وساوس شیطان اور حفاظت رحمان
﴿إِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًا) (فاطر:6)
گذشتہ خطبات میں ہم نے جانا کہ شیطان کا انسان کی زندگی میں ایسا عمل دخل ہے کہ وہ چھوٹی سے چھوٹی بات سے لے کر بڑے سے بڑے معاملے تک ہر کام اور ہر چیز میں دخل اندازی کرتا ہے، چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا:
(إِنَّ الشَّيْطَانَ يَحْضُرُ أَحَدَكُمْ عِنْدَ كُلِّ شَيْءٍ مِنْ شَأْنِهِ)
’’شیطان تمہارے ہر کام کے وقت تمہارے پاس موجود رہتا ہے۔‘‘
(( حتّٰى يَحْضُرُهُ عِنْدَ طَعَامِهِ)) (مسلم: 2033)
’’حتی کہ اس کے کھانے کے موقع پر بھی اس کے پاس حاضر ہو جاتا ہے۔ ‘‘
اور جیسا کہ متعدد آیات و احادیث سے ثابت ہے کہ وہ انسان سے کھانے پینے، سونے جاگنے ، اٹھنے بیٹھنے، قضائے حاجت کرنے ، وضو کرنے اور نماز پڑھنے ، لین دین، معاملات اور کاروبار کرنے ، شادی بیاہ، سفر، گفتگو اور زندگی کے ہر ایک معاملے میں آتا ہے اور دخل اندازی کرتا ہے، وسوسے ڈالتا ہے اور بسا اوقات فزیکی بھی اذیت پہنچاتا اور پریشان کرتا ہے۔ بلکہ اس کی دخل اندازی کی شدت اور وسعت کو بایں الفاظ بیان فرمایا کہ:
((إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرىَ الدَّمِ) (بخاری:3281)
’’کہ شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا ہے۔‘‘
تو اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انسان کسی طرح چاروں اطراف سے شیطان کے نرغے میں ہے اور شیطان نے اللہ تعالی کے حضور اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کچھ ایسے کہا تھا:
﴿قَالَ فَبِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَۙ﴾ (الاعراف:16)
’’اس نے کہا: اچھا تو جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا۔‘‘
﴿ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِهِمْ وَ عَنْ شَمَآىِٕلِهِمْ ؕ وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ۱۷﴾(الاعراف:17)
’’میں انہیں آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں، ہر طرف سے گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔‘‘
شیطان کے انسان کے معاملات میں دخل اندازی کرنے کا مطلب ہے کہ وہ وسوسوں کے ذریعے ہر معاملے میں گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا بنیادی حربہ اور ہتھیار انسان کو گمراہ کرنے کا ایک ہی ہے اور وہ ہے وسوسے، البتہ ہر شخص کے دل میں وہ مختلف وسوسے ڈالتا ہے، وہ آدمی کے علم، اس کی پسند نا پسند، اس کے رجحانات و میلانات، اس کی ضروریات ، اس کی خواہشات ، اس کے جذبات اس کے ایمان اور تقوی ، اس کی دین میں پختگی اور کمزوری اور اس کے معاشی اور معاشرتی حالات کے مطابق وسوسے ڈالتا ہے۔
شیطان کی چالیں یقینًا بے شمار ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک خطرناک ہیں، اس کی چالوں کو سمجھنا اور محسوس کرنا آسان بات نہیں، اللہ تعالی کے خصوصی فضل کے بعد اسے صرف دیندار اور متقی و پرہیز گار لوگ ہی محسوس کر سکتے ہیں۔
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓىِٕفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَۚ﴾(الاعراف:201)
’’حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں جب کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال انہیں چھو جاتا ہے، تو وہ فورا چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے ۔‘‘
گویا کہ شیطان جب کسی انسان کے دل میں وسوسے اور برے خیالات ڈالتا ہے، تو انسان کے دل و دماغ پر غفلت کا پردہ چھا جاتا ہے، پھر انسان کو کچھ بھائی نہیں دیتا ، حقائق اس کی نظروں کے سامنے دھندلا جاتے ہیں کہ وہ گویا اندھا ہو جاتا ہے، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے۔
تو پھر وہاں تقوٰی و پرہیز گاری کا نور کام آتا ہے کہ جس سے اندھیرے چھٹ جاتے ہیں، ہر چیز روشن ہو جاتی ہے اور سب کچھ صاف صاف نظر آنے لگتا ہے کہ یہ تو شیطانی وسوسہ تھا۔
اس کے برعکس جو لوگ گناہوں کی دلدل میں پھنسے ہوتے ہیں وہ پوری طرح شیطان کے چنگل میں جکڑے ہوتے ہیں۔ انہیں شیطان کے وسوسوں کا احساس ہوتا ہے اور نہ وہ انھیں سمجھتے ہیں، بلکہ وہ ان خیالات سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اپنی لگن میں مگن رہتے ہیں۔ شیطان کا ان پر تسلط ہو جاتا ہے، پھر وہ جس طرح انہیں چاہتا ہے ورغلاتا اور بہکاتا ہے اور جدھر چاہتا ہے ہانک کر لے جاتا ہے، اور وہ اس کی ہانک پر یوں کھچے چلے جاتے ہیں جیسے چرواہا جب جانوروں کو پکارتا ہے تو وہ اس کی آواز اور صدا پر اس کے پیچھے چلے جاتے ہیں، اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں سمجھتے۔
﴿وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءً ؕ﴾ (البقرة: 171)
’’وہ اس کی صدا اور پکار کے سوا کچھ نہیں سمجھتے ۔ ‘‘
وہ جو بڑے بڑے گناہوں کے بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں، اک ہلکے سے شیطانی وسوسے کو کیا محسوس کریں گے۔
تو انسان ہر طرف سے پوری طرح شیطان کی چالوں، اس کے وسوسوں اور حربوں میں گھرا ہوا ہے، ان سے بچنے کے لیے ان سے آگاہی اور پھر حفاظتی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔ شیطان کی چالیں تو یقینًا بے شمار ہیں ، ان میں سے چند ایک سے آگاہی حاصل کر کے ان سے بچاؤ کی تدابیر جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ شیطان انسان کے خلاف جو چالیں چلتا ہے، جن گناہوں میں پھنسانے اور مصیبتوں کا شکار کرنے کی کوشش کرتا ہے، ان میں سے چند ایک ملاحظہ فرمائیں:
(1) …….وہ انسان کو شرک اور کفر پر آمادہ کرتا ہے، جیسا کہ گذشتہ خطبات میں ہم سن چکے ہیں۔
(2) ………وہ انسان کو فقر ومفلسی سے ڈراتا ہے اور فحاشی پر ابھارتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
﴿الشَّيْطَنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاء﴾ (البقرة:268)
’’شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور فحاشی کی ترغیب دیتا ہے۔‘‘
(۳) …….وہ انسان کو خیر کے کام بھلاتا ہے۔
(۴)……..نماز میں سے چوری کرنا ، جیسا کہ حدیث میں ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتی ہیں کہ:
(سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَنِ الْإِلْتِقَاتِ فِي الصَّلَاةِ)
’’میں نے نماز میں ادھر اُدھر دیکھنے کے بارے میں آپ ﷺسے دریافت کیا۔‘‘
( فَقَالَ: هُوَ اخْتِلَاسُ يَخْتَلِسُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ صَلَاةِ الْعَبْدِ) (بخاری:751)
’’تو فرمایا: یہ تو اچک لینا ہے، شیطان آدمی کی نماز سے اچک لیتا ہے۔‘‘
اور اس طرح اور بہت سی چالیں ہیں، مگر ان سے بچنے کا طریقہ جو قرآن وحدیث میں بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ سب سے پہلے شیطان کے شر اور اس کے وسوسوں سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کی جائے۔
جیسا کہ اللہ تعالی اس کا حکم کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿ وَ قُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِۙ وَ اَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ﴾ (المؤمنون:97، 98)
’’اور دعا کیجیے کہ اے میرے رب میں شیطان کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اے میرے رب میں اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں ۔‘‘
شیطان کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ مانگنا شیطان سے بچنے کا ایک سب سے بڑا اور
بنیادی عمل ہے۔
اسلام نے ہر ہر موقعے پر شیطان کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔ نماز کے شروع میں۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ
((رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ حِينَ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ، قَالَ: اللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ))(ابن ماجه:807)
’’میں نے آپ ﷺکو دیکھا کہ جب نماز میں داخل ہوتے تو یہ دعاء پڑھتے: اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے ، اس کی پھونک ، اس کی تھوک اور اس کے چوکے سے ۔‘‘
٭ باتھ روم میں داخل ہوتے وقت کی دعا سکھائی گئی ہے:
((اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ)) (بخاری:6322)
غصے کے وقت پناہ مانگنے کی دعا سکھلائی:
((أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ)) (بخاري:6115)
دوران سفر میں کسی جگہ پڑاؤ ڈالیں، یا منزل پر پہنچیں تو شیطان کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ مانگیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
((لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا نَزَلَ مَنْزِلًا قَالَ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ منْ شَرِّ مَا خَلَقَ، لَمْ يَضُرَّهُ فِي ذَلِكَ الْمَنْزِلِ شَيْءٍ حَتَّى يرتحِلَ)منه(( (ابن ماجة:112)
’’فرمایا: اگر تم میں سے کوئی شخص کسی جگہ ٹھہرے یا پڑاؤ ڈالے اور یہ کلمات کہے: أعوذ بكلمات الله التامة من شر ما خلق تو اسے اس جگہ کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی حتی کہ وہاں سے کوچ کر جائے ۔‘‘
٭ گدھے کے رینکنے کی آواز سن کر (( أعوذ باللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ)) پڑھنا۔
آپﷺ نے فرمایا:
((إِذَا سَمِعْتُمْ نَهِيقَ الْحِمَارِ فَتَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ))(بخاری:3303)
’’جب تم گدھے کے رینکنے کی آواز سنو تو شیطان سے اللہ تعالی کی پناہ مانگوں۔‘‘
٭ قرآن پاک کی تلاوت کے وقت تعوذ پڑھنے کا حکم فرمایا:
﴿فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ))(النحل:98)
’’پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان رجیم سے اللہ تعالی کی پناہ مانگ لیا کرو۔‘‘
٭ بچوں پر تعوذ کا دم کرنے کی تعلیم دی:
((عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِي اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ وَيَقُولُ إِنَّ أَبَاكُمَا كَانَ يُعَوِّذُ بِهَا إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانَ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةِ)) (بخاری:3371)
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ حضرت حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہما کو تعوذ کا دم کیا کرتے تھے یعنی اللہ تعالی کی پناہ میں دیا کرتے تھے اور فرماتے تمھارے باپ یعنی ابراہیم علیہ السلام اسماعیل اور اسحاق علیہما السلام کو ان الفاظ کے ساتھ اللہ تعالی کی پناہ میں دیا کرتے تھے۔ میں اللہ تعالی کے مکمل کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں ہر شیطان اور زہریلے جانور سے اور ہر طرح کی نظربدسے۔‘‘
غرضیکہ زندگی کے ہر پہلو اور ہر معاملے میں شیطان کے شر سے بچنے کے لیے تعوذات سکھائے گئے ہیں، اسلام نے کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا، جہاں جہاں شیطان کا عمل و نقل ہو سکتا ہے اس سے بچنے کے لیے ہماری رہنمائی فرمائی ، اسی طرح دیگر تمام مسائل و مشکلات سے نجات پانے کے لیے بھی طریقے بتائے اور دعا ئیں سکھا میں جو کہ قرآن و حدیث میں موجود ہیں جو کسی دوسرے خطبے میں ان شاء اللہ بیان کی جائیں گی۔
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
………………