قبولیتِ اعمال کی شرائط

اہم عناصر :

❄ ایمانِ خالص                      ❄ خلوصِ نیت            ❄ اتّباعِ رسولﷺ

إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم  

وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا[النساء: 124]

ذی وقار سامعین!

ہر سمجھدار بندہ بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا کام کرتے ہوئے اس کے انجام کے بارے میں سوچتا ہے کہ میں یہ کام کرنے لگا ہوں ، یا یہ کاروبار کرنے لگا ہوں تو اس کا انجام کیا ہوگا۔ اس میں مجھے فائدہ ہو گا یا نہیں  یہ کاروبار میرا چلے گا یا نہیں۔ یہ کاروبار مجھے کتنا فائدہ دے سکتا ہے۔ المختصر ہر بندہ دنیا کا کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے اتنی باتیں سوچتا ہے اب ہمیں غور و فکر کرنا ہے کہ ہم دنیا داری کے لیے اتنا کچھ کرتے ہیں تو ہم دین داری کے لیے کیا کرتے ہیں؟ دین کا کوئی بھی کام کرتے ہوئے ہم کیا اتنی باتیں سوچتے ہیں؟چھوٹی سی چھوٹی فصل بونے کے لیے یا چھوٹے سے چھوٹا کاروبار کرنے کے لیے ہم کئی بندوں سے یہ پوچھتے ہیں کہ اس فصل کے لیے بیج کون سا اچھا رہے گا؟ کھاد اور سپرے کون سی اچھی رہے گی؟ اس کاروبار کے لیے دکان کون سی اچھی رہے گی اور شہر کون سا اچھا رہے گا؟ تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا دین ہی اتنا سستا اور ہمارے نزدیک کم تر ہے کہ ہمیں دین جہاں سے جیسا مل جائے ہم ویسا ہی لے لیتے ہیں ، کبھی ہم نے پوچھنے کی کوشش یا جرأت نہیں کی کہ یہ جو دین کا مسئلہ آپ بیان کر رہے ہیں ، ہمیں عمل کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں یہ کہاں سے ثابت ہے؟

یاد رکھئے!

دنیاوی کاموں کی طرح ہمیں اپنے دین کی بھی فکر کرنی چاہیے کہ ہم جو بھی دین کا کام سر انجام دینے لگے ہیں نیک عمل کرنے لگے ہیں یا عبادت کرنے لگے ہیں کیا یہ کام میرا قبولیت کے درجے تک پہنچ جائے گا یا نہیں۔ آج کے خطبہ جمعہ میں ہم اعمال کی قبولیت کی شرائط بیان کریں گے کہ وہ شرائط اگر آپ کے نیک اعمال اور عبادت میں موجود ہیں تو آپ کا نیک عمل اور عبادت قبول ہوگی ورنہ نہیں۔ اعمال کی قبولیت کی کم از کم تین شرائط ہیں:

1۔ ایمانِ خالص

کسی بھی عمل کی قبولیت کی سب سے پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ عمل کرنے والا مسلمان اور مومن ہو کیونکہ اللہ تعالی قران مجید میں جگہ جگہ فرماتے ہیں

وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا

"اور جو شخص نیک کاموں میں سے (کوئی کام) کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور کھجور کی گٹھلی کے نقطے کے برابر ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ "[النساء: 124]

فَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِ وَإِنَّا لَهُ كَاتِبُونَ

"پس جو شخص کوئی نیک اعمال کرے اور وہ مومن ہو تو اس کی کوشش کی کوئی نا قدری نہیں اور یقیناً ہم اس کے لیے لکھنے والے ہیں۔” [الانبیاء: 94]

وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا

"اور جس نے آخرت کا ارادہ کیا اور اس کے لیے کوشش کی، جو اس کے لائق کوشش ہے، جبکہ وہ مومن ہو تو یہی لوگ ہیں جن کی کوشش ہمیشہ سے قدرکی ہوئی ہے۔” [بنی اسرائیل: 19]

ایمان دین کی اصل اور بنیاد ہے ، اس کے بغیر اعمال قبول نہیں ہوتے مشرکین مکہ نے بیت اللہ کو تعمیر کیا حاجیوں کو پانی پلاتے تھے اور خود حج کرتے تھے لیکن ان کے تمام یہ اعمال اکارت گئے اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے کلمہ نہیں پڑھا تھا نبی ﷺ پر ایمان نہیں لائے تھے اللہ تعالی قران مجید میں فرماتے ہیں؛

أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ  لَا يَسْتَوُونَ عِندَ اللَّهِ  وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللَّهِ  وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ

"کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کو آباد کرنا اس جیسا بنا دیا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا۔ یہ اللہ کے ہاں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کیا، اللہ کے ہاں درجے میں زیادہ بڑے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں۔” [التوبہ: 20-19]

اللہ تعالی نے سورۃ العصر میں کامیاب لوگوں کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے سب سے پہلی نشانی یہ بیان کی ہے کہ کامیاب وہ ہے جو ایمان لاتا ہے؛

وَالعَصرِ ۔ اِنَّ الاِنسَانَ لَفِى خُسرٍ۔ اِلَّا الَّذِينَ اٰمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوا بِالحَقِّ وَتَوَاصَوا بِالصَّبرِ             

          ترجمہ: زمانے کی قسم! کہ بے شک ہر انسان یقیناً گھاٹے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔

ایمان اتنی قیمتی چیز ہے کہ جو ایمان لے آتا ہے ، کلمہ پڑھ لیتا ہے اور اس کے بعد اُسے کسی نیک عمل کرنے کا موقع نہیں بھی ملا تو وہ بندہ جنتی ہے ، اس کی دو مثالیں پیش خدمت ہیں۔

❄  عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ غُلَامٌ يَهُودِيٌّ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرِضَ فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَقَالَ لَهُ أَسْلِمْ فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ وَهُوَ عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنْ النَّارِ

ترجمہ : سیدنا انس بن مالک ﷜ نے بیان کیا کہ ایک یہودی لڑکا ( عبدالقدوس ) نبی کریم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا‘ ایک دن وہ بیمار ہوگیا۔ آپ ﷺ  اس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مسلمان ہوجا۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا‘ باپ وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا کہ ( کیا مضائقہ ہے ) ابوالقاسم ﷺ جو کچھ کہتے ہیں مان لے۔ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔ جب آنحضرت ﷺ باہر نکلے تو آپ نے فرمایا کہ شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچالیا۔  ] بخاری: 1356[

❄  عَنِ البَرَاءِ ﷜ ، يَقُولُ: أَتَى النَّبِيَّ ﷺ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ بِالحَدِيدِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أُقَاتِلُ أَوْ أُسْلِمُ؟ قَالَ: «أَسْلِمْ، ثُمَّ قَاتِلْ»، فَأَسْلَمَ، ثُمَّ قَاتَلَ، فَقُتِلَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَمِلَ قَلِيلًا وَأُجِرَ كَثِيرًا»

ترجمہ : براءبن عازب ﷜ کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک صاحب زرہ پہنے ہوئے حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ ! میں پہلے جنگ میں شریک ہوجاؤں یا پہلے اسلام لاؤں ۔ آپ ﷺ  نے فرمایا پہلے اسلام لاؤ پھر جنگ میں شریک ہونا ۔ چنانچہ وہ پہلے اسلام لائے اور اس کے بعد جنگ میں شہید ہوئے ۔ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا کہ عمل کم کیا لیکن اجر بہت پایا۔ ]بخاری: 2808[

اورجو بندہ ایمان نہیں لاتا اور نیکیاں بہت زیادہ کرتا ہے ، اس کی نیکیاں اسے فائدہ نہیں دیں گی۔

عَنْ عَائِشَةَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ ﷺ  ، ابْنُ جُدْعَانَ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ يَصِلُ الرَّحِمَ، وَيُطْعِمُ الْمِسْكِينَ، فَهَلْ ذَاكَ نَافِعُهُ؟ قَالَ:” لَا يَنْفَعُهُ، إِنَّهُ لَمْ يَقُلْ يَوْمًا: رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ "

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ میں نے پوچھا:اے اللہ کےرسولﷺ!ابن جدعان جاہلیت کےدور میں صلہ رحمی کرتا تھا اور محتاجوں کو کھانا کھلاتا تھا تو کیا یہ عمل اس کے لیے فائدہ مند ہوں گے؟آپ نے فرمایا:’’اسے فائدہ نہیں پہنچائیں گے، (کیونکہ) اس نے کسی ایک دن (بھی) یہ نہیں کہا تھا: میرے رب! حساب و کتاب کے دن میری خطائیں معاف فرمانا۔‘‘] مسلم: 518[

2۔ خلوصِ نیت

کسی بھی نیک عمل کی قبولیت کی دوسری شرط یہ ہے کہ اس عمل کو کرتے ہوئے صرف اور صرف اللہ تعالی کی رضا مقصود ہو وہ عمل خالصتاً اللہ رب العزت کے لیے کیا گیا ہو۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے؛

  وَمَآ اُمِرُوْا إِلَّا لِیَعْبُدُوْا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ حُنَفَائَ وَیُقِیْمُوْا الصَّلاَة وَیُؤتُوْا الزَّكَاة وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمة

’’انہیں محض اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور شرک وغیرہ سے منہ موڑتے ہوئے اس کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ اور نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں۔اور یہی ہے دین سیدھی ملت کا۔‘‘ ] البینہ: 5 [

آقا علیہ السلام فرماتے ہیں؛

إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ  

"تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت ( ترک وطن ) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔” [بخاری: 1]

’اخلاص‘کا معنی ہے:پاک صاف کرنا۔یعنی عبادت کو اللہ تعالیٰ کیلئے خالص کرنا اور ریاکاری سے پاک صاف کرنا۔ نیت ایسی چیز ہے کہ اس کے اچھا ہونے سے بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے اور اس کے بُرا ہونے سے بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔

❄آقا علیہ السلام نے فرمایا ؛

إِنَّمَا الدُّنْيَا لِأَرْبَعَةِ نَفَرٍ عَبْدٍ رَزَقَهُ اللَّهُ مَالًا وَعِلْمًا فَهُوَ يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ وَيَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ وَيَعْلَمُ لِلَّهِ فِيهِ حَقًّا فَهَذَا بِأَفْضَلِ الْمَنَازِلِ وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللَّهُ عِلْمًا وَلَمْ يَرْزُقْهُ مَالًا فَهُوَ صَادِقُ النِّيَّةِ يَقُولُ لَوْ أَنَّ لِي مَالًا لَعَمِلْتُ بِعَمَلِ فُلَانٍ فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَأَجْرُهُمَا سَوَاءٌ وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللَّهُ مَالًا وَلَمْ يَرْزُقْهُ عِلْمًا فَهُوَ يَخْبِطُ فِي مَالِهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ لَا يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ وَلَا يَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ وَلَا يَعْلَمُ لِلَّهِ فِيهِ حَقًّا فَهَذَا بِأَخْبَثِ الْمَنَازِلِ وَعَبْدٍ لَمْ يَرْزُقْهُ اللَّهُ مَالًا وَلَا عِلْمًا فَهُوَ يَقُولُ لَوْ أَنَّ لِي مَالًا لَعَمِلْتُ فِيهِ بِعَمَلِ فُلَانٍ فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَوِزْرُهُمَا سَوَاءٌ

 ‘یہ دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے: ایک بندہ وہ ہے جسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے مال اورعلم کی دولت دی ،وہ اپنے رب سے اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں ڈرتاہے اور اس مال کے ذریعے صلہ رحمی کرتاہےاور اس میں سے اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا بھی خیال رکھتاہے ایسے بندے کا درجہ سب درجوں سے بہترہے۔اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے علم دیا، لیکن مال ودولت سے اسے محروم رکھا پھربھی اس کی نیت سچی ہے اور وہ کہتاہے کہ کاش میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں اس شخص کی طرح عمل کرتا لہذااسے اس کی سچی نیت کی وجہ سے پہلے شخص کی طرح اجر برابر ملے گا، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال ودولت سے نوازالیکن اسے علم سے محروم رکھا وہ اپنے مال میں غلط روش اختیارکرتا ہے ، اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا ہے، نہ ہی صلہ رحمی کرتاہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ کے حق کا خیال رکھتاہے تو ایسے شخص کا درجہ سب درجوں سے بدتر ہے ، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال ودولت اور علم دونوں سے محروم رکھا ، وہ کہتاہے کاش میرے پاس مال ہوتا تو فلاں کی طرح میں بھی عمل کرتا (یعنی: برے کاموں میں مال خرچ کرتا) تو اس کی نیت کا وبال اسے ملے گا اور دونوں کا عذاب اور بارگناہ برابر ہوگا’۔ [ترمذی: 2325 صححہ الالبانی]

❄عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَرَأَيْتَ رَجُلًا غَزَا يَلْتَمِسُ الْأَجْرَ وَالذِّكْرَ مَالَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا شَيْءَ لَهُ فَأَعَادَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ يَقُولُ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا شَيْءَ لَهُ ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبَلُ مِنْ الْعَمَلِ إِلَّا مَا كَانَ لَهُ خَالِصًا وَابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُهُ

ترجمہ: حضرت ابوامامہ باہلی ﷜ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبیﷺ کے پاس حاضر ہوا اور کہنے لگا: آپﷺفرمائیں‘ ایک شخص جنگ کو جاتا ہے۔ ثواب اور شہرت دونوں کا طلب گار ہے۔ اسے کیا ملے گا؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اسے کچھ نہیں ملے گا۔‘‘ اس شخص نے سوال تین دفعہ دہرایا۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ صرف اس عمل کو قبول فرماتا ہے جو خالص اس کے لیے کیا جائے اور صرف اس کی رضا مندی مقصود ہو۔ [نسائی: 3140 حسنہ الالبانی]

❄سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ (جمگھٹے کے بعد) لوگ حضرت ابوہریرہ ﷜ کے پاس سے چھٹ گئے تو اہل شام میں سے ناتل (بن قیس جزامی رئیس اہل شام) نے ان سے کہا: شیخ! مجھے ایسی حدیث سنائیں جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو، کہا: ہاں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے  ہوئے سنا: "قیامت کے روز سب سے پہلا شخص جس کے خلاف فیصلہ آئے گا، وہ ہو گا جسے شہید کر دیا گیا۔ اسے پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی (عطا کردہ) نعمت کی پہچان کرائے گا تو وہ اسے پہچان لے گا۔ وہ پوچھے گا تو نے اس نعمت کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے تیری راہ میں لڑائی کی حتی کہ مجھے شہید کر دیا گیا۔ (اللہ تعالیٰ) فرمائے گا تو نے جھوٹ بولا۔ تم اس لیے لڑے تھے کہ کہا جائے: یہ (شخص) جری ہے۔ اور یہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اس آدمی کو منہ کے بل گھسیٹا جائے گا یہاں تک کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا اور وہ آدمی جس نے علم پڑھا، پڑھایا اور قرآن کی قراءت کی،اسے پیش کیا جائے گا۔ (اللہ تعالیٰ) اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان کر لے گا، وہ فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور تیری خاطر قرآن کی قراءت کی، (اللہ) فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا، تو نے اس لیے علم پڑھا کہ کہا جائے (یہ) عالم ہے اور تو نے قرآن اس لیے پڑھا کہ کہا جائے: یہ قاری ہے، وہ کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا حتی کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ اور وہ آدمی جس پر اللہ نے وسعت کی اور ہر قسم کا مال عطا کیا، اسے لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان لے گا۔ اللہ فرمائے گا: تم نے ان میں کیا کیا؟ کہے گا: میں نے کوئی راہ نہیں چھوڑی جس میں تمہیں پسند ہے کہ مال خرچ کیا جائے مگر ہر ایسی راہ میں خرچ کیا۔ اللہ فرمائے گا: تم نے جھوٹ بولا ہے، تم نے (یہ سب) اس لیے کیا تاکہ کہا جائے، وہ سخی ہے، ایسا ہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، تو اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا، پھر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔” [مسلم: 4923]

❄عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:َ مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ، ثُمَّ رَاحَ فَوَجَدَ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا, أَعْطَاهُ اللَّهُ جَلَّ وَعَزَّ مِثْلَ أَجْرِ مَنْ صَلَّاهَا وَحَضَرَهَا، لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أَجْرِهِمْ شَيْئًا  

ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ ﷜ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” جس نے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا ( یعنی سنت کے مطابق کامل وضو ) پھر ( مسجد کی طرف ) گیا مگر لوگوں کو پایا کہ وہ نماز سے فارغ ہو چکے ہیں تو اللہ عزوجل ایسے بندے کو بھی اتنا ہی اجر عنایت فرماتا ہے جتنا کہ اس کو جس نے جماعت میں حاضر ہو کر نماز پڑھی ہو ۔ اور یہ ان کے اجروں میں کسی کمی کا باعث نہیں ہوتا ۔ “ [ابوداؤد: 564 صححہ الالبانی]

❄عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ طَلَبَ الشَّهَادَةَ صَادِقًا، أُعْطِيَهَا، وَلَوْ لَمْ تُصِبْهُ»

ترجمہ:حضرت انس ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جس شخص نے سچے دل سے شہادت طلب کی، اسے عطا کر دی جاتی ہے (اجر عطا کر دیا جاتا ہے) چاہے وہ اسے (عملا) حاصل نہ ہو سکے۔” [مسلم: 4929]

3. اتّباعِ رسولﷺ

کسی بھی عمل کی قبولیت کی تیسری شرط یہ ہے کہ وہ عمل رسول اللہ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو اس عمل میں اتباع رسول موجود ہو اگر وہ عمل رسول اللہ ﷺ کے طریقے سے ہٹ کر کیا گیا ہوگا تو وہ ناقابل قبول ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛

❄يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ

"اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ کا حکم مانو اور اس رسول کا حکم مانو اور اپنے اعمال باطل مت کرو۔” [محمد: 33]

اتّباعِ رسول قرآن کی روشنی میں:

قرآن کریم میں اللّٰہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر اتباع رسول کا حکم دیا ہے اور اتباع رسول کا ذکر کیا ہے

❄يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ

"اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا اور اس کے رسول کا حکم مانو اور اس سے منہ نہ پھیرو، جب کہ تم سن رہے ہو۔” [الانفال: 20]

❄مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ  وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا

"جو رسول کی فرماں برداری کرے تو بے شک اس نے اللہ کی فرماں برداری کی اور جس نے منہ موڑا تو ہم نے تجھے ان پر کوئی نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔” [النساء: 80]

❄يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ  فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ  ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا

"اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور ان کا بھی جو تم میں سے حکم دینے والے ہیں، پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے۔” [النساء: 59]

❄وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ  وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا

"اور کبھی بھی نہ کسی مومن مرد کا حق ہے اور نہ کسی مومن عورت کا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں کہ ان کے لیے ان کے معاملے میں اختیار ہو اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے سو یقیناً وہ گمراہ ہوگیا، واضح گمراہ ہونا۔” [الاحزاب: 36]

❄وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ  وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا

"اور جو اللہ اور رسول کی فرماں برداری کرے تو یہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، نبیوں اور صدیقوں اور شہداء اور صالحین میں سے اور یہ لوگ اچھے ساتھی ہیں۔” [النساء: 69]

❄وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا  وَاتَّقُوا اللَّهَ  إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

"اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے۔” [الحشر: 7]

اتّباعِ رسول احادیث کی روشنی میں:

❄عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَى قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَنْ يَأْبَى قَالَ مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى

ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ ﷜ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا ۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! انکار کون کرے گا َ؟ فرمایا کہ جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو میری نا فرمانی کرے گا اس نے انکار کیا ۔ [بخاری: 7280]

❄حضرت انس بن مالک ﷜ نے بیان کیا کہ تین حضرات نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے ، جب انہیں حضور اکرم ﷺ کا عمل بتایا گیا تو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا؛

وَأَيْنَ نَحْنُ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ

 کہ "ہمارا آنحضرتﷺسے کیامقابلہ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کردی گئی ہیں۔” ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات پھر نماز پڑھا کروں گا ۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پھر آنحضرتﷺتشریف لائے اور ان سے پوچھا؛

أَنْتُمْ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي

"کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو! اللہ تعالیٰ کی قسم! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز پڑھتا ہوں (رات میں) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔ میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔”  [بخاری: 5063]