رمضان کی افادیت ، ضبط نفس اور برداشت کی صلاحیت

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ۝۱۸۳﴾ (البقره:183)
شریعت کا بنیادی مقصد اور غرض و نایت لوگوں کو اللہ تعالی کی بندگی میں لانا ہے اور یہ مقصد انسان کا مقصد تخلیق ہے۔ جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۝۵۶﴾ (الذاريات:56)
’’میں نے جن وانس کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ۔‘‘
اس مقصد کے حصول کے لیے اللہ تعالی نے جو اسباب اختیار فرمائے ہیں، ان میں سے ایک، اور سب سے اہم سبب آپ ﷺکی بعثت ہے، آپ ﷺکو مبعوث فرما کر کچھ ذمہ داریاں سونپیں جن میں سے ایک یہ بیان فرمائی: ﴿وَیُزَ كِّيْهِمْ﴾ کہ آپ ﷺلوگوں کا تزکیہ فرماتے ہیں، اور تزکیہ کیا ہے؟ تزکیہ نفس انسانی کو بری صفات سے پاک صاف کر کے اسے صفات حمیدہ سے مزین کرنا ہے، چنانچہ اس عمل کو انسان کی کامیابی کے لیے لازم اور اس کی ضمانت قرار دیتے ہوئے فرمایا:
﴿قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكّٰهَا﴾ (الشمس:9)
’’ یقینًا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا۔‘‘
رمضان المبارک کے روزوں کا مقصد تو آپ جانتے ہیں کہ تقوی بیان فرمایا گیا ہے۔ ﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ (البقره:183)
’’تا کہ تم تقویٰ حاصل کر سکو۔‘‘
اور تقوی تزکیۂ نفس کے بغیر حاصل نہیں ہوتا، تو آئیے تزکیہ نفس کے متعلق مزید کچھ جانتے ہیں:
تقوی کا مقام دل ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار ارشاد فرمایا:
((اَلتَّقْوٰى هَاهُنَا)) (مسلم:2564)
’’کہ تقوی یہاں ہے۔‘‘
اور تقوی اس دل میں داخل ہوتا ہے جو پاک اور صاف ہو، جو شرک اور بدعت سے پاک ہو، جو صفات ذمیمہ سے پاک ہو، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺنے اللہ تعالی سے تقوی طلب کرتے ہوئے تزکیہ نفس کی دعاء بھی مانگی۔
((اللّٰهُمَّ آتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا، وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرٌ مَنْ زَكَّاهَا))(مسلم:2722)
’’اے اللہ ! میرے نفس کو اس کا کا تقویٰ عطا کر دے اور اس کو پاک کر دے کہ تو بہتر پاک کرنے والا ہے۔‘‘
تو رمضان المبارک کے روزے رکھنے سے جہاں انسان میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے، وہاں اس سے پہلے تزکیہ نفس ہوتا ہے، اور اس کے بغیر دل میں تقوی نہیں آسکتا۔
تو یہ عبادت دیگر عبادات کی طرح نفس کی پاکیزگی کے لیے ہی قرار پائی ہے۔ اس عبادت سے مقصود صرف بھوکا پیاسا رہنا نہیں ہے جیسا کہ عموماً سمجھا جاتا ہے، بلکہ یہ عبادت یعنی روزہ اپنے اندر ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے، جس میں زبان، کان، ہاتھ پاؤں، دل اور دیگر تمام اعضاء و جوارح کا روزہ شامل ہے۔
تنہا بھوکا پیاسا رہنے سے روزے کا مقصد حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ مطلوب ہے، بلکہ ایسا روزہ رکھنے والے کی سرزنش کی گئی ہے اور یہ کہہ کر اس روزے کو ٹھکرا دیا گیا ہے کہ
((مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلهِ حَاجَةً فِي أَنْ يَّدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَه)) (بخاري:1903)
’’جو شخص قول زور اور عمل زور نہیں چھوڑتا ، اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی اللہ تعالی کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
اب قول زور اور عمل زور کیا ہے ؟ آئیے معلوم کرتے ہیں، السرور کا مطلب ہے مائل ہونا حق سے بنا ہوا ہونا۔ چنانچہ جھوٹ زور ہے، جھوٹی گواہی زور ہے، شرک زور ہے، اور ہر وہ بات جو حق سے ہٹی ہوئی ہو قول زور ہے۔
اور عمل زور یہ ہے کہ ایسا بھیں اختیار کرنا، ایسی صفات ظاہر کرنا جو اس میں پائی نہ جاتی ہوں عمل زور ہے۔
مثلا: کوئی شخص عالم نہ ہومگر علماء کا سا حلیہ اختیار کرے، اپنے عمل سے، اپنے لباس سے اور اپنی گفتگو سے ایسا ظاہر کرے کہ لوگ اسے عالم سمجھنے لگیں ، یا مالدار نہ ہو مگر خود کو مالدار ظاہر کرے، یا فقیر نہ ہو مگر فقیروں کا ساحلیہ اختیار کرے عمل زور ہے، گویا کہ کوئی بھی دعوی جو حقیقت کے خلاف ہو، زور کہلاتا ہے۔ جیسا کہ ایک عورت آپ ﷺکے پاس آئی اور کہنے لگی:
((إِنَّ لِي ضَرَّةً فَهَلْ عَلَى جُنَاحٌ إِنْ تَشَبَّعْتُ مِنْ زَوْجِي غَيْرَ الَّذِيْ يُعْطِيْنِي؟))
’’میری ایک سوکن ہے، کیا مجھے اس کا گناہ ہوگا کہ اگر میرا خاوند جو کچھ مجھے دے میں اپنی اس سوکن پر اس سے کچھ مختلف ظاہر کروں ۔‘‘
یعنی سوکن کو جلانے کے لیے، یا ان میں پھوٹ ڈالنے کے لیے جھوٹ موٹ سے کہے کہ اس کا خاوند اس لیے یہ کچھ لاتا ہے اور وہ کچھ لاتا ہے۔
تو آپ ﷺنے فرمایا:
((اَلْمُتَشَبّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَ كَلَابِسِ ثَوْبَی زُوْرٍ)) (بخاري:5219)
’’جو شخص کوئی ایسا لبادہ اوڑ ھے کہ جو اس کے پاس نہیں ہے، تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو جھوٹ کے دو کپڑے پہنے۔‘‘
تو زور ہر وہ چیز ہے جو حقیقت کے برعکس ہو، وہ علم سے متعلق ہو، تقوی و پرہیز گاری سے متعلق ہو، یا حسب و نسب سے متعلق ہو، یا کسی بھی شکل میں ہو زور کہلاتا ہے، اور زور کی یہ تمام ہی شکلیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور عام ہیں۔ جائیداد اور دولت و ثروت پر اترانا اور اس میں جھوٹے اعداد و شمار بتلانا ایک عام رحجان ہے۔ اپنی جان پہچان اور تعلق و واسطے کے حوالے سے جھوٹے تعلقات ظاہر کرنا تا کہ لوگ عزت و احترام کریں اور وہ مرغوب رہیں، ایک عام سی بات ہے، اسی طرح تقوی و پر ہیز گاری کا لبادہ اوڑھنا کہ لوگ اسے نیک سمجھیں۔ تو صرف ایسا روزہ کہ جو تمام لوازمات اور فرائض و واجبات کے ساتھ ادا کیا گیا ہو، تقوی کے حصول کا سبب بنتا ہے اور ایسے ہی روزے سے تزکیہ نفس حاصل ہوتا ہے اور ایسے ہی روزے سے ضبط نفس کی تربیت ہوتی ہے اور ضبط نفس روزے کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے، اور اس کی تعلیم یوں دی کیسے آپ ﷺنے فرمایا:
((وَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمٍ أَحَدِكُمْ فَلَا يَرْفُثْ وَلَا يَصْخَبْ))
’’جب کسی کا روزہ ہو تو فحش گوئی اور بیہودہ باتیں نہ کرے۔‘‘
((فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ فَلْيَقُلْ إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ))(بخاري:1904)
’’اور اگر کوئی دوسرا اسے برا بھلا کہے یا لڑنے کی کوشش کرے تو اسے کہہ دے کہ میں روزے دار ہوں ۔‘‘
آپ جانتے ہیں کہ کوئی شخص اگر برا بھلا کہے اور گالیاں دے، تو گالیاں سن کر خاموش رہنا اور ضبط کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے، یقینًا بہت مشکل ہوتا ہے اور یہاں اس بات کی تربیت اہے دی جا رہی ہے، اور برداشت کرنا سکھایا جا رہا ہے کہ کچھ بھی ہو، آپ نے اس کی تمام تر لغویات کے جواب میں صرف یہی کہنا ہے کہ میں روزے سے ہوں ۔ اور برداشت کرنا، ضبط نفس کرنا انسان کی زندگی میں کتنا اہم ہے، اس کو ہم سب اپنےتجربات اور مشاہدات کی روشنی میں خوب سمجھتے ہیں، اگر چہ علمی لحاظ سے ہم اس کی اہمیت اور افادیت سے واقف نہ بھی ہوں۔
شیطان جو کہ ہمہ وقت انسان دشمنی میں مصروف رہتا ہے، اختلاف کی صورت میں، تو تو میں میں کی صورت میں، گالی گلوچ کی صورت میں اسے لوگوں میں پھوٹ ڈالنے کا اور فتنہ پیدا کرنے کا اک نہایت ہی قیمتی اور سنہری موقع میسر آتا ہے اور وہ عموماً اسے ضائع نہیں جانے دیتا۔
اس لیے حکم ہے کہ:
﴿وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْ ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا۝﴾ (الأسراء:53)
’’اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ وہ زبان سے وہ بات کریں جو بہترین ہو، شیطان یقینًا انسان کے درمیان پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔‘‘
شیطان کو انسانوں میں پھوٹ ڈلوانے کے لیے کوئی بہت بڑی بات کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ رائی کا پہاڑ بنانا جانتا ہے، وہ بات کو تینکر بنانے کا فن رکھتا ہے، وہ معمولی سی تلخ کلامی کو خونریزی میں تبدیل کرنا جانتا ہے۔
اور ہم میں سے ہر ایک نے کسی نہ کسی ایسے واقعے کا مشاہدہ ضرور کیا ہوگا، ذاتی تجربہ اگر نہ بھی ہوا ہو، اور تاریخ میں تو ایسے واقعات بے شمار ہیں، مثلاً: حدیث میں ہے کہ:
((جَاءَ رَجُلٌ يَقُودُ آخَرَ بِنِسْعَةِ ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ ، هٰذَا قَتَلَ أَخِيْ))
’’ایک شخص دوسرے شخص کو چھڑے کی بل دی ہوئی رسی کے ساتھ کھینچتا ہوا آپﷺ کے پاس لے کر آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول ﷺاس نے میرے بھائی کو قتل کیا ہے۔‘‘
((فَقَالَ رَسُولُ اللهِ أَقْتَلْتَهُ؟))
’’تو آپ ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا: کیا تو نے اسے قتل کیا ہے؟‘‘
((قَالَ: نَعَمْ قَتَلْتُهُ))
’’ کہا ہاں میں نے اس کو قتل کیا ہے۔‘‘
((قَالَ كَيْفَ قَتَلْتَهُ))
’’فرمایا، کیسے قتل کیا ہے۔‘‘
((قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَهُوَ نَخْتَبِطُ مِنْ شَجَرَةٍ فَسَبَّنِي فَأَغْضَبَنِي فَضَرَبْتُهُ بِالْفأْسِ عَلَى قَرْنِهِ فَقَتَلْتُهُ)) (مسلم:1680)
’’کہا: میں اور وہ ایک درخت سے پتے جھاڑ رہے تھے، اس نے مجھے برا بھلا کہا، مجھے غصہ آیا اور میں نے کلہاڑی اس کے سر پر دے ماری اور اسے قتل کر دیا۔‘‘
اسی طرح قتل کے کتنے ہی جرائم ہیں جو اک معمولی کی بات سے شروع ہوتے ہیں، مگر شیطان ان کو ہوا دیتا ہے اور دوسری طرف انسان ضبط نفس نہیں رکھتا ہوتا تو قتل تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ (اعاذنا الله واياكم)
جہاں ایک طرف قتل و خونریزی کا سبب عدم ضبط نفس ہوتا ہے، وہاں دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے واقعات کی ابتداء عموماً زبان درازی سے ہوتی ہے، اور سب جانتے ہیں کہ کتنے ہی گھرانے زبان درازی اور عدم ضبط نفس کی وجہ سے تباہ و بر باد ہو جاتے ہیں۔
یہ مبارک مہینہ ضبط نفس کی تربیت پانے کا مبینہ ہے، اس مبارک مہینے میں روزے کو بچانے کے لیے ضبط نفس کا مظاہرہ کریں گے تو یقینًا رمضان کے بعد کے لیے یہ برداشت اور یہ خوبی اپنا اثر ضرور دکھائے گی۔
اگر آدمی کو یہ معلوم ہو جاے کہ معمولی سی بات پر بھڑک اٹھنا، گالم گلوچ اور دشنام طرازی پر اتر آنا بہادری نہیں بلکہ کمزوری کی علامت ہے، ارادے کی کمزوری، شیطان کے سامنے ڈھیر ہو جانے کی کمزوری، تو آدمی کو ضبط نفس میں مدد ملتی ہے، ایسے موقع پر کون عقلمند اور بہادر ہوتا ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
(لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الغَضَبِ)) (بخاري:6114)
’’بہادر وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ لے، بلکہ بہادر اور طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابورکھے۔‘‘
یہ خوبی کوئی آسان بات نہیں ہے، یہ ہر ایک کو نہیں ملتی، یہ کسی خوش نصیب کو ہی ملتی ہے۔ قرآن کہتا ہے:
﴿وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُ﴾ ( حم السجده:34)
’’نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں ۔‘‘
﴿اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ﴾ (حم السجدة:34)
’’تم بدی کو اس نیکی سے روکو جو بہترین ہو۔‘‘
﴿فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ۝﴾ (حم السجده:34)
’’تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت تھی وہ گویا جگری دوست بن گیا ہے۔‘‘
﴿وَ مَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا ۚ وَ مَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ۝۳۵﴾ (حم السجدة:35)
’’یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیب والے ہیں ۔‘‘
یعنی یہ نسخہ تو بڑا قیمتی ہے، مگر اس کا حصول کوئی آسان بات نہیں ہے۔ اس کے لیے بڑی ہمت چاہیے، عزم و ارادے کی مضبوطی چاہیے، تو یقینًا اپنے نفس پر قابو پانا بڑی بہادری ، قوت برداشت اور دل گردے کا کام ہے، مگر اس مبارک مہینے میں اتنی بڑی سعادت و خوش نصیبی کی بات کو، اتنی بڑی خوبی اور صفت کو آسان بنا دیا گیا ہے، کسی کی تلخ کلامی اور دشنام طرازی کے جواب میں صرف اتنا کہنا ہے کہ میں روزے سے ہوں، یہ جملہ جہاں آدمی میں قوت برداشت پیدا کرتا ہے، وہاں دوسرے کو شرمندہ بھی کر جاتا ہے۔ عدم برداشت کی کمزوری پر قابو پانے کے لیے اور ضبط نفس کی خوبی کے حصول کے لیے ہمارے پاس آپ ﷺکی تعلیمات اور آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ موجود ہے اور پھر آپ کے بعد سلف صالحین عصر کی زندگیوں کے ایمان افروز واقعات بھی موجود ہیں، آپ ﷺکی تعلیمات میں سے ایک یہ ہے: حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا
((إِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ وَهُوَ قَائِمٌ فَلْيَجْلِسُ ، فَإِنْ ذَهَبَ عَنْهُ الْغَضَبُ وَإِلَّا فَلْيَضْطَجِعْ)) (ابو داود: 4782)
’’ فرمایا، جب آدمی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، اگر غصہ ختم ہو جائے تو فبہاور نہ لیٹ جائے ۔‘‘
اور آپﷺ کے اسوۂ حسنہ میں سے ایک یہ بھی ہے ۔ حدیث میں ہے، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں:
’’كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ بُرْدٌ نَجْرَانِي غَلِيظُ الْحَاشِيَةِ))
’’میں رسول ﷺکے ساتھ چل رہا تھا ، آپ ﷺکے جسم پر ایک موٹے حاشیے کی نجرانی چادر تھی ۔‘‘
((فَأَدْرَكَهُ أَعْرَابِي فَجَبَذَهُ بِرِدَائِهِ جَبْذَةً شَدِيْدَةً))
’’ایک بدو آیا اور اس نے آپﷺ کو چادر سے پکڑ کر زور سے کھینچا۔
((حَتّٰى نَظَرْتُ إِلَى صَفْحَةِ عَائِقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَثَرَتْ بِهَا حَاشِيَةُ الْبَرْدِ مِنْ شِدَّةِ جَبْذَتِهِ))
’’ یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریمﷺ کے شانے پر زور سے کھینچنے کی وجہ سے نشان پڑ گئے ۔‘‘
((ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ مُرْ لِي مِنْ مَالِ اللهِ الَّذِي عِنْدَكَ))
’’اور کہا: اے محمد ﷺ! اللہ تعالیٰ کے مال میں سے جو آپ کے پاس ہے مجھے بھی کچھ دلواؤ۔‘‘
((فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ضَحِكَ ثُمَّ أَمَرَ لَهُ بِعَطَاء)) (بخاري:6055)
’’ آپ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا، مسکرائے اور پھر اسے کچھ دینے کا حکم فرمایا۔‘‘
یوسف علیہ السلام کے واقعے میں بھی اس کا اک نمونہ ملاحظہ کیجیے کہ یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائی کو اپنے پاس روک لینے کی جو تد بیر کی کہ اس کے سامان میں اپنا پیالہ رکھ دیا جو کہ پیمانہ تھا۔ تدبیر کے مطابق یوسف علیہ السلام کے بھائی کو جب چور قرار دیا گیا تو ان کے بھائیوں نے کہا:
﴿قَالُوْۤا اِنْ یَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ﴾ (يوسف:77)
’’کہنے لگے یہ چوری کرے تو کچھ تعجب کی بات نہیں ، اس سے پہلے اس کا بھائی بھی چوری کر چکا ہے۔‘‘
یوسف علیہ السلام کے سامنے ان پر اتنا بڑا بہتان لگا رہے ہیں، یوسف علیہ السلام چاہتے تو انہیں اس بات کی سزا بھی دے سکتے تھے مگر یوسف علیہ السلام اس بات کو پی گئے۔
﴿فَاَسَرَّهَا یُوْسُفُ فِیْ نَفْسِهٖ وَ لَمْ یُبْدِهَا لَهُمْ ۚ قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۚ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ۝﴾ (يوسف:77)
’’یوسف علیہ السلام نے اس حقیقت کو اپنے نفس ہی میں چھپالیا اور ظاہر نہ ہونے دی، پس (زیر لب ) اتنا کہہ دیا کہ تم بڑے ہی برے لوگ ہو جو الزام تم لگا رہے ہو اس کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے۔‘‘
اسی طرح تاریخ میں سے ایک واقعہ ذکر کرتا چلوں ۔
الأحنف بن قیس رحمۃ اللہ علیہ مشہور تابعی ہیں، یوں تو وہ آپﷺ کے دور مبارک میں ہی مسلمان ہوئے تھے، مگر چونکہ وہ آپﷺ کی زیارت نہ کر سکے اس لیے صحابی کے درجے کو نہ پہنچ سکے۔
البتہ آپﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی ، صبر و قتل حلم و بردباری میں مشہور تھے، اپنی قوم کے سردار تھے، ان کے ایک اشارے پر ایک لاکھ آدمی لڑنے مرنے کو تیار ہو جاتا اور یہ بھی نہ پوچھتے کہ ہوا کیا ہے؟
ایک بار اپنی مجلس کی طرف جا رہے تھے اور کوئی آدمی پیچھے پیچھے انہیں گالیاں دیتا ہوا جا رہا تھا، جب اپنی مجلس کے قریب پہنچے تو اس شخص سے کہنے لگے کہ اور کچھ کہنا ہے تو جلدی جلدی کہہ لو، اس نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیوں؟ کیا آگے میرا علاقہ شروع ہو رہا ہے اور اگر کسی نے دیکھ لیا تو تمہیں چھوڑیں گے نہیں ، وہ شرمندہ ہو کر چلا گیا۔
ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ اس قدر حلیم الطبع کیسے ہوئے؟ بردباری کہاں سے سیکھی۔
کہا: قیس ابن عاصم رضی اللہ تعالی عنہ سے۔
ایک بار وہ اپنے ڈیرے پر بیٹھے ہوئے تھے، کہ ایک شخص کو لایا گیا، ہاتھ بندھے ہوئے تھے، لانے والے نے کہا: آپ کے اس بھتیجے نے آپ کے بیٹے کو قتل کیا ہے، وہ بھتیجے سے پوچھنے لگے تم نے اپنے چچیرے کو قتل کر دیا ہے، صلہ رسی کو ٹھیس پہنچائی اور گناہ گار ہوا ہے۔ اور پھر ان سے کہا کہ چھوڑ دو، ا سے جانے دو اور اپنے بیٹے سے کہا کہ جاؤ اپنی والدہ کو دیت میں اپنی طرف سے ایک سو اونٹ دے دو ۔ (العقد الفريد ، ج:2، ص:136)
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
………………….