سیدنا عمرفاروق: فضائل و خصائل

اہم عناصر :
❄ سیدنا عمرفاروق کا تعارف ❄ سیدنا عمرفاروق کے فضائل
❄سیرتِ فاروقی کے چند قابلِ عمل گوشے ❄ شہادت سیدنا عمرفاروق
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا [الفتح: 29]
ذی وقار سامعین!
اللہ تعالیٰ نے نبیﷺکو جو أصحاب اور ساتھی عطا فرمائے ان کی عظمت اور فضیلت بہت زیادہ ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
"محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، تو انھیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی، کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔ [الفتح: 29]
ان عظیم لوگوں میں سے آج ہم مراد رسول اور خلیفہ دوم حضرت عمرفاروق کے تعارف ، فضائل اور ان کی شہادت کے بارے میں چند باتیں سمجھیں گے؛
سیدنا عمر فاروق کا تعارف
نام و نسب، کنیت اور لقب:
آپ کا نام و نسب یہ ہے:’’عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزیٰ بن ریاح بن عبد اللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لؤی بن غالب القرشی العدوی۔‘‘
آپ کا نسب کعب بن لؤی بن غالب پر نبی اکرم ﷺ کے نسب نامہ سے جا ملتا ہے۔
آپ کی کنیت ابوحفص ہے۔ آپ کا لقب فاروق ہے۔ اس لیے کہ آپ نے مکہ مکرمہ میں جب اسلام قبول کیا تو اس کے ذریعہ سے اللہ نے کفر اور ایمان کے درمیان کھلی جدائی کردی۔
ولادت:
سیدنا عمر عام الفیل کے تیرہ (۱۳) سال بعد پیدا ہوئے۔
قبولِ اسلام:
ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ اللہ سے دعا کر تے تھے:
اَللّٰھُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ ھٰذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ إلَیْکَ: بِأَبِيْ جَھْلٍ أَوْ بِعُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ
اے اللہ! ان دو آدمیوں: ابو جہل اور عمر بن خطاب میں سے جو تیرے نزدیک محبوب ہے، اس کے ساتھ اسلام کو عزت دے یعنی اسے مسلمان کر دے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کہ عمر اللہ کے نزدیک محبوب ترین تھے۔[ترمذی: 3681 صححہ الالبانی]
اس نبوی دعا کے نتیجے میں مرادِ رسول امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ
مَا زِلْنَا أَعِزَّةً مُنْذُ أَسْلَمَ عُمَرُ
جب عمر نے اسلام قبول کر لیا تو ہم اس وقت سے برابر عزت میں (غالب) رہے۔[بخاری: 3684]
سیدنا عمر فاروق کے فضائل
اس امت کے الہام یافتہ:
سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
إِنَّہٗ قَدْکَانَ فِیْمَا مَضٰی قَبْلَکُمْ مِنَ الْأُمَمِ مُحَدَّثُوْنَ، وَإِنَّہٗ إِنْ کَانَ فِيْ أُمَّتِيْ ھٰذِہٖ مِنْھُمْ أَحَدٌ فَإِنَّہٗ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ
"بے شک اگلی امتوں میں محدثون (جنھیں الہام و کشف حاصل تھا) ہوتے تھے اور اگر اس اُمت میں اُن میں سے کوئی (محدث) ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتے۔” [صحیح بخاری: 3469]
شیطان بھاگ جاتا ہے:
❄نبی ﷺ نے سیدنا عمر سے فرمایا؛
إِنَّ الشَّيْطَانَ لَيَخَافُ مِنْكَ يَا عُمَرُ
اے عمر! بے شک شیطان تجھ سے ڈرتا ہے۔ [ترمذی: 3690 صححہ الالبانی]
❄دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
إِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى شَيَاطِينِ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ قَدْ فَرُّوا مِنْ عُمَرَ
"میں دیکھ رہا ہوں کہ جنات کے شیطان اور انسانوں کے شیطان سب (سیدنا) عمر سے بھاگ گئے ہیں۔” [ترمذی: 3691 صححہ الالبانی]
❄آپ ﷺ نے سیدنا عمر سے فرمایا؛
إِيهًا يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ سَالِكًا فَجًّا قَطُّ إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ
"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اے (عمر) ابن الخطاب! تُو جس راستے پر چل رہا ہو تو شیطان اس راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے پر بھاگ جاتا ہے۔” [بخاری: 3683 ]
دل و زبان پر حق جاری:
❄رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
إِنَّ اللہَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَی لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِہٖ [صحیح ابن حبان، موارد: 2184 وسندہ صحیح]
"بے شک اللہ نے عمر کے دل و زبان پر حق جاری کر رکھا ہے۔”
❄عَنْ غُضَیْفِ بْنِ الْحَارِثِ، أَنَّهُ مَرَّ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ: نِعْمَ الْفَتٰی غُضَیْفٌ، فَلَقِیَهُ أَبُو ذَرٍّ فَقَالَ: أَیْ أُخَیَّ اسْتَغْفِرْ لِی، قَالَ: أَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی للّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتَ أَحَقُّ أَنْ تَسْتَغْفِرَ لِی، فَقَالَ: إِنِّی سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَقُولُ: نِعْمَ الْفَتٰی غُضَیْفٌ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ اللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ ضَرَبَ بِالْحَقِّ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ)) قَالَ عَفَّانُ: عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ یَقُولُ بِهِ
غضیف بن حارث سے روایت ہے کہ وہ سیدنا عمر بن خطاب کے قریب سے گزرے، انہوں نے کہا، غضیف! اچھا آدمی ہے، پھر غصیف کی سیدنا ابوذر سے ملاقات ہوئی تو سیدنا ابو ذر نے ان سے کہا: میرے بھائی! آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کریں۔ غضیف نے کہا: آپ رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں، آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ میرے حق میں دعا کریں، انھوں نے کہا: میں نے عمر بن خطاب کو سنا ہے وہ کہہ رہے تھے کہ غضیف اچھا آدمی ہے، جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عمر کی دل و زبان پر حق کو جاری کر دیا ہے۔ [مسند احمد: 1286 صحیح]
اگر میرے بعد نبی ہوتا…:
سیدنا عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا؛
لَوْکَانَ بَعْدِيْ نَبِيٌّ لَکَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ
"اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتے۔” [ترمذی: 3686 ]
زبانِ نبوت سے شہید کا لقب ملا:
❄حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک دن نبی ﷺاحد پہاڑ پر تھے،آپ کے ساتھ ابوبکر،عمر اور عثمان بھی تھے ،اتنے میں پہاڑ تھرتھرانے لگا۔نبی ﷺ نے فرمایا ؛
اسکن أحد، فلیس علیک إلا نبي وصدیق وشہیدان
” اے احد !ٹھہر جا،کیونکہ تیرے اوپر ایک نبی،ایک صدیق ،اور دو شہید موجود ہیں۔”[بخاری: 3699]
❄حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک روز نبی اکرم ﷺ حراء پہاڑ پر تھے، آپ کے ساتھ ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم بھی تھے، اتنے میں چٹان حرکت کرنے لگی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
اہدأ فما علیک إلا نبي أو صدیق أو شہید
"تھم جاؤ، کیونکہ تمہارے اوپرنبی، صدیق، اور شہید ہیں۔”[مسلم: 2417]
زبانِ نبوت سے جنت کی بشارت:
❄حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مدینہ کے ایک باغ میں تھا، ایک شخص آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ان کے لیے دروازہ کھول دو، اور انہیں جنت کی خوشخبری دے دو، میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ابو بکر ہیں، میں نے فرمان نبوی کے مطابق انہیں خوشخبری سنائی تو انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا، پھر ایک شخص آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ان کے لیے بھی دروازہ کھول دواور انہیں جنت کی بشارت دے دو، میں نے دروازہ کھولا تو دیکھاکہ عمر ہیں، میں نے ان کو فرمان نبوی کی خبر دی تو انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا، پھر ایک تیسرے آدمی آئے اور دروازہ کھٹکھٹایاتو آپ نے مجھ سے کہا ؛
افتح لہ وبشرہ بالجنۃ علی بلوی تصیبہ
"ان کے لیے دروازہ کھول دواور انہیں جنت کی خوشخبری دے دوایک مصیبت کے بعد جو ان پر آئے گی۔ ”
دیکھا تو وہ عثمان تھے۔ میں نے انہیں اللہ کے رسول کی فرمائی ہوئی بات کی خبر دی، انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا کہ اللہ مدد فرمائے۔ [بخاری: 3693]
❄عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَخْنَسِ، أَنَّهُ كَانَ فِي الْمَسْجِدِ، فَذَكَرَ رَجُلٌ عَلِيًّا- عَلَيْهِ السَّلَام-، فَقَامَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ: أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي سَمِعْتُهُ وَهُوَ يَقُولُ:عَشْرَةٌ فِي الْجَنَّةِ: النَّبِيُّ فِي الْجَنَّةِ: وَأَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ، وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدُ بْنُ مَالِكٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ. وَلَوْ شِئْتُ لَسَمَّيْتُ الْعَاشِرَ! قَالَ: فَقَالُوا: مَنْ هُوَ؟ فَسَكَتَ، قَالَ: فَقَالُوا: مَنْ هُوَ؟ فَقَالَ: هُوَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ.
ترجمہ : جناب عبدالرحمٰن بن الاخنس سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے جب ایک شخص نے سیدنا علی کا ذکر کیا تو سیدنا سعید بن زید کھڑے ہوئے اور کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ، آپ ﷺ فرماتے تھے : ” دس اشخاص جنت میں ہیں ۔ نبی ﷺ جنت میں ہیں ، ابوبکر جنت میں ہیں ، عمر جنت میں ہیں ، عثمان جنت میں ہیں ، علی جنت میں ہیں ، طلحہ جنت میں ہیں ، زبیر بن عوام جنت میں ہیں ، سعد بن مالک جنت میں ہیں اور عبدالرحمٰن بن عوف جنت میں ہیں ۔ “ اگر میں چاہوں تو دسویں کا نام بھی لے سکتا ہوں ۔ لوگوں نے پوچھا وہ کون ہے ؟ تو وہ خاموش ہو رہے ۔ لوگوں نے پوچھا : وہ کون ہے تو انہوں نے کہا : وہ سعید بن زید ہے ۔ [ابوداؤد: 4649 صححہ الالبانی]
❄ایک مرتبہ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم ﷺ کے پاس گئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول! ہمیں کوئی جنتی آدمی دکھلائیے۔ آپ نے فرمایا؛
النبي من أھل الجنۃ وابوبکر وعمر من أھل الجنۃ وعثمان من اہل الجنۃ
’’نبی جنتی ہیں، ابو بکر وعمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہیں‘‘[فضائل الصحابہ للامام احمد بن حنبل: حدیث نمبر 557 بإسناد حسن]
❄سیدناعبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
القائِمُ بعدِي في الجنةِ ، والّذي يقومُ بعدَهُ في الجنةِ ، والثالثُ والرابِعُ في الجنةِ
‏‏‏‏ "میرے بعد شریعت پرعمل پیرا ہونے والا جنت میں جائے گا اور اس کے بعد شریعت کو اپنانے والا اور اس کے بعد تیسرے دور کا آدمی اور اسکے بعد چوتھے دور کا آدمی سب جنت میں داخل ہوں گے۔” [سلسلہ صحیحہ: 2319]
شہادتِ فاروقِ اعظم
عمر و بن میمون نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب کو زخمی ہونے سے چند دن پہلے مدینہ میں دیکھا کہ وہ حذیفہ بن یمان اور عثمان بن حنیف کے ساتھ کھڑے تھے اور ان سے یہ فرمارہے تھے کہ ( عراق کی اراضی کے لیے ، جس کا انتظام خلافت کی جانب سے ان کے سپرد کیا گیا تھا ) تم لوگوں نے کیا کیا ہے ؟ کیا تم لوگوں کو یہ اندیشہ تو نہیں ہے کہ تم نے زمین کا اتنا محصول لگادیا ہے جس کی گنجائش نہ ہو ۔ ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے ان پر خراج کا اتنا ہی بارڈالا ہے جسے ادا کرنے کی زمین میں طاقت ہے ، اس میں کوئی زیادتی نہیں کی گئی ہے ۔ عمر نے فرمایا کہ دیکھو پھر سمجھ لو کہ تم نے ایسی جمع تو نہیں لگائی ہے جو زمین کی طاقت سے باہر ہو ۔ راوی نے بیان کیا کہ اندونوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہونے پائے گا ، اس کے بعد عمر نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندہ رکھا تو میں عراق کی بیوہ عورتوں کے لیے اتنا کر دوں گا کہ پھر میرے بعد کسی کی محتاج نہیں رہیں گی ۔ راوی عمر وبن میمون نے بیان کیا کہ ابھی اس گفتگو پر چوتھا دن ہی آیا تھا کہ عمر زخمی کردیئے گئے ۔ عمر وبن میمون نے بیان کیا کہ جس صبح کو آپ زخمی کئے گئے ، میں ( فجر کی نماز کے انتظار میں ) صف کے اندر کھڑا تھا اور میرے اور ان کے درمیان عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے سوا اور کوئی نہیں تھا حضرت عمر کی عادت تھی کہ جب صف سے گزرتے تو فرماتے جاتے کہ صفیں سیدھی کرلو اور جب دیکھتے کہ صفوں میںکوئی خلل نہیں رہ گیا ہے تب آگے ( مصلی پر ) بڑھتے اور تکبیر کہتے ۔ آپ ( فجر کی نماز کی ) پہلی رکعت میں عموماً سورہ یوسف یا سورہ نحل یا اتنی ہی طویل کوئی سورت پڑھتے یہاں تک کہ لوگ جمع ہوجاتے ۔ اس دن ابھی آپ نے تکبیر ہی کہی تھی کہ میں نے سنا ، آپ فرمارہے ہیں کہ مجھے قتل کردیا یا کتے نے کاٹ لیا ۔ ابولولو نے آپ کو زخمی کردیا تھا ۔ اس کے بعد وہ بدبخت اپنا دودھاری خنجر لیے دوڑنے لگا اور دائیں اور بائیں جدھر بھی پھرتا تو لوگوں کو زخمی کرتا جاتا ۔ اس طرح اس نے تیرہ آدمیوں کو زخمی کردیا جن میں سات حضرات نے شہادت پائی ۔ مسلمانوں میں سے ایک صاحب ( حطان نامی ) نے یہ صورت حال دیکھی تو انہوں نے اس پر اپنی چادر ڈال دی ۔ اس بدبخت کو جب یقین ہوگیا کہ اب پکڑلیا جائے گا تو اس نے خود اپنا بھی گلاکاٹ لیا ، پھرعمر رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ہا تھ پکڑ کر انہیں آگے بڑھادیا ( عمر و بن میمون نے بیان کیا کہ ) جو لوگ عمر رضی اللہ عنہ کے قریب تھے انہوں نے بھی وہ صورت حال دیکھی جو میں دیکھ رہا تھا لیکن جو لوگ مسجد کے کنارے پر تھے ( پیچھے کی صفوں میں ) تو انہیں کچھ معلوم نہیں ہوسکا ، البتہ چونکہ عمر کی قرات ( نماز میں ) انہوں نے نہیں سنی تو سبحان اللہ ! سبحان اللہ ! کہتے رہے ۔ آخر حضرت عبدالرحمن بن عوف نے لوگوں کو بہت ہلکی نماز پڑھائی ۔ پھر جب لوگ نماز سے پلٹے تو عمر نے فرمایا : ابن عباس ! دیکھو مجھے کس نے زخمی کیا ہے ؟ ابن عبا س رضی اللہ عنہما نے تھوڑی دیر گھوم پھر کر دیکھااور آکر فرمایا کہ مغیرہ کے غلام ( ابولولو ) نے آپ کو زخمی کیا ہے ، عمر نے دریافت فرمایا ، وہی جو کاریگر ہے ؟ جواب دیا کہ جی ہاں ، اس پر عمر نے فرمایا خدا اسے برباد کرے میں نے تو اسے اچھی بات کہی تھی ( جس کا اس نے یہ بدلا دیا ) اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے میری موت کسی ایسے شخص کے ہاتھوں نہیں مقدر کی جو اسلام کا مدعی ہو ۔ تم اور تمہارے والد ( عباس ) اس کے بہت ہی خواہش مند تھے کہ عجمی غلام مدینہ میں زیادہ سے زیادہ لائے جائیں ۔ یوں بھی ان کے پاس غلام بہت تھے ، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا ، اگر آپ فرمائیں تو ہم بھی کرگزریں ، مقصد یہ تھا کہ اگر آپ چاہیں تو ہم ( مدینہ میں مقیم عجمی غلاموں کو ) قتل کرڈالیں ۔ عمر نے فرمایا : یہ انتہائی غلط فکر ہے ، خصوصاً جب کہ تمہاری زبان میں وہ گفتگو کرتے ہیں ، تمہارے قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں اور تمہاری طرح حج کرتے ہیں ۔ پھر حضرت عمر کو ان کے گھر اٹھا کر لایا گیا اور ہم آپ کے ساتھ ساتھ آئے ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے لوگوں پر کبھی اس سے پہلے اتنی بڑی مصیبت آئی ہی نہیں تھی ، بعض تو یہ کہتے تھے کہ کچھ نہیں ہوگا ۔ ( اچھے ہوجائیں گے ) اور بعض کہتے تھے کہ آپ کی زندگی خطرہ میں ہے ۔ اس کے بعد کھجور کا پانی لایا گیا ۔ اسے آپ نے پیا تو وہ آپ کے پیٹ سے باہر نکل آیا ۔ پھر دودھ لایاگیا اسے بھی جوں ہی آپ نے پیا زخم کے راستے وہ بھی باہر نکل آیا ۔ اب لوگوں کو یقین ہوگیا کہ آپ کی شہادت یقینی ہے ۔ پھر ہم اندر آگئے اور لوگ آپ کی تعریف بیان کرنے لگے ، اتنے میں ایک نوجوان اندر آیا اور کہنے لگا یا امیر المؤمنین ! آپ کو خوشخبری ہو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت اٹھائی ۔ ابتداءمیں اسلام لانے کا شرف حاصل کیا جو آپ کو معلوم ہے ۔ پھر آپ خلیفہ بنائے گئے اور آپ نے پورے انصاف سے حکومت کی ، پھر شہادت پائی ، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو اس پر بھی خوش تھا کہ ان باتوں کی وجہ سے برابر پر میرا معاملہ ختم ہوجاتا ، نہ ثواب ہوتا اور نہ عذاب ، جب وہ نوجوان جانے لگا تواس کا تہبند ( ازار ) لٹک رہا تھا ، عمر ﷺ نے فرمایا اس لڑکے کو میرے پاس واپس بلاؤ ( جب وہ آئے تو ) آپ نے فرمایا : میرے بھتیجے ! یہ اپنا کپڑا اوپر اٹھا ئے رکھو کہ اس سے تمہارا کپڑا بھی زیادہ دنوں چلے گا اور تمہارے رب سے تقویٰ کا بھی باعث ہے ۔ اے عبداللہ بن عمر ! دیکھو مجھ پر کتنا قرض ہے ؟ جب لوگوں نے آپ پر قرض کا شمار کیا تو تقریباً چھیاسی ( ۶۸ ) ہزار نکلا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کہ اگر یہ قرض آل عمر کے مال سے ادا ہوسکے تو انہی کے مال سے اس کو ادا کرنا ورنہ پھر بنی عدی بن کعب سے کہنا ، اگر ان کے مال کے بعد بھی ادائیگی نہ ہوسکے تو قریش سے کہنا ، ان کے سوا کسی سے امداد نہ طلب کرنا اور میری طرف سے اس قرض کو ادا کردینا ۔ اچھا اب ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں جاؤ اور ان سے عرض کرو کہ عمر نے آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے ۔ امیر المؤمنین ( میرے نام کے ساتھ ) نہ کہنا ، کیونکہ اب میں مسلمانوں کا امیر نہیں رہاہوں ، تو ان سے عرض کرنا کہ عمر بن خطاب نے آپ سے اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہی ہے ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ( عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوکر ) سلام کیا اور اجازت لے کر اندر داخل ہوئے ۔ دیکھا کہ آپ بیٹھی رورہی ہیں ۔ پھر کہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ کو سلام کہا ہے اور اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہی ہے ، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : میں نے اس جگہ کو اپنے لیے منتخب کررکھا تھا لیکن آج میں انہیں اپنے پر ترجیح دوں گی ، پھر جب ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس آئے تو لوگوں نے بتایا کہ عبداللہ آگئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے اٹھاو¿ ۔ ایک صاحب نے سہارادے کر آپ کو اٹھایا ۔ آپ نے دریافت کیاکیا خبر لائے ؟ کہا کہ جو آپ کی تمنا تھی اے امیر المومنین ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا الحمد للہ ۔ اس سے اہم چیز اب میرے لیے کوئی نہیں رہ گئی تھی ۔ لیکن جب میری وفات ہوچکے اور مجھے اٹھاکر ( دفن کے لیے ) لے چلو تو پھر میرا سلام ان سے کہنا اور عرض کرنا کہ عمر بن خطاب ( رضی اللہ عنہ ) نے آپ سے اجازت چاہی ہے ۔ اگر وہ میرے لیے اجازت دے دیں تب تو وہاں دفن کرنا اور اگر اجازت نہ دیں تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا ۔ اس کے بعد ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا آئیں ۔ ان کے ساتھ کچھ دوسری خواتین بھی تھیں ، جب ہم نے انہیں دیکھا تو ہم اٹھ گئے ۔ آپ عمر کے قریب آئیں اور وہاں تھوڑی دیر تک آنسو بہاتی رہیں ۔ پھر جب مردوں نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو وہ مکان کے اندر ونی حصہ میں چلی گئیں اور ہم نے ان کے رونے کی آواز سنی پھر لوگوں نے عرض کیا امیر المؤمنین ! خلافت کے لیے کوئی وصیت کردیجئے ، فرمایا کہ خلافت کا میں ان حضرات سے زیادہ اور کسی کو مستحق نہیں پاتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک جن سے راضی اور خوش تھے پھر آپ نے علی ، عثمان ، زبیر ، طلحہ ، سعد اور عبدالرحمن بن عوف کانام لیا اور یہ بھی فرمایا کہ عبداللہ بن عمر کو بھی صرف مشورہ کی حدتک شریک رکھنا لیکن خلافت سے انہیںکوئی سروکار نہیں رہے گا ۔ جیسے آپ نے ابن عمررضی اللہ عنہما کی تسکین کے لیے یہ فرمایاہو ۔ پھر اگر خلافت سعد کو مل جائے تو وہ اس کے اہل ہیں اور اگر وہ نہ ہوسکیں تو جو شخص بھی خلیفہ ہو وہ اپنے زمانہ خلافت میں ان کا تعاون حاصل کرتا رہے ۔ کیونکہ میں نے ان کو ( کوفہ کی گورنری سے ) نااہلی یا کسی خیانت کی وجہ سے معزول نہیں کیا ہے اور عمر نے فرمایا : میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو مہاجرین اولین کے بارے میں وصیت کرتاہوں کہ وہ ان کے حقوق پہچانے اور ان کے احترام کو ملحوظ رکھے اور میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ انصار کے ساتھ بہتر معاملہ کرے جو دارالہجرت اور دارالایمان ( مدینہ منورہ ) میں ( رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے سے) مقیم ہیں ۔ ( خلیفہ کو چاہیے ) کہ وہ ان کے نیکوں کو نوازے اور ان کے بروں کو معاف کردیا کرے اور میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتاہوں کہ شہری آبادی کے ساتھ بھی اچھا معاملہ رکھے کہ یہ لوگ اسلام کی مدد ، مال جمع کرنے کا ذریعہ اور ( اسلام کے ) دشمنوں کے لیے ایک مصیبت ہیں اور یہ کہ ان سے وہی وصول کیاجائے جو ان کے پاس فاضل ہو اور ان کی خوشی سے لیاجائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو بدویوں کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرنے کی وصیت کرتاہوں کہ وہ اصل عرب ہیں اور اسلام کی جڑ ہیں اور یہ کہ ان سے ان کا بچا کھچا مال وصول کیاجائے اورانہیں کے محتاجوں میں تقسیم کردیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو اللہ اور اس کے رسول کے عہد کی نگہداشت کی ( جو اسلامی حکومت کے تحت غیر مسلموں سے کیاہے ) وصیت کرتاہوں کہ ان سے کئے گئے عہد کو پورا کیا جائے ، ان کی حفاظت کے لیے جنگ کی جائے اور ان کی حیثیت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالا جائے ، جب عمر کی وفات ہوگئی
فَانْطَلَقْنَا نَمْشِي فَسَلَّمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ قَالَ يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَتْ أَدْخِلُوهُ فَأُدْخِلَ فَوُضِعَ هُنَالِكَ مَعَ صَاحِبَيْهِ
ہم وہاں سے ان کو لے کر ( عائشہ رضی اللہ عنہا ) کے حجرہ کی طرف آئے ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سلام کیا اور عرض کیا کہ عمربن خطاب نے اجازت چاہی ہے ۔ ام المؤمنین نے کہا انہیں یہیں دفن کیاجائے ۔ چنانچہ وہ وہیں دفن ہوئے۔ [بخاری: 3700]
سیرتِ فاروقی کے چند قابلِ عمل گوشے
سیدنا عمر فاروق کی زندگی ہمارے لئے نمونہ ، مثال اور ماڈل ہے ، اب ہم سیرتِ فاروقی کی چند باتیں آپ کے سامنے رکھیں گے جن پر عمل کرکے زندگیاں سنواری جا سکتی ہیں۔
غیرت:
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا؛
رَأَیْتُنِیْ دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ فَإِذَا أَنَا بِالرُّمَیْصَائِ۔ امْرَأَۃِ أَبِیْ طَلْحَۃَ۔ وَسَمِعْتُ خَشْفَۃً فَقُلْتُ: مَنْ ہٰذَا؟ فَقَالَ: ہٰذَا بِلَالٌ۔ وَرَأَیْتُ قَصْرًا بِفِنَائِہٖ جَارِیَۃٌ فَقُلْتُ: لِمَنْ ہٰذَا؟ فَقَالَ: لِعُمَرَ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَہُ فَأَنْظُرَ إِلَیْہِ، فَذَکَرْتُ غَیْرَتَکَ
’’میں نے دیکھا کہ جنت میں داخل ہوا، اچانک میرے سامنے رمیصاء ابوطلحہ کی بیوی نظر آئی اور میں نے ایک آواز سنی تو پوچھا: یہ کون ہے؟ اس (فرشتے) نے کہا: یہ بلال ہیں۔ وہاں میں نے ایک محل دیکھا جس کے آنگن میں ایک عورت تھی۔ میں نے پوچھا: یہ کس کا ہے؟ اس (فرشتے)نے کہا: یہ عمر کا ہے۔ میں اس میں داخل ہونا چاہتا تھا تاکہ اسے دیکھ لوں، لیکن (اے عمر) تیری غیرت مجھے یاد آگئی۔‘‘ [مسلم: 6200]
عمر نے فرمایا: اے اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، کیا میں آپ پر غیرت کھاؤں گا؟
دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا؛
بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَیْتُنِیْ فِی الْجَنَّۃِ فَإِذَا امْرَأَۃٌ تَوَضَّأُ إِلٰی جَانِبِ قَصْرٍ۔ فَقُلْتُ: لِمَنْ ہٰذَا؟ فَقَالُوْا: لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَذَکَرْتُ غَیْرتَہٗ فَوَلَّیْتُ مُدْبِرًا
’’میں سویا ہوا تھا میں نے خود کو جنت میں دیکھا، میں نے دیکھا کہ ایک عورت ایک محل کے ایک کونے میں وضو کر رہی ہے۔ میں نے پوچھا یہ محل کس کا ہے؟ انہوں (فرشتوں) نے جواب دیا: عمر کا، پھر مجھے عمر کی غیرت یاد آگئی اور میں واپس لوٹ آیا۔‘‘
عمر رونے لگے اور کہا؛
أَيْ رَسُولَ اللهِ أَوَ عَلَيْكَ يُغَارُ؟
اے اللہ کے رسول! کیا میں آپ پر غیرت کھاؤں گا؟ [مسلم: 6198]
امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا جذبہ:
جب سیدنا عمرفاروق شدید زخمی ہو کر موت وحیات کی کشمکش میں گھر موجود تھے ، لوگ آپ کی عیادت کے لئے آرہے تھے تو ایک نوجوان سیدنا عمر فاروق کی عیادت کے لئے آیا،جب وہ نوجوان جانے لگا تواس کا تہبند ( ازار ) لٹک رہا تھا ، عمر ﷺ نے فرمایا اس لڑکے کو میرے پاس واپس بلاؤ ( جب وہ آئے تو ) آپ نے فرمایا : میرے بھتیجے ! یہ اپنا کپڑا اوپر اٹھا ئے رکھو کہ اس سے تمہارا کپڑا بھی زیادہ دنوں چلے گا اور تمہارے رب سے تقویٰ کا بھی باعث ہے۔[بخاری: 3700]
کتاب اللہ پر عمل:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عیینہ بن حصن بن حذیفہ نے اپنے بھتیجے حر بن قیس کے یہاں آکر قیام کیا۔ حر ، ان چند خاص لوگوں میں سے تھے جنہیں حضرت عمر اپنے بہت قریب رکھتے تھے جو لوگ قرآن مجید کے زیادہ عالم اور قاری ہوتے۔ حضرت عمر کی مجلس میں انہیں کو زیادہ نزدیکی حاصل ہوتی تھی اور ایسے لوگ آپ کے مشیر ہوتے۔ اس کی کوئی قید نہیں تھی کہ وہ عمر رسیدہ ہوں یا نوجوان۔ عیینہ نے اپنے بھتیجے سے کہا کہ تمہیں اس امیر کی مجلس میں بہت نزدیکی حاصل ہے۔ میرے لیے بھی مجلس میں حاضری کی اجازت لے دو۔ حر بن قیس نے کہا کہ میں آپ کے لیے بھی اجازت مانگوں گا۔ حضرت ابن عباس نے بیان کیا۔ چنانچہ انہوں نے عیینہ کے لیے بھی اجازت مانگی اور حضرت عمر نے انہیں مجلس میں آنے کی اجازت دے دی۔ مجلس میں جب وہ پہنچے تو کہنے لگے ، اے خطاب کے بیٹے! خدا کی قسم! نہ تو تم ہمیں مال ہی دیتے ہو اور نہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے ہو۔ حضرت عمر کو ان کی اس بات پر بڑا غصہ آیا اور آگے بڑھ ہی رہے تھے کہ حر بن قیس نے عرض کیا یا امیر المؤمنین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے خطاب کر کے فرمایا ہے ؛
خُذْ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنْ الْجَاهِلِينَ
” معافی اختیار کر اور نیک کام کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جایا کیجئے ۔“ اور یہ بھی جاہلوں میں سے ہیں۔ اللہ کی قسم! کہ جب حر نے قرآن مجید کی تلا وت کی تو حضرت عمر بالکل ٹھنڈے پڑ گئے اور کتاب اللہ کے حکم کے سا منے آپ کی یہی حالت ہوتی تھی۔[بخاری: 4642]
فکرِ نماز:
سیدنا مسور بن مخرمہ بیان کرتے ہیں کہ وہ صبح کی نماز کے بعد سیدنا عمر بن خطاب کے پاس گئے اور اسی رات انہیں زخمی کیا گیا تھا چنانچہ سیدنا عمر کو بیدار کر کے صبح کی نماز کے لیے کہا گیا تو آپ نے فرمایا؛
نعم ولا حظ في الاسلام لمن ترك الصلاة
"جی ہاں اور دین اسلام میں اس کا کوئی حصہ نہیں جو نماز ترک کر دے۔”
پھر سیدنا عمر نے اٹھ کر نماز ادا کی اور آپ کے زخم سے خون بہہ رہا تھا۔
[السنن الکبریٰ للبیہقی: 357/1 ، سندہ صحیح]
یاد رہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کا زخم اتنا شدید تھا کہ پیٹ اور اس کی رگیں کٹ چکی تھی نبیذ اور دودھ پلایا گیا تو وہ بھی پیٹ سے باہر اگیا۔ [بخاری: 3700]
عاجزی اور تواضع:
آپ کی سیرت میں آپ کی تواضع کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ نے جان کنی کے وقت اپنے بیٹے عبداللہ سے کہا: ام المومنین عائشہ کے پاس جاؤ اور کہو: عمر آپ کو سلام کہتا ہے، یہ نہ کہنا کہ امیرالمومنین آپ کو سلام کہتے ہیں، اس لیے کہ اس وقت میں مومنوں کا امیر نہیں ہوں۔
اسی طرح جب عائشہ رضی اللہ عنہا نے عمر کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت دے دی تو آپ نے اپنے بیٹے سے کہا: جب میں مر جاؤں تو مجھے اٹھا کر لے چلنا، پھر (باہر سے) ان (عائشہ رضی اللہ عنہا ) کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ عمر بن خطاب اجازت مانگ رہا ہے۔ اگر وہ اجازت دے دیں تو مجھے حجرئہ نبویہ میں قبر میں اتارنا، ورنہ مسلمانوں کے قبرستان میں مجھے دفن کر دینا۔[بخاری: 3700]