ماه رمضان، مغفرت و نجات کا ایک اور موقع

﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ۝۱۸۳﴾ (البقرة:183)
گذشت خطبہ جمعہ میں رمضان المبارک کی تیاری کے حوالے سے بات ہو رہی تھی کہ رمضان المبارک سے صحیح معنوں میں مستفید ہونے کے لیے اس کی تیاری کرنا ضروری ہے اور تیاری کے ضمن میں چند بنیادی اعمال کا ذکر ہوا جن میں سے سب سے اہم کرنے کا کام یہ بیان ہوا کہ اپنی روز مرہ کی مصروفیات میں سے خصوصی طور پر رمضان المبارک کے لیے کچھ وقت نکالا جائے۔
اسی طرح رمضان المبارک کی تیاری کے سلسلے میں اور بھی کئی ایک باتیں ہیں، جیسے رمضان المبارک سے متعلق احکام و مسائل کا جاننا اور فضائل و ثواب اعمال معلوم کرنا، کیونکہ اعمال کا اجر و ثواب جاننے سے آدمی میں شوق اور جذبہ پیدا ہوتا ہے، ہمت بڑھتی ہے ورنہ انسان نیک اعمال تو بجالا رہا ہوتا ہے مگر بے دلی سے، چنانچہ بعض سلف صالحین کا قول ہے کہ
((وَمَنْ لَمْ يَعْرِفُ ثَوَابَ الْأَعْمَالِ ثَقُلَتْ عَلَيْهِ فِي جَمِيعِ الأَحْوَالِ)) (الزهد لابن أبي الدنيا ، ص:73)
’’جسے اعمال کا اجر و ثواب معلوم نہ ہو، اس پر اعمال ہر حال میں بوجھل ہوتے ہیں۔‘‘
اور امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
((وَعَلٰى قَدْرِنِيَّةِ الْعَبْدِ وَهِمَّتِهِ وَمُرادِهِ وَرَغْبَتِهِ يَكُونُ تَوفِيقُ اللهِ لَهُ وَإِعَانَتَهُ)) (الفوائد ص:181)
’’آدمی کو اس کی نیت اور ہمت اور اس کی مراد اور رغبت کے مطابق ہی اللہ کی توفیق اور مدد حاصل ہوتی ہے ۔‘‘
تو عمل کا شوق اور جذبہ پیدا کرنے کے لیے، ہمت بڑھانے کے لیے نیکیوں کا اجر و ثواب معلوم کرنا مفید اور محمد و معاون ثابت ہوتا ہے، اور جس قدر کسی کو دین سے آگاہی اور علم و عرفان حاصل ہوگا اسی قدر اس کے دل میں خشیت الہی پیدا ہوگی، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا ؕ﴾ (فاطر:28)
’’اور اللہ کے بندوں میں سے صرف علم والے ہی اس سے ڈرتے ہیں ۔‘‘
اور سب سے زیادہ علم و معرفت آپ ﷺکو حاصل تھی، چنانچہ ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا:
((فَوَ اللهِ إِنِّي لَأَعْلَمُهُمْ بِاللهِ وَأَشَدُّهُمْ لَهُ خَشْيَةً))(بخاری:6101)
’’اللہ کی قسم ! میں اُن سب سے زیادہ اللہ تعالی کے بارے میں علم رکھتا ہوں اور میں ان سب سے زیادہ اس کی خشیت رکھتا ہوں۔‘‘
اور ایک حدیث میں فرمایا:
((وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا وَلَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا)) (بخاري:6637)
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم لوگوں کو وہ سب کچھ معلوم ہو جائے جو میں جانتا ہوں تو تمہارا رونا بہت زیادہ ہو جائے اور ہنستا بہت کم ۔‘‘
تو رمضان المبارک کی تیاری میں احکام و مسائل کا جاننا اور نیک اعمال کا اجر و ثواب معلوم کرنا بھی شامل ہے۔
رمضان المبارک مسلمانوں پر اللہ تعالی کی طرف سے انعام کئے گئے نیکی کے مواقع میں سے ایک بہت بڑا موقع ہے۔ اس مبارک مہینے کی عظمت، برکت ، سعادت اور افادیت اور اس کے موقع قیمت ہونے کا انداز و کیجئے، حدیث میں ہے، حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
((أَنَّ رَجُلَيْنِ مِنْ بَلِيٍّ قَدِمَا عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ وَكَانَ إِسْلَامُهُمَا جَمِيْعًا))
’’قبیلہ بلی کے دو آدمی آپ ﷺکے پاس حاضر ہوئے اور دونوں ایک ساتھ مسلمان ہوئے۔‘‘
((فَكَانَ أَحَدُهُمَا أَشَدَّ إِجْتِهَاداً مِنَ الآخَرِ ))
’’ان میں سے ایک دوسرے سے زیادہ دین کے کاموں میں محنتی تھا۔‘‘
((فَغَزَا الْمُجْتَهِدُ مِنْهُمَا فَاسْتَشْهِدَ))
’’وہ خوب محنت کرنے والا شخص ایک غزوے میں شریک ہوا اور شہید ہو گیا ۔‘‘
((ثُمَّ مَكَثَ الآخرُ بَعْدَهُ سَنَةً ثُمَّ تُوَفِّيَ))
’’جبکہ دوسرا شخص اس کے ایک سال بعد تک زندہ رہا اور پھر اپنی طبعی موت فوت ہوا۔‘‘
((قَالَ طَلْحَةُ فَرَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ بَيْنَا أَنَا عِنْدَ بَابِ الْجَنَّةِ إِذَا أَنَا بِهِمَا))
’’حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ یہ کہتے ہیں کہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوں، اور دیکھتا ہوں کہ وہ دونوں بھی وہاں پر موجود ہیں ۔‘‘
((فَخَرَجَ خَارِجٌ مِنَ الْجَنَّةِ فَأَذِنَ لِلَّذِي تُوْفِي الآخِرَ مِنْهُمَا))
’دیکھتا ہوں کہ جنت میں سے کوئی باہر آیا اور اس نے ان دونوں میں سے بعد میں فوت ہونے والے کو اندر جانے کی اجازت دی۔‘‘
((ثُمَّ خَرَجَ فَأَذِنَ لِلَّذِي اسْتُشْهِدَ))
’’پھر باہر آیا اور پھر اس شہید کو اندر جانے دیا ۔‘‘
((ثُمَّ رَجَعَ إِلَىَّ، فَقَالَ: إِرْجِعْ فَإِنَّكَ لَمْ يَأْنِ لَكَ بَعْدُ))
’’پھر وہ میرے پاس واپس آیا اور کہا کہ تم واپس چلے جاؤ کہ ابھی تمہارا وقت نہیں آیا۔‘‘
(( فَأَصْبَحَ طلحة يُحَدِّثُ بِهِ النَّاسَ فَعَجِبُوا لِذَلِكَ))
’’صبح ہوئی تو حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ لوگوں سے اپنا خواب بیان کرنے لگے ، لوگوں کو یہ سن کر بہت تعجب ہوا، بہت حیران ہوئے ۔‘‘
((فَبْلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ وَحَدَّثُوهُ الْحَدِيثَ))
’’آپﷺ تک یہ بات پہنچی ، لوگوں نے آپﷺ سے یہ سارا واقعہ بیان کیا ۔‘‘
((فَقَالَ: مِنْ أَي ذٰلِكَ تَعْجَبُونَ))
’’تو آپ نے فرمایا: اس سے تم کسی بات پر حیران ہو رہے ہو ؟‘‘
((فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ هٰذَا كَانَ أَشَدَّ الرَّجُلَيْنِ إِجْتِهَاداً ثُمَّ اسْتُشْهِدَ، وَدَخَلَ هٰذَا الْآخِرُ الْجَنَّةَ قَبْلَهُ))
’’لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ یہ شخص ان دونوں میں سے زیادہ محنتی تھا (نیکیوں میں) اور پھر وہ شہید بھی ہوا اور دوسرا شخص اس سے پہلے جنت میں داخل ہوا۔‘‘
((فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ أَلَيْسَ قَدْ مَكَثَ هَذا بَعْدَهُ سنةً؟))
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: کیا شخص اس کے بعد ایک سال تک نہیں رہا؟ یعنی اس کے ایک سال بعد تک زندہ نہیں رہا۔‘‘
((قَالُوا بَلٰى))
’’کہا: جی ہاں ۔‘‘
((قَالَ: وَأَدْرَكَ رَمَضَانَ فَصَامَهُ، وَصَلّٰى كَذَا وَكَذَا مِنْ سَجِدَةٍ في السنةِ؟))
’’فرمایا اور اس نے رمضان المبارک پایا اور روزے رکھے اور سال میں اتنی اتنی نمازیں پڑھیں؟‘‘
اور ایک حدیث میں ہے کہ سال میں ۱۸۰۰ نمازیں پڑھیں۔
((قَالُوا: بَلٰى))
’’عرض کیا: جی ہاں ۔‘‘
((قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺفَمَا بَيْنَهُمَا أَبْعَدُ مِمَّا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ)) (ابن ماجة:3925)
’’تو آپ ﷺ نے فرمایا: پس ان دونوں کے درمیان بعض درجات کا جو فرق ہے، وہ زمین و آسمان کے درمیان کے فرق سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘
آپ نے غور کیا کہ رمضان المبارک کتنا بڑا موقع غنیمت ہے، کتنی بڑی سعادت ہے۔ وہ انسان کتنا خوش نصیب ہے کہ جسے اللہ تعالی نے رمضان المبارک کے روزوں کی توفیق دے کر ایک ایک روزے کے سبب ستر ستر سال کی مسافت سے اسے جہنم سے دور کر دیا، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللهِ بَعَّدَ اللهُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خريفًا)) (بخاری:2840)
’’جس نے اللہ کی راہ میں ایک دن روزہ رکھا، اللہ تعالی نے اس کے چہرے کو ستر سال کی مسافت سے دور کر دیا۔‘‘
اور کتنا سعادت مند ہے وہ شخص کہ جسے اللہ تعالی نے رمضان المبارک جیسا عظیم اور مبارک مہینہ عطا فرما کر جہنم سے آزادی حاصل کرنے کا موقع میسر فرمایا۔
آپﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ لِلَّهِ عِنْدَ كُلِّ فِطْرِ عُتَقَاء وَذٰلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ)) (صحيح ابن ماجة:1340)
’’ہر افطاری کے وقت اللہ تعالی کے ہاں کتنے ہی آزاد ہونے والے ہوتے ہیں اور اللہ تعالی کا یہ کرم اور اس کی طرف سے یہ عنایت ہر رات ہوتی ہے یعنی رمضان میں۔‘‘
یعنی رمضان المبارک انسان کے لیے جہنم سے آزادی کا پروانہ ہے۔ بنیادی طور پر ہر انسان اپنے اعمال کے سبب جکڑا ہوتا ہے۔
﴿ كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ رَهِیْنَةٌۙ۝۳۸
اِلَّاۤ اَصْحٰبَ الْیَمِیْنِؕۛ۝۳۹﴾ (المدثر:38، 39)
’’ہر متنفس اپنے کسب کے بدلے رہن ہے، سوائے دائیں بازو والوں کے ۔‘‘
لفظ رھن کے مفہوم سے تو آپ واقف ہی ہوں گے، یعنی کوئی چیز گروی رکھنا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی سے کچھ قرض لے اور قرض دینے والا، دیئے گئے قرض کی ادائیگی کے لیے ضمانت کے طور پر اس کی کوئی چیز اپنے پاس رہن رکھ لے، تو جب تک وہ قرض ادا نہ کر دے، اس وقت تک وہ رہن رکھی گئی چیز قرض دینے والے کے پاس رہن ہی رہے گی ، اس کے قبضے میں ہی رہے گی اور اگر مدت مقررہ گزر جانے کے بعد بھی وہ فكِ رهن نہ کرا سکے، یعنی رہن رکھی گئی چیز نہ چھڑا سکے تو وہ شی مرہو نہ ضبط ہو جائے گی ۔ اللہ تعالی اور اس کے بندے کے درمیان جو معاملہ ہے، اس کو کچھ اس طرح تشبیہ دی گئی ہے، اللہ تعالی نے انسان کو جو طاقتیں ، صلاحیتیں اور اختیارات دنیا میں دے رکھے ہیں، وہ گویا ایک قرض ہے اور اس قرض کی ضمانت کے طور پر نفس انسانی اللہ تعالی کے پاس رہن ہے۔ انسان ان قوتوں اور صلاحیتوں کو صحیح طریقے سے استعمال کر کے اگر وہ صالح اعمال بجالائے کہ جن سے یہ قرض ادا ہو سکے تو وہ اس گروی رکھی گئی چیز، یعنی اپنے آپ کو چھڑالے ور نہ اسے ضبط کر لیا جائے گا۔
تو انسان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اسے اپنے آپ کو چھڑانا اور آزاد کرانا ہے، کسی طرح آزاد کرانا ہے؟ اعمال صالحہ بجالا کر کے اور ان اعمال صالحہ میں سے ایک عمل روزے رکھنا ہے تو روزے رکھ کر گویا ہم اپنے آپ کو آزاد کراتے ہیں۔
اور حقیقت یہ ہے کہ انسان شعوری یا غیر شعوری طور پر اس عمل سے گزر رہا ہے کہ یا تو وہ اپنے آپ کو آزاد کرا رہا ہے یا گروی رکھ رہا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو فَبَايِعٌ نَفْسَهُ، فَمُعْتِقُهَا أَوْ مُوبِقُهَا)) (مسلم:223)
’’ہر شخص اپنے آپ کی خرید و فروخت میں لگا ہوا ہے یا تو وہ آزاد کرا رہا ہے یا گروی رکھ رہا ہے ۔‘‘
انسان اپنے آپ کو آزاد کیسے کراتا ہے؟ اپنی جان، اپنا مال اور اپنی صلاحیتیں اللہ کی راہ میں صرف کر کے اللہ تعالی کے پاس اپنے آپ کو بیچ رہا ہوتا ہے اور یوں وہ اپنے آپ کو جہنم سے آزاد کرا لیتا ہے۔
﴿ اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ؕ﴾ ( التوبه:111)
’’اللہ تعالی نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔‘‘
دوسری طرف کچھ لوگ اپنے اعمال ہی کے ذریعے اپنے آپ کو گروی رکھ رہے ہیں،
﴿ كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ رَهِیْنَةٌۙ۝۳۸﴾ (المدثر:38)
’’ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے۔ اعمال کے بدلے اپنے آپ کو گروی رکھے ہوئے ہے۔‘‘
﴿إلَّا أَصْحٰبَ الْيَمِينِ﴾ (المدثر:39)
’’سوائے دائیں بازو والوں کے‘‘
یعنی جنہیں دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ملے گا، جنہوں نے اپنی جان، مال اور اپنی تمام صلاحیتیں اللہ تعالی کی راہ میں کھپادیں ، انہوں نے فك الرھن کر لیا۔ باقی اپنے اعمال کے سب جکڑے اور بندھے ہوئے ہیں۔
اور اعمال کیسے؟ اک حقیری دنیا کے بدلے وہ اپنے دین کو بیچ دیتے ہیں۔ دنیا کی ے عارضی، ناپائیدار اور حقیر سی چیزوں کے بدلے اپنے دین کو بیچ دیتے ہیں، دنیا کی اک معمولی اور عارضی کی سہولت کے بدلے وہ اللہ اور اللہ کے رسول سلام کے خلاف اعلان جنگ قبول کر لیتے ہیں، اپنے کاروبار کے نقصان کے ڈر سے وہ نمازوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں، اور اسی طرح دنیا کی دوسری آسائشیں ہیں۔
آج مسلمانوں کا یہ حال ہے اور ابھی تو ان حالات کی پیش گوئی پوری ہونا باقی ہے کہ جب ایک ایک دن میں لوگوں کی کئی کئی حالتیں بدلیں گی ، صبح کو مسلمان تو شام کو کافر اور شام کو مسلمان تو صبح کو کافر اور سبب یہی بیان فرمایا:
((يَبِيْعُ دِيْنَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا )) (مسلم:118)
’’متاع دنیوی کے بدلے وہ اپنے دین کو بیچ رہے ہوں گے۔‘‘
اللہ تعالی ہمیں ایسی بدبختی سے محفوظ فرمائے ۔ آمین
تو جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ اپنے آپ کو آزاد کرانا ہے، اس کے لیے اسلام نے مکمل ہماری رہنمائی فرمائی ہے، فلك الرهن کرنے والے روزوں کے علام و متعدد اعمال بتلائے ہیں جیسا کہ صبح و شام کے اذکار میں ایک یہ بتلایا گیا کہ
(( من قال حين يصبح أو يُمسي )) ’’جو شخص صبح کے وقت یا شام کے وقت یہ کہے ‘‘
((اللّٰهُمَّ إِنِّي أَصْبَحْتُ أَشْهِدُكَ وَأُشْهِدُ حَمَلَةَ عَرْشِكَ وَمَلَائِكَتَكَ وَجَمِيْعَ خَلْقِكَ أَنَّكَ أَنْتَ اللهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُوْلُكَ)) (ابوداود:5069)
’’اے اللہ ! میں نے صبح کی ، تجھے گواہ بناتا ہوں، تیرے حاملین عرش اور تیرے فرشتوں کو اور تیری تمام مخلوقات کو گواہ بناتا ہوں کہ بے شک تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور یہ کہ محمدﷺ تیرے بندے اور رسول ہیں۔‘‘
یہ کلمات کہے تو
((أَعْتَقَ اللَّهُ رُبعَهُ مِنَ النَّارِ))
’’اللہ تعالی اس کا ایک چوتھائی حصہ جہنم سے آزاد کر دیتا ہے ۔‘‘
((فَمَنْ قَالَهَا مَرَّتَيْنِ أَعْتَقَ اللهُ نِصْفَهُ))
’’اور جس نے دو بار کہا اللہ تعالیٰ اس کا نصف آزاد کر دیتے ہیں ۔‘‘
(( وَمَنْ قَالَهَا ثَلَاثًا أَعْتَقَ اللهُ ثَلَاثَةَ أَرْبَاعِهِ))
’’اور جو تین بار کہے تو اس کے تین حصے آزاد کر دیتا ہے (تین چوتھائی) ۔‘‘
((فَإِنْ قَالَهَا أَربَعًا أَعْتَقَهُ اللهُ مِنَ النَّار)) (ابوداود:5069)
’’اور اگر چار بار کہے تو اللہ تعالی اس کو پورے کے پورے کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے۔‘‘
اور اس ذکر کے چار بار کہنے میں حکمت علماء کرام یہ بیان کرتے ہیں کہ اگر یہ کلمات چار بار کہیں تو اس کے حروف تین سو ساٹھ بنتے ہیں اور حدیث میں ہے کہ انسان360اعضاء سے مرکب ہے۔
تو چار بار یہ کلمات کہنے سے گویا انسان کا ایک ایک جوڑ اور ایک ایک عضو اس دن اللہ تعالی کے فضل سے جہنم سے آزاد ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور اپنے فضل و کرم سے ہم سب کو جہنم سے آزاد فرمائے ۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
………………