دنیا کی حقیقت، دنیا کی بے ثباتی

﴿یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِۙ۝۶ ﴾ (الانفطار:6)
اسلام ایک ایسا نظام زندگی ہے، ضابطہ حیات اور دین فطرت ہے جو انسان کو دنیا میں جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے، آخرت کی تیاری کراتا ہے، لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتا ہے۔
اسلام وہ واحد دین اور انتظام ہے جو صحیح سلامت اپنی اصلی حالت میں آج بھی محفوظ ہے، بالکل اسی طرح کہ جس طرح نازل ہوا تھا۔ اس میں قطعاً کوئی رد و بدل اور تحریف و تغیر نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالی نے خود اس کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے۔
اسلام سے پہلی شریعتوں کی حفاظت کی ذمہ داری ان کے ماننے والے علماء و فقہاء پر ہوتی تھی، جیسا کہ تو رات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ فرماتے ہیں:
﴿والرَّيْنِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتَحْفِظُوا مِنْ كِتٰبِ اللهِ﴾ (المائدة:44)
’’ اور ربانی اور احبار کہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا‘‘
مگر وہ لوگ ان میں تغییر و تبدل کرتے رہے، من مانیاں کرتے رہے۔
مگر اب اسلام اللہ تعالی کی خصوصی عنایت کے ساتھ محفوظ ہے، اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کے لیے ایسے رجال پیدا فرمائے کہ جنہوں نے اس کی حفاظت کے لیے اپنی جان، مال، عزت اور دنیا کی سہولتیں اور آسائشیں قربان کر دیں مگر اس میں کسی ایک لفظ کا رد و بدل تو در کنار کسی ایک حرف اور زیر زیر کا تغیر بھی نہ ہونے دیا۔ اسلام انسان کی اک فطری ، لازمی اور حتمی ضرورت ہے، اس کے بغیر انسان اپنی منزل پاسکتا ہے اور نہ دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کر سکتا ہے، بلکہ اس کے بغیر انسان اور جانور کی زندگی میں فرق بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اس دنیا میں انسان کو کس طرح جینا ہے اور دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری کس طرح کرتی ہے اور خود انسان کی حقیقت کیا ہے، آج کی گفتگو میں کچھ ایسے ہی سوالوں کا جواب جاننے کی کوشش کریں گے، ان شاء اللہ۔
یہ موضوع حقیقت میں بہت مشکل موضوع ہے بایں معنی کہ اسے سمجھنا بہت مشکل ہے، اور سمجھتا مشکل اس لیے نہیں کہ اس کے سمجھنے کے لیے کوئی منطق و فلسفے کی ضرورت ہے، بلکہ اس لیے مشکل ہے کہ اس کی سمجھ کی راہ میں دنیا کی کشش حائل ہے۔ اور وہ کشش ایسی نہیں کہ صرف کچھ نا سمجھ لوگوں کو اپنی طرف مائل کر لیتی ہے، بلکہ وہ کشش ایسی کشش ہے کہ اس کی طرف ہر کوئی کھچا چلا جاتا ہے، بڑا، چھوٹا ، مرد، عورت، پڑھا لکھا، ان پڑھ، دانشور، عامی ، سب کے سب اس کی کشش سے مسحور ہوئے جاتے ہیں، اس کی کشش سے بہت ہی کم لوگ بچ پاتے ہیں، ان پر اللہ تعالی کا خصوصی فضل و انعام ہوتا ہے، وہ دور اندیش اور حقیقت شناس ہوتے ہیں، دنیا کی حقیقت کو سمجھ گئے ہوتے ہیں کہ یہ عارضی فانی اور ادھوری ہے۔
تو یہ موضوع بہت مشکل ہے، اور اس لیے بھی مشکل ہے کہ جب دنیا کی بے ثباتی اور بے حیثیتی کے حوالے سے بات ہوتی ہے تو ہر شخص یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ دنیا کو سمجھتا ہے، حالانکہ وہ پوری طرح دنیا کے چنگل میں پھنسا ہوا ہوتا ہے اور وہ اپنے چال چلن اور طرز عمل میں کہیں بھی کوئی خلل اور نقص محسوس نہیں کرتا، بلکہ اس نے اپنے ہر عمل کے لیے عذر تراش رکھے ہوتے ہیں، زندگی گزارنے کا اپنا اک معیار بنا رکھا ہوتا ہے اور کچھ اپنے ہی اصول وضع کر رکھے ہوتے ہیں۔
کوئی شخص عقل و دانش، دلائل و براہین اور تجربات و مشاہدات کی روشنی میں دنیا کی حقیقت کو نہیں سمجھنا چاہتا ، صرف جذبات کی رو میں بہہ کر، امیدوں اور امنگوں کے دریچوں سے دنیا کو دیکھتا ہے تو زندگی اسے بڑی خوشنما اور پر کشش نظر آتی ہے، چنانچہ وہ ایسی زندگی کو پانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں اس میں صرف کر دیتا ہے اور تمام تر جد و جہد اور کوشش اس کے حصول کے لیے وقف کر دیتا ہے۔
زندگی کے فانی، عارضی، ادھورا، بے حیثیت اور متاع قلیل ہونے کے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ دلائل ہیں، ان میں سے بہت سے آپ نے سن اور پڑھ رکھے ہوں گے۔ ای طرح مشاہدات کے حوالے سے بھی ہم میں سے ہر شخص نے اپنی زندگی میں بے شمار لوگوں کو طبعی موت مرتے اور قتل ہوتے دیکھا اور سنا ہوگا اور یہ بھی دیکھا ہوگا کہ مرنے والا یا قتل ہونے والا اپنی ساری زندگی کی کمائی یہیں چھوڑ جاتا ہے اور پھر عقل و دانش کے لحاظ سے بھی ہم میں سے ہر شخص یہ سمجھتا اور تسلیم کرتا ہے کہ دنیا اک وقتی منفعت کا سامان ہے۔ مگر تعجب ہے کہ یہ سب کچھ جانتے بوجھنے کے باوجود آدمی نہ صرف یہ کہ وہ دنیا کے ساتھ گھل مل چکا ہے بلکہ اس میں خوب مگن ہو چکا ہے اور پھر تعجب در تعجب کہ کوئی شخص یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہے کہ وہ دنیا میں کھو گیا ہے اور اس کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے تو جب جہاں لوگوں کی یہ حالت ہو، وہاں آپ کو اس بات کا اندازہ کرنا مشکل نہ ہوگا کہ لوگوں کو دنیا کی دلدل سے نکالنا کتنا مشکل ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی یہ کسی انسان کے بس کی تو بات ہی نہیں، محض اللہ تعالی کا فضل ہی ہوتا ہے اگر کسی کو بات سمجھ میں آجائے تو ۔
تو آئیے ہم دنیا کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
یہ بات مسلم ہے کہ زندہ رہنے کے لیے متاع دنیا کے ساتھ اک حد تک تعلق اور واسطہ رکھنا ہی پڑتا ہے، اس کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں، مگر اس ضرورت کے بہانے دنیا کی بھول بھلیوں میں گم ہو جانا اور اس کی رعنائیوں میں کھو جانا یقینا نا قابل قبول ہے، کیونکہ وہ سراسر
تباہی و بربادی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان دنیا کے بارے میں یہ جاننے کے باوجود کہ یہ فانی ، عارضی اور ادھوری ہے، آخر کیوں کھچا چلا جاتا ہے؟ اس کا سبب کیا ہے؟ دنیا کی طرف سے چلے جانے کا کوئی ایک نہیں بلکہ متعدد اسباب ہیں، جن میں سے ایک تو یہ ہے کہ انسان فطری طور پر جلد حاصل ہونے والی چیز کی طرف مائل ہوتا ہے، نسبت دیر سے حاصل ہونے والی چیز کے، چاہے وہ کم تر ، عارضی ، اور نا پائیدار ہی کیوں نہ ہو۔
جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَۙ۝۲۰ وَ تَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَؕ۝﴾القيامة:20، 21)
’’ اصل بات یہ ہے کہ تم لوگ جلد حاصل ہونے والی چیز سے محبت رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔‘‘
اور فرمایا:
﴿اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَ یَذَرُوْنَ وَرَآءَهُمْ یَوْمًا ثَقِیْلًا۝۲۷﴾(الدهر:27)
’’یہ لوگ تو جلدی حاصل ہونے والی چیز (دنیا) سے محبت رکھتے ہیں اور آگےآنے والے بھاری دن کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔‘‘
تو دنیا کی طرف کھچے چلے جانے اور اس میں کھو جانے کا دوسرا بڑا سبب عقیدہ آخرت کی کمزوری ہے یعنی دنیا کی دلدل میں پھنسنے کا دوسرا بڑا سبب آخرت سے بے فکری، بے رغبتی اور بے نیازی ہے۔
دنیا میں کھو جانے والے عموماً اپنے اس طرز عمل کو عقلی دلائل کے ساتھ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن و حدیث بھی دنیا کے چاہنے والوں کو دنیا کی حقیقت سمجھنے کے لیے عقل و خرد استعمال کرنے کی ہی دعوت دیتا ہے۔
مثلا: اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ ؕ وَ لَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۳۲﴾ (الانعام:32)
’’دنیا کی زندگی تو بس ایک کھیل اور تماشا ہے، حقیقت میں آخرت ہی کا مقام ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو تقوی اختیار کرتے ہیں، پھر کیا تم لوگ عقل سے کام نہ لو گے؟‘‘
اور فرمایا:
﴿وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتُهَا ۚ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۠۝﴾ (القصص:60)
’’تم لوگوں کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ شخص دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور اس کی زینت ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس سے بہتر اور باقی تر ہے، کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ؟‘‘
اگر قرآن پاک کے ان الفاظ پر غور کریں تو دنیا کی حقیقت ان دونوں لفظوں میں بیان کر دی گئی ہے، کہ دنیا لعب اور لہو ہے۔ لعب ، کھیل کود کو کہتے ہیں اور لہو ہر اس چیز اور ہر اس بات کو جو محض دل کے بہلانے کے لیے ہو تو دنیا بس انہی دو چیزوں کا نام ہے، انسان کی زندگی کا ابتدائی حصہ یعنی لڑکپن، لعب اور کھیل کود میں گزرتا ہے اور دوسرا حصہ جو کہ انسان کی زندگی کا سب سے اہم حصہ ہوتا ہے یعنی جوانی لہو میں گزرتا ہے، دل کے بہلانے کے ساماں کی تگ و دو میں گزرتا ہے۔ بعض دوسری آیات میں اس لھو کی ، دل کے بہلانے کے ساماں کی کچھ مزید وضاحت کی گئی ہے۔
جیسا کہ فرمایا
﴿اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ ؕ﴾ (الحديد:20)
’’خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور سامان زیب و آرائش، اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال واولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرتا ہے ۔ تو زندگی کی حقیقت ان چیزوں کے سوا کچھ نہیں ہے، اور ان چیزوں کی حقیقت کیا ہے؟‘‘
آگے وہ ایک مثال کے ذریعے بیان فرمادی، فرمایا:
﴿كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًا ؕ وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ ۙ وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌ ؕ وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۝﴾ (الحديد:20)
’’اس کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک بارش ہوئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہو گئے، پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے، اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہو چکی پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے۔‘‘
اس مثال میں دنیا کی زندگی کو ایک کھیتی سے تشبیہ دے کر یہ بات ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ دنیا کی زندگی در حقیقت اک عارضی زندگی ہے، یہاں کی تمام خوشیاں عارضی ہیں، دل بہلانے کے تمام ساماں عارضی ہیں، یہ دنیا اور اس کی ہر چیز اور ہر خوشی عارضی ہے، ادھوری ہے، فانی ہے، حقیر ہے اور اک بہت ہی چھوٹی چیز ہے، انسان اپنی نادانی ، کوتاہ نظری اور کم ظرفی کی وجہ سے اسے بڑی چیز سمجھ کر اس کے حصول کے لیے اپنی ساری قوتیں اور صلاحیتیں کھپا دیتا ہے، مگر اس کی ساری کوششیں بالآخر بھس بن کر رہ جاتی ہیں۔ اور آخرت میں عذاب شدید ہے اور اللہ تعالی کی مغفرت اور خوشنودی ہے۔
یعنی اس دنیا میں رہ کر جس نہج پر کام کرنے کی ضرورت ہے وہ ہے اللہ تعالی کی مغفرت اور خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ اور اگر اللہ تعالی کی مغفرت اور خوشنودی حاصل نہ ہوئی تو پھر دوسری طرف عذاب شدید ہے۔ اعاذنا الله منه – یعنی یہ نہیں کہ اگر اللہ تعالی کی مغفرت حاصل نہ ہوئی تو برابر میں چھوٹ جائیں گے، بلکہ ان دونوں حالتوں میں سے کسی ایک سے ضرور ہم آغوش ہونا ہے، وہاں تیسرا کوئی آپشن نہیں ہے۔
﴿فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّةِ وَ فَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ۝۷﴾ (الشورى:7)
’’ ایک فریق جنت میں ہوگا اور ایک فریق جہنم میں ہوگا۔‘‘
یعنی وہاں صرف دوہی گروہ ہوں گے اور دو ہی ٹھکانے ہوں گے۔
﴿وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۝﴾ (آل عمران:185)
’’اور یہ دنیا کی زندگی تو محض اک سامان فریب کاری ہے۔‘‘
اور اس کے بعد فرمایا:
﴿سَابِقُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ ۙ﴾ (الحديد:21)
’’ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو، اللہ تعالی کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف کہ جس کی وسعت آسمان وزمین جیسی ہے۔‘‘
قرآن وحدیث میں دنیا کی بے ثباتی ، حقارت اور فریب کاری کو واضح کرنے کے لیے کئی ایک مثالیں بیان کی گئی ہیں اور دنیا کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے لوگوں کو عقل و خرد کام میں لانے اور غور وفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
دنیا کے معاملے میں ہم میں سے کتنے ہیں جنہیں نظمندی اور فہم و فراست کا دعوی ہے، تقریبا ہر شخص اپنے آپ کو بڑا عقلمند ، سمجھدار اور ہوشیار سمجھتا ہے، لیکن کیا کبھی کسی نے اللہ تعالی کی بیان کردہ ان مثالوں پر غور و فکر کرنے کی زحمت گوارا کی؟ اور اگر کی تو اس سے کیا نتیجہ اخذ کیا ؟ اور کیا بات سمجھ میں آئی ؟
یہ کیسی عقلمندی ہے کہ قرآن وحدیث کا کوئی حکم سمجھ میں نہیں آتا، کوئی مثال سمجھ میں نہیں آتی ، اپنے مشاہدات سے کچھ نہیں سیکھتے ، اس دھوکے کا شکار ہونے والوں کا انجام زندگی میں کئی بار دیکھ چکے ہیں کہ جنہیں دولت سمیٹنے سے اتنی فرصت بھی نہ تھی کہ نماز باجماعت کی پابندی ہی کر لیتے ، وہ جب دنیا سے رخصت ہوئے تو اس حال میں کہ ان کے پاس کیش تھا نہ کریڈٹ کارڈ تھا اور دوست و احباب اور اعزہ و اقارب اکیلا چھوڑ کر چلے گئے، وہ بیوی بچے کہ جن کی خوشی کے لیے نمازیں چھوڑیں ، کریڈٹ کارڈ فراڈ کیے، اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اعلان جنگ قبول کیا ، یعنی سودی کاروبار کیا، شرا ہیں بیچیں، لائو بیچی، وہ سب ایک گڑھے میں دفنا کر چلتے بنے اور اس کی ساری زندگی کی کمائی آپس میں بانٹنے لگے۔
﴿وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۝﴾ (آل عمران:185)
’’یہ دنیا سرا سر دھوکہ ہے، اک سراب ہے۔‘‘
کوئی عقلمند انسان کبھی غور نہیں کر ں کرتا کہ اس دنیا میں اس کی پچاس ساٹھ سالہ محنت کا ثمرہ اسے کیا ملتا ہے؟
حقیقت تو یہی نظر آتی ہے کہ انسان غور نہیں کرتا اور جان بوجھ کر غور نہیں کرتا چاہتا، کیونکہ اس نے خوابوں کے جو محل تعمیر کر رکھے ہوتے ہیں وہ چکنا چور ہوتے نظر آتے ہیں، وہ رونقیں جو اس نے آنکھوں میں بسا رکھی ہوتی ہیں، بے نور ہوتی نظر آتی ہیں۔ وہ لذتیں جو اس نے دل میں سجا رکھی ہوتی ہیں، بے لذت ہوتی ہوئی نظر آنے لگتی ہیں۔
عبد العزیز بن مروان رحمۃ اللہ علیہ والی مصر ، جب ان کا وقت وفات قریب آیا تو کہنے لگے:
((إِئْتُونِي بِكَفَنِي الَّذِي تَكَفَّنُونِي فِيهِ))
’’میرا وہ کفن لے کے آؤ کہ جو تم مجھے پہناؤ گے۔‘‘
((فَلَمَّا وُضِعَ بَيْنَ يَدَيْهِ وَلَّا هُمْ ظَهْرَهُ))
’’جب وہ ان کے سامنے رکھا گیا تو انھوں نے لوگوں کی طرف پیٹھ پھیر لی ۔‘‘
((فَسَمِعُوهُ وَهُوَ يَقُول))
’’تو لوگوں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا۔‘‘
((أفٍ لَكَ ، أُفٍّ لَكَ))
’’افسوس ہے تجھ پر، افسوس ہے تجھ پر ۔‘‘
((مَا أَقْصَرَ طَوِيلَكِ وَمَا أَقَلَّ كَثِيرَكِ)) (المحتضرين لابن أبي الدنيا ، ص:97 ، تاریخ دمشق ، ج:36، ص:358)
’’تیری طوالت کتنی قصیر ہے اور تیری کثرت کتنی قلیل ہے۔‘‘
یعنی پوری زندگی کی کمائی میں سے صرف ایک کفن نصیب میں آیا ہے!
حقیقت یہ ہے کہ یہ بات قابل غور و فکر ہے مگر افسوس کہ یہ فکر اور سوچ اکثر لوگوں کو اس وقت تک نہیں آتی جب تک وہ شہر خموشاں کے ان مناظر کا نظارہ نہیں کر لیتے جو کہ دنیوی زندگی کے خول میں محبوس و مقید ہوتے ہوئے نہیں کیا جا سکتا ، بلکہ اس سے آزاد ہو کر کیا جا سکتا ہے، جسے قرآن یوں بیان کرتا ہے کہ ﴿حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ۝۲﴾(التکاثر:2، یہاں تک کہ تم لب گور تک پہنچ جاتے ہو۔ اور پھر دنیا کی حقیقت اس پر یوں عیاں ہو جاتی ہے کہ جسے قرآن پاک نے اس انداز میں بیان فرمایا ہے کہ: (فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ) (ق:22) ’’اور آج تیری نگاہ خوب تیز ہے ۔‘‘
یعنی یہ وہی حقیقت ہے جو زندگی میں تجھے سمجھ نہیں آتی تھی اور تو اس سے کنی کتراتا تھا آج تجھے ہر بات خوب سمجھ آنے لگی ہے۔ بات کتنی سادہ ہے مگر دنیا کی کشش آنکھوں میں اس طرح سمائی ہوئی ہے اور دل میں اس طرح گھر کیے ہوئے ہے کہ سمجھ ہی نہیں آنے دیتی ، حالانکہ ساری کی ساری دنیا اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اک خواب سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
((لَوْ أَنَّ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى آخِرِهَا أَوْتِيَهَا رَجُلٌ وَاحِدٌ ثمَّ جَاءَهُ الْمَوْتُ))
’’اگر اول سے آخر تک ساری کی ساری دنیا کسی ایک شخص کو دے دی جائے اور پھر اسے موت آجائے ۔‘‘
((لَكَانَ بِمَنْزِلَةِ مَنْ رَأَى فِي مَنَامِهِ مَا يَسُرُّهُ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ فَإِذَا لَيْسَ فِي يَدَهِ شَيْءٌ)) (مدارج السالكين لابن القيم ، ج:3 ، ص:248)
’’ تو وہ ایک ایسے شخص کے ہم درجہ ہو گا جس نے خواب میں بہت خوش کن مناظر دیکھے ہوں ، پھر جب آنکھ کھلی تو ہاتھ میں کچھ بھی نہ تھا۔‘‘
اللہ تعالی ہم سب کو دنیا کے دھوکے سے محفوظ فرمائے ۔ آمین
…………………