شکوک و شبہات ، شیطانی واردات

﴿إِنَّ الشَّيْطَنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا﴾ (فاطر:6)
انسان کو دنیا میں جو جو مشکلات پیش آتی ہیں، جن جن پر یشانیوں، تکلیفوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کے متعدد اسباب اور مختلف حکمتیں ہیں، حکمتوں کا علم تو یقینًا اللہ تعالی کے پاس ہے کہ کسی پر کوئی مصیبت اور پریشانی اس کے گناہ کی سزا کے طور پر ڈالی ہے یا امتحان کے طور پر یا درجات کی بلندی کے لیے۔ البتہ ان کے اسباب میں سے کچھ ظاہر ہیں اور کچھ اسباب کو ڈسکس ہی نہیں کیا جاتا، یا یوں کہہ لیجیے کہ کسی تکلیف یا کسی بیماری کے اسباب کا ایک پہلو سے جائزہ لیا جاتا ہے اور دوسرے پر توجہ ہی نہیں دی جاتی اور اسے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جیسے نفسیاتی بیماریاں ہیں کہ بے شک ان کا ایک فزیکل سبب بھی ہوتا ہے مگر ان کا ایک شرقی اور روحانی باعث بھی ہوتا ہے جس پر عموماً توجہ نہیں دی جاتی ۔
نفسیاتی بیماریوں میں سے ایک بیماری جسے طبی اصطلاح میں ’’OCD‘‘ کہتے ہیں۔ Obsessive Compulsive Disorder اس بیماری میں مبتلا لوگوں کی حالت اور ان کا رویہ کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ ان کے ذہن میں تکلیف دہ اور پریشان کن خیالات بکثرت آتے ہیں، وہ ان خیالات کو روکنے کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر روک نہیں پاتے اور جب وہ کوئی کام شروع کرتے ہیں تو اس خیال سے کہ ابھی ٹھیک طرح سے نہیں ہوا بار بار کرتے چلے جاتے ہیں، مثلا ہاتھ دھوئے جائیں تو گھنٹے گھنٹے تک دھوتے ہی رہتے ہیں۔ یہ سمجھ کر کہ ابھی ہاتھ پوری طرح صاف نہیں ہوا اور پانی پوری طرح ہر جگہ نہیں پہنچا۔
جیسے ایک بار ایک شخص امام ابن عقیل دینے کے پاس آیا اور کہا:
((إِنِّي أَنْعَمِسُ فِي الْمَاءِ مِرَارًا كَثِيرَةً، وَمَعَ ذَلِكَ أَشْكُّ هَلْ صَحَّ الْغُسْلُ أَمْ لَا فَمَا رَأَيْكَ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ ابْنُ عَقِيلَ: إِذْهَبْ فَقَدْ سَقَطَتْ عَنْكَ الصَّلَاةُ ، قَالَ: وكَيْفَ ذَلِكَ؟ فَقَالَ ابْنُ عَقِيل: لأنَّ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةِ، المَجْنُونِ حَتَّى يَفِيْقَ، والنَّائِم حَتّٰى يَسْتَيْقِظَ ، والصَّبِي حَتَّى يَبْلُغَ ، وَمَنْ يَنْغَمِسُ فِي الْمَاءِ مِرَارًا، وَيَشْكُّ هَلْ اغْتَسَلَ أَمْ لَا ، فَهُوَ بِلَا شَكِ مَجْنُوْنٌ)) ( اغاثة اللهفان ، ص:233 – تلبیس ابلیس ، ص:134)
’’ کہ میں پانی میں بار بار غوطے لگاتا ہوں مگر پھر بھی شک میں رہتا ہوں کہ پتا نہیں غسل ہوا ہے یا نہیں، تو آپ کیا کہتے ہیں؟ فرمایا: جاؤ تم سے نماز ساقط ہو گئی ہے، نماز تم پر فرض نہیں رہی، کہا وہ کیسے؟
کہا: وہ ایسے کہ حدیث میں ہے کہ (رُفِعَ القَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ)
’’تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے۔ ان کے گناہ لکھے نہیں جاتے۔ (المجنون حتى يفيق ) ایک پاگل ہے کہ جب تک اس کے ہوش حواس واپس نہیں آجاتے، (والنائم حتى يستيقظ ) اور سوئے ہوئے ہے کہ جب تک وہ بیدار نہیں ہو جاتا، (والصبى حتى يبلغ ) اور بچے سے کہ جب تک وہ بالغ نہیں ہو جاتا۔‘‘
اور وہ شخص کہ جو پانی میں کئی بار غو طے لگا کر بھی شک میں رہتا ہے کہ نہ جانے غسل ہوا ہے کہ نہیں ، وہ پاگل نہیں تو اور کیا ہے۔
تو OCD کا مریض کچھ ایسے ہی خیالات میں مبتلا رہتا ہے اور ایسے خیالات محض اس کے وہم ہوتے ہیں جو کہ جنون کی حد تک اس کے دماغ پر سوار ہوتے ہیں، ان سے چھٹکارا پانا اس کے بس کی بات نہیں ہوتی ، چنانچہ وہ بار بار کسی کام کے کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے، اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اسے شدید گھبراہٹ ہونے لگتی ہے۔ ایسا آدمی پاگل نہیں ہوتا مگر مسلسل ایسے خیالات اسے پریشان کیے رکھتے ہیں اور وہ اپنے خیالات کا اظہار اس ڈر سے نہیں کرتا کہ لوگ اسے پاگل سمجھنے لگیں گے۔
اس بیماری کے متعدد اسباب ہیں، کبھی یہ بیماری موروثی بھی ہوتی ہے، کبھی بیک وقت ایک سے زیادہ ذمہ داریاں پڑ جانے سے بھی ہوتی ہے اور کبھی گھر میں توہین آمیز رویہ رکھے جانے سے اور مسلسل نظر انداز کیے جانے سے بھی ہوتی ہے اور کبھی احساس محرومی کے شدت پکڑ جانے سے بھی ہوتی ہے۔
تاہم ایک سبب کہ جسے عموماً نظر انداز کیا جاتا ہے اور جو ہماری آج کی اس گفتگو کا موضوع بھی ہے وہ ہے شیطانی وسوسہ۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ شیطان انسان کا دشمن ہے، اللہ تعالی نے آدم و حواء م اور ان کی اولاد کو اس کی دشمنی سے خبردار کیا ہے اور اس کی بہت سی چالوں سے آگاہ کیا ہے، جن میں اس کی ایک چال اور ایک حربہ وسوسہ بتلایا ہے۔
اور شیطان کا وسوسہ اس کی کسی قدر خطر ناک اور تسکین چال ہے، اس کا اندازہ اس بات سے کر لینا چاہیے کہ آدم علیہ السلام کو اسی شیطانی وسوسے کے سبب ہی جنت سے نکلنا پڑا۔
﴿ فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَهُمَا مَاوٗرِیَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا﴾(الاعراف:20)
’’پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی شرمگا ہیں جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھیں دونوں کے روبرو بے پردہ کر دے ۔‘‘
اور شیطان جب وسوسہ ڈالتا ہے تو بس صرف ایک بار نہیں ڈالتا بلکہ بار بار ڈالتا ہے، اور بار بار پلٹ کے آتا ہے، اس نے انسان کے دل پر ڈیرے ڈال رکھے ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((الشَّيْطَانُ جَاثِمٌ عَلَى قَلْبِ ابْنِ آدَمَ فَإِذَا ذَكَرَ اللهَ خَنَسَ وَ إِذَا غَفَلَ وَسْوَسَ)) (مشكاة المصابيح: 2221)
’’شیطان انسان کے دل پر جم کر بیٹھا ہوا ہے ، آدمی جب اللہ تعالی کا ذکر کرتا ہے تو پیچھے ہٹ جاتا ہے، اور جب وہ غافل ہوتا ہے تو اس کے دل میں وسوسے ڈالنے لگتا ہے ۔‘‘
چنانچہ انہی معنوں میں اسے خناس کہا گیا ہے۔
﴿مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ﴾ (النَّاسِ:4)
’’اس وسوسہ ڈالنے والے کے شرسے کہ جو بار بار پلٹ کر آتا ہے، اللہ تعالی کی پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
شیطان کا وسوسہ اس کا نہایت خطرناک حربہ ہے اور اس کا وسوسہ کسی ایک معاملے میں نہیں بلکہ ہر معاملے میں ہوتا ہے، دنیا کے معاملات میں بھی اور دین کے معاملات میں ، عقائد میں بھی اور عبادات میں بھی ، جیسا کہ احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔
ایک حدیث میں ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
(( جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ا إِنَّ أَحَدَنَا لَيَجِدُ فِي نَفْسِهِ الشَّيءَ لأَنْ يَكُونَ حُمَمَةٌ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَّتَكَلَّم))
’’ایک شخص آپ سلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! بسا اوقات ہم میں سے کوئی شخص اپنے دل میں ایسے خیالات پاتا ہے کہ اسے جل کر کوئلہ ہونا زیادہ پسند ہے اس بات سے کہ وہ اس بات کو زبان پر لائے۔
((فَقَالَ: اللهُ أَكْبَرُ، الحَمْدُ لِلهِ الَّذِي رَدَّ كَيْدَهُ إِلَى الوَسْوَسَةِ)) (ابن حبان:7348)
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: اللہ اکبر، تمام تعریفیں اس اللہ عزوجل کے لیے ہیں کہ جس نے اس کے مکر کو وسوسہ میں تبدیل کر دیا۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے کہ
((عَنْ عَائِشَةَ رضی الله تعالی عنہا قَالَتْ: شَكَوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَا يَجِدُونَ مِنَ الْوَسْوَسَةِ))
’’حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتی ہیں کہ لوگوں نے اپنے دلوں میں پائے جانے والے وسوسوں سے متعلق آپ کسی سے اپنی تکلیف کا اظہار کیا۔‘‘
((وَقَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّا لَنَجِدُ شَيْئًا، لَوْ أَنَّ أَحَدَنَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ كَانَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ ذَاكَ مَحْضُ الْإِيْمَانِ)) (مسند احمد ، ج:1، ص:272)
’’ہم اپنے دل میں ایسے خیالات پاتے ہیں کہ اسے زبان پر لانے کے بجائے آسمان سے گر جانے کو زیادہ پسند کرتے ہیں، تو آپ سی ایم نے فرمایا: یہ تو محض ایمان ہے۔ یعنی یہ ایمان ہی ہے جو دل میں شیطانی وسوسوں کے آنے پر اس طرح رو عمل دکھاتا ہے۔‘‘
اور ایک حدیث میں آپﷺ نے شیطانی وسوسوں سے بچنے کے لیے جو آدمی کے عقید و و ایمان کو متزلزل کر دینے کے لیے ہوتے ہیں، یوں نصیحت فرمائی ، فرمایا:
((لَا يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَاءَلُونَ حَتّٰى يُقَالَ هَذَا خَلَقَ اللهُ الْخَلْقَ فَمَنْ خَلَقَ الله))
’’لوگ گفتگو کرتے ہوئے ایک دوسرے سے یہاں تک پوچھنے لگیں گے کہ یہ تو رہی اللہ تعالیٰ کی مخلوق کہ اللہ تعالی نے یہ سب کچھ پیدا کیا ہے، مگر خود اللہ تعالی کو کس نے پیدا کیا ہے ۔‘‘
((فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذٰلِكَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ آمَنْتُ بِالله)) (مسلم:134)
’’ پس جو شخص دل میں کچھ اس طرح کی بات پائے تو وہ کہیے امنت بالله‘‘
یعنی امنت باللہ کہنے سے وہ شیطانی وسوسہ دور ہو جائے گا ، ورنہ انسان کے بھٹکنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگتا، اللہ تعالی ہم سب کو اس سے محفوظ فرمائے ، آمین ۔ شیطان کسی طرح کے خیالات لوگوں کے دلوں میں وسوسے کرتا ہے، بس یوں سمجھ لیجیے کہ جس جس گناہ معصیت اور نافرمانی کا انسان تصور کر سکتا ہے، شیطان ہر اس خیال میں اسے پھنسانے کی کوشش کرتا ہے، بلکہ وہ ایسے ایسے خیالات بھی انسان کے ذہن میں ڈال دیتا ہے جن کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔
وہ بنیادی طور پر انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لیے اس کے پاس بہت سے طریقے ہیں اور اگر یہ سب کچھ نہ بھی ہو تو وہ کم از کم جو وسوسوں سے فائدہ اٹھاتا ہے، وہ انسان کو پریشان کر کے محفوظ ہوتا ہے، اس کا مذاق اڑا کے خوش ہوتا ہے، جانی اور مالی نقصان پہنچا کے خوش ہوتا ہے، اور پریشان کرنا تو وہ خواب میں بھی نہیں چھوڑتا، چہ جائیکہ وہ جیتے جاگتے اور چلتے پھرتے انسان کو چھوڑ دے۔
اب اس کا طریقہ واردات ملاحظہ کریں کہ کس طرح وہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی انسان کو پریشان کر دیتا ہے، مثلاً: وہ انسان کو شک میں ڈال دیتا ہے کہ اس کا وضوء ہے یا نہیں ہے، چنانچہ انسان کو اس خواہ مخواہ کی پریشانی سے بچانے کے لیے آپ اللہ نے ایک اصول مقرر فرما دیا ہے، فرمایا:
(( إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ فِي بَطْنِهِ شَيْئًا فَأَشْكَلَ عَلَيْهِ أَخْرَجَ مِنْهُ شَيْءٌ أَمْ لَا فَلَا يَخْرُجَنَّ مِنَ الْمَسْجِدِ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ ريحًا)) (مسلم:362)
’’فرمایا: جب کوئی شخص پیٹ میں کچھ محسوس کرے اور اشکال پیدا ہو جائے کہ کچھ نکلا ہے یا نہیں۔ تو جب تک وہ آواز نہ سن لے، یا بو نہ پالے تو مسجد سے نہ نکلے ۔‘‘
تو یوں شیطان چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی پریشان کرنے کے لیے ہرگز موقع ضائع نہیں جانے دیتا۔ اور نماز میں تو آپ کو معلوم ہے کہ وہ بالخصوص وسو سے ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
(( لَمَّا اسْتَعْمَلَنِي رَسُولُ اللَهِ عَلَى الطَّائِفِ جَعَلَ يَعْرِضُ لِي شيءٌ فِي صِلِاتِي، حَتّٰى مَا أَدْرِي مَا أَصَلِّي))
’’جب آپ ﷺنے مجھے طائف کا گورنر مقرر فرمایا تو مجھے نماز میں ایسے ایسے وسو سے آنے لگے کہ یہ بھی معلوم نہ ہوتا کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں۔‘‘
((فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ رَحَلْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ))
’’جب میں نے یہ حالت دیکھی تو میں نے آپ سے یار کی طرف رخت سفر باندھا۔‘‘
((فَقَالَ: ابْنُ أَبِي الْعَاصِ؟))
’’تو آپ میں ہم نے دیکھ کر فرمایا: ابن ابی العاص ؟‘‘
((قُلْتُ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللهِ))
’’میں نے عرض کیا، ہاں اللہ کے رسول ﷺ!‘‘
((قَالَ مَا جَاءَ بِكَ))
’’فرمایا: کیسے آنا ہوا ؟‘‘
((قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ عَرَضَ لِي شَيْءٌ فِي صَلَاتِي حَتّٰى مَا أَدْرِي مَا أَصَلِّي))
’’میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! میں نماز میں کچھ محسوس کرتا ہوں۔یعنی دسو سے آتے ہیں حتی کہ یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ کیا پڑھ رہا ہوں ۔‘‘
((قَالَ ذَاكَ الشَّيْطَانُ أَدْنُهْ))
’’تو فرمایا: وہ شیطان ہے، قریب آؤ۔‘‘
((فَدَنَوتُ مِنْهُ فَجَلَسْتُ عَلَى صُدُورٍ قدمَيَّ))
’’پس میں قریب ہوا اور اپنے پاؤں کی انگلیوں پر دو زانو بیٹھ گیا ۔‘‘
(( قَالَ: فَضَرَبَ صَدْرِي بِيَدِهِ وَتَفَلَ فِي فَمِي وَقَالَ أَخْرُجْ عَدُوٌّ اللهِ))
’’کہا: تو آپ کسی کام نے میرے سینے پر ہاتھ مارا، میرے منہ میں لعاب دہن پھینکا اور فرمایا: نکل اللہ کے دشمن۔‘‘
((فَفَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ))
’’یہ عمل آپ اسلام نے تین بار فرمایا‘‘
((ثُمَّ قَالَ: اِلْحَقْ بِعَمَلِكَ))
’’پھر فرمایا: اپنے کام پر جاؤ۔‘‘
((فَقَالَ عُثْمَانُ: فَلَعَمْرِي مَا أَحْسِبُهُ خَالَطَنِي بَعْدُ)) ابن ماجة، كتاب الطب:3548)
’’حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ ت عالی عنہ نے کہا قسم ہے، میں نہیں سمجھتا کہ پھر اس کے بعد بھی وسوسہ پیدا ہوا ہو۔‘‘
اب ان احادیث میں جہاں شیطان کے وسوسوں کی سنگینی اور شدت کا پتہ چلتا ہے، وہاں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس بارے میں اک مسلمان کو کس قدر فکر مند ہونا چاہیے۔
اب دیکھیے حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالی عنہ صرف اس بات کے لیے کہ نماز میں وسوسے آتے ہیں، طائف سے مدینہ منورہ تک کا سفر طے کیا اور وہ بھی گورنر ہوتے ہوئے۔
ان کے نزدیک یہ بات کتنی اہم تھی کہ نماز خشوع و خضوع اور توجہ کے ساتھ ہو اور اس میں وسو سے نہ آئیں، مگر ہم اپنی نمازوں کا حال دیکھیں تو اک ریاضت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور وہ بھی اگر بھی نماز کے لیے وقت مل جائے تو ۔ ورنہ ہم میں سے اکثر لوگوں کو نماز کی فرصت ہی نہیں ہوئی۔
خیر! وسوسے کی بیماری اک نہایت پریشان کن بیماری ہے، اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے نمازوں کی پابندی، صبح و شام کے اذکار کی پابندی اور تلاوت قرآن کی پابندی کے ساتھ اللہ تعالی کے فضل سے بیماری دور ہو جاتی ہے، اللہ تعالی ہمیں نمازوں میں خشوع و مخضوع نصیب فرمائے اور انھیں ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے ۔ آمین
………………