اعمالِ صالحہ: فوائد و ثمرات
اہم عناصر :
❄اعمال صالحہ کا معنیٰ ❄اعمال صالحہ کے فوائد و ثمرات
❄برے اعمال کا معنیٰ ❄برے اعمال کے نقصانات
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ [النحل: 97]
ذی وقار سامعین!
تخلیقِ انسانی کا واحد مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور اعمالِ صالحہ سرانجام دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ؛
❄وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
"اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔” [الذاریات: 56]
❄الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ
"وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا، تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے اور وہی سب پر غالب، بے حد بخشنے والا ہے۔” [الملک: 2]
❄إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا
"بے شک ہم نے زمین پر جو کچھ ہے اس کے لیے زینت بنایا ہے، تاکہ ہم انھیں آزمائیں ان میں سے کون عمل میں بہتر ہے۔” [الکھف: 7]
❄وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا
"اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا، تاکہ وہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے۔” [ھود: 7]
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رسولوں اور عام لوگوں کو اعمالِ صالحہ کا حکم دیا ہے۔
❄يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
"اے رسولو! پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤاور نیک عمل کرو، یقیناً میں اسے جو تم کرتے ہو، خوب جاننے والا ہوں۔” [المؤمنون: 51]
❄يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو اور نیکی کرو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔” [الحج: 77]
اعمالِ صالحہ سے مراد ہر وہ کام ہے جس سے اللہ تعالیٰ خوش ہوجائیں۔ لیکن اس میں تین شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔
1۔ ایمان 2۔ اخلاص 3۔ اتّباعِ رسول
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اعمال صالحہ کے فوائد اور ثمرات سمجھیں گےاور گناہوں کے نقصانات پر غور کریں گے۔
اعمالِ صالحہ کے فوائد و ثمرات
اعمالِ صالحہ کے فوائد اور ثمرات بہت سارے ہیں ، چند ایک پیشِ خدمت ہیں:
1۔ کامیابی کی ضمانت:
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ؛
وَالعَصرِ ۔ اِنَّ الاِنسَانَ لَفِى خُسرٍ۔ اِلَّا الَّذِينَ اٰمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوا بِالحَقِّ ۙ وَتَوَاصَوا بِالصَّبرِ
ترجمہ: زمانے کی قسم! کہ بے شک ہر انسان یقیناً گھاٹے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔ [العصر: 3-1]
2۔ دنیا و آخرت کی سعادت:
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ؛
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
"جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقیناً ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی اور یقیناً ہم انھیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے۔” [النحل: 97]
3۔ مال اور اہل وعیال کی حفاظت:
موسیٰ اور خضر علیہما السلام ایک بستی سے گزر رہے تھے،انہیں ایک دیوار گرتی ہوئی محسوس ہوئی تو خضر علیہ السلام نے فوراً سیدھی کردی اور بعد میں موسیٰ علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا؛ وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَن يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا
"اور رہ گئی دیوار تو وہ شہر میں دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لیے ایک خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک تھا تو تیرے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور اپنا خزانہ نکال لیں، تیرے رب کی طرف سے رحمت کے لیے اور میں نے یہ اپنی مرضی سے نہیں کیا۔ یہ ہے اصل حقیقت ان باتوں کی جن پر تو صبر نہیں کرسکا۔” [الکھف: 82]
ان یتیم بچوں کے مال کی حفاظت ان کے باپ کی نیکی کی وجہ سے کی گئی اور ان بچوں کی نیکی کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ نیک انسان کے مال واولاد کی حفاظت اس کی وفات کے بعد بھی کی جاتی ہے۔
4۔ حصولِ جنّت:
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ؛
❄وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا هَٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
"اور ان لوگوں کو خوش خبری دے دے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے کہ بے شک ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، جب کبھی ان سے کوئی پھل انھیں کھانے کے لیے دیا جائے گا، کہیں گے یہ تو وہی ہے جو اس سے پہلے ہمیں دیا گیا تھا اور وہ انھیں ایک دوسرے سے ملتا جلتا دیا جائے گا، اور ان کے لیے ان میں نہایت پاک صاف بیویاں ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔” [البقرہ: 25]
❄وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ لَّهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَنُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِيلًا
"اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ہم انھیں عنقریب ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں ہمیشہ، ان کے لیے ان میں نہایت پاک صاف بیویاں ہوں گی اور ہم انھیں بہت گھنے سائے میں داخل کریں گے۔” [النساء: 57]
❄إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُم بِإِيمَانِهِمْ ۖ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ
"بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، ان کا رب ان کے ایمان کی وجہ سے ان کی رہنمائی کرے گا، ان کے نیچے سے نعمت کے باغوں میں نہریں بہتی ہوں گی۔” [یونس: 9]
❄إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا۔ خَالِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا
"بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ان کے لیے فردوس کے باغ مہمانی ہوں گے۔ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے، وہ اس سے جگہ بدلنا نہ چاہیں گے۔” [الکھف: 108-107]
❄عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ «أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَا لاَ عَيْنٌ رَأَتْ، وَلاَ أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلاَ خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ، فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ»
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں ، جنہیں نہ آنکھوں نے دیکھا ، نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا کبھی خیال گزرا ہے ۔ اگر جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو ” پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں“۔ [صحیح بخاری: 3244]
5۔ دعاؤں کی قبولیت:
وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ۔ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَىٰ وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ
"اور زکریا کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا اے میرے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب وارثوں سے بہتر ہے۔ تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا کیا اور اس کی بیوی کو اس کے لیے درست کردیا، بے شک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف سے پکارتے تھے اور وہ ہمارے ہی لیے عاجزی کرنے والے تھے۔” [البقرہ: 90-89]
6۔ اللہ کی محبت اور قربت کا حصول:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ قَالَ: مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ المُؤْمِنِ، يَكْرَهُ المَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ
ترجمہ: سیدنا ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اورکوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے ( یعنی فرائض مجھ کو بہت پسندہیںجیسے نماز ، روزہ، حج ، زکوٰۃ ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کرکے مجھ سے اتنا نزدیک ہوجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے ۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتاہے۔ [صحیح بخاری: 6502]
7۔ فرشتوں اور لوگوں کے دلوں میں محبت ڈال دی جاتی ہے:
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ؛
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَٰنُ وُدًّا
"بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے عنقریب ان کے لیے رحمان محبت پیدا کر دے گا۔” [مریم: 96]
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ العَبْدَ نَادَى جِبْرِيلَ: إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحْبِبْهُ، فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ، فَيُنَادِي جِبْرِيلُ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ: إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحِبُّوهُ، فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ القَبُولُ فِي الأَرْضِ
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے ۔ تم بھی اس سے محبت رکھو ، چنانچہ جبرئیل علیہ السلام بھی اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں ۔ پھر جبرئیل علیہ السلام تمام اہل آسمان کو پکار دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت رکھتا ہے ۔ اس لیے تم سب لوگ اس سے محبت رکھو ، چنانچہ تمام آسمان والے اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں ۔ اس کے بعد روئے زمین والے بھی اس کو مقبول سمجھتے ہیں۔ [صحیح بخاری: 3209]
8۔ مشکلات دور ہوتی ہیں:
حضرت ابن عمر سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺنے فرمایا؛
’’تین آدمی کہیں جانے کے لیے نکلے تو راستے میں انھیں بارش نے آلیا چنانچہ (بارش سے بچنے کے لیے) وہ تینوں ایک پہاڑ کی غار میں داخل ہوگئے۔ اوپر سے ایک چٹان گری (جس سے غار کامنہ بند ہوگیا) انھوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اپنے بہترین عمل کا وسیلہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو جو تم نے کیاہے، تو ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ!میرے والدین بہت بوڑھے تھے، میں گھر سے نکلتا اور اپنے مویشیوں کو چراتا پھر شام کو واپس آتا، دودھ نکالتا، اسے لے کر پہلے والدین کو پیش کرتا۔ جب وہ نوش جاں کرلیتے تو پھر بچوں بیوی اور دیگر اہل خانہ کو پلایا کرتا تھا۔ ایک شام مجھے دیر ہوگئی۔ جب میں واپس گھر آیا تو والدین سو گئے تھے۔ میں نے انھیں بیدار کرنا اچھا خیال نہ کیا۔ دریں حالت میرے بچے پاؤں کے پاس بھوک سے بلبلارہے تھے۔ میری اور میرے والدین کی کیفیت رات بھر یہی رہی تاآنکہ فجر ہوگئی۔ اے اللہ!اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ عمل صرف تیری رضا جوئی کے لیے کیا ہے تو ہم سے یہ پتھر اتنا ہٹادے کہ کم از کم آسمان تو ہمیں نظر آنے لگے چنانچہ پتھر کو ہٹا دیاگیا۔
دوسرے نے دعا کی: اے اللہ! تو جانتاہے کہ میں اپنی چچا زاد لڑکی سے بہت محبت کرتا تھا۔ ایسی شدید محبت جو ایک مرد کو عورتوں سے ہوسکتی ہے۔ اس نے مجھ سے کہا: تو وہ مقصد حاصل نہیں کرسکتا جب تک مجھے سو دینار نہ دے دے۔ چنانچہ میں نے کوشش کرکے سو دینار جمع کرلیے، جب میں اس سے صحبت کے لیے بیٹھا تو اس نے کہا: اللہ سے ڈر اور اس مہر کو اس کے حق کے بغیر نہ توڑ۔ تب میں اٹھ کھڑا ہوا اور اسے چھوڑ دیا۔ اے اللہ!اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیری رضا طلبی کے لیے کیا ہے تو ہم سے چٹان کی رکاوٹ دورکردے، چنانچہ دوتہائی پتھر ہٹ گیا۔
تیسرے آدمی نے کہا: اے اللہ!تو جانتا ہے کہ میں نے ایک مزدورکو ایک "فرق” جوار کے عوض اجرت پر رکھا تھا۔ جب میں نے اسے غلہ دیا تو اس نے لینے سے انکار کردیا۔ میں نے یہ کیاکہ اس غلے کو زمین میں کاشت کردیا۔ پھر اس کی پیداوار سے گائیں خریدیں اور ایک چرواہا بھی رکھ لیا۔ پھر ایک دن وہ مزدور آیا اور کہنے لگا: اےاللہ کے بندے!میرا حق مجھے دے دے۔ میں نے کہا وہ گائیں اور چرواہا تمہارے ہیں۔ اس نے کہا: تم میرا مذاق اڑارہے ہو؟ میں نے کہا: میں تمہارے ساتھ مذاق نہیں کررہا ہوں۔ وہ واقعی تمہارے ہیں۔ اے اللہ!اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیری رضا کوطلب کرتے ہوئے کیاتھا تو ہم سے اس چٹان کو ہٹادے، چنانچہ اس چٹان کو ان سے ہٹا دیا گیا۔ [بخاری: 2215]
9۔ عذاب قبر سے نجات:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْمَيِّتَ يَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ فَيُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فِي قَبْرِهِ غَيْرَ فَزِعٍ وَلَا مَشْعُوفٍ ثُمَّ يُقَالُ لَهُ فِيمَ كُنْتَ فَيَقُولُ كُنْتُ فِي الْإِسْلَامِ فَيُقَالُ لَهُ مَا هَذَا الرَّجُلُ فَيَقُولُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَصَدَّقْنَاهُ فَيُقَالُ لَهُ هَلْ رَأَيْتَ اللَّهَ فَيَقُولُ مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَرَى اللَّهَ فَيُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَا وَقَاكَ اللَّهُ ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا فَيُقَالُ لَهُ هَذَا مَقْعَدُكَ وَيُقَالُ لَهُ عَلَى الْيَقِينِ كُنْتَ وَعَلَيْهِ مُتَّ وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ
ترجمہ: حضرت ابو ہر یرہ سے روایت ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
میت قبر میں پہنچ جا تی ہے۔ تو نیک آ دمی کو قبر میں (اٹھا کر) بٹھا دیا جا تا ہے ۔ اسے کو ئی گھبراہٹ اور پر یشا نی نہیں ہو تی اسے کہا جا تا ہے تو کس چیز میں تھا وہ کہتا ہے ۔ اسلا م میں ۔ کہا جاتا ہے ۔یہ آ دمی کو ن ہے ۔ وہ کہتا ہے ۔حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہمارے پاس اللہ کے ہاں سے واضح دلا ئل لے کر آ ئے تو ہم نے آپ ﷺ کی تصد یق کی ۔ کہا جا تا ہے ۔ تو نے اللہ کو دیکھا ہے ۔ وہ کہتا ہے ۔ کو ئی اس قا بل نہیں کہ (دنیا میں ) اللہ کو دیکھ سکے ۔ تب اس کے لئے جہنم کی طرف ایک دریچہ کھو لا جا تا ہے ۔ وہ دیکھتا ہے کہ آگ آگ کو تو ڑ پھو ڑ رہی ہے ۔ اسے کہا جا تا ہے دیکھ اللہ نے تجھے کس چیز سے بچا لیا ہے ۔ پھر اس کے لئے جنت کی طرف دریچہ کھو لا جا تا ہے ۔ وہ اس کی آب و تا ب اور اس کی نعمتیں دیکھتا ہے ۔ اسے کہا جا تا ہے ۔ یہ تیرا ٹھکا نہ ہے ۔ اور اسے کہا جا تا ہے ۔ یقین پر تو تھااور اسی پر تیری وفات ہو ئی اور اسی پر تواٹھا یا جا ئے گا ۔ ان شاء اللہ [ابن ماجہ: 4268 صححہ الالبانی]
برے اعمال کے نقصانات
ہر وہ کام جو اللہ کو ناپسند ہو ، گناہ اور عملِ بد کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ حدیث میں گناہ کی ایک اور تعریف آتی ہے۔
وَعَنِ النَوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ رضي الله عنه قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنِ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ فَقَالَ: الْبِرُّ: حُسْنُ الْخُلُقِ، وَالْإِثْمُ: مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ، وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ. ترجمہ: حضرت نواس بن سمعان سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نیکی اور گناہ کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ’’نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ کام ہے جو تیرے سینے میں کھٹکے اور تو ناپسند سمجھے کہ لوگ اس پر مطلع ہو جائیں۔‘‘ [صحیح مسلم: 6517]
گناہوں اور برے اعمال کے بہت سے نقصانات ہیں۔ یہاں چند ایک کا ذکر کیا جا رہا ہے:
1۔ دل پر سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ كَانَتْ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فِي قَلْبِهِ فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ صُقِلَ قَلْبُهُ فَإِنْ زَادَ زَادَتْ فَذَلِكَ الرَّانُ الَّذِي ذَكَرَهُ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ سے روا یت ہے رسول اللہ ﷺ نے فر مایا ۔جب مو من کو ئی گنا ہ کر تا ہے تو اس کے دل پر ایک سیا ہ نقطہ لگ جا تا ہے ۔اگر وہ تو بہ کر لے با ز آ جا ئے اور (اللہ سے) بخشش کی درخوا ست کرے تو اس کا دل صا ف ہو جا تا ہے ۔ اگر مزیدگنا ہ کر ے تو سیاہی کا نقطہ زیا دہ ہو جا تا ہے ۔ (حتیٰ کہ ہو تے ہو تے دل بالکل سیا ہ ہو جا تا ہے ۔)یہی وہ زنگ ہے ۔ جس کا ذ کر اللہ تعا لی نے اپنی کتا ب میں (اس فر ن میں ) کیا ہے
كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ
یو ں نہیں بلکہ ان کے دلو ں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ چڑھ گیا ہے۔ [ابن ماجہ: 4244]
2۔ جہنم ٹھکانہ بن جاتا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ۔ أُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
"بے شک وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے اور وہ دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے اور اس پر مطمئن ہوگئے اور وہ لوگ جو ہماری آیات سے غافل ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے، اس کے بدلے جو وہ کمایا کرتے تھے۔” [یونس: 8-7]
3۔ فرشتوں اور لوگوں کے دلوں میں نفرت ڈال دی جاتی ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ عَبْدًا دَعَا جِبْرِيلَ فَقَالَ إِنِّي أُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبَّهُ قَالَ فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ ثُمَّ يُنَادِي فِي السَّمَاءِ فَيَقُولُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ قَالَ ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ وَإِذَا أَبْغَضَ عَبْدًا دَعَا جِبْرِيلَ فَيَقُولُ إِنِّي أُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضْهُ قَالَ فَيُبْغِضُهُ جِبْرِيلُ ثُمَّ يُنَادِي فِي أَهْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللَّهَ يُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضُوهُ قَالَ فَيُبْغِضُونَهُ ثُمَّ تُوضَعُ لَهُ الْبَغْضَاءُ فِي الْأَرْضِ
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
"جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل علیہ السلام کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے: میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو، کہا: تو جبرئیل اس سے محبت کرتے ہیں، پھر وہ آسمان میں آواز دیتے ہیں، کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتاہے، تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں، کہا: پھر اس کے لیے زمین میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے، اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بغض رکھتا ہے تو جبرئیل کو بُلا کر فرماتا ہے: میں فلاں شخص سے بغج رکھتا ہوں، تم بھی اس سے بغض رکھو، تو جبرئیل اس سے بغض رکھتے ہیں، پھر وہ آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے بغض رکھتا ے، تم بھی اس سے بغض رکھو، کہا: تو وہ (سب) اس سے بغض رکھتے ہیں، پھر اس کے لیے زمین میں بھی بغض رکھ دیا جاتا ہے۔” [صحیح مسلم: 6705]
4۔ قبر میں عذاب دیا جاتا ہے:
سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
يُجْلَسُ الرَّجُلُ السُّوءُ فِي قَبْرِهِ فَزِعًا مَشْعُوفًا فَيُقَالُ لَهُ فِيمَ كُنْتَ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي فَيُقَالُ لَهُ مَا هَذَا الرَّجُلُ فَيَقُولُ سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ قَوْلًا فَقُلْتُهُ فَيُفْرَجُ لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَا صَرَفَ اللَّهُ عَنْكَ ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَيُقَالُ لَهُ هَذَا مَقْعَدُكَ عَلَى الشَّكِّ كُنْتَ وَعَلَيْهِ مُتَّ وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى
"برے آ دمی کو قبر میں بٹھا یا جا تا ہے ۔ تو وہ گھبرایا ہو ا اور بد حوا س ہو تا ہے ، اسے کہا جا تا ہے ۔ تو کس چیز میں تھا وہ کہتا ہے۔ معلو م نہیں ۔ اسے کہا جا تا ہے ۔ (تیری طرف مبعوث ہو نے والا ) یہ آ دمی کو ن ہے ۔ وہ کہتا ہے ۔ مجھے معلو م نہیں۔ میں نے لو گو ں کو ایک با ت کہتا سنا تھا وہ میں نے بھی کہہ دی ۔ تب اس کے لئے جنت کی طرف ایک دریچہ کھو لا جا تا ہے۔ اسے اس کی آب و تا ب اور اس کی نعمتیں نظر آ تی ہیں اسے کہا جا تا ہے۔ دیکھ اللہ نے تجھے کس چیز سے محروم کر دیا ۔ پھر اس کے لئے جہنم کی طرف دریچہ کھو لا جا تا ہے ۔ وہ اسے دیکھتا ہے۔ کہ آ گ آگ کو تو ڑ پھو ڑ رہی ہے ۔ اور اسے کہا جا تا ہے۔ یہ تیرا ٹھکا نہ ہے ۔ تو ( زندگی میں بھی ) شک پر تھا اور اسی حا لت میں مر گیا اور اسی پر تو اٹھا یا جا ئے گا ان شا ء اللہ۔” [ابن ماجہ: 4268 صححہ الالبانی]
5۔ علم سے محرومی:
علم نورِالٰہی ہےاورگناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے انسان علم سے محروم ہوجاتا ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں؛
شَكَوتُ إِلى وَكِيعٍ سوءَ حِفظي فَأرشَدني إِلى تَركِ المَعاصي
وأخبرني بِأنَّ العلمَ نورٌ ونورُ اللّهِ لا يُهدى لِعاصي
ترجمہ: میں نے اپنے استاذ وکیع سے کمزور حافظے کے بارے پوچھا تو انہوں نے مجھے گناہ چھوڑ دینے کی نصیحت کی اور فرمایا کہ علم اللہ کا نور ہے اور اللہ کا نور گنہگار کو حاصل نہیں ہوتا ہے۔
[الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع للخطیب البغدادی: 2/ 258]
دوسرا خطبہ:
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم نے اللہ کے فضل و کرم سے سب سے پہلے یہ بات سمجھی ہے کہ انسانیت کی تخلیق کا بنیادی مقصد اللہ کی عبات کرنا اور نیک اعمال بجا لانا ہے ، اس کے بعد نیک اعمال کے فوائد و ثمرات سمجھے ہیں کہ نیک اعمال کرنے سے اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اورلوگوں کی محبت حاصل ہوتی ہیں ، دنیا و آخرت میں کامیابی ، عذابِ قبر سے نجات اور جنت کی ضمانت ملتی ہے ، دعائیں قبول ہوتی ہیں ، مشکلات کا خاتمہ ہوتا ہے ، آل أولاد اور مال و جائیداد کی حفاظت ہوتی ہے۔
آخر میں یہ بات سمجھی ہے کہ جو شخص نیک اعمال نہیں کرتا ، اپنی زندگی شریعت کے مطابق نہیں گزارتا اور گناہ یہ گناہ کئے جاتا ہے ، ایسے شخص کا دل سیاہ ہو جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور لوگوں کی نفرت ، عذابِ قبر اور جہنم کا مستحق ٹھہرتا ہےاور علم سے محروم رہ جاتا ہے
اہم عناصر :
❄اعمال صالحہ کا معنیٰ ❄اعمال صالحہ کے فوائد و ثمرات
❄برے اعمال کا معنیٰ ❄برے اعمال کے نقصانات
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ [النحل: 97]
ذی وقار سامعین!
تخلیقِ انسانی کا واحد مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور اعمالِ صالحہ سرانجام دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ؛
❄وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
"اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔” [الذاریات: 56]
❄الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ
"وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا، تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے اور وہی سب پر غالب، بے حد بخشنے والا ہے۔” [الملک: 2]
❄إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا
"بے شک ہم نے زمین پر جو کچھ ہے اس کے لیے زینت بنایا ہے، تاکہ ہم انھیں آزمائیں ان میں سے کون عمل میں بہتر ہے۔” [الکھف: 7]
❄وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا
"اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا، تاکہ وہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے۔” [ھود: 7]
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رسولوں اور عام لوگوں کو اعمالِ صالحہ کا حکم دیا ہے۔
❄يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
"اے رسولو! پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤاور نیک عمل کرو، یقیناً میں اسے جو تم کرتے ہو، خوب جاننے والا ہوں۔” [المؤمنون: 51]
❄يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو اور نیکی کرو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔” [الحج: 77]
اعمالِ صالحہ سے مراد ہر وہ کام ہے جس سے اللہ تعالیٰ خوش ہوجائیں۔ لیکن اس میں تین شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔
1۔ ایمان 2۔ اخلاص 3۔ اتّباعِ رسول
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اعمال صالحہ کے فوائد اور ثمرات سمجھیں گےاور گناہوں کے نقصانات پر غور کریں گے۔
اعمالِ صالحہ کے فوائد و ثمرات
اعمالِ صالحہ کے فوائد اور ثمرات بہت سارے ہیں ، چند ایک پیشِ خدمت ہیں:
1۔ کامیابی کی ضمانت:
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ؛
وَالعَصرِ ۔ اِنَّ الاِنسَانَ لَفِى خُسرٍ۔ اِلَّا الَّذِينَ اٰمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوا بِالحَقِّ ۙ وَتَوَاصَوا بِالصَّبرِ
ترجمہ: زمانے کی قسم! کہ بے شک ہر انسان یقیناً گھاٹے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔ [العصر: 3-1]
2۔ دنیا و آخرت کی سعادت:
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ؛
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
"جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقیناً ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی اور یقیناً ہم انھیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے۔” [النحل: 97]
3۔ مال اور اہل وعیال کی حفاظت:
موسیٰ اور خضر علیہما السلام ایک بستی سے گزر رہے تھے،انہیں ایک دیوار گرتی ہوئی محسوس ہوئی تو خضر علیہ السلام نے فوراً سیدھی کردی اور بعد میں موسیٰ علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا؛ وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَن يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا
"اور رہ گئی دیوار تو وہ شہر میں دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لیے ایک خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک تھا تو تیرے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور اپنا خزانہ نکال لیں، تیرے رب کی طرف سے رحمت کے لیے اور میں نے یہ اپنی مرضی سے نہیں کیا۔ یہ ہے اصل حقیقت ان باتوں کی جن پر تو صبر نہیں کرسکا۔” [الکھف: 82]
ان یتیم بچوں کے مال کی حفاظت ان کے باپ کی نیکی کی وجہ سے کی گئی اور ان بچوں کی نیکی کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ نیک انسان کے مال واولاد کی حفاظت اس کی وفات کے بعد بھی کی جاتی ہے۔
4۔ حصولِ جنّت:
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ؛
❄وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا هَٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
"اور ان لوگوں کو خوش خبری دے دے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے کہ بے شک ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، جب کبھی ان سے کوئی پھل انھیں کھانے کے لیے دیا جائے گا، کہیں گے یہ تو وہی ہے جو اس سے پہلے ہمیں دیا گیا تھا اور وہ انھیں ایک دوسرے سے ملتا جلتا دیا جائے گا، اور ان کے لیے ان میں نہایت پاک صاف بیویاں ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔” [البقرہ: 25]
❄وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ لَّهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَنُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِيلًا
"اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ہم انھیں عنقریب ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں ہمیشہ، ان کے لیے ان میں نہایت پاک صاف بیویاں ہوں گی اور ہم انھیں بہت گھنے سائے میں داخل کریں گے۔” [النساء: 57]
❄إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُم بِإِيمَانِهِمْ ۖ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ
"بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، ان کا رب ان کے ایمان کی وجہ سے ان کی رہنمائی کرے گا، ان کے نیچے سے نعمت کے باغوں میں نہریں بہتی ہوں گی۔” [یونس: 9]
❄إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا۔ خَالِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا
"بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ان کے لیے فردوس کے باغ مہمانی ہوں گے۔ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے، وہ اس سے جگہ بدلنا نہ چاہیں گے۔” [الکھف: 108-107]
❄عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ «أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَا لاَ عَيْنٌ رَأَتْ، وَلاَ أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلاَ خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ، فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ»
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں ، جنہیں نہ آنکھوں نے دیکھا ، نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا کبھی خیال گزرا ہے ۔ اگر جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو ” پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں“۔ [صحیح بخاری: 3244]
5۔ دعاؤں کی قبولیت:
وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ۔ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَىٰ وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ
"اور زکریا کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا اے میرے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب وارثوں سے بہتر ہے۔ تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا کیا اور اس کی بیوی کو اس کے لیے درست کردیا، بے شک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف سے پکارتے تھے اور وہ ہمارے ہی لیے عاجزی کرنے والے تھے۔” [البقرہ: 90-89]
6۔ اللہ کی محبت اور قربت کا حصول:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ قَالَ: مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ المُؤْمِنِ، يَكْرَهُ المَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ
ترجمہ: سیدنا ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اورکوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے ( یعنی فرائض مجھ کو بہت پسندہیںجیسے نماز ، روزہ، حج ، زکوٰۃ ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کرکے مجھ سے اتنا نزدیک ہوجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے ۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتاہے۔ [صحیح بخاری: 6502]
7۔ فرشتوں اور لوگوں کے دلوں میں محبت ڈال دی جاتی ہے:
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ؛
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَٰنُ وُدًّا
"بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے عنقریب ان کے لیے رحمان محبت پیدا کر دے گا۔” [مریم: 96]
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ العَبْدَ نَادَى جِبْرِيلَ: إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحْبِبْهُ، فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ، فَيُنَادِي جِبْرِيلُ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ: إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحِبُّوهُ، فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ القَبُولُ فِي الأَرْضِ
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے ۔ تم بھی اس سے محبت رکھو ، چنانچہ جبرئیل علیہ السلام بھی اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں ۔ پھر جبرئیل علیہ السلام تمام اہل آسمان کو پکار دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت رکھتا ہے ۔ اس لیے تم سب لوگ اس سے محبت رکھو ، چنانچہ تمام آسمان والے اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں ۔ اس کے بعد روئے زمین والے بھی اس کو مقبول سمجھتے ہیں۔ [صحیح بخاری: 3209]
8۔ مشکلات دور ہوتی ہیں:
حضرت ابن عمر سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺنے فرمایا؛
’’تین آدمی کہیں جانے کے لیے نکلے تو راستے میں انھیں بارش نے آلیا چنانچہ (بارش سے بچنے کے لیے) وہ تینوں ایک پہاڑ کی غار میں داخل ہوگئے۔ اوپر سے ایک چٹان گری (جس سے غار کامنہ بند ہوگیا) انھوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اپنے بہترین عمل کا وسیلہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو جو تم نے کیاہے، تو ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ!میرے والدین بہت بوڑھے تھے، میں گھر سے نکلتا اور اپنے مویشیوں کو چراتا پھر شام کو واپس آتا، دودھ نکالتا، اسے لے کر پہلے والدین کو پیش کرتا۔ جب وہ نوش جاں کرلیتے تو پھر بچوں بیوی اور دیگر اہل خانہ کو پلایا کرتا تھا۔ ایک شام مجھے دیر ہوگئی۔ جب میں واپس گھر آیا تو والدین سو گئے تھے۔ میں نے انھیں بیدار کرنا اچھا خیال نہ کیا۔ دریں حالت میرے بچے پاؤں کے پاس بھوک سے بلبلارہے تھے۔ میری اور میرے والدین کی کیفیت رات بھر یہی رہی تاآنکہ فجر ہوگئی۔ اے اللہ!اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ عمل صرف تیری رضا جوئی کے لیے کیا ہے تو ہم سے یہ پتھر اتنا ہٹادے کہ کم از کم آسمان تو ہمیں نظر آنے لگے چنانچہ پتھر کو ہٹا دیاگیا۔
دوسرے نے دعا کی: اے اللہ! تو جانتاہے کہ میں اپنی چچا زاد لڑکی سے بہت محبت کرتا تھا۔ ایسی شدید محبت جو ایک مرد کو عورتوں سے ہوسکتی ہے۔ اس نے مجھ سے کہا: تو وہ مقصد حاصل نہیں کرسکتا جب تک مجھے سو دینار نہ دے دے۔ چنانچہ میں نے کوشش کرکے سو دینار جمع کرلیے، جب میں اس سے صحبت کے لیے بیٹھا تو اس نے کہا: اللہ سے ڈر اور اس مہر کو اس کے حق کے بغیر نہ توڑ۔ تب میں اٹھ کھڑا ہوا اور اسے چھوڑ دیا۔ اے اللہ!اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیری رضا طلبی کے لیے کیا ہے تو ہم سے چٹان کی رکاوٹ دورکردے، چنانچہ دوتہائی پتھر ہٹ گیا۔
تیسرے آدمی نے کہا: اے اللہ!تو جانتا ہے کہ میں نے ایک مزدورکو ایک "فرق” جوار کے عوض اجرت پر رکھا تھا۔ جب میں نے اسے غلہ دیا تو اس نے لینے سے انکار کردیا۔ میں نے یہ کیاکہ اس غلے کو زمین میں کاشت کردیا۔ پھر اس کی پیداوار سے گائیں خریدیں اور ایک چرواہا بھی رکھ لیا۔ پھر ایک دن وہ مزدور آیا اور کہنے لگا: اےاللہ کے بندے!میرا حق مجھے دے دے۔ میں نے کہا وہ گائیں اور چرواہا تمہارے ہیں۔ اس نے کہا: تم میرا مذاق اڑارہے ہو؟ میں نے کہا: میں تمہارے ساتھ مذاق نہیں کررہا ہوں۔ وہ واقعی تمہارے ہیں۔ اے اللہ!اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیری رضا کوطلب کرتے ہوئے کیاتھا تو ہم سے اس چٹان کو ہٹادے، چنانچہ اس چٹان کو ان سے ہٹا دیا گیا۔ [بخاری: 2215]
9۔ عذاب قبر سے نجات:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْمَيِّتَ يَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ فَيُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فِي قَبْرِهِ غَيْرَ فَزِعٍ وَلَا مَشْعُوفٍ ثُمَّ يُقَالُ لَهُ فِيمَ كُنْتَ فَيَقُولُ كُنْتُ فِي الْإِسْلَامِ فَيُقَالُ لَهُ مَا هَذَا الرَّجُلُ فَيَقُولُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَصَدَّقْنَاهُ فَيُقَالُ لَهُ هَلْ رَأَيْتَ اللَّهَ فَيَقُولُ مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَرَى اللَّهَ فَيُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَا وَقَاكَ اللَّهُ ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا فَيُقَالُ لَهُ هَذَا مَقْعَدُكَ وَيُقَالُ لَهُ عَلَى الْيَقِينِ كُنْتَ وَعَلَيْهِ مُتَّ وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ
ترجمہ: حضرت ابو ہر یرہ سے روایت ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
میت قبر میں پہنچ جا تی ہے۔ تو نیک آ دمی کو قبر میں (اٹھا کر) بٹھا دیا جا تا ہے ۔ اسے کو ئی گھبراہٹ اور پر یشا نی نہیں ہو تی اسے کہا جا تا ہے تو کس چیز میں تھا وہ کہتا ہے ۔ اسلا م میں ۔ کہا جاتا ہے ۔یہ آ دمی کو ن ہے ۔ وہ کہتا ہے ۔حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہمارے پاس اللہ کے ہاں سے واضح دلا ئل لے کر آ ئے تو ہم نے آپ ﷺ کی تصد یق کی ۔ کہا جا تا ہے ۔ تو نے اللہ کو دیکھا ہے ۔ وہ کہتا ہے ۔ کو ئی اس قا بل نہیں کہ (دنیا میں ) اللہ کو دیکھ سکے ۔ تب اس کے لئے جہنم کی طرف ایک دریچہ کھو لا جا تا ہے ۔ وہ دیکھتا ہے کہ آگ آگ کو تو ڑ پھو ڑ رہی ہے ۔ اسے کہا جا تا ہے دیکھ اللہ نے تجھے کس چیز سے بچا لیا ہے ۔ پھر اس کے لئے جنت کی طرف دریچہ کھو لا جا تا ہے ۔ وہ اس کی آب و تا ب اور اس کی نعمتیں دیکھتا ہے ۔ اسے کہا جا تا ہے ۔ یہ تیرا ٹھکا نہ ہے ۔ اور اسے کہا جا تا ہے ۔ یقین پر تو تھااور اسی پر تیری وفات ہو ئی اور اسی پر تواٹھا یا جا ئے گا ۔ ان شاء اللہ [ابن ماجہ: 4268 صححہ الالبانی]
برے اعمال کے نقصانات
ہر وہ کام جو اللہ کو ناپسند ہو ، گناہ اور عملِ بد کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ حدیث میں گناہ کی ایک اور تعریف آتی ہے۔
وَعَنِ النَوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ رضي الله عنه قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنِ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ فَقَالَ: الْبِرُّ: حُسْنُ الْخُلُقِ، وَالْإِثْمُ: مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ، وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ. ترجمہ: حضرت نواس بن سمعان سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نیکی اور گناہ کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ’’نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ کام ہے جو تیرے سینے میں کھٹکے اور تو ناپسند سمجھے کہ لوگ اس پر مطلع ہو جائیں۔‘‘ [صحیح مسلم: 6517]
گناہوں اور برے اعمال کے بہت سے نقصانات ہیں۔ یہاں چند ایک کا ذکر کیا جا رہا ہے:
1۔ دل پر سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ كَانَتْ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فِي قَلْبِهِ فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ صُقِلَ قَلْبُهُ فَإِنْ زَادَ زَادَتْ فَذَلِكَ الرَّانُ الَّذِي ذَكَرَهُ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ سے روا یت ہے رسول اللہ ﷺ نے فر مایا ۔جب مو من کو ئی گنا ہ کر تا ہے تو اس کے دل پر ایک سیا ہ نقطہ لگ جا تا ہے ۔اگر وہ تو بہ کر لے با ز آ جا ئے اور (اللہ سے) بخشش کی درخوا ست کرے تو اس کا دل صا ف ہو جا تا ہے ۔ اگر مزیدگنا ہ کر ے تو سیاہی کا نقطہ زیا دہ ہو جا تا ہے ۔ (حتیٰ کہ ہو تے ہو تے دل بالکل سیا ہ ہو جا تا ہے ۔)یہی وہ زنگ ہے ۔ جس کا ذ کر اللہ تعا لی نے اپنی کتا ب میں (اس فر ن میں ) کیا ہے
كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ
یو ں نہیں بلکہ ان کے دلو ں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ چڑھ گیا ہے۔ [ابن ماجہ: 4244]
2۔ جہنم ٹھکانہ بن جاتا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ۔ أُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
"بے شک وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے اور وہ دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے اور اس پر مطمئن ہوگئے اور وہ لوگ جو ہماری آیات سے غافل ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے، اس کے بدلے جو وہ کمایا کرتے تھے۔” [یونس: 8-7]
3۔ فرشتوں اور لوگوں کے دلوں میں نفرت ڈال دی جاتی ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ عَبْدًا دَعَا جِبْرِيلَ فَقَالَ إِنِّي أُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبَّهُ قَالَ فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ ثُمَّ يُنَادِي فِي السَّمَاءِ فَيَقُولُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ قَالَ ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ وَإِذَا أَبْغَضَ عَبْدًا دَعَا جِبْرِيلَ فَيَقُولُ إِنِّي أُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضْهُ قَالَ فَيُبْغِضُهُ جِبْرِيلُ ثُمَّ يُنَادِي فِي أَهْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللَّهَ يُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضُوهُ قَالَ فَيُبْغِضُونَهُ ثُمَّ تُوضَعُ لَهُ الْبَغْضَاءُ فِي الْأَرْضِ
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
"جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل علیہ السلام کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے: میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو، کہا: تو جبرئیل اس سے محبت کرتے ہیں، پھر وہ آسمان میں آواز دیتے ہیں، کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتاہے، تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں، کہا: پھر اس کے لیے زمین میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے، اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بغض رکھتا ہے تو جبرئیل کو بُلا کر فرماتا ہے: میں فلاں شخص سے بغج رکھتا ہوں، تم بھی اس سے بغض رکھو، تو جبرئیل اس سے بغض رکھتے ہیں، پھر وہ آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے بغض رکھتا ے، تم بھی اس سے بغض رکھو، کہا: تو وہ (سب) اس سے بغض رکھتے ہیں، پھر اس کے لیے زمین میں بھی بغض رکھ دیا جاتا ہے۔” [صحیح مسلم: 6705]
4۔ قبر میں عذاب دیا جاتا ہے:
سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
يُجْلَسُ الرَّجُلُ السُّوءُ فِي قَبْرِهِ فَزِعًا مَشْعُوفًا فَيُقَالُ لَهُ فِيمَ كُنْتَ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي فَيُقَالُ لَهُ مَا هَذَا الرَّجُلُ فَيَقُولُ سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ قَوْلًا فَقُلْتُهُ فَيُفْرَجُ لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَا صَرَفَ اللَّهُ عَنْكَ ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَيُقَالُ لَهُ هَذَا مَقْعَدُكَ عَلَى الشَّكِّ كُنْتَ وَعَلَيْهِ مُتَّ وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى
"برے آ دمی کو قبر میں بٹھا یا جا تا ہے ۔ تو وہ گھبرایا ہو ا اور بد حوا س ہو تا ہے ، اسے کہا جا تا ہے ۔ تو کس چیز میں تھا وہ کہتا ہے۔ معلو م نہیں ۔ اسے کہا جا تا ہے ۔ (تیری طرف مبعوث ہو نے والا ) یہ آ دمی کو ن ہے ۔ وہ کہتا ہے ۔ مجھے معلو م نہیں۔ میں نے لو گو ں کو ایک با ت کہتا سنا تھا وہ میں نے بھی کہہ دی ۔ تب اس کے لئے جنت کی طرف ایک دریچہ کھو لا جا تا ہے۔ اسے اس کی آب و تا ب اور اس کی نعمتیں نظر آ تی ہیں اسے کہا جا تا ہے۔ دیکھ اللہ نے تجھے کس چیز سے محروم کر دیا ۔ پھر اس کے لئے جہنم کی طرف دریچہ کھو لا جا تا ہے ۔ وہ اسے دیکھتا ہے۔ کہ آ گ آگ کو تو ڑ پھو ڑ رہی ہے ۔ اور اسے کہا جا تا ہے۔ یہ تیرا ٹھکا نہ ہے ۔ تو ( زندگی میں بھی ) شک پر تھا اور اسی حا لت میں مر گیا اور اسی پر تو اٹھا یا جا ئے گا ان شا ء اللہ۔” [ابن ماجہ: 4268 صححہ الالبانی]
5۔ علم سے محرومی:
علم نورِالٰہی ہےاورگناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے انسان علم سے محروم ہوجاتا ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں؛
شَكَوتُ إِلى وَكِيعٍ سوءَ حِفظي فَأرشَدني إِلى تَركِ المَعاصي
وأخبرني بِأنَّ العلمَ نورٌ ونورُ اللّهِ لا يُهدى لِعاصي
ترجمہ: میں نے اپنے استاذ وکیع سے کمزور حافظے کے بارے پوچھا تو انہوں نے مجھے گناہ چھوڑ دینے کی نصیحت کی اور فرمایا کہ علم اللہ کا نور ہے اور اللہ کا نور گنہگار کو حاصل نہیں ہوتا ہے۔
[الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع للخطیب البغدادی: 2/ 258]
دوسرا خطبہ:
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم نے اللہ کے فضل و کرم سے سب سے پہلے یہ بات سمجھی ہے کہ انسانیت کی تخلیق کا بنیادی مقصد اللہ کی عبات کرنا اور نیک اعمال بجا لانا ہے ، اس کے بعد نیک اعمال کے فوائد و ثمرات سمجھے ہیں کہ نیک اعمال کرنے سے اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اورلوگوں کی محبت حاصل ہوتی ہیں ، دنیا و آخرت میں کامیابی ، عذابِ قبر سے نجات اور جنت کی ضمانت ملتی ہے ، دعائیں قبول ہوتی ہیں ، مشکلات کا خاتمہ ہوتا ہے ، آل أولاد اور مال و جائیداد کی حفاظت ہوتی ہے۔
آخر میں یہ بات سمجھی ہے کہ جو شخص نیک اعمال نہیں کرتا ، اپنی زندگی شریعت کے مطابق نہیں گزارتا اور گناہ یہ گناہ کئے جاتا ہے ، ایسے شخص کا دل سیاہ ہو جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور لوگوں کی نفرت ، عذابِ قبر اور جہنم کا مستحق ٹھہرتا ہےاور علم سے محروم رہ جاتا ہے