مسائل و تنازعات میں فیصل کون؟

﴿وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَآصَّةً ۚ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۝۲۵﴾ (انفال: 25)
ہر انسان کو زندگی میں یقینًا بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کچھ مسائل چھوٹے ہوتے ہیں، کچھ بڑے اور کچھ بہت بڑے، مگر ایک مسئلہ ایسا بھی ہے جو تمام مسائل میں سے سب سے بڑا مسئلہ ہے، یعنی اس کے سامنے تمام کے تمام مسائل کی ہیں، اور وہ کیا ہے؟ وہ ہے موت ! موت انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، کیونکہ جب موت آجاتی ہے تو اس کے دیگر سارے کے سارے مسئلے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، از خود ختم ہو جاتے ہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی، کوئی افادیت نہیں رہتی ، ان مسائل کے حل کی اسے کوئی ضرورت رہتی ہے اور نہ تمنا و خواہش رہتی ہے۔
موت کے وقت اگر کسی کی کوئی خواہش ، کوئی تمنا اور کوئی آرزو باقی رہ جاتی ہے تو وہ صرف یہ کہ:
﴿ رَبِّ ارْجِعُوْنِۙ۝ لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَكْتُ كَلَّا ؕ﴾ (المومنون:99)
’’مجرم لوگ روح قبض کیے جانے کے وقت یہ خواہش اور التجا کرتے ہیں کہ اے میرے رب مجھے اس دنیا میں واپس بھیج جسے میں چھوڑ آیا ہوں، امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا، مگر اللہ فرماتے ہیں: (کلا) ہرگز نہیں ۔‘‘
﴿اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآىِٕلُهَا ؕ وَ مِنْ وَّرَآىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ۝﴾ (المؤمنون:100)
’’ہرگز نہیں! یہ بس ایک بات ہے جو وہ کہے جا رہا ہے ، اب ان کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک ۔‘‘
یہ خواہش تو ایک کافر و مشرک کی ہوگی جبکہ دوسری طرف شہید بھی ایک خواہش کرے گا اور اس کی خواہش یہ ہوگی کہ وہ دنیا میں واپس جا کر دس بار شہید ہو ۔ (مسلم، كتاب الامارة: 1877)
تو موت انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، مگر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ جو انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے وہی اس کا سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا مسئلہ ہے۔ خیر یہ مسئلہ ہمارا آج کا اصل موضوع نہیں ہے، اصل موضوع یہ ہے کہ ہر انسان کو زندگی میں جو بے شمار مسائل پیش آتے ہیں، ہر معاملے اور ہر شعبے میں پیش آتے ہیں، تو ان کے حل اور تدارک کی بھی یقینًا انسان کو ضرورت اور فکر ہوتی ہے۔
یعنی مسائل کا پیش آنا بھی اک طبعی اور فطری عمل ہے اور ان کا حل تلاش کرنا بھی اک لازمی اور ضروری امر ہے، کیونکہ اگر مسائل کا حل نہ نکالا جائے تو انسان کا جینا مشکل ہو جائے ، ہر طرف انتشار اور افراتفری قتل و غارت اور خونریزی ہو، لڑائی جھگڑے ہوں، بے سکونی اور بدامنی ہو، سارا نظام درہم برہم ہو جائے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج ہو جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ مسائل کا حل کیسے اور کہاں تلاش کیا جائے، ثالث کون ہوگا، صحیح اور غلط کا فیصلہ کون کرے گا۔
تو آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں:
کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے لوگوں کے سامنے عموماً تین آپشنز ہوتے ہیں۔
٭…. ایک یہ کہ وہ اپنی من مانی کریں، طاقت کے زور پر مسئلے کا حل چاہیں ۔
٭…. اور دوسرے یہ کہ وہ کسی وضعی نظام کو، یعنی دنیا کے بتائے ہوئے نظام کو فالوکریں، اس کے تحت اپنے مسائل اور اپنے اختلافات کا حل تلاش کریں۔
٭….اور تیسرے یہ کہ وہ اللہ تعالی کے نازل کردہ نظام کے مطابق زندگی گزاریں اس کے مطابق اپنے مسائل اور اپنے اختلافات کے فیصلے کریں یا کروائیں۔
میں نے ان جن تین آپشنز کا ذکر کیا ہے، قرآن پاک انہیں اصولی طور پر دو ہی راستے قرار دیتا ہے۔
٭…..ایک اللہ اور اس کے رسول سی ایم کی اطاعت کا راستہ۔
٭…..اور دوسرے خواہشات کی پیروی اور اتباع کا راستہ۔
یعنی اتباع رسول کے علاوہ جتنے بھی طریقے اور جتنے بھی راستے ہیں، وہ اتباع الشہوات ہیں، خواہشات کی پیروی ہی ہیں، وہ چاہے من مانی اور قوت و طاقت کے استعمال کا راستہ ہو یا لوگوں کے خود ساختہ نظام کی پیروی کا راستہ ہو۔
اللہ فرماتے ہیں:
﴿فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَهْوَآءَهُمْ﴾ (القصص:50)
’’اور اگر یہ لوگ آپ کی باتیں نہ مانیں تو پھر سمجھ لیں کہ یہ دراصل اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں ۔‘‘
﴿وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰىهُ بِغَیْرِ هُدًی مِّنَ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۠۝﴾ (القصص:50)
’’اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ اور بھٹکا ہوا بھلا کون ہوگا جو اللہ کی رہنمائی کے بغیر اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتا ہے۔‘‘
ان دلائل کی روشنی میں ہمیں یہ تو معلوم ہو گیا کہ صحیح، سچا اور سیدھا راستہ اتباع رسول ﷺ کا راستہ ہے اور بحیثیت مسلمان ہمیں یہی راستہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اب یوں تو تمام بنی نوع انسان کو یہی حکم ہے کہ وہ اللہ تعالی کی نازل کردہ تعلیمات کےمطابق زندگی گزاریں، جیسا کہ اللہ تعالی نے آدم وحواء علیہما السلام اور ابلیس کو جنت سے اتر جانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
﴿قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا﴾ (البقرة:38)
’’ہم نے کہا تم سب یہاں سے اتر جاؤ ۔‘‘
﴿فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًی فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۳۸﴾ (البقره: 38)
’’پھر میری طرف سے جو کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی رنج اور خوف کا موقع نہ ہوگا۔‘‘
اور ہر نبی علیہ السلام نے اپنی قوم کو یہی پیغام دیا ہے کہ:
﴿ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ ؕ ﴾ (الاعراف:59)
’’اللہ کی عبادت کرو کہ اس کے سوا تمہارا کوئی الہ نہیں ہے ۔‘‘
﴿اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُ وَ اَطِیْعُوْنِۙ۝۳﴾ (نوح:3)
’’اللہ کی عبادت کرو، اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘
﴿وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۚ﴾(النحل:36)
’’ہم نے ہر امت میں سے ایک رسول بھیجا اور اس کے ذریعے سے پیغام دیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔‘‘
﴿وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْۤ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝﴾ (الانبياء:25)
’’ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی الہ نہیں ہے، پس تم میری ہی بندگی کرو۔‘‘
مگر بالخصوص مسلمانوں کو شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی اور اپنے فیصلے قرآن وحدیث کے مطابق کروانے کی سختی سے تاکید کی گئی ہے، جیسا کہ فرمایا:
﴿فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۝﴾ (النساء:65)
’’اے محمدﷺ! آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ کبھی ایمان دار نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس کے تمام اختلافات میں آپ کو حکم اور فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔ اور پھر یہیں بس نہیں۔ بلکہ پھر آپ ان کے لیے جو فیصلہ صادر فرما دیں، یہ اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی اور انقباض محسوس نہ کریں بلکہ اسے بخوشی تسلیم کر لیں ۔‘‘
آپ نے یقینًا اندازہ کر لیا ہوگا کہ ایک مسلمان کو اپنے فیصلے قرآن وسنت کے مطابق کروانے کی کسی حد تک سختی سے تاکید کی گئی ہے۔ کہ صرف فیصلہ مان لینا ہی کافی نہیں بلکہ دل کی خوشی کے ساتھ ماننا ایمان کے لیے شرط قرار دیا گیا ہے۔
اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۴﴾(المائدة:47)
’’ اور جو لوگ اللہ تعالی کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی فاسق ہیں ۔‘‘
ایک جگہ فرمایا، وہ ظالم ہیں اور ایک جگہ فرمایا، وہ کافر ہیں، اور اسی طرح مزید متعدد آیات ہیں۔
تو قرآن و حدیث سے واضح طور پر ہمیں معلوم ہو گیا کہ تمام تر مسائل اور اختلافات کا حل صرف اور صرف قرآن و حدیث میں ہے اور یہ کہ مسلمانوں پر اپنے اختلافات اور اپنے مسائل کے فیصلے قرآن وسنت کے مطابق کروانا لازم اور فرض ہے اور جو ایسا نہیں کرتے، وہ ایماندار نہیں، دو گمراہ ہیں، فاسق ہیں، وہ ظالم ہیں، وہ دین حق کے انکاری ہیں۔ علماء امت اور سلف صالحین اس مفہوم کے قائل ، اسی سوچی ، اسی طرز فکر، اسی منہج اور اس عقیدہ کے حامل تھے، چنانچہ امام مالک اللہ فرماتے ہیں،
((لَنْ يَصْلُحَ آخِرُ هٰذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا بِمَا صَلَحَ بِهِ أَوَّلُهَا فَمَا لَمْ يَكُنْ يَوْمَئِذٍ دِيْنًا لَا يَكُونُ اليَوْمَ دِيْنًا)) (الشفا بتعريف حقوق المصطفى ، ج:2، ص:88)
’’اس امت کے آخری دور کی اصلاح اسی طرز ، اس منہج اور اسی عقیدے پر ہوگی جس پر پہلے دور کے لوگوں کی اصلاح ہوئی تھی اور جو چیز اس دور میں دین نہیں تھی وہ آج بھی دین نہیں ہو سکتی ۔‘‘
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس معاملے میں ہمارا طرز عمل کیا ہے، تو حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ آپ سب جانتے اور دیکھتے ہیں کہ آج مسلمان ایسی بے راوردی کا شکار ہیں جو کہ نہایت ہی افسوسناک، باعث شرمندگی اور قابل مذمت ہے۔ آپ یقینًا دیکھتے یا سنتے ہوں گے کہ قوم کی بیٹیوں کو سر عام سٹیجوں پر نچایا جاتا ہے، وہ میلے کی شکل میں ہو یا احتجاج کی صورت میں، اور پھر دعوی کیا جاتا ہے کہ:
﴿إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ﴾ (البقرة:11)
’’کہ ہم ملک و قوم کے خیر خواہ ہیں، اصلاح احوال چاہتے ہیں۔‘‘
﴿اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لٰكِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ۝﴾ ( البقره:12)
جب کہ حقیقت یہ ہے ، یہی تو فتنہ اور فساد ہے یہی تو انتشار ہے، یہی تو بے حیائی اور بے دینی پھیلانا ہے مگر انہیں اس بات کا شعور ہی نہیں ہے۔
من حيث القوم ہم اپنے اختلافات کا حل قوت و طاقت کے ذریعے کرنا چاہتے ہیں، اور پھر ان اختلافات پر تبصرے اور رائے زنی کے لیے ہم گویوں اور اداکاروں کو بلاتے ہیں اور ان خود ساختہ دانشوروں کو بلاتے ہیں، جو دین کی ابجد جوز سے واقف نہیں ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ نہ صرف یہ کہ دین معاذ اللہ ہماری ترجیح نہیں ہے، بلکہ ہم دین سے سرتا پا بیزار ہیں۔ قرآن پاک کی ان آیات پر غور کیجئے کہ کیا یہ ہماری ہی تصویر کشی نہیں کی گئی کہ جس میں اللہ فرماتے ہیں:
﴿ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاكَمُوْۤا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ یَّكْفُرُوْا بِهٖ ؕ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا۝﴾ (النساء:60)
’’کیا آپ نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، اس کتاب پر جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو آپ سے پہلے نازل کی گئی تھیں، مگر چاہتے ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرنے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں، حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا، شیطان انہیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے ۔‘‘
﴿ وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ اِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًاۚ۝۶۱﴾ (النساء:61)
’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آؤ رسول کی طرف، تو آپ ان منافقوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ آپ کی طرف آنے سے کتراتے ہیں ۔‘‘
ایمان سے کیسے کیا یہ ہمارے ہی طرز عمل کی منظر کشی نہیں ہے، اپنے آپ کو دھو کہ مت دیجئے، اپنی اصلاح کی فکر کیجئے۔ اگر قرآن و حدیث کے یہ دلائل آپ کے دل پر اثر نہیں کرتے تو جان لیجئے کہ صورت حال بہت مخطر ناک ہے۔ دلوں کی سختی سب سے بڑی سزا ہے، جان و مال کی تباہی و بربادی سے بھی بڑی سزا ہے۔
اپنے دلوں کو ٹٹو لیے اور غور کیجئے کہ کہیں ہمارے دل ان بدنصیب اور بد قسمت دلوں کی طرح تو نہیں ہیں کہ جن میں غیر اللہ کی محبت اس طرح کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے کہ:
﴿يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللهِ)) (البقرة:165)
’’اپنے رہنماؤں، اپنے لیڈروں اور اپنے بڑوں سے اس طرح محبت کرتے ہیں، جس طرح اللہ تعالی سے کی جانے چاہیے تھی ۔‘‘
اگر اللہ نہ کرے معاملہ ایسا ہو تو پھر قیامت کے دن جہنم کے اس منظر کو بھی سامنے لائے کہ
﴿ یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَاۤ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَ اَطَعْنَا الرَّسُوْلَا۝﴾ (الاحزاب:66)
’’جس روز ان کے چیرے آگ میں الٹ پلٹ کیے جائیں گے اس وقت وہ کہیں گے کہ اے کاش ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی ۔‘‘
﴿ وَ قَالُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّاۤ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ كُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا۝﴾ (الاحزاب:67)
’’اور کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکا دیا۔‘‘
﴿ رَبَّنَاۤ اٰتِهِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَ الْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِیْرًا۠۝﴾ (الاحزاب:68)
’’اے ہمارے رب ، ان کو دہرا عذاب دے اور ان پر سخت لعنت فرما۔‘‘
آج مسلمان اپنے دین سے بہت دور ہیں۔ اس میں اگر کسی کو شک ہے تو اس کی عقل پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ دین سے اس دوری کا سبب کیا ہے؟
دین سے دوری کا کوئی صرف ایک سبب نہیں بلکہ بہت سے اسباب ہیں۔ ان میں سے ایک کہ جس کا میں آج کی گفتگو میں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ علم دین سے دوری اور علم دین کا اٹھایا جاتا ہے، اور دو قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ((لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتّٰى يُقْبَضَ الْعِلْمُ وَتَكْثرَ الزَّلازِلُ وَيَتَقَارَبَ الزَّمَانُ وَتَظْهَرَ الْفِتَنُ وَيَكْثُرَ الْهَرْجُ وَهُوَ الْقَتْلُ الْقَتْلُ)) (بخاري:1036)
’’اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی جب تک علم دین نہ اٹھا لیا جائے گا اور زلزلوں کی کثرت نہ ہو جائے اور زمانہ جلدی جلدی نہ گزرنے لگے اور فتنے نہ پھوٹ پڑیں اور ہرج کی کثرت نہ ہو جائے ، اور ہرج سے مراد قتل و خونریزی ہے ۔‘‘
اور قرب قیامت علم دین کے اٹھائے جانے کا نتیجہ گمراہی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے:
((عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَسْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ وَلٰكِن يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتّٰى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُ وسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوا فَأَقْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا))
’’اللہ تعالی علم ایسے نہیں اُٹھائے گا کہ بندوں سے چھین لے ، بلکہ علماء کو فوت کر کے علم کو اُٹھائے گا حتی کہ جب وہ کوئی عالم نہیں چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو بردار اور رہنما بنا لیں گے، پس ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے، چنانچہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۔‘‘
یعنی علم کتابوں میں تو موجود ہو گا مگر وہ علماء راسخین و مخلصین نہیں رہیں گے جو اس کی کتاب وسنت کے مطابق تشریح کر سکیں۔
چنانچہ آج اس حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ علماء حق روز بروز کم ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی جگہ کوئی پُرکرنے والا نہیں ہے ، البتہ ایسے بہت سے لوگ ضرور موجود ہیں جو بظاہر علماء نظر آتے ہیں مگر ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو کم علم ، بے عمل اور دنیا وار قسم کے ہیں، لہٰذا مسائل دین معلوم کرتے وقت اس بات کا خیال ضرور رہے کہ آپ جن سے مسائل دریافت کریں تو وہ عالم باعمل ہوں اور خالص کتاب وسنت کی روشنی میں مسئلوں کا جواب دیں ، بصورت دیگر گمراہی کے آپ خود بھی ذمہ دار ہوں گے۔ اللہ تعالی ہم سب کو گمراہی اور بے راہ روی سے محفوظ فرمائے ۔ آمین
……………