیشِ نظر عثمان ﷜نے شہادت کا جام پی لیا لیکن دستبردار نہیں ہوئے۔

اسی طرح آپ کی شہادت کے بارے میں متعدد بار اللہ کے رسول بتلاچکے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ :

ذَكرَ رسولُ اللہِ صلى الله عليه وسلم فتنةً فقالَ: يقتلُ فيها هذا مظلومًا. لعثمانَ

"رسول اللہ ﷺ نے ایک فتنے کا ذکر کیا تو فرمایا: ”اس فتنے میں عثمان بھی مظلوم قتل کیا جائے گا“  ( یہ بات آپ نے عثمان رضی الله عنہ کے متعلق کہی )  ۔” [صحيح الترمذي: 3708 ]

اس لیے حضرت عثمان ﷜نے خلافت سے دست بردار ہونے کے مطالبہ کو تسلیم نہیں کیا اور فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ کی وصیت کے مطابق آخری لمحہ تک صبر کروں گا۔

حضرت عثمان ﷜کے انکار پر باغیوں نے کاشانہ خلافت کا نہایت سخت محاصرہ کرلیا جو چالیس دن تک مسلسل قائم رہا، اس عرصہ میں اندر پانی تک پہنچانا جرم تھا۔ [الخلافۃ والخلفاء الراشدون، ص222 ]

 عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ أَشْرَفَ يَوْمَ الدَّارِ فَقَالَ أَنْشُدُكُمْ اللَّهَ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ زِنًا بَعْدَ إِحْصَانٍ أَوْ ارْتِدَادٍ بَعْدَ إِسْلَامٍ أَوْ قَتْلِ نَفْسٍ بِغَيْرِ حَقٍّ فَقُتِلَ بِهِ فَوَاللَّهِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا فِي إِسْلَامٍ وَلَا ارْتَدَدْتُ مُنْذُ بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا قَتَلْتُ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ فَبِمَ تَقْتُلُونَنِي

ترجمہ : ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہما جب باغیوں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کررکھاتھا توانہوں نے اپنے گھر کی چھت پر آکرکہا: میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم دیتاہوں، کیا تم نہیں جانتے ہو کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’ تین صورتوں کے سوا کسی مسلمان کا خون حلال نہیں: شادی کے بعدزناکرنا ، یااسلام لانے کے بعدمرتد ہوجانا، یا کسی کو ناحق قتل کرنا جس کے بدلے میں قاتل کوقتل کیاجائے ، اللہ کی قسم! میں نے نہ جاہلیت میں زناکیا ہے نہ اسلام میں، نہ رسول اللہﷺ سے بیعت کرنے کے بعد میں مرتدہواہوں اورنہ ہی اللہ کے حرام کردہ کسی نفس کا قاتل ہوں ، پھر (آخر) تم لوگ کس وجہ سے مجھے قتل کررہے ہو ؟۔ [ترمذی: 2158 صححہ الالبانی ]

صحابہ کرام اپنے لڑکوں کے ساتھ آپ کے پاس پہنچتے اور آپ کی طرف سے باغیوں سے مقابلہ کرنے کی اجازت چاہتے، مگر سب کو آپ نے سختی سے منع کردیا، اور سخت اصرار کے باوجود کسی کو قتل و خونریزی کی اجازت نہ دی۔ آپ ہر لمحہ اپنی شہادت کے واقعہ کے منتظر تھے، جس دن شہادت ہونے والی تھی خواب میں رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ فرمارہے ہیں کہ آج آپ ہمارے ساتھ افطار کریں گے۔   [مستدرک حاکم: 4554]

ادھر باغیوں نے مکان پر حملہ کردیا، حضرت حسن جو دروازے پر متعین تھے مدافعت میں زخمی ہوگئے، باغیوں نے اندر پہنچ کر تلاوت کی حالت میں ہی ان پر حملہ کر دیا، شہادت کا خون قرآن کریم کی اس آیت پر پڑا:

فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰه ، وَھُوَ السّمِیْعُ الْعَلِیْمُ [البقرہ:137 ]

راجح قول کے مطابق یہ ذی الحجۃ ۳۵ ؁ھ کی اٹھارہ تاریخ تھی، اور جمعہ کا دن تھا۔ [تاریخ الطبری: 4355]

شمسی اعتبار سے 656ء کا سال تھا۔ شہادت کے وقت حضرت عثمان ۸۲ برس کے تھے۔ رضی اللّٰه عنہ وارضاہ۔